شہناز پروین
’’فکشن کے فنکار، پریم چند‘‘ ڈاکٹر شکیل الرحمن کی وہ ’’تخلیقی تنقید‘‘ ہے جو آج سے اڑتالیس سال پہلے کی تحریر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق، ’’یہ کتاب ۱۹۶۰ء میں لکھی گئی تھی، مسودہ کاغذات میں کہیں گم رہا۔‘‘[1] آج پریم چند پر مضامین کا ایک ذخیرہ موجود ہے اس کے باوجود ڈاکٹر شکیل الرحمن کی اس کتاب کا مطالعہ ایک خوش گوار حیرت کا سبب بنتا ہے۔
’’اچھی تنقید کسی طرح بھی اچھی تخلیق سے کم نہیں، تنقید قدریں متعین کرتی ہے، ادب اور زندگی کو ایک نمونہ دیتی ہے۔‘‘[2]
ڈاکٹر صاحب کی یہ تنقید بھی تخلیق کے زمرے میں آتی ہے، اس کتاب میں انھوں نے شخصیت اور فن کے حوالے سے جن بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے قدروں کا تعین بھی ہوتا ہے اور ادب اور زندگی کے رشتے کو سمجھنے کا شعور بھی ملتا ہے۔
افسانوں اور ناولوں پر عمومی تبصرے کرنا نہایت آسان ہے لیکن فن اور فنکار پر گہری اور مکمل نظر رکھتے ہوئے حرف و معانی کے بحر بے کراں میں اتر کر تخلیق کے کرب کو بعینہٖ محسوس کرنا اور اسے اپنے قارئین تک منتقل کرنا ڈاکٹر شکیل الرحمن کا کمالِ فن ہے۔
’’نقاد ذوقِ سلیم کی روشنی میں قابلِ قدر،معنی خیز اور بصیرت افروز تجربات کا پتا چلاتا ہے،ان پر غور کرتا ہے اور دوسروں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔‘‘[3]
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے بھی اپنے ذوقِ سلیم کی روشنی میں پریم چند کی تخلیقات کا نہایت بصیرت افروز تجزیہ کیا ہے، ان کے فن کی باریکیوں پر غور کیا ہے، شخصیت کے حوالے سے سوزِ دروں کی بازیافت کی ہے۔ جذبے کی آنچ کو خود بھی محسوس کیا ہے اور پریم چند کے قارئین اور ناقدین کو بھی اس نہج پر غور و فکر کی دعوت دی ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کے متن کی روح کو سمجھ کر اس کے باطن میں اتر کر تخلیق کار کے سوزِ دروں اور اس کے پیش کردہ کرداروں کی جذباتی اور نفسیاتی کشمکش کو خارج میں لا کر فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی تنقید حقائق کی ترجمانی اور گرہ کشائی کرتے ہوئے کہیں بھی ذاتی خیالات اور جذبات و احساسات کو درمیان میں نہیں لاتی بلکہ کرداروں کے فطری ارتقا کے مطابق ان کی تمام صفات، خوبیوں، خامیوں، ذاتی، سماجی، معاشرتی اور انسانی کمزوریوں کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے دیکھتی ہے۔ ’’شعور اور لاشعور کی ہلچل‘‘ نئی اور پرانی قدروں کے تصادم اور اس کے نتیجے میں رومانیت کا اظہار،داخلی اور خارجی تصادم کے تناظر میں کرداروں کی کشمکش اور شکست و ریخت کو وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ ان کی تخلیق نظر آتی ہے۔ اندازِ بیان کی دلکشی سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے ماحول، ان کی شخصیت، ان کے عہد کے مسائل اور ان مسائل کے نتیجے میں ادیب کی زندگی میں رونما ہونے والے نشیب و فراز اور ان سب کے تناظر میں ان کے پیش کردہ کرداروں کی بنت کو نہایت سچائی، ایمانداری اور خلوص سے پیش کیا ہے۔ ان کی تنقید ادب پارے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے بلکہ افسانوں اور ناولوں کے موضوعات اور زندگی کے گہرے حقائق کی روشنی میں آگے بڑھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے بعض کرداروں کو ان کی شخصیت کا آئینہ قرار دیتے ہوئے ان میں ان کی ذاتی محرومیوں،ناتمام خواہشوں، حسرتِ تعمیر اور زندگی کے تلخ تجربات کے حوالے سے بھی ان کی تخلیقات کا جائزہ لیا ہے، گویا انھوں نے پریم چند کو نئے طور سے پیش کیا ہے۔
ان کی نظر میں کسی فنکار کو سمجھنے کے لیے صرف عام عقلی استدلال، منطقی استدلال، اصلاحی اور معاشی نقطہ نظر(ص۱۸۷) کافی نہیں ہے :
’’صرف اخلاقی اصولوں، مقصدیت کے عام تصور اور اصول پرستی کے عام معیار سے کسی بڑے فنکار کی شخصیت اور فن کا تجزیہ ممکن نہیں، شخصیت کی داخلی ضربِ کلیم کی پہچان تو ناممکن ہے …‘‘ (ص۱۸۷)
مزید یہ کہ:
پریم چند کی زندگی کو محض ایک صحیفۂ اخلاق تصور کرتے ہوئے ان کی بصیرت اور وژن کو حقیقت پسندی کے محدود دائرے میں رکھ دینا انصاف نہیں ہے۔ ‘ (۱۸۷)
’’سچ تو ہے کہ پریم چند کے فن کی طرح ان کی شخصیت اب بھی ایک چیلنج کی صورت سامنے ہے، ان کے مزاج اور رجحانات کا تجزیہ نہیں ہوا ہے۔‘‘ (ص۱۸۷)
تخلیق پرتنقید کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل الرحمن کی صائب رائے ان کی بصیرت اور ان کے تنقیدی شعور کا ثبوت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تنقید کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ جب وہ کسی فنکار پر قلم اٹھاتے ہیں،اس کی تمام تصانیف کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کرتے ہیں، پھر جہاں انھیں کوئی چ نگاری یا راکھ نظر آتی ہے، فنکار کے قالب میں اتر کر ایک عمر اس کے ساتھ بسر کر آتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار اس وقت کرتے ہیں جب وہ جذبات و احساسات کے شعور میں رچ بس جاتے ہیں۔ اسی کتاب میں فرماتے ہیں :
’’بڑے فنکاروں کی طرح پریم چند بھی ایک ’’موبی ڈک‘‘ تھے جو ویل کے کانٹوں کو اپنی روح میں چبھتا ہوا محسوس کرتا ہے جیسے وہ بڑی خطرناک مچھلی سمندر میں نہ ہو، اس کی شخصیت میں کروٹ لے رہی ہو…‘‘ (ص۱۸۷)
ان چند جملوں میں پریم چند کے درد اور کرب کو ڈاکٹر شکیل الرحمن نے جس امیجری اور تمثیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ براہ راست ’’دل سے نکلتا اور دل میں اتر جاتا ہے‘‘ اسی طرح انھوں نے پریم چند کی زندگی کے سب سے اہم اور اذیت رساں المیے یعنی ممتا سے محرومی کے دکھ کو جس دردمندی، کرب و بلا اور سوزِ دروں کے ساتھ پیش کیا ہے اس میں کہیں نہ کہیں ان کی اپنی ذات بھی شامل نظر آتی ہے۔ یہ درد جس طرح لمحہ لمحہ قطرہ قطرہ پریم چند کے وجودمیں اترتا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے وجود میں بھی ’’اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی‘‘ کا پتا دیتا ہے۔ یہ وہ آنسو ہیں جو خونِ دل بن کر قلم کی نوک سے ٹپکتے ہیں جن میں اتنی تندی،تیزی اور کاٹ ہے جو ’’سل کو دل‘‘ بنا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’میدانِ عمل‘‘ کو ایک کمزور ناول قرار دینے کے باوجود پریم چند کے ایک کردار ’’امرکانت‘‘ کی بنت میں پریم چند کی روح کی تشنگی کو ڈھونڈ نکالا ہے، اس ضمن میں وہ پہلے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں مثلاً:
میدانِ عمل کا ہیرو کہتا ہے :
’’زندگی کی وہ عمر جب انسان کو محبت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے بچپن ہے، اس وقت پودے کو تری مل جائے تو اس کی جڑیں ہمیشہ کے لیے مضبوط ہو جاتی ہیں۔ میری ماں کا اسی زمانہ میں انتقال ہوا اور تب سے میری روح کو اس کی غذا میسر نہ آئی۔ وہی میری بھوک میری زندگی ہے … دنیا کا سب سے بدنصیب وہ ہے جس کی ماں بچپن میں مرگئی ہو۔‘‘ (ص۹۶۔ ۱۹۵)
’’امر کانت‘‘ نے اپنی زندگی میں ماں کی مامتا کے مزے نہ اٹھائے تھے۔ قدرت نے اسے اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم کر دیا تھا…‘‘ (۱۹۵)
ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے اس دکھ کو کردار کے حوالے سے پیش کر نے کے بعد تحریر فرمایا:
’’یہ ان کی زندگی کا غیر معمولی واقعہ ہے موت نے ماں کو چھین کر پہلی بار غمِ زیست کا احساس دیا۔ پریم چند آخری عمر تک یہ واقعہ فراموش نہ کر سکے۔ کہانیوں میں ’ماں ‘ علامتوں کی صورت ملتی ہیں۔ تنہائی کا ایک منفرد احساس جاگا۔ بہت ہی عزیز شے کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ یتیمی کبھی جذبے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے اور کبھی پراسرار انداز میں جذبے کے جادو جگاتی ہے۔ کبھی انفرادیت اچانک چونک اٹھتی ہے اور بے قرار ہو کر حملے کرتی ہے۔ تباہی کے مناظر دیکھنے کی آرزو میں طوفان میں شریک ہو جاتی ہے لیکن کبھی غمِ زیست کی لذت سے آشنا کرتے ہوئے شعور و فکر کو متحرک کرتی ہے۔ یتیمی قلندری کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے اور ممکنات کی دنیا میں جوہرِ خودی کی نمود پر غور و فکر کر نے لگتی ہے …‘‘ (ص۹۶۔ ۱۹۵)
محرومی پر اس عمومی تبصرے کے بعد ’’امرکانت‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’روح کتنی پیاسی اور کس قدر بے تاب ہے۔ امرکانت کے پیکر میں اپنا تجربہ جذب کر دیا گیا ہے۔ امرکانت ایک آئینہ ہے کہ جس کے سامنے کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں تو بدنصیب ہے، تیری حیات کی نمی خشک ہو گئی ہے، توبھوکا ہے،تیری روح پیاسی ہے، اس پیاس کو تو نے زندگی بنا لیا ہے۔ شخصیت کا سوز اس پیکر کے ذریعے ظاہر ہو رہا ہے …‘‘ (ص۱۹۶)
اس قدر طویل اقتباسات پیش کر نے پر راقم الحروف معذرت خواہ ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ ممتا سے محرومی اور دکھ کی اس شدت کو وہی محسوس کر سکتا ہے جو ان درد آگیں لمحوں سے گزرا ہو۔ شخصیت کے اس رخ کو جس صناعی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے تجسیم کا روپ عطا کیا ہے اسے پڑھنے کے بعد راقم الحروف کے ذہن کی بھی ایک کھڑکی کھلی اور تازہ ہوا کے ایک جھونکے نے کہا ’ڈاکٹر صاحب نے جس انداز سے شخصیت کے آئینے میں فن کو پرکھنے کے آرٹ سے آگاہ کیا ہے، دنیائے ادب و فن کے تمام فن پاروں کو اس زاویۂ نگاہ سے نئے سرے سے دیکھنا چاہیے۔ میر تقی میرؔ کے یہاں بھی یہ سانحہ ان کی کمزوری نہیں بلکہ فن پارے میں طاقت بن کر ابھرا ہے۔ اس محرومی نے انھیں تمام عمر ناکامیوں سے کام لینے کا ہنر عطا کیا۔ یہ ادب کے علاوہ نفسیات کے حوالے سے بھی ایک اہم اور قابلِ قدر کام ہو گا۔
ڈاکٹر صاحب اپنی تنقید کے ذریعہ شعوری طور پر تو قدروں کا تعین کرتے ہیں لیکن لاشعوری طور پر بھی ان کی تخلیقی تنقید ’’ادب اور زندگی کو ایک نمونہ دیتی ہے۔‘‘[4]
ڈاکٹر شکیل الرحمن کے نزدیک پریم چند کے ناقدین نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔ بقول ان کے :
’’… ان کے فن میں اکہری حقیقت پسندی کی تعریف کی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تک صرف خارجی حقائق ہی ابھرتے رہے ہیں۔ شخصیت سیدھی لکیر نہیں ہوتی۔ یہ لکیر ٹیڑھی ہوتی ہے اور لکیر کے اندر کئی سطحیں اٹھتی محسوس ہوتی ہیں۔ تجربوں کی دنیا بہت وسیع، گہری اور تہہ دار ہوتی ہے۔ وژن اور تجربوں کا ایکس رے (X-Ray)آسان بھی نہیں ہوتا۔ تمدن یا کلچر کے علامتی عمل اور تسلسل میں قدروں کی کشمکش معمولی نہیں ہوتی۔‘‘ (ص۸۸۔ ۱۸۷)
یہ چند نہایت معنی خیز جملے پریم چند کے فن کے ساتھ ساتھ خود ڈاکٹر شکیل الرحمن کے وژن اور ان کی حقیقت پسندانہ اور جمالیاتی روح کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کی ذات کی تنہائی، ان کی ہیرو پسندی، خارجی حالات کی وجہ سے جدید عہد کے کئی سطحوں پر رشتوں کو قائم کرنے، ان کے عہد کی روایات، احساسات، جذبات، پیچیدگیوں،کشمکش اور تصادم کے ذریعے ان کے فن میں شخصیت اور طبقاتی کشمکش کو سمجھنے کی نظر عطا کی ہے۔ پریم چند کی شخصیت کے حوالے سے جتنے بھی مضامین لکھے گئے ہیں ان میں ڈاکٹر صاحب کا ’’اندازِ بیاں اور ہے‘‘ حتیٰ کہ خود شریمتی شیورانی دیوی کی کتاب ’’پریم چند گھر میں‘‘ (جس کی روشنی نے پریم چند کی زندگی اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دی ہے، جس سے پریم چند کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ) پریم چند کی بہترین سوانح عمری ہے لیکن ڈاکٹر شکیل الرحمن جس طرح ان کے المیوں کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے، کہیں ڈوب کر ابھرتے اور کہیں ابھر کر ڈوبتے ہیں، بلکہ ان کے کرداروں کے حوالوں سے شخصیت کی بازیافت کرتے ہیں اس کی مثال سوانح عمریوں اور افسانوں میں تو مل سکتی ہے۔ تنقیدی کتابوں میں ایسی نظیر کم از کم راقم الحروف کی نظر سے کم گزری ہے۔ اس کتاب میں پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کے متن کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے رومانیت، جمالیات، حقیقت، نفسیات، عورت کی نرگسیت، انانیت، بچوں کے ذہن پر ابتدائی نقوش اور ان کے نتیجے میں (شخصیت سازی) رویوں اور برتاؤ میں کمزوری یا تو انائی، انسانی کمزوریوں، خامیوں، خوبیوں، نامساعد حالات میں زندگی اور روشنی کی تڑپ، جینے مر نے کے احساس اور بہت سے نازک، لطیف اور حساس پہلوؤں کو اس فنکاری سے پیش کیا ہے کہ پریم چند کے قارئین پر کرداروں اور موضوعات کے حوالے سے ان کی ذات اور فن کے مختلف رنگوں کے ’’شیڈز‘‘ (Shades)سامنے آتے ہیں۔
ہندی اور اردو ادب کے ناقدین نے انھیں عام طور پر حقیقت نگار، دیہاتی زندگی کے نباض،ہاریوں،کسانوں اور محنت کش طبقے کے ترجمان اور سماج سیوک کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں اصلاح اور افادیت کے پہلوؤں کی تلاش کی گئی ہے۔ زندگی اور شخصیت کے حوالے سے بھی ان کی ’’سادگی،خلوص، دیانت داری اور انسانی دردمندی‘‘ کے نقوش اجاگر کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی:
’’ان کی ذات میں یہ باتیں یقیناً بڑی ہیں۔‘‘ (۱۸۷)
لیکن ان کی تحریروں میں انسانی قدروں، خارجی ماحول سے باطن کے ٹکراؤ اور اس کے نتیجے میں ذہنی اور قلبی دباؤ اور شکست و ریخت سے صرفِ نظر کر کے ان کی افادی اور اصلاحی کاوشوں کا ڈنکا اس طرح پیٹا گیا ہے کہ اصل گوشت پوست کے بنے ہوئے پریم چند کی شخصیت اور فن پس پردہ رہ گئے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن ان کے تخلیقی ادب کو صرف ’’تصویر انجمن‘‘ اور ’’جلوۂ انجمن‘‘ نہیں دیکھنا چاہے۔ ’’کاغذی پیرہن‘‘ میں ’’نقش فریادی‘‘ کو بھی دیکھنے اور دکھانے کی سعی کرتے ہیں اور یہی وہ نیا وژن ہے جو اس کتاب کے مطالعے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر پریم چند کی تخلیقات کو پھر سے پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ افسانوں میں پریم چند کی پیکر تراشی اور کرداروں کے داخلی جذبات و احساسات کو حسنِ بیاں سے اتنا دلکش بنا دیتے ہیں کہ یہ قارئین کے ادبی ذوق کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ پریم چند کی ناول نگاری پر ہے،جس میں انھوں نے نہایت اختصار کے ساتھ محض بیس صفحات میں ان کے دس ناولوں کا نہایت جامع جائزہ لیا ہے۔ پہلے باب کا آغاز وہ اس کلیے سے کرتے ہیں :
’’منشی پریم چند بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے ناول نگار نہیں۔‘‘ (ص۱۱)
اس جملے کے فوراً بعد وہ پریم چند کو بنیادی طور پر افسانے کا فنکار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ’’پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت اور اس ملک کا گاؤں ملتا ہے۔‘‘ (ص۱۱)ان میں گاؤں کی زندگی کے نشیب و فراز سے لے کر زندگی کے بہت سے دوسرے خارجی مسائل کو بھی پیش کیا گیا ہے لیکن بقول ان کے :
’’یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ فنکار پریم چند نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے کس حد تک انھیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے، اور کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے … بلاشبہ پریم چند کے افسانوں میں ناولوں سے زیادہ جذباتی اور تخیلاتی فضا ہے اور افسانوں میں خارجی قدریں فنی قدریں بن گئی ہیں۔ ناولوں کے کردار پورے طور پر اپنی نفسیات کے ساتھ نہیں ابھرتے۔ کرداروں کی تشکیل میں کمی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (۱۲)
ڈاکٹر صاحب کے خیال میں ایسے تجزیے خارجی حقیقتوں کی اہمیت بڑھا دیتے ہیں اور اکثر :
’’ناولوں کی جذباتیت، خارجی سچائیوں کا سپاٹ بیان اور کرداروں کا میکانکی عمل، مکالموں کی تقریریں اور قدروں کا شعور سب نظر انداز ہو جاتا ہے اکثر خامیوں کو خوبیاں اور خوبیوں کو خامیاں تصور کر کے نقادوں کی تقریریں شروع ہو جاتی ہیں …(ص۱۲)
اسی تناظر میں انھوں نے پریم چند کے ناولوں ’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ ، ’’جلوۂ ایثار‘‘ ، ’’بیوہ‘‘ ، ’’نرملا‘‘ ، ’’بازارِ حسن‘‘ ، ’’پردۂ مجاز‘‘ ، ’’گوشۂ عافیت‘‘ ، ’’غبن‘‘ ، ’’میدانِ عمل‘‘ ، ’’چو گانِ ہستی‘‘ اور ’’گؤدان‘‘ کا نہایت فنکارانہ مہارت کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ معائب کی نشان دہی بھی کی ہے اور ان داخلی خوبیوں کو بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو دراصل ناولوں کا جوہر ہیں مثلاً ’’جلوۂ ایثار‘‘ میں وہ ناول کی خوبی بیوہ کے المیے میں پوشیدہ دیکھتے ہیں، کرداروں کی جذباتی کشمکش کو اہمیت دی ہے۔ ان کی نظر میں ’’پریم چند کے اردو اور ہندی زبانوں کے نقادوں کو‘‘ اصلاحی نقطۂ نظر کے تجزیے سے زیادہ بیوہ کے المیہ اور کرداروں کا تجزیہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ ’’اسی المیہ اور ان ہی جذبوں میں ہندوستان کا معاشرہ ہے۔‘‘ (ص۱۳)
’’گؤدان‘‘ کے سوا تمام ناولوں میں پریم چند کی رومانیت اصلاحی مقصدیت سے دب جاتی ہے اور اس طرح فنی قدریں مجروح ہوتی ہیں گویا:
’’پریم چند جب بھی ماہر اخلاقیات بنے ہیں فکشن میں ان کا المیہ سامنے آیا ہے۔‘‘ (ص۱۶)
ان تمام ناولوں میں رومانوی فضا، جذبوں کا تصادم اور المیہ کا حسن مشترک ہے :
’’مذہب، رسم و رواج،ظلم اور جبر اور معاشرہ سب پس منظر میں ہیں اور پس منظر ہی کو سب کچھ سمجھ لینا ادبی تنقید کا کام نہیں ہے۔‘‘ (ص۱۴)
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے ان ناولوں کے پلاٹ، کردار ، موضوعات اور ذہنی اور جذباتی کشمکش اور مسائل کے بہت سے رنگوں اور پہلوؤں کو اپنی مخصوص تخلیقی تنقید کے آئینہ میں دیکھا ہے اور ناولوں کے فنی اور تعمیری نقائص کو بھی وضاحت سے بیان کیا ہے۔
’’گؤدان‘‘ کو انھوں نے پریم چند کا اچھا ناول قرار دیا ہے کیونکہ اس میں کرداروں کا فطری ارتقا بھی ہے اور ’’بدلتی ہوئی قدروں‘‘ اور ’’افراد کی نفسیات پران کی گہری نظر‘‘ بھی:
’’بلاشبہ ’ہوری‘ گؤدان کی روح ہے۔ اس کے علاوہ جو کردار ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں اور واقعات سے رشتہ رکھتے ہیں۔ ’ہوری‘ نے سماجی زندگی کا المیہ ڈراما اسٹیج کیا ہے۔ خارجی اور داخلی تصادم ہی ناول کا بنیادی حسن ہے۔ یہ رومانیت، تصادم کو تخیل اور جذبے کی آنچ دیتی ہے … بڑی بات یہ بھی ہے کہ ’’گؤدان‘‘ کے کرداروں کا فطری ارتقا ہوتا ہے۔ بدلتی ہوئی قدروں اور افراد کی نفسیات پر فنکار کی گہری نظر ہے۔ ’گؤدان‘ کے ذریعے اردو فکشن میں جو کتھارسیس، ہوئی ہے اس کی حیثیت مسلّم ہے!‘‘ (ص۳۰)
یہ اقتباس ڈاکٹر شکیل الرحمن کی تخلیقی حسیت اور تنقیدی شعور کو سمجھنے میں معاونت کرتا ہے۔ محض اٹھارہ صفحات میں گیارہ ناولوں کے پلاٹ، کردار اور کہانی کی بنت کو سمیٹ کر ایک منطقی نقطہ نظر پیش کرنا ڈاکٹر صاحب کا کمال ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کا ایک ایک لفظ نپا تلا اور متوازن،کسی ناول کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے اس پر گہری نظر نہیں ڈالی ہے۔
ناول نگاری کے بعد ڈاکٹر شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانوں پر کئی جہتوں سے روشنی ڈالی ہے۔ افسانہ،افسانے کو متحرک کر نے والا کردار ، موضوعات کا تنوع، خصوصاً عورت اور بچوں کی نفسیات، ذہنی اور جذباتی گرہیں، تکنیک،اسلوب، زبان و بیان، روزمرے اور مح اور ے، تشبیہات، استعارے اور علامتیں، پریم چند کی شخصیت غرض پریم چند کے افسانوں کی بوقلمونی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
افسانہ نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ افسانوں میں ’’تیسرے آدمی‘‘ کی شمولیت اور اس کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کو پہلے عمومی طور پر اور بعدمیں پریم چند کے افسانوں کے حوالے سے ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ تیسرا آدمی ہی تمام افسانوں، کہانیوں اور ڈراموں کی جان ہے۔ رومیوجولیٹ، جولیس سیزر، برادر کر دموزوف، مادام بوئیری، بن ہر، دی پورٹریٹ آف اے لیڈی، گؤدان، شکست، تلاشِ بہاراں اور خدا کی بستی، ٹیڑھی لکیر اور دوسرے ناولوں میں اسی تیسری شخصیت سے رنگینی پیدا ہوتی ہے۔ اندازِ بیان کی دلکشی ملاحظہ ہو:
’’تیسرا آدمی‘‘ خواجہ اہلِ فراق بھی ہے اور ’’خضرِ راہ بھی، رقیب بھی ہے اور دوست بھی۔ اس کی دوستی اور رقابت دونوں سے قصہ آدم رنگین بنتا ہے۔ کشمکش اور تصادم کے بغیر زندگی اور فن کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوتا اور اسی کے لہو کی گرمی سے یہ کشمکش بڑھتی ہے۔ ہم اسے ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے۔ اس لیے بھی کہ ہیرو کے روایتی تصور کو ابھی تک عزیز رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ فکشن کا اصل ہیرو یہی ہوتا ہے۔‘‘ (۳۴)
ڈاکٹر شکیل الرحمن نفسیاتی تصادم اور جذباتی تکمیل کے مختلف حوالوں سے پریم چند کے افسانوں کے مختلف کرداروں میں اس تیسرے آدمی کی شخصیت کو سامنے لاتے ہیں۔ ’’گھاس والی‘‘ میں چین سنگھ، ’’دو سکھیاں‘‘ میں بھون داس گپتا اور ’’حقیقت‘‘ میں امرت اور پورنما کے درمیان ایک مغرور، بدمزاج اور ادھیڑ عمر شخص یعنی پورنما کا شوہر تیسرے آدمی کے طور پر ابھرتے ہیں۔ ان تین مختلف افسانوں میں مختلف انداز میں ’’تیسرے آدمی‘‘ کا وجود ایک ذہنی اور جذباتی ہلچل کا سبب بنا ہے، ڈاکٹر صاحب اسی وجود کے ذریعے پریم چند کے افسانوں میں انسان کی جبلتوں اور نفسیات کی گہرائیوں کو ایک دردمند انسان اور ماہرِ نفسیات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ پریم چند کے دیگر افسانوں ’’نئی بیوی‘‘ ، ’’پرچھائیں‘‘ ، ’’مالکن‘‘ ، ’’ستی‘‘ ، ’’فریب‘‘ ، ’’الزام‘‘ ، ’’ترشول‘‘ ، ’’وفا کی دیوی‘‘ ، ’’سہاگ کا جنازہ‘‘ اور بہت سے دوسرے افسانوں کے حوالے سے اس ’’تیسرے آدمی‘‘ کو کہانیوں کا محرک اور فطری ارتقا کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے افسانوں میں کرداروں سے قطع نظر ’’تیسری طاقت‘‘ کو بھی نمایاں کیا ہے،ان کی نظر میں :
’’سماجی زندگی میں ایسی منظم جماعتیں موجود ہیں کہ جن کی حیثیت تیسری طاقت کی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے مذہب اور سماجی تقاضوں کا سہارا لے کر یہ جماعتیں افراد کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔‘‘ (ص۵۵)
اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے محض نام نہیں گنوائے بلکہ افسانوں کے اقتباسات کے ذریعے کرداروں کی ذہنی اور نفسیاتی کشمکش اور اس کے نتیجے میں کہانی میں پیش آنے والے مختلف واقعات کا بھرپور تجزیہ کیا ہے جسے اگر تحلیلِ نفسی کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ ’’خیال مادے کے بغیر پیدا نہیں ہوتا۔‘‘[5] یعنی یہ تمام تاثرات پریم چند کے افسانوں میں موجود ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے فنکار کے تخلیقی عمل کے ساتھ سفر ہی نہیں کیا بلکہ اس کی روح میں اتر کر فن کو اپنے طور پر بھی تلاش کیا ہے۔ اس طرح کرداروں کی جذباتی کشمکش کو داخل سے خارج میں لا کر تنقید کا حق ادا کیا ہے۔
پریم چند کے افسانوں میں عورت کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانوں سے عورت کے متنوع رنگ تلاش کیے ہیں، سچی بات تو یہ ہے کہ عورت بذاتِ خود ایک دنیا ہے۔ ہبوطِ آدم کے قصے سے لے کر آج تک ’’تصویرِ کائنات‘‘ میں اسی کی ذات سے رنگ ہے۔ وہ ایک تمدن کی بنیاد گر بھی ہے اور بنیاد شکن بھی۔ اپنی ذات سے آگاہ بھی ہے اور کبھی دانستہ یا نا دانستہ بے خبر بھی۔ ڈاکٹر صاحب نے عورت کے حوالے سے دو باب تحریر کیے ہیں، انھوں نے پریم چند کے افسانوں میں عورت کے مختلف متحرک پیکر کی نشان دہی ہے۔ عورت کی نفسیات کی باریکیوں پر نظر ڈالی ہے۔ نرگسیت، انانیت اور خود پسندی کے عناصر کے حوالے سے اس کا جائزہ لیا ہے۔ دوسری طرف پریم چند کی اصلاح پسندی کے تناظر میں ان کے بنیادی نظریات کے حوالے سے آدرش عورت کو بھی پیش کیا ہے۔ پریم چند کے افسانوں میں عورت کے جذبات و احساسات کو ڈاکٹر شکیل الرحمن نے نفسیات کی روشنی میں جانچا اور پرکھا ہے۔ افسانوں میں عورت کے حوالے سے شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہو جو ڈاکٹر صاحب سے بچا ہو۔ وہ ایک ماہر ریڈیولوجسٹ کی طرح کردار کے باطن میں اتر کر وہ تصویریں سامنے لے آتے ہیں جو عام قاری کی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ فرماتے ہیں :
پریم چند نے عورتوں کی کردار نگاری میں ذہن کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ شعور اور لاشعور کی کشمکش، مختلف خواہشات کا انوکھا اظہار اور قوتِ نفسی، نرگسیت،جبری اور اعصابی خلل،ہیجانات کا ابال اور ان کے لیے خارجی علامتوں کی تلاش، ہیرو پسندی، دوسری عورتوں کی زندگی کو نمونہ بنانے کی تمنا، نفسیاتی دباؤ، محبت، نفرت اور حسد کا اظہار، ذات کو توجہ کا مرکز بنانے کی خواہش،نرگسی چھیڑ، فکری اور عقلی الجھاؤ، احساسِ کمتری، واہمے اور خواب،
جنسی جبلت کی دل فریبی، نفسیاتی تعصب، فریب نظر (Hallucination)، تحفظِ ذات، اشاعتِ ذات(Self Propagation)، احساسِ شکست اور شکست کے بعد پہلی حالت میں لوٹنے کی آرزو، مراجعتRegression، محبوب علامتوں سے نفرت کے بعد اسے بگاڑ کر پیش کر نے کا عمل…. …. .. عورتوں کے کرداروں میں یہ سب ہیں …‘‘ (ص۸۵)
اتنے متنوع رنگوں کے بعد یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے عورت کی نفسیات کے حوالے سے جو موشگافیاں کی ہیں وہ اردو تنقید میں اس طرح پیش نہیں گئیں، نیز پریم چند کے بھولے بسرے افسانوں سے نسائی رنگ کو جس طرح نمایاں کیا ہے،اس کے بعد یہ کہنا غلط ہو گا کہ عورت ہی عورت کے جذبات و احساسات کو سمجھ سکتی ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے اس کتاب میں بچوں کے ادب کے حوالے سے بھی پہلے عمومی اور پھر پریم چند کی بچوں کی کہانیوں پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کہانیوں میں مختلف عمر کے بچوں کو مختلف ماحول، حالات اور جذباتی زندگی کے تناظر میں دیکھا ہے۔ ان کے افسانوں میں بچوں کے نفسیاتی عمل اور ردِ عمل کے بعض دلکش مرقعوں کی نشان دہی کی ہے۔ ’’ہنس‘‘ ، ’’قزاقی‘‘ ، ’’سوتیلی ماں‘‘ ، ’’بوڑھی کاکی‘‘ ، ’’حج اکبر‘‘ (مہاتیرتھ)، ’’عیدگاہ‘‘ ، ’’دودھ کی قیمت‘‘ ، ’’بڑے بھائی صاحب‘‘ ، ’’ماں کا دل‘‘ ، ’’گلی ڈنڈا‘‘ ، ’’دو بیل‘‘ ، ’’مندر‘‘ ، ’’چوری‘‘ ، ’’الزام‘‘ ، ’’ہمدردی‘‘ ، ’’اناتھ لڑکی‘‘ ، ’’ماں‘‘ اور دوسرے بہت سے افسانوں کے حوالوں سے بچوں کے ذہن کے مختلف رنگوں،ان کے ذہن پر پڑنے والے معصوم اور ان منٹ نقوش کا بچوں کی نفسیات کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن کی خوبی یہ ہے کہ وہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں یا کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کرتے جاتے ہیں مثلاً وہ پریم چند کے ایک افسانے ’’قزاقی‘‘ کا تجزیہ اس طرح کرتے ہیں :
’’اس کہانی میں بچے کی نفسیات، ذہنی الجھن، دوستی، محبت، عقیدت، صدمہ اور آرزومندی، اس کی اداسی،اس کے احساسِ المیہ، معصومانہ احتجاج اور ذہنی آسودگی اور انبساط و مسرت کو پریم چند نے انتہائی فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔‘‘ (ص۱۱۱)
وہاں چند افسانوں کے حوالے سے جن میں ’’قزاقی‘‘ بھی شامل ہے فرماتے ہیں :
’’… یہ ضرور ہے کہ بچوں کی جذباتی زندگی کے ارتقا کی بہت اچھی کہانیاں پریم چند نہیں سناتے۔‘‘ (ص۱۰۳)
یہ کتاب پریم چند کے فن اور ان کی ذات کے اتنے بہت سارے پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے کہ ان کا مختصر ترین جائزہ بھی پریم چند کے ساتھ خود ڈاکٹر شکیل الرحمن کی تکنیک اور اسلوب پر ایک کتاب کی صورت اختیار کر لے گا۔ تکنیک پر بظاہر ڈاکٹر صاحب نے مختصر لکھا ہے لیکن بھرپور اور جامع، اسلوب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ حسنِ نظر نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ مثلاً پریم چند کے ایک افسانے ’’بڑے بابو‘‘ کے اسلوب کو یوں پیش کرتے ہیں :
’’بڑے بابو‘‘ میں ایک جگہ ایک تصویر کے تیرہ ٹکڑے ہیں کہ جوڑ دیا جائے تو ایک مکمل جذباتی تصویربن جاتی ہے۔ موضوع کے تقاضے سے یہ تکنیک وجود میں آتی ہے اور اسلوب کے حسن نے اسے نقش کر دیا ہے۔‘‘ (ص۱۵۶)
پھر اس جذباتی تصویر کے تیرہ ٹکڑوں کو پیش کر کے ڈاکٹر صاحب اس کا تجزیہ یوں کرتے ہیں :
’’…اپنی زندگی کی محرومی کو ’’مشتِ خاک‘‘ ،’’تن نیم جاں‘‘ اور خانۂ تاریک‘‘ سے سمجھنے کی کوشش ہے۔ زندگی کی کیفیت اور اذیت کو ان سے واضح کیا گیا ہے۔ ’’خانۂ تاریک‘‘ کے ذکر کے بعد ’’مصری اہرام کی تعمیر‘‘ کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ رومانی اور تخیّلی ٹکڑے ہیں جن سے تاثر کی وحدت پیدا ہوتی ہے۔ بڑے بابو کو دیکھ کر جو مسرت ہوتی ہے اس سے اپنے خانۂ تاریک کو بھی روشن کر نے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ مہرِ نیم روز کی تابش، تجلّی، حرارت اور تبسمِ پُر جلال، کو دیکھ کر سوئے ہوئے ذہن میں تمناؤں کا دیوتا جیسے جاگ پڑا ہو۔ یہ تکنیک اور اسلوب کے حسن کا ایک اہم پہلو ہے۔‘‘ (ص۱۵۶)
ایک افسانے ’’حسرت‘‘ سے اقتباس پیش کر نے کے بعد ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہوتے ہیں :
’’ٹریجڈی کا یہ منفرد تیور انبساط کے انوکھے تجربے کو پیش کرتا ہے۔ اسلوب جو تجربے کے بطن سے پھوٹا ہے اس المیے اور اس کے جوہر کو سنبھالے ہوا ہے۔ پریم چند کا اپنا وژن ٹریجڈی میں ایک نئی جہت پیدا کرتا ہے …‘‘ (ص۱۶۳)
غرض ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن سے نقاد شکیل الرحمن کے منفرد وژن پر روشنی پڑتی ہے۔ کتاب کا انتساب بھی انھوں نے ستیہ جیت رے کے نام کیا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ انھوں نے ’’پریم چند کے افسانے کے فن کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ کرتے ہوئے ’’شطرنج کی بازی‘‘ کو اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ پردۂ سیمیں پر پیش کیا۔‘‘[6] یہ انتساب اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل الرحمن ناقدین پریم چند سے اس بات کے متمنی ہیں کہ اس ضمن میں تنقید کے دائرہ کار کو وسیع کر لیں۔ اب تک جو لکھا گیا وہ غلط نہیں ہے لیکن اب نازک اور حساس دل سے معمور فنکار کی ’’حکایاتِ خونچکاں‘‘ کو بھی تنقید میں پیش کرنا چاہیے۔ بلاشبہ یہ کتاب پریم چند کے قارئین اور ناقدین کے لیے مطالعہ اور تنقید کے نئے باب وا کرتی ہے۔
[1] ترتیب سے پہلے، ص نمبر درج نہیں۔
[2] آلِ احمدسرور،’’تنقید کیا ہے ؟‘‘ ص۲۰،دہلی
[3] ایضاً،’’نئے اور پرانے چراغ‘‘ ،ص۱۴
[4] آل احمد سرور،’’تنقید کیا ہے ؟،ص۲۰
[5] الطاف حسین حالی
[6] انتساب، فکشن کے فنکار: پریم چند