(Last Updated On: )
محبتوں کی سبھی رُتوں میں
عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں
اذیتیں بھی ملال بھی ہیں
شراب آنکھیں گُلال بھی ہیں
عنایتیں بھی بغاوتیں بھی
حکایتیں بھی روایتیں بھی
ہوا کے جھونکے خزاں رسیدہ
گلاب و سوسن مہک گزیدہ
محبتوں کی سبھی رُتوں میں
عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں
یہاں فتور و سُرور بھی ہے
یہاں مدبّر شعور بھی ہے
فنائے ہستی بقائے ہستی
غریب دل کی اُجاڑ بستی
وصالِ رُت کو رہی ترستی
یہ لوحِ محفوظ سے بھی پختہ
نوشتہ ہائے غم و اَلم یہ
ازل سے ایسے ہی آ رہے ہیں
محبتوں کی سبھی رُتوں میں
عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں
کہانیوں سے الگ ہیں رسمیں
کہ در حقیقت ہیں جھوٹی قسمیں
جو دل کو بھاتے ہیں پاس آ کر
وہ دل دُکھاتے ہیں یوں بالآخر
محبتوں کی سبھی رُتوں میں
عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں
٭٭٭