علی احمد فاطمی(الٰہ آباد )
روایت سازی کاپہلا قدم روایت شکنی کا ثبوت ہے۔ کوئی بھی نئی روایت پرانی روایت کو منہدم اور منقسم کیے بغیر راہ نہیں پاتی اس لیے پریم چند کی روایت سازی سے قبل سرسری طور پر سہی روایت شکنی کے ان آثار واحوال پر غور کرناہوگا جو پریم چند کے جوکھم و جرات بھرے قدم سے نموپذیر ہوئے او رپھر عمل و رد عمل کے سلسلے دراز ہوتے گئے۔
پریم چند پر مضمون لکھتے ہوئے ممتاز افسانہ نگار قاضی عبدالستار نے اچھی بات لکھی ہے:
’’اردو شیریں زبان ہے۔ ۱۸۸۰ء میں ہندوستان کے بڑے بڑے شہر اُردو کے معشوق رہے یا اردو کا مرکز کہلائے۔ دہلی ہوکہ لکھنؤ،لاہور ہو یاحیدرآباد، رام پور ہو یا عظیم آباد سب اردو بولتے ہیں لیکن ان شہروں سے دس میل اندرچلے جائیے تو اردو زبان کے بیٹے اپنی تمام روز مرہ کی ضرورت برج،اودھی یا پنجابی میں بول کر پوری کرتے ہوئے ملتے ہیں یعنی اردو مہذب اور شہری زندگی کی زبان رہی ہے۔‘‘(پریم چند کی ہجرت)
ضروری نہیں ہے کہ ان جملوں سے اتفاق کر لیا جائے لیکن اس کا آخری جملہ بہرحال صداقت پر مبنی ہے کہ اردو مہذب اور شہری زندگی کی زبان رہی ہے۔ اردو کے سیاسی سماجی پس منظر کی طرف اگر ہم سرسری نظر ڈالیں تو اتنا اندازہ بہرحال ہوجاتا ہے کہ شروع میں کچھ دنوں تک عوام سے جڑی رہنے کے بعد یہ زبان تیزی سے دہلی او رلکھنؤ کی زبان خاص ہوکر رہ گئی۔ اردوئے معلی کا لقب پاکر مخصوص، محدود شکل اختیار کرتی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست کے اس ہنگامی دور میں دہلی اور لکھنؤ کا جو حشر ہوا کم و بیش اس زبان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ زوال پذیر عہد میں دربار سے زیادہ وابستہ رہی۔ دھیرے دھیرے اس کا دامن تنگ ہوتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میرؔ اور غالبؔ کے درمیان نظیرؔاکبرآبادی جیسا شاعر جو دربار سے دور تک متعلق نہ تھا، الگ ایک خاص قسم کی عوامی شاعری کرتا رہا لیکن اس وقت اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ ممتاز ترقی پسند ناقد احتشام حسینؔ نے پتے کی بات کہی ہے کہ اردو کی اس معیار پرستی سے جہاں کچھ فائدے پہنچے ہیں اچھے خاصے نقصان بھی ہوئے ہیں۔
پریم چند نے جس وقت ہوش و حواس کی آنکھیں کھولیں اردو کا ماحول بالکل ایسا تو نہ تھا۔ سرشارؔ، شررؔ، رسواؔ، یلدرم وغیرہ کے ذریعے ماحول بن چکا تھا ان میں سیاسی او رسماجی عناصر بھی داخل ہوگئے تھے لیکن پھر بھی قدیم روایت کا گہرا رومانی کہرا ابھی تک چھایا ہوا تھا۔ دراصل پریم چند کو پریم چند بنانے میں اس وقت کے ہنگامی ماحول کے علاوہ ان کااپنا گھریلو ماحول بڑی اہمیت رکھتاہے جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔ بنارس کاکچا لمہی گاؤں اور نچلے متوسط طبقے کی چھاؤں، سوتیلی ماں کی حکومت ،چاروں طرف چھائی ہوئی غربتم کسان مزدوروں کے جسموں میں لپٹی ہوئی بیکسی و مفلسی کی دھول، ساہوکاروں، زمینداروں کی کستی ہوئی چول، کم عمری میں ذمہ داریوں کا ڈھیر سیاست او ربدلتی ہوئی ہنگامیت کا قدیم ادب سے بیر،ان سب نے مل کر پریم چند ے ذہن کو جس سانچے میں ڈھالا ہوگا اس کو احتشام حسین کے جملوں میں دیکھئے:
’’نچلے متوسط طبقے کا خاندان ان کا گہوارا تھا تحصیل علم کی وہ آسانیاں جو انسانی شعور کوخاص ڈھانچے میں ڈھالتی ہیں پریم چندکو نہ مل سکی تھیں۔ انہیں خود اپنا راستہ ڈھونڈنا،فضا کے تیور پہچاننا، مصیبتوں کا مقابلہ کرنا اور ہواؤں کا رخ سمجھناتھا۔ انہیں کشمکش حیات سے بھرے سمندر میں کودنا اور زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرناتھا․․․․․․‘‘
(پریم چند کی ترقی پسندی)
۱۸۵۷ء کا انقلاب نرم پڑ چکا تھا لیکن عوام کے اندر ایک تڑپ ایک چبھن ان کے ذہنوں کو کرید رہی تھی پھر یہ چبھن دھیرے دھیرے ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی گئی۔۱۸۷۲ء میں آنند موہنؔ سریندر ناتھ بنرجی او ریوگندر کے ذریعہ انڈین ایسوسی ایشن کی بنیاد پڑی ۔۱۸۸۵ء میں انڈین کانگریس کا اجرا، انگلینڈ میں سوامی وویکانند کا زوردار لکچر۔ گوکھلے، نوروجی، مالویہ، مہتا، راناڈے اور تلک جیسے جانبازوں کے ذریعہ آزادی کا کھلا اعلان۔ ۱۹۰۵ء میں بنگال کے د وٹکڑے۔ ۱۹۰۸ء میں مظفر پو رمیں بم دھماکہ وغیرہ یہ ساری باتیں پریم چند کے ذہن میں لاوے کی طرح پکتی رہیں اور شعور و وجدان میں جذب ہوتی رہیں اور کانپور کے ایک کونے میں بیٹھے ماسٹری کرتے ہوئے منشی جی کے قدم زندگی کے میدان میں کودنے کے لئے بیتاب ہوتے رہے۔ ایک طرف تو یہ جذباتی حالت دوسری طرف طلسم ہوش ربا جیسی داستان پھر سرشارؔ، شررؔ، رسواؔ وغیرہ کا پرشوق مطالعہ ایسے ہی ذہن نے جب پہلی بار افسانے کی طرف توجہ کی تو وطن کی محبت کی سوزش نے ایسا جکڑا کہ سوز وطن کا حادثہ ہو گیا او رپھر وہ نواب رائے سے پریم چند ہوگئے۔ ان افسانوں کے پردے میں حالانکہ وطن کے جذبے کی تیز لہر کام کر رہی ہے لیکن اس کا اوپری رنگ و روغن چونکہ پرانے رنگ و روغن سے زیادہ الگ نہ تھا اسی لئے اردو والوں نے اسے کسی حد تک قبول کر لیا لیکن بندیل کھنڈ کی تاریخی کہانیوں کی منزل سے گذرنے کے بعد پریم چند کا شعور بدلتا گیا اور وہ سستی قوم پرستی اور تاریخ نوازی سے نکل کر جب آریہ سماجی ہوئے یا کچھ اور ہوئے تب تو ان کے قلم سے بڑے گھر کی بیٹی۔ بے غرض محسن۔ آہ بیکس۔ اماوس کی رات۔ پنچایت جیسی کہانیاں نکلنے لگیں تو اردو کا وہ ماحول جہاں صرف چاندنی کی نہر بہتی تھی عارض و رخسار کی باتیں ہوتی تھیں۔ گل و بلبل کا ذکر ہوتا تھا۔ وصل کی لذت پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ ہجر کی ناگواری گریبان تارتار کرتی تھی وہاں ایک حقیقت پسند افسانہ نگار بڑی فکر رکھنے والا فنکار ان سب سے بہت دور ایک ایسی الجھی ہوئی دنیا کی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے جس سے وہ ابھی تک متعارف نہیں ہے۔ مانوس نہیں ہے۔ وہ دکھ اور سچائی سے بھری ہوئی دنیا کو اپنی عقل اور احساسات کی روشنی میں دیکھتاہے محسوس کرتاہے اور انتشار میں تنظیم، بدحالی میں حسن۔ الجھنوں میں سلجھاؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کارزار حیات میں کود کر طوفانو ں کو دیکھتا اور زندگی کے تجربوں سے اپنا ذہن اور دامن بھرلیتا ہے اور انہیں تجربوں کو بنا سنوار کر افسانوں اور ناولوں میں پیش کرتاہے۔
اردو کا وہ قاری جو ادب کو فکر کے لیے کم لذت کے لیے زیادہ پڑھتا تھا اور عشق و محبت کی نشہ آور کیفیت میں رقص کرتا رہتا تھا۔ لمحے بھر کے لیے جب اس کا نشہ ٹوٹا تو وہ چونکا، پریشان ہوا اور اس کی یہ پریشانی فطری تھی کیونکہ جہاں عرصہ سے گھنگھرو پازیب،چار جامہ اور اس سے ہٹ کر آبشار چمنستان، سروسنبل، گل و بلبل کا ذکرچل رہاہو اور شاعرانہ خمار جادو جگارہا ہو وہاں اچانک گاؤں، دیہات، چھپر، چوپال، اوسارا گوبر بھوسا، بھینس، گائے وغیرہ کا ذکر ہونے لگا۔جادو سونے لگے اور عقل جاگنے لگے تو اردو کے شریف، معصوم او ربے خبر قاری کا پریشان ہوجانا غلط نہ تھا۔ حد تو یہ ہوئی کہ ایسے قارئین کو معشوق کا بوسہ لینے والی پیشانی پر شبنم کی طرح چھلکتی ہوئی پسینے کی تمتماہٹ کی جگہ میلے گندے انسانوں کے جسموں کی چپچپاہٹ کی بو سونگھنی پڑی۔ پڑھ جائیے پریم چند سے قبل اردو کا سرمایہ ادب کیا کہیں ملتی ہے ہل بیل کی بات۔ دیہات اور قصبے کے حالات،بیکسی و بے بسی کے حادثات، بھوک وغریبی کے واقعات، ذات پات کی کڑوی بات، مولوی او رپنڈت کے کرامات او رادب میں شامل باضابطہ افکار اور نظریات؟کہیں کچھ نظر نہیں ا ٓتا۔ حالانکہ جو کچھ نظر آتا ہے اس کی اپنی ایک مضبوط روایت ہے لیکن زندگی سے تقریباً کٹی ہوئی۔ زبان ادب اور شاعری کا غم اور خوشی معشوق کے ملنے اور بچھڑنے کی خوشی اور غم تک محدود ہے ۔اس کے آگے کچھ نہیں۔ کردار ہیں شہزادوں کے، معشوقائیں پریو ں کی طرح۔۱۸۵۷ء کے حادثے نے ان چہرو ں کی اوپری چمک دمک کو اتنا ضرور دھو دیا کہ یہ چہرے آگے بڑھے مگر خوجی، آزاد ملک العزیز حسین، پھر امراؤجان اور زمرد جیسے کرداروں کی حدود سے آگے نہ بڑھ سکے۔ زندگی سے تھوڑی سی قربت ہوئی تھی کہ ایک بار پھر یلدرم، نیاز، جوش،( سلطان حیدر)، ل احمد وغیرہ نے ان کرداروں کو سجے ہوئے کپڑے پہنا کر خیالستان، نگارستان کی دنیا میں پہنچا دیا اور مجنوں کی ڈائری میں لیلیٰ کے دلنواز خطوط پائے جانے لگے۔ ان کی وجہ سے ان سب کے رویے بقول قمر رئیس کے کم عقل، جذباتی او رجاگیر دارانہ ہیں۔ تمام انسانی خوبیوں سے مالا مال یہ کردار جو جادوگر سی صلاحیت رکھتے ہیں اور قارئین ان کرداروں کی جادوئی دنیا میں ڈوب کر اپنے آپ کو حقیقت سے دور رومان کی اس سجی ہوئی دنیا میں لے جاتے ہیں کہ جہاں ان کا بھی دل چاہنے لگتا ہے کہ وہ خود بھی وہی کردار بن جائیں۔ اتنے ہی خوبصوت او ربہادر۔ رومان کی چوٹی پر پہنچ کر جب اچانک ان خوبصورت کرداروں کے بجائے پہلی بار دھنک بہاری لال، لکشمی، رام کلی، ہوری، دھنیا گھیسو مادھو جیسے معمولی کھردرے اور بدصورت کرداروں سے مڈبھیڑ ہوجائے تو الٹ پلٹ ہوجانے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا او ریہ الٹ پلٹ اور پختہ ہوتی لیکن بہ کردار دھیرے دھیرے ۔بقول سید محمد عقیل راجہ رام موہن رائے کی عقدبیوگاں تحریک کا رخ گاندھی اور مارکس سے ہوتا ہوا سورداس صوفیہ، وجے سنگھ، امرکانت،سکینہ اور منی کار وپ اختیار کرلیتاہے۔ یہ سارے کردار رومانی کردار نہ تھے بلکہ سچے اور حقیقی کردار تھے جو ہمارے درمیان سے اٹھ کر گئے تو ان کے تن پر صرف محنت و عمل کا پھٹا لباس ہی نہ تھا بلکہ بکھرے ناہموار سماج او رمعاش کی پیچیدگیوں اور گتھیوں کا مٹ میلا پن بھی جھلک رہاتھا۔ ظاہر ہے یہ ان کرداروں سے بالکل الگ تھے جن کی زبان، مزاج اور آتما کچھ بھی ہمارا نہ تھا۔ذیل کی دو مثالوں سے اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یلدرم کے اک کردار کی تصویر دیکھئے:
’’نسرین نوش ایک پرلطف تھکن سے ،ایک بے ہوش نشہ سے، آہستہ آہستہ بیدار ہوئی اس کے چاروں طرف جو پریاں ہالہ بنائے کھڑی تھیں ان پر نظر ڈالی اور اپنے لال لبوں سے برق تبسم گراکے کہا․․․․․․میری پیٹھ ملو اس پر چند خدام سیمیں حکم میں مصروف ہوئیں اور اس کے بعد چند او رپریاں جو ریشمی تولیہ،چادر وغیرہ اوڑھ رہی تھی انہو ں نے اس کے بازوؤں، سینہ او رپاؤں پونچھنا اور بالوں کو سکھانا شروع کیا۔ نسرین نوش اس شاہراہ زریں کو جو چاند نے اس تک بنا رکھی تھی دیکھنے اور باجوں ارمان کو سینے لگی۔‘‘(گلستان)
اور اب پریم چند کے اس کردار کو دیکھئے:
’’دھنیا مشین کی طرح اٹھی۔ آج جوستلی بیچی تھی اس کے بیس آنے پیسے لائی تھی، انہیں ہوری کے ٹھنڈے ہاتھ میں رکھ کر سامنے کھڑے داتا دین سے بولی۔ ’مہاراج گھر میں نہ گائے ہے نہ بچھیا۔نہ پیسہ تھے یہی پیسے ہیں یہی ان کا گؤدان ہے‘ اور غش کھاکر گر پڑی۔‘‘
پوس کی رات،نجات، بوڑھی کاکی، کفن وغیرہ کے وہ کربناک منظر جہاں ٹھٹھرتی ہوئی راتیں ہیں اور ایک پھٹا کمبل ہے۔ سڑی ہوئی ہریجن کی لاش ہے اور دورسے رسی کے ذریعہ جانوروں کی طرح گھسیٹتے ہوئے ناک پر رومال رکھے ہوئے پنڈت جی ہیں، بوڑھی کاکی کی بھوک ہے ،مذہب کی کھوکھلی روایت کے نام پر بھوج ہے، دعوت ہے۔ ایک طرف جھونپڑی میں دم توڑتی ہوئی عورت ہے تو دوسری طرف آلو کے لالچ میں انسانیت کھوتے گھیسو، اور مادھو جیسے کردار ہیں اور پھر ہوری اور دھنیا تو اس درد بھری کہانی کا کلائمکس ہیں جہاں پہنچ کر ہر قسم کا رومان چور چور ہو جاتاہے اور چور چور ہوگیا کیونکہ یہ ساری حقیقت آسمان اور زمین کے درمیان نہ تھیں اور اگرہوتیں تو پریم چند کو گزرے صدیاں گذرگئی ہوتیں لیکن پریم چند نے ہمارے اور آپ کے درمیان ہمیشہ زندہ رہنے والے کرداروں کو ادب کے فریم میں جذب کیا۔ اردو کا وہ قاری جس کا ذکر اوپر کیا جا چکاہے تمام تو لڑکھڑاہٹوں کے بعد وقت کی ضرورت اور حالات کے جبر نے اسے بھی مجبور کردیا کہ وہ خوبصورت قلوپطرہ کی جگہ عام ہندوستانی و زمینی کردار اور زرق برق کے بجائے پھٹی ہوئی دھوتی میں لپٹے ہوئے ان کردارو ں کو اپنے گلے سے لگالے۔
پریم چند کو بھی شروع سے ہی اس تبدیلی کا احساس ہوگیا تھا۔ بدلتے ہوئے اس مزاج کے بارے میں سوز وطن کے شروع میں وہ لکھتے ہیں:
’’ہر اک قوم کا علم و ادب اپنے زمانے کی سچی تصویر ہوتا ہے جو خیالات قوم کے دماغوں کو متحرک کرتے اور جذبات دلوں میں گونجتے ہیں وہ نظم و نثر کے پنوں میں ایسی صفائی سے نظر آتے ہیں جیسے آئینے میں صورت۔ ہمارے لٹریچر کا ابتدائی دور وہ تھا کہ لوگ غفلت کے نشے میں متوالے ہورہے تھے۔ دوسرا دور اسے سمجھنا چاہئے جب قوم کے نئے اور پرانے خیالات میں زندگی اور موت کی لڑائی شروع ہوئی۔ اب ہندوستان کے قومی خیال نے بلوغت کے زینے پر ایک اور قدم بڑھا لیاہے۔‘‘(دیباچہ سوز وطن)
۱۹۳۶ء کی پہلی ترقی پسند مصنفین کانفرینس میں پریم چند نے آخری تقریر میں علم اور تجربے کا نچوڑ پیش کر دیا یہ کہہ کر کہ ادب سیاست کے آگے چلنے والی مشعل ہے یا ان کا یہ مشہور و معروف جملہ یا فلسفہ کہ اب ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا۔ حسن صرف حسین عورت میں نہیں صرف رنگین ہونٹوں میں اور رخساروں میں نہیں بلکہ الجھے ہوئے بالوں، پپڑی پڑے ہونٹوں اور کمھلائے ہوئے چہروں میں بھی ہے ،غریبی اور مفلسی میں بھی ہوسکتا ہے جھونپڑی اور اوسارے میں بھی ہوسکتا ہے۔ صرف دیکھنے کے لیے نظر چاہئے اور پریم چند کی باریک نگاہ جہاں گھیسو مادھو اور ہلکو کے کرداروں میں سماج کی ستم ظریفی (Irony of Socity) دیکھ لیتی ہے وہیں وہ خوبصورت کھلونوں کے مقابلے میں خوبصورت لوہے کے چمٹے میں حسن تلاش کرلیتی ہے اس لئے کہ وہ انسان کے کام آتا ہے اور اسے جلنے سے بچاتا ہے اور لمحہ بھر میں حامد، دادی امینہ کی نظر میں فرشتہ بن جاتاہے۔ حقیقت مقصدیت اور افادیت کی یہ ایسی گتھی ہے جسے آسانی سے سمجھ پانا ممکن نہیں۔ وہ دکھی چمار کی اس لکڑی کی گانٹھ کی طرح ہے جسے چیرتے چیرتے وہ دم توڑ دیتا ہے لیکن گانٹھ چیرنہیں پاتا۔ہندوستانی سماج کی یہ پیچیدگی او ربے رحم حقیقت نگاری سے ٹکرانے کے بعد زندگی کا صحیح عرفان حاصل ہوتاہے تب پریم چند کو اپنی اصل ذمہ داریو ں کا احساس ہو ا،ور نہ اس سے قبل کون فکشن نگار یہ سمجھتا تھا کہ اس کی اصل ذمہ داریاں کیا تھیں۔ اس کے بعد کے لوگوں نے ضرور سمجھیں تبھی انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا اور پریم چند کی موت سے قبل نہ صرف ترقی پسند تحریک کی بنیاد ڈالی بلکہ اس کی صدارت پریم چند سے کروائی اور پریم چند کی یہ آخری تقریر آنے والے ادیبوں کے لیے مشعل راہ بن گئی جس کی روشنی میں انہو ں نے کئی دہائیوں کا سفر طے کیا اور منٹو، کرشن چندر، بیدی، عصمت جیسے افسانہ نگارو ں کے ذریعہ اردو فکشن چوٹی پر پہنچ گیا اور آج بھی نئی نسل کے افسانہ نگار ہزار نئی روشنی میں ڈوبے رہنے کے باوجود پریم چند کے فکر و فن کی روشنی میں اپنے آپ کو پرکھے جانچے بنا ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ایسے روایت شکن اور وایت ساز فنکار عموماً متنازعہ فیہ رہے ہیں پریم چند بھی ہوئے اور خوب ہوئے۔ عام طور پر پریم چند کو اردو افسانہ کابابا آدم مانا گیا ہے لیکن بانی و موجد بھی لیکن بعض حلقوں سے اس قسم کی بھی آوازیں بلند ہوئیں کہ پریم چند بازارو اور دیہاتی افسانہ نگار ہیں۔ اردو افسانے کو سب سے بڑانقصان پریم چند سے پہنچا ہے بھلا ہوکہ منٹو آگئے ورنہ پریم چند کی تقلید میں اردو افسانہ برباد ہوگیا ہوتا۔
اس مختصر سے مضمون میں ایسے فضول قسم کے اعتراضات کا جواب دینامقصودنہیں کہ پریم چند کے تعلق سے اس قسم کی بے سرپیر کی بحثیں بہت ہوچکی ہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ پریم چند نے حقیقت پسندی یا پیچیدہ حقیقت نگاری کا جو پودا لگایا اس کی شاخیں تو پھوٹنی ہی تھیں اس نے نت نئے پھول کھلائے۔ منٹو، بیدی، کرشن وغیرہ نے دو قدم آگے بڑھ کر مزید بے رحم اور الجھی ہوئی حقیقتوں کو واشگاف اور متحیر کردینے والے انداز میں پیش کیا تاہم ان حقائق کو پریم چند کی اساسی حقیقتوں اور منگو کوچوان، گوپی ناتھ، ممدبھائی وغیرہ بعض نسوانی کرداروں کو پریم چند کے کرداروں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ منگو کوچوان ہو یا کالو بھنگی یا عصمت کا رام اوتار، آنندی، سوگندھی، لاجونتی، گیندا یا گوری اچانک تنہائی اور علیحدگی میں جنم نہیں لے سکتے تھے۔ یہ دھنیا، لکشمی، منی کی توسیعی شکلیں ہیں یہ اسی معاشرہ کے بعد میں پیدا ہونے والے عام سے کردار ہیں جہاں کچھ عرصہ قبل گھیسو، مادھو، ہلکو اور ہوری نے جنم لیا تھا اگر دھنیا اور ہوری نے اپنا یادگار او رلازوال اثر نہ چھوڑا ہوتا تو بعد کے کرداروں کے جنم لینے میں ابھی اور وقت لگ جاتا یہ ایک حقیقت ہے۔
کچھ لوگ جو پریم چند کی اسی کورانہ تقلید میں لگ گئے وہ پھیکے پڑ گئے اور پیچھے رہ گئے، لیکن منٹو، کرشن، بیدی، عصمت وغیرہ ذہین اور طباع تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ انہیں اپنا الگ راستہ کس طرح اختیار کرناہے چنانچہ شمالی ہند کے دیہات کو چھوڑ کر پنجاب، کشمیر، بمبئی، جنس و جذبات گھر اور گھر بار کو اپنی زد میں لیا جہاں دوسرے قسم کی حقیقتیں ان کا انتظار کررہی تھیں۔ ان بڑے فنکاروں نے حقیقت و معاشرت کی ان نئی چنگاریوں سے افسانے کے ایوان کو روشن کیا جس نے آگے بڑھ کر نئی نئی صورتیں اور نئے نئے راستے اختیار کیے۔ ذرا ہمدردی اور توجہ سے غو ر کیجیے آیا آج کا افسانہ بھی پریم چند سے الگ ہوسکا ہے۔ سید محمد اشرف کے زمیندار و جاگیردار غضنفر کے دلت کردار، طارق چھتاری کے ٹھاکر، نثار راہی کے بھیما کسان۔ انجم عثمانی کے قصباتی کردا ر،ابن کنول کے داستانی کردار خالد جاوید کے گھریلو کردار آج بھی اس فضا سے نکل نہیں سکے ہیں جو افسانے کی ابتدائی دین تھے۔ اس میں قصور افسانہ نگاروں کا کم اس فضا اور معاشرہ کا زیادہ ہے جس کے باطن میں آج بھی زیادہ تر ویسی ہی گھٹن اور سڑاندھ ہے جو کل تھیں۔ البتہ تناظر ضرور بدل گیاہے آپ غزال ضیغم کی نیک پروین اور نگار عظیم کی بیوی، ترنم ریاض کی ماؤں کو دھنیا لکشمی۔ منی سکھدا وغیرہ سے کاٹ کرنہیں دیکھ سکتے اور غضنفر کے خالد کو پریم چند کے حامد سے ایک دم الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے․․․․․صرف کردار ہی نہیں فضا، اسلوب، حقیقت، واقعیت، دکھ ، درد، رگڑے جھگڑے، اونچ نیچ آج بھی اردو افسانوں میں وہی ہیں جو کل تھے۔ استحصالی قوتوں۔ اقداری صورتوں کے لباس ضرور بدل گئے ہیں لیکن ان کا تن اور آتما کم و بیش آج بھی وہی ہے۔ اور ہندوستان جیسے غریب پس ماندہ ملک میں سب کچھ اتنی آسانی سے بدلا بھی جاسکتا کہ اس بوسیدہ نظام کے شکنجے میں بہت سی روایتی حقیقتیں آج بھی اکھڑی اکھڑی سانس لے رہی ہیں۔ کل دکھی چمار کا جو دکھ پریم چند نے نجات کہانی میں چھیڑا تھا آج وہ اورمکھر ہوکر تیز دھار کے ساتھ غضنفر کے ناول دویہ بانی میں ابھر آتا ہے۔ ذرا یہ جملے دیکھئے:
’’میں نے دیکھا کہ بالوکی ماں کاشریر بھی میلا ہے اس کا گھر آنگن بھی میلا ہے۔ اس کے بچے بھی میلے ہیں۔ اس کے وِپریت ہمارا سب کچھ صاف ستھرا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو لوگ ہمارے گھر کی صفائی کرتے ہیں وہ اپنے گھر کو گندا کیوں رکھتے ہیں؟‘‘
یا یہ سوالات:
’’بالو کی موری گندی اور ہماری صاف کیوں ہے؟ بالو کی ماں ایسی کیوں ہے؟ اس کی ساری اتنی میلی کیوں ہے؟ چمٹولی میں اتنی گندگی کیوں ہے؟‘‘
پریم چند نے تو پھر بھی بعض باتوں اور حقیقتوں کو بین السطور میں پیش کیا لیکن غضنفر کایہ راست انداز کل کے سوال کو آج کچھ زیادہ بے رحم اور برہنہ کرتا ہے اس لئے کہ یہ سوالات ہی کچھ زیادہ دلآزار اور دھاردار ہوگئے ہیں۔ آج تخلیق کی دنیا بدل چکی ہے تنقید کے پیمانے بھی بدل گئے۔ کچھ لوگوں کی نظروں میں پریم چند قدیم اور فرسودہ ہوچکے ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ سچ بھی ہو لیکن یہ بھی سمجھتے چلنا چاہئے کہ حقیقتوں کے انیک روپ ہوتے ہیں اور کوئی بھی حقیقت خلاء میں جنم نہیں لیتی روایت در روایت ان کی کڑیا ں بہرحال ایک دوسرے سے کسی نہ کسی روپ میں سلسلہ رکھتی ہیں۔ حقیقتوں اور فکر وفن کی عظمتوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ ہردور میں اپنے آپ کو ظاہر کرے اور چھپائے بھی رکھے اور ہر دور اپنے تقاضوں کے تحت تلاش بھی کرے۔ پریم چند کی حقیقتوں اور عظمتوں کا راز بھی اسی عمل میں پوشیدہ ہے۔ ہندی کے ممتاز اور اہم افسانہ نگار راجندر یادو نے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیاہے:
’’پریم چند یقینی طورپر ہمارے بہت قریب ہیں کیونکہ جب ہم کہانی کی بات کرتے ہیں تب ان کی بہت سی کہانیاں آج کے نقطہ نظر سے لکھی گئی لگتی ہیں کچھ تو پریم چند کی کہانیوں میں وہی عناصر ہیں جو آج کے امکانات کے ساتھ ہیں کچھ ہم نے روایت کی اہمیت بنائے رکھنے کے لئے آج انہیں کھوج نکالاہے۔ پریم چند سے ہم نے اثر لیا ہے یہ کہنے کے بجائے میں یہ کہنا پسند کروں گا کہ پریم چند نے ہمیں ترقی یافتہ سنسکار دئیے ہیں۔ یہ سنسکا ربڑے انجانے اور لاشعور ی طورپر نئی صورت حال میں ڈھلتے جاتے ہیں․․․․میرے خیال میں پریم چند ہمارے لئے ایک سرپرست کی طرح ہیں جن کی موجودگی ہمیں، سب خیریت ہے، کی تسلی دیتی رہتی ہے۔‘‘
پریم چند کے متعلق اردو کے کسی افسانہ نگار نے باقاعدہ اعتراف و اظہار شاید ہی کیا ہو، انہیں دوسرے کی عظمت کے اعتراف کرنے میں شرم سی آتی ہے لیکن لاشعوری طورپر تخلیقی اظہار میں اعتراف بہرحال پوشیدہ ہے اوریہ ایک فطری عمل ہے۔ پریم چند کے سامنے جو مسائل تھے اس کے پیش نظر ان کا مقصد عام و خاص قارئین سے سیدھے خطاب کرنا تھا لیکن بعد کا افسانہ نگار اس طرح کہہ نہیں سکتا تھا۔ آج کا افسانہ نگار دوسروں سے زیادہ خود کو سمجھنے اور سمجھانے اور سماج و معاشرہ سے اپنے رشتے تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ پریم چند دوسروں سے مخاطب تھے او رہم خود کو محسوس کرکے اپنوں سے یا اپنے جیسوں سے ہی کہتے ہیں یقین رکھتے ہیں، ایسا یونہی تو نہیں ہوااس کے پس منظر میں تاریخ کا دباؤ۔ تیکنولوجی اور معاشیات کاجبرہے جس کے خلاف پریم چند تھے وہ تو بچے رہے(اسی لئے ان کابیرو ہوری گاؤں میں دم توڑ دیتا ہے دلچسپ بات ہے کہ اس کی موت گاؤں سے شہر جاتی ہوئی سڑک بنانے میں ہوتی ہے) لیکن ہم اس سے بچ نہ پائے․․․․․تاہم کفن، پوس کی رات، نجات، عیدگاہ، جیسی کہانیوں میں وہ بہت کچھ کھل جاتے ہیں اور کہانیاں تہہ دار اور معنی خیز ہوجاتی ہیں۔ پریم چند کی یہی تہہ داری، معنی خیزی انہیں دور تک لے جاتی ہے اور بعد کی کہانیوں سے رشتے استوار کرتی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر منٹو چلے اور آج کے افسانہ نگار بھی چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال راستہ کوئی بھی ہو یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اردو، ہندی بلکہ مکمل ہندوستانی افسانوی ادب کا کوئی راستہ جو کھیت باغ، چوپال، مندر، مسجد سے گذرے گا،اسے ہر موڑ، چوراہے، لیک اورسارے پر پریم چند کھڑے نظر آئیں گے اس لئے کہ پریم چند نے نہایت سادگی اور بالیدگی کے ساتھ معاشرہ کے جن جن حصوں کو چھوا ہے ان کو پڑھنا اور سمجھنا دراصل ہندوستان کے مکمل سماج اور طبقہ کاپڑھنا اور سمجھناہے اگر ان کے کورے آدرش اور رومان کو ان کے افسانوں سے خارج کردیا جائے اور جہاں جہاں انہوں نے نتیجہ، آدرش کو پس منظر میں ڈال کر صرف حقیقت اور فن کے تال میل کو سجایا،سنوارا اور فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے وہ بے مثال ہے صرف اتنا ہی نہیں انہو ں نے زندگی کے عام اور سادہ مظاہر کو اپنا وسیلۂ فن بنایا انہوں نے گردوپیش کے جانے بوجھے کرداروں روز مرہ کے سماجی مسائل اور ذہنی کشمکشوں کو اپنا موضوع بناکر حقیقت نگاری کی بنیاد ہی نہیں ڈالی بلکہ اس بھرم کو بھی توڑاکہ کہانی کو ادبی مرتبہ حاصل کرنے کے لئے تخیل یا اسلوب کی کسی بوالعجبی کی ضرورت ہے۔
پریم چند کی اسی حقیقت پسندی کی راہ بعد کے افسانوں نے اپنائی اور رنگارنگ جلوۂ حقیقت پیش کئے لیکن اس کی بنیادمیں پریم چند ہی کام کررہے ہیں۔ پریم چند کو نظر انداز کرنا یا ان کے کاموں کی نفی کرنا اپنی پوری وراثت، ارضیت، تہذیب و ثقافت کی نفی کرنا ہے۔ آج اردو افسانہ کی عمارت جس شہرت و بلندی پر کھڑی ہے اس کی بنیاد میں اسی منشی، ماسٹر، عام انسان اور کائستھ کا خونِ جگر لت پت ہے۔ جس نے رومان اور آدرش کے حوالوں سے حقیقی اردو افسانے کی حقیقت کی بنیاد رکھی۔ روایتیں توڑی تھیں اور نئی روایتوں کو جنم بھی دیا تھا۔
کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ ہم آج بھی پریم چند سے الگ نہیں ہوئے ہیں بعد کے اور آج کے افسانہ نگار ہزار اپنے آپ کو الگ اور بلند و بالا سمجھیں اور یہ سچ بھی ہے کہ یہ پریم چند سے مختلف اور آگے بھی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کا قد اسی طرح بلند ہوا ہے جس طرح ایک بچہ اپنے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر اپنے آپ کو اپنے باپ سے بڑا سمجھنے لگتاہے۔ پریم چند کی روایت سازی کو کچھ اسی طرح سمجھا جاسکتاہے۔
***********
اردو رسم الخط میں گاندھی جی کا ایک خط
شاہ حسین پھلواری کی وفات پر گاندھی جی نے ان کے صاحبزادے شاہ سلیمان چشتی کو اردو میں تعزیتی خط لکھاتھا۔خط کا متن حسبِ ذیل ہے:
’’ گھوسی،گیا ۲۷مارچ ۔۴۷ء
بھائی محمد سلمان صاحب
آپ کا کارڈ ملا۔حسین میاں کے انتقال کی خبر سن کر اچھا نہیں لگا۔
میں آپ کو کیا تسلی دے سکتا ہوں۔خدا آپ کو صبر دے۔
آپکا م۔ک۔گاندھی
(بحوالہ ماہنامہ اخبارِاردو اسلام آباد۔شمارہ نومبر ۲۰۰۴ء ص۔۱۱)