“بیوی کو کیا اپنے ساتھ لے کر گیا ہے اسی کا ہو کر رہ گیا ہے پورے بیس دن گزر چکے ہیں اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھے ہوئے”
کشمالا کمرے میں آکر فیروز جتوئی کو دیکھتی ہوئی بولی
“فون پر بات تو ہو جاتی ہے بتا رہا تھا اپنی مصروفیت کا۔۔۔ ویسے بھی پہلے کونسا وہ ہفتے بعد چکر لگاتا تھا، آ جائے گا تم اپنا وزن مت گھٹاؤ بیٹے کی یاد میں”
فیروز جتوئی کشمالا کو دیکھ کر لاپروا انداز میں بولا
“بیٹے کی یاد میں نہیں،، اس کی فکر میں وزن گھٹ رہا ہے میرا۔۔۔ وہ تو میری باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا سائیں،، آپ ہی ضیغم کو راضی کرو کہ وہ پلورشہ کی چھوٹی نند سے شادی کرلے،، پلورشہ کے سسرال والوں کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے ضیغم کی پہلی شادی پر،، میں ضیغم کے بچے اپنی گود میں کھلانا چاہتی ہوں”
کشمالا فیروز جتوئی کا اچھا موڈ دیکھ کر لجاہت بھرے انداز میں بولی
“مالا اگر تم نے کوئی سنجیدہ بات کی ہوتی تو تمہارا بیٹا سنجیدہ بھی لیتا تمہاری بات کو،، تمہیں اگر پوتے پوتیوں کی چاہ ہے تو وہ تمہیں روشانے بھی دے سکتی ہے اس کے لئے دوسری شادی ضروری نہیں ہے”
فیروز جتوئی کشمالا کی عقل پر ماتم کرتا ہوا اُسے سمجھانے لگا
“شمروز کے خون کے بدلے میں آئی ہے وہ لڑکی اور میں اس کو اپنی بہو نہیں مانتی نہ ہی اُس سے پیدا ہوئے بچوں کی مجھے چاہ،، پلورشہ کی نند سے اگر شادی نہیں کرنی ضیغم کو، تو بھی میں اس کی دوسری شادی اپنی مرضی سے ہی کرواؤں گی۔۔۔ یہ بات آپ بھی میری سن لو اور ضیغم کو بھی میرا حکم ماننا پڑے گا میں ماں ہو اس کی”
کشمالا فیروز جتوئی کو بولتی ہوئی دوبارہ کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ فیروز جتوئی کشمالا کی بات کو سنجیدہ لیے بغیر اپنا موبائل دیکھنے لگا
****
“یار روشی میری بلو شرٹ نہیں مل رہی، زرا جلدی سے کمرے میں آکر دو مجھے”
روشانے صبح کے وقت کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی تبھی ضیغم کچن میں جھانکتا ہوا اس سے بولا
“سائیں آپ کی بلو شرٹ پریس کر کے الماری میں کل ہی رکھی تھی میں نے، آپ ذرا ایک دفعہ پھر دیکھیں”
روشانے ناشتہ تیار کرتی ہوئی مصروف انداز میں بولی کیونکہ روز کی طرح ضیغم کے ساتھ اُسے بھی کالج کے لیے نکلنا تھا۔۔۔ اور آج وہ دونوں ہی لیٹ ہو چکے تھے، صرف اور صرف صبح ہی صبح ضیغم کے رومینٹک موڈ میں آنے سے
ان بیس دنوں میں روشانے نے پورے گھر کی سیٹنگ اپنی مرضی سے کی تھی وہ باقاعدگی سے کالج جانے لگی تھی۔ ۔۔۔ ضیغم اس کی ہر بات آسانی سے مان جاتا بلکہ وہ اپنے کاموں میں اب وہ روشانے پر ہی مکمل انحصار کرتا
“نہیں مل رہی ناں یار مجھے، تم نکال کر دو مجھے میری شرٹ، ویسے بھی آج تم نے اچھا خاصا لیٹ کروا دیا”
ضیغم بغیر شرٹ کے شرارتی انداز میں روشانے کو دیکھ کر بولا جو ابھی ابھی باتھ لے کر نکلا تھا۔۔ روشانے حیرت سے اسے دیکھتی ہوئی ضیغم کے پاس آئی
“میں نے لیٹ کروایا ہے آپ کو سائیں۔۔۔ کس نے کہا تھا آپ صبح جاگنے کے ساتھ ہی”
روشانے جو اپنے اوپر لگے الزام پر اس کے پاس آئی تھی مگر اپنی بات ادھوری چھوڑ کر خود ہی بلش کر گئی جس پر ضیغم ہنسا
“صبح ہی صبح تم نے مجھے اپنے ان خوبصورت زلفوں کے جال میں بری طرح پھنسا کر رکھ دیا۔۔۔ اب اتنے قریب میرے ساتھ بالکل چپک کر سو گی تو پھر ایسے ہی حادثات ہوگے”
ضیغم اُس کے گلے میں موجود چین جو کہ پچھلے ہفتے ہی اس نے روشانے کو گفٹ کی تھی اپنی انگلی میں اٹکا کر اس کی گردن پر جھکتا ہوا بولا
“آپ آفس کے لیے اور میں کالج کے لیے، ہم دونوں پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں”
روشانے ضیغم کو پیچھے کرتی ہوئی اپنے گیلے بالوں کا جوڑھا باندھ کر بیڈ روم میں پہنچی تاکہ ضیغم کو اُس کی شرٹ نکال کر دے سکے
“ویسے سائیں رمشا مامی مجھے بہت اچھی لگی،، بالکل یہ احساس نہیں ہوا کہ میں اُن سے پہلی بار مل رہی ہو۔۔۔ ہمیں ان کو بھی اپنے گھر بلانا چاہیے”
ضیغم کی مطلوبہ شرٹ اس کو دیتی ہوئی روشانے ضیغم کو دیکھ کر بولی۔۔ وہ دونوں کل رات کو رمشا کی طرف ڈنر پر موجود تھے
“نیکسٹ ویک اینڈ پر بلا لیں گے، یار ناشتہ لاؤ ہم لوگ واقعی لیٹ ہو چکے ہیں”
ضیغم شرٹ پہنتا ہوں روشانے کو بولا جو کہ دوسرے کاموں میں لگ گئی تھی
“اوہو آپ کا موبائل چارجر سے نکال کر رکھ رہی ہو”
وہ موبائل کو والٹ اور کیز اور سیفریٹ کے پیکٹ کے ساتھ رکھتی ہوئی بولی،،
ضیغم کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں کا وہ ایسے ہی خیال رکھتی تھی
“دوسرے کمرے سے میری بلیک کلر کی فائل بھی لے فائل لے آؤ یار وہ بھی آفس لے کر جانی ہے”
ضیغم کمرے سے جاتی ہوئی روشانے کو دیکھ کر بولا
“بلکہ رہنے دو میں خود لے لو گا تم ناشتہ ریڈی کرو”
ضیغم کو یاد آیا کہ روشانے اُس روم کی کھڑکی کُھلی دیکھ کر پھر ضیغم کو ٹوکے گی، اس لئے اپنی فائل لینے سے خود کمرے میں چلا گیا جبکہ روشانے کچن سے ناشتہ لا کر ٹیبل پر رکھنے لگی
ضیغم نے کمرے میں آکر سب سے پہلے کمرے میں موجود کھڑکی کو بند کیا اور مطلوبہ فائل اٹھانے لگا تبھی روشانے کے رکھے ہوئے نوٹس فرش پر گر گئے، جنھیں ضیغم جُھک کر اٹھانے لگا مگر اُن نوٹس میں روشانے کے نام کے ساتھ تیمور خان کا نام دیکھ کر اُس کے ماتھے پر لاتعداد شکن پڑی
تیمور خان اور روشانے کا نام صرف ایک صفحے پر ہی نہیں لکھا تھا بلکہ مختلف صفحات پر لکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر ضیغم کو غصّہ آنے لگا۔،۔۔ وہ شخص اس کے چاچو کا قاتل تھا اور اس شخص کا نام ضیغم اپنے گھر میں برداشت کر سکتا تھا، اپنی بیوی کے نام کے ساتھ اس کا نام دیکھ کر ضیغم کا خون کھول اٹھا
“آپ یہاں کھڑے ہیں ناشتہ کب کا ریڈی ہے”
روشانے کمرے میں آتی ہوئی ہے ضیغم سے بولی
“کیا ہے یہ”
ضیغم روشانے کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا، غُصے میں نوٹس روشانے پر اچھالتا ہوا بولا وہ نوٹس روشانے کے منہ پر لگ کر نیچے فرش پر بکھر گئے مگر روشانے نوٹس کی بجائے حیرت سے ضیغم کو دیکھ رہی تھی جو اُسے ایسے غُصے میں دیکھ رہا تھا جیسے روشانے کو مار ڈالے گا
“سائیں کوئی کچھ بھی کرلے مگر آپ میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار مت کریں پلیز”
روشانے ضیغم کو غصّے میں دیکھ کر آئستگی سے بولی، ضیغم کا یہ رویہ روشانے کے لیے بالکل نیا تھا جو روشانے کو حیرت میں مبتلا کر گیا تھا
“اور تم میرے ساتھ کچھ بھی کرو، میں خاموشی سے برداشت کرلو،، اتنا بےغیرت سمجھا ہوا ہے مجھے”
ضیغم سختی سے روشانے کا بازو پکڑتا ہوا غُصے میں روشانے سے بولا
“کیا کیا ہے میں نے”
روشانے اپنے بازو پر اُس کی انگلیوں کی سختی محسوس کرتی ضیغم سے پوچھنے لگی اس سے پہلے وہ فرش پر بکھرے اپنے نوٹس دیکھتی ضیغم اُس کا بازو کھینچ کر خود اُسے نیچے بٹھا چکا تھا
“کیا سوچ کر تم نے اپنے نام کے ساتھ یہ نام لکھا ہے جس سے نفرت ہے مجھے”
ضیغم خود بھی فرش پر پنجوں تلے بیٹھتا ہوا ایک پیپر اٹھا کر روشانے کے چہرے کے آگے لہراتا ہوا چیخا
“یہ۔۔۔ یہ تو”
روشانے نے پیپر دیکھ کر ضیغم کو دیکھا جو ماتھے پر لاتعداد شکنیں لیے اُسی کو دیکھ رہا تھا
ضیغم اپنا غُصہ مشکل سے ضبط کرتا ہوا اٹھا اور کمرے سے باہر جانے لگا
“سائیں۔۔۔ سائیں پلیز میری بات سن لیں۔۔۔ آپ کو بتاتی ہوں یہ نام میں نے”
وہ ضیغم کے پیچھے کمرے سے نکل کر اس کا بازو پکڑتی ہوئی بولی۔۔۔ ضیغم نے جھٹک کر روشانے کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹایا
“مجھے صرف ہاں یا نہیں میں جواب دو روشی، یہ نام تمہی نے لکھا ہے یا نہیں”
اس نے غُصے میں روشانے سے تصدیق چاہی
“ہمارے نکاح سے پہلے کے جب خان میرے کمرے میں آئے تھے”
روشانے ضیغم کو غُصے میں دیکھ کر جلدی جلدی بولنا شروع ہوگئی
“ہاں یا نہیں”
ضیغم اُس کی بات کاٹ کر زور سے چیخا
“جی،، میں نے لکھا ہے مگر آپ میری پوری بات سنیں”
روشانے کے جی بولتے ہی وہ بیڈروم میں آ کر اپنی گاڑی کی چابی اور دوسری چیزیں اٹھانے لگا تب روشانے اس کے سامنے آئی
“سائیں آپ اِس طرح کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ، میری پوری بات تو سن لیں”
وہ غُصے میں روشانے کی کوئی بھی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔ ۔ روشانے اس کے سامنے آکر بے بسی میں بولی
“اب میرے راستے میں مت آنا ہٹو یہاں سے”
ضیغم اس کا بازو پکڑ کر اسے سائیڈ پر کرتا ہوا بولا اور خود فلیٹ سے باہر نکل گیا
****
20 دن پہلے کبریٰ خاتون کے کہنے پر تیمور خان نے ژالے سے نکاح کے لیے حامی بھری تھی اور یوں ان دونوں کا نکاح ہو چکا تھا۔۔۔ تیمور خان اچھی طرح جانتا تھا ژالے اس سے نکاح پر راضی نہیں تھی یہ نکاح اُس نے کبریٰ خاتون کے حکم پر کیا تھا
تب سے ہی سردار اسماعیل خان اور زرین اس سے بات چیت کرنا ترک کر چکے تھے۔۔۔ ژالے اور اس کا جب بھی سامنا ہوتا وہ اُسے غصے یا حقارت بھری نظر سے دیکھ کر گزر جاتی اور تیمور خان پیچ و تاب کھا کر رہ جاتا
اتنے دنوں سے ژالے اسے جس برے طریقے سے نظر انداز کر رہی تھی تیمور خان اتنا ہی اُس کے بارے میں سوچنے لگا تھا یہاں تک کہ وہ اس کے آنے جانے پر بھی نظر رکھنے لگا تھا
وہ روز صبح ڈرائیور کے ساتھ نہ جانے کہاں جاتی تھی اور شام ہونے سے پہلے ڈرائیور اُسے واپس حویلی لے آتا۔۔۔ اِس سے پہلے تیمور خان نے کبھی اُس کی ذات پر دھیان ہی نہیں دیا تھا مگر اب وہ روز اُسے شام کے وقت اپنے کمرے کی کھڑکی سے حویلی میں واپس آتا دیکھتا۔۔۔ اس وقت بھی وہ گاڑی سے اُتر کر حویلی کے اندر آ رہی تھی تب تیمور خان اپنے کمرے سے باہر نکلا
“کہاں سے آ رہی ہو اس وقت”
وہ رہداری عبور کرتی ہوئی حویلی کے اندر آ رہی تھی تب تیمور خان نے ژالے کا راستہ روکتے ہوئے اُس سے پوچھا
“تم سے مطلب، راستہ چھوڑو میرا خان”
ژالے اُسے ٹکا سا جواب دیتی ہوئی سائیڈ سے نکلنے لگی مگر تیمور خان دوبارہ اُس کے راستے کی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا
“تمہارے اب سارے مطلب مجھ سے جڑ چکے ہیں۔۔۔۔ مطلب بھی اور راستے بھی۔۔۔ کہاں سے واپس آتی ہوں روزانہ اِس ٹائم پر اور یہ دوپٹہ سر پر کیوں نہیں لیا ہوا”
تیمور خان اُس سے تفتیشی انداز میں پوچھ گچھ کرتا ہوا، اس کا دوپٹہ تھام کر سر پر ڈالنے لگاتا ژالے نے اُس کا ہاتھ بری طرح جھٹکا اور گھور کر دیکھنے لگی
“جو سر سے دوپٹہ کھینچنے کی کوشش کریں اُن کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتی خان،، نہ تم سے میرا کوئی مطلب جڑا ہے نہ ہی ہمارے راستے ایک ہو سکتے ہیں۔۔۔ دادی حضُور کے حکم پر نکاح کیا ہے میں نے،، انہوں نے صرف مجھے تم سے نکاح کرنے کا حکم دیا تھا اس نکاح کو آگے قائم رکھنا نہ رکھنا یہ میرے اوپر ہے۔۔۔اس لئے میں کہیں پر بھی آؤں یا پھر جاؤ،، کسی سے ملو یا کچھ بھی کرو۔۔۔ تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہیے”
ژالے تیمور خان کے آگے بے خوفی سے بولی ایک بار پھر وہ دوسری سائیڈ سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی اب کی بار تیمور خان نے اُس کی کلائی پکڑی لی
“اگر سر سے دوپٹہ کھینچنے کی کوشش کی تھی تو واپس سر پر دوپٹہ ڈال بھی دیا ہے۔۔۔ دے دی ناں نکاح کر کے عزت۔۔۔ تمہارا اور میرا نکاح آگے قائم رہتا ہے یا پھر نہیں یہ بات کی بات ہے۔۔۔ فی الحال اُس وقت تم میرے نکاح میں ہوں اس لئے مجھے جواب دیے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتی۔۔۔ بتاؤ کیو نکلنا ہوتا ہے تمہیں روز روز حویلی سے”
اپنی کلائی چھڑوانے کے چکر میں تیمور خان اس کی کلائی پر اپنے ہاتھ کی گرفت مزید سخت کر چکا تھا وہ اب بھی ژالے کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس سے سوال کر رہا تھا، ژالے جان چکی تھی وہ اب ضد پر آچکا ہے پوچھ کر ہی اسکو چین آئے گا
“لعنت بھیجتی ہو میں تمہاری دی ہوئی عزت پر، عزت کے لٹیرے نہ کبھی عزت دے سکتے ہیں اور نہ ہی خود عزت کے مستحق ہوتے ہیں۔۔۔ روز روز حویلی سے میں اِس لئے نکلتی ہوں تاکہ مجھے سارا دن تمہاری شکل نہ دیکھنی پڑے،، جسے دیکھ کر میرا خون کھول اٹھتا ہے مل گیا جواب،، اب راستہ چھوڑ دو میرا”
ژالے کی بات سن کر اس کی سخت گرفت میں نرمی آئی جس کا فائدہ اٹھاتی ہوئی ژالے اپنا ہاتھ چھڑوا کر جانے لگی
“چند دن پہلے تو تمہیں اس شکل سے بہت محبت تھی، ایسا تمہی نے دعویٰ کیا تھا میرے سامنے”
تیمور خان کی بات سن کر ژالے قدم رکے وہ پلٹ کر زخمی نظروں سے تیمور خان کو دیکھنے لگی
“میرے دل سے تمہاری محبت اسی دن ختم ہو گئی تھی خان، جس دن تم نے رات کی سیاہی میں میرے منہ پر کالک تھوپنے کی کوشش کی تھی اور یہ جو اب میرے اور تمہارے بیچ میں رشتہ قائم ہوا ہے ناں صرف تین بولوں کا محتاج ہے بہت جلدی یہ نازک رشتہ بھی ختم ہو جائے گا”
ژالے تیمور خان کو دیکھتی ہوئی بولی اور پھر دوبارہ وہاں سے جانے لگی
“تم دو بار میرے اور اپنے رشتے کو ختم کرنے کی بات کر چکی ہو تو جاتے جاتے ایک بات سنتی جاؤ۔۔۔ تیمور خان کی ملکیت میں جو بھی چیز ایک بار شامل ہو جائے،، پھر تیمور خان اُسے کسی دوسرے کے لئے نہیں چھوڑتا۔۔۔ یہ بات اب اپنے دماغ میں اچھی طرح بٹھا کر رکھنا”
تیمور خان کا انداز خاصا جتانے والا تھا جس پر ژالے اس کو طنزیہ مسکرا کر دیکھنے لگی
“اپنی ملکیت تو تم روشانے کو بھی سمجھتے تھے ناں خان، پھر کیا ہوا”
ژالے اس کو پتنگے لگا کر جا چکی تھی جبکہ تیمور خان اپنا غُصہ ضبط کرنے لگا
“اگر وہ میری ملکیت نہیں رہی تو اُس پر میں کسی دوسرے کا بھی حق نہیں رہنے دوں گا”
تیمور خان خود اپنے آپ سے بولا تو سامنے سے نوشاد چلتا ہوا آیا
“چھوٹے خان آپ نے یاد کیا”
نوشاد تیمور خان کے سامنے آکر اُس سے پوچھنے لگا
“معلوم کر کے بتاؤ یہ ژالے بی بی روز کہاں جاتی ہیں” تیمور خان نوشاد سے بولا
“وہ تو اپنی خالہ کے گھر جاتی ہیں بڑے خان کی اجازت پر۔۔۔ خالہ بیمار ہیں ان کی کافی اور ان کی خالہ کا بیٹا یعنی خرم،، اس کی بیوی روٹھ کر اپنے ایک سالہ بیٹے کو خرم کے پاس چھوڑ کر میکے چلی گئی ہے۔۔۔ یہ بھی وجہ ہے ژالے بی بی کے وہاں جانے کی۔۔۔ یہ سب مجھے راشد (ڈرائیور) سے معلوم ہوا ہے”
نوشاد تفصیل سے تیمور خان کو بتانے لگا
تیمور خان ژالے کے کزن خرم کو جانتا تھا جو زیادہ بڑا نہیں تھا ژالے کا ہی ہم عمر تھا اور دو سال پہلے ہی اس کی ماں نے اُس کی شادی کروائی تھی
“اور وہ جو اصل کام میں نے تم سے کہا تھا۔۔۔ اس کا کیا بنا”
تیمور خان یاد کرتا ہوا اپنے دوسرے کام کا نوشاد سے پوچھنے لگا
“روشانے بی بی ضیغم جتوئی کے ساتھ شہر میں موجود ہیں، پرانا والا گھر نہیں بلکہ کوئی فلیٹ ہے۔۔۔ ابھی آدھے گھنٹے پہلے میں نے آپ کو میسج پر ایڈریس اور چند تفصیلات بتائی تھی شاید آپ نے میسج دیکھا نہیں ابھی تک میرا”
تیمور خان نوشاد کی بات سن کر جیب میں اپنا موبائل کے ٹٹولتا ہوا نکالنے لگا جس پر ضیغم جتوئی کے فلیٹ کا ایڈریس تھا
“گاڑی تیار کرو نوشاد آج رات ہی ہمیں شہر کے لئے روانہ ہونا ہے”
تیمور خان موبائل اسکرین پر ضیغم کا ایڈریس دیکھتے ہوئے نوشاد سے بولا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...