بلیک زیرو مسکرانے لگا اور عمران پیکٹ میں سے چیونگم کا ایک پیس نکال کر منہ میں رکھ چکا تھا اور اسے کچلتے ہوے آپستہ آہستہ سر ہلا رہا تھا
جولیا سارے مبرز کو اکھٹا کر کے ١٠ بجے دانش منزل کے میٹنگ روم میں بیٹھی ہوی تھی ممبروں میں تنویر خاور نعمانی خاور اور صفدر تھے عمران کوی نام و نشان نہیں تھا
شکر ہے اس بار عمران نہیں ہے وہ ہوتا تو سر ہی کھا لیتا
تنویر بڑبڑایا
تمہیں اس کے بارے میں ایسا کہنے کا کوی حق نہیں
جولیا بولی تنویر نے ایسے دانت کچکچاۓ جیسے عمران سامنے ہوتا تو اسے کچا ہی چبا جاتا صفدر ان دونوں کی نوک جھوک سے لطف اندوز ہو رہا تھا
کچھ معلوم ہے مس جولیا کہ کیا مشن ہے اس دفعہ
دفعتاً صفدر نے زبان کھولی
میرے حیال سے میں کچھ جانتا ہوں
تنویر مسکرایا جولیا سمیت سارے چونک پڑے
کیا مطلب
پھر تنویر انکو ساری بات بتای کے کیسے اسنے دو دن پہلے عمران کی نگرانی کی پھر اسنے ایک گاڑی کا تعاقب بھی کیا
ہمم اسکا مطلب اس بار کوی گہرا چکر ہے
جولیا نے سرد آہ بھری دل ہی دل میں وہ سوچ رہی تھی کہ ابھی تک یہ شیطان کیوں نہیں آیا
اچانک دروزے کی طرف سے آواز آی
بندہ ملکہ پولیا اور اس کے بھای منویر کے سامنے آنے کی اجازت چاہتا ہے
بھلا عمران کے سوا اور کون ہو سکتا تھا
اندر آتے ہو یا اٹھ کے خود آوں لینے
جولیا جنجھلای
عمران بوکھلاے ہوے انداز میں اندر داخل ہوا چہرے پر ازلی حماقت چھای ہوی تھی
اے یہ تم نے میرا اور مس جولیا کا نام کیوں الٹ لیا
تنویر پھٹ پڑا
مس جولیا نہیں بلکہ جولیا بہنا کہو پیارے
عمران نے کرسی پر بیٹھتے ہوے تنویر پر جملہ کسا
خاموش ہو جاو عمران ورنہ مار بیٹھوں گیں
جولیا نے تیز نظروں سے عمران کو غورا
چچ چچ کیا زمانہ آگیا ہے جواں سال بھای کے ہوتے ہوے تم مجھے مارتی اچھی لگو گی لا حولا ولا قوہ ارے یہ بھای کس مرض کی دعا ہے
عمران نے تنویر کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا پھر ایسے سر ہلانے لگا جیسے بہت افسوس ہوا ہو اب معاملہ تنویر کے بس سے باہر ہو چکا تھا وہ اپنی کرسی سے اٹھا ہی تھا کہ ٹیبل پر پڑے ٹرانسمیٹر میں سے ایکسٹو کی آواز ابھرنے لگی
ہیلو جولیا
یس سر
کیا تمام ممبر موجود ہیں
یس سر
غور سے سنو یہ معاملہ سر سلطان کے ایک دوست کے بیٹے موت سے شروع ہوا تھا جس کی موت پوسٹمارٹم کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ویژن کی زیادہ مقدار کھانے کی وجہ سے ہوی تھی پولیس اپنے طور پر ایک ہفتہ تک تنقیش کرتی رہی مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اسکو کس نے اتنی بڑی مقدار وائٹ ویژن کی مہیا کی ان دنوں سر سلطان غیر ملکی دورے پر ملک سے باہر تھے جب وہ واپس آے ےو انہیں اس ادونہاک واقعے کی خبر ہوی وہ اظہار تعزیت کرنے کے لیے اپنے دوست کے گھر پہنچ گۓ باتوں باتوں میں انکو ساری باتیں پتا چلیں انہوں نے سوچا کہ اس گروہ کا سدباب ہونا چاہیے اس کے لے انہوں نے عمران سے رابطہ کیا
ایکسٹو سانس لینے کے لیے رکا سارے ہمہ تن گوش تھے جبکہ عمران عمران کرسی پر پڑا خراٹے لے رہا تھا ایسٹو گویا ہوا
عمران نے اس کیس پر کام کرنے کی حامی بھر لی پھر اسکو دوران تنقیش اس نوجوان جس کا نام افتخار تھا اسکے ایک دوست پر شک ہوا عمران نے مجھ سے رابطہ کیا اور ساری بات مجھے بات بتای میری نظروں سے بھی آج کل ایسی بہت سی خبریں گزر رہیں تھیں اور میری حیال سے یہ دشمنان ملک کی ایک سازش ہے کہ وہ ہمارے ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کو ایسے غلیظ شوق کی طرف لگا کر انکی زندگیاں تباہ کر رہیں ہیں قصہ محتصر میں نے عمران کو اس کیس پر کام کرنے کی اجازت دے دی پھر اسکے بعد میں نے اسکی نگرانی پر جولیا کو لگا دیا
پھر ایکسٹو ان کو ساری تفصیل بتاتا چلا گیا آخر کار وہ بولا
آج میں نے آپ کو اس لیے اکٹھا کیا ہے آج اس فقیر کے بیان کے مطابق ان لوگوں کی میٹنگ ہوتی ہے اور وہ ایک مخصوص جگہ پر اکھٹے ہوتے ہیں اب آپ نے اس جگہ جا کر ان بیس کے بیس کارکونوں کو یا تو اغوا کرنا ہے یا ضروت پرنے پر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا کیوں کہ یہ اس ملک کے ناسور ہیں یہ وہ سانپ ہیں سج تھیلی سے کھاتے ہیں اسی تھیلی میں سوراخ کرتے ہیں ہاں انکے باس کو زندہ پکرنا ہے دھیان رہے کہ وہ نکل نہ پاے جس جکہ وہ سب اکھٹے ہوتے ہیں وہ جگہ عمران کے علم میں ہے اب کسی ممبر کے ذہن میں کوی بات ہو تو پوچھ لے
ایکسٹو حاموش ہو گیا کمرے میں سناٹا چھا گیا مگر اس سناٹے کو عمران کے خراٹے چیر رہے تھے دفعتاً تنویر بولا
سر عمران اس جگہ کا معلوم ہے مگر عمران تو سو رہا ہے سر
تنویر نے عمران کو پھسانا چاہا تاکہ ایکسٹو عمران کو ڈانٹے
جولیا نے تنویر کو کھا جانے والی نظروں سے غورا
جس وقت اسکا جاگنا ضروری ہوتا ہے اس وقت وہ تم سے بھی زیادہ جاگ رہا ہوتا اور تم سے زیادہ ہوشیاری سے کام کرتا ہے تمہیں تو اس کا علم بھی نہیں ہوتا کہ تمہاری گاڑی کا کوی تعاقب تو نہیں کر رہا آیندہ احتیاط کرنا اور اینڈ آل
ایکسٹو کی آواز میں گہرا طنز تھا تنویر شرمندہ سا ہوگیا ایکسٹو اس بات پر اس پر چوٹ کی تھی کہ جب جب کل رات وہ فقیر کی گاڑی کا تعاقب کر رہا تھا تو اسے اس کا علم نہیں ہو سکا تھا کہ عمران بھی اسکا تعاقب کر رہا ہے
ہاں دے دیں تمہارے چوہے نے ہدایات
عمران نے آنکھیں کھول ایک جماہی لی
پھر تنویر کی طرف ایک طنزیہ نظر ڈالی اور بولا
جی جناب کہیں کیا حال ہے سنا ہے کہ چوہے نے آپ کی عزت افزای کی ہے
اس سے پہلے کے تنویر کچھ بولتا جولیا بول پڑی
عمران ایک گھینٹہ رہ گیا ہے میٹنگ شروع ہونے میں چلو چلیں
ہاں تم سب باہر رکو میں اس فقیر کو لے کر آیا اور ہاں باہر تین گاڑیاں کھڑی ہیں جن کی ڈکی میں ہر قسم کا اسلحہ موجود ہے تم ان میں جا کہ بیٹھو میں آتا ہوں
عمران لہجہ سنجیدہ تھا
سب کرسیوں سے اٹھے اور باہر نکل گۓ عمران ہاتھ جیب کی طرف گیا پھر تھوری دیر بعد وہ بھی چیونگم کو کچلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا
تین گاڑیاں سڑک پر رواں دواں تھیں درمیان والی گاڑی کو فقیر ڈرایو کر رہا تھا اس سے آگے والی گاڑی میں عمران اور خاور تھے جبکہ پچھلی گاڑی میں تنویر جولیا نعمانی اور چوہان تھے تینوں گاڑیاں تیز رفتاری کا مظاہرہ کر رہیں تھیں عمران نے فقیر کو سمجھا دیا تھا کہ اسنے بلکل نارمل انداز میں وہاں جاکہ بیٹھ جانا باقی ہم خود سنبھال لیں گیں کیوں کہ فقیر کے پاس عمران کی بات ماننے کے سوا کوی چارہ نہیں تھا اس لیے اسکو عمران کی کی بات ماننی ہی پڑی تھوری دیر بعد تینوں گاڑیاں رک گایں یہاں پر کثر ت تعداد درختوں کی تھی یہی وہ جگہ تھی جہاں پہلی بار فقیر اپنے دوست کے ساتھ میٹنگ میں آیا تھا فقیر گاڑی سے اترا اس کے منہ پر پریشانی کے آثار تھے اتنی دیر میں سارے نیچے اتر چکے تھے اچانک عمران نے سر گوشی کی
جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں سارے باراتی آگۓ ہیں بس ان باراتیوں کو گھیر لو میں ذرا دولہے کو قابو کروں گا چلو تم جاو
عمران نے آخری جملہ فقیر کو کہا اسنے اثبات میں سر ہلایا اور درختوں کے جھنڈ میں گھس گیا عمران او اسکے ساتھی بھی بے آواز قدم اٹھاتے ہوے اسکے پیچھے درختوں میں داخل ہو گۓ تھورا سا چلنے کے بعد یکدم درخت ختم ہو گۓ اب وہ ایک میدان کے اندر کھڑے تھے اور انکو خیمہ نظر آرہا تھا جوکہ کافی بڑا تھاعمران سمیت ساروں نے درختاں کے پیچھے پوزیشن لے لی فقیر نے عمران کی طرف دیکھا عمران نے اثبات میں سر ہلا دیا فقیر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اندر داخل ہو گیا جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا عمران نے اپنے ہیڈ فون کا بٹن پریس کیا اس کے اندر سے آوازیں آنے لگیں دراصل عمران نے فقیر کو بغیر بتاۓ اسکے کالر کے اوپر ایک چھوٹا سا ڈکٹا فون لگا دیا تھا جو کہ آوازیں سسنے کا آلہ تھا چونکہ ڈکٹا عمران کے کانوں پڑ جمے ہوے ہیڈ فون کے ساتھ کنیکٹ تھا اس لیے عمران اب خیمہ میں ہونے والی ساری باتیں سن رہا تھا
پہلی آواز
خیرت ہے ابھی تک باس نہیں آے پچھلی بار تو وہ بلکل وقت پر پہنچے ہوے تھے
عمران چونک پڑا وہ سمجھ رہا تھا باس اندر ہے مگر ابھی تک باس آیا ہی نہیں تھا اچانک عمرام کو محسوس ایسا محسوس ہو جیسے زلزلہ آ رہا ہو دفعتاً زمیں ہلی اور ایک زور دار دھماکہ ہوا جیسے ہی دھماکہ ہوا عمران کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا وہ مکمل طور پر بیہوش ہو چکا تھا
رات کے تین بجے کا وقت تھا وہ بے چینی سے بستر پر کروٹ لے رہی تھی
کیا میں اسکو اپنی حقیقت بتا دوں
اسبے سوچا پھر اسنے سر جھٹکا
نہیں نہیں میں اسکو اپنی اصلیت نہیں بتا سکتی اگر میں نے اسکو اپنی اصلیت بتا دی تو مجھ سے پھر کبھی نہ ملے گا ا
اسکا نام ماریہ تھا وہ مصر سے تعلق رکھتی تھی ١٨ سال کی عمر میں وہاں ایک حادثہ میں اغوا ہو گئ تھی وہ ایک امیر کبیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی پھر وہ ان لوگوں کے ہاتھ چڑھ گئ جو کہ لڑکیوں کی خریدوفروخت کرتے تھے پھر ایک دن ایسا آیا کہ کے اسکا بھی ایک آدمی کے ساتھ سودا ہونے لگا پھر اسکو ہاتھ منہ باندہ کر ایک گاڑی میں بیٹھا دیا گیا تھا پھر اسکے بعد اسکو سفر کے بیچ سمندر کا شور بھی سنای دیا تھا جس کا مطلب تھا وہ سمندر میں سفر کر رہیں پھر آخر کار طویل سفر کے بعد اسے گاڑی سے اتارہ گیا تھا اب وہ ایک بڑی سی کوٹھی میں تھی آہستہ آہستہ اس پے سارے راز کھلنے لگے اسکو خریدنے والا عیاش طبعہ آدمی تھا اسکو آدمی کہنا ویسے بھی کسی طرح مناسب نہیں تھی اسکی عمر چھبیس سے زیادہ نہ تھی جو کہ عیاش طبعہ ہونے کے ساتھ ایک سیکڑٹ ایجنٹ بھی تھا جو کہ مختلف ممالک سے معاوضہ لے کر دوسرے ممالک کے خلاف کام کرتا تھا اب ماریہ کو اپنے آپ کی حفاظت کرنی پھر ایک رات اسے قدرت نے موقع فراہم کیا ہوا یوں نوجوان جس کا نام مارکو تھا نشے میں دھت گھر آیا اسکے چہرے سے لگ رہا تھا اس نے کافی پیگ چڑا لیے ہیں پھر وہ بیڈ پر گڑتے مست ہو کر نیند کی وادیوں میں کھو گیا ماریہ نے اسکو ساتا دیکھ کر بھاگ جانے کی کوشش کی مگر کوٹھی کے دروزے پر دو مسلح حبشی پیڑھا دے رہے تھے یہاں سے مایوس ہونے کے بعد اسنے مارکو کے کمرے کی برپور تلاشی لی دوران تلاشی اسکو کچھ ایسے کاغذات ملے جس میں مارکو کچھ ایسے راز تھے جو کہ اگر پولیس کے ہاتھ لگ جاتے تو مارکو کو بجلی والی کرسی سے کوی نہیں بچا سکتا تھا ماریہ نے اس کاغذات کو سنبھال کر رکھ لیا ایک دو دنوں بعد مارکو نے اس سے پوچھا کے تم نے میرے کچھ کاغذات دیکھے ہیں تو ماریہ معنی خیز انداز میں مسکرای پھر اس نے مارکو کو دھمکایا کہ وہ کاغذات اس کے پاس ہی ہیں مارکو نے جب یہ بات سنی تو وہ آگ بگھولا ہو گیا مگر وہ اب ماریہ کو کچھ نہیں کہ سکتا تھا پھر اسنے ماریہ کو لالچ دی کہ وہ کاغذات اسکے حوالے کر دے تو وہ ماریہ کو اسکے مل پہنچا دے گا مگر ماریہ جانتی تھی کہ جب تک یہ کاغذات اس کے پاس ہیں تب تک اسکی ذندگی ہے ویسے بھی اب وہ واپس جاتی تو اسکے خاندان کا نام ہی بدنام ہوتا جو کہ ماریہ تصور میں بھی نہیں چاہتی تھی پھر ماریہ نے مارکو کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا کہ ماریہ اور مارکو اکھٹے رہیں گیں جس جس ملک مارکو مشن پے جاے گا تو ماریہ کو بھی اپنے ساتھ لے جاے گا اور رات کو ماریہ الگ اور مارکو الگ سویں گیں مارکو نے یہ معاہدہ قبول کر لیا اب اس بات کو ایک دال ہونے کو تھا وہ اس دوران کئ مشنز میں مارکو کے ہمراہ جا چکی تھی مگر آج کل وہ ایک مشن مکمل کرنے ایک اسلامی ملک آی ہوی تھی مارکو تو پورا دن اپنے مشن کے کاموں میں مصروف رہتا جبکہ اسکے برعکس ماریہ ہوٹل کے کمرے میں بیھٹی بور ہوتی رہتی ایک دو دفعہ مارکو اسکو ایک جزیرے پر بھی لے گیا تھا جو کے مارکو کے بقول اسکا ہیڈ کواٹر تھا ماریہ کو یہاں کا تہزیباور رواج بہت پسند آیا یہاں کی عورتیں مکمل ڈھک شک کے گھروں سے باہر نکلتی تھیں ماریہ یہ بات بہت اچھی لگی تھی کوں کہ اس سے پہلے وہ جس ملک میں بھی گئ وہاں عورتیں ایسے لباس پہنتی کہ المان الحفیظ
دو دن پہلے جب کہ وہ ہوٹل کے حال میں بیٹھی کھانا کھا رہی تھی اسکی ایک نظر ایک نوجوان پر پڑی جوکہ بہت خوبصورت تھا اور عمدہ قسم کے تھری پیس سوٹ نے اسکی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے کھانا کھا کر وہ اٹھی اور اسکے ٹیبل پر پہنچ گی پہلے تو نوجوان جھجھکایا مگر آہستہ آہستہ وہ ماریہ کے ساتھ فرینک ہوتا چلا گیا ماریہ کے استفسار پر معلوم ہوا کہ اسکا نا ماہل ہے اور اسکے ابو کی کی ایک بہت بڑی کپروں کی مل ہے پھر وہ شام تک بیٹھے باتیں کرتے وہے ماریہ ساری رات اس کے بارے میں سوچتی رہی رات کو مارکو بھی آیا جو کہ بہت غصہ میں تھا ماریہ نے کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا پھر اگلے دن بھی وہ ماہل کے ساتھ باتیں کرتی رہی ماہل اصرار کر رہا تھا کہ وہ کچھ اپنے بارے میں بتاے مگر ماریہ ٹال دیتی وہ اسکا کیا بتاتی مگت وہ سوچ رہی تھی کیوں نہ اس نوجون کو ساری بات بتا دی جاے شائد وہ اس کی کچھ مدد کر سکے ویسے بھی ماہل کا لہجہ بھی برا ہمدردرانہ تھا اب بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ کل ماہل کو اپنے بارے میں کچھ نہ کچھ بتاے گی اور دیکھے گی کہ ماہل کے کیا تاثرات ہوتے ہیں یہ سوچتے ہی اسنیں اطمینان سے آنکھیں بند کیں تھوری دیر بعد وہ گہری نیند سو رہی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...