شبانہ یوسف(برمنگھم)
ہم جھوٹے ہیں ؟
بالکل ویسے ہی
جیسے وہ جھوٹے ہیں
یا شاید ہم اُ ن سے کچھ کم
سچ ہم سے
صدیوں پہلے روٹھ گیا تھا
اور اب روٹھا سچ
جھوٹ کے دل کی دھڑکن ہے
جب جب جھوٹ ہوا
دھرتی کی کوکھ میں بنجر پن بوتی ہے
تشنہ سچائی جھوٹ سراؤں میں روتی ہے
اور پیاس کے سائے پانی پر پڑتے ہی
گہرے پُر اسرار سمندر صحرا بن جاتے ہیں
طاقت کی چھاؤں میں جھوٹ کے پودے
سچ کا روشن چہرہ بن جاتے ہیں
جھوٹ ہزاروں چہرے پہنے
سچ کا کردار اداکرتا ہے
سچ ہر بار یہاں رسمِ دار ادا کرتا ہے
اور سچ تو یہ ہے کہ
مابعد جدیدیت میں
اپنی اپنی خود غرضی اور مفادات کی خاطر
ہر پل جھوٹ اور سچ کی
تعریف بدلتی رہتی ہے
جب ادنیٰ، اعلیٰ کا فرق مفکر
تسلیم نہیں کرتے
تو پھر اپنے مغرب کے آقاؤں کی خاطر
ماڈیریٹ حکام کی ذلّت آمیز وفاؤں کی خاطر
بے کار بحث میں اُلجھے بن
یہ مان لیا جائے کہ
کھوٹا اور کھرا ہونے پر
چھوٹا اور بڑا ہونے پر
کوئی فرق نہیں پڑتا
ورنہ شاید ہم
اپنی کم علمی کے جرم میں
’لی یو ٹارڈ‘کی تیز لسانی چالوں کے آگے
’جیک دریدا ‘کے متنی ،بھر پور حوالوں کے آگے
’ڈسکورس ‘کی سرحد سے باہر
تاریخ کی ہر حد سے باہر
اک مبہم جھوٹ بھی نہ رہیں!