بہت سے ادبی معاملات ہوتے ہیں،جنہیں لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہلکی سی دلچسپی کے ساتھ دیکھ کر اپنی دوسری ادبی ترجیحات میں مصروف ہو جاتی ہے۔کبھی کبھار کسی طرف سے تحریک دلانے پر مزید غور کی طرف مائل بھی ہو ناپڑتاہے۔لیکن کسی بھی اشوکی بحث میں کسی ادیب کی شمولیت تب جاندار ہوتی ہے جب وہ اپنے اندر کی لگن کے ساتھ اس میں دلچسپی لیتا ہے۔گزشتہ برس بریڈ فورڈ سے مقصود الہٰی شیخ صاحب کی جانب سے مجھے پوپ کہانی کے موضوع کی طرف توجہ دلائی گئی۔میں نے ان کی کتاب”پوپ کہانیاں“پڑھ کر بذریعہ خط اپنی محتاط اور مختصر رائے سے آگاہ کیا۔اسی دوران مجھے رضیہ اسماعیل کی زیر اشاعت کتاب ”کہانی بول پڑتی ہے“کے مطالعہ کا موقعہ ملا۔میں نے پوپ کہانی کے موضوع سے متعلق دونوں کتابوں کو مدِ نظر رکھ کر ایک مضمون لکھ دیا۔”پوپ کہانی اور رضیہ اسماعیل کی کہانیاں“۔اپنے مضمون میں جو کچھ لکھ چکا ہوں اور جن بنیادی سوالات کو اُٹھا چکا ہوں جب بھی ان کا کوئی علمی و ادبی جواب مل گیا،میں اس طرف پیش قدمی کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے میرے پوپ کہانی کے بارے میں موقف کو جاننے کے باوجود کسی ناراضی کا اظہار نہیں کیا جبکہ مقصود الہٰی شیخ صاحب باقاعدہ اسے”زوروں سے منوانے“کے لیے خط و کتابت کرنے لگے۔
مقصود الہٰی شیخ صاحب کے خطوط میں کبھی تو محبت گہری ہونے لگتی اور کبھی برہمی کا اظہار ہونے لگتا۔میں نے ان کی بعض سخت باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اصل موضوع پر توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کی۔تمام تر خط و کتابت کے باوجود میرا ان خطوط کو چھپوانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔لیکن وقفہ وقفہ کے بعد مقصود الہٰی شیخ صاحب کی طرف سے ایسا ”محبت بھرا اصرار“شروع ہوجاتا ہے کہ مجھے کوئی ”راہِ نجات“ دکھائی نہیں دیتی۔اب حال ہی میں ۲۸مارچ ۲۰۱۳ءکوان کی طرف سے پھر اصرار ہوا تو مجھے مناسب لگا کہ پوپ کہانی کے موضوع پر شیخ صاحب کے ساتھ جو خط و کتابت ہوئی ہے،اسے یک جا کر دیا جائے۔اس سلسلہ میں ایک دو قباحتیں درپیش تھیں۔بعض ای میلز میں برہمی کے اظہار کے طور کچھ نامناسب باتیں لکھی گئی تھیں۔میں نے جواب میں ان باتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا۔پوپ کہانی میرا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔اس میں مجھے دلچسپی بھی نہ تھی۔اس لیے میں نے ذاتیات میں الجھنے یا کسی ذاتی وضاحت کرنے سے گریز کیا۔لیکن اب میں ساری خط و کتابت شائع کرنے لگا ہوں تاکہ پوپ کہانی کا قضیہ کھل کر سامنے آسکے۔اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ مقصود الہٰی شیخ صاحب کی جن سخت باتوں سے میں نے صرفِ نظر کیا تھا،ان کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کردینا ضروری ہے کیونکہ اب یہ خطوط ذاتی ریکارڈ سے نکل کر ادبی ریکارڈ پر آرہے ہیں۔
میں نے۱۱اپریل۲۰۱۲ءءکو” کولکاتا اور دہلی کا سفر“ کے عنوان سے ایک میل ریلیز کی تھی۔اس پر مقصود الہٰی شیخ صاحب نے مسرت کا اظہار کیا۔میں نے شکریہ کی ای میل بھیجی تو انہوں نے ۱۲اپریل۲۰۱۲ء کو ایک تراشہ بھیج دیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں نومبر ۱۹۷۶ء میں ملکہ برطانیہ نے کسی شاہی دعوت میں مدعو کیا تھا۔انہوں نے کسی ادبی تقریب کا ذکر کیا ہوتا تو انہیں جواب دیتا۔”بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی“والی بات تھی ۔سو میں نے جواب نہیں دیا۔۸۱اپریل کو شیخ صاحب نے پھر وہی تراشہ بھیج دیا۔تب میں نے انہیں اپنی ۱۹اپریل ۲۰۱۲ءکی ای میل میںمختصراً لکھا کہ آپ نے ملکہ کادعوت نامہ ارسال کیا ہے اور میں خود کو بادشاہ محسوس کر رہا ہوں۔ساتھ ہی انہیں اپنی یادوں کے ایک باب کا لنک بھیج دیا۔اس باب کے چند متعلقہ اقتباس یہاں درج کر رہا ہوں۔
”میرے پیش نظردو باتیں تھیں۔ایک تو یہ کہ میں ایک طویل عرصے سے کبھی ایسا محسوس کیا کرتا ہوں کہ جیسے میں کسی پچھلے جنم میں بادشاہراجہ یا سردار قسم کی چیز تھااور کبھی ایسے لگتا ہے کہ میں کوئی سادھو، سنت، فقیر یا ملنگ تھا۔۔۔۔۔۔۔ سیل کی کاکردگی کی اس تفصیل کے بیان سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجدادکی عادات و افعال کا کتنا بڑا حصہ موجود ہے۔ان کے ذریعے ہمارے نانہال،ددھیال کے اعمال وعادات کا بہت سارا حصہ ہم میں منتقل ہوجاتا ہے۔اپنے آپ کو کبھی کوئی مہاراجہ یا سرداراور کبھی کوئی ملنگ فقیر محسوس کرنا مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میرے ددھیال،نا نہال میں سے کوئی ایسے رہے ہوں گے اور انہیں کی وہ بادشاہی اورفقیری میرے اندر بھی سرایت کرکے کسی نہ کسی رنگ میں میرے مزاج کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ “
”یہاں تک آتے آتے مجھے ایسا لگا ہے جیسے آج میرے اندر کے بادشاہ اور ملنگ میں لڑائی ہو گئی ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بادشاہ جیت گیا ہے اور فقیر کو قبر میں ڈال دیا گیا ہے۔لیکن فقیر کی تو قبر بھی زندہ رہتی ہے اور سانس لیتی ہے۔اب میں نہ خود سے مزید مکالمہ کر سکتا ہوں نہ اپنے قارئین سے مزید گفتگو کی گنجائش ہے،بس خدا سے ایک سوال ہے۔
خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے،سلطانی بھی عیاری
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اپنی کہانی کا درویش بھی میں ہوں،سلطان بھی میں ہوں ،
اورخدا کا سادہ دل بندہ بھی میں ہی ہوں۔“
(”کھٹی میٹھی یادیں“ کے باب”زندگی در زندگی“سے)
یہ پس منظر اس لیے واضح کیا ہے کہ مقصود الہٰی شیخ صاحب کے پہلے خط میں جو نا مناسب الفاظ ملیں گے ،ان کے پس منظر میںیہ ساری پہلے والی خط و کتابت تھی۔چونکہ شیخ صاحب میرے اشارے کا مطلب سمجھ ہی نہیں سکے تھے اس لیے انہیں لگا کہ میںاپنی کسی خودی میں گھرا ہوا ہوں،وغیرہ وغیرہ۔شیخ صاحب نے کسی نئی ،پرانی ادبی تقریب کا احوال بھیجا ہوتا تو اس پر خوشی کا اظہار کر سکتا تھا۔بادشاہوں کے دعوت نامے پر کیا خوش ہوتا۔یہ شخصی زندگی میں اعزاز ہو سکتا ہے لیکن ادب سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔پھر اتنا پرانا عوت نامہ۔
ایک دو وضاحتیں اور۔۔ایک یہ کہ میں نے کبھی بھی مقصود الہٰی شیخ صاحب سے اپنی کسی تحریر پر داد نہیں چاہی،کبھی بھی نہیں،۔۔۔دوسری یہ کہ میں نے آج تک اس کا اظہار نہیں کیا لیکن آج یہاں لکھ رہا ہوںکہ مجھے بہت شروع کی ادبی عمر میں پاکستان میں اکیڈمی آف لیٹرز کی تقریب میں شرکت کا موقعہ ملا تھا اور ایوان صدر میں ہونے والی دعوت میں بھی شرکت کی تھی۔چار افراد کی مجھے جو ٹیبل ملی تھی اس پرراغب مرادآبادی اور عطاءالحق قاسمی موجود تھے۔تیس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا،اسے کسی تفاخر کے اظہار کے طور پر کہیںبیان ہی نہیں کیا ۔ماریشس میں نائب صدر کی دعوت کا دعوت نامہ ہونے کے باوجود میں نے ایک اور ادبی کام کرنے کو ترجیح دی تھی،وہیں ہوتے ہوئے شریک نہیں ہوا تھا۔اس کا ہلکا سا ذکر میرے ماریشس والے رپورتاژ میں موجود ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنی فقیری میں خوش ہوں اور شاہوں کے ہاں جانے کی کوئی خاص خوشی نہیں ہوتی اور دوسروں کے معاملہ میں بھی یہی رویہ رہتا ہے۔اس کے باوجود شیخ صاحب نے اس پس منظر میں میرے مزاج کو جانے بغیر اپنے پہلے خط میں جو کچھ لکھا ہے میں نے اس کا جواب نہیں دیا اور ان کی سخت باتوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔چونکہ اب یہ سارے خطوط چھپنے جارہے ہیں تو مجھے مناسب لگا کہ اس سلسلہ میں یہ ہلکی سی وضاحت کر دوں۔
ایک اور بات جو انہوں نے اپنی۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء کی ای میل میں لکھی ”شخصی کمزوریوں“کے حوالے سے تھی۔میرا اشارہ صرف ان شخصی کمزوریوں کی طرف تھا جو پوپ کہانی کی خط و کتابت میں ان سے سر زد ہوتی جا رہی تھیں۔ان پر تفصیلی لکھ سکنے کے باوجود میں نے صرف پوپ کہانی کے خدو خال جاننے پر اصرار کیا۔مثلاََ انہوں نے پوپ کہانی کو”ایجادِ من“قرار دیا۔ایک چیز جس کی شناخت ہی نہیں ہے،صرف نام رکھ دینے سے بندہ اس کا موجد بن جائے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا،لکھا جا سکتا ہے،لیکن میں نے موجد بننے کی ان کی اس معصومانہ خواہش کو ان کی شخصی کمزوری شمار کرکے نظر انداز کر دیا۔ایک زمانہ میںجب وہ مایوسی کی لپیٹ میں تھے،میں نے ان کی ہمت بندھانے کے لیے انہیں خط لکھاتھا۔بعد میں یاد دلایا تو انہیں مایوسی یاد نہیں آئی اُلٹا وہ خود کو اسٹیج پر بیٹھا ہوا سمجھ کر مجھے پبلک میں بیٹھا ہوا سمجھنے لگے۔حالانکہ میں ایسی تقریبات میں نہ اسٹیج پر ہوں نہ پبلک میں۔اسی طرح کی چند اور کمزوریاں بھی ہیں جو ان خطوط کو پڑھنے والے ،مطالعہ کے دوران خود بہتر طور پر سمجھ لیں گے۔اس ساری خط و کتابت کے سلسلہ میں یہ چند وضاحتیں کرنا ضروری سمجھا تھا سو کر دی ہیں۔اب آگے وہ خط و کتابت دیکھ لیں اور اپنے اپنے طور پر پوپ کہانی کے بارے میں جو چاہے رائے قائم کریں۔
مجھے جس دن اپنے بنیادی سوالوں کے جواب کی صورت میں مناسب رہنمائی مل گئی،میں پوپ کہانی میں ضرور دلچسپی لوں گا۔ابھی تو معاملہ اس خط و کتابت میں اُٹھائے گئے نکات تک ہی رُکا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میںپوپ کہانی کی کہانی
نئی ،پرانی خط و کتابت
مقصود الہٰی شیخ۔۔۔حیدر قریشی
جناب! میں تو آپ کو دور سے جانتا ہوں مگر آپ کی بے نیازی کا جواز کبھی سمجھ میں نہ آیا۔اب تو آپ فوراً ریسپانس دیتے ہیں۔ہم متوازی چلتے ہوئے بھی ایک اور ایک گیارہ کا عمل اپنا سکتے تھے۔یہ یورپ میں اردو کے لیے بہتر ہوتا۔۔خیر اگر مگر کا جواب دیجیے گا کیونکہ میں اور آپ گیا وقت نہیں۔آپ کو ماہیا کا جنون تھا،میں بھی ایک کمپینر ہوں بحوالہ پوپ کہانی۔راجہ اور بادشاہ والی بات۔۔پلیز ٹریس یور شجرہ۔روٹس میں گھسنے سے بھی بہت کچھ پتہ چل سکتا ہے۔آپ کھوجتے رہیے،ورنہ بندہ خود کو خودی میں خدا مانتا ہے۔لگتا ہے آپ پی سی تیکنیک میں خاصے ماہر ہیں۔اگر آپ ڈاؤن لوڈ کر لیں تو ہم جب کبھی موقعہ ہوگا تو اردو میں مراسلت کر سکتے ہیں۔والسلام مقصود
پ۔ن:داد چاہنے والوں کو داد دینی بھی چاہیے۔مہربانی کرکے اپنی چاہ اور اپنی چاہت سے نکل کر دوسروں کو داد نہ سہی،دو چار لفظ لکھ کر اپنے تاثرات بھیجنا (کم از کم)مجھے اچھا لگے گا۔
۱۹اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ ہم ایک دو بار قریب آکر پھر دور ہوئے ہیں۔جن دنوں آپ بہت زیادہ ڈپریس تھے،میری آپ سے بہت اچھی خط و کتابت ہوئی تھی،پھر آپ ایک نئے جذبہ کے ساتھ اُٹھے۔میں آپ کو بڑھتا ہوا دیکھتا رہا اور خوش ہوتا رہاکہ آپ کی ڈپریشن ختم ہو گئی ہے۔انہیں دنوں میں آپ سے کہا تھا کہ اپنی کوئی کتاب بھیج دیں،میں پڑھ کر مضمون لکھ دوں گا۔مقصد آپ کو متحرک کرنا تھا۔آپ نے کتاب نہیں بھیجی، مجھے اصرار کرنا مناسب نہ لگا۔اصل میں ایک دوسرے کے لیے اچھے جذبات رکھتے ہوئے بھی شاید کہیں مزاجوں کا فرق غیر ارادی طور پر روک بنا رہاہے۔ہو سکتا ہے کوئی اور وجہ بھی ہو۔بہر حال قسمت میں ایسا ہی ہونا تھا سو ہو گیا۔اردو سکرپٹ میں تو ہم جب چاہیں خط و کتابت کر سکتے ہیں۔آپ کی پوپ کہانیوں کو دیکھا تو ہے لیکن مجھے افسانچے اور ان کے فرق کا ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا۔کسی مضمون میں اس فرق کو واضح کیا ہو تو عنایت کیجیے گا۔میں اس فرق کو سمجھنا چاہتا ہوں۔اس کے بعد ہی کچھ عرض کر سکوں گا۔
آپ کا مخلص
حیدر قریشی ۱۹اپریل ۲۰۱۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کہتے ہیں یار زندہ صحبت باقی !۔
میری یادداشت کمزور ہو گئی ہے۔ کبھی کبھی بڑی پشیمانی ہوتی ہے بندہ تپاک سے ملتا ہے اور میں کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہوں جیسے، جیسے نہیں واقعی نہیں جانتا، پہچانتا۔ بس اب تو فورا” اقرارکرلیتا ہوں اور پوچھ لیتا ہوں کہ کچھ تعارف اور پرانی ملاقات یاد دلائیے۔ آپ کا پتہ نہیں، جرمنی کیا صورت حال تھی۔ میں تو ایسا صحافی ہو گیا تھا جسے اخباری اور سماجی مصروفیات نے ” پبلک مین ” بنا دیا تھا۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ جب آدمی اسٹیج پر ہوتا ہے تقریر کرتا ہے تو اسے سب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ جان اور پہچان لیتے ہیں مگر وہ جم غفیر میں سے ایک آدمی پر نگاہ نہیں ٹکا سکتا تو بعد میں کیا پہچانے گا ؟ میرا خیال ہے آپ کی بات بھی درست ہے کہ باہمی احترام کے باوجود ہمارے مزاج ایک نہ تھے۔ آپ نے اس ناچیز پر مضمون لکھنا چاہا ہو گا۔ اب کیسے کہوں کہ میں کیوں چپ رہا؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ عادتا” میری خواہش ہوتی ہے کہ میرے کام پر رائے زنی ہو اور میں اس روشنی میں کچھ سیکھ کر اپنی مہم اور کام کو آگے بڑھاؤں۔ اردو میں کام سے زیادہ شخصیت پر فوکس کیا جاتا ہے۔ دراصل مجھے آپ کے حوالے سے جو بات یاد آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی تحریریں ” راوی ” میں شائع کرتے ہوئے آپ نے میرا ایک آدھا مشورہ قبول کیا تھا۔ آپ کا پاکستان میں صحافت کا زیادہ تجربہ تھا مگر آپ نے فراخدلی سے میرا مشورہ مانا تھا۔خصوصا” سوانح عمری کی ایک آدھ قسط ” راوی ” میں چھپی جس میں گھریلو اور نجی اشارے زیادہ تھے پھر شاید آپ نے کتاب چھپوا لی مگر” راوی ” سے سلسلہ ٹوٹ گیا یا پرانی یادوں کے تعلق سے کوئی بات تھی۔ میرا تاثر یہی رہا کہ آپ ماھیا کی صنف منوانے میں جت گئے اور اس طوفان خیزی میں کہیں سے کہیں (بلندی پر) نکل گئے۔
خیر،۔ ، میں کمپوٹر تکنیک پر زیادہ حاوی نہیں۔ اس لئے آپ کو تازہ الحمراء لاہور میں پوپ کہانی سے متعلق مضمون علیحدہ فارورڈ کرتا ہوں۔ دیکھیئے۔ میں نت نئے کمپیئن چلاتا ہوں۔ آج کل پوپ کہانی کا سلسلہ چل رہا ہے۔ آپ ضرور رائے دیجئے۔ کتاب کی فرمائش کی بات مجھے قطعی یاد نہیں آ رہی۔ آپ یہ مضمون دیکھئیے۔ اس کے بعد آپ نے کہا تو میں کتاب ” پوپ کہانیاں ” بھی ارسال کر دوں گا۔ میں یہ بھی معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کبھی ” مخزن ” بھی ملا ؟ آپ نے اپنے رسالے میں کوئی تبصرہ کیا ہو تو مجھے اس کی پی ڈی ایف میں اٹیچمنٹ بنا کر بھیج دیجئے گا۔ مجھے غرض نہیں کہ کس انداز میں ای میل کرتے ہیں۔ بس میں آسانی سے کھول سکوں اور پڑھ سکوں۔امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ کے خط کا خلوص متاثر کر رہا ہے۔ انشاءاللہ اب رابطہ رہے گا۔ گھر میں سب کو درجہ بدرجہ سلام و دعا۔ والسلام،۔ مقصود۔ ۱۹اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادرم مقصود الہٰی شیخ صاحب سلام مسنون
مخزن ملتا رہا تھا۔ایک بار آپ کی طرف سے ایک فارم بھی ملا تھا۔مجھے یہ سلسلہ اچھا نہیں لگا تھا کہ تخلیق کار رقم دے کر چھپے اور نقاد کو پیسے دے کر اس سے لکھوایا جائے۔اس لیے میں نے فون پر اچھے پیرائے میں معذرت کر لی تھی۔آپ کا اصرار تھا کہ میں خط کا جواب لکھ دوں،اور میں ان تخلیق کاروں کی دلآزاری کا موجب نہیں بننا چاہتا تھا،جو اس طریق کے مطابق چھپ رہے تھے۔ویسے ادبی رسائل کا ساتھ دینا، ان کے ساتھ مالی تعاون کرنا مناسب ہی نہیں بلکہ کسی حد تک ضروری بھی ہے۔لیکن یہاں معاملہ تخلیق کار اور نقاد کے ساتھ رویوں کا تھا۔
جدید ادب میں ادبی رسائل پر تبصرے نہیں دئیے جاتے۔ صرف کتابوں پر ہی تبصرے کرتا ہوں۔
جب میں نے آپ سے کوئی کتاب بھیجنے کو کہا تھا تاکہ مضمون لکھ دوں،تب آپ بہت زیادہ ڈیپریشن کا شکار تھے۔آپ کے ایک دو مایوسی کااظہار کرتے ہوئے خط ملے تھے،ان کے نتیجہ میں میںنے چاہا تھا کہ آپ اس وقتی ذہنی دباؤ سے باہر آسکیں۔تب میں نے آپ کو بہت اچھے خط بھی لکھے تھے۔مقصد تو یہ تھا کہ آپ ڈیپریشن سے نکل کر ادبی طور پر متحرک ہوجائیں۔سومیرے مضمون کے لکھے بغیر ہی یہ مقصد حاصل ہو گیا۔
میری یادوں کا پہلا باب آپ نے بھی شائع کیا تھا،لیکن اس کا پہلا پیرا گراف حذف کرکے۔۔۔اس کے بعد میری گلبن والوں سے بات ہو گئی تھی اور لگاتار یادوں کے گیارہ باب،دس قسطوں میں وہاں چھپے تھے۔دس قسطوں کے بعد گلبن میں باقاعدہ لکھنے کا سلسلہ رک گیا۔تاہم گاہے بگاہے جدید ادب ہی میں یادیں چھپتی رہیں اور اب تک یادوں کے مزید دس باب چھپ چکے ہیں۔اور گیارھواں ان دنوں میں لکھ چکا ہوں،صرف اس باب کی نوک پلک سنوارنا باقی ہے۔یہ سلسلہ رکا نہیں،بس چھپنے کے مقام بدلتے رہے ہیں۔
پوپ کہانی کے حوالے سے آپ کا مضمون ملا،غور سے پڑھ لیا۔لیکن میرا سوال وہیں ہے۔میں نے گزارش کی تھی کہ افسانچے اور پوپ کہانی میں کیا فرق ہے اور اسے کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟
یہ لگ بھگ ویسے ہی سوال جیسی صورت ہے جب ہم سے ماہیا اور ہائیکو میں فرق کی بابت پوچھا گیا تھا۔ہماری طرف سے اس کا بڑی وضاحت کے ساتھ جواب دیا گیا تھا۔افسانچے اور پوپ کہانی کے فرق کے سلسلہ میں بھی بات وضاحت کے ساتھ سامنے آنا ضروری ہے۔
اس مضمون کو پڑھنے کے بعد لگا کہ آپ اسے ایجادِ من خیال کرتے ہیں۔مجھے خیال آتا ہے کہ انگریزی میں پوپ کہانیوں کے نام سے پہلے سے کچھ لکھا جا رہا ہے۔یہاں اب ہلکا سا کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے۔مجھ پر الزام لگا تھا کہ میں ماہیا کا موجد بننا چاہتا ہوں۔میں نے اس کی سختی سے تردید کی تھی اور پھر اردو میں اس کے بانی کی حد تک بھی سہرا ہمت رائے شرما کے سر باندھ دیا تھا۔اس موضوع پر پوری کتاب لکھ دی تھی۔ اس کے بر عکس آپ اسے ایجادِ من قرار دے رہے ہیں۔ آپ کی ایجاد ہے تو اسے تسلیم کیا جانا چاہیے،لیکن اگر انگریزی سے اسے لیا گیا ہے تو پھر کچھ مارجن رکھنا مناسب ہو گا۔
ان دنوں اپنی یادوں کا نیا باب لکھنے کے ساتھ میرا جی نمبر کی تیاری میں مصروف ہوں۔دنیا فیض اور راشد کی دھن میں انہیں فراموش کیے بیٹھی ہے۔سوچا لوگ مشہور لوگوں کے نام پر کام کرکے اپنی شہرت کماتے ہیں۔ہم کسی گمنام اور نا مقبول بندے کے کام کو سامنے لاتے ہیں۔سو اردو میں اہلِ ملامت کے امام میرا جی پر کام میں لگا ہوا ہوں ۔ جون تک رسالہ چھاپنے کا ارادہ ہے۔انشاءاللہ۔امید ہے آپ ہر طرح صحت و عافیت سے ہوں گے۔
والسلام آپ کا مخلص حیدر قریشی ۲۰اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے حیدر قریشی صاحب،۔
مخزن ” پر تبصرہ کرنا نہ کرنا آپ کا حق اور صوابدید پر تھا۔ ” سائزکی بنیاد پر آپ نے اسے مجلہ یارسالہ سمجھا اور گریزاں رہے تو کوئی بات نہیں۔ شہاب نامہ کو کتاب سمجھا جائے یا رسالہ؟ مخزن کا ” دی اینڈ ” ہو گیا۔ بحث میں پڑنا بیکار ہے۔ شکوہ نہ شکایت۔ آپ مطمئن رہیں۔ دوبارہ اس پر گفتگو نہ ہو گی۔
میں حیران ہوں آپ نے ” مخزن ” کے پیچھے فکر کو قطعی نظر انداز کر دیا لہذا دوچار جملوں میں ۔ Writers’ Co-opکے قیام کی بابت عرض کرد وں۔ مغرب میں اردو قلمکاروں کی پہچان وطن عزیز میں ہونی چاہیئے۔ اس کو صورت دینے کے لئے صلاح مشورہ کیا گیا۔ مجھے ” راوی ” سے رٹائر ہوئے دو سال ہو چکے تھے مگر احباب نے بھلایا نہیں اور مجھ سے رابطے جاری رکھے تھے۔ میں خود ” مخزن ” جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا چنانچہ تخمینہ منگوایا گیا اور (مختصرا”) احباب کو دس دس پرچوں کی قیمت پیشگی بھیج کر منگوانے کے لئے کہا گیا۔ اس طرح دو مقصد حاصل کرنا مقصود تھا اول سرمایہ، دوم پرچے کی تقسیم۔ مجھے اپنے بیٹے کے ایئر لائن میں ہونے کی وجہ سے کم کرائے میں پاکستان جانے آنے کی سہولت حاصل تھی۔ پہلی مرتبہ میں تین ماہ کے لئے پاکستان کے مختلف شہروں میں پھرا۔ وہاں بے خبری کا عالم تھا اور کوئی یہاں والوں کو گھاس ڈالنے پر تیار نہ تھا ویسے میرا بس ہی نہ چلا میں تو اپنے ہفت روزہ میں بھی لکھنے کا معاوضہ یا اعزازیہ دینے کو تیار تھا مگر ناخن ہی نہ ہوئے۔ اب مانے جانے نقادوں کی عزت و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے قیمتی وقت کے مدنظر اعزازیہ کی صورت نکالی۔ ساتھ تحریرا “کہا گیا کہ اپنی انٹی گریٹی قائم رکھتے ہوئے رائے زنی کیجئے تاکہ برطانیہ کے لکھنے والوں جن میں قیصر تمکین مرحوم اور ش صغیر ادیب مرحوم جیسے پہلے سے مسلمہ افسانہ نگارشامل تھے، وہ متفق رہے اور ساتھ چلے کہ مرکزی دھارے میں برطانیہ کے لکھنے والوں کی شمولیت کے لئے یہ قدم ناگریز ہے۔ اس طرح ممکن ہے ۔ لکھنے والے کا درجہ مقرر ہو سکے۔ اس کے نتیجے میں بعض لکھاری میدان چھوڑ کر بھاگ بھی گئے۔
مجھے نہیں معلوم آپ نے کیسے سرمایہ مہیا کیا اوراپنا پرچہ چھاپا۔ ” کو آپ ” کی حد تک میں مطمئن ہوں کہ مقصد حاصل ہوا اور اس کے بعد وطن عزیز کے سالانہ ادبی جائزوں میں یہاں والوں کا نام آنے لگا۔ شاباش ہے یہاں والوں نے تنقید سنی اور آگے بڑھے اور کئی دوستوں نے مقام بنایا۔ اگر آپ کی نظر معاصر ادب و اشاعت پر ہے۔تو میں بات یہیں ختم کرتا ہوں۔ برطانیہ کی حد تک یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ جن ” گل محمد ” قسم کے مخالفین نے حصہ نہیں لیا وہ خسارے میں رہے اور وہ برطانوی مقامیت جہاں ادبی رسالے سرے سے نہ تھے اور ” راوی ” بند ہو گیا تھا، باہر متعارف ہی نہ ہو پائے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے ” راوی ” میں نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ آج وہ نئے، نئے نہیں، جانے مانے ہیں۔
آپ میری ڈیپریشن کا ذکر کر رہے ہیں۔ اخبار کا دھندا ہی ایسا ہے کہ چنگا بھلا آدمی دیوالیہ ہو جائے۔ ہاں کئی مرتبہ مکان مارگیج رکھا، دیوالہ نہ نکالا اور صحافت نہ چھوڑی۔ میری یاد داشت کمزور ہے۔ آج یاد نہیں رہتا جبکہ پیدائش کے وقت کی بات یاد آ جاتی ہے۔ میں آپ کے خلوص اور نیک جذبے کی قدر کرتا ہوں کہ میرے خیالات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے خیال رکھا اور مجھے حوصلہ افزا خط لکھے۔ اگر اس وقت کا میرا یا آپ کا اپنا خط کمپوئٹر یا کسی کونے کھدرے میں محفوظ ہو تو بھیجئے گا۔ کیا خبر یادیں کھنگالنا مفید ثابت ہو۔ آپ نے اپنا قلم نہیں روکا اور لکھتے رہے۔ میں آپ کی ثابت قدمی اور ادبی میدان میں اونچا اٹھنے کی بابت سب نہیں تو بڑی حد تک کچھ نہ کچھ جانتا ہوں اور خوش ہوں کی آپ کی محنت رائگاں نہ گئی۔ آپ اپنی جگہ ضرور مسرور و مطمئن ہوں گے۔ میں آپ کی آئندہ کامیابیوں کے لئے دعا گو ہوں۔
جہاں تک پوپ کہانی کا تعلق ہے۔ کیا آپ نے اس بارے میں ” ایوان اردو ” جنوری یا اپریل تک چل رہی بحث دیکھی؟ ” گلبن ” میں تو تنقید دیکھی ہو گی۔ میرا جوابی حملہ بھی کہیں نہ کہیں چھپا دیکھا ہو گا۔ اگلے مہینے” ایوان اردو” والے پچھلے تین ماہ میں جو خطوط شائع ہوئے ان کے حوالے سے میرا جواب مضمون چھاپ رہے ہیں۔ آپ کو کوئی معلومات درکار ہوں تو بتائیے بھیج دوں گا ویسے جمعہ کو میں نے ہوائی ڈاک سے آپ کو اپنی کتاب ” پوپ کہانیاں ” پوسٹ کر دی ہے۔ اس میں بہت سی اغلاط ہیں۔ آپ ان سے سہو نظر فرمائیے گا اور مدعا پر نگاہ رکھتے ہوئے بتائیے گا۔ آپ کی رائے میرے لئے قیمتی ہو گی۔ والسلام، مقصود
خط کل لکھنا شروع کیا تھا۔ طویل داستان اور مرحلوں کو سمیٹنا مشکل ہے۔ آپ اپنی بیتی بحوالہ رسالہ ضرور بتائیے۔ کاش ہم نے e experience sharکر کے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا یا ہوتا اور ایک دوسرے سے کچھ سیکھا ہوتا !!۔
۲۳اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادرم مقصود الہٰی شیخ صاحب سلام مسنون
آپ کی پہلی ای میل بھی مل گئی تھی اور اب دوسری استفسار والی میل بھی مل گئی ہے۔استفسار والی میل کا جواب اسی جواب میں آگیا۔فون نمبر لکھ دیتا ہوں۔
آپ نے مخزن کے سلسلہ میں جو موقف اختیار کیا ہے،اسے آپ کی سوچ اور آپ کے زاویے سے درست سمجھتا ہوں۔ہم نے بالکل ابتدائی ادبی زمانہ میں خانپور میں دو کتابیں اسی بنیاد پر شائع کی تھیں۔تاہم جب جدید ادب کا اجرا کیا تھا تو ۰۸صفحات کا شمارہ بھی اپنے ذاتی خرچ سے شائع کیا اور اب جرمنی سے جو رسالہ نکال رہا ہوں تو یہ بھی اپنی پاکٹ منی سے نکال رہا ہوں۔سال بھر میں جتنی رقم بچا سکتا ہوں اس پر لگ جاتی ہے،اسی لیے جب مجھے کسی تقریب میں اپنے ذاتی خرچ پر بلایا جاتا ہے تو میں اس لیے معذرت کرتا ہوں کہ اتنے خرچ کی گنجائش نہیں ہے۔یا رسالہ نکالوں یا تقریبات میں شرکت کروں۔سو رسالہ نکالنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ادبی کام کرنے کی توفیق ملنا سب سے بڑا ادبی انعام سمجھتا ہوں۔ادب کی خدمت کرنے کا میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔میں صرف اپنی ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں۔عام زندگی کی طرح ادبی زندگی کی بھی اپنی ایک دنیا ہے۔
آپ سے جو مراسلت ہوئی تھی، اس کی وجہ امریکہ سے سلطانہ مہر صاحبہ کا سوالنامہ تھا۔میں نے آپ کو بھیجا تھا تو اس کے جواب میں ۶جنوری ۱۹۹۹ءکا لکھا ہوا آپ کا خط ملا تھا۔آپ کے خط کا جواب میں نے ۸جنوری کو فیکس سے بھیج دیا تھا۔اس پر آپ کا ۹جنوری کا تحریر کردہ جواب ملا تھا۔یہ مراسلت آپ کی اجازت سے ”اردو دنیا“جرمنی کے شمارہ اگست ۲۰۰۰ءمیں شائع بھی کر دی گئی تھی۔آپ چاہیں تو وہ صفحہ سکین کرکے بھیج دوں گا۔
پوپ کہانی کے سلسلہ میں میرا استفسار صرف اس کے خدو خال کی تفہیم کے لیے ہے۔جوگندر پال جی کے افسانچے پڑھنے کے بعد افسانچے کا تصور واضح ہو چکا ہے۔میںمختصر ترین پیرائے میں پوپ کہانی اور افسانچے کے فرق کو سمجھنا چاہتا ہوں اور اسی تناظر میں عام شارٹ سٹوری اور پوپ کہانی کے فرق کو جاننا چاہتا ہوں۔اسے عام فہم انداز میں مختصراََ لکھ دیں تو میرے جیسے کئی اور لوگوں کو بھی سمجھنے میں سہولت ہو جائے گی۔ایوانِ اردو اور گلبن میرے پاس نہیں آتے۔سو آپ کے مذکورہ مضامین اور جوابات میری نظر سے نہیں گزرے۔
آپ کے نیک جذبات کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔اللہ آپ کو صحت و عافیت سے رکھے،ہماری صحت ،تندرستی کے لیے دعا فرماتے رہیے۔
آج کا باقی وقت اپنے سفر کی روداد کومکمل کرنے کی کوشش کروں گا،امید ہے آج اسے مکمل کر ہی لوںگا۔انشاءاللہ۔
والسلام آپ کا بھائی حیدر قریشی ۲۳اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی ای میل مل گئی،شکریہ۔”اردو دنیا“کا پیج ارسال خدمت ہے۔آپ اپنا فون نمبر لکھ بھیجئے۔
آپ کا حیدر قریشی ۲۳اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت نامے:”اردو دنیا“جرمنی کے شمارہ :اگست ۲۰۰۰ء میں مطبوعہ پرانی خط و کتابت
یہ خط و کتابت مطبوعہ”اردو دنیا“کے صفحہ کو سکین کرکے مقصود الہٰی شیخ صاحب کو بھیجی گئی۔
حیدرقریشی صاحب نیا سال مبارک
سلطانہ مہر صاحبہ کا براہِ راست اور اب آپ کی معرفت گوشوارہ سوالات ملا۔بھائی! مجھ پر آج کل یاسیت طاری ہے۔بیچ بیچ میں خوش بھی ہو لیتا ہوںکہ خالقِ دو جہاں ناشکرا نہ سمجھ لے۔سچ پوچھئے تو سب باتیں لاحاصل نظر آتی ہیں۔لکھنے لکھانے کے تعلق سے تازہ خیالات یہ ہیںکہ اس صدی کے دو ایک نام ہی رہ جائیں گے۔جیسے دو صدی پہلے کا”غالب“چل رہا ہے۔اپنی جگہ سوچتا ہوں کہ کون سا ایسا تیر مارلیا ۔نہ تین میں ،نہ تیرہ میں۔بس دل بھرا بھرا ہے۔کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے وہاں فرض نبھانے کی کوشش کرگزرتا ہوں۔بعد میں وہ بھی کمزور فضول دکھائی دیتی ہے۔دیا بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے،یہاں اس کے بغیر ہی بجھ رہے ہیں۔
بہر حال یاد فرمائی کے لئے ممنون ہوں۔میں تو سمجھا تھا آپ نے بھی دوسروں کی طرح جیسے احمد سعید انوراور نعیمہ ضیاءالدین صاحبہ کی طرح منہ موڑ لیا۔یہی سمجھا کہ اس دنیا میں جہاں کئی قسموں کے تعصب ہوتے ہیں ان میں مذہبی و فرقہ دارانہ زیادہ تگڑا ہوتا ہے۔آپ کو تو ”راوی“نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔خیر۔آپ بڑے جذبے سے ماہیے کا پرچم لہراتے بڑھ رہے ہیں۔نوجوان ہیں،جذبہ ہے۔آپ کی لگن قابلِ داد ہے۔میرا خیال ہے یہ میدان آپ نے جیت ہی لیا ہے۔امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ مقصود الہٰی شیخ
نوٹ از ادارہ”اردو دنیا“:خط دفتر ”راوی“بریڈ فورڈ سے بھیجا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از جرمنی محترم مقصود الہٰی شیخ صاحب سلام مسنون
آپ کا ۶جنوری کا تحریر کردہ عنایت نامہ ملا،شکریہ۔
آپ نے خود پر طاری جس یاسیت کا ذکر کیا ہے اس سے کسی نہ کسی مرحلے میں ہم سب کا واسطہ پڑتا ہے۔سب کچھ لاحاصل یا بے معنی لگنے لگتا ہے۔لیکن صرف ادب ہی کیوں؟کیا یہ زندگی ہی بے معنی اور لا حاصل نہیں لگنے لگتی؟اول فنا،آخر فنا،اس کے باوجود اسی زندگی میں کتنی“جان“ہے!
ادب اور عبادت دونوں کو میں ”فائدے “کے حساب سے نہیں سوچتا۔عبادت محض جنت کے حصول کے لیے ہو تو یہ سیدھی سادی رشوت بن جاتی ہے،جبکہ عبادت جب بندے اور خدا کے درمیان تعلق کو قائم کرتی ہے تو عبادت کی لذت ہی اپنا اجر آپ بن جاتی ہے۔ایسے ہی ادب کی تخلیق کا عمل خود ایک لذت آفریں عمل ہے تو پھر بے معنویت اور لا حاصلی کا احساس کیوں؟ہاں جب بعض مخالفین،حاسدین حسد سے مغلوب ہو کر گھٹیا درجے کی مخالفت کرتے ہیں تو تھوڑا سا دُکھ ضرور ہوتا ہے،لیکن تب ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ شاید خدا نے ہمیں اتنا کام کرنے کی توفیق بخش دی ہے کہ کم ظرف لوگ ہم سے حسد کرنے لگے ہیں۔ آپ نے اپنے افسانوں کے ذریعے بھی اور ”راوی“کے ذریعے بھی ادب کی خدمت کی ہے۔ان خدمات سے انکار کرنے والے ان خدمات کو مٹا تو نہیں سکتے۔سو اُن لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑیں اور خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اس کی عطا کردہ توفیق کے مطابق بروئے کار لاتے رہیں۔یہ نیکی ہے اور نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔
مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کریں۔امید ہے سلطانہ صاحبہ سے آپ نے رابطہ کر لیا ہوگا۔والسلام
نیک تمناؤں کے ساتھ حیدرقریشی ۸ ۱۹۹ (بذریعہ فیکس بھیجا گیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی صاحب سلام مسنون
آپ نے خط ملتے ہی جواب لکھ دیا۔آپ کا خط میرے لئے تپتی دوپہر میں تازہ ہوا کا جھونکاہے۔حوصلہ بندھا،میں کوشش کروں گا کہ آپ کی تسلی سے دیر تک تسکین حاصل کروں۔زندگی اسی کا نام ہے،کبھی صبح اور کبھی شام ہے۔میں تو ویسے بھی سمجھتا ہوں کہ شامِ زندگی آپہنچی۔کوئی سدا نہ جیتاہے نہ کام ہی کرتا رہتا ہے پھر بھی آپ ایسے ہوشمند اور ذی شعور اس کے کام کا اقرار کریں تو محنت اکارت نہ جانے کا احساس جاں نواز اور مسرت بخش ثابت ہوتا ہے۔بہت بہت شکریہ۔ آپ کا مقصود الہٰی شیخ
پت:سوتے کو جگانے والی ادبیت اس خط میں موجود ہے۔انداز خوبسورت ہے اور تحریر جاندار! سلطانہ مہر صاحبہ کو ابھی کوائف نہیں بھیجے۔کیا اسے آپ کی طرف سے تاکید سمجھوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پرانی خط و کتابت کا مطبوعہ صفحہ مقصود الہٰی شیخ صاحب کو بھیجا گیا تو ان کی طرف سے یہ رسید ملی
حیدر بھائی!مختصر نامہ ملا،کیا آپ سے رؤف نیازی کے مضمون کا قفل(اٹیچ منٹ)کھل گیا۔اگر آپ مصروف ہیں تو کتاب مل جانے پر اکٹھا جواب دیجئے گا۔صحت و سلامتی کی دعا و سلام کے ساتھ۔
مقصود ۲۳اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقصود الہٰی شیخ صاحب کی ایک اور ای میل:
معاف کیجئے گا اپنا فون نمبر لکھنا بھول گیا ۔
گھر:
00 44 1274 495462
Mobile:- 00 44 7778 774 694
۳۲اپریل۲۱۰۲ئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادرم مقصود الہٰی شیخ صاحب سلام مسنون
آپ کی دونوں ای میلز مل گئیں، شکر گزار ہوں۔فون نمبر محفوظ کر لیا ہے۔میں اپنے سفر کی روداد کو فائنل کرنے میں منہمک ہو گیا تھا۔اسے بروقت لکھ لینا ضروری تھا۔سو اب اسی کام سے فارغ ہوا ہوں۔
رؤف نیازی صاحب کا مضمون پڑھ لیا تھا۔میرے سوالوں کا جواب کہیں ملا ہوتا تو شئیر کرتا۔کسی فرصت میں اطمینان سے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔ہو سکتا ہے تب مجھے سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔بہت سے دوستوں کو جب ماہیا کا وزن عروضی حوالے سے بتاتا تھا تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا لیکن جب انہیں کوئی ماہیا گنگنا کر بتاتا تھا تو وہ فوراََ سمجھ جاتے تھے۔سو ہو سکتا ہے پوپ کہانی کو بھی میں منہ زبانی زیادہ مناسب طور پر سمجھ سکوں۔
کل سے میری صبح سویرے کی ڈیوٹی شروع ہو رہی ہے۔۵۲سے ۰۳اپریل تک یہی ڈیوٹی رہے گی۔یہ بہت تھکا دینے والی ڈیوٹی ہوتی ہے کیونکہ اس میں صبح سویرے جاگنا پڑتا ہے۔بہر حال جیسے ہی وقت ملا میں خود آپ کو فون کروں گا۔باقی ای میل سے تو ہمہ وقت رابطہ رہ سکتا ہے۔
باقی۔۔۔۔باقی۔۔۔۔۔والسلام آپ کا بھائی حیدر قریشی
۲۳مارچ ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر بھائی،
آپ کا ای میل مل گیا۔ ٹیلی فون نمبر نوٹ کر لیا ہے۔ پوپ کہانی کے بارے میں، میں قواعد بیان کرنے کا قائل نہیں اس لئے کیا عرض کروں؟ کتاب مل جانے پر آپ کو اس کی شروعات کا پتہ چل جائے گا۔ میں نے انگریزی ادب زیادہ نہیں پڑھا اور جو ٹاواں ٹاواں پڑھا اس میں پوپ کا ذکر میرے علم سے باہر تھا لیکن کتاب میں ممتاز حسین صاحب کا مضمون اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس وقت آپ کو پاکستانی نقاد جناب رؤف نیازی صاحب کا مضمون بھیج رہا ہوں۔ شاید آپ کو مطلوب نکتہ مل جائے۔ مجھے ” اردو دنیا ” میں ہماری مراسلت ضرور ارسال فرمائیے۔ میں ممنون ہوں گا۔ مجھے جیسے کوئی گم شدہ شے مل جائے گی کہ یہ گوشہ میرے ذہن سے مٹا ہوا ہے۔ اسی طرح ایک بار مشہور فنکار طلعت حسین ہمارے ” راوی ” کے دفتر میں آئے، سارا دن رہے۔ بی بی سی کے لئے میرا انٹرویو لیا ۔ میرے بھائی (سالار) انعام عزیزحوم نے بھیجا تھا۔ میں اپنے تئیں ادب اور صحافت میں کمتری جانتا رہا ہوں۔ انٹرویو اس لئے دینے پراضی ہواکہ انعام صاحب بغیر جتائے اپنے دوست کا ٹی اے ڈی بنوانا چاہتے تھے۔ خیر یہ بات یونہی سی ہے اس لئے مجھے کیا پوچھا گیا یا کیا کہا گیا، کیا یاد رکھنا تھا ؟ دلچسپ بات یہ ہے کی ان کی آمد ایک قصہ بن گئی۔ اس کا میرے دماغ میں کوئی نشان نہیں۔ گھر والے بتاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہوا ہو گا۔ یہ کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ ہمارا دفتر بہت بڑا تھا۔ ورکرز (اور اپنے لئے ایک کینٹین بھی بنوائی گئی تھی۔ دفتر کرائے پر تھا۔ فریدہ اپنے اور ورکرز کے لئے قبولی بنا رہی تھیں۔ طلعت صاحب نے دفتر میں گھستے ہی خوشبو سونگھی اور کہا بندے کو روک دیجئے ریستوران سے کچھ نہ منگوائیے۔ میں یہ قبولی ہی کھاؤ ں گا۔ وغیرہ۔ بہت سادہ مگر شاندار اور دلچسپ شخصیت ہیں۔ اب میں یہ واقعہ مزے لے لے کر سنتا ہوں۔ کچھ تفصیل آپ کو لکھ دی۔ دراصل میں ” راوی ” میں پوری طرح غرق تھا اور کچھ کیا ؟ سب کچھ آنکھوں سے اوجھل رہتا تھا۔ اب ہسپتال جانے کا وقت نزدیک آ رہا ہے۔ باقی پھر۔ والسلام،۔ مقصود ۲۳اپریل۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی کتاب کا تحفہ مل گیا ہے۔ممنون ہوں۔یہ صرف رسید بھیج رہا ہوں۔انشاءاللہ جلد آپ سے بات ہو گی۔
آپ کا بھائی حیدر قریشی ۲۷اپریل ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہ ماہی” اردو“کے مدیر وسیم فرحت کارنجوی کے نام مقصود الہٰی شیخ صاحب
کاای میل جو مجھے بھی بھیج دیا گیا۔
جناب من
آج ادھر سہ ماہی ” اردو ” کا سالنامہ ملا، ادھر آپ کو کتاب ” پوپ کہانی – ۲ ” وصول ہو گی۔ کچھ ایسا ہی حسن اتفاق ہو اور ہمارے ستارے بھی ملتے رہیں۔ یو کے اور یورپ میں ابھی کتاب ایشوع نہیں ہوئی ہے۔
میں تھکن سے چور اور نزلے کھانسی سے مغلوب۲۳دسمبر کو پہنچا ہوں۔ آتے ہی ڈاکٹر کے یہاں حاضری دی۔ پانچ روز کا انٹی بائیوٹک کورس رات پورا ہو جائے گا۔ خدا کرے میں اٹھ بیٹھوں۔
اسلام آباد میں کتاب پوپ کہانی۔ ۲کی تقریب تعارف کے بعد پوپ کہانی کے حق میں کمپیئن تیز ہو گیا ہے۔ امید ہے آپ کو براہ راست رپورٹ آ چکی ہوگی۔ اپنی دلچسپی اور موضوع میں غرقابی کی بنا پر پہلے جناب حیدر قریشی کا مضمون پڑھا۔ تھک گیا ، اس لئے مضمون بغور پڑھنے اور رسالہ کی خوبی و خوبصورتی کا مطالعہ اگلے دنوں پر اٹھا دیا لیکن یہ کہوں گا کہ آپ نے محنت کی ہے۔ اللہ اجر دے گا اور اس کے بندے داد۔!!
حیدر قریشی صاحب کے مضمون پر رائے زنی قبل از وقت ہے مگر کہنا پڑے گا کہ (اس کا عتاب مجھ پر) پتہ نہ چلا انہوں نے مغرب و مشرق پر نگاہ کرتے ہوئے کس کا مقدمہ لڑا اور کس کے خلاف دلائل دئیے۔ شاید یہ اچھی تنقید کے ذیل میں آتا ہو۔ میں صاف بات اور بے لاگ تنقید کے حق میں ہوں۔ ۔ سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ ہمت جمع کر سکا تو ان کو بھی پہلے تاثر یا رد عمل کے حوالے سے خط لکھوں گا۔ اپنی کتاب بھیجوں گا۔ وہ ہمیشہ کتاب و رسالہ سے نوازتے ہیں۔ پچھلے دو ماہ کی غیر حاضری سے رابطہ دھیما پڑ رہا تھا۔
والسلام۔ مقصود الٰہی شیخ ، بریڈفورڈ (یوکے)۔ ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنابِ من! بالواسطہ مکتوب ملا اور بلا واسطہ جواب لکھ رہا ہوں۔
میں نے پوپ کہانی کے حوالے سے جو کچھ لکھا،اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ایمانداری سے لکھا۔کسی پر عتاب کا میں نے سوچا بھی نہ تھا۔بلکہ اس زاویے سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جناب کی بہت سی شخصی کم زوریوں کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا،انہیں اپنے مضمون میں اشارتاََ بھی بیان نہ کیا تھا۔تاہم اب اگر کسی مضمون میں مجھ پر کسی قسم کا غیر ضروری االزام آیا تو اپنی صفائی کے طور پر ان باتوں کا ذکر ضرور کروں گا،جن سے پہلے شعوری طور پر گریز کیا تھا۔اب جواباََ اور وضاحتاََان باتوں کے ذکر سے واضح ہو جائے گا کہ میں نے پوپ کہانی کے مسئلہ پر اپنے ایماندارانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جن ضمنی باتوں سے صرفِ نظر کیا تھا،وہ اس موضوع کو سنجیدگی سے زیر بحث لانے کے لیے تھا،وگرنہ ان باتوں کی بھی ایک اہمیت تھی جنہیں نظر انداز کر دیا تھا۔
باقی میرا پوپ کہانی کے موضوع پر کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ایک نئی چیز لائی گئی اور اس کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی تو اس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اگر کوئی سوال اٹھاتا ہے اور اچھے پیرائے میں اٹھاتا ہے تو اسے منفی رنگ میں لینا کوئی صحت مند رویہ نہیں ہوگا۔بہر حال کسی علمی و ادبی موضوع پر بات آگے چلی اور اس میں مجھے کسی صفائی کی ضرورت پیش آئی تو انشاءاللہ دستیاب حقائق کی بنیاد پر جواب ضرور پیش کروں گا۔
مخلص حیدر قریشی ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے مخلص، میرے مہربان!۔
سنگ آمد و سخت آمد۔یار! آپ تو بے بات تپ جاتے ہیں۔ بے عیب اللہ کی ذات ہے۔ میری جن شخصی کمزوریوں سے آپ واقف ہیں ان پر دلجمعی سے روشنی ڈالئیے۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ کسی مضمون کی ضرورت نہیں جب دل چاہے لکھئیے۔ آپ کی تسلی تشفی سے مجھے خوشی ہو گی۔ ۔
میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا
آپ پل میں تولہ پل میں ماشہ ! من سے نکل گیا ہے۔ کیا کتاب بھیجوں یا پڑھنے کا وقت نہیں ہو گا؟ابھی نقاہت اور بیماری کی وجہ سے اسی تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھئے۔ والسلام۔مقصود
پ۔ ت : اگر آپ نے اپنے خط کی نقل کرنجوی صاحب کو بھیجی ہے تو اس خط کی نقل بھی بے شک ارسال کر دیجئے۔ ۲۸دسمبر۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی مقصود الہٰی شیخ صاحب!
آپ نے کسی ایڈیٹر کو کوئی مکتوب لکھا تھا اور اچھے جذبے سے لکھاتھاتومجھے اس کی کاپی نہیں بھیجنا چاہیے تھی۔کاپی بھیجی تھی تو پھر اپنی طرف سے میرے لیے کچھ لکھ دینا چاہیے تھا،تاکہ مجھے بات کا اندازہ ہو جاتا۔
پوپ کہانی کی بحث میں جتنی میری شرکت ہوئی ہے،اس میں آپ کی طرف سے تحریک بھی دلائی گئی تھی،اور بات سے بات نکلتے ہوئے رضیہ صاحبہ کی طرف سے تحریک ملی تھی۔آپ کے ساتھ اس ضمن میں جو خط و کتابت ہوئی تھی،اس میں کئی ایسی خامیاں تھیں،جنہیں میں تنقیص کے طور پر درج کر سکتا تھا۔لیکن میں نے ان باتوں کو ضمنی حیثیت دے کر صرف پوپ کہانی کے خدوخال کی طرف توجہ مرکوز رکھی۔اس میں آپ سے اختلاف کا پہلو نکلا تو اسے بھی احترام کے ساتھ ادبی زبان میں پیش کیا۔سو میری طرف سے کسی پتھر کی توقع مت کیجیے،جیسے میں احترام کو ملحوظ رکھتا ہوں،آپ اسی طرح درگزر سے کام لیا کیجیے۔کوئی ادبی بحث علمی دائرے میں چلانا چاہیں تو سر آنکھوں پر!کوئی اختلاف کی بات ادبی انداز میں آئے تو وہ بھی قبول۔۔۔۔میں آپ کا یہ خط کسی دوست کو بھیجنا مناسب نہیں سمجھتا،کیونکہ پھر اس کا جواب بھی بھیجنا پڑے گا۔
آپ کی صحت،تندرستی کے لیے دعا گو ہوں۔میری صحت تندرستی کے لیے بھی دعا کیجیے گا۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔
والسلام
آپ کا مخلص
حیدر قریشی ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۸مارچ ۲۰۱۳ءکی ای میل میں پھر میری رائے کے لیے تقاضا کیا۔
اس کے جواب میں میں نے مختصراً لکھا:
محترمی شیخ صاحب! یہ سب شیئر کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔اس ضمن میں آپ کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،جس سے پوپ کہانی کی تفہیم کا سلسلہ آگے بڑھ سکتا۔سو بات وہیں کی وہیں ہے۔جیسے جس کے دھیان میں آئی۔۔۔۔آپ کا مخلص حیدر قریشی
۲۸مارچ ۲۰۱۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں شیخ صاحب نے لکھا:
”بھائی! کیا بات کرتے ہیں آپ؟۔گرامر سے ہٹ کر کیا خیال کی کوئی اہمیت نہیں؟آپ مایوس کر رہے ہیں۔ مقصود ۲۸مارچ ۲۰۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر۱۸۔جولائی ۲۰۱۳ء