میٹننگ کے بعد اس نے پریس بریفینگ دینی تھی
آپ کی پولیس کیا کر رہی ہے آپ کا عملہ ہر جگہ دیر سے ہی کیوں پہنچتا ہے ؟؟ آج ہر جگہ جہاں آپ کو ہونا چاہیے وہاں ہماری آرمی کا کنٹرول ہے ؟؟؟ آپ کو نہیں لگتا کہ اس Department کو بھی آرمی کا بنا دیا جائے؟؟؟ یہ تنقیدی سوال ایک صحافی کی طرف سے آیا تھا
“یہ آپ کی کم علمی ہے کہ آپ کو پولیس کی دی گئی قربانیوں کا علم نہیں ہے مانا کہ ہم میں بہت سی خرابیاں ہیں جہاں برے لوگ ہوتے ہیں وہاں اچھے بھی ہوتے ہیں میں مانتا ہوں کو کہ کچھ جگہوں پہ آرمی ہماری جگہ کام کر رہی ہے مگر بہت سی جگہوں پر ہماری پولیس اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آپ کی حفاظت کے لیے معمور ہے اگر آرمی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے تو ہم سڑکوں پر کھڑے آپ کی حفاظت کرتے ہیں ”
اس Department میں اگر کالی بھیڑیں ہیں تو اسی department میں بہت ایماندار اور فرض شناس آفیسرز بھی ہیں”
وہاں سب لوگ سانس روکے اُس کو سن رہے تھے اس کے مظبوط دلائل نے ان سب کے منہ بند کر دئے تھے ۔۔۔
اپنی بات ختم کرنے کے بعد وہ مظبوط قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
وہ دونوں ریسٹورانٹ میں اپنا فیورٹ پیزا انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔۔
میں نے آج تمھاری پریس کانفرس سنی تھی اور یار کیا منہ توڑ جواب دیا تم نے کمال مزا آگیا!!!
بریفینگ ! عائدون نے تصیح کی ۔
جو بھی ہے ! معیز نے جیسے ناک سے مکھی اُڑائی۔۔۔ مگر جواب بہت اچھا تھا معیز نے شرارت سے کہا۔۔۔
وہ ہلکے سے ہنسا !
آخر دوست تو میرے ہو نا ! اُس نے سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی ۔۔۔۔
ہاں پر تم پر گیا نہیں ہو ! وہ کون سا کم تھا !!
معیز نے برا سا منہ بنایا۔۔۔۔
تمہارا آفس کیسا جا رہا ہے اور انکل آنٹی کیسے ہیں؟؟
وہ دونوں بچپن کے دوست تھے سکول اور پھر کالج تک وہ دونوں ساتھ تھے مگر اس کے بعد دونوں نے ہی الگ الگ department چنے تھے عائدون پولیس جبکہ معیز بزنس لائن میں چلا گیا تھا وہ اپنے پاپا کے ساتھ ہی ان کے آفس میں کام کرتا تھا۔۔۔۔
ماما بابا بلکل ٹھیک ہیں اور تمہیں یاد بھی بہت کرتے ہیں ۔
بس ٹائم نہیں ملا میں انشااللہ آؤں گا بہت جلد ان سے ملنے ۔۔۔ میں نے تم سے آفس کا بھی پوچھا ہے ۔۔۔ عائدون نے پیزا کھاتے معیز کو گھورا۔۔۔
کیا سناؤں میں تمہیں اپنی دکھ بھری داستان ، تم کیوں میرے زخموں کو چھیڑتے ہو تم دوست ہو کہ دشمن ۔۔۔۔
عائدون نے اسے اُس کے ڈرامے کرنے گھورا۔۔۔۔
اور پھر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔
اچھا میں اب سمجھا !!! وہ ڈرامائی انداز میں بولا ۔۔۔
معیز نے بھنویں اچکاتے ہوئے اسے دیکھا ۔۔۔ کیا؟؟؟
آج پھر انکل سے شاندار طریقے سے عزت افزائی ہوئی ہے میرے یار کی ۔۔۔۔
بس یہاں تک ہی سوچ ہے تمہاری۔۔۔۔ معیز طنز سے بولا ۔۔۔۔
تو پھر ۔۔۔۔ اُس نے پوچھا۔۔۔ کیا نہیں ہوئی؟
ہاں ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتے کہ رہا تھا ۔۔۔۔
ہوئی ہے عزت افزائی مگر شاندار طریقے سے نہیں ۔۔۔۔۔
اس کی بات پہ عائدون کا قہقہہ بے ساختہ تھا ۔۔۔۔
معیز دانت پیستے ہوئے اسے ہنستے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
منہ بند کرو گے کے میں اندر کرواو دانت تمھارے ۔۔۔ وہ چبا چبا کر بولا !
اوکے اوکے سوری!! عائدون نے مسکراہٹ ۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
اسلام علیکم انکل ! رابیل اعظم صدیقی کے آفس میں داخل ہوئی ۔۔۔
واسلام بیٹا کیسی ہیں آپ اور پیپرز کی سنائیں کیسے ہوئے
بہت اچھے ۔۔۔اور اب میں روزانہ آیا کروں گی آفس ۔۔۔
اوکے آپ کا آفس تیار ہے بس آپ کا انتظار کر رہا ہے ۔۔۔۔
وہ ہنسی جی جی ہم ایک دو دن میں قدم رنج فرمائیں گے آفس میں ۔۔۔ وہ شرارت سے بولی !
اس کی بات پر اعظم صاحب کا قہقہ بے ساختہ تھا مگر پیچھے صوفے پہ بیٹھا شخص بھی اپنا قہقہ نہیں روک پایا تھا ۔۔۔۔
اُس نے چونک کر پیچھے دیکھا وہ شخص اب اٹھ کر اِس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ رہا تھا ۔۔۔۔
اِن سے ملو یہ ہیں ایس پی عائدون حسن !
اور عائدون یہ رابیل ہے ایل ایل بی کے پیپرز دئیے ہیں اس نے ۔۔۔۔
عائدون نے اسے دیکھا اور پھر جیسے نظریں جھکانا ہی بھول گیا بلیک دوپٹے کو سر پہ اچھی لپیٹے وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی
وہ بہت خوبصورت نہیں تھی مگر اس کی مصومیت تھی جس نے عائدون کو باندھ لیا تھا ۔۔۔
ہیلو! وہ بمشکل اس کے سحر سے آزاد ہوا ۔۔
اُس نے بھی جواباً ہیلو کہا۔۔۔۔
کیسی ہیں آپ؟؟
جی ٹھیک ! وہ بمشکل بولی ۔۔۔۔
نظروں کے اس تصادم نے جیسے دونوں کو ہی اپنے سحر میں باندھ لیا تھا اور اس سحر سے پیچھا چُھرانا بہت مشکل تھا۔۔۔۔
چائے پی کے وہ جانے کے لیے اٹھی ۔۔۔
اوکے انکل میں چلتی ہو فریال کو بھی پک کرنا ہے کالج سے
اوکے بیٹا ۔۔۔۔
وہ دونوں کو خدا حافظ بول کے باہر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
اپنی گاڑی میں بیٹھ کے اُس نے بے اختیار گہرے سانس لیے اور گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔۔
“اف کیا تھا وہ شخص۔۔۔ کیسے لمحوں میں ہپناٹایز کر دیتا ہے وہ ابھی تک اُس لمحے کے سحر میں تھی ۔۔۔۔ ”
فریال کو کالج سے پک کرنے کے بعد گاڑی میں بھی وہ آج خاموش ہی تھی ۔۔۔۔
یہ لو تمہاری بک بہت مشکل سے ملی ہے ۔۔۔۔
بہت شکریہ تمہارا۔۔۔ “ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی کے writers اتنا اچھا کیسے لکھ لیتی ہیں وہ بھی زندگی کے حالات کے عین مطابق “۔
“رابی یہ ان writers کی observation ہوتی ہے جو وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے اور اپنی زندگی سے اور اپنے پیاروں کی زندگی سے observe کرتی ہیں ۔۔۔۔ ضروری نہیں ہے کہ ان کی زندگی میں بھی یہی سب ہوا ہو ”
وہ اپنی observations کو ایک خاص طریقے سے اپنے لفظوں میں ڈھالتی ہیں جس سے پڑھنے والا ان کے لفظوں کے سحر میں کھو جاتا ہے”
واؤ یار تم بھی نا کبھی کبھی بہت اچھی باتیں کرتی ہو۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔
میں کبھی کبھی نہیں ہمشہ ہی اچھی باتیں کرتی ہو وہ شرارت سے بولی ۔۔۔۔۔
فریال سچ میں تمہاری باتیں مجھے جکڑ لیتی ہیں یار تم بچپن میں تو ایسی باتیں نہیں کرتی تھی کہاں سے سیکھ لی۔۔۔۔
“میں اب ساتویں آسمان پہ خود کو محسوس کر رہی ہو” ۔۔۔۔ فریال شرارت سے بولی ۔۔
میں اتاروں تمہیں ۔۔۔
نہیں نہیں میں آ گئی ۔۔۔ اور پھر دونوں کی ہنسی گاڑی میں گونجی۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ رات کا کھانا کھانے کے بعد کمرے میں آیا کام کرنے کی کوشش کی مگر وہ چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آتا تھا اُس نے جیسے سر جھٹک کر اُس کے خیال سے پیچھا چھرانے کی کوشش کی مگر بہ سود پھر جیسے اُس نے ہار مان لی اور خود کو اُس کے خیالوں کے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔
” ایسا کیا ہے تم میں لڑکی کہ تم نے مجھ جیسے انسان کو اپنے سحر میں باندھ لیا ہے ”
اُس کا تو ایک ہی خواب تھا اپنے profession میں نام کمانا وہ لڑکی کب اُس کے خوابوں میں شامل ہو گئی تھی اُسے پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔
کسی بھی لڑکی کے لیے اُس نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا اور اب وہ مسلسل اُسی کی بارے میں سوچ رہا تھا
” محبت اپنے پر پھیلائے اُس پہ سایہ فگن ہو گئی تھی ”
فون کی بیل کی آواز نے اُس کی سوچوں پہ بند باندھا تھا
ہیلو !
ہیلو کے بچے کہا تھے کب سے فون کر رہا تھا کہیں میری سوتن کے ساتھ تو نہیں بزی تھے ؟؟ معیز نے چھوٹتےہی پوچھا ۔۔۔۔
عائدون کا اس کی بات پہ قہقہ بلند ہوا ۔۔۔۔
تم ابھی بھی اسے اپنی سوتن مانتے ہو ؟؟
ہاں ! وہ ڈھٹائی سے بولا۔۔۔
جب سے وہ پولیس لائن میں آیا تھا اس کا ملنا جلنا لوگوں سے کم ہو گیا تھا معیز اس کے پروفیشن کو اپنی سوتن سمجھتا تھا جس نے اس کی جگہ لے لی تھی۔۔۔۔۔
نہیں یار فری ہو میں تم نے کیسے یاد کیا ؟ وہ معیز کے ساتھ باتوں میں لگ کے جیسے اس نے اپنی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ عشاء کی نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تو فریال اُس کے کمرے میں آ گئی ۔۔۔۔
تم نے نماز پڑھ لی فری ؟
ہاں پڑھ لی ہے !
آج تم بہت خاموش ہو کیا ہوا؟؟
نہیں کچھ بھی نہیں ! وہ حیران ہوئی کہ فریال نے کیسے جان لیا۔۔۔۔
ٹھیک ہے اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو it’s ok ۔۔۔
فری محبت کیا ہوتی ہے ؟؟ وہ کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی اُس سے پوچھ رہی تھی ۔
فریال پہلے تو حیران ہوئی پھر اس کے چہرے پر جیسے کچھ پڑھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
“محبت ایک آفاقی جزبہ ہے رابی مگر تم کس محبت کی بات کر رہی ہو ؟؟
اُس نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔۔ اور اس کی بات سمجھنے کی کوشش کی ۔۔۔
ویسے ہی ناول میں پڑھا تھا تو اس لیے تم سے پوچھا ۔۔۔۔۔
اچھا چلو تم اب ریسٹ کرو اب اپنی نیندیں پوری کرو۔۔۔۔ فریال نے ہنس کے اسے اس کی بات یاد کروائی ۔۔۔۔
ہا۔۔۔ اب کہاں کی نیندیں !!! وہ دل میں بولی اور پھر مسکرا کر اس سے بولی ۔۔۔۔
ہاں ! Good night
شب خیر!!!
فریال کے جانے کے بعد بھی وہ اسے ہی سوچ رہی تھی اور پھر سب سوچوں پہ لعنت بھیج کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
ایک ہفتہ پیپرز کی تھکن اتارنے کے بعد وہ آج اعظم صاحب کے چیمبر میں آئی تھی آج اس کا پہلا دن تھا وہ بہت پرجوش تھی ۔۔۔۔
اعظم صاحب نے اسے ایک کیس پہ کام کرنے کو کہا تھا اور وہ اسی میں بزی تھی ۔۔۔۔
وہ فائل لے کے ان کے پاس گئی آفس کا دروازہ کھولتے ہی اسے جو شخصیت نظر آئی تھی وہ اس کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔
اب وہ واپس بھی نہیں جا سکتی تھی کیونکہ ان دونوں نےہی اسے دیکھ لیا تھا !
پتا نہیں یہ شخص یہاں کیوں آ جاتا ہے ۔۔۔۔ وہ بے بسی سے سوچ رہی تھی ۔۔۔۔
آؤ بیٹا!
انکل یہ فائل ۔۔۔ اسے نے بھولے سے بھی نظر نہیں اٹھائی تھی ۔۔۔۔
مگر دوسری جانب حالات اس کے برعکس تھے
وہ جس لڑکی کو دیکھنے کے لیے بہانے بنا کے یہاں آتا تھا آج اس کو دیکھ کے عائدون کی بےقراری کو جیسے قرار مل گیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کبھی ایسی حرکتیں بھی کرے گا ۔۔۔۔
آج اسے اُس کے ہر سوال کا جواب مل گیا تھا ۔۔۔۔ اور اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے اب آگے کیا کرنا ہے ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
رابیل اپنے آفس میں تھی جب تھوڑی دیر بعد دستک ہوئی ۔۔۔
آ جائیں !
ہیلو مس رابیل !
آواز سن کے اسے جیسے کرنٹ لگا اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور عائدون کو سامنے پا کر ٹھٹھک گئی ۔۔۔۔
وہ اس کے تاثرات کو انجوائے کرتے ہوئے زیر لب مسکرا دیا۔۔۔
آہم۔۔۔۔ وہ کھنکارا ۔۔۔۔ وہ جو ابھی تک منہ اٹھا کر اسے بے یقنی سے دیکھ رہی تھی ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔۔۔۔
بیٹھے ! وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
Thank you ورنہ مجھے تو لگا تھا کہ آپ مجھے باہر سے ہی بھاگا دیں گی ۔۔۔۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا ۔۔۔۔
وہ ہلکے سے ہنسی ۔۔۔۔ کیا لیں گے آپ ؟؟؟
کچھ نہیں میں بس آپ سے بات کرنے آیا ہوں سوچ تو کئی دنوں سے رہا تھا اب ٹائم ملا ہے ۔۔۔
جی بولیں ! ہاتھوں کی کپکپاہٹ روکنےکے لیے اس نے دونوں ہاتھوں کو باہم جکڑ لیا ۔۔۔۔
میں سیدھی اور صاف بات کروں گا ۔۔ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور اپنے ماما بابا کو اس سلسلے میں آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ آپ کی رائے لینی تھی ۔۔۔۔
وہ اپنی بات مکمل کر کے اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
اور وہ تو جیسے بےہوش ہونے کے قریب تھی ۔۔۔۔ اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔
اس نے تھوک نگلا اور اس کی طرف دیکھا مگر اس کی براؤن آنکھوں میں وہ زیادہ دیر دیکھ نہیں پائی اور نظریں جھکا کے بولی ۔۔۔۔
اس کا اختیار میرے ماما بابا کو ہے وہ جو سوچے گے جو چاہیں گے میں ان کا فیصلہ مانو گی چاہے وہ آپ کے حق میں ہو یا نا ہو۔۔۔۔ وہ دوٹوک انداز میں بولی ۔۔۔۔
Thank you so much میں بھی ان کے فیصلے پر سرتسلیم خم کروں گا۔۔۔۔ وہ اٹھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ اوکے سی یو سون !!!
خدا حافظ!!
خدا حافظ! وہ بھی آہستگی سے بولی !!!
※ ※ ※ ※ ※
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...