براعظم یورپ کے وسط میں واقع ملک، پولینڈ ایک ایسی سرزمین ہے، جس نے کئی بین لاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں کو جنم دیا۔ ان میں سے ایک نام’’یز زواسکی‘‘ کا ہے، جنہوں نے تین ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جس کو’’دی لونر ٹریولوجی‘‘ یعنی قمری تکون نما ناول نگاری کہا جاسکتا ہے، ان ناولوں کی کہانیاں تین حصوں میں تقسیم اور سہ رخی ہیں۔ یہ تخلیقی سیریز بے حد مقبول ہوئی، اس کو نہ صرف پولینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں پسند کیا گیا، بلکہ اس کی شہرت یورپ سے باہر بھی پہنچی۔پولش زبان کے یہ اہم ادیب، جن کو’’یز زواسکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1874 میں پیدا ہوئے، جبکہ 1915 میں وفات پائی۔ وہ ایک عمدہ ادیب ہونے کے علاوہ، زیرک فلسفی، حساس شاعر اور شاندار مترجم بھی تھے۔ فطرت سے دلچسپی ان کے مزاج کاخاص حصہ تھی، پہاڑوں کی مسافت، نئے نئے راستوں کی خاک چھاننے کا عمل، ان کے مزاج میں شامل تھا۔ وہ عملی زندگی میں کچھ عرصہ پہاڑوں میں قیام پذیر بھی رہے۔ وہ ادب کی صنف میں، خاص طورپر سائنس فکشن کے لیے بہت متجسس تھے، اپنی جہاں گرد طبیعت کے اثرات ان کے تخلیق کردہ ادب پر پائے جاتے ہیں۔
انھوں نے اس ٹریولوجی کو 1901 سے 1911 تک پر پھیلے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں لکھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے قبل، یورپ میں لکھے جانے والے مقبول ادب میں اس داستان نما ناول کا شمار ہوتا ہے، جس کا محور زمین کے علاوہ کوئی دوسرا سیارہ ہے، جہاں انسان اتفاق سے جاپہنچتے ہیں۔ یہ ناول شروعات میں ایک ادبی رسالے میں قسط وار شائع بھی ہوتا رہا، بعد میں کتابی شکل میں چھاپا گیا۔ اس اہم ترین ناول کے انگریزی، روسی، جرمن، ہنگرین سمیت کئی دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔اس پولش ادیب کا ادبی کیرئیر قابل رشک ہے۔ 21 سال کی عمر میں ان کی پہلی کتاب شائع ہوئی، جو ایک شعری مجموعہ تھا۔ ان کے سات شعری مجموعے اور تین ادبی نقد پر مشتمل کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں، جن میں ثقافتی اور فلسفیانہ مباحث پر اظہار خیال کیا، تھیٹر کے لیے دس کھیل بھی لکھے اور پانچ ناول بھی شائع ہوئے۔انہوں نے سائنسی ادب کی دنیا میں اپنی تخلیقات کے ذریعے نظریاتی بنیادیں فراہم کیں، جن پر بعد میں آنے والوں نے روشنی حاصل کی۔
پولینڈ میں ادبی ادوار کے لحاظ سے بیسویں صدی کے ابتدائی ادیبوں، جن کے ہاں، ادب کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور سائنس بھی اپنی جدیدیت کے ساتھ در آئی، ان کو’’ینگ پولینڈ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ پولش ادب کا پورا ایک عہد ہے، جس میں کئی نامور لکھنے والے پیدا ہوئے، ان میں سے ایک’’یز زواسکی‘‘ ہیں۔’’دی لونر ٹریولوجی‘‘ کے تین میں سے پہلے ناول کا عنوان’’چاندی جیسی رنگت والی دنیا میں‘‘ یاانگریزی زبان میں جس کو’’اون دی سلور گلوب‘‘ کہا گیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی خیال یہ ہے، چند خلاباز زمین سے چاند کی طرف محوِ سفر ہوتے ہیں، لیکن بھٹک کر کسی نئی دنیا میں جانکلتے ہیں، جہاں انسانوں کی بجائے کسی اور مخلوق سے ان کا سامنا ہوتا ہے، پھروہاں ان خلابازوں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں، ان میں سے کتنے زندہ واپس لوٹ پاتے ہیں، وہاں کن حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، تو اس جنگ میں شامل ممالک میں سے ایک پولینڈ بھی تھا۔’’یز زواسکی‘‘ نے ان حالات میں اپنے ملک کی فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، ان کی چونکہ ادبی شہرت کافی تھی، اس لیے ان کو جنگی فرائض میں، ایک اخبار کی ادارت ملی، اسی طرح کی دیگر قلمی مصروفیات میں یہ اپنے ملک کی آزادی حاصل کرنے میں کوشاں رہے۔ پہلی جنگ عظیم جاری تھی، جب یہ علیل ہوئے اور انتقال کرگئے۔ان کے مشہور زمانہ ناول’’دی لونر ٹریولوجی‘‘ کو مقامی فلمی صنعت نے بھی متن کے اعتبارسے محسوس کیا اور اس پر فلمیں بنائیں، ان کے پہلے ناول’’چاندی جیسی رنگت والی دنیا میں‘‘ پر بننے والی فلم کا ہم نے انتخاب کیا ہے، جس کاعنوان ناول کے نام پر ہی ہے۔یہ فلم 1988 میں پہلی بار’’کینزفلم فیسٹیول‘‘ میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جبکہ اگلے ہی برس اس کو پولینڈ میں بھی ریلیز کر دیا گیا اوراس کو باکس آفس پر کامیابی بھی ملی۔ اس فلم کے ہدایت کار ’’آندرے زواسکی‘‘ تھے، جو خود بھی بہت اچھے ناول نگار اور’’یززواسکی‘‘کے رشتے میں بھتیجے لگتے تھے، انہوں نے اس ناول سے انصاف کرتے ہوئے باکمال فلم بنائی، جو دیکھنے لائق ہے۔اس متذکرہ فلم کو پولش سینما میں آرٹ فلم کا درجہ حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے، جب ستر کی دہائی میں اس فلم کی عکس بندی کا آغاز ہوا، تو اس وقت کی کمیونسٹ سرکار کو محسوس ہوا کہ یہ ان کے فکری نظریات کے خلاف بنائی جانے والی فلم ہے، جس میں استعارے اور علامتوں کی آڑ میں تنقید کی گئی ہے، بحکمِ سرکار اس فلم کے متعلق ہر طرح کے مواد کو ضبط کیا گیا، اس کے باوجود فلم کے پرنٹ کسی نہ کسی طرح ملک سے باہر اسمگل کیے گئے، کمیونزم کے زوال کے بعد اس فلم کی تکمیل ہوئی، البتہ کچھ پرانے پرنٹس ضائع بھی ہوگئے، پھر بھی ایک بڑا حصہ محفوظ کرلیا گیا، جس کی بنیاد پر فلم مکمل ہوکر فلم بینوں تک پہنچی اور مقبول ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...