مع انجمن آرا ملکہ مہرنگار کے پاس بہ ہمراہیٔ رفیق کاملِ سبز لباس اور
مطلع ہونا وہاں کے بادشاہ کا، بھیجنا سپاہ کا، پھربدولتِ نقش مطیع ہو جانا
اُس فوج کا، داخلہ لشکرِ دریا موج کا
نظم:
پلا دے تو ساقی مے لالہ فام
وہ مے دے کہ ہوں دور دل سے الم
جدائی کے ایام طے ہو چکے
مچا دوں کوئی دم بھلا چہچہے
مثل ہے یہ مشہور اے ذی شعور
ہُوا چاہتا ہے یہ قصہ تمام
کہ ہوتے ہیں معشوق و عاشق بہم
شبِ ہجر میں خوب سا رو چکے
کہ رنج جدائی بہت سے سہے
کہ ہے رنج کے بعد راحت ضرور
محرّرانِ حالِ طالب و مطلوب و حاکِیانِ حکایاتِ خوب و مرغوب لکھتے ہیں کہ وہ پرندۂ ہوائے شوق یعنی جان عالم مع ماہ لَقا انجمن آرا اور طائرِ زمردیں لباسِ دشت پیما، آٹھویں روز ملکہ کے پاس پہنچا۔ یہاں جس دن سے توتا رخصت ہوا تھا، ملکہ مہرنگار دونوں وقت بلا ناغہ باغ میں آتی تھی، درخت خالی دیکھ کر گھبراتی تھی۔ بیش تر صبح و شام وہ ناکام، اُس درخت کے تلے جہاں توتا ملا تھا، یہ کہتی تھی، میر سوزؔ:
مانندِ جرس پھٹ گئی چھاتی تو فُغاں سے
فریاد کو پہنچا نہ کوئی راہ رواں سے
اُس روز موافقِ معمول وہ دل ملول قریبِ شام درخت کے نیچے حزین و زار، توتے کے انتظار میں کھڑی تھی اور آنکھ ٹہنی سے لڑی تھی۔ دیدۂ خوں بار سے دریا اُمڈا تھا، اشکِ مسلسل سے تا دامن یا قوت اور موتیوں کی لڑی تھی۔ جب دلِ سُوختہ گھبراتا، تو سُوزِ دَروں مِثلِ دُخاں لب پر آتا۔ جی بہلانے کو یہ غزل پڑھتی، مُؤلِّف:
آتَشِ فُرقت سے سینہ جب سے مِجْمَر ہو گیا
باعِثِ اِفشائے ذِلّت دم نہ مارا میں نے گاہ
نَزْع تک تو آمدِ جاناں کا کھینچا انتظار
کیا ڈراتا ہے ہمیں واعظ سُنا شورِ نُشور
اب جو ہنستا ہوں تو ہنستے ہنستے بھی گرتے ہیں اشک
فکر پھر کس کو ہو دیواں جَمع کرنے کی سُرورؔ
بُھن کے لختِ دل مرا ہر ایک، اَخگر ہو گیا
ورنہ زیرِ آسماں کیا کیا نہ مجھ پر ہو گیا
وہ نہ آیا، وعدہ اپنا یاں برابر ہو گیا
شامِ فرقت، یاں عذابِ روزِ محشر ہو گیا
روتے روتے، آخِرش رُونے کا خوگر ہو گیا
جب کہ ہو مجموعۂ خاطر ہی اَبتر ہو گیا
دفعتاً توتے نے سلام کیا۔ وہ خوش ہو کر بولی: اے قاصدِ نیک صدا و ہُد ہُدِ شہْرِ سَبا! میرے سلیمانِ حُسن و خوبی کا پتا، یا اُس بِلقيس محبوبی کا سُراغ ہاتھ آیا؟ توتے نے کہا: اے ملکۂ عالمِ قَدْر داں! خبرداروں کو خِلْعَت و انعام دیتے ہیں، جب دوست کا پیغام پوچھتے ہیں، عَلَی الْخُصوص یہ خبرِ فرحت اثر! پہلے یہ اِرشاد ہو کہ اگر کچھ پتا بتاؤں گا، تو اُس کی اُجرت کیا پاؤں گا؟ یہ سُن کے ملکہ کی جانِ رفتہ بدن میں آئی۔ يقين ہوا، اِس نے مُفصّل خبر پائی۔ یہ کہا، اُستاد:
پیغامِ دوست جلد تو پیغام بَر سُنا
گھبرا کے دم ہی جائے نہ میرا کہیں اُلٹ
توتا عرض کرنے لگا: حضُور کا اِرشاد واقعی بجا ہے، مگر ایسی خبر کا جلد کہنا، حُمُق کا مُقتضا ہے۔ اُستاد:
دفعتاً خوگرِ فُرقت کو نہ دے مُژدۂ وصل
خبرِ خوش نہیں اچھی جو یکایک ہووے
توتا تقریر کو طول دیتا تھا۔ کبھی خوش، گاہ مَلول کر دیتا تھا۔ ملکہ بے چین ہوئی جاتی تھی۔ اِدھر شہزادے سے زیادہ انجمن آرا گھبراتی تھی۔ غرض نہ رہ سکی، صورت بدلی۔ جانِ عالم بھی مُجَسَّم ہو کے سامنے آیا۔ آپَس میں عاشق و معشوق و معشوق و عاشق خوب گلے مِل مِل کے رُوئے۔ غُبارِ کُلْفَتِ پارینہ، داغِ مُہاجَرتِ دیرینہ دل کھول کر صَفْحۂ سینہ سے دھوئے۔ رُونے کی آواز سے مُغلانیاں، خواصیں جمع ہوئیں۔ جس کی آنکھ اِن دونوں پر پڑی؛ دوڑ کر صدقے ہوئی اور پاؤں پر گر پڑی۔ جَلَّ جَلالُہٗ! حُسنِ خوب سے، کوئی چیز زیادہ دِلکش اور محبوب نہیں۔ دوست تو دوست ہے، دُشمن غش کر جاتا ہے۔ لڑکا ہو یا بوڑھا، شَیدا نظر آتا ہے۔ مال تو کیا مال ہے؛ سُوت کی اَنْٹی بھی اگر پاس ہو، تو اَنْٹی ماری سے خریدار بن جاتا ہے۔ جان عزیز نہیں، حُرمت کچھ چیز نہیں۔ غلام کی غلامی پر آقا فخر کرتا ہے۔ جانِ تازہ پاتا ہے جو کوئی کہتا ہے کہ: یہ اُس پر مرتا ہے۔ عِياذًا بِاللّٰہ یہ اَمر محمود نہیں۔ اِس میں غیرِ ضَرَر کچھ سود نہیں۔
غَرض کہ خُرّم و خَنداں بارہ دری میں آئے۔ انجمن آرا سے ملکہ نے حال پوچھا۔ اُس نے دیو کا اُٹھا لے جانا، باغ کی بے سَروپائی؛ پھر جانِ عالم کی رَسائی اور سفید دیو کا آنا، باہم کی لڑائی، پھر اُس کو قتل کر کے آفت سے چھڑانا؛ اپنی پِیادہ پائی، صحرا نَوردی، ہَوا گرم، پاؤں کا وَرَم؛ پھر وہ عَمَل جُوگی کا بتایا ہوا شہ زادے کا سِکھانا، باد ہَوائی سفر، توتے سے درخت پر مل جانا سُنا دیا۔ پھر اُس نے جانِ عالم سے سَرگُذشت پوچھی، اپنی صُعوبَت کہی۔ گُذشتہ کا حال میں ذِکْر کر کے، جو کچھ دھیان بندھا، پھر سب رُونے لگے۔ توتا بد مزہ، خفا ہوا، کہا: صاحِبو! اب یہ قصّہ بکھیڑا دور کرو، سجدۂ شکر بجا لاؤ، کھیلو کھاؤ، ہنسی خوشی کا مذکور کرو۔ یاد رکھو یہ بات: گذشتہ را صَلْوات۔
مصحفی:
جُز حسرت و افسوس، نہیں ہاتھ کچھ آتا
ایّامِ گذشتہ کو کبھی یاد نہ کیجے
ملکہ بولی: اے شیریں مَقال، مبارَک قَدَم، خُجَستہ فال! شہ زادے کے برابر عقل کا دشمن کسی نے دیکھا نہ سُنا ہو گا۔ سوزؔ:
معلوم ہم کو دل کے سُلوکوں سے یہ ہوا
نادان ہے جو دوست، وہ دشمن ہے جان کا
اِس نے جتنی محنت و مَشقّت اُٹھائی، اپنی بد عقلی کی سزا پائی۔ بھلا عالَمِ تنہائی میں جو کچھ کیا سو کیا؛ دو تین بار اپنے ساتھ ہم دونوں کو خراب، آفت کا مبتلا کر چکا ہے، آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر، دَر بہ روئے دشمناں بند، دوست با دِلِ خُر سَند باہم بیٹھے اور دَورِ ساغَربے دَغْدَغَۂ فلکِ تَفْرِقَہ پسند و سِفْلہ پَروَر شُروع ہوا۔ مُطْرِب نے ساز کی ناسازی پر گوشُمالی دی، صدائے عیش و طرب بلند ہوئی۔
یہ خبر بارہ دری میں مشتہر ہوئی اور وہاں کے بادشاہ کو پہنچی کہ ایک مرد صاحِب جمال، دوسری عورت پری تِمثال ملکہ کے پاس تازہ وارِد ہوئی۔ کہنے لگا: الحمد لِلّٰہ گھر بیٹھے یہ عنایتِ پَروردگار ہے۔ نصیب چمکا ہوا ہے، طالع یار ہے۔ ایک موجود تھی، دو اور آئے۔ اُسی دم دو ہزار سوارِ جَرّار اور دو سپہ سالارِ تَجْرِبہ کار نگہ بانی کو بھیجے۔ جانِ عالم نے یہ ماجرا سنا، کہا:فَضْلِ الٰہی چاہیے، بعدِ مدّتِ مَدید یہ صحبتِ ہَمدیگر مُیسَّر ہے، صُبْح کو سمجھ لیں گے۔ سوار تو باغ گھیرے کھڑے رہے، یہاں تمام شب جلسے بڑے رہے۔
جس وقت خُسرَوِ خاوَر آرام گاہِ مشرق سے بر آمد ہو کے جلوہ گرِ تختِ زَنْگاری ہوا اور سِپَہ سالارِ انجم مَع سوار، پیدل ثَوابِت و سیّارہ کے، کوہِ مغرب کی طرف فَراری ہوا؛ جانِ عالم حَمّام سے غسل کر کے نکلا۔ اُس لَوح سے اسمِ تسخیر پڑھتا باغ کے دروازے پر آیا۔ جس کی نگاہ پڑی، دبدبۂ شوکت اور اِسْم کی برکت سے آداب بجا لایا، دست بستہ رو بہ رو آیا۔ وہ دو ہزار سوار مع سِپَہ سالار فرماں بردار ہوئے؛ پھر تو دروازہ بہ کُشادہ پیشانی کھولا۔
یہ خَبرِ وحشت اثر اُس بادشاہ کو پہنچی؛ اور سوار پِیادے، لڑائی کے آمادے بھیجے۔ وہ بھی جب سامنے آئے، گھبرائے، حلقۂ غُلامی کان میں ڈالا، جنگ کا خیال نہ رہا۔ پھر تو مشہور ہوا کہ ساحِر ہے۔ المختصر، تمام فوج آ کر شریک ہوئی۔ اُس وقت وہاں کا تاج دار طیش کھا کے سوار ہوا۔ کہاں یَکَّہ سوار، کجا اَنْبُوہِ بے شمار! تلوار چلی، دس بارہ زخمی ہوئے، کچھ جان سے گئے۔ اور فوج نے نَرغا کر جان سے تو نہ مارا، کمندوں میں پھنسا لیا اور جانِ عالم کے حوالے کیا۔ شہ زادۂ عالی حوصلہ خوفِ خدا سے اور نحوستِ طالعِ نارَسا، کج ادا سے مِثلِ بِید کانپا اور فرمایا: اللّٰہ وہ وقت کسی کو نہ دِکھائے جو اپنی فوج یا رعیّت حاکم سے ناراض ہو۔ دوست دشمن ہو جائے، عداوت سے پیش آئے۔ یہ ارشاد کر کے اُس سے بَغَل گیر ہوا، برابر بِٹھایا، قتْل سے ہاتھ اُٹھایا۔ وہ بے چارہ نادِم و پشیماں، سَر دَر گریباں، گھٹنے پر گردن جھکا، مُنفَعِل، خاموش بیٹھا۔ شہ زادے نے کہا: مسافر کُشی صِفْتِ شاہی سے بعید ہے۔ ہم تمھارے مہمان تھے، تم نے دعوت کے بدلے عداوت کی؛ اللّٰہ کو یہ بات پسند نہ ہوئی، عبرت کا تماشا دکھایا۔ یہ تخت، یہ سلطنت آپ کو مُبارَک رہے۔ بندہ غریبِ دِیار، کمر باندھے چلنے کو تیّار ہے۔ اِس لڑائی کا قصّہ، فَسانہ ہو جائے گا۔ اِمرُوز یا فَردا یہ مسافر روانہ ہو جائے گا۔ وہ اِس کی فصاحت و بلاغت اور یہ سیر چشمی دیکھ کر حیران ہوا، کہ دشمن کو گرفتار کیا، پھر مُلک بخش دیا۔ سر جھکا کربولا: بہ خُدائے عَزّ و َجَل لائقِ حکومت، قابلِ سلطنت آپ کی ذاتِ فَرخُندہ صِفات ہے۔ جانِ عالم نے کہا: آپ یہ اپنی تعریف کرتے ہیں، وگرنہ من آنم کہ خوب می دانم۔
اَلقِصّہ، وہ محجوب ہو کر رخصت ہوا۔ فوج کو صُلح جو ثابِت ہوئی، اپنے بادشاہ کے ہمراہ چلی گئی۔ جب یہ جنگِ زَرگَری ہو چکی؛ مکان پر آ کر بہت تیّاری اور تکلّف سے دعوت کی اور عُذرِ تَقصیر کر کے عَفو کا اُمّیدوار ہوا۔ شہر والے یہ خبر سُن کے ایسے مشتاق ہوئے کہ غول کے غول آنے لگے۔ روز باغ کے دروازے پر میلا رہتا تھا، کسی وقت وہ کوچہ نہ اکیلا رہتا تھا۔
پھر جاسوس، شُتُر سوار، ہرکارے فوج کے تجسس میں بھیجے۔ چالیس منزل پر لشکر ملا۔ جانِ عالم کی مُفارَقت سے کسی میں جان نہ تھی۔ فرمانِ مُہری دیکھ کر سب نے جانِ تازہ پائی، مُہر آنکھوں سے لگائی۔ رات دن کوچ کرتی، بیس پچّیس دن میں بہ رسمِ یَلغار، فوج داخل ہوئی۔ شہ زادہ لشکر کو مُلاحظہ کر کے مسرور ہوا، ملال بھولا، رنج دور ہوا۔ اَرکانِ سلطنت نے ملازمت حاصل کی، سب نے نذر دی۔ مُوافقِ قَدر و مَنزِلَت خِلْعَت اور انعام خاص و عام کو مَرحَمَت ہوا۔ اور رِعایا بَرایا، بازاری، دُکان دار، اہلِ حِرفہ کو بھی کچھ دیا۔ فوج کے سرداروں کو خِلعَتِ جواہِر نِگار، سِپَر و شمشیر مُرَصَّع کار عنایت کر کے، دو ماہہ تمام فوج کو انعام میں دیا۔ اَز سَرِ نو لشکر چمکا دیا۔ پھر وہاں سےکوچ ہوا۔ وہی راہ میں جلسے، اِختِلاط، فَسانے، حِکایات، عیش و نَشاط۔ توتا ہنْساتا، رَمز و کِنایے کرتا، لطیفے سناتا، دِل بہلاتا جاتا تھا۔ ہر صُبْح با خاطِرِ شِگُفتہ مِثلِ نکہتِ گُل کوچ۔ ہر شام بَسانِ فصلِ بہار بہ آسائش مُقام۔ روز و شب بہ راحت و آرام کبھی کوچ، کبھی مُقام کرتے چلے۔