(Last Updated On: )
ہم وارث تخت تمنا کے
ٹھہرے منظر کے سائے سے کب نکلیں گے
دکھ کی دیروز سرائے سے کب نکلیں گے
ہم آب سراب کے دریا کو
دریا، کیسے تسلیم کریں
اے دل والو!
کچھ چھینٹے شوق تغیر کے ہم پر ڈالو
دھڑ پتھر کے متحرک ہوں
ہم وارث تخت تمنا کے
سانسوں کی حبس حویلی میں، جینا اپنا معمول کریں
آ تہمت کفر قبول کریں
آ برسیں ٹوٹ کے آنکھوں سے
مرجھائے وقت کی ظلمت کو، سیراب کریں
پھر نشوونما کا شجر اگے
امکان کے فردا زاروں میں
پھر موسم کے میخانے کا در کھل جائے
میخواروں پر، دروازۂ منظر کھل جائے
پھر عرش، زمیں کی باہوں میں
باہیں ڈالے
اس بستی کی، دہلیز پہ آ کر رقص کرے
ہر لمحے کی پھلواری میں
طاؤس تغیر رقص کرے
***