ہرصبح کی طرح ان ماں بیٹے کا دن افراتفری میں ابتداء ہو چکا تھا ۔آسیہ ہاشم کو تیار کرنے کے پورے جتن کر رہی تھی مگر وہ بھی اپنے ماں باپ کی اولاد تھی ۔اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں پیروں سے آسیہ (ہاشم کی بے بی سیٹر) پر تشدد کرنے میں لگا پڑا تھا ۔ہر زور کی وہی ضد کہ ماں کے علاوہ کوئی دوسرا اس کو ہاتھ بھی نا لگائے ۔روفہ بھی اسی کی ماں تھی ۔اس کی عجیب و غریب زبان کو نظرانداز کرتی آفس کے لیے تیار ہو رہی تھی ۔
آخری نظر اپنے سادہ مگر پرکشش جاذب نظر پروقار سرپے پر ڈالی آگے بڑھ کر ایک کندھے پر اپنا بیگ ڈالا جبکہ دوسرے کندھے سے ہاشم کو لگایا جو ماں کے پاس آتے ہی مسکرا کر اس کا ڈوپٹا سر سے اتار کر منہ میں ڈالنے کے طریقہ ڈونڈھ رہا تھا ۔
آسیہ بھی جلدی سے روفہ کا لیپ ٹاپ بیگ اور ہاشم کا بے بی بیگ جس میں اس کی ضروت کا سب سامان موجود تھا اس کو اٹھائے روفہ کی تقلید میں کمرے سے نکل گئی ۔
“السلام علیکم”
ایک نظر پورے ڈائینگ حال پر ڈالتی اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔
فودیل کی نظریں اس کے وجود کی سحر انگیزی میں الجھ کر رہ گئیں ۔پنک سادہ لان کے سوٹ جس پر گرین پرینٹ کے ساتھ ہلکی ہلکی کڑھائی ہوئی تھی بالوں کو ہمیشہ کی طرح اونچے جوڑے میں قید کیے ڈوپٹا سر کی زینت بنائے بغیر میک اپ کے دھلے چہرے کے ساتھ بائیں ہاتھ میں قمیتی گھڑی پہنے تمام سادگی سمیت اس کا چین لوٹ گئی تھی ۔ہاشم کا فریش چہرہ دیکھ کر وہ دھیما سا مسکرا دیا ۔یہ دونوں ہی تو اس کی کل کائینات تھے اب ۔۔
ایک سال تک تو اس نے سب کے ساتھ ایک ٹیبل پر کھانا ہی چھوڑ دیا تھا ۔مگر جس کی وجہ سے چھوڑا تھا آج اس کو دیکھنے کے لیے سب سے پہلے ٹیبل کر آکر بیٹھا تھا ۔رات کو اسے قریب سے دیکھ لینے کے بعد تو دل مزید بے قرار ہو گیا تھا ۔ابھی تو بہت مرحلے باقی تھے جانے وہ معاف بھی کرنے والی تھی یا نہیں ۔۔
” آسیہ جاو جلدی سے کیچن سے ہاشم کا فیڈر لے کر آو پہلے ہی دیر ہو رہی ہے ۔”
ایک نظر کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈال کر جوس پیتے ہی آسیہ کو ہدایت کی ۔ساتھ ساتھ ہاشم کے ہاتھوں کو بھی قابو کیا ہوا تھا جو لپک لپک کر اس کے ہاتھ میں پکڑے جوس کے گلاس کو پکڑنے کے لیے مچل رہا تھا ۔
اس کی کھنگتی آواز پر فودیل نے ٹھٹھک کر اس پر نگاہ ڈال کر ہائیسم اور عالم کو دیکھا جو خود بھی اس کی تیاری اور جلدبازی پر الجھ کر اس کو دیکھ رہے تھے ۔
” اتنی صبح صبح کہاں جانے کی تیاری روفہ بچے ابھی دو دن پہلے ہی تو اسلام آباد سے لاہور ٹرانسفر کے آڈرز ملے ہیں آپ کو ۔۔غالبا جہاں تک مجھے معلوم ہے آفس تو آپ کو پرسوں سے جوائین کرنا تھا ۔”
عالم کے پوچھے پر روفہ نے بریڈ کا سلائیس کھا کر ٹشو سے ہونٹ صاف کرکے اثبات میں سر ہلایا ۔
وہ خود پر فودیل کی نظریں بڑی اچھی طرح محسوس کر رہی تھی ۔۔جاننے کے باوجود بھی اس نے ایک نگاہ غلط بھی اپنے مجازی خدا پر ڈالنا گوارہ نا کیا ۔۔
” جی بابا ایسا ہی ہے مگر کل آفیشل میل آئی تھی مجھے ۔۔آج لاہور ڈی سی سے مینٹنگ ہے میری ۔ابھی ڈیوٹی جوائین کیے تین ماہ ہی ہوئے تھے اور میں نے ٹرانسفر کی درخواست دے دی اس لیے بلایا ہے مجھے خیر ڈی سی شہباز تو آپ کے جاننے والے ہیں تبھی بس فارمیلٹی پوری کرنے کے لیے جانا پڑے گا ۔”
” کب تک آجاو گی ؟؟ بالکہ ایسا کرو کہ ہاشم کو میرے پاس ہی چھوڑ جاو تم کہاں اس کو آفس میں ساتھ ساتھ رکھو گی کام کرو گی یا اس کو سنبھالو گی ۔۔”
اس کے عالم کو جواب دینے پر فضا نے پیش کش کی جس پر روفہ دھیما سا مسکرا کر ہاشم کو دیکھنے لگی ۔
اس کی مسکرہٹ میں جادوئی طلسم تھا ۔کوئی مرد بھی ان کٹاودار ہونٹوں کے دھیمے پھیلاو پر بے خود ہو جائے تو فودیل زکی کیونکر نا ہوتا ۔۔وہ بس ان نازک سندور مانند قدرتی لالی سمیٹے لبوں کی ساخت میں جکڑا گیا تھا ۔
” میرا بیٹا مجھے ہر کام ہر فرض سے اول اور ضروری ہے ۔اس کے لیے تو میں آپنا آپ بھی قربان کر دوں ”
روفہ کی ہلکی آواز میں کہنے پر سب ہی دونوں ماں بیٹے کو دیکھ کر مسکرانے لگے ۔جو اب ترتیل کی پلیٹ سے چمچ پکڑ کر ٹیبل پر بجا رہا تھا ۔اور بیچ بیچ میں روفہ کے دوسری جانب بیٹھے جلیس کے سر پر بھی بجا دیتا جس پر ہدا مسلسل مسکراہٹ ضبط کر رہی تھی ۔۔
فودیل روفہ کو دیکھنے لگا جو ہاشم کی شرٹ کو ٹھیک کرکے اس کا ہاتھ صاف کر رہی تھی ۔۔ماں کی محبت کی پرچھائی اس کے مکھڑے کو مزید دلنشین بنا رہی تھی ۔وہ ہاشم کو دیکھ کر آسودگی سے مسکرا کر سر جھکا گیا ۔عالم فودیل کی ایک ایک حرکت نظروں کے زاویے اور تاثرات کو نگاہ میں رکھے ہوئے تھے ۔
چلو وہ نا سہی کم ازکم اس کے خون سے بنی اولاد سے تو روفہ کو محبت تھی ۔فودیل نے سوچا۔
” اچھا ماما میں جارہی ہوں اللہ حافظ بابا ۔”
” ٹھہرو روفہ میرا ہو گیا ہے ۔میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں ۔”
ترتیل کو آخری نوالہ کھلا کر جوس پینے کا کہا ۔ ہائیسم نے روفہ کو پیچھے آنے کا کہہ کر زبرستی ہاشم کو اٹھا لیا ۔۔
جو ماموں کے پاس جاتے ہی احتجاج کرتا چینخ پڑا ۔۔
روفہ اس کے رونے پر جلدی سے ترتیل اور آسیہ کے ساتھ ہائیسم کے پیچھے لپکی ۔فودیل کی نگاہیں روفہ کی پشت پر تھیں جبکہ عالم کی زیررک نگاہیں فودیل کی جانب تھیں ۔
آفس چئیر پر بیٹھے ہائیسم کی نظریں فائیل کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھیں ساتھ ساتھ ایک نگاہ وہ گھڑی پر بھی ڈال رہا تھا ۔دو بجنے والے تھے آج ڈرائیور چھٹی پر تھا جس کی وجہ سے اسے ہی ترتیل کو کالج سے لینے جانا تھا ۔
” آفاق کل بارہ بجے تک مجھے اس فائیل پر موجود ساری ڈیمانڈز میل کر دینا اور جو بھی ہماری شرائط ہیں وہ شوکت بلڈرز کو نوٹس میں بھجوا دینا ۔کوئی گڑ بڑا نا کرنا ۔باقی میں آپ کو صبح تک بنا دیتا ہوں اس ڈیل کا ”
ابھی اس کی بات منہ میں ہی تھی کہ فون کی چنکھاڑتی آواز پر وہ جھلا کر سکرین پر نمبر دیکھے لگا جو کہ انجان تھا ۔
” اچھا تھوڑی دیر تک بتاتا ہوں ابھی آپ باقی کا کام کرو ۔۔”
اپنے سیکٹری کو بھیج کر فون کو اٹھایا جو ایک بار بند ہونے کے بعد پھر سے بجنے لگا تھا ۔۔
” ہیلو جی اسلام عیلکم ۔”
اپنی مخصوص گھمبیر بھاری آواز میں بولا مگر دوسری طرف کی بات سن کر اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا ۔ہڑبڑا کر چابی اٹھائی اور اگلے چار منٹ میں وہ اپنی آفس بلڈنگ کی پارکنگ ایریا کی طرف بھاگ رہا تھا ۔۔
اڑی رنگت سمیت جیسے ہی ہائیسم گھر میں داخل ہوا تو حسب توقع سب ہی اپنے اپنے کاموں کو جا چکے تھے صرف ہدا اور فضا ہی گھر پر تھے جو کہ شاید اپنے اپنے کمروں میں تھیں ۔۔
وہ اردگرد کا ہوش بھلائے دو دو کرکے سیڑھیاں پھلانگ کر ایک ہی جھٹکے میں اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر داخل ہوا ۔
ترتیل بیڈ پر اوندھے منہ آڑھی ترچھی لیٹی بری طرح رو رہی تھی ۔۔ہائیسم کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینج لیا تھا ۔ اس کے اس طرح زارو قطار رونے پر وہ پریشان ہوتا اس کے پہلو میں بیڈ پر بیٹھا ۔
” ترتیل کیا ہوا ہے جان ۔۔کیوں رو رہی ہو اتنا ۔اٹھ کر بیٹھو ۔تالی مجھے پریشانی ہو رہی ہے ۔میری بات تو سنو سویٹی ۔۔”
اس کے تکیے پر اپنا بازو رکھ کر اوندھے منہ ہچکیاں بھرتی ترتیل کے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیر کر محبت سے بولا ۔۔کچھ دیر اس کے بولنے کا منتظر رہا مگر اس کے یوں ہی رونے پر زبردستی اس کو سیدھا کرکے اپنے سامنے بٹھایا ساتھ ہی اس کی پتلی سی کمر کے گرد اپنے بازو کا حصار کھینچا ۔
” اففف اللہ ترتیل یہ کیا حالت کی ہوئی ہے اپنی ۔ ناچپ ہو رہی ہو نا بتا رہی ہو ۔میری پیاری جان کچھ تو بتاو ۔کیا ہوا ہے ۔طبیعت خراب ہے ہاں ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے ؟؟ ”
اس کے لال بھبھوکا چہرے اور متواتر عارضوں پر بہتے آنسو دیکھ کر ہائیسم دھک سے رہ گیا تھا ۔وہ یوں کبھی نہیں روئی تھی جس طرح آج رو رہی تھی ۔اب تو پریشانی سے اس کو اپنے حواس گم ہوتے محسوس ہو رہے تھے ۔۔
” وہ ۔۔۔وہ ۔۔آج ۔۔ککک کالج ۔۔۔کالج میں ۔۔”
” ہاں بتاو کیا ہوا کالج میں کسی نے مذاق اڑایا ہے نا تمہارا ؟؟ نام بتاو اس کا زندہ نہیں چھوڑنا میں نے اس کو ۔”
اس کے یوں ہچکی کے درمیان بولنے پر وہ تڑپ ہی اٹھا تھا ۔۔اتنی بری حالت تھی اس کی کہ غصے میں وہ خود ہی اس کے رونے کا اندازہ لگانے لگا ۔۔
” بتاو سویٹی کیا ہوا تھا کالج میں ۔۔میں تمہارے پرینسپل سے مل کر خبر لیتا ہوں ساری ۔کالج نا ہو گیا سرکس ہو گیا۔کوئی بھی منہ اٹھا کر کچھ بھی بول دیتا ہے نا کوئی پوچھنے والا ہے نا کوئی ٹوکنے والا ”
اس کے برہمی سے بولنے پر ترتیل نے سر اس کے کندھے پر رکھ کر نفی میں سر ہلایا ۔۔
” کیا نہیں ۔؟؟ اور پہلے رونا تو بند کرو یار ۔ انکھیں سوجا لی ہیں رو رو کر ۔”
اس کے آنسو اپنے کندھے پر گرتے محسوس کرکے پچکار کر بولا ساتھ ہی اپنے سینے میں بھینج لیا ۔وہ اس کے کالج جانے کا مصمم ارادہ باندھ چکا تھا کہ نظر ترتیل کے ہاتھ پر پڑی ۔۔
” یہ کیا ہے تالی ۔ ”
اس کو دیکھ کر پوچھا پر اس کے ہنوز جواب نا دینے پر خود ہی اس کے ہاتھ سے لے کر دیکھنے لگا ۔
اور پھر کتنی ہی دیر وہ کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں ہو سکا تھا الفاظ جیسے زبان کا ساتھ ہی چھوڑ چکے تھے ۔کمرے میں صرف ترتیل کی مدھم سسکی یا ہائیسم کی تیز سانسوں کی آواز وقفے سے وقفے سے گونج رہی تھی ۔
کچھ دیر بعد جب ہائیسم کے حواس کچھ بحال ہوئے تو ترتیل کو خود سے الگ کر کے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے ہونٹوں سے لگایا جسے وہ ایک ہی سانس میں پی چکی تھی ۔۔
” اپنے پریگننٹ ہونے کی وجہ سے پریشان ہو ؟؟ اور کالج میں بے ہوش بھی اسی وجہ سے ہوئی تھی۔ ؟؟ ہمم بتاو مجھے ۔ پریگنسی کے بارے میں آج پتا چلا تمہیں ؟؟”
انگوٹھے سے اس کے دونوں رخساروں سے نمی پونچھ کر نرمی سے استفسار کیا ۔۔
جس پر وہ بچوں کی ہونٹ باہر نکالتی اثبات میں سر ہلا کر روہانسی ہو کر پھر سے رونے لگی ۔۔
“ترتیل میں کیا کروں تمہارا ۔یہ خوشی کی خبر ہے یا سوگ کی جو تم اس طرح رو رہی ہو ۔ بہت افسوس کی بات ہے تالی کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو ہیں ۔جبکہ آج میں خود کو کتنا مکمل تصور کر رہا یہ بیان سے باہر ہے میں اتنا پریشان ہو گیا ہے ۔عجیب عجیب خیالات آرہے تھے ۔”
اس کے بکھرے بالوں کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے سنوار کر ملامتی انداز میں بولا ۔۔
” کیا آپ نہیں جانتے میرے رونے کی وجہ ؟؟ مجھے خوشی ہوئی ہے مگر اس سے زیادہ ذہنی اذیت بھی پہنچ رہی ہے ۔آپ مجھے نہیں سمجھ رہے ۔”
اس کے ہاتھ کو اپنے بالوں سے جھٹک کر رندھی آواز میں بولی ۔۔آنسوں کا گولا گلے میں اٹکا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔
” کیا مطلب کیا نہیں سمجھ رہا میں ۔۔بتاو مجھے صاف الفاظ میں بات کرو ترتیل ۔یہ بات میری برداشت سے باہر ہے کہ میرے ہونے والے بچے کی ماں اس کی آمد سے خوش نہیں ہے ۔”
ترتیل کے الفاظ نے جیسے اس کا دماغ ہی گھوما دیا تھا تبھی درشتگی سے اس کا بازو اپنی گرفت میں لے کر بولا ۔۔
” کیا گارینٹی ہے اس بات کی کہ ہمارا بچہ میری طرح نہیں ہوگا ؟؟ میری طرح معذور ؟؟ ”
اس کے تلخی سے بولنے پر ہائیسم بھونچکا ہی رہ گیا ۔اتنے سفاک الفاظ وہ اپنے اور اپنی اولاد کے بارے میں کتنی آسانی سے بول گئی تھی ۔۔
” تم کس دل سے یہ کہہ سکتی ہو ۔اتنی ظالم تو تم کبھی نہیں تھی تالی ؟”
صدمے کی زد میں وہ اس سے زیادہ کچھ اور بول ہی نا سکا تھا
” ظالم نہیں حقیقت پسند ۔میرے ماما بابا کی کزن میرج تھی تبھی میں ڈیس ایبل ہوں ۔میرے پیدا یونے پر یہ ہی وجہ بتائی تھی ڈاکٹر نے ۔اور اب آپ کی اور میری بھی کزن میرج ہے تو بتائیں مجھے اگر ہمارا بچہ مجھ جیسا ہوا تو کیا کریں گے ہم ۔۔میری طرح معاشرہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا گا اسے ۔ضروری نہیں ہر ہینڈی کیپ کی زندگی میں ہائیسم جیسا کوئی سہارا آئے ۔کچھ لوگ تو اپنی بے بسی پر ساری زندگی یوں ہی سسک سسک کر گزار دیتے ہیں ۔”
ہائیسم ہونٹ بھنیجے جبڑے سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کیے ماتھے پر سلوٹیں ڈالے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس کی خود ترسی اس کی خوشیوں پر حاوی ہو رہی تھی۔وہ اس وقت ضبط کے کڑے مرحلے سے گزر رہا تھا
” میرے ماما بابا کی کزن میریج تھی ۔اور روفہ اور فودیل کی بھی کزن میریج ہی ہے تو کیا خداناخواستہ میں روفہ یا پھر ہاشم معذور ہیں ؟؟ ضروری نہیں ہر کزن میرج والے کی اولاد ڈیس ایبل ہو ۔اگر تم ایسی ہو تو یہ اللہ کی مرضی ہے ۔تم بجائے اپنے خدشات دور کرنے یا اللہ سے اپنے بچے کی لمبی صحت والی زندگی کی دعا کرنے کے رونے پیٹنے بیٹھ گئی ہو ۔کان کھول کر سن لو ترتیل تمہیں میرے ساتھ جیسا سلوک کرنا ہے کرو مگر خبردار جو میری اولاد کے بارے میم کچھ الٹا سیدھا سوچا ۔ورنہ ابھی صرف میری محبت دیکھی ہے تم نے !!!! ”
اس کے سخت الفاظ میں پوشیدہ دھمکی پر ترتیل شکوے سے اس کو دیکھ کر منہ پھر گئی ۔۔
” آج ہی یہ خبر مجھے ملی کہ میں باپ بننے جارہا ہوں اور تم نے مجھے سہی سے خوش بھی نہیں ہونے دیا اب منہ کیا دیکھ رہی ہو ڈریسنگ روم میں جاو ۔نجمہ کو بھیجتا ہوں آکر چینج کروا دی گی تمہیں”
سپاٹ لہجے میں کہہ کر دوبارہ گاڑی کی چابیاں اٹھانے لگا ۔اس وقت ترتیل کے پاس رہتا تو شاید غصے میں کچھ الٹا سیدھا ہی کہہ دیتا تبھی آفس جانا ہی بہتر سمجھا ۔
” آپ نہیں کروائیں گے ۔۔”
کچھ جھجھک کر حیران ہو کر بولی کیونکہ وہ خود ہی نجمہ کو اس کے کام کرنے کو سختی سے منع کرتا تھا ۔
” کھانے کے ساتھ دودھ بھی دے گی تمہیں اور میں یہ نا سنوں کہ تم نے پیا نہیں ۔”
بغیر اس کی بات کا جواب دئیے مزید سرد لہجے میں ہدایت کرتا ٹھاہ کی دھمک سے دروازہ بند کرکے چلا گیا ۔
ترتیل نے بے اختیار آواز سے دہل کر اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا ۔وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ وہ بہت ہی غصے میں گیا ہے
تھکن سے چور ہوتی آفس سے واپس آکر وہ سیدھا اپنے کمرے میں بیڈ پر ڈھیر ہو گئی تھی ۔اس سال گرمی نے جانے کون سے ریکارڈ توڑنے تھے باہر جاکر تو بندہ جھلس ہی جاتا تھا ۔کمرے کا اے سی اٹھارہ پر کرکے اپنا بالوں کو جوڑے کی قید سے نکال کر کچھ دیر کلس مندی سے یوں ہی چھت کو گھورتی رہی پھر ہمت کرتی شاور لینے کے لیے باتھ روم چلی گئی ۔
ہاشم کو تو عالم نے گھر آتے ہی اپنے پاس رکھ لیا تھا فضا اور عالم کا ہاشم کے بغیر گزارہ مشکل ہونے لگا تھا ۔
ابھی وہ شاور لے کر ڈریسنگ روم میں اپنے دراز براون سیدھے بال ٹاول سے خشک کر رہی تھی جب کمرے سے ہاشم کے رونے کی آواز آنے لگی ۔۔
وہ تولیہ وہیں پھینکتی ہڑبڑی میں کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
” کیا ہوا ہے ماما کے پیارے سے گڈے کو کس نے ”
باقی کے لفظ ہاشم کو گود میں جھلاتے اپنے کمرے کے وسط میں کھڑے فودیل کو دیکھ کر منہ میں ہی دم توڑ گئے
پورے ایک سال کے بعد وہ یوں روبرو اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا ۔اس کے جذبے لٹاتی نظریں اپنے ڈوپٹے سے ندارد وجود پر جمی دیکھ کر وہ سٹپٹا کر یہاں وہاں ڈوپٹا تلاش کرنے لگی ۔
اس کی متلاشتی نگاہوں کو پڑھتے ہوئے فودیل نے صوفے کے کنارے پر پڑے ڈوپٹے کو احتیاط سے جھک کر اٹھایا کیونکہ ہاشم ہنوز اس کی گود میں تھا ۔
روفہ اسے دیکھ رہی تھی جو قدم قدم ڈوپٹا ہاتھ میں پکڑے اس کی طرف ہی بڑھ رہا تھا ۔
اس کے سامنے کھڑے ہوکر بائیں ہاتھ سے ڈوپٹا روفہ کے دائیں کندھے پر احتیاط اور نفاست سے ڈالا ۔
روفہ دانت پر دانت سختی سے جمائے اس کا عمل دیکھنے لگی ۔ساتھ ہی ہاتھ کو مٹھی کی صورت زور سے بند کر لیا ۔
اس لمحے جانے اس کو کیا سوجھی تھی ۔جانے کیسی بے اختیاری تھی کہ وہ جھک کر نرمی سے عقیدت سے اس کی پیشانی چوم گیا تھا ۔ہاشم چپ کرکے ٹکر ٹکر باپ کو دیکھنے لگا جو اس کے ماں کے بےحد قریب کھڑا تھا ۔پھر ساتھ ہی فودیل کی شرٹ پر لگے بٹن کو کھینچ کر توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کچھ پل کے بعد اپنے سلگتے پیاسے ہونٹ اس کی صاف ٹھنڈی پانی کی بوندوں سے نم پیشانی سے ہٹائے ۔روفہ کا سانس سینے میں ہی کہیں اٹک گیا تھا ۔وہ ششدر ہی نظر اٹھا کر اس کو دیکھنے لگی ۔
جو ہاشم کو اٹھائے وارفتگی سے اس کے چہرے کے ہر ہر نقش کو آنکھوں سے دل میں جذب کر رہا تھا ۔
کیا کچھ نا تھا اس کی کالی آنکھوں میں تڑپ ، انتظار ، التجا ، معافی کی طلب اور شاید محبت بھی ۔۔لیکن اب کیوں ؟؟ محبت وہ بھی اب ؟؟ اس مقام پر ۔۔
اب تو کوئی مجبوری نا تھی ۔اس کے پاوں میں کسی دھمکی کسی رشتے کی زنجیر بھی نا تھی تو وہ کیوں پلٹ رہا تھا ۔
کتنے ہی سوال سر اٹھانے لگے تھے ۔ان سوالوں سے وہ رات سے بچنا چاہ رہی تھی ۔مگر ہر بار ناکام ہو جاتی ۔
اس کی گود میں موجود ہاشم کو دیکھ کر جیسے سارے سوالوں کے جواب مل گئے تھے ۔اب بھی وہ ایک رشتے کی خاطر ہی شاید مجبور ہو کر اس کی طرف پلٹ رہا تھا ۔۔پہلے ترتیل کی وجہ سے اور اب اولاد کی مجبوری میں ۔وہ پہلے کہیں نہیں تھی وہ اب بھی کہیں نا تھی ۔
وہ دونوں جانے کتنی دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے روفہ سپاٹ نگاہوں سے اور فودیل نرم گرم بےچین چاہت بھری نگاہوں سے مگر ہاشم کے رونے کی آواز پر دونوں چونک کر اسے دیکھنے لگے جو ایک بار پھر ماں کے پاس جانے کو بے تاب تھا ۔روفہ نے اپنی جلتی آنکھوں کو جھپک کر بے تاثر چہرے کے ساتھ ہاشم کو فودیل سے لے کر خود اٹھا لیا۔
دروازہ بند ہونے کی آواز پر روفہ نے کب سے اٹکا سانس خارج کیا فودیل چلا گیا تھا ۔ہاشم کو بھوک لگی ہوئی تھی اور فودیل کی موجودگی میں تو وہ اس کو مر کر بھی فیڈ نا کرواتی ۔
سر جٹھک کر اپنا سارا دیھان ہاشم کے معصوم بے رعیا چمکتے چہرے پر جمائیں جو بھوک سے بے چین ہو کر اس کی گود میں بھی ہل جل کر رہا تھا ۔
کندھے پر جھولتے ڈوپٹے کو پکڑ کر اچھی طرح دونوں طرف پھیلا کر ہاشم کو گود میں لٹا کر فیڈ کروانے لگی ۔اب کمرے میں بالکل خاموشی تھی روفہ کے خاموش ویران دل کی طرح ۔۔ایک سال میں اس نے بہت کچھ برداشت کیا تھا ۔اب پلٹنا اتنا آسان نا تھا ۔
فودیل دروازہ بند کرکے اپنے خالی بازوں کو دیکھنے لگا ۔پھر سر جھکائے آہستہ سے روفہ کے بالکل قریب بیڈ کے کنارے پر بیٹھا جہاں وہ ہاشم کو فیڈ کروا رہی تھی ۔
فودیل کے یوں اچانک بیٹھنے پر پرفیوم کی خوشبو سے اور اپنی پوزیشن کے خیال سے روفہ کا چہرہ خفت سے لال بھبھوکا ہو گیا ۔اتنا سرخ کہ جیسے خون کی بوندیں ابھی چہرے سے ٹپکنے لگے گئیں ۔جانے شرمندگی تھی یا شرم مگر اس وقت وہ نا تو ہاشم کو خود سے الگ کر سکتی تھی نا یوں ہی بیٹھ سکتی تھی ۔بے بسی کے احساس سے یوں ہی بیٹھی رہی ۔مگر گالوں کی سرخی اب ہونٹوں اور کانوں پر بھی جھلکنے لگی تھی ۔
فودیل اس کو یوں رنگ بدلتے دوسری بار دیکھ رہا تھا ۔اور اب کی بار اس کا دل اپنی بیوی کے چہرے کے رنگ دیکھ کر اس قدر زور سے دھڑکا تھا کہ وہ خود بھی دھڑکنوں کے ردھم پر دنگ تھا ۔۔
” اگر میں یہ پوچھوں تم سے کہ کیسی ہو تو اس سے احمقانہ سوال کوئی نہیں ہو گا ۔جبکہ کہ میں یہ جان چکا ہوں تم ہمارے بیٹے کے ساتھ بہت خوش ہو مگر میں جو تم سے کہا کرتا تھا میری زندگی سے چلی جاو گی تو پرسکون ہو جاوں گا باخدا ایک سال میں کوئی ایک پل بھی ایسا نہیں گزرا جب میں بے سکون نہیں تھا ۔میری راحت تم اپنے ساتھ ہی لے گئیں ۔اور اب واپس آئی ہو تو میں سمجھ نہیں پا رہا میں کس کیفیت میں ہوں ۔بس اتنا جانتا ہوں تمہارے اور ہاشم کے بنا میں اس زندگی میں زندہ نہیں رہنا چاہتا ۔۔”
وہ اظہار کر رہا تھا یا اپنے پچھتاوے کو بیان کر رہا تھا وہ سمجھ نا سکی ۔جو بھی تھا اس وقت روفہ کو اس کی ساری باتیں بلاجواز بے مقصد ہی لگئیں تھیں ۔
” ہمارا نہیں میرا بیٹا صرف میرا ۔”
اس کے تلخی سے کہنے پر فودیل ششدر سا اس کو دیکھنے لگا ۔جس کا سارا دیھان زرا سے ڈوپٹے سے جھانکتے ہاشم کے بالوں پر تھا ۔
” یہ جو تمہارے سینے سے لگا اپنی بھوک مٹا رہا تھا یہ میرے وجود کا حصہ بھی ہے روفہ ۔”
وہ تڑپ کر بول اٹھا ۔غلطیاں اس سے ہوئیں تھیں مگر اب روفہ اور ہاشم میں سے کسی ایک کے بغیر بھی جینا نا گزیر تھا
فودیل زکی کو اپنی محبت اپنی بیوی اولاد سمیت زندگی میں واپس چائیے تھی ورنہ جینے کا جواز ہی کیا رہ جاتا ۔
” کیا ثبوت ہے کہ یہ آپ کی اولاد ہے ۔”
اس کے مختصر پرسکون انداز میں کہے جملے پر فودیل کا دل دماغ یہاں تک کہ وہ خود بھی پورا کا پورا ساکت رہ گیا وہ لاجواب ہوا تھا۔
روفہ نے زرا سی پلکوں کی اوٹ سے اس کے اڑے رنگت والے چہرے کو دیکھ کر ہاشم کو خود سے الگ کیا جہاں وہ پیٹ بھرتے خود بھی سو چکا تھا ۔ڈوپٹا ہٹا کر نرم سلک کے رومال سے ہاشم کے گلابی ہونٹ صاف کیے وہ اب پرسکون ہو کر گہری نیند میں جا چکا تھا ۔۔ آہستہ سے اس کو بیڈ پر لٹا کر وہ خود بھی اٹھنے کو تھی جب فودیل کے ساکت بدن میں حرکت ہوئی اپنے کپکپاتے ہاتھ سے اس کا دونوں بازو تھام لیا
” یہ میرا بھی بیٹا ہے ۔میں نے ایک سال پہلے تمہیں اپنی بیوی کا درجہ دیا تھا تم بھول سکتی ہو مگر میں فراموش نہیں کر سکتا ۔اس ایک رات کے سہارے ہی تو ایک سال گزارا ہے میں نے ۔یہ میرا اور تمہارا ہم دونوں کا بچہ ہے ۔یہ الزام مت دو مجھے روفہ میں سہہ نہیں پاوں گا ۔۔”
اس کے دبے دبے سلگتے درد ناک لہجے اور سرخی جھلکتی کالی آنکھوں کے حشر پر ایک پل کو اس کا دل ڈوبا مگر دوسرے ہی پل وہ خود کو سنبھال بھی چکی تھی ۔اگر جذبات کو قابو کرنے پر کمال نا ہوتا تو وہ روفہ عالم نا ہوتی
” تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اس کی رگوں میں دوڑتے خون کا ایک حصہ آپ کے لہو کا بھی ہے ”
وہ اب بھی ہمیشہ کی طرح پرسکون تھی جانے وہ بھڑکتی کیوں نہیں تھی نا رونا نا غصہ کرنا وہ عجیب تھی فودیل نے ایک بار پھر ایک سال پہلے والا اعتراف خود سے کیا وہ سامنے والے کو آسمان سے زمین پر پٹخنے کا ہنر جانتی تھی
” اپنے جسم کے حصے کو پہچاننے کے لیے مجھے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ۔وہ چاہے دیکھنے میں تم جیسا ہو پر وہ میرا بھی حصہ ہے اس بات کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔جب میرے اندر باہر بھی تم ہی ہو تو وہ بھلا کیسے مجھ پر چلا جاتا اگر چلا بھی جاتا تو بھی اس میں تمہارا عکس ہی دکھتا ۔”
اس کا بس نا چل رہا تھا وہ اس لڑکی کو جھنجھوڑ دیتا ۔جو ایک بات کو دہرا کر اس کو بڑے پرسکون انداز میں اذیت کے گھاٹ اتار رہی تھی
اس کے لفظوں میں چھپے اظہار پر روفہ نے ناگواری سے ایک بار پھر لب بھینج لیے جس سے اس کی تھوڑی کا خم مزید واضح ہونے لگا ۔۔
” عورت کی زندگی میں آنے والا پہلا محبوب مرد اس کا باپ ہوتا ہے اور آخری محبوب مرد اس کا بیٹا ۔”
وہ کہہ کر ایک پل کو رکی ۔فودیل مٹھی بھینجے ضبط سے آنکھیں میچ گیا
” اور میری زندگی میں بھی مرد کی محبت ان دونوں رشتوں سے شروع اور ان پر ہی ختم ہے۔نا اس سے پہلے کوئی تھا نا ان کے بعد کوئی ہوگا۔”
اپنی ذات کی براہراست نفی پر دل انگاروں پر لوٹ رہا تھا ۔۔کاش وہ اس لڑکی کو جھنجھوڑ کر رکھ سکتا ۔ وہ شاید اب کسی قیمت پر بھی اس کا ساتھ قبول نہیں کرے گی۔۔اس کے اندر امید بھی ختم ہونے کو تھی ۔
” کیا ہاشم کے لیے بھی نہیں ؟؟ اس کو ضرورت ہے ہم دونوں کی ۔”
ہلکی سی بڑبڑاہٹ خاموشی میں گونجی تھی ۔۔روفہ نے طنزیہ نظروں سے اس کو دیکھا ۔
” باپ کی کمی پوری کرنے والے اس کو بہت لوگ مل جائیں گے ۔میں بھی تو دو دو باپ ہو کر ان کی محبت سے محروم تھی ۔۔ایک کے ساکت بدن کی وجہ سے دوسرے کے گم نام ہونے کی وجہ سے ۔میں نے بھی تو جی لیا ۔۔وہ بھی اپنی ماں کا بیٹا ہے جی لے گا ۔”
اس کی ہر جواز کو وہ آج دلیل اور ثبوت سے رد کرنے کے در پر تھی ۔۔وہ جو پہلے بھی کبھی اس عورت سے جیت نہیں پایا تھا آج پھر ہار رہا تھا وہ بھی ہر طرف سے ۔۔
” اور میرا کیا میں کیسے جیوں گا ۔۔یہ بھی بتا دوں ۔؟
جبڑے بھینج کر سلگ کر بولا ۔آج وہ اس کے ضبط کا بڑا کڑا امتحان لے رہے تھی ۔۔اس کے لہجے میں آگ سی تپش تھی ۔۔بے بسی کی انتہا تھی ۔
” کوئی نہیں مرتا کسی کے بغیر ۔۔اماں ابو کے بعد مجھے بھی لگتا تھا اب زندہ نہیں رہ پاوں گی ۔۔جب میرا شوہر مجھے طعنے مارتا تھا تب کہیں ڈوب مرنے کو جی کرتا تھا ۔جب شادی کے فقط ڈیڑھ ماہ بعد مجازی خدا نے خلاء کا اعلان کیا اس وقت بھی زندگی بے معنی لگی تھی ۔۔اگر میں نہیں مری تو آپ بھی نہیں مریں گے ۔۔بالکہ وہ کیا نام تھا اس لڑکی کا ۔۔ہاں ماریہ الٹرا موڈرن ہائی سوسائیٹی میں موو کرنے والی اس سے دوسری شادی کر لینا ۔میری اجازت کی تو ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں یہ حق تو اللہ نے دیا ہے مرد کو ۔اور میں ویسے بھی اپنے سارے حق معاف کرنے کے ساتھ اپنے فرائیض سے دستبردار ہو کر بہت آگے بڑھ چکی ہوں بہتر ہے آپ بھی بڑھ جائیں ۔ جاتے وقت دروازہ بند کر جانا ہاشم کو روشنی میں سونا پسند نہیں ۔۔”
اپنے مخصوص پرسکون لاپرواہ انداز میں بول کر اس کو جانے کا بھی کہہ دیا ۔۔
فودیل اس کے لفظوں کے تیر سے لہولہان ہوتا بھونچکا سا اس کو دیکھنے لگا ۔۔جو اتنے تفصیلا جواب پر اب ہلکی پھلکی سی بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر ہاشم کے نرم کالے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔
” آج کے بعد میرا نام کسی دوسری عورت کے ساتھ مت لینا روفہ فودیل زکی ۔۔میری آخری سانس تک تم واحد میری بیوی کی حیثیت سے رہو گی ۔۔اگر تمہارا نام مجھے کسی دوسرے مرد کے ساتھ نہیں برداشت تو اپنا نام بھی مجھے صرف تمہارے ساتھ لیا جانا پسند ہے ۔۔”
دوٹوک برہمی سے کہہ کر اس کا بازو پکڑا کر ایک ہی جھٹکے سے اٹھایا وہ حیرت اور سکتے کی زد میں اس کی کاروائی سمجھ بھی نا پائی تھی کہ وہ سوئے ہوئے ہاشم کو اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے اس کا بازو تھامے دروازے کی سمت بڑھ گیا ۔۔
” یہ کیا حرکت ہے فودیل میرا بازو چھوڑو ۔۔”
غصہ تو اس کو بہت آیا مگر پھر بھی ضبط کیے جھنجھلا کر بولی ۔۔
اپنے کمرے میں داخل ہو کر اس نے دروازے کو لاک لگایا ۔۔روفہ اس کی کاروائی پر گہری سانس بھر کر خود کو پرسکون کرنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی مگر دل تو اس بندے کا دماغ درست کرنے کو رہا تھا ۔۔حد تھی ڈھٹائی کی ۔
” تم دونوں یہاں ہی رہو گے ۔۔اس کمرے کے علاوہ اب تم جہاں بھی جاو گی میں وہاں تم دونوں کو ایک منٹ بھی رہنے نہیں دوں گا ۔۔اپنا غصہ جھنجھلاہٹ نفرت سختی بے رخی جو بھی دیکھانی ہے یہاں رہ کر دکھاو مگر اس کمرے سے جانے کے بارے میں بات بھی مت کرنا ۔۔”
روفہ کچھ کہنے کی بجائے اس کی سن کر تمسخر سے ہنسنے لگی ۔۔وہ اس کی طنزیہ مسکراہٹ کو بھی خندہ پیشانی سے سہہ کر نرم گرم نگاہوں سے اس کو دیکھنے لگا ۔۔
جیسے ہی وہ دروازے کی طرف بڑھی فودیل کی جان جیسے لبوں پر آگئی ۔۔ایک گلٹی سی گلے میں ابھری تو کیا وہ یہاں سے چلی جائے گی ۔۔
” مت جاو نا روفہ ۔یہاں ہی رہ جاو ۔پہلا اور آخری احسان کرو میری ذات پر ۔۔”
اس کی کلائی کو تھامے بولا جبکہ روفہ کا رخ اس کی مخالف سمت تھا ۔۔
اس کے نمناک گھمبیر التجا پر روفہ کا دل رک کر دھڑکا تھا ۔وہ عجیب سی بے چینی میں مبتلاء ہو گئی تھی ۔
” ٹھیک ہے ”
فسوں خیز خاموشی میں روفہ کا جزبات سے عاری لہجہ گونجا ۔۔اس کے لبوں پر ٹھہری پراسرار مسکراہٹ کو سمجھ تو نا سکا نا ہی اس کے اتنی جلدی مان جانے کی توقع تھی ۔پر اتنا جان گیا ہے روفہ اب اس سے ہر طریقے سے بدلا لینا والی ہے خیر جو بھی تھا اس کا ساتھ زیادہ ضروری تھا۔
وہ اتنا کہہ کر انٹرکام سے نجمہ کو اپنا سامان فودیل کے کمرے میں رکھنے کا کہہ کر باہر نکل گئی ۔۔وہ خوبشو جو اس کی غیرموجودگی میں اس کے ساتھ ہر پل ہر گھڑی رہی تھی اس ہی دلفریب جھونکے سے پورا کمرہ مہک اٹھا تھا ۔۔
وہ عالم اور فضا کے کمرے میں کھڑی ان سے بات کرنے کی غرض سے آئی تھی جب بھناتا ہوا ہائیسم آندھی طوفان کی طرح کمرے میں آیا ساتھ ہی اس کا بازو کھوما کر اپنی طرف موڑا ۔
وہ تینوں ہی حیران پریشان سے ہائیسم کے غیض و غضب والے تاثرات دیکھنے لگے ۔
” تم ایسا کیسے کرسکتی ہو روفہ تم کیسے اس انسان کے ساتھ رہنے کو تیار ہو گئی ہو ۔عقل ختم ہو گئی ہے تم میں ۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری بہن ایسی بے وقوفی کرنے کی غلطی کرے گی ۔”
اس کا بس نا چل رہا تھا روفہ کو کسی بھی طریقے سے فودیل سے کوسوں دور کہیں چھپا دیتا ۔۔
” یہ کیا طریقہ ہے بہن سے بات کرنے کا ہائیسم تمیز بھول گئے ہو ۔بازو چھوڑو اس کا اور آہستہ آواز میں بولو ۔”
فضا کے ڈپٹنے پر وہ لہو رنگ آنکھوں سے ان پر نظر ڈال کر روفہ کو گھورنے لگا جو بڑے آرام سے اپنا چائے کا مگ پکڑے چسکیاں بھر رہی تھی ۔
” ماما وہ بھائی کیسے آرام سے رہ سکتا ہے جس کی بہن کی زندگی فودیل جیسے گٹھیا انسان سے برباد ہوئی ہو ۔”
اس کے بھڑکنے پر اس سے پہلے عالم اس کو کچھ کہتے روفہ نے ان کو اشارے کرکے بولنے سے روک دیا ۔وہ جانتے تھے روفہ کسی کو بھی مات دینے کا ہنر جانتی ہےوہ یوں ہی تو اسیسٹینٹ کمیشنر نہیں بن گئی تھی ۔
” ہائیسم یہ مت بھولو وہ گھٹیا انسان میرا شوہر ہے ناصرف شوہر بالکہ تمہارا کزن بہنوئی اور بیوی کا بھائی بھی ہے ۔اس کو ایسے لفظ بولنے سے پہلے ایک بار سوچ لو کہ سامنے روفہ فودیل زکی بیٹھی ہے ۔”
وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنے لفظوں پر زور دے کر بولی ۔۔فضا عالم اور ہائیسم چونک کر اس کو دیکھنے لگے جو ہمیشہ کی طرح بڑے آرام سے اپنے الفاظ کہہ کر سامنے والے کو چونکا گئی تھی ۔اس نے پہلی بار اپنے نام کے ساتھ فودیل کا نام جوڑا تھا ۔
” تم بھول گئی اس نے کیا ،کیا تھا تمہارے ساتھ ۔شادی کے صرف ایک ماہ چودہ دن بعد طلاق دینا چاہتا تھا تمہیں ۔۔اس کے طعنے سلگتے جلتے جملے یاد نہیں تمہیں ۔؟؟
یا اپنی وہ حالت بھول گئی جب ہوسپٹل کے بستر پر درد سے تڑپتی ہوئی تم اس کے بیٹے کو اس کی غیر موجودگی میں پیدا کر رہی تھی ۔تب وہ نہیں تھا تمہارے پاس میں اور بابا تھے تمہارے پاس ۔
یا وہ منظر بھول گئی جب ہم سب نے تمہیں کہا کہ ابارشن کروالو ۔مگر تب نہیں مانی ۔۔ اپنے آٹھویں مہینے میں گرمی کی پراوہ کیے بنا سی ایس ایس کے پیپرز دینے جاتی تھی ۔
تم بھول سکتی ہو میں نہیں بھول سکتا روفہ ۔تم میری ایک ہی بہن ہو تمہیں تکیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔”
ہائیسم کے تھکے تھکے لہجے پر وہ آنکھوں کی نمی چھپاتی مسکرا دی ۔یہ کمال صرف اس جیسی عورت ہی دیکھا سکتی تھی ۔
” کچھ نہیں بھولی نا بھولوں گئی نا بھول سکتی ہوں مگر وہ بھی نہیں کروں گی جو تم کروانا چاہتے ہو ۔۔”
وہ دوٹوک بولی ۔۔ہائیسم عضے سے سلگ اٹھا ۔۔
” کیوں نہیں ۔آخر آج تک دیا ہی کیا ہے اس نے تمہیں صرف ہاشم ۔جس میں اس کا بھی کمال نہیں وہ للہ کی دین تھا ۔”
روفہ اس کے کہنے پر ہاتھ کی مٹھی تھوڑی تلے رکھ کر بے اختار ہنس دی ۔
” تو کیا ہاشم کے علاوہ بھی میرے لیے کچھ قیمتی ہو سکتا ہے ؟؟ تمہارے اس سوال میں جواب بھی تم نے خود ہی دے دیا ہے ۔اس نے ہاشم دیا مجھے جو میری کل حیات ہے مجھے میری زندگی سے بھی بڑھ کر عزیز ہے ۔میرا وہ خونی رشتہ جس کو میں نے پہلے دن سے بھرپور طریقے سے جیا ہے ۔وہ کچھ اور نا سہی ہاشم کا باپ ضرور ہے ۔”
کچھ پل تک وہ چپ کا چپ رہ گیا ۔فضا آنسو بھری آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھنے لگیں جو پہاڑ جتنی مضبوط تھی ۔عالم آسودگی سے مسکرا دیئے ۔
” تو کیا معاف کردو گی تم اسے ۔اس کے ساتھ رہنا کا فیصلہ سراسر احمقانہ ہے اور کچھ نہیں ۔وہ تمہیں سوائے اذیت کے اور کچھ نہیں دے سکتا ۔۔”
” تو کیا طلاق دلاو گے مجھے اس سے ؟؟ پھر کیا کروں گی میں ۔؟؟ آپ لوگ میری دوسری شادی پر زور دیں گے میں ہاشم کی وجہ سے انکار کروں گی ۔۔پھر میرا مستقبل دو ہی صورتوں پر مبنی ہو گا ۔۔ایک تو میں بغیر شادی کے ساری زندگی ہاشم کے سہارے اکیلے گزار دوں گی ۔یا پھر دوسری شادی کرکے ہاشم کے ساتھ ناانصافی کروں گی ۔دوسرے مرد کو اپنے باپ کے روپ میں نا تو وہ کبھی قبول کرے گا نا وہ انسان کسی دوسرے مرد کی اولاد برداشت کرے گا ۔
پھر کیا ہوگا اس صورت میں سب سے زیادہ اذیت مجھے ہو گی ۔میں اور ہاشم تو یوں ہی خوار ہو جائیں گے ۔اور اب یہ تو بالکل مت کہنا کہ تم ہاشم کو ماموں نہیں باپ بن کر پالو گے کیونکہ کوئی کتنا بھی اچھا ہو جائے کل کسی نے نہیں دیکھی ۔یہ سچ کبھی بدل نہیں پائے گا کہ وہ میری اور فودیل کی اولاد رہے گی تم چاہ کر بھی اس کو سگوں جیسا پیار نہیں دے پاو گے وہ بھی اس صورت میں کہ تم بھی باپ بننے والے ہو ۔۔”
ہائیسم متحیر سا اس کو دیکھ کر رہ گیا ۔وہ لاجواب ہوا تھا ۔اور ساتھ ہی ترتیل کی پریگننسی کے بارے میں اس کی بات سن کر مزید چونک گیا ۔
وہ کیا بولتا اس کو اب روفہ نے پل میں مستقبل کا تقشہ کھینچ کر اس کو حقیقت کا آئینہ دکھایا تھا ۔۔
” ترتیل کی طرف سے خوشخبری ہے تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں ۔؟؟ ”
فضا الجھ کر شکائیتی لہجے میں بولیں ۔ہائیسم نے کنپٹی مسل کر ان کو دیکھا ۔
” آج ہی تو مجھے پتا چلا ہے بتانے ہی والا تھا میں ۔آج کالج میں وہ بے ہوش ہوگئی تھی ۔پرینسپل اور ٹیچرز اس کو ہوسپیٹل لے کر گئے تبھی ڈاکٹر نے بتایا ۔”
ان کو متجصر بتا کر روفہ کو دیکھا جو اب فضا کو چائے دے کر عالم کو دے رہی تھی ۔۔
” تو نہیں چھوڑو گی تم اسے ۔بس مجھے دلیل دے کر چپ کروا دو گی ۔”
اس کی وہی تان سن کر عالم اب سر پیٹنے کو ہوئے ۔۔
” ہائیسم کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ یہ روفہ کی زندگی جو وہ چاہے گی وہی ہو گا ۔۔اگر کل کو وہ فودیل سے رشتہ ختم کرنے کو کہے گی تو میں کروا دوں گا ۔ابھی باپ زندہ ہے اسکا ۔”
وہ تنگ کر اس کو سرزنش کرنے لگے ۔۔
” تم اپنے آنے والے بچے کی ماں کو چھوڑ سکتے ہو ۔”
وہ ٹھہر کر بولی۔۔
” ترتیل کو بیچ میں مت لاو روفہ ۔یہاں تمہاری اور فودیل کی بات ہو رہی ہے ۔میں کیوں چھوڑوں گا اسے محبت ہے وہ میری ۔”
اس کے سولیہ انداز میں پوچھنے پر ہائیسم نے ضبط سے خود پر قابو پاکر کہا ۔وہ روفہ سے ایسے الفاظ کی توقع نہیں کر سکتا تھا وہ تو اس کی محبت کو جانتی تھی پھر بھی بے رحمی سے بول گئی ۔۔
” تو میری بات اس پیار و محبت عشق و عاشقی سے بہت آگے نکل چکی ہے ۔فودیل زکی میرے بیٹے کا باپ ہے ۔عورت دل پر جبر کرکے محبوب کو تو چھوڑ سکتی ہے مگر جان سے پیاری اولاد کے باپ کو چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا ۔”
وہ یہ کہہ کر سب کو سن چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی باقی تینوں اس کے الفاظ کی تاثیر میں کھوئے دنگ سے بیٹھے تھے ۔۔