مدہم روشنی کے خواب ناک ماحول میں فرزانہ خان اپنے کمرے میں جہازی بیڈ پر نیم دراز تھی۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ اسے اپنے اردگرد کا احساس ہی نہیں تھا۔ اسے یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کمرے سے باہر شام اتر آئی ہے، سورج ڈھل گیا ہے اور گہرے نیلے آسمان پر ٹانواں ٹانواں تارہ دکھائی دینے لگ گیا ہے۔ وہ تو اپنی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی اور اس کے اندر کھو دینے کا احساس پوری طرح بیدار ہو گیا تھا۔ لمحہ بھر گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ یہ احساس اس پر بے چینی طاری کرتاچلا جا رہا تھا۔ اس کی حالت اس جواری کی مانند تھی جواپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے اور پھر اس انتظار میں ہوتا ہے کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔ وہ سب کچھ ہار جائے گا یا پھر سب کچھ پالے گا۔ یہ درمیانی کیفیت، جو نتیجے کے انتظار میں جاں گسل لمحات ہوتے ہیں، وہ بھی ایسی کیفیت میں اٹکی ہوئی تھی۔ ہاں اور ناں کے درمیان والی کیفیت جہاں انسان خلا میں ہوتا ہے اور اس کا من مختلف سوچوں کی کشمکش کی آماجگاہ بنا ہوا ہوتا ہے۔ وہ تھک کر چور ہوئی جا رہی تھی لیکن پھر بھی وہ سوچتے رہنے پر مجبور تھی۔ اس کے ذہن میں صرف اور صرف علی تھا۔ جسے وہ ٹوٹ کر چاہتی تھی۔ انہیں لمحات میں اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے سکرین پر نمبر دیکھے اور پھر بے تابانہ فون اٹھا لیا۔
’’ہیلو۔۔۔ بولو۔ کہاں ہے وہ؟‘‘ اس کے لہجے میں صدیوں کی بے تابی چھلک رہی تھی۔ تبھی دوسری طرف سے ٹھہرے ہوئے گمبھیر لہجے میں کہا گیا۔
’’جس طرح تم نے کہا تھا، بالکل ایسے ہی میں نے اسے عین صحرا میں لے جا کر چھوڑ دیا۔ اب ادھر کہیں ہو گااسے کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟ ادھر کہیں نزدیک ہی ہے نا۔۔۔؟‘‘ فرزانہ کے لہجے میں بے تابی کے ساتھ اب خوف بھی تھا۔
’’پتہ نہیں۔‘‘ لاپرواہی سے جواب دیا گیا تو وہ پریشان ہو گئی۔ اس لئے تیزی سے بولی۔
’’کیا مطلب ہے۔ پتہ نہیں؟‘‘
’’اچانک ہی اس نے مزاحمت شروع کر دی تھی۔ اسے سنبھالنا بہت مشکل ہو گیاتھا۔ مشکل اس لئے کہ اسے زندہ چھوڑنا تھا، ورنہ اسے ختم کر دینا تو بہت آسان تھا۔‘‘
’’مزاحمت ۔۔۔ تمہارا کیا مطلب۔۔۔ میں نے پوچھا ہے اسے کوئی چوٹ۔۔۔ ‘‘ اس نے پوچھنا چاہا تو دوسری طرف اس کی بات کاٹ دی گئی۔
’’اسی لئے تو کہا کہ پتہ نہیں۔۔۔ ادھیرا تھا۔ گولیاں بھی چلیں، اسے پھینک دیا۔ اب میں یہ دیکھنے کے لئے وہاں رک جاتا کہ اسے چوٹ لگی ہے یا نہیں۔۔۔ ویسے وہ بندہ بڑا جی دار نکلا ہے۔۔۔‘‘اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور پھر اگلے ہی لمحے پریشان لہجے میں بولا۔
’’ویسے فرزانہ جی۔۔۔ اسے یوں زندہ چھوڑ دینا بڑا رسک ہے۔‘‘
’’عامر۔۔۔ میں نے اسی رسک کے لئے تمہیں نوٹ دئیے ہیں۔۔۔‘‘ فرزانہ نے تیکھے لہجے میں کہا۔
’’ہاں۔۔۔ یہ تو ہے۔۔۔ خیر۔۔۔ اپنا کام ختم۔۔۔ تمہارے نوٹ ہضم۔۔۔‘‘ عامر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ اب تم اور تمہارے ساتھی ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں رکھو گے۔ سمجھے تم لوگ۔۔۔؟‘‘ فرزانہ نے درشت لہجے میں انتہائی رعب سے کہا۔
’’میرے علاوہ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ یہ معاملہ کس کا ہے اور کیوں ہے۔۔۔ نوٹ لے کر کام کر دینے کے بعد میں سب کچھ بھول جاتا ہوں، ٹیشن نہیں لیتا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔۔۔ بائے بائے۔‘‘ عامر نے گمبھیر لہجے میں کہا اور فون بند کر دیا۔ فرزانہ ابھی کچھ اور پوچھنا چاہتی تھی لیکن کال بند ہو چکی تھی۔ اس نے ایک نگاہ فون پر ڈالی اور ایک طرف رکھ دیا۔ اس کے ذہن میں یہی بات گونجنے لگی کہ پتہ نہیں اس کی کیا حالت ہو گی۔ چند لمحوں بعد اسے خود پر غصہ آنے لگا کہ یہ گھناؤنا خیال اس کے ذہن میں کیسے آیا۔ اور اگر آ بھی گیا تھا تو اس پر عمل کیوں کر لیا۔ کہیں وہ علی کو کھو تو نہیں دے گی۔ یہ سو چتے ہی وہ بے دم سی ہو کر بیڈ پر ایک طرف جھک گئی جیسے اس کے بدن میں جان ہی نہ رہی ہو۔ اسے اپنا وقت یاد آ نے لگا جب علی نے اس سے بڑے واضح انداز میں اپنا موقف کہا تھا۔
اس دن علی یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ کے لان میں ایک سنگی بینچ پر بیٹھا ہوا کتاب میں کھویا ہوا تھا۔ اس نے ڈیپارٹمنٹ کے کاریڈور میں سے دیکھا تو اس دن اس علی بہت ہی اچھا لگا۔ نیلی جینز پرآف وائیٹ کلر کی شرٹ، سلیقے سے سنوارے ہوئے بال جو دھیرے دھیرے چلنے والی ہوا میں ذرا ذرا لہرا رہے تھے۔ بڑی بڑی آنکھیں کتاب پر ٹکی ہوئیں تھیں۔ گھنی مونچھوں کے تلے ہونٹ خاموش تھے۔ وہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں ، اپنے اردگرد سے بے نیاز کتاب پڑھنے میں محو تھا۔اس وقت وہ فرزانہ کو اتنا اچھا لگاکہ اس سے رہا نہ گیا اور وہ اس کے پاس جا پہنچی۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے شکوہ بھرے انداز میں کہا۔
’’علی۔۔۔ آخر تم مجھ سے اس قدر بھاگتے کیوں ہو۔ آخر مجھ میں کیا کمی ہے جو۔‘‘
’’کمی نہیں، تم میں زیادتی ہے۔‘‘ علی نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’زیادتی۔۔۔ کیا مطلب ہے تمہارا۔‘‘ فرزانہ نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے حیرت سے پوچھا تو علی نے تحمل سے بہت ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
’’دولت، مقام، عزت۔۔۔ ان سب کی زیادتی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘ فرزانہ نے سب کچھ سمجھتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا اور پھر مسکراتے ہوئے بولی۔
’’کیا یہ کافی نہیں ہے کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ جس کا اظہار بھی میں نے تم سے کر دیا ہے۔‘‘ اس کے یوں کہنے پر علی چند لمحوں اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا اور پھر انتہائی سنجیدگی سے بولا۔
’’فرزانہ۔۔۔جو تم چاہ رہی ہو نا۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ جو پیار، محبت اور عشق کا معاملہ ہے نا؟ یہ کوئی فارمولا قسم کی چیز نہیں ہے کہ جس کسی پر بھی یہ فارمولا اپلائی کیا جائے تو وہاں سے من چاہا نتیجہ حاصل ہو جائے۔ عشق و محبت کی بنیاد تو جذبات اور احساسات پر ہوتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔ وہ آپ کی توقع کے عین مطابق ری ایکٹ کرے۔‘‘
’’میں نے تم سے اپنے دل کا حال کہہ دیا ہے، اپنی محبت کا اظہار کر دیا ہے اور تم جانتے ہو کہ میں تم سے محبت کرتی ہو۔ شاید اسی لئے تمہیں میری محبت کی قدر نہیں ہے۔‘‘ فرزانہ نے تیزی سے کہا۔
’’تم بالکل غلط سوچ رہی ہو فرزانہ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تمہاری محبت سے مجھے انکار نہیں ہے۔ لیکن میں جواب میں تم سے محبت کروں، ایسا ناممکن ہے؟ جب میرے اندر وہ جذبات اور احساسات ہی نہیں۔۔۔ مطلب۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ بس ہم میں اچھے کلاس فیلوز سے زیادہ کوئی دوسرا تعلق نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ علی نے بمشکل الجھتے ہوئے اس سے کہا تو فرزانہ جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئی۔
’’تم میری توہین کر رہے ہو علی۔۔۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ۔۔۔ یعنی فرزانہ خان نے تم سے محبت کی ہے اور۔۔۔‘‘
’’فرزانہ ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ میں خوش قسمت ہوں کہ تم جیسی لڑکی مجھ سے محبت کرتی ہے لیکن یہ تم کیوں نہیں سمجھتی ہو کہ ہمارے درمیان اتنی بڑی خلیج ہے، اتنی اونچی اونچی دیواریں ہیں، جنہیں ہم پر نہیں کر سکتے، طبقاتی فرق۔۔۔‘‘
’’کیامطلب۔۔۔ ایک جاگیردار، بزنس مین اور دولت مند باپ کی بیٹی ہو نا ہی جرم ہے میرا۔۔۔؟‘‘
’’یہ جرم نہیں ہے۔۔۔ میں پھر کہوں گا کہ تم غلط ٹریک پر سوچ رہی ہو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لئے رکا اور پھر بولا۔ ’’سنو ۔۔۔ مجھے اس پر کوئی ملال نہیں ہے کہ دولت کی یہ تقسیم کیوں ہے کہ ایک طرف تم جیسے دولت مند گھرانے میں اور دوسری طرف ہم جیسے غریب۔ جو بمشکل اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دولت کی اس تقسیم نے ہم انسانوں کو طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ یہ دیواریں اس قدر مضبوط ہیں کہ ہم انہیں توڑ نہیں پائیں گے۔ پھر اپنا سر پھوڑنے کا فائدہ۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ فرزانہ نے ہنکارہ بھرا اور پھر بولی۔
’’دیکھو علی۔۔۔ یہ ناممکن عمل تو نہیں ہے نا، میں لڑکی ہو کر یہ ہمت کر رہی ہوں، تم بھی حوصلہ کرو۔‘‘
’’بات ہمت حوصلے کی نہیں ہے فرزانہ۔۔۔ اور نہ ہی تمہاری اور میری ذات کی ہے جو ہم ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کریں۔ ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ جڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے تمہارا تو نہیں پتہ، لیکن میرے ساتھ بہت سارے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں۔ میں ان کی امیدوں۔۔۔‘‘ علی نے کہنا چاہا تو فرزانہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے قدرے تیز لہجے میں کہا۔
’’بات اگرا میدوں ہی کی ہے تو میں ان کی امیدیں ٹوٹنے نہیں دوں گی۔ تمہاری کلاس کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ اور امید یہی ہے نا کہ ان کی معاشی حالت بہتر ہو جائے۔ تم خود سوچو،اگر تمہیں میرا ساتھ مل جاتا ہے تو پھر کون سا ایسا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو سکتا۔‘‘ فرزانہ کے یوں کہنے پر علی دھیرے سے مسکرایا اور پھر بڑے تحمل سے بولا۔
’’بات اس طرح کی مسائل کی نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ بات ہے کہ مسائل ہی حل ہو جائیں۔ رشتے ناطے ، تعلق ، عزت اور بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہمارے طبقے کے لوگوں کا سرمایہ ہوتا ہے۔ پھر میری ذات ، میری انا۔۔۔ تم نہیں سمجھ پاؤ گی فرزانہ۔ میں خود کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کر سکتا مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔‘‘ علی نے صاف لفظوں میں کہا تو فرزانہ کے چہرے پر ایک رنگ آ کے چلا گیا۔ اس نے اپنی شدید توہین محسوس کی۔ تب اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے دبے دبے غصے میں کہا۔
’’مگر میں تمہیں اپنے ساتھ چلنے پر مجبور ضرور کروں گی۔‘‘
’’یہ محبت نہیں خود غرضی ہے فرزانہ۔۔۔ خیر۔۔۔ تمہارا حق ہے تم کوشش کرو۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ تمہارا وقت ضائع ہو گا۔ میں خواب ضرور دیکھتا ہوں لیکن خوابوں میں نہیں رہتا۔‘‘
’’میں اس خواب کو حقیقت میں بدل دوں گی۔ تم نہ بھی کہو مگر میری کوشش یہی ہو گی کہ تمہیں اپنا بنا لوں۔تم جسے نہیں روک سکتے۔‘‘فرزانہ کے لہجے میں مایوسی ، غصہ اور قہر گھلا ہوا تھا۔
’’میں تم سے کوئی شکوہ نہیں کروں گا۔‘‘
’’علی۔۔۔ اگر پتھر نہ پگھلیں تو پتہ ہے کیا ہوتا ہے، انہیں ٹوٹنا پڑتا ہے۔ میں پتھر کو پگھلاؤں گی، نہ پگھلا تو خود توڑ دوں گی۔ یہ میری ضد ہی نہیں، فیصلہ بھی ہے۔‘‘ فرزانہ نے انتہائی غصے میں آگ بگولا ہوتے ہوئے کہا۔
’’تم اپنے فیصلے میں آزاد ہو۔‘‘ علی نے لاپرواہی سے کہا اور کتاب پر نگاہیں جھکالیں۔ فرزانہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی اور پھر آندھی اور طوفان کی طرح وہاں سے اٹھ گئی۔ اب اگر وہ ڈیپارٹمنٹ میں رہتی تو اپنے غصے کی وجہ سے تما شا بن جاتی۔ اس لئے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھی اور وہاں سے گھر چلی گئی۔
یہی وہ واقعہ تھا جو اس کی سوچ کی بنیاد بنا۔ وہ علی کو اپنے سامنے جھکا دینا چاہتی تھی۔ تبھی وہ خوفناک منصوبہ اس کے ذہن میں آیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ علی کو ایک زبردست جھٹکا دے اور پھر خود ہی سنبھال لے۔ جھٹکا دینے اور سنبھالنے میں وہ اس پرظاہر کرنا چاہتی تھی کہ وہ اگر اس کی بات سیدھے سبھاؤ مان جائے تو ٹھیک ورنہ وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یا پھر وہ اسے اپنی محبت کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ وہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں تو کامیاب ہو گئی تھی، اب اگلے مرحلے میں اسے اپنے باپ کی مدد چاہیے تھی اور وہ اس کے آنے کا شدت سے انتظار کر رہی تھی۔
اس کا باپ سردار امین خاں ایک روایتی جاگیر دارہی نہیں، اس علاقے میں اپنی سیاسی ساکھ بھی رکھتاتھا۔ اگرچہ اس کی زمین شہر سے ملحقہ گاؤں میں تھیں مگر وہ شہر میں رہتا تھا اور جس علاقے میں وہ سیاست کرتا تھا، وہ شہر ، اس کا آبائی گاؤں اور اس کے علاووہ بھی کچھ علاقہ تھا۔ اس کا شہر میں بزنس ہونے کی وجہ سے اچھا خاصا اثرو رسوخ تھا لیکن اس علاقے میں جہاں چولستان کا بہت بڑا علاقے بھی تھا، وہاں پر لوگ اس کا فقط نام ہی جانتے تھے۔ کیونکہ وہاں پر اس کا ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان کا روایتی حریف پیر سیدن شاہ کا اثرو رسوخ تھا۔ وہ ہمیشہ اس علاقے کی بنیاد پر الیکشن جیت جاتاتھا۔ پیر سیدن شاہ بھی نرا سیاست دان یا روایتی جاگیردار نہیں تھا بلکہ اس کا ایک روحانی مقام بھی اس علاقے میں سمجھا جاتا تھا۔ سردار امین خاں باقی سارے توڑ کر لیتا مگر اس کا وہ روحانی اثر زائل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتا تھا۔ یوں ایک زبردست روایتی حریف ہونے کی و جہ سے پورا علاقہ سردار امین خاں کو جانتا تھا۔ اب یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ پیرسیدن شاہ کے مقابلے میں کبھی نہیں جیتا تھا۔ شہر پر گرفت اس لئے بھی زیادہ تھی کہ اس نے روایتی جاگیرداروں کی طرح صرف زمینوں پر انحصار نہیں کیا تھا بلکہ بہت بڑا بزنس بھی پھیلایا ہوا تھا۔ اس باعث اعلیٰ سطح پر تعلقات سے ایک خاص حلقہ رکھتاتھا۔ بس ایک خاص علاقے کی و جہ سے وہ الیکشن ہار جاتا۔ اس کا توڑا اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آیا تھا۔
فرزانہ خاں اس کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بے تحاشا پیار، بے جا لاڈ اور من مانی کی و جہ سے وہ خود سر پرہو چکی تھی۔ موروثی طور پر ضداس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ شعور کی آنکھ کھولنے کے ساتھ ہی اس نے دولت سے ہر شے حاصل کرتے ہوئے دیکھا تھا، اس باعث وہ سمجھتی تھی کہ دولت ہی تمام مسائل کا حل ہے۔یہ فرزانہ خان ہی تھی جس نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ورنہ پرکھوں سے ان کے خاندان میں عورتوں کو تعلیم تو کیا انہیں گھروں میں پابند کر کے رکھا جاتا تھا۔ اس اس کی ماں مریم بی بی ایسے ہی خاندانی جبر کا شکار ہو چکی تھی۔ وہ ان پڑھ ، دبی ہوئی اوررویتی گھر دار خاتون تھی۔ جسے اپنے شوہر کے سا منے بولنے کاکوئی حق نہیں تھا۔ وہ اسی ماحول میں فرزانہ اور پھر بعد میں اسد خاں کو جنم دے کر دنیا ہی چھوڑ گئی تھی۔ اسد خاں بہت چھوٹا تھا، سو اسے بچپن ہی میں اس کی پھوپھی برطانیہ لے گئی تھی اور وہ وہیں پر پرورش پاتے ہوئے جوان ہو چکا تھا۔ اس کی پھوپھی نے چاہا تھا کہ فرزانہ کوبھی اپنے پاس لے جائے مگر امین خان نے گوارا نہ کیا اسے اپنے پاس رکھا اور پھر شادی نہیں کی۔ فرزانہ جتنی مرضی بے باک، ضدی اور خود سر تھی لیکن اپنے باپ کا رعب اور احترام بہرحال وہ مانتی تھی۔ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر اس کے باپ نے اکلوتی ہونے کے ناطے آزادی دی ہوئی ہے تو اس پر باپ کی نگاہ بھی اتنی ہی سخت ہے۔ سو وہ بہت محتاط رہا کرتی تھی۔ بس یہ ایک علی کا معاملہ ایساآ گیا تھا جس میں وہ خود سے بھی بے نیاز ہو گئی تھی۔ وہ اسے اچھا ہی اتنا لگا تھا کہ اسے حاصل کرنے کی دھن اس پر سوار ہو گئی۔ اس پر علی کا انکار اس خواہش کو مزید بھڑکا رہا تھا۔ شاید اگر علی اس کی بات مان لیتا اور اس کے قرب کی حامی بھر لیتا تو فرزانہ بہت جلد اس سے اکتا جاتی ۔ یہ بات وہ بھی جانتی تھی کہ علی جو کچھ کہہ رہا ہے ٹھیک ہے اور درست ہے لیکن یہ دل۔۔۔ کسی طور پر بھی مان نہیں رہا تھا۔ اب تو یہ خواہش اسے اس نہج پر لے آئی تھی جہاں وہ اپنی ہی نگاہوں میں خود ذلیل ہو کر رہ گئی تھی کہ ایک مڈل کلاس طبقے کا لڑکا، جس سے وہ محبت کرتی ہے اس کی بات ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ علی کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔ علی اس کی ضد بن گیا تھا۔
’’بی بی سئین۔۔۔ خان سائیں تشریف لے آئے ہیں اور ابھی بڑے کمرے میں ہیں۔‘‘ ملازمہ نے اسے بتایا تو وہ چونک گئی۔ اپنے ہی خیالوں میں نجانے وہ کب سے کھوئی ہوئی تھی۔
’’اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ۔‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے خود کو سمیٹا اور پھر اپنے باپ کے سامنے جانے کے لئے تیار ہو گئی۔
سردار امین خان رعب دار شخصیت کا مالک تھا۔ اونچا قد، بھرا بھرا بدن اور سرخ و سفید چہرہ، جس پر ایک خاص قسم کا تاثر ہر وقت موجود رہتا تھا۔ اس باعث سامنے والا شخص بات کرتے ہوئے جھجک جایا کرتا تھا۔ فرزانہ نے ڈرائنگ روم میں داخل ہونے سے پہلے وہاں کے ماحول کا جائزہ لیا۔ اس کا باپ صوفے پر پھیل کے بیٹھا ہوا تھا، جبکہ اس کا مقرب خاص ملازم اللہ بخش پاس کھڑا تھا۔ امین خان غصے میں ڈھاڑ رہا تھا۔
’’نورو نے یہ کیا حرکت کی ہے، اپنے دشمنوں سے ہمارے بغیر ہی سمجھوتہ کر لیا۔ ایسے لوگوں کو تم قریب ہی کیوں آنے دیتے ہو۔ ٹھیک ہے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو، دوبارہ ا دھر کا رخ کریں تو پھر انہیں معاف نہیں کیا جائے گا اورپھر علاقے سے بھی کوئی اچھی خبریں نہیں آ رہی ہیں۔ چوریاں کچھ زیادہ ہی نہیں بڑھ گئی ہیں۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ ڈیرے پر جولوگ پڑے ہیں ان کا خیال بھی تو رکھنا پڑتا ہے نا۔ وہ بے کار پڑے کیا کرتے وہیں وہاں پر لوگ مسئلے مسائل بھی تو لے کر آتے ہیں۔ الیکشن۔۔۔‘‘
’’اوئے اللہ بخش۔۔۔ میں نے تمہیں سمجھایا بھی ہے کہ اب وہ پہلے والا دور نہیں رہا کہ لوگوں کو خوف میں رکھ کر ان سے ووٹ لئے جائیں۔ اب سوال اٹھتے ہیں، میڈیا ہم پر نگاہ رکھتا ہے۔ اب بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ہم نے الیکشن جیتنا ہے اس بار۔۔۔ اور ہر قیمت پر جیتنا ہے۔ ان لوگوں کو بھگاؤ یہاں سے۔‘‘
’’پر خان سائیں۔۔۔ انہیں لوگوں کی وجہ سے تو علاقے پر اپنی دھاک ہے۔ پیر سیدن شاہ کا مقابلہ آسان تو نہیں ہے نا۔‘‘
’’جو کہا ہے، اس پر عمل کرو۔ مجھے سمجھانے کی کوشش نہ کرو۔ اب ہمیں کچھ اور سوچنا ہے، اس بار پیر سیدن شاہ کو ہر حال میں الیکشن سے باہر کرنا ہے۔ لیکن اب روایتی طریقوں سے نہیں کچھ اور کرنا ہو گا۔ اب جاؤ۔۔۔‘‘
’’جیسے حکم سائیں۔‘‘ اللہ بخش ہاتھ جوڑتے ہوئے پچھلے قدموں سے چلتا ہوا ڈرائنگ روم سے باہر چلا گیا۔ تبھی فرزانہ اندر داخل ہوگئی۔
’’السلام علیکم بابا۔۔۔‘‘ اس نے انتہائی لاڈ سے کہا۔
’’و علیکم السلام۔۔۔‘‘ امین خان نے بہت ہی پیار سے کہا اور پھر اسے اپنے پاس صوفے پر بٹھاتے ہوئے چہکنے والے انداز میں کہا۔
’’آج ہماری بیٹی نے ہمیں وقت کیسے دے دیا۔‘‘
اچھا۔۔۔ یہ گلہ بھی مجھ سے، حالانکہ مصروفیت آپ کی اتنی زیادہ ہے کہ اپنی اکلوتی بیٹی یاد نہیں رہتی۔ سیاست ، میٹنگز، لوگوں کے مسئلے، زمین، فنکشن، بزنس اور نجانے کیا کیا۔‘‘
’’ارے نہیں میرے بچے۔۔۔ میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں۔ ایک تمہارا ہی تو خیال رہتا ہے۔ خیر۔۔۔ بولو آج کیا بات ہے۔‘‘ امین خان نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’بات تو کوئی اتنی اہم نہیں ہے۔ وہ رات ہماری یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل میں ہنگامہ ہو گیا تھا اور۔۔۔‘‘
’’مگر تمہیں اس سے کیا؟‘‘ امین خان نے ماتھے پر تیوریاں لاتے ہوئے اسے ٹوکا۔
’’بات تو سنیں۔۔۔‘‘ فرزانہ نے لاڈ سے کہا اور پھر فوراً ہی بولی۔
’’اس ہنگامے میں ہمارا ایک کلاس فیلو ہے علی۔۔۔ وہ اغواء ہو گیا ہے شاید۔ شاید مطلب ، اس کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ آپ پلیز پولیس اسٹیشن فون کر دیں تو۔۔۔‘‘ فرزانہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’کیا تم سے کسی نے سفارش کی ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔میں نے خود سے کہا ہے۔ آخر وہ ہمارا کلاس فیلو ہے۔ سبھی افسوس کر رہے تھے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ امین خان نے کچھ سوچتے ہوئے فون پر نمبر ملائے اور چند لمحے انتظار کے بعد کہا۔
’’ہاں پولیس اسٹیشن۔۔۔ اوئے وہ رات یونیورسٹی ہاسٹل میں ہنگامہ ہوا تھا اور اس میں کوئی علی نامی لڑکا اغوا ہوا ہے اس کے بارے میں فوراً پتہ کر کے مجھے اطلاع کرو۔ ٹھیک ہے۔‘‘ پھر ادھر سے چند لمحے باتیں سننے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
’’تھینک یو بابا۔۔۔‘‘ فرزانہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو امین خان اٹھ گیا۔
’’آؤ۔۔۔ کھانا کھائیں۔‘‘
’’جی بابا۔۔۔‘‘ فرزانہ بھی ساتھ ہی میں اٹھ گئی۔ دونوں باپ بیٹی اکٹھے ہی ڈرائنگ روم سے نکل کر گھر کے اندرونی حصے کی جانب چل دئیے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شہر پر رات سایہ فگن ہو چکی تو برقی قمقمے اندھیرا دور کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ ایسے میں غلام نبی گھر میں داخل ہوا تو اس کی چال اور انداز میں بہت امید تھی۔ تخت پوش پر بیٹھی ہوئی نگہت بیگم نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ تو آس کا دیا بھڑک اٹھا۔ وہ کسی اچھی خبر کے انتظار میں تھی۔ اس لئے غلام نبی کے بیٹھنے سے پہلے ہی بے تابی سے پوچھا۔
’’کچھ پتہ چلا میرے بیٹے کا؟‘‘
غلام نبی نے تخت پوش کے قریب پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کے بولا۔
’’نہیں نیک بخت۔۔۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چلا، ہاں مگر امید ضرور ہو گئی ہے، بہت جلد اس کا پتہ چل جائے گا۔ شاید صبح یا کل تک۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘ نگہت بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔ اتنے میں فائزہ بھی اندر سے آ گئی اور احسن بھی ڈھیلے قدموں سے آ کران کے پاس کھڑا ہو گیا۔
میں گیا تھا پولیس اسٹیشن۔۔۔‘‘ غلام نبی نے دھیمے لہجے میں کہا، پھرایک لمحہ رک کر بولا۔
’’سچی بات تو یہ ہے کہ وہ میری بات ہی نہیں سن رہے تھے۔ میرے ساتھ دو لڑکے بھی تھے علی کے کلاس فیلو۔۔۔ مگر انہوں نے پہلے تو ٹرخا دیا۔ وہ تو انہی لڑکوں پر شک کرنے لگے تھے۔ پھر۔۔۔‘‘
’’پھر کیا ہوا۔۔۔ ‘‘ نگہت بیگم بے تابی سے بولی۔
’’پھر پتہ نہیں کسی کا فون آیا تھا۔ میری تو پوچھنے کی ہمت ہی نہیں پڑی کہ وہ کون تھا، اس نے علی کے بارے میں پوچھا، اور پھر جھٹ پٹ ایف آئی آر کاٹ دی اور مجھے پورا یقین دلایاکہ ہر ممکن حد تک وہ علی کو تلاش کریں گے۔‘‘
’’کون تھا، کس کا فون تھا۔۔۔؟‘‘ وہ حیرانگی سے بولی۔
’’میں نے کہا نا کہ میری توہمت ہی نہیں پڑی، پہلی بار پولیس اسٹیشن گیا تھا اور پھر ان کا رویہ بہت برا تھا۔ میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ انہوں نے ایف آئی آر تو لکھ لی۔‘‘ غلام نبی نے صاف لفظوں میں کہہ دیا۔
’’ابا۔۔۔ میں نے بھی علی بھائی کے دوستوں سے پوچھا کہ انہیں تھوڑا بہت معلوم ہو۔ وہ خود حیران تھے کہ یہ سب کیسے ہوا۔ ان کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔ علی بھائی کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ ہی کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ تھا۔ اب یہ کیا معاملہ ہے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔‘‘
’’خیر۔۔۔ میں نے سوچا ہے کہ اپنے باس سے بات کروں گا۔ ان کا کوئی اثرو رسوخ ہے۔ آج تو اسی پریشانی میں آفس ہی نہیں گیا۔ تم لوگوں نے کھانا کھالیا ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ فائزہ جلدی سے بولی۔
’’ایسا کب تک چلے گا۔ چلو اپنی ماں کا منہ ہاتھ دھلواؤ اور پھر کھانا لگاؤ۔ اللہ مالک ہے، وہ ہمارے لئے بہتر کرے گا۔ چلو شاباش۔‘‘ غلام نبی نے دھیمے لہجے میں کہا اورخود بھی اٹھ گیا۔ نگہت بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگرچہ رات کے گہرے اندھیرے کو اک ننھا سا دیا روشن ہو کر سیاہی دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا۔ گو پے میں پڑی چارپائی پر علی اپنی سوچوں میں گم تھا۔ وہ یوں ساکت بیٹھا ہوا تھا جیسے اس میں زندگی کا احساس ہی نہ ہو۔ وہ بڑے غور سے ٹمٹماتے ہوئے دئیے کو دیکھ رہا تھا مگر اس کا ذہن بہت دور کہیں شہر کی گلیوں اور بازاروں میں سے ہوتا ہوا اپنے گھر کے صحن میں تھا۔ ایسے ہی وقت میں سارا گھر رات کے کھانے سے فارغ ہو کر خوش گپیوں میں مصروف ہوا کرتا تھا۔ وہ یہ مسلسل سوچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہاں سے کیسے نکلا جائے۔ وہ اپنے طور پر بھی کوئی بندوبست کر سکتا تھا۔ دوپہر سے ذرا بعد اسے یہ خیال بھی آیا تھا مگر وہ احسان فراموش نہیں تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو نہ صرف احسان مانتے ہیں بلکہ اپنے محسن کو کبھی دھوکا نہیں دیتے۔ اس کے خیال میں وہ مرد ہی نہیں ہو سکتا جو محسن کشی کرے یا اپنے محسن کا احسان بھول جائے۔ وہ سانول کی اجازت سے ہی یہاں سے جاناچاہتاتھا۔ سانول شام سے ذرا پہلے آ گیا تھا۔ اس نے آتے ہی علی کے نہانے دھونے کا بندوبست کیا۔ پھر اپنے کپڑے دئیے، جب تک وہ کپڑے پہن چکا تھا۔ اس وقت وہ اسے کھانا دے کر چلا گیا۔ اس دوران باوجود کوشش کے علی اس سے بات نہیں کر سکتاتھا۔ اب رات دھیرے دھیرے سرکتی چلی جارہی تھی لیکن سانول ابھی تک پلٹ کر واپس نہیں آیا تھا۔ اور علی اپنے خیالوں میں نجانے کہاں کھویا ہوا تھا۔ وہ چونکا اس رقت جب اسے میاں جی کی آواز سنائی دی۔
’’برخودار۔۔۔ اتنی گہری سوچ میں کہا ڈوبے ہوئے ہو۔‘‘
وہ چونک کر سیدھا ہو گیا اورپھر قدرے شرمندہ سے لہجے میں بولا۔
’’وہ بس۔۔۔ میں۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘
’’کوئی تو سوچ چل رہی ہو گی دماغ میں۔ مجھے اگر نہیں بتانا چاہتے ہو تو وہ تمہاری مرضی۔‘‘ میاں جی نے مسکراتے ہوئے کوا تو وہ بھی ہنس دیا۔ میاں جی پاس پڑے ہوئے پیڑھے پر بیٹھ چکے تھے۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے میاں جی، بس یہی سوچ رہا تھا، میرے گھر والے پریشان ہوں گے۔‘‘
’’ہاں پریشانی تو ہوتی ہے۔ مگر تمہاری حالت بھی تو ٹھیک نہیں ہے نا۔‘‘ میاں جی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میاں جی۔۔۔ میرے گھر والے بہت پریشان ہو رہے ہوں گے۔ میں سانول کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ اگر وہ بر وقت نہ پہنچتا تو شاید۔۔۔ شاید میں اب تک مر گیا ہوتا۔‘‘ علی نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا تو میاں جی مسکراتے ہوئے بولے ۔
’’پہلی تو بات یہ ہے کہ برخودار کہ زندگی اور موت اس اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی نہ کسی کوموت دے سکتا ہے اور نہ زندگی اور دوسری بات یہ ہے کہ تم خود سوچو۔۔۔اگر تم اسی صحرا میں زندگی ہار گئے ہوتے تو پھر تمہارے گھر والوں تک خبر کون پہنچتا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ یہ تو ہے میاں جی۔۔۔‘‘
’’تو بس پھر ذرا صبر کرو۔۔۔ ایک دو دن میں تم واپس چلے جاؤ گے انشاء اللہ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے ہاتھ بڑھایا اورکہا۔
’’لاؤ ذرا نبض دکھاؤ ، تمہارا بخار دیکھوں۔‘‘انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس پر علی نے اپنی کلائی ان کے ہاتھوں میں دے دی۔ میاں جی یونہی چند لمحے ساکت بیٹھے رہے، پھر کلائی چھوڑتے ہوئے مطمئن لہجے میں کہا۔
’’الحمداللہ۔۔۔ اب بخار تو نہیں ہے۔ میں سانول سے کہوں گا کہ وہ تمہیں بھجوانے کا بندوبست کر دے۔‘‘
یہی وہ لمحات تھے جب علی نے انتہائی تشکر سے میاں جی کی طرف دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔ گوپے میں مدہم روشنی تھی۔ اس میں میاں جی کا چہرہ سفید براق داڑھی میں سے نورانی لگا۔ پر پر سفید پگڑی، سفید لبادہ، اس کے گرد جیسے نور کا ہالا۔ میاں جی بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ علی کا من انتہائی تشکر سے بھرا ہوا تھا۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن ایک لفظ بھی نہیں کہہ پارہا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے چلتے ہوئے لمحے اچانک ساکت ہو گئے ہو۔ تبھی میاں جی کے لب واہوئے۔
’’علی پتر۔۔۔ کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ک ۔۔۔ کچھ۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ بس یونہی میاں جی۔‘‘
’’کچھ کہنا چاہتے ہو۔‘‘
’’نہیں میاں جی۔۔۔‘‘
’’تو پھر سنو۔۔۔ یہ دنیا ایک غبار کی مانند ہے، جس کی اصل کچھ بھی نہیں ہے۔ جب یہ غبار تھمے گا نا تو سوائے مٹی میں لتھڑے ہوئے چہروں کے اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا۔ بس اس غبار سے بچنے کی کوشش کرنا۔ ورنہ لتھڑے ہوئے چہرے کو صاف کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں میاں جی۔۔۔ ‘‘ علی نے بے تابی سے کہا تو میاں جی جیسے چونک گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بولے۔
’’ہاں۔۔۔ تم ابھی نہیں سمجھو گے۔۔۔ ابھی تم میں وہ سمجھ ہی بیدار نہیں ہوئی۔ خیر۔۔۔ سمجھ جاؤ گے اور بہت خوب سمجھو گے۔۔۔ وقت آنے دو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر توقف کے بعد بولے۔
’’لو میاں، میں چلتا ہوں، پھر ملاقات ہو گی۔‘‘ میاں جی نے کہا او ر اٹھ گئے۔ وہ تو وہاں سے چلے گئے لیکن اپنی مہکتی ہوئی بات کا اثر چھوڑ گئے۔ علی اسی میں کھو گیا۔ مگر کتنی دیر تک سوچتے رہنے کے بعد اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لئے علی نے سوچنا چھوڑ دیا۔ یوں وہ چند لمحے لاخیال سا ہو گیا تھا۔
سانول گوپے میں آیا تو اس کے ہاتھ میں دودھ سے بھر ا کانسی کا بڑا سا کٹورا تھا۔ اس نے آتے ہی وہ کٹورا علی کی جانب بڑھایا اور عام سے انداز سے کہا۔
’’لے یہ پی لے۔‘‘
’’ارے اتنا دودھ۔۔۔ میں نہیں پی سکوں گا۔‘‘ وہ گھبراتے ہوئے انداز میں بولا۔
’’چل جتنا دل چاہے پی لے، باقی میں پی لوں گا۔ میں تو تیرے لئے اس میں گڑ ڈال کے لایاہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کٹورا علی کو تھما دیا اور خود پیڑھے پربیٹھ گیا۔ علی نے تھوڑا سا دودھ پیا اور باقی سانول کو دے دیا۔ اس نے چند گھونٹ میں وہ پیااورکٹورا ایک طرف رکھتے ہوئے بولا۔
’’تو پھر تو جانا چاہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے علی کے چہرے کی طرف دیکھا، اسے خاموش پا کر کہا۔
’’میاں جی نے بتایا ہے مجھے، ٹھیک ہے میں تیرے لئے کوئی بندوبست کر دیتا ہوں۔‘‘
’’تمہاری مہربانی ہو گی۔‘‘ علی نے انتا کہا اور خاموش ہو گیا۔ تب سانول نے بڑے عجیب سے لہجے میں کہا۔
’’ایک بات پوچھوں علی۔۔۔؟‘‘
’’ایک نہیں، جتنی تمہارا دل چاہے اتنی باتیں پوچھو۔‘‘ علی نے خوش دلی سے کہا تو وہ نہایت سنجیدگی سے بولا۔
’’تو بہت مطمئن ہے علی۔۔۔ ذرا بھی گھبرایا ہوا نہیں ہے، ورنہ جو مجرم ہوتے ہیں نا، وہ تو اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آئی، وہ حملہ آور کون تھے؟‘‘
’’میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا، مگر مجھے پوری طرح اندازہ ہے کہ وہ کون ہو سکتے ہیں اور انہوں نے یہ میرے ساتھ کیوں کیا۔۔۔؟ سانول۔۔۔ کیا تم یقین کرو گے، میں کسی کی محبت کا مارا ہوا ہوں۔‘‘ علی نے انتہائی بے دلی اور نفرت سے کہا۔
’’محبت کا مارا ہوا۔۔۔؟ یہ کیا بات کہہ دی تم نے علی۔‘‘ سانول نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں ایسا ہوتا ہے سانول۔۔۔ جب کوئی امرت کو بھی زہر بنا دیتا ہے۔‘‘ علی نے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ سانول کچھ کہتا، کہیں قریب ہی سے لڑکیوں کا قہقہہ گونجا اور پھر پرات بجانے کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ چند لمحوں بعد سرائیکی میں عورتوں نے گیت گانے شروع کر دئیے۔ علی چونک گیا تھا۔ رات کے پرسکون سناٹے میں اچانک قہقہے اور گیتوں کی آواز بڑی پراسرار لگ رہی تھی۔ سو علی نے سانول کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ۔۔۔ یہ کیا ہے سانول۔۔۔؟‘‘
’’تمہیں نہیں پتہ۔۔۔ شادی والے گھر میں عورتیں اکٹھی ہو کر گیت گاتی ہیں۔ ہم اسے ’’جاگا‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
’’کسی کی شادی ہے؟‘‘ علی نے اطمینان سے پوچھا ۔
’’ہاں۔۔۔ میری شادی ہے۔‘‘
’’تمہاری۔۔۔‘‘ علی نے حیرت سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کب ہے تمہاری شادی؟‘‘
’’چند دن بعد۔۔۔ ممکن ہے تین دن بعد۔۔۔‘‘
’’تاریخ کنفرم نہیں کی میرا مطلب ہے، طے نہیں ہوئی تاریخ؟‘‘ علی نے تیزی سے پوچھا۔
’’طے ہے۔‘‘ سانول نے یوں کہا جیسے شادی کے بارے میں با ت کرنا اسے اچھانہ لگا ہو۔ علی نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’ایک بات پو چھوں سانول۔۔۔؟‘‘
’’پوچھو۔۔۔‘‘
’’لگتا نہیں ہے تمہاری شادی۔۔۔ تم خوش۔۔۔ میرا مطلب تمہاری باتوں۔۔۔ چہرے۔۔۔‘‘
’’تم ٹھیک سمجھے ہو علی۔۔۔ میں خوش نہیں ہوں، ذرا سا بھی خوش نہیں، بلکہ یہ شادی تو میرے لئے صدیوں کی جدائی کا پیغام لے کر آ رہی ہے، میں اس سے بچھڑ کر رہ جاؤں گا۔ اس سے اتنا دور ہو جاؤں گا کہ وہ میرے سامنے بھی ہو گی نا تو میرا اور اس کا فاصلہ ہزاروں سال کے فاصلے پر ہو گا۔‘‘ سانول یہ کہتے ہوئے انتہائی جذباتی ہو گیا تھا۔ اس پر علی خاموش رہا۔ پھر دھیرے سے کہا۔
’’عشق ۔۔۔ کر بیٹھے ہو کسی سے؟‘‘
’’عشق۔۔۔ وہ کیا ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا۔ ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ میری رگ رگ میں، میری جسم کے ہرحصے میں ۔ میری روح میں سمائی ہوئی ہے۔ اگر انسان کی انسان سے عبادت کرنا جائز ہوتی نا تو میں اس کی پوجا کرتا۔۔۔ مگر۔۔۔ عشق اولڑا درد ہی ایسا ہے نہ جان چھوڑتا ہے نہ جینے دیتا ہے۔ وہ خواجہ سائیں نے کہا ہے نا کہ عشق اولڑی پیڑوو۔ لوکاں خبر نہ کائی۔۔۔‘‘
’’یہ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو سانول۔۔۔ عشق بھی ہے اور وہ بھی انتہا کا عشق، پھر۔۔۔‘‘
’’میں تیری بات سمجھتا ہوں علی کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔ مگر شاید میرا عشق ابھی سچا نہیں ہے، میرے عشق کی راہ میں میری مامتا کھڑی ہے۔ میں وہ حد نہیں پھلانگ سکتا۔۔۔ نہیں پھلانگ سکتا میں۔‘‘ سانول نے یہ کہتے ہوئے آنکھیں یوں بند کیں جیسے اندر کہیں بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ ہونے لگ گئی ہے۔
ہوں۔۔۔ تمہارے عشق کی راہ میں تمہاری مامتا ہے۔۔۔‘‘ علی نے سوچنے والے انداز میں کہا اور پھر چند لمحے توقف کے بعد بولا۔
’’لیکن کیا وہ بھی واقف ہے تمہارے حال سے جس سے تم عشق کرتے ہو۔‘‘ اس کے یوں کہنے پر سانول نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور گومگو کی سی حالت میں بیٹھا رہا۔ چند لمحے یونہی اس حالت میں گزر گئے تو بولا۔
’’پتہ نہیں یار۔۔۔ وہ جانتی بھی ہے یا نہیں۔۔۔ پر میرا سوہنا اللہ سائیں ضرور جانتا ہے۔ مجھے بہت پیاری لگتی ہے وہ۔۔۔ اس روہی کی ہرنی ہے وہ۔۔۔ پتہ نہیں میرے رب سائیں نے اسے سب سے مختلف کیوں بنایا ہے۔ ہزاروں میں بھی ہوتی ہے نا تو الگ نظر آتی ہے۔‘‘
’’کاش میں تم سے پوچھ سکتا کہ وہ کون ہے۔۔۔؟ خیر۔۔۔ تم نے کوشش بھی نہیں کی، اسے بتایا بھی نہیں؟‘‘ علی نے تجسس سے پوچھا۔
’’یار پتہ نہیں کیوں، میں نے کبھی اپنا حال دل اس سے کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور پھر میں نے اسے کبھی خود سے الگ بھی نہیں سمجھا ہے۔ وہ میرے پاس، یہاں دل میں رہتی ہے۔ میرے آنکھوں کے سامنے رہتی ہے۔ بس میری ماں کی ضد۔۔۔‘‘ سانول انتہائی جذباتی انداز میں کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ اس خاموشی میں کہیں سے آتی ہوئی گیتوں اور قہقہوں کی آواز سارے ماحول پر چھا گئی۔ وہ دونوں پتہ نہیں کتنی دیر تک یونہی خاموش بیٹھے رہے، سانول اپنے عشق کے بارے میں سوچتا رہا اور علی ا س کے بارے میں۔ تب اچانک سانول اٹھا اور اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔
’’تو آرام کر علی۔۔۔ میں چلتا ہوں۔ صبح ملاقات ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے علی کے کسی جواب کا انتظار کیے بنا گوپے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ علی چند لمحے یونہی ساکت سا بیٹھا رہا اور پھر اس نے دئیے کی چلتی لو کو پھونک مار کے بجھایاتو اندھیرا چھا گیا۔ وہ سونے کے لئے لیٹ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شہر کی سڑکوں پر انتا رش تھا۔ فرزانہ خاں اپنی قیمتی گاڑی میں پھیلی ہوئی مدہم موسیقی میں ڈرائیونگ کرتی چلی جا رہی تھی۔ اگرچہ اس کی ساری توجہ علی کی طرف تھی لیکن کھلی آنکھوں سے گاڑی بھی چلا رہی تھی۔ وہ کل سے خود کو سنبھالنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ اس نے علی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ محض اس کی محبت میں اسے سمجھانے کے لئے کیا تھا،صرف ایک جھٹکا دینا مقصد تھا۔ خدا نخواستہ وہ اس کی جان کے درپے نہیں تھی۔ یہ تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ مزاحمت بھی کرسکتا ہے اور صورت حال یو ں بھی سامنے آ سکتی ہے۔ آج وہ یونیورسٹی بھی گئی تھی لیکن ایک لمحے کے لئے بھی اس کا دل نہیں لگا۔ اس لئے جلد ہی وہاں سے واپس آنے کے لئے پر تولنے لگی تھی۔ ایسے میں نورین نے اس کی بے تابی سے متعلق وجہ پوچھی۔
’’تم اتنی بے چین کیوں ہو، ابھی تھوڑی دیر پہلے توآئی ہو اور اب واپس جانے کی بھی جلدی ہو گئی ہے تمہارا مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’مجھے لائبریری جانا ہے میری جان کچھ کتابیں لوں گی اور پھر گھر۔۔۔‘‘ فرزانہ خاں کو اور کچھ نہیں سوجھا تو جلدی سے بہانہ تراش دیا۔
’’چلو پھر میں بھی چلتی ہوں۔ آج تو ڈپیارٹمنٹ میں بھی ہو کا عالم ہے۔ بے چارہ علی۔۔۔ اس بے چارے کا اب تک پتہ نہیں چلا۔ بوائز بتا رہے تھے کہ اسے غنڈوں نے اغواء کر لیا ہے۔ یہ کنفرم ہو گیا ہے۔‘‘ نورین نے اپنی ہی دھن میں کہا تو فرزانہ کی بے چینی کچھ اور بڑھ گئی۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’یہ کیاتم اس کاراگ ہی لے کر بیٹھ جاتی ہو۔ بابااس کی کسی کے ساتھ دشمنی ہو گی۔ ورنہ کون ایسے کرتا ہے بھلا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چل دی۔ تب نورین نے بھی ا س کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’صرف میری ہی نہیں، سب کی یہی رائے ہے کہ اس کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں تھی۔‘‘
’’ٹھیک ہے نہیں ہو گی۔ مان لیا۔۔۔ ویسے میں نے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ فرزانہ نے کس قدر ڈرامائی انداز میں کہا یوں جیسے خود کومطمئن کر رہی ہو۔
’’وہ کیسے؟‘‘ نورین حیرت سے بولی۔
’’میں نے بابا سائیں سے کہا ہے۔ انہوں نے اسی وقت پولیس اسٹیشن فون کر دیا تھا۔ اب دیکھیں اگر وہ زندہ ہوا تو مل جائے گا۔‘‘
’’اللہ نہ کرے، اسے کچھ ہوا ہو۔۔۔ تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے وہ واقعتاً۔۔۔ خیر۔۔۔ تمہاری یہ مدد کوئی اتنی فائدہ مند نہیں ہو گی۔ یہ تو پولیس پر دباؤ ڈالاجائے تو ہی بات بنتی ہے۔ اس طرح کہہ دینے سے بھلا پولیس کہاں دلچسپی لیتی ہے۔‘‘ نورین کا لہجہ شکواہ بھرا تھا۔ اسے فرزانہ کی بات اچھی نہیں لگی تھی۔ اس وقت وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔ سو نورین اس کے ساتھ آ بیٹھی ۔ جب تک گاڑی چلی نہیں دونوں میں خاموشی رہی۔ تب نورین نے ہی بات بڑھائی۔
’’پتہ نہیں کسے اس کے ساتھ دشمنی ہو گی۔‘‘
’’دشمنی نہ ہو گی تو کسی کو ستایا ہو گا۔‘‘ فرزانہ مسکراتے ہوئے بولی۔
’’اگر ایسی بات ہے تو سارا شک تم پر ہی جائے گا۔ تمہاری اس کے ساتھ کب بنی ہے۔ تم ہی کہتی ہو کہ وہ تیری محبت کے معاملے میں تجھے بہت ستارہا ہے۔‘‘
’’کرلو شک، میں نے کب روکا ہے۔ تمہیں پتہ ہے نورین ، میں اپنی مرضی کرتی ہوں۔ جب ضد پرآ جاؤں تو میں اپنے نقصان کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔‘‘ وہ نخوت سے بولی۔
’’کبھی کبھی میں سوچتی ہوں فرزانہ۔۔۔ تمہارا دولت مند ہونا ، مغرور ہونا، یہ سب تمہارے دماغ میں منفی سوچیں ابھارتا ہے۔ اپنے آپ پر قابو رکھا کرو۔‘‘ نورین نے تحمل کے ساتھ اسے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
’’اگر مجھے دولت مند ہونے کا غرور ہوتا نانورین۔۔۔ تو پھر تم کبھی بھی میری دوست نہ ہوتی۔ تم بھی تو ایک متوسط گھرانے کی لڑکی ہو۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تم نے کہا تھا نا کہ میرا پرابلم کیا ہے تو سنو۔۔۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ مجھے کوئی سمجھتا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’کوئی تمہیں کیا سمجھے۔۔۔ تم ہو ہی اتنی مشکل شے۔۔۔ ضدی ، اکھڑ، بدمزاج، بدتمیز۔‘‘
’’تم جو بھی کہہ لو۔۔۔ علی نے اگر میری محبت قبول نہ کی تو۔۔۔ تو۔۔۔ خیر۔۔۔ میں اگر چاہوں نا تو اسے زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دوں۔ وہ جن مسائل کی بات کرتا ہے وہ سب چٹکیوں میں حل ہو جائیں۔ بس۔۔۔ وہ میرا ہوجائے۔‘‘ فرزانہ نے خواب ناک لہجے میں کہا تو نورمین اس کی جانب دیکھتی رہ گئی۔ پھر مایوس لہجے میں بولی۔
’’ابھی تو اس بے چارے کی واپسی کی دعا کرو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کے لئے رکی اور پھر کہتی چلی گئی۔
’’جوتم نے زمین سے آسمان والی بات کی ہے نا، یہی تمہاری غلط فہمی ہے۔ محبت اگر دولت سے خریدی جا سکتی نا تو ساری محبت دولت مندوں کے پاس ہوتی۔ محبت کو دولت سے ناپنا چھوڑ دو۔۔۔ پھر تمہیں سمجھ آ سکے گی کہ دراصل محبت ہوتی کیا ہے؟‘‘
’’میں ۔۔۔ میں۔۔۔ جو۔۔۔ اس سے۔۔۔ محبت کرتی ہوں۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا یہ رائیگاں عمل ہے۔۔۔‘‘ فرزانہ نے انتہائی جذباتی انداز میں تیزی سے کہنے کی کوشش میں اٹکتی چلی گئی۔
محبت رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ واقعی محبت ہو۔‘‘ نورین نے تحمل سے کہا۔
’’تم پتہ نہیں کس محبت کی بات کررہی ہو۔ میری سمجھ میں تو بالکل تمہاری بات نہیں آ رہی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ تمہیں سمجھ آئے گی بھی نہیں۔۔۔ جب تمہیں محبت ہو گی نا۔ پھر سمجھ آئے گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی گھڑی دیکھی اور کہا۔
’’گاڑی ذرا تیز چلاؤ۔ لائبریری میں وقت لگ سکتا ہے پھر گھر بھی جانا ہے۔‘‘
اس وقت وہ نورین کو ڈراپ کر کے اپنے گھر کی جانب جا رہی تھی اور اس کے دماغ میں یہی چل رہا تھا کہ وہ واقعی علی سے محبت نہیں کر رہی ہے یا اس سے کوئی بہت بڑی بھیانک غلطی ہو گئی ہے۔ وہ اسی کشمکش میں تھی اور اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ اس نے اپنی کار پورچ میں رہنے دی اور گھر کے اندر داخل ہو گئی۔
سردار امین خاں اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی فرزانہ خاں نے اپنے چہرے پر خوشگوار تاثر لانے کی انتہائی کوشش کی، جو بہت حد تک کامیاب بھی رہی۔ اب وہ فرزانہ خاں نہیں رہی تھی جس کے چہرے پر مایوسی اور انتشار تھا، بلکہ ایک خوشگوار چہرے لئے وہ اپنے باپ کے سامنے گئی۔ اس نے بہت احترام سے اپنے بابا کو سلام کیا۔
’’جیتی رہو بیٹی۔۔۔‘‘ امین خان نے کہا اور پھر اس کے ہاتھوں میں کتابیں دیکھتاہوا بولا۔
’’اتنی کتابیں کیاتم پڑھو گی۔۔۔؟‘‘
’’جی بابا سائیں۔۔۔ میں یونیورسٹی کے بعد لائبریری چلی گئی تھی۔ مجھے ریسرچ رپورٹ لکھنا ہے۔ ا س کے لئے نوٹس لکھنے کے لئے کتابوں کی ضرورت تو پڑتی ہے نا۔‘‘ فرزانہ خاں نے بڑے احترام سے کہا۔
’’تو اس کا مطلب ہے تمہاری پڑھائی زوروں پرجا رہی ہے۔‘‘ امین خان نے ہنستے ہوئے کہا اور اچانک ہی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولے۔
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ تم نے کہا تھانا۔۔۔ وہ کیانام ہے تمہارا کلاس فیلو۔۔۔‘‘
’’علی ہے اس کانام بابا سائیں۔‘‘ فرزانہ نے دھڑکتے ہوئے دل سے کہا تو وہ بولے۔
’’ہاں ہاں وہی۔۔۔ اس کے بارے میں پولیس کے پاس صرف اتنی سی انفارمیشن ہے کہ اسے اغواء کیا گیا ہے۔ انہوں نے پوری دیانت داری سے تفتیش کی ہے۔ دوسرے سٹوڈنٹس سے، طلبہ رہنماؤں سے سب سے پوچھا ہے۔خاص بات جو معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی وہ سیاسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔۔۔ خیر بہت جلد معلوم ہو جائے گا ۔ تم یہ بتاؤ کہ کلاس میں اس کا کسی سے جھگڑا تو نہیں چل رہا تھا؟‘‘امین خاں اپنی دھن میں کہے چلا جا رہاتھا لیکن فرزانہ خاں کی حالت غیرہونے لگی تھی۔ اسے یوں لگاجیسے علی کے بارے میں تفتیش اور تحقیق سے اس کا اپنا پول کھل جائے گا۔ وہ دھک سے رہ گئی۔ اگر اس کے بابا سائیں کو معلوم ہو گیا تو ۔۔۔؟ وہ اس سے آگے نہ سوچ سکی۔ پھر فوراً ہی بولی۔
’’بابا سائیں۔۔۔ میری کلاس کے معاملات میں اتنی دلچسپی نہیں ہوتی، میں نے تو آپ سے یونہی کہہ دیاتھا۔ اگر آسانی سے اس کے بارے میں پتہ چل جاتاہے تو ٹھیک ، ورنہ آپ اتنی درد سری نہ لیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، بس میں نے پولیس کوکہہ دیا ہے وہ جانیں اور ان کا کام۔۔۔ تم جاؤ آرام کررو۔۔۔ تھک گئی ہو گی۔‘‘ امین خاں نے کہا تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس لئے وہ بغیر کچھ بولے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ اپنے کمرے میں گئی۔ کتابیں ایک طرف پڑے ہوئے صوفے پر پھینکیں اورخود کو بیڈ پرگرا لیا۔ وہ عجیب قسم کے انتشار میں آ گری تھی۔ اسے یوں لگا جیسے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ شاید اس نے اپنی بازی خود ہی اپنے ہاتھوں ہار دی ہے۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا، کب دو آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے ہیں۔ اس نے ان آنسوؤں کی تپش جب اپنے گالوں پر محسوس کی توچونک گئی۔ یہ کیاہوا۔۔۔؟ کیا وہ رو رہی ہے، اپنی حالت پر رو رہی ہے یا ہار جانے کا دکھ اسے اندر سے توڑ پھوڑ رہا ہے یا پھر۔۔۔ علی کے کھو جانے کا اسے دکھ ہے؟ اسے کوئی سمجھ نہیں آئی تو اس نے خود کو پھر سے آزاد چھوڑ دیا۔ وہ کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ تب ایسے لمحات میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ اس نے یہ بارش برسنے دی۔ شاید اس سے غبار دھل جانے کی امید ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
جس طرح روہی اور لوک گیتوں کاآپس میں اٹوٹ رشتہ ہے بالکل اسی طرح صحرائے چولستان میں چلنے والی ہواؤں میں عشق و مستی اور جنوں کو ابھارنے والی کیفیات کے تاثر موجود ہوتے ہیں۔ یہاں پہلی نگاہ میں ویرانی دکھائی دیتی ہے لیکن جیسے ہی دل کے اندر عشق اپنی جگہ بناتا ہے تو یہی ویرانی خوبصورتی میں ڈھل جاتی ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ عشق کی چنگاری کہاں سے آتی ہے اور دل میں موجود ساری محبتوں کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔ پھر وہاں بسیرا ہوتا ہے تو فقط عشق کا۔ وہ چنگاری کوئی حسین چہرہ بھی ہو سکتی ہے۔ سانول کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ اس کے دل کی وادی میں عشق کی حکمرانی تھی اوریہ آگ اس قدر بھڑک اٹھی تھی کہ اسے خود کا بھی ہوش نہیں رہا تھا۔ بچپن سے وہ خواجہ سائیں کی کافیاں سنتا آ رہا تھا۔ اسے یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ عشق میں گرفتار ہے لیکن بارگاہ عشق میں کس طرح رہا جاتا ہے ۔ اس کا اسے قطعاً علم نہیں تھا۔ بس ایک چہرے کا طواف ہی اس کے سکون کا باعث تھا مگر یہی اس کی ناسمجھی تھی۔ ہر طواف کے بعد آتش عشق مزید بھڑک جایا کرتی ، پھر وہ ہوتا اور ویرانے ۔ حواجہ سائیں کی سنی سنائی کافیوں کے بول اس کے لب پر ہوتے۔ اسے اپنی ہی آگ میں جلنے کا مزہ آنے لگا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا آپ مار لیا اور قربان گاہ مامتا پر خود کو قتل کرنے کافیصلہ کر لیا۔وہ اپنی بھینٹ دے کر سرخرو ہو جانا چاہتا تھا۔ اس کے ذہن میں ماں کا مقام بہرحال اعلیٰ وارفع تھا۔ اور وہ شام آ گئی تھی جب اس نے خود کومقتل میں پیش کر دیا تھا ۔ سورج غروب ہوا تورات کے سائے پھیل گئے۔
اس کے گھر کا صحن بستی کی خواتین سے بھرا ہوا تھا۔ میٹھے چولستانی گیتوں کی پھوار میں اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ شہید عشق ہے اور اس کے سفر آخرت کی تیاری میں وہاں کی خواتین نوحہ خواں ہے۔ ایک عجیب تضاد تھا جس میں وہ پھنسا ہوا تھا۔ وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے ہوئے دل میں رو رہا تھا۔ اس وقت وہ عین صحن میں رنگین پیڑھے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سر کے اوپر سرخ آنچل تانا گیا تھا۔ گانہہ باندھ دینے کی رسم ہونے والی تھی۔ عورتیں گیت گا رہی تھی اور اس کی نگاہیں اس چہرے کو تلاش کر رہی تھیں جو اس کا سب کچھ تھا۔ جدائی کا وہ لمحہ آن پہنچا تھا۔ جونہی اس کے گانہہ باندھ دیا گیاتو وہ اس سے صدیوں کے فاصلے پر چلی جائے گی۔ مگر وہ چہرہ اسے دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ اس وقت تو وہ بالکل ہی مایوس ہو گیا جب اس کی کلائی پر گانہہ باندھا جانے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے ایک تیر اس کے دل میں آ کر لگا ہے۔ ہر جانب لبوں پر مسکراہٹ تھی اور اس نے خود کو مار لیا۔ زعفرانی رنگ پھینکا جانے لگا۔ قہقہے اور مسکراہٹوں سے اس کاصحن بھر گیا۔ جس میں کسینے بھی اس کے من کے اندر بچھے ماتم کو محسوس نہ کیا۔ اس سے پہلے کہ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک کر اس کا راز فاش کر دیں۔ وہ وہاں سے اٹھ گیا۔ اسے وہیں بیٹھا رہنے کے لئے بہت کہاگیا، مگر وہ نہیں بیٹھا۔ انہیں لمحوں میں اس کی نگاہ اپنی ماں پرپڑی۔ جس کے ہونٹوں پر تو مسکراہٹ تھی لیکن آنکھوں میں آنسو تھے۔ شاید اسے اپنے بیٹے کے من کی خبر ہو گئی تھی یا پھر یہ کوئی روحانی تعلق تھاکہ اس کا جگر گوشہ کس کیفیت سے گزر رہا ہے۔
’’فیضاں بہن مبارک ہو۔۔۔‘‘ کسی نے اس کی ماں سے کہا تو وہ اس طرف متوجہ ہو گئی اور سانول تیزی سے گوپے کی طرف چل دیا۔ کیونکہ وہی اس کی جائے عافیت ہواکرتی تھی۔
گوپے میں اندھیرا تھا۔ سانول جب اندر آیا تو اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ اس لئے پریشانی سے بولا۔
’’علی۔۔۔ او علی۔۔۔ کدھر ہو تم؟‘‘
’’میں یہیں ہوں۔۔۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔
’’دیا نہیں جلایا تم نے۔۔۔؟‘‘ سانول نے پوچھا۔
’’بس دل نہیں کیا۔ تیرے انتظار میں تھا۔ نجانے تو کب آ جائے اور۔۔۔‘‘ علی نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑدی۔ اس پر سانول سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ سو وہ بولا۔
’’مجھے پتہ ہے تو کیا کہنا چاہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹٹول کر ماچس اٹھائی اور پھر دیا سلائی روشن کرتے ہوئے کہا۔
’’میرا دل نہیں مانا کہ میں تمہیں کسی اور کے ساتھ شہر بھیجوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے دلا جلا دیا۔ گوپا روشن ہوا تو ا س کے ہاتھ میں باندھا ہوا گانہہ بھی صاف دکھائی دینے لگا۔ دئیے کی لوتیز ہونے لگی تو اس نے کہا۔
’’میں تجھے خود شہر چھوڑ کے آؤں گا۔ وہ بھی آج رات۔۔۔‘‘
’’تم۔۔۔ خود۔۔۔ مطلب تم مجھے چھوڑ کے آؤ گے۔‘‘ علی نے اس کی کلائی پر بندھے ہوئے گانہے کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ میں چھوڑ کے آؤں گا۔‘‘ سانول نے مسکراتے ہوئے کہا تو علی نے اس کے گانہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن یہ۔۔۔ یہ گانہہ۔۔۔ تمہاری۔۔۔ بلکہ تم لوگوں کی رسم کے مطابق تو جس کو گانہہ باندھ دیا جاتا ہے وہ گھر سے نہیں نکلتا۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
’’چھوڑ اس گانہے کو۔۔۔ تمہیں کیا پتہ کہ یہ کیا ہے۔ یہ تو جدائی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک طویل سرد سانس لیا اور پھر کہا۔
’’جب تک یہ سونے کے لئے جائیں گے نا، تب تک تو میں تمہیں شہر کے پاس چھوڑ کے آ جاؤں گا۔ تو پریشان نہ ہو۔ آج رات وقت ہے، پھر شاید کئی دن تک مجھے وقت نہ ملے۔ تو ایسا کر یہاں سے نکل اور بستی کے باہر کھڑا ہو، میں آتا ہوں اونٹ لے کر، تو چل۔۔۔‘‘ سانول نے کہا اور علی کو حیران سا چھوڑ کر گوپے سے باہر نکل گیا۔ اگرچہ علی کو اپنے گھر جانے کی بہت جلدی تھی لیکن سانول کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ اس کی ساری بے چینی ایک دم سے ختم ہو کر رہ گئی۔ اس نے اپنے کپڑے وہیں پر رہنے دئیے۔ انہیں اٹھانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا۔ اس نے سر ہانے رکھا ریوالور اٹھایا اور گوپے سے باہر نکل گیا۔ سانول کے کپڑوں میں وہیں کا باشندہ دکھائی دے رہا تھا۔
سانول باڑے میں اونٹ کو بٹھا کر اس پر سوار ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اونٹ کو اٹھاتا، اس نے چاروں جانب دیکھا۔ اسے کوئی بھی نہیں دیکھ رہاتھا۔ اطمینان کر لینے کے بعد اس نے اونٹ کو اٹھایا اور باہر کی جانب لپکا۔ اسے بستی کے درمیان سے گزر کر ہی باہر جانا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت مہرو اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ بستی کی ایک گلی میں چلی آ رہی تھی۔ چاند نکلنے میں ابھی وقت تھا۔ اس لئے ان میں چند لڑکیوں کے ہاتھوں میں لالٹین پکڑی ہوئی تھی۔ اسی کی روشنی میں تیز اور تیکھے رنگوں کے لباس پہنے، دھیمے قہقہوں ،مدہم باتوں اور میٹھی سرگوشیوں میں وہ چلتی چلی آ رہی تھی۔
’’بھئی شماں کے چہرے پر کتنی خوشی چمک رہی تھی، تم نے دیکھا تھا؟‘‘کسی ایک لڑکی نے کہا تو مہرو بولی۔
’’تم کیا سمجھتی ہو۔ کیا اسے خوشی نہیں ہو گی۔۔۔ سانول جیسا لڑکا اس بستی میں ہی نہیں، پورے علاقے میں نہیں ہے۔ معصوم، بھولا بھالا۔۔۔ صاف گو اور اتنا خوبصورت۔۔۔‘‘ مہرہ یہ کہتے ہوئے نجانے کہاں کھو گئی۔
’’ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا تمہیں اتنا اچھا لگتا ہے وہ۔۔۔‘‘ ایک لڑکی نے سرگوشی میں کہا تو مہرو بجائے شرمانے کے جلدی سے بولی۔
’’سانول جیساشوہر پا کر ہر لڑکی اپنی قسمت پر ناز کر سکتی ہے۔ لیکن میرا اور اس کا سنجوک ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’وہ کیوں، سانول تیرا پھوپھی زاد نہیں ہے؟‘‘
’’ہے لیکن میرے بھائی کے لئے ان کے پاس وٹہ تو نہیں ہے نا۔ شماں کا کوئی بھائی نہیں ہے، اس لئے ان کی شادی طے ہو گئی، ورنہ سانول بے چارہ کب تک ایسے رہتا۔۔۔‘‘ مہرو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہے بہت اچھا۔ مگر تیرے بھائی رب نواز کی و جہ سے۔۔۔‘‘
’’اچھا تو ہے، میں چاہے جتنا مرضی اس کے ساتھ مذاق کر لوں، جتنا مرضی تنگ کر لوں، نہ وہ کبھی گھبرایا اور نہ ہی کبھی ناراض ہوا ہے۔‘‘ مہرو نے انتہائی فخر سے کہا تو دوسری لڑکیاں ہنس دیں۔
’’چل جلدی چل، پتہ نہیں سانول کے گانہہ باندھ دیاگیا ہو گا۔ بڑی رونق ہو گی ان کے گھر۔‘‘ ایک لڑکی نے کہا تو ا ن میں سے ایک لڑکی کی نگاہ علی پر پڑی جوبہت اطمینان سے ان کے قریب سے گزر گیاتھا۔ اس کی نگاہیں نیچی تھیں۔ ایک نگاہ بھی ان لڑکیوں پر نہیں ڈالی۔ یوں جیسے ان سے چھپ کر جانا چاہ رہا ہو۔
’’ارے یہ وہی شہری نہیں ہے جو سانول کا مہمان ہے۔‘‘ کسی نے سرگوشی کی۔
’’ہے تو وہی۔۔۔ پر یہ جا کدھر رہا ہے؟‘‘ دوسری سرگوشی ابھری۔
’’کہیں بھی جائے ہمیں کیا، تم چلو دیر ہو رہی ہے۔‘‘ مہرو نے کہا اور وہ سب تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئیں۔ پھر جیسے ہی وہ لڑکیاں گلی کے موڑ پر آئیں تو انہیں سامنے سے اونٹ پر سوار سانول دکھائی دیا۔
’’ارے یہ سانول۔۔۔ یہ کدھر جا رہا ہے۔‘‘ ایک لڑکی نے حیرت سے کہا تو مہرو جلدی سے آگے بڑھ کر کھڑی ہو گئی۔ اگر سانول فوراً ہی اونٹ کو نہ سنبھالتا تو شاید مہرو لتاڑی جاتی۔ سانول کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا وہ ایک ٹک مہرو کی طرف دیکھتا چلا گیا۔ مہرو نے اس کے چہرے پر دیکھا اور پھر ان ہاتھوں پر اس کی نگاہ گئی جن میں کس کر مہاریں پکڑیں تھیں اور گانہہ چمک رہا تھا۔
’’اے سانول۔۔۔ تیرے تو گانہہ باندھ دیا ہے اور پھر تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟‘‘ مہرو نے تیز لہجے میں پوچھا تو سانول کو جیسے ہوش آ گیا۔ وہ چونکتے ہوئے بولا۔
’’کہیں نہیں۔۔۔‘‘
’’ہائیں۔۔۔ اونٹ پر سوار ہے، اور کہتا ہے کہیں نہیں جا رہا۔‘‘ مہرو نے مسکراتے ہوئے حیرت سے کہا۔ تب سانول نے پیار بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی حسرت سے کہا۔
’’مہرو۔۔۔ بڑی ساری ایسی منزلیں ہوتیں ہیں جو سامنے بھی ہوں تو ان کے بارے میں اظہار نہیں کیاجاتا۔ ورنہ راستے کھوٹے ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔میرے پلے تو کچھ بھی نہیں پڑا۔‘‘ مہرو نے حیرت سے کہا۔
’’ساری عقل سمجھ تو میرے لئے چھوڑ دے، تو کچھ بھی نہ سمجھ۔ چل راستہ چھوڑ۔‘‘ سانول نے مایوس لہجے میں کہا۔
’’مگر میں تم سے پوچھ رہی ہوں تم جا کدھر رہے ہو۔ آخر میں تیری مسات(کزن) ہوں۔ پوچھ سکتی ہوں تم سے۔۔۔‘‘
’’بہت ساری باتیں نہ بتانے والی ہوتی ہیں اور نہ پوچھنے والی۔ ورنہ بہت کچھ برباد ہو جاتا ہے۔ تم میرا راستہ چھوڑ دو۔ جانے دو مجھے۔‘‘ سانول اپنی ہی جونک میں کہتا چلا گیا تو مہرو نے غصے میں کہا۔
’’لگتا ہے تو اپنے ہوش میں نہیں ہے۔ کسی جن کا سایہ ہو گیا ہے تم پر۔ کیا بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔ بتاکدھر جا رہا ہے، ورنہ میں تمہیں نہیں جانے دوں گی۔‘‘
’’ایسی باتیں مت کر مہرو، جوناممکن ہو۔ دکھ ہوتا ہے۔ شاید اب ہوش آ جائے مجھے۔ تم جاؤ مجھے جانے دو۔۔۔‘‘
’’نہیں جاتی۔۔۔ اور تجھے بھی نہیں جانے دوں گی۔‘‘ مہرو نے غصے میں کہا اور پاس کھڑے ایک شخص سے لاٹھی لے کر زمین پر اس سے لکیر ڈال دی اور پھر بڑی شوخی سے کہا۔
’’جب تک مجھے یہ نہیں بتاؤ گے کہ تم کدھر جا رہے ہو، اس لکیر سے آگے نہیں بڑھنے دوں گی۔ یا پھر وال چلے جاؤ۔‘‘
’’مہرو۔۔۔ تیرے ساتھ میرا کیا مقابلہ۔۔۔ میں تو پہلے ہی ہار گیا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ تم بہت ضدی ہو۔ مگر اس وقت کچھ مت پوچھو۔ اس وقت مجھے جانے دو۔ میں کل تجھے بتا دوں گا۔‘‘ سانول نے پیار سے کہا تو مہرو نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’نہیں جانے دوں گی۔ بتا۔۔۔ کدھر جا رہا ہے۔ تمہیں اگر کچھ ہو گیا تو شماں۔۔۔‘‘ مہرو بولی۔‘‘
’’تمہیں میراخیال نہیں، اپنی سہیلی کی فکر ہے۔‘‘ سانول نے پوچھا۔
’’ہاں ہے۔۔۔‘‘ مہرو نے ڈٹ کرکہا تو سانول نے ایک نظر اس پرڈالی۔ پھر دور کھڑے علی کے ہیولے کو دیکھا اور اپنا اونٹ ہانک دیا۔ اونٹ ابھی دو قدم بھی نہیں چلا تھا۔ اس سے پہلے کہ مہرو کی کھینچی ہوی لکیر پار کرتا۔ مہرو آگے بڑھی۔ اس نے ایک خاص تکنیک سے لاٹھی اونٹ کے اگلے پیروں میں پھنسا دی۔ تبھی اونٹ لڑکھڑایا اور نیچے گر گیا۔ وہاں پر موجود لڑکیاں قہقہہ مار کے ہنس دیں۔ سانول سنبھلتاہوا جب گرا تو مہرو نے لپک کر اسے پکڑ لیا۔ دونوں انتہائی پاس تھے۔ مہرو کا چہرہ سانول کے عین سامنے تھا۔ تیز سانسیں ، گہری آنکھیں اور مسکراتے لب۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ پہلی بار وہ اتنے قریب آئے تھے۔ اتنے قریب کہ مہرو کی سانسیں سانول کے چہرے پر پڑی تھیں۔ سانول کے چہرے پر کئی ایسے رنگ اتر آئے تھے جنہیں دیکھ کر مہرو حیرت زدہ رہ گئی تھی۔ قدرت نے عورت کو دیکھنے میں ایک ایساوصف دیاہے کہ وہ مرد کی آنکھ میں ابھرنے والی ہر بات پہچان سکتی ہے۔ اگر وہ پہچان نہ بھی سکے تو محسوس ضرور کر لیتی ہے۔ اس وقت مہرو نے جو سانول کی آنکھوں میں دیکھا تو اس پر گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ اس کا اندر تک لرز گیا۔ سو اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں روک لیا نا۔۔۔؟‘‘
’’اچھا کیا جو تو نے مجھے روک لیا۔ تیرے لئے میرے دل میں جو محبت ہے نا، ان لمحوں میں وہ بھانپڑ بن گیا ہے۔ میں نے تیری محبت کو تھپک کر سلا دینا چاہا مگر تونے اسے جگا دیا۔ تو میری ہے مہرو۔۔۔ میں تم سے عشق کرتا ہوں۔‘‘ سانول نے کہا تو مہرو کا دماغ جیسے ہوا میں اڑ گیا۔ ایک لمحے کے لئے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ پھر اگلے ہی لمحے خود پر قابو پاتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں مجھ سے محبت ہے۔۔۔؟ جھوٹ کہتا ہے تو۔۔۔ اگر ایسا تھاتو پھر اظہار۔۔۔‘‘
’’تو جانتی ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا۔‘‘ سانول نے انتہائی دکھ سے کہا۔ اس کے لہجے میں مایوسی بول رہی تھی۔ تب مہرو نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’تم میں ہمت ہوتی نا تو مجھے بھگالے جاتا۔ محبت کرتا ہے نا مجھ سے۔‘‘ مہرو کے لہجے میں نخوت سے زیادہ ہتک تھی۔ یہ کہتے ہوئے اس نے خود کو سانول سے الگ کرنا چاہا لیکن سانول اسے پکڑ چکا تھا۔ اس نے مہرو کے آنکھوں میں دیکھا اور بولا۔
’’تو میری ہے مہرو۔۔۔ چل ابھی لے چلتا ہوں۔‘‘
اس سے پہلے کہ مہرو کی سمجھ میں کچھ آتا۔ سانول نے اس کی کمر پر ہاتھ ڈال دیا۔ پھر ایک ہی جھٹکے میں اسے اونٹ پر لاد دیا۔ مہرو کی تیز چیخ گونجی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مزاحمت کی۔ وہ مچھلی کی مانند پھڑپھڑا کر رہ گئی۔ لیکن سانول کے مضبوط بازوؤں میں آتے ہی اس کی ساری مزاحمت دم توڑ گئی۔ اردگرد کھڑی لڑکیاں حیرت سے گنگ ہو گئیں۔ وہ اس سارے واقعے کو مذاق ہی سمجھ رہی تھیں۔ سانول اپنے اونٹ کو کھڑا کر چکا تھا۔ تبھی پاس ہی کھڑے ہوئے شخص نے بھاگ کر سانول کا پاؤں پکڑ لیا۔ تاکہ اسے کھینچ کر روکنے کی کوشش کرے یہ صورت حال دیکھ کر لڑکیاں چیخنے لگیں۔ مہرو زور زور سے چیخ رہی تھی۔
’’بچاؤ بچاؤ۔۔۔‘‘ لیکن سانول نے زور سے لات اس شخص کے رسید کی۔ وہ لڑھک کر گر گیا۔
دور کھڑا علی یہ سارا منظر دیکھ رہاتھا۔ جب تک ہلکی ہلکی آوازیں آتی رہی وہ صبر سے کھڑا رہا۔ لیکن جونہی چیخ پکار ہوئی علی بھاگ کر وہاں آ پہنچا۔ تب تک وہ شخص زمین پر گر چکا تھا۔ لڑکیاں شور مچا رہی تھیں، سانول اونٹ کو بڑھانے کے لئے پرتول رہا تھا اور اس کے آگے اوندھے منہ لڑکی اونٹ پر لدی ہوئی تھی جس کا چہرہ علی دیکھ نہیں پا رہا تھا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو سانول۔۔۔؟‘‘ علی نے چیخ کر پوچھا۔
’’یہ ہی میرا عشق ہے علی۔۔۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں لے جا رہا ہوں اسے۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اونٹ بڑھا دیا۔ تبھی گرا ہوا شخص اٹھا اس نے لاٹھی پکڑ کر وار کرنا چاہا لیکن علی نے اس کی لاٹھی پکڑ لی، لڑکیاں اونٹ کو روکنے کے لئے بڑھیں۔ تب علی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اس نے ریوالور نکالا اور فائر کر دیا۔ ایک لمحہ کے بعد وہاں پر خاموشی چھا گئی۔ سب سہم کر اس کی جانب دیکھنے لگے۔ اتنے میں سانول مہرو کو لے کر گلی کا موڑ مڑ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...