دس دن ہوگئے تھے لیکن بازل نے مایا کو پتہ نہیں کہاں رکھا ہوا تھا ایک دو دن نور نے کافی ضد کی لیکن وہ ابھی نہ سمجھ ہونے کی وجہ سے جلد ہی اُسکے لمس بھول چکی تھی بس ایک فرق آیا تھا کے اب مما کی جگہ بازل کو موم بلاتی تھی باقی پہلے کی طرح اپنے باپ کے ساتھ لاڈ کرتی
آج بازل شاہ کو فرانس جانا تھا اور پچھلے تین دنوں سے پاکستان میں سے تین ہزار لوگ سمگل کیے جہ چُکے تھے لیکن نہ تو انٹلیجنس والے اورنہ ہے کوئی دوسرا ادارہ اس بات کے با خبر تھا
ابھی بھی اپنے لیپ ٹاپ کو سامنے کیے اُس میں مصروف تھا جبکہ نور اُسکے موبائل کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی ہے ایک منٹ بعد ایک نظر ہستی مُسکراتی نور کو دیکھ لیتا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوجاتا
بیا اُن دونوں کی پیکنگ کرنے میں مصروف تھی
بازل شاہ اپنی کانچ جیسی براؤن آنکھیں وقفے وقفے سے گھر کے میں دوڑ کی طرف لے جاتا
دوبارہ پھر کام میں مصروف
اچانک نور اُسکا موبائل پھنک کر دروازہ کی بھاگی تو بازل کا دل کیا اس لڑکی کو دُنیا سے غائب کروا دے جو سامنے کھڑی اپنی باہئیں پھلائی نور کو اپنی طرف بولا رہی تھی
"موم ۔۔۔۔موم”
وہاں تک جاتی نور نے خوشی سے پتہ نہیں کتنی بار اُسکے پکارا تھا
ایک ہفتہ میں اُسکے بالوں کا رنگ تک تبدیل کروادیا تھا
اب وہ سادہ سی شلوار قمیض میں مبلوس انکھوں پر بڑے بڑے چشمے لگائے اور بال جو کافی حد تک لمبے تھے اب بس کندھوں تک آرہے تھے ہاتھوں میں چار چار چوڑیاں پہن رکھی تھیں مطلب پہلے سے جکسر تبدیل تھی
دو بار نور نے اُسے دیکھا تھا دونوں میں وہ تقریباً پینٹ اور ساتھ تھوڑی گھٹنوں تک آتی شرٹ میں تھی اور نہ ہے چشمے لگے ہوئے تھے
مایا کے مطابق یہ تبدیلی اسلیے کروائی گئی تھی کے نور اب اُسے نہیں پہنچانے گی اور بازل اُسے کسی طور پر پاکستان نہیں چھوڑ کر جائے گا
بازل نے ایک نظر اُن دونوں کو دیکھا جو انتہا حد تک ایک دوسرے میں مصروف تھیں براون آنکھیں ایک مرتبہ مسکرائیں لیکن جلد ہی نظروں کے زاویہ تبدیل کر لیے گے
"مجھے نہیں لگتا تھا کے تم ایک بے حد ڈھیٹ لڑکی ہو ۔۔۔ورنہ اُس کمرے سے آنے کے بعد میں نے لوگوں کو مکمل تبدیل ہوتے دیکھا ہے”
اپنے لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے ہوئے بولا
"ابھی دیکھا ہی کہاں ہے تم نے مجھے بازل شاہ جو اندازہ لگانے لگ گے”
نور کو گود میں اٹھائے اُسکی طرف آئی جو اپنا پسندیدہ کام یقینی مایا کے بالوں کو کھینچنے میں مصروف تھی اُسے تو مایا کے بال پہلے سے بھی زیادہ پیارے لگ رہے تھے
"کبھی دیکھیں گے فرصت سے۔۔۔۔لیکن ابھی کسی فضول چیز کو دیکھنے کا من نہیں”
ابھی بھی نظریں سکرین پر چلتی ویڈیو پر تھیں
"جیسے تمہاری بیٹی کا تمھیں دیکھنے کا من نہیں”
آگلی طرف سے بھی سیدھا تیر نشانے پر لیا گیا
"فضول بكواس بند کرو اپنی ”
ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہوا وہ کون ہوتی ہے اُسکی بیٹی کو بیچ میں لانے والی
اتنی سخت آواز سے اندر پیکنگ کرتی بیا کے ہاتھ کانپے ایک مرتبہ دل تو مایا کا بھی دہل گیا لیکن چہرے پر تاثرات بلکل سرد تھے
"بازل شاہ اپنی حد میں رہ کر بات کرو یوں عورتوں پر چلانے والے مرد زہر لگتے ہیں مجھے”
اگلی طرف سے وہ بھی پوری آواز سے چلائی تو نور جو بازل کا یہ روپ دیکھ کر سہمی ہوئی تھی مایا کو بھی اُسی روپ میں دیکھ کر با آواز رونے لگ گئی
اور زبردستی مایا کے بازوں سے اُتر کر بازل کے پاس چلی گئی اور بازل کا چہرے پر تین چار گیلی پپیاں دے ڈالیں اپنے باپ پر کسی کا چلانا برداشت نہیں ہوا تھا
بازل جو اُسکا خود کو عورت ماننے پر ہلکا سا مسکرایا تھا اب مسکراہٹ اور گہری ہوئی وہ کیوں بتا رہی تھی کے کیسے مرد پسند ہیں
مایا کو اپنی جگہ اب معلوم ہوئی تھی کیسے وہ کسی اور کے بچے پر اترا رہی تھی وہ ایک سیکنڈ میں اپنے باپ کی ہوگئی
مایا کی آنکھیں ہلکی سی نم ہوئیں جو بازل کی نظروں سے نہیں چھپی تھیں
"بابا کا شیر اپنی موم کے پاس جائے”
بازل نے جان بوجھ کر اپنا موبائل کان کو لگا کر مصروف انداز میں نور کو مایا کی طرف بڑھایا جو ایک سیکنڈ میں نور کو اپنی ہاتھوں میں لاکر دور چلی گئی تھی
"موم ”
اب چہکتی ہوئی آواز بازل کے کانوں میں پڑھ رہی تھی مطلب وہ دونوں کو لڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی
جاتے ہی موبائل کان سے اتارا اور اب نظریں پھر لیپ ٹاپ کی سکرین پر تھیں
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
پوری رات سڑکوں کی خاک چھین کر بھی عندلیب نہیں ملی تھی آنکھیں اب نم ہو چُکی تھیں گھر پر رخسار اُسکی بات تک سنے کی روادار نہیں تھی دآمل کا موبائل نمبر بند تھا اور دیب کا موبائل ویسے ہی چارجنگ پر لگا ہوا تھا
صاف واضح تھا کے گھر سے گئی نہیں بلکہ نکالی گئی ہے
"دیب تم اتنی پاگل کیسے ہوسکتی ہو یار ”
اب ہاتھ زور سے دروازہ پر مارا
ایک رات کس طرح گزُری تھی یہ اُس سے بہتر کوں جانتا تھا پتہ نہیں کیوں خوشیاں راس ہی نہیں آتیں تھی
بچپن سے ستلی ماں کے سائے میں پروان چڑھا تھا باپ وہ جس نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا تھا کے وہ اُسکا بیٹا ہے یہ نہیں اپنی ساری محرومیاں کیسے اپنے اندر چھپے ہوئے تھا یہ وہی جانتا تھا
بچپن سے ہی ایک انسان جس نے اُسکی بات کو فوقیت دی تھی اُسکی ذات جس کے لیے اہم تھی وہ عندلیب ہی تھی اہمیت لینے کے چکر میں کب دیب اُسکے سینے میں دل بن کر دھڑکنے لگی خود معلوم نہیں تھا آج تک دیب کو بھی نہیں بتا پایا تھا کے اُسکے ایک دیدار کی خاطر کتنی دیر اُنکی دہلیز پر بیٹھا رہتا تھا اُسکی نظروں میں اپنے لیے پیار اور احترام دیکھ کر جو سکون تالش کو ملتا تھا اُسکا کوئی مول نہیں تھا
لیکن کبھی اپنی محبت کو پیار کی زبان نہیں دے پایا تھا ایک ڈر تھا جٹلیے جانے کا ڈر اپنی عمر چھوٹی ہونے کہ ڈر جو کبھی بھی اپنی محبت کا اظہار نہ کر پایا
دیب کے نکاح سے کچھ دیر پہلے جو حالت ہوئی تھی اُسے نہیں لگا تھا کے اگلے کچھ پل بھی وہاں کھڑا رہ سکے گا ساری دعائیں رد ہوتی دیکھ کر ایک مرتبہ دعا سے یقین اُٹھ گیا تھا
لیکن قسمت مہربان ہوئی تھی وہ ہمشہ کے لیے اُسکے نام کے ساتھ جوڑ دی گئی تھی
لیکن اب بھی اُسکی ماں سے اُسکی زندگی کی پہلی خوشی بھی چھین لی تھی
اب آنکھوں نم نہیں تھی بلکہ آہستہ آہستہ سے اُن سے گرم سیال گالوں کو بھیگا رہا تھا
جب موبائل کی گنٹھی بجی کوئی انجان نمبر تھا جسے جلدی سے تالش نے اٹینڈ کیا
"طالش مجھے درد ہو رہا ہے پلیز جلدی آجائیں”
دوسری طرف سے آواز آئی تو جو زمین اُسکے قدموں تلے باقی تھی وہ بھی کھسک گئی
"میری جان کدھر ہو تم”
طالش تیزی سے بولا
"پتہ نہیں تالش کوئی بھائی صاحب ہیں اُنکو بھی نہیں پتہ کہ یہ کونسی جگہ ہے”
دوسری طرف سے پھر روتی ہوئی آواز اُبھری
"میری جان دیب ٹنشن نہیں لینی کُچھ نہیں ہوگا میں بس آرہا ہوں تم وہیں بیٹھی رہنا چلنا مت”
اپنی آنکھیں صاف کرتا باہر کی طرف بھاگا اور ساتھ اُسكو ہدایت بھی دے رہا تھا
"طالش پیٹ میں درد ہو رہا ہے”
دوسری طرف سے پھر بھیگی سے آواز آئی تو گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے طالش کے دل کو کچھ ہوا
"اچھا کُچھ نہیں ہوگا بس رونا نہیں ”
خود ہمت ہارتا ہوا بھی اُسے حوصلہ دے رہا تھا
اب رابطہ منطقہ ہوچکا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"نوفل یار چیزیں آرام سے رکھنا گھر تو شیشے کا ہے کہیں ٹوٹ ہی نہ جائے”
بڑی ہی فکر سے فرنچ ونڈو کو ہاتھوں سے چھوتے ہوئے بولا
"یار میں تو کہتا ہوں رہنے دیتے ہیں انویں امیر لوگ ہیں کہیں اتنا گندہ سامان رکھنے پر ناراض نہ ہوجائیں”
نوفل کچن میں رکھے آٹومیٹک چولہے کا آپریشن کرتے ہوئے بولا
"فتر تم نے سامنے گھر دیکھا ہے لڑکیاں کیسے کپڑے پہن کر پھر رہیں ہیں”
سامنے گلاس دوڑ سے باہر دیکھتے ہوئے بالا جبکہ وہاں کھڑی لڑکیاں اُنہیں ہاتھ ہلا رہیں تھیں
"یار کب سے دیکھ رہا ہوں اب تو آنکھیں جواب دے گئی تو کھانا پکانے کا سوچا ”
انتہائی سچائی کے ساتھ اپنا بیان نوٹ کروایا
"اللہ معاف کرے کبھی ہمارے گاؤں کی لڑکیاں دیکھنا کبھی لڑکوں کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی ”
محد صدمے کے ساتھ بولا
جب ہاتھ میں پکڑا ٹچ سکرین موبائل وائبریٹ ہُوا
"ہائے یہ کیا ہوگیا ”
اُسے دور صوفے پر پھینکا تو نوفل جو لچکائی نظروں سے باہر لڑکیوں کو ٹار رہا تھا اُسکی طرف متوجہ ہوا اور آکر موبائل پر آتا فون اٹھایا
"مسٹر محد آپ آج شام ہونے والی پارٹی میں مدوہ ہیں پلیز ہماری چھوٹی سی پارٹی میں شرکت کرکے ہمیں شرف بخشیں”
کوئی لڑکی بہت ہی مودبانہ طریقے سے بولی
اور موبائل بند ہوگیا
"نوفل میڈم کی یاد آرہی ہے”
وہیں صوفے پر ڈھیر ہوگیا یہ دورہ روز دن میں تین مرتبہ پڑتا تھا اور بچارا نوفل اتنی اتنی دیر اُسکی گھسی پٹی محبت کی کہانیاں سنتا اُسے حوصلہ دیتا
"یار کہیں میڈم مر مارا تو نہیں گئی ۔۔۔۔ورنہ ایسے تو تمہاری جان چھوڑنے والی نہیں تھی”
نوفل کی نظریں ابھی بھی باہر اپنے جسم کا دکھاوا کرتے کھڑی تھیں اُن پر تھیں
جب اپنی گردن پر کسی کی آہنی گرفت محسوس ہوئی پیچھے کی طرف دیکھا محد خطرناک حد تک سخت تاثرات لیے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا
"آئندہ میڈم کے بارے میں یہ باکواس کی تو اپنے ہاتھوں سے جان لوں گا میں”
آہستہ آواز میں غرایا تو ایک سیکنڈ کے لیے نوفل کو اُسکی سیاہ آنکھوں سے خوف آیا
"یار میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
ابھی وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتا محد نے چُپ رہنے کا اشارہ کیا
"میڈم چاہے مجھے جان سے مار دیں تم اپنی اُسکے بارے میں بولنے کے حقدار نہیں ہو”
عجیب سا جنون تھا اُسکی باتوں میں یہ وہ والا محد نہیں تھا یہ کوئی اور جنونی سا انسان تھا جس کی آنکھوں میں اُسکا عشق ناچ رہا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...