(Last Updated On: )
آبی میں اپنے رشتے کو آگے بڑھانا چاہتا ہو اور پچھلی باتوں کے
لئے معاف کر دو فارس نے آبی سے کہا وہ سچ میں تھک چکا تھا
اب شادی تو کر لی اس بیچاری کو کیوں اذیت دو ۔
آبی تو یہ سن کر ہی نہال ہو گئی فارس آپ معافی نہی معانگوں
جب آپ کو احساس ہو گیا ہے تو میں بھی کبھی پرانی باتوں کو یاد نہیں کرو گی اور نا کروائو گی۔۔۔
اوہ Thnku اس نے آبی کی ناک کھینچی۔۔
آ کیا کر ہے ہیں اچھا میں آپ کے لئے دودھ لے کر آتی ہو۔۔۔
اسے چیخ کی آواز سنائی دی یہ تو آبی کی آواز لگ رہی وہ بھاگ
روم سے باہر نکلا تو آبی خون میں لت پت سیڑھیوں سے نیچے پڑی تھی
آبی فارس کی آواز سن کر سکندر شاہ اور مریم بیگم بھی کمرے سے نکل آئے ۔
وہ بھاگ کر آبی کے پاس پہنچا وہ بےہوش ہو چکی تھی پاپا آپ گاڑی نکلوائو میں اسے اٹھا کر لاتا ہو ۔۔
وہ اسے گائوں کے ہی ہوسپٹل میں لائے اس کا خون بہت بہہ رہا تھا پہلے اس کا رکنا ضروری تھا۔۔
اس کے باپ قاسم کو اور روشانے کو بھی کال کر دی گئی
پلیز ڈاکٹر بتائے کیسی ہے وہ جیسے ہی ڈاکٹر روم سے نکلا وہ سب ڈاکٹر کی طرف لپکے۔۔
دیکھے ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے خون بہت بہہ چکا ہے آپ لوگ دعا کرے ڈاکٹر انہی تسلی دے کر چلا گیا۔۔۔
مانو تمہیں پتہ ہے کچھ رجو نے مانو سے پوچھا۔۔۔۔
کیا پتہ ہے مجھے ۔۔۔۔
ارے فارس کی بیوی آبی سیڑھیوں سے گری ہے دو دن ہو گئے ہے ہوسپٹل میں ہے کہہ رہے ہیں اسے ہوش نہی آیا ابھی تک۔۔۔
کیا!!!!یہ کیا کہہ رہی ہو اماں کو پتہ ہے کیا انہوں نے مجھے بتایا ہی نہی مانو نے پریشانی سے کہا اب وہ پہلے والی ماہ نور کہا
رہی تھی جو دوسروں کی تکیف اور خاص طور پر حویلی والوں کی تکلیف پر کوئی افسوس نہی کرتی تھی اب تو اس کو دل کی لگی تھی ہر کسی کا درد اپنے دل پر محسوس کرتی تھی۔
اسے آبی کا سن کر افسوس ہو فارس کی پریشانی کا سوچ کر دل دکھا ۔۔۔
ارے تم کیوں پریشان ہو رہی ہو بھول گئی جو اس نے تمہارے
ساتھ کیا تھا کیسے بےعزتی کی تھی اس نے رجو نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔۔۔
میں کچھ نہی بھولی اس نے جو بھی کہا تھا صیح کہا تھا میں تو فضول میں ان لوگوں سے مقابلے بازی کرتی تھی میری اوقات واقع ہی نہی تھی ان لوگوں کی برابری کی
اور میں نے فارس کو دھوکا دے کر ثابت بھی کر دیا کہ میں کم ظرف ہو ۔۔
ارے ایسے تو نا کہوں تم نے کوئی دھوکہ نہی دیا یار بس غلط فہمی تھی اور تم تو فارس کو چاہتی ہو
بس پہچاننے میں دیر ہو گئی سوری مجھے یہ ٹاپک چھیڑنا ہی نہی چاہے تھا تم دکھی کر دیا۔۔۔
یہ سب تو میں نے خود اپنی قسمت میں اپنے ہاتھوں سے لکھا ہے اور ساری زندگی اس غلطی پر پچھتانا ہے۔۔۔
اچھا نا چھوڑو یہ باتیں رجو نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔
ماہ نور سوچنے لگی اچھے دوست اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓
روشانے بیٹا بس کرو جب سے آئی ہو روئی جا رہی ہو ٹھیک ہو
جائے گی ہم اسے کچھ نہیں ہونے دے گے بس تم سنبھالو خود کومریم بیگم نے روشانے کو ساتھ لگا کر کہا۔۔۔
وہ بہت خوش تھی فارس سے شادی پر میں شادی پر بھی نہی آ سکی میری بہن کس حالت کو پہنچ گئی میں کیا کرو
مجھے کچھ سمجھ نہی آ رہا روشانے نے بےبسی سے کہا۔۔۔
فکر نہی کرو بس دعا کرو ۔۔۔
آپ کے پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے جیسے ہی ڈاکٹر نے کہا وہ بےصبری ڈاکٹر کی طرف لپکے۔۔۔
کیسی ہے وہ اب ۔۔۔
آپ لوگ مل سکتے ہیں بٹ زیادہ بات نہی کرنی ابھی خطرہ ٹلا نہی۔۔۔
کسی ہے میری بچی وہ سب آبی کے پاس گئے تو مریم بیگم نے اس کے ماتھے پر پیار کر کے کہا۔۔۔
مم!!!!!ٹھیک ہو پپ!!!!پریشان کر دیا آپ لوگوں کو آبی نے نقاہت زدہ آواز میں کہا۔۔۔
ارے میری بچی تم بس جلدی سے ٹھیک ہو جائو ۔۔۔
آپی آپ آ گئی مم!!!!میری شادی !!!!!پر تو فلائیٹ نہی ملی تھی آپ کو۔۔۔
تم نے ہماری جان نکال دی گڑیا تو ہم کیا ادھر بیٹھے رہتے۔۔
اچھا اب زیادہ بولو نہی ڈاکٹر نے منع کیا ہے وہ کچھ بولنے لگی تھی کہ اس کے باپ نے روک دیا ۔۔
ہاں آبی تم ٹھیک ہو جائو فارس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔۔۔
فارس!!!!!!!تم ——تم میرے بعد اپنی مانو سے شادی کر لینا پلیز۔۔۔
آبی ایسے مت بولو اس کی یہ بات سن کر سب اس کے نزدیک آ گئے۔۔۔
میں—-آہ —میں صیح کہہ رہی ہو وہ تم سے سچا پیار کرتی ہے وہ جھلی ہے اسے ——ہو —اسے احساس تب ہوا جب تم اس سے دور ہوئے ورنہ تمہارے جوتے اور رومال
سنبھال کر نا رکھتی “”””آبی جب ماہ نور سے لڑنے گئی تھی اس نے فارس کا جوتا اور رومال دیکھ لیا تھا۔۔۔۔
پلیز ایسے مت بولو فارس کو یہ سب سن کر تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔۔
آہ —ہا—ہا اس کی سانس اکھڑنے لگی اور گردن ایک سائیڈ کو ڈھلکنے لگی ڈاکٹر ڈاکٹر پلیز جلدی وہ ڈاکٹر کی طرف بھاگا۔۔۔
سوری she is no more ڈاکٹر نے کہہ کر اس کے منہ پر کپڑا ڈال دیا وہ بہت پرسکون لگ رہی تھی اس کے سب اپنے پاس تھے۔۔۔۔
نہیں—–یہ نہی ہو سکتا روشانے باپ کے ساتھ لگ کے رونے لگی میری بہن کی ابھی عمر ہی کیا ہے ڈاکٹر جھوٹ بول رہا ہے
وہ سب اپنا غم بھول کر روشانے کو سنبھالنے لگے ۔۔۔۔۔
یہ صدمہ ان سب کے لئے بہت بڑا تھا پر قدرت کا نظام ہی ایسا
ہے جو آیا ہے اسے واپس بھی جانا ہے اور صبر بھی آتے آتے آ ہی جاتا ہے ٹائم لگتا ہے پر انسان سنبھل ہی جاتا ہے۔۔۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓
فارس بیٹا پھر کیا سوچا ہے ۔۔۔۔
کس بارے میں ماں ۔۔۔
شادی کے بارے میں اور کس بارے میں ۔۔۔
پلیز ماں ایک تجربہ کر چکا ہو اور نہیں کرنا چاہتا اس نے تلخی سے کہا۔۔۔
تم بھول گئے آبی نے آخری وقت تم سے کیا کہا تھا روشانے بھی روز مجھ سے ایک ہی سوال کرتی ہے فارس مانا کہ نہی بیٹا وہ چاہتی ہے آبی کی خواہش پوری ہو ۔۔۔
ماں پلیز مجھے اس بارے میں کوئی بات نہی کرنی فارس نے انہیں ٹوک دیا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے کرو اپنی مرضی ہم تو آج ہے کل نہی ہو گئے ہمارا کیا ہے تم اپنی مرضی کے مالک ہو مریم بیگم نے اسے ایموشنل بلیک میل کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اماں جان پلیز ایسے تو نا کہیں۔۔۔۔
تو تم ہماری بات مان جائو نا انہوں نے اک آس سے کہا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے کرے آپ لوگ اپنی مرضی۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓
تو کیسی ہے ماہ نور عرف مانو صاحبہ فارس نے دلہن بنی ماہ نور پر نظریں گاڑ کر کہا ان کی شادی ہو گئ تھی مانو دلہن بن
کر بہت پیاری لگ رہی تھی اس کا گورا مکھڑا لال رنگ میں اور نمایاں ہو رہا تھا
اور اس پر مہارت سے کیا ہوا میک اپ اسے کوئی حور بنا رہا تھا دل کی خوشی چہرے پر جھلک رہی تھی۔۔۔۔
فارس بھی کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا اسے رجو نے تفصیل سے بتایا تھا کہ ماہ نور سے تمہارا پیار سمجھنے میں
غلطی ہو گئی ورنہ تم اس کی زندگی میں آنے والے پہلے اور
آخری مرد ہو فارس خود بھی پرانی باتیں بھولنا چاہتا تھا وہ خود کو اور ماہ نور کو بہت سزا دے چکا تھا وہ شادی سے پہلے ماہ نور سے ملا تھا اسے آبی کی خواہش کا بتایا اور یہ بھی کہا کہ
وہ اب تھک چکا ہے اور ماہ نور کے سامنے ہاتھ پھلا دیا اور ماہ نور نے جھٹ سے تھام لیا وہ دونوں رشتہ بنانا چاہتے تھے پرانی باتوں کو بھول کر اب تو بس فارس اسے تنگ کرنا تھا۔۔۔
میں ماہ نور نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
نہی میں “”””””یہ ماہ نور تمہارا ہی نام ہے نا فارس نے رعب دکھایا۔۔
جی میرا ہی ہے مانو نے لرزتی پلکوں سے جواب دیا سر جھکا کر جیسے بہت فرمانبردار ہو۔۔۔
فارس کو اسے ایسے دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی یہ منہ کیون نیچے لٹکایا ہوا ہے اگر خوش نہی تھی تو انکار کر دیتی کسی نے زبردستی تھوڑی کی ہے۔۔۔
میں خوش ہو اس نے جلدی سے سر اٹھا کر جواب دیا اور فارس کی پر شوق نگاہیں دیکھ کر فورن پھر جھکا لیا۔۔۔
تو پھر منہ کیوں چھپا رہی ہو چلو اوپر کرو ۔۔۔
وہ مجھے آپ سے شرم رہی ہے اس نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
شرم کیوں آرہی ہے فارس نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا گھنی پلکیں شرم اور گھبراہٹ سے جھکی جا رہی تھی۔۔۔
میرا جوتا اور رومال کدھر ہے چورنی۔۔۔۔۔۔
کیا آپ مجھے چور کہہ رہے ہیں اس نے فورن اوپر منہ کر کے غصے سے کہا۔۔۔۔
فارس اسے ایسے دیکھ کر ہنسنے لگا ۔۔
اب ہنس کیوں رہے ہو اس نے بچوں کی طرح منہ بسورا۔۔۔۔
فارس کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا اس نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر پیار کی مہر ثبت کی ۔۔۔
ماہ نور گھبرا کر پیچھے ہٹی
وہ اور آگے بڑھا اور اسے بازئوں منہ بھر لیا بہت بھاگ لیا تم نے اب کبھی دور نہی ہونے دو گا یہ کہہ کر فارس نے اسے انگوٹھی پہنائی اور اس کےحنائی ہاتھ ہونٹوں سے لگا لئے ماہ نور شرم سے لال پڑ گئی۔۔۔۔
رات قطرہ قطرہ بیت رہی تھی اور ان کے ملن پر مسکرا رہی تھی دو پیار کرنے والے مل گئ سب غلط فہمیوں کے بادل چھٹ گئے تھے ۔۔۔۔۔
💓ختم شدہ💓