گاڑی ایک بہت اعلیٰ اور شاندار بلڈنگ کے سامنے رُکی امپائر تھا جس میں تقریباً چار سو سے زیادہ فلیٹ تھے
شام کی خنکی بڑھ رہی تھی تھوڑی دیر میں سنو فلائنگ شروع ہونے والی تھی نیویارک میں روز تقریباً رات ڈھلنے سے پہلے ہی ہلکی پھلکی سنو فلائنگ ہوتی تھی اور لوگ اکثر اُس کو انجواۓ کرنے کے لیے باہر آتے تھے
آسمان پر تھوڑے تھوڑے بادل جن میں چاند اور ستارے کبھی اپنا دیدار کرواتے اور کبھی چھپن چھپائی شروع کردیتے ۔۔۔بازل شاہ نے ایک مرتبہ سارے اطراف میں نظر گھمائی اُسے فلیٹ کے بچے سائڈ پر بنائے گئے پارک میں کھیل رہے تھے
پھر سامنے دیکھتا اوپر کی طرف گیا یہاں اُسکا کوئی منتظر تھا
چھٹے نمبر پر بنائے فلور پر پر سب سے پہلے فلیٹ اُسی کا تھا اب اُسکے ساتھ کوئی سیکیورٹی کوئی پروٹوکول کچھ نہیں تھا ایک عام انسان کی طرح آیا تھا
آج بھی ہائی نیک ٹائپ جرسی کپڑے کی شرٹ اور اُسکے ساتھ جینز کی پینٹ آنکھیں میں کوئی چمک نہیں تھی البتہ کانچ جیسی آنکھوں میں عکس آسانی سے دیکھا جاسکتا تھا
ہاتھ میں پکڑے ہوئے کارڈ کے ذریعہ دروازہ کھولا اور قدم اندر رکھ کر دروازہ پھر لاک کیا
"بابا”
چھوٹی سی دو سال کی بچی اپنے ننھے ننھے قدم اٹھاتی اُسکی طرف آئی گرم کپڑوں میں ملبوس اور سر پر بےبی کیپ لے رکھی تھی دیکھنے میں بس آنکھیں بازل پر تھیں براؤن گہری کانچ جیسی آنکھیں رنگت گلابی بال اُسکی عمر سے تھوڑے لمبے تھے کندھوں تک آتے تھے جسے دیکھ کر آنکھوں میں ایک بار چمک آئی اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ جو بہت جلد معدوم ہوگئی
"میری جان ”
جلدی سے اُٹھا کر اسکے پھولے ہوئے گالوں کو جٹا جٹ چوم ڈالا جبکہ جواب میں اُسنے بھی چھوٹی چھوٹی پپیوں سے اُسکا سارا منہ گيلا کر دیا
"ڈڈ نور مس بابا؟؟؟”
سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ اُسکی چھوٹی سی قلقاری پورے لاؤنچ نما ہال میں گونجی جس کا مطلب ہاں تھا
اُسکے دونوں ہاتھوں کو بار بار چومہ جبکہ وہ بدلے میں اُسکے گلے میں بایئیں ڈال کر اُسکے پیار کا بدلہ دے رہی تھی
"بیا جی نور نے دودھ پیا ”
اب اُسے لے کر صوفے پر بیٹھا گیا نظریں بیا کی طرف تھی جو ساٹھ سال سے اوپر کی عورت تھی اور اس وقت کچن میں کھڑی تھی دور سے دیکھنے سے وہ اپنی عمر سے تقریباً دس سال بڑی لگتی تھی ایک سکاف سر پر بندھا ہُوا تھا اور ایک لونگ کوٹ سردی سے بچنے کی کوشش تھی شاید
"بازل بیٹا ۔۔۔۔۔صبح سے بس دروازہ ہی دیکھی جارہی تھی اور دودھ بھی دو دن سے بہت کم پی رہی ہے۔۔۔۔۔روز آپکا انتظار کرتی ہے لیکن آپ نہیں آتے”
شکایتوں کی اور بھی بہت لمبی لسٹ تھی جو ہر بار بازل کو آکر سنی پڑتی تھی ۔۔۔لیکن اُسکا کام ہی ایسا تھا چاہ کر بھی روز نہیں آسکتا تھا
"بس اب بابا آگے ہیں اور میری گڑیا اب بابا کے ہاتھ سے پیئے گی”
ایک بار پھر اُسکی گالوں کو چومہ لیکن اب مقبل کو اچھا نہیں لگا تھا کیوں کہ جوش میں آکر اُسکی ہلکی سی بیرڈ روئیں جیسے گالوں پر چب گئی تھی اور نور صاحبہ رونے کی تیاریوں میں تھی
"ماما ”
آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لاکر بولنے کی کوشش کی بس دو ہے لفظ ابھی اُسکی ڈکشنری میں شامل تھے ایک بابا اور دوسرا ماما باقی کسی بات کو سمجھنا مُشکل امر تھا
بازل نے جلدی سے خود میں بھینچ لیا اور چہرے اور سختی در آئی دور کافی بناتی بیا نے دُکھ سے دونوں باپ بیٹی کو دیکھا اور سے جھٹک کر نور کا فیڈر تیار کرنے میں مصروف ہوگئی جبکہ نور اب بازل کے بال کھینچنے میں مصروف تھی اور وہ بہت آرام دہ حالت میں خود کو پیش کیے ہوئے تھا کبھی اُسکے بال کھینچنے لگ جاتی اور کبھی اُسکا چہرہ دیکھا کر گیلی گیلی پپیاں دینے لگ جاتی جیسے رشوت لگا رہی ہو اپنے کارناموں کی۔۔۔۔۔۔۔اور بازل بس اُسکے ننھے ننھے ہاتھوں کے لمس محسوس کرتا اپنی ساری پریشانی بھولا رہا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
رخسار ابھی گھر آئی تھی دوپہر کے تین بج رہے تھے لیکن گھر بلکل سنسان تھا ایک نوکرانی کچن میں تھی جبکہ دامل اور طالش دونوں کہیں دیکھی نہیں دے اپنے کمرے میں دیکھا تو عندلیب بھی وہاں سے غائب تھی اور اُسکا سامان بھی ذہن میں خطرے کی گنٹھی بجی تو جلدی سے باہر آئی
"اماں بی ۔۔۔طالش اور باقی سب کدھر ہیں”
چہرے پر غُصہ کے رمز تھی
"دامل بابا تو صبح سے سکول ( یونی) گے وانج اور طالش بابا اور بہو رانی کمرے میں ہیں”
کاؤنٹر پر پڑا گلاس زمین پر مارا اور تیز تیز قدم اُٹھاتی کمرے تک گئی اور اتنی زور سے دروازے پر دستک دی کی پوری حویلی میں سنائی دی
طالش کی آنکھ کھلی تو دروازہ بجانے والے پر شدید غُصہ آیا پھر اپنے پہلو میں لیٹی ہوئی متاع جان کو دیکھا جو اُسکے سینے پر قبضہ جمائے پوری دُنیا سے بے خبر سو رہی تھی ایک ہاتھ طالش کے دل کے مقام پر رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ طالش کے ہاتھ میں تھا اُسکا عشق اُسکی دسترس میں تھا اِس سے بڑھ کر خوش قسمتی کیا ہوسکتی تھی
ہولے سے اُسکا ہاتھ اُٹھا کر پیچھے کیا اب باری سرکو ہٹانے کی تھی لیکن شاید وہ اُس سے دور نہیں ہونا چاہتی تھی دوبارہ پھر سے نیند میں ہی اُسکے گرد بازو حائل کردے
"دیب مجھے تو اٹھنے دو”
پیار سے کہہ کر دوبارہ پھر اُسے پیچھے کرنے کی کوشش کی کیوں کے باہر جو تھا کوئی شک نہیں تھا کے دروازہ توڑ کر اندر آجائے
"نہیں”
ہلکے سے منمنائی اور پھر اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر آنکھیں موند گئی
"ایسے نہیں اٹھو گی ”
طالش نے جُھک کر اُسکے گالوں پر اپنے لب رکھے تو عندلیب اُسے واپس اپنی ٹون میں آتا دیکھ کر جلدی سے پیچھے ہوئی اور سر تک کمبل لے کر دوسری طرف رُخ کر لیا
اُسکی معصوم سی حرکت پر دل سے مسکرایا اور گال اور پڑتے ڈمپل نے بھی خوشی سے اپنی نمائش کی جلدی سے دروازہ کی طرف گیا جو ابھی بھی زوروں سے بج رہا تھا
"طالش بیٹا طبیعت ٹھیک ہے”
دروازہ کھولتے ہی سامنے رخسار نظر آئی جس کا دھیان اُسکی طرف کم پیچھے لیٹی ہوئی عندلیب کی طرف زیادہ تھا
"جی ٹھیک ہے میں آتا ہوں باہر تھوڑی دیر تک”
اُسے ناگوار گزرا تھا اُسکا کمرے میں آنا
"ہاں آجاؤ بات کرنی ہے”
دل ایک مرتبہ جل کر کوئلہ ہوگیا تھا اتنے دن اُس لڑکی کو اتنا سمجھایا تھا اور وہ پھر یہاں ماجود تھی اُنکے درمیان حائل تمام دیواریں ایک ہی دن میں گر چُکی ہیں اور اُس لڑکی کی جرت کیسے ہوئی اتنا قریب آنے کی ۔۔۔۔۔اُسے وہیں دیکھ کر طالش نے دروازہ بند کردیا
دروازہ بند ہوتے ہی ہوش کی دُنیا میں واپس آئی اور جلدی سے آکر موبائل نکالا
"جی سیٹھی صاحب طالش کی اسلام آباد کی ٹکیٹ بُک کروا دیں آج شام کی”
جلدی سے اگلے بندہ کی بات سنے بغیر ہی موبائیل واپس رکھ دیا
"عندلیب مجاہد تمھیں تو میں بتاؤں گی تم نے حکم عدولی کرکے کونسی عداوت مول لی ہے مجھ سے ۔۔اگر تجھے اِس گھر سے طالش کے ہاتھوں ہی باہر نہ کروا تو میرا نام بھی رُخسار بیگم نہیں”
نفرت سے سوچتی ہوئی بولی اور اگلا پلین سوچتی ہوئی مسکرائی
تھوڑی دیر میں طالش اپنے گیلے بالوں کے ساتھ باہر آیا ایک اندیکھی خوشی ۔۔۔اور محبت کی تاثیر اُسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی نیلی آنکھوں میں عجیب سی چمک چہرے اور بار بار پڑتا ڈمپل رخسار بیگم کو اندر تک جلا گیا تھا
"اماں بی ایک اچھا سا چائے کا کپ لائیں اور ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی”
رخسار کے تاثرات کو نظر انداز کرتا بولا اور اُنکے سامنے آکر بیٹھ گیا جیسے بات کرنے کا اشارہ
"تمھیں پتہ ہے ہماری جائیدادوں کے مسئلے چلتے ہی رہتے ہیں مخالف پارٹی کوئی نہ کوئی ایسا ہٹکھنڈا آزماتی ہی رہتی ہے تو اِس سلسلے میں تو بھاگ بھاگ کے تھک گیں ہوں اب تم بیوی والے ہو بچے بھی ہونگے تو اب سے ساری زمدریاں تمہارے سر ”
بات کرنے کا مقصد تو طالش کو سمجھ نہیں آیا تھا لیکن کچھ گھڑبڑ محسوس ہوئی تھی کیوں کے پہلے تو کبھی ایسے معاملوں میں پڑنے کا نہیں کہا تھا
"ماما سیدھی بات بتائیں”
سیدھا ہوکر بیٹھ گیا دونوں ہاتھ آپس میں پبست تھے
"تمہاری فلیٹ ہے دو گھنٹے بعد اسلام آباد کی مسلہ کھڑا ہوگا ہے ۔۔ہماری تمام زمینوں کے کاغذات جعلی ثابت کرنا چاہتے ہیں چوہدری ۔۔۔۔۔اور ہم تو سڑک اور آجائیں گے ”
خود ہی کھڑا کیا ہوا مسئلہ بیان کیا
"یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ مسلہ تو حل ہوگیا تھا نہ”
پریشانی سے ماتھا مسلتے ہوئے کہا
"ہاں بیٹا دشمنوں کی کیا خبر کب کھاڑے مردے اُکھاڑ دیں”
اپنا تیر نشانے پر بیٹھا دیکھ کر چہرے پر مصنوعی افسردگی طاری کی
"میں دیکھتا ہوں جا کر کس کی اتنی زرت ہوئی کے ہمارے خلاف ایسا گٹیا قدم اٹھائیں ”
جلدی سے اپنا موبائل نکالا اور کچھ ٹائپ کرنے لگ گیا جبکہ رخسار اگلا لحے عمل سوچ کر دل سے مسکرائی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"Muguls tareefai”
سمگلنگ کے دھندے میں ایک جانا پہچانا نام جو زیادہ تر نوجوانوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر دوسرے مُلک سمگل کرتے ہیں لیکن یہی نہیں ہسپتال میں مرے ہوئے لوگوں کے اعضاء بھی مہنگے داموں بیچ کر اپنی پیسے کی ہوس ختم کرتے ہیں
عام لوگوں اور حکومت کی نظر میں ایک با عزت اور شریف لوگ جو اپنے ہاتھوں سے کماتے ہیں اور دکھاوے کے لیے ہرسال بہت ساری رقم غریبوں میں تقسیم کی جاتی اور پھر وہی رقم اُنکی جانوں کے عوض واپس کر لی جاتی
ایک کاسمیٹک اور کٹن کی تین فیکٹریاں جن جو انکے کام کو چھپانے کا کام کئی سالوں سے کر رہیں
آج تک ہرکسی سی دوستی میں پہل بس مغلز گروپس آف کمپنی نے ہی کی تھی
دشمنوں کی لسٹ میں ایک ہی واحد نام "بازل شاہ” جس کی کانوں کان کسی کو خبر نہ تھی
کل ہی بازل شاہ نے اُنکے ساتھ شراکت داری کی تھی جو اُنکے بقول بازل کو آسمان کی بلندیوں سے نیچے لانے والی تھی
اور اِس کام کے لیے پلایئنگ اور سرمایہ کاری بہت پہلے سے کر رکھی تھی ابھی تو بس پتہ پھنکنا تھا جو تقدیر بدلنے والا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
صبح سے جتنی کمی وہ محد کی برداشت کر چُکی تھی اتنا اُسکی زندگی میں کوئی اہم نہیں تھا
ابھی بھی گاڑی میں بیٹھی نظریں اطراف میں ہی گھوما رہی تھی ساری رات جس طرح گزاری تھی وہی جانتی تھی ہر آہٹ سے یہی لگتا تھا وہ واپس آگیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا
آٹھ دن میں وہ انسان لاشعوری طور جس طرح اُسے اپنا گروادیدا کر چکا تھا وہی جانتی تھی
اُسکے ہوتے ہوئے بس عجیب سا لگتا تھا کبھی اُسکے گندھے سے بال بُرے لگتے تو کبھی اُسکا بولنے کا طریقہ اور اب بس ایک خواہش تھی کے ایک مرتبہ اُسکی آواز سن لے
زندگی کے گولز میں کبھی شادی یہ پھر کسی مرد کو شامل نہیں کیا تھا لیکن یہ گھر میں ایسے لگ رہا تھا جیسے صدیوں سے ویران پڑے ہو
"کیا تکلیف ہے تمھیں جنگلی جانور۔۔۔کیوں پیچھا نہیں چھوڑ رہے”
زور کے ہاتھ سٹرنگ اور مارا اور چیخنے والے انداز میں کہا
آج گاؤن میں ماجود تھی اور منہ کو ویل کی مدد سے کور کر رکھا تھا ہاتھوں پر دستانے بدستور موجود تھے آج اُنہیں پاکستان جانا تھا کیوں کہ مایا کا سارا ڈیٹا کرپیٹ ہوگیا تھا اور لیپ ٹاپ اٹلین ہونے کی وجہ سے اُس کا ڈیٹا یہ پھر امریکہ سے ریکور ہوسکتا یہ پھر پاکستان میں ماجود ایک ہیکر سے اور دونوں کے لیے پاکستان جانا ضروری تھا
محد کی وجہ سے اُسکا مشین بیچ میں اٹک گیا تھا ورنہ بہت جلد اُنکے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہوتا
چھ سال بعد پاکستان جارہی تھی لیکن چہرہ پر خوشی کا کوئی تاثر نہیں تھا اور نہ ہی اُسکا کوئی منتظر
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...