کسی نے صحیح کہا ہے کہ آدمی کی پہچان رشتوں کے ذریعے ہوتی ہے اور رشتے محبت کی مٹھاس سے بنتے ہیں۔ لیکن یہ محبت ہوتی کیا ہے؟ کیا یہ گوند یا سریش نما کوئی چیز ہے جو بندوں سے جا چپکتی ہے اور پھر چھڑائے نہیں چھوٹتی یا کسی لمبی سی مضبوط رسی کا نام ہے کہ اس کی گرہ میں جو بندھ گئے سو موتی اور جو رہ گئے سو پتھر۔ بات صرف یہ کہنی ہے کہ دو آدمیوں یا ایک بندے اور بندی کا جوڑا اسی محبت کی جڑ سے جڑا ہوتا ہے لیکن اس محبت کی پہچان ذرا مشکل سا کام ہے خصوصاً متاہلانہ محبت کو سمجھنا۔میرا دوست منیر جوان تھا۔ شکل بھی ٹھیک تھی اور وہ برسرروزگار بھی تھا۔ ہم دونوں نے ایک ہی کالج سے پہلے ایف اے کیا اور پھر بی۔اے ۔ منیر شاعر بھی تھا کالج کا انعام یافتہ، دوستوں نے اسے ’’شاعر عشق‘‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔ ’’عشق‘‘ اس کا ’’آل ٹائم‘‘ مشغلہ تھا۔لیکن عشق ہو یا نہ ہو پیٹ میں روٹی کا ہونا بہرحال ضروری ہے۔ ہم دونوں سرکاری ملازم تھے لیکن اپنی کم آمدنی سے ناخوش، گزارہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ ایک دن ہم دونوں نے سر جوڑ کر کچھ دیر سوچا اور پھر شام کی کوئی جاب ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک اچھا اتفاق یہ ہوا کہ ہم دونوں کو ایک ہی اخبار کے دفتر میں شام کی پارٹ ٹائم جاب مل گئی۔ صبح کی نوکری ہم الگ الگ سرکاری محکموں میں کر رہے تھے۔ شام کی جاب ملنے پر اب ہم دونوں ایک ہی دفتر میں اکٹھے ہو گئے اور یوں ایک دوسرے کے ہم پیالہ، ہم نوالہ، ہم راز اور دم ساز بن گئے۔
ہم دونوں کا جوان ولولوں کے ساتھ صبح و شام کی دو دو نوکریاں کرنے کا ایک ہی مقصد تھا غربت کا بوجھ کم کرنا اور دو دفاتر سے ملنے والی تنخواہوں سے گھر والوں کا ہاتھ بٹانا۔ اب قدرے اچھا وقت گزرنے لگا۔ایک روز جانے اچانک کیا ہوا، منیر کو کسی عجیب سے مسئلے نے آ لیا۔ وہ سخت بے چین ہو گیا، اُٹھتے بیٹھتے ’’ہائے اوئی‘‘ کرنے لگا۔
’’ارے بھئی منیرے، کیا ہُوا تمھیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں‘‘۔
جب کہ اس کی حالت یہ تھی کہ مسلسل بے چینی، ماتھے پر پسینہ، بار بار حلق میں چائے یا پانی انڈیلنا، ٹھنڈے سانس، گرم آہیں، اخبار کے نیوز روم کی میز پر بیٹھے بیٹھے رقعے نما خط لکھنا اور پھاڑ کر پھینک دینا، کبھی کبھی ہاتھوں میں سر پکڑ لینا اور پھر وہی ’’ہائے، اوئی‘‘ کا ورد۔
’’کچھ تو بتائو میری جان، شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں‘‘۔
’’نہیں ، تم نہیں سمجھو گے، ہائے مرا، میرا دل، میرا چین، سب کچھ گیا‘‘ میں اس کے پاس سے اٹھ گیا۔
منیر تو منھ سے کچھ نہ پھوٹا لیکن چند جہاں دیدہ ساتھیوں نے مجھے بتایا۔ ’’اسے عشق کی بیماری لاحق ہو گئی ہے، اب یہ کام سے گیا‘‘۔ میں پھر منیر کے پاس جا بیٹھا۔
’’کون آ گھسی ہے تمہارے اس ننھے سے دل میں‘ کچھ تو بتائو؟‘‘
’’ہے کوئی…مگر… مگر تمہیں کیسے معلوم ہوا، کس نے بتایا؟‘‘
’’تمہارے اندر کی کھولن نے ، تمہاری حرکتوں نے… ادھر سامنے دوسری میز پر بیٹھے کئی تجربہ کار، جہاں دیدہ اور ’’بیوی زدہ‘‘ کولیگز کی حکیمانہ رائے کے مطابق تمہیں کسی سے محبت ہو گئی ہے اور اب تم کام سے گئے‘‘۔
’’ہاں بھائی! تم لوگ مذاق اڑا سکتے ہو، پر جس دل لاگے، وہی جانے‘‘۔
’’مگر وہ ہے کون؟ کیا کوئی خوب صورت بھنگن جھاڑو دیتے ہوئے تمہارے دل پر ہاتھ صاف کر گئی یا تمہارے گھر کے سامنے والی تیز طرار ناکتخدا گوجری نے یہ کام کر دکھایا یا پھر رمضانی قصائی کی تنومند لونڈیا تم ایسے نادان پر اپنی چھری چلا گئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’فضول گوئی بند کرو‘‘ منیر نے زبان کھول کر نہیں دی۔
کافی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ مالک مکان کی توبہ شکن لڑکی نے منیر کے خالی خولی سے دل پر قبضہ جما لیا تھا۔ خطوط کے تبادلے، عمر بھر ساتھ نبھانے کے وعدے، پہلے گھر کی چھت پر اور پھر پارکوں میں ملاقاتیں لیکن ایک دن ان کے عشق کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ موصوف کو بہ یک بینی دو گوش گھر کی اوپری منزل سے باہر کا راستہ دکھایا گیا۔ ساتھ ہی چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق لڑکی کسی امیر گنجے لڑکے کے حوالے کر دی گئی اور وہ اپنے پیا کے ہمراہ جانے کہاں جا بسی، یوں محبت کا جنازہ اٹھ گیا۔بس اس دن کے بعد سے میرا یار مجنوں بن کر رہ گیا۔ ’’اب شادی کبھی نہیں کروں گا، بے وفائی کا دوسرا نام عورت ہے۔ اسے سچی محبت نہیں، بس گاڑی اور بنگلہ چاہیے تھا، سو یہ چیزیں اسے مل گئیں اور وہ مجھے ٹھکرا کر چلی گئی‘‘۔
’’ہاں بھائی! تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن اب تم بھی اس لڑکی کے نام پر دو حرف بھیجو اور کوئی نئی چڑیا تلاش کر کے اس بے وفا سے پورا پورا بدلہ لو‘‘ میں نے کہا۔
’’میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا، میں اس جیسا کم ظرف اور کمینہ نہیں، میری محبت کھری اور سچی ہے، میں نے پیار کا ڈھونگ نہیں رچایا تھا‘‘ منیر کا منھ غصے سے سرخ تھا۔
میں چپ ہو رہا اور نئے حالات کا انتظار کرنے لگا۔ ابھی بہ مشکل سال گزرا ہی تھا کہ ایک اطلاع کے مطابق موصوف بہت شد و مد کے ساتھ گھر گھر جھانکتے پھر رہے ہیں، کبھی اکیلے اور کبھی گھر کی کسی خاتون کے ساتھ۔’’اب کیا ہوا، آج کل تم کسے ڈھونڈتے پھر رہے ہو‘‘۔
’’وہ… وہ… امی نے مجھے قسم دے کر کہا ہے کہ اب تم فوراً اپنا گھر بسا لو، کب تک لنڈورے بنے رہو گے‘‘۔
’’یقیناً والدہ صاحبہ کی بات سر آنکھوں پر، لیکن تم نے تو کہا تھا کہ اب زندگی بھر شادی نہیں کروں گا؟‘‘
’’لعنت بھیجو اس رضیہ کی شکل پر، وہ کوئی انسان تھی انسانیت کے نام پر دھبہ تھی‘‘
’’اب آئے نہ آنے والی تھاں پر بچو، ایک دفعہ تو شادی کر لے، آٹے دال کا بھائو تجھے خود ہی پتہ چل جائے گا‘‘۔ میں نے دل ہی دل میں کہا اور مسکرا کر چپ ہو رہا۔
بہرحال رشتوں کی ڈھنڈیا میں کئی چہرے منیر کے قریب آئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً سبھی نے اس کے ننھے منے سے دل میں جگہ بنا لی۔ ان دنوں وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا لیکن اس ’’سچے‘‘ عاشق کی شادی جلد ہی ایک ہیومیو لیڈی ڈاکٹر سے طے ہو گئی۔ اس کی واحد شرط یہ تھی کہ وہ شادی کے بعد بھی پریکٹس جاری رکھے گی۔ انہی دنوں اسے کہیں سے یہ بھنک مل گئی کہ اس کے ہونے والے شوہر نامدار مجنوں کے صحیح ’’جانشین‘‘ ہیں۔ لہٰذا ایک ’’ڈیٹ‘‘ پر منیر کو یہ حکم ملا ’’خبردار، اب میں نہ سنوں کہ تم لڑکیوں کے پیچھے پھر رہے ہو اور ہاں، تم تمام زنانہ خط میرے سامنے لا کر جلائو گے۔‘‘چنانچہ تمام رنگ رنگ برنگ خط آگ کی نذر کر دیئے گئے ۔ چلو، منیر کا گھر بس گیا، یہ بڑے شکر کی بات تھی۔ہنی مون تک منیر کے ہاں خیریت ہی خیریت تھی، وہ بہت خوش نظر آتا تھا۔ پھر روٹین لائف شروع ہوئی۔ یہ لائف کیسی ہو گی، میرے دل میں تجسس پیدا ہوا اور ایک روز میرے پوچھنے پر منیر نے کہا ’’بس یار، سارے صبح و شام روٹین میں ڈھل گئے ہیں، گھر میں آٹا دال آنے اور چولہا چوکا روشن ہونے لگا ہے، مجھے ہر چیز وقت پر تیار ملتی ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے ماورا بھی ایک بات ہے اگر میں غلط نہیں تو عورت اور مرد بس ایک بات کے لیے جوڑے بنائے جاتے ہیں یا وہ خود ایک ہو جاتے ہیں اور وہ بات ہے …مرد کے ’’شوہرپن‘‘ کے لیے ،ایک میٹھا سا پیار بھرا نسوانی اعتراف محبت۔ لیکن رضیہ شادی کے بعد ایک روٹین میں ڈھلی ڈھلائی عورت ہے، جب دیکھو ایک بنے بنائے روبوٹ کی طرح نظر آتی ہے‘‘۔ اس نے بات ختم کی اور ایک ٹھنڈا سانس بھرا۔
’’لیکن ایسا کیوں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’معلوم نہیں، بلکہ ایک دن میں نے لہجے میں خوب مٹھاس گھول کر رضیہ سے پوچھا۔ ’’جانم! ایک بات تو بتائو سچ سچ، کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟‘‘ تو اس نے صاف کہا ’’ابھی تک تو نہیں ہوئی ہر صبح اٹھ کر دیکھتی ہوں کہ یہ کون بھدی سی شخصیت میرے بیڈ پر قبضہ جمائے لیٹی ہے۔ یا ہر روز شام کے چار بجے یہ کون چشمہ پوش شخص اپنی واہیات سی پھٹ پھٹی پر گھر میں آن ٹپکتا ہے‘‘۔ اس کے بعد منیر خاموش ہو گیا۔
مجھے اندازہ ہوا کہ وائف کی باتیں سن کر منیر کو بہت مایوسی ہوئی ہو گی لیکن یقیناً اس نے دل کو تسلی دے رکھی ہے کہ رضیہ مذاق کر رہی ہے، بھلا شادی کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں، بہ مشکل سوا یا ڈیڑھ سال۔ بہرحال وہ کبھی نہ کبھی خود ہی اپنی محبت کا اقرار کرے گی۔ دن گزرتے رہے، یہ اپنی مرضی والا کھلا کھلا سا اقرار محبت کبھی نہ ہوا اور منیر کے کان اس کی یہ بات سننے کو ترستے رہے۔آخر اس نے ایک دن پھر رضیہ سے کہا ’’اب تو مان جائو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے‘‘۔
’’ہرگز نہیں، میں کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں کہ چند دنوں کی رفاقت کے بعد عشق جتانے لگوں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے اب مجھے تمہاری موجودگی کی کچھ عادت سی ہو گئی ہے جیسے گھر کے صحن میں رکھا ہوا یہ بڑا سا سرخ گملا مجھے بھلا لگتا ہے‘‘۔
’’ہونہہ، یہ کیا بات ہوئی، ایک اچھے بھلے آدمی کے لیے گملے کی مثال لانا کوئی درست بات نہیں، تمہیں اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لانی ہو گی۔ میں ہر روز صبح سے شام تک پسینہ بہا کر تمہارے لیے اتنا کچھ کرتا ہوں اور تم ہو کہ…‘‘
’’معاف کرنا منیر صاحب، محبت روٹین کے کاموں سے پیدا نہیں ہوتی۔ تم سے کہیں زیادہ محنت تو ہماری گلی کا گوالا کرتا ہے، روزانہ دس پندرہ بھینسوں کو چارہ کھلانا، ان کی صفائی ستھرائی اور پھر بائیک پر بے شمار دودھ بھرے ڈبے اٹھا کر پورے شہر میں سپلائی کرنا۔ لیکن کیا تم سمجھتے ہو کہ اس انداز کار سے وہ اپنی گھر والی کا دل جیت سکتا ہے، وہ اسے زبردستی چند بچوں کی ماں تو بنا سکتا ہے لیکن اس کے دل تک رسائی نہیں پا سکتا، کچھ سمجھ آئی آپ کو؟‘‘منیر گم صم ، اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ رضیہ اٹھ کر اپنے کلینک چلی گئی۔
یہ سارا قصہ عجیب سا تھا لیکن جانے کیوں میرے دل میں رضیہ بھابھی کے لیے کافی ہمدردی پیدا ہو گئی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا، کچھ عرصہ بعد منیر کے ہاں ایک چاند سا بیٹا آ گیا۔ ایک دن اس نے پھر رضیہ سے سوال کیا:’’بتائو، محبت کے بارے میں تمہارا وہ بے ہودہ سا خیال اب بھی بدلا یا نہیں‘‘۔
’’میری محبت میرے بیٹے کے لیے ہے، یہ مجھے بہت پیارا ہے اور رہے تم، میرے لیے تم صرف اس کے باپ ہو۔‘‘
’’ہت تیرے کی‘‘ منیر جھلا کر باہر جانے لگا تو رضیہ پھر بولی ’’میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتی‘‘۔
اسی اثناء میں میری بھی شادی ہو گئی۔ میری آبادکاری دیکھ کر منیر اور رضیہ بھابی دونوں بہت خوش تھے اور میرے لیے دعاگو بھی۔ ہنی مون ہنسی خوشی گزر گیا۔ زندگی پھر سے معمول کے دھرے پر آ گئی۔ ایک دن میری بیوی نے مجھ سے بڑے پیار سے پوچھا:’’سچ بتائیے آپ کو مجھ سے کتنی محبت ہے۔‘‘
’’بات یہ ہے محترمہ کہ آج تک کوئی محبت ماپنے کا پیمانہ نہیں بنا سکا‘‘۔ وائف نے منھ پھیر لیا حالانکہ میں نے تو سچی بات کہی تھی، جانے کیوں وہ برا مان گئی۔وقت آگے بڑھا ۔ میں بھی ایک پیارے سے بیٹے کا باپ بنا۔’’اب بھی آپ کو مجھ سے محبت ہوئی یا نہیں؟‘‘ وائف کی آنکھوں میں پیار کی اچھال تھی۔
میں نے ذہن اور دل دونوں کو ٹٹولا، ٹناٹن خالی کے خالی ، سو جھوٹ بولنا بیکار سی بات تھی۔’’سچی بات یہ ہے ریحانہ کہ محبت دل میں خود رو پودے کی طرح اُگتی ہے، کوئی بھی اپنے دل میں اس کا بیج یا پنیری نہیں لگا سکتا۔ میں جھوٹ نہیں بولوں گا، محبت کا کوئی سوئچ نہیں ہوتا کہ جب جی چاہا اسے سوئچ کے ذریعے آن یا آف کر دیا‘‘۔
’’لیکن آپ کو محبت ہو نہ ہو، مجھے تو ہے‘‘ ریحانہ اچھل کر مجھ سے چمٹ گئی اور اتنے زور سے بھینچا کہ میں بے بس ہو کر رہ گیا۔ ’’دیکھ لو میرے پاس تو ہے وہ سوئچ اور آن بھی ہو چکا ‘۔ میں مسکرانے لگا ’’واقعی کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ،گاگر سے پانی پینا ہو تو آگے بڑھو، اسے ذرا سا جھکائو اور اپنا کوزہ بھر لو، فضول جھجھک کا فائدہ؟‘‘ میں نے سوچا اور اسی کے ساتھ میرا سوئچ بھی آن ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...