آٹھویں مرتبہ ہم سب مسافروں نے لاری کو دھکا دیا اور ڈھکیلتے ہوئے خاصی دور تک چلے گئے۔ الیکن انجن گنگنایا تک نہیں۔ ڈرائیور گردن ہلاتا ہوا اُتر پڑا۔ کنڈکٹر سڑک کے کنارے ایک درخت کی جڑ پر بیٹھ کر بیڑی سلگانے لگا۔ مسافروں کی نظریں گالیاں دینے لگیں اور ہونٹ بڑبڑانے لگے۔ میں بھی سڑک کے کنارے سوچتے ہوئے دوسرے پیڑ کی جڑ پر بیٹھ کر سگرٹ بنانے لگا۔ ایک بار نگاہ اُٹھی تو سامنے دور درختوں کی چوٹیوں پر مسجد کے مینار کھڑے تھے۔ میں ابھی سگرٹ سلگا ہی رہا تھا کہ ایک مضبوط کھردرے دیہاتی ہاتھ نے میری چٹکیوں سے آدھی جلی ہوئی تیلی نکال لی۔ میں اس کے بے تکلفی پر ناگواری کے ساتھ چونک پڑا۔مگر وہ اطمینان سے اپنی بیڑی جلا رہا تھا ۔وہ میرے پاس ہی بیٹھ کر بیڑی پینے لگا یا بیڑی کھانے لگا۔
’’یہ کو ن گائوں ہے۔۔۔۔۔۔؟‘‘میں نے میناروں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
’’یو ۔۔۔۔۔۔یوبھسول ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
بھسول کا نام سنتے ہی مجھے اپنی شادی یاد آگئی۔ میں اندر سلام کرنے جارہا تھا کہ ایک بزرگ نے ٹوک کر روک دیا۔ وہ کلاسیکی کاٹ کر بانات کی اچکن اور چوڑے پائینچے کا پاجامہ اور فر کی ٹوپی لیئے میرے سامنے کھڑے تھے۔ میں نے سر اُٹھا کر ان کی سفید پوری مونچھیں اور حکومت سے سینچی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔ انہوں نیسامنے کھڑے ہوئے خدمت گار کے ہاتھ سے پھولوں کی بدھیاں لے لیں اور مجھے پہنانے لگے۔ میں نے بل کھا کر اپنی بنارسی پوت کی جھلملاتی ہوئی شیروانی کی طرف اشارہ کرکے تلخی سے کہا۔
’’کیا یہ کافی نہیں تھی ۔ ‘‘وہ میری بات پی گیا۔ بدھیاں برابر کیں ،پھر میرے ننگے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا۔
’’اب تشریف لے جائیں۔‘‘میں نے ڈیوڑھی میں کسی سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ تھے؟ بتایا گیا کہ یہ بھسول کے قاضی انعام حسین ہیں۔
بھسول کے قاضی انعام حسین ، جن کی حکومت اور دولت کے افسانے میں اپنے گھر میں سنا کرتا تھا ۔میرے بزرگوں سے ان کے جو مراسم تھے مجھے معلوم تھے ۔میں اپنی گستاخ نگاہوں سے شرمندہ تھا۔ میں نے اندر سے آکر کئی بار موقع ڈھونڈ کر ان کی چھوٹی چھوٹی خدمتیں انجام دیں۔ جب میں چلنے لگا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ مجھے بھسول آنے کی دعوت دی اور کہا کہ اس رشتے سے پہلے بھی تم میرے کچھ تھے۔لیکن اب تو داماد بھی ہوگئے ہو۔ اس قسم کے رسمی جملے سبھی کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت ان کے لہجے میں خلوص کی ایسی گرمی تھی کہ کسی نے یہ جملے میرے دل پر لکھ دئے۔
میں تھوڑی دیر کھڑا بگڑی ’بس‘ کو دیکھتا رہا، پھر اپنا بیگ جھلاتا ہوا جتے ہوئے کھیت میں اٹھلاتی ہوئی پگڈنڈی پر چلنے لگا۔ سامنے وہ شاندار مسجد کھڑی تھی ، جسے قاضی انعام حسین نے اپنی جوانی میں بنوایا تھا۔ مسجد کے سامنے کے دونوں طرف ٹوٹے پھوٹے مکان کا سلسلہ تھا، جن میں شاید کبھی بھسول کے جانور رہتے ہوں گے۔ ڈیوڑھی کے بالکل سامنے دو اونچے آم کے درخت ٹرافک کے سپاہی کی طرح چھتری لگائے کھڑے تھے۔ ان کے تنے جل گئے تھے ، جگہ جگہ مٹی بھر ی تھی۔ ڈیوڑھی کے دونوں طرف عمارتوں کے بجائے عمارتوں کا ملبہ پڑا تھا۔ دن کے تین بجے تھے ، وہاں اس وقت نہ کوئی آدمی تھا نہ آدم زاد کہ ڈیوڑھی سے قاضی صاحب نکلے۔ لمبے قد کے جھکے ہوئے، ڈوریے کی قمیص، میلا پاجامہ اور موٹر ٹائر کے تلّوں کا پرانا پمپ پہنے ہوئے، ماتھے پر ہتھیلی کا چھجہ بنائے مجھے گھور رہے تھے۔ میں نے سلام کیا۔ جواب دینے کے بجائے وہ میرے قریب آئے اور جیسے یک دم کھل گئے۔ میرے ہاتھ سے میرا بیگ چھین لیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر حویلی میں گھس گئے ۔
ہم اس چکّر دار ڈیوڑھی سے گزر رہے تھے جس کی اندھیری چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی دھّنیوںکو گھنے ہوئے بدصورت شہتر رو کے ہوئے تھے۔
وہ ڈیوڑھی سے ہی چلّائے۔
’’ارے سنتی ہو ۔۔۔۔۔۔دیکھو تو کون آیا ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے کہا اگرکوئی صندوق وندوق کھولے بیٹھی ہو تو بندکر لو جلدی سے ۔۔۔۔۔۔‘‘لیکن دادی تو سامنے ہی کھڑی تھیں۔ ڈھلے ہوئے گھڑوں کی گھڑونچی کے پاس۔ دادا اُن کو دیکھ کر سٹپٹا گئے۔وہ بھی شرمندہ سی کھڑی تھیں۔ پھرانہوں نے لپک کر گھر کی انگنی پر پڑی ماکین کی گھر کی دُھلی چادر گھسیٹ لی اور دوپٹہ کی طرح اوڑھ لی۔ چادر کے ایک سرے کو اتنا لمبا کردیا کہ کرتے کے دامن میں لگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھپ جائے۔
اس اہتمام کے بعد وہ میرے پاس آئیں، کانپتے ہاتھوں سے بلائیں لیں۔ سکھ اور دُکھ کی گنگا جمنی آواز میں دعائیں دیں۔ دادی کانوں سے میری بات سن رہی تھی ، لیکن ہاتھوں سے جن کی جھریاں جھریوں بھری کھال جھول گئی تھی۔ دالان کے اکلوتے ثابت پلنگ کو صاف کررہی تھیں۔ جس پر میلے کپڑے،کتھّے کی کلھیا اور پان کی ڈلیاں ڈھیر تھیں اور آنکھوں سے کچھ اور سوچ رہی تھی ، مجھے پلنگ پر بیٹھا کر دوسرے جھنگا پلنگ کے نیچے سے پنکھا اٹھا لائیں ، جس کے چاروں طرف کالے کپڑے کی گوٹ لگی تھی اور کھڑی ہوئی میرے اس وقت تک جھلتی رہیں جب تک میں نے چھین نہ لیا پھر وہ باروچی خانے میں چلی گئیں ۔وہ ایک تین دروں کا دالان تھا۔ بیچ میں مٹی کا چولہا بنا تھا۔ المونیم کی چند میلی پتیلیاں کچھ ڈبّے کچھ شیشے بوتل اور دو چار اسی قسم کی چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ میری طرف پیٹھ کئے چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں۔ دادا نے کونے میں کھڑے ہوئے پرانے حقّہ سے بے رنگ چلم اُتاری اور باوچی خانہ میں گھس گئے۔ میں ان دونوں کی گھن گھن کرتی سرگوشیاں سنتا رہا۔ دادا کئی بار جلدی جلدی باہر گئے اور آئے، میں نے اپنی شیروانی اُتاری اور ادھراُدھر دیکھ کر چھ دروازے والے کمرے کے کواڑ پر ٹانگ دی۔ نقشین کواڑ کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ ایک جگہ لوہے کی پتی لگی تھی۔ لیکن بیچو بیچ گول دائرے میں ہاتھی دانت کا کام، کتھے اور تیل کے دھبوں میں جگمگا رہا تھا۔ بیگ کھول کر میں نے چپل نکالے اور جب تک میں دوڑوںدادا گھڑونچی پر سے گھڑا اُٹھا کر اس لمبے چوڑے کمرے میں رکھ آئے۔ جس میں ایک بھی کواڑ نہ تھا۔ صرف گھیرے لگے کھڑے تھے۔ جب میں نہانے گیا تو دادا المونیم کا لوٹا میرے ہاتھ میں پکڑا کر مجرم کی طرح بولے۔
’’تم بیٹے اطمینان سے نہائو۔۔۔۔۔۔اِدھر کوئی نہیںآئے گا۔پر دے تو میں ڈال دوں لیکن اندھیرا ہوتے ہی چمگادڑ گھس آئے گی اور تم کو دق کرے گی۔
میں گھڑے کو ایک کونے میں اٹھا لے گیا وہان دیوار سے لگا، اچھی خاصی سینی کے برابر پیتل کا گھنٹہ کھڑا تھا۔ میں نے جھک کر دیکھا۔ گھنٹے میں مونگو یوں کی مار سے داغ پڑ گئے تھے۔ دو ناگل کا حاشیہ چھوڑ کر جو سوراخ تھا اس میں سوت کی کالی رسّی بندھی تھی۔ اسی سوراخ کے برابر ایک بڑا سا چاند تھا اس کے اوپر سات پہل کا ستارہ تھا۔ میں نے تولیہ کے کونے سے جھاڑ کر دیکھا تو وہ چاند تارا بھسول اسٹیٹ کا مونو گرام تھا۔ عربی رسم الخط میں ’’قاضی انعام حسین‘‘ آف بھسول اسٹیٹ اودھ‘‘ کھدا ہوا تھا۔ یہی وہ گھنٹہ تھا جو بھسول کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پر تقریبا ً ایک صدی سے بجتا آرہا تھا۔ میں نے اسے روشنی میں دیکھنے کے لئے اٹھانا چاہا لیکن ایک ہاتھ سے اٹھا نہ سکا۔ دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر دیکھتا رہا۔ میں دیر تک نہاتا رہا۔ جب باہر نکلا تو آنگن میں قاضی انعام حسین پلنگ بچھارہے تھے ۔قاضی انعام حسین جن کی گدی نشینی ہوئی تھی، جن کے لئے بندوقوں کا لائسنس لینا ضروری نہیں تھا۔ جنہیں ہر عدالت طلب نہیں کرسکتی تھی۔دونوں ہاتھوں پر خدمت گاروں کی طرح طباق اٹھائے ہوئے آئے جس میں الگ الگ رنگوں کی دو پیالیاں ’’لب سوز‘‘ لب بند چائے سے لبریز رکھی تھی۔ ایک بڑی سی پلیٹ میں دو اُبلے ہوئے انڈے کاٹ کر پھیلا دئیے گئے تھے۔ شروع اکتوبر کی خوشگوار ہوا کے ریشمی جھونکوں میں ہم لوگ بیٹھے نمک پڑی ہوئی چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ دروازے پر کسی بوڑھی آواز نے ہانک لگائی۔
’’مالک۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کون۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’مہتر ہے آ پ کا۔۔۔۔۔۔صاحب جی کا بلابے آئے ہے۔۔۔‘‘
دادا نے گھبرا کر احتیاط سے اپنی پیالی طباق میں رکھی اور جوتے پہنتے ہوئے باہر چلے گئے، اپنے بھلے دنوں میں تو اس طرح شاید وہ کمشنر کے آنے کی خبر سن کر بھی نہ نکلے ہوں گے۔
میں ایک لمبی ٹہل لگا کر جب واپس آیا تو ڈیوڑھی میں مٹی کے تیل کی ڈبیا جل رہی تھی۔ دادا باورچی خانے مین بیٹھے چولہے کی روشنی میں لالٹین کی چمنی جوڑ رہے تھے ۔ میں ڈیوڑھی سے ڈبیا اٹھا لایا اور اصرار کرکے ان سے چمنی لے کر جوڑنے لگا۔
ہاتھ بھر لمبی لالٹین کی تیز روشنی میں ہم لوگ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ دادا میرے بزرگوں سے اپنے تعلقات بتاتے رہے۔ اپنی جوانی کے قصے سناتے رہے۔ کوئی آدھی رات کے قریب دادی نے زمین پر چٹائی بچھائی اور دستر خوان لگایا۔ بہت سی اَن میل بے جوڑ کی پلیٹوں میں بہت سی قسموں کا کھانا چنا۔ شاید میں نے آج تک اتنا نفیس کھانا نہیں کھایا۔
صبح میں دیر سے اُٹھا۔ یہاں سے وہاں تک پلنگ پر ناشتہ چنا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ دادی نے رات بھر ناشتہ پکایا ہے۔ جب میں اپنا جوتا پہننے لگا تو رات کی طرح اس وقت بھی دادی نے مجھے آنسو بھری آواز سے روکا۔ میں معافی مانگتا رہا۔ دادی خاموش کھڑی رہیں۔ جب میں شیروانی پہن چکا ، دروازے پر یکّہ آگیا، تب دادی نے کانپتے ہاتھوں سے میرے بازو پر امام ضامن باندھا۔ ان کے چہرے پر چونا پُتا ہوا تھا۔ آنکھیں آنسوئوں سے چھلک رہی تھیں۔ انہوں نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’یہ اکاون روپے تمہاری مٹھائی کے ہیں اور دس کرائے کے ۔۔۔۔۔۔‘‘
ارے ۔۔۔۔۔۔ارے دادی ۔۔۔۔۔۔اپنی جیب میں جاتے ہوئے روپیوں کو میں نے پکڑ لئے۔
چپ رہو تم ۔۔۔۔۔۔تمہاری دادی سے اچھے تو ایسے ویسے لوگ ہیں جو جس کا حق ہوتا ہے وہ تو دیتے ہیں۔ غضب خدا کا تم زندگی میں پہلی بار میرے گھر آئو اور میںتم کو جوڑے کے نام پر ایک چٹ بھی نہ دے سکوں۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔بھیّا ۔۔۔۔۔۔تیری دادی تو فقیرن ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔بھکارن ہوگئی۔
معلوم نہیں کہاں کہاں کا زخم گھل گیا تھا۔ وہ دھاروں دھار رو رہی تھیں۔ دادا میری طرف پشت کئے کھڑے تھے اور جلدی جلدی حقّہ پی رہے تھے۔ مجھے رخصت کرنے دادی ڈیوڑھی تک آئین لیکن منھ سے کچھ نہ بولیں۔ میری پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اور گردن ہلا کر رخصت کردیا۔
دادا قاضی انعام حسین تعلّقد اوبھو سول تھوڑی دیر تک میرے یکّہ کے ساتھ چلتے رہے لیکن نہ مجھ سے نگاہ ملائی نہ مجھ سے خدا حافظ کہا۔ ایک بار نگاہ اُٹھا کر دیکھا اور میرے سلام کے جواب میں گردنم ہلادی یکّہ چل پڑا۔ سدھو لی جہاں سے سیتا پور کے لئے مجھے بس ملتی ابھی دور تھا ۔ میں اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے یکّہ کو کھڑی ہوئی سواری نے روک لیا ۔جب میں ہوش میں آیا تو میرا یکہ والا ہاتھ جوڑے ہوئے مجھ سے کہہ رہا تھا۔
’’میاں ۔۔۔۔۔۔ای شاہ جی بھسول کے ساہو کار ہیں۔ ان کے یکّہ کا بم ٹوٹ گیا ہے۔ آپ بُرا نہ مانو تو اِی بیٹھ جائیں۔‘‘
میری اجازت پا کر اس نے شاہ جی کو آواز دی ۔ شاہ جی ریشمی کرتا اور مہین دھوتی پہنے آئے اور میرے برابر بیٹھ گئے اور یکّے والے نے میرے اور ان کے سامنے پیتل کا گھنٹہ دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر رکھ دیا۔ گھنٹے کے پیٹ میں مونگری کی چوٹ کا داغ بنا تھا۔ دو انگل کے حاشئے پر سوراخ میں سوت کی رسّی پڑی تھی۔ اس کے سامنے قاضی انعام آف بھسول اسٹیٹ اودھ کا چاند اور ستارے کا مونو گرام بنا ہوا تھا، میں اُسے دیکھ رہا تھا اور شاہ جی مجھے دیکھ رہے تھے اور یکے والا ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔ یکّے والے سے رہا نہیں گیا۔ اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’کا شاہ جی گھنٹہ خرید لایو۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ۔۔۔۔۔۔کل شام کا معلوم نائی کا وقت پڑا ہے میاں پر کہ گھنٹہ دئیے دیہیں ۔بلائی کے ۔۔۔۔۔۔ائی ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں وقت وقت کی بات ہے۔ شاہ جی نائی تو ای گھنٹہ ۔۔۔۔۔۔اے گھوڑے کی دُم راستا دیکھ کے چل ۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر اُس نے چابک جھاڑا۔
میں میاں کا بُرا وقت۔ چوروں کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ چابک گھوڑے کے نہیں میری پیٹھ پر پڑا ہے۔
٭٭٭
تجزیہ
چار دھاکوں سے زیادہ عرصہ قلم گھسانے کے بعد اب ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ نقاد حضرات خاص طور پر مہا نقاد چاہیں تو پتھر کے معمولی سے ٹکڑے کی تعریفیں کرکے اُس کو ہیرا بنادیں اور اصلی ہیرے کی چمک دمک دیکھ کر بھی نظریں چرالیں اور اُسے گمنامی کے اندھیروں میں چمکنے کے لئے چھوڑ دیں ۔اس بات کا احساس مجھے محترم قاضی عبدالستار کا افسانہ ’’پتیل کا گھنٹہ‘‘ پڑھ کر ہوا دور حاضر میں اگر کوئی فن ہے اور اُس کے پاس خداداد صلاحتیں بھی ہیں، اُس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے فن کی پبلسٹی کے لئے دائو پیچ لڑائے ۔پی۔آر۔او کے ذریعہ دنیا کو اپنے فن کا احساس دلائے۔ تب کہیں جا کر اُس کو فن کار تسلیم کیا جائے گا۔ ورنہ وہ کتنا ہی بہتر لکھے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نقاد حضرات تو آنکھین موند کر مردوں کر پرستش کرتے رہتے ہیں۔ گئے وقت کے افسانہ نگاروں کے ناموں کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دور حاضر میں کیا چھپ رہا ہے کیا نہیں۔ پڑھنے کی تکلیف ہی نہیں اُٹھاتے بس منٹو، بیدی، کرشن چندر یا عصمت ، ہمارے نقادوں نے قاضی عبدالستار کے افسانوں کا کبھی لوہا نہیں مانا۔ شاید اس لئے بھی کہ قاضی صاحب کواپنا آپ منوانا نہیں آیا ۔اُنہوں نے پی۔آر۔او نامی وبا سے یقیناً نفرت کی ہوگی۔ کوئی گروپ جوائین کرنے سے پرہیز کیا ہوگا۔ نقادوں سے فاصلہ بنائے رکھا ہوگا۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ میں نے کئی بار پڑھا سب سے پہلے تو میں مدیر گلبن کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنے تازہ شمارے میں اس ہیرے کے ٹکڑے کو مٹی سے اُٹھا کر اپنے جریدے کی زینت بنایا اور ہمیں افسانہ تبرکاً پڑھنے کو ملا۔ میرے دل سے والہانہ ایک تمنّا ابھری کہ کاش یہ افسانہ میرے ہاتھوں تخلیق ہوا ہوتا۔ پھر سوچ کر خود ہی شرم سار ہوتا جاتا ہوں کہ میں اس قدر معرکہ خیز تخلیق پیش نہ کر پاتا۔ جو محترم قاضی صاحب پیش کر گئے۔ میں قاضی صاحب کی عظمت کا اُس دن سے قائیل ہو گیا جب ’’آمد‘‘ پٹنہ مین میرا ایک بے باک مضمون ’’ادبی وبائیں ‘‘چھپا۔ جسے پڑھ کر مجھ ایسے طفلِ مکتب کو انہوں نے فو ن کیا۔ میں اُس دن ایسے ہی بیٹھا کسی سوچ مین غرق تھا کہ میرا موبائیل چیخ اُٹھا۔ آن کرکے جب میں نے اُسے کان کو لگایا تو میں چونک اُٹھا، دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’میں علی گڑھ سے قاضی عبدالستار بول رہا ہوں۔۔۔۔۔۔!‘‘
اب معاملہ واقعی ناقابل یقین تھا۔ میں نے تصدیق کرنے کی غرض سے سوال کیا۔
’’کون ۔۔۔۔۔۔صاحب۔۔۔۔۔۔!!‘‘
بولے۔’’قاضی عبدالستار ۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔علی گڑھ سے ۔۔۔۔۔۔!!‘‘
مجھے جیسے کسی غیبی طاقت نے ہوا میں اچھال دیا ہو ۔میں اپنے حواس پر قابو پا کر بولا۔ ’’ٹھہرئیے سر۔۔۔۔۔۔! پہلے میں اپنی خوش نصیبی پر ناز کرلوں۔۔۔۔۔۔!!‘‘
تھوڑا ہنس کر بولے۔
’’نہیں نہیں بھائی۔۔۔۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔!!‘‘
اس کے بعد انہوں نے ناچیز کے مضمون کی تعریف کی اور فون بند کردیا۔ یہ میری حوصلہ افزائی تھی یا میرے لئے اُن کا آشیرواد ۔ بہر حال میںنے یہ واقعہ دوستوں کو بڑے فخر سے سنایا، جو میرے لئے کسی بڑے اعزاز سے کم نہ تھا۔ کسی اچھی تخلیق کی ایمانداری سے تعریف کرنا بھی عظیم کارنامہ ہے۔ ورنہ اس دور میں لوگ مضامین پڑھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ بہر حال آئیے قاضی عبدالستار صاحب کے افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ ‘‘ کی بات کریں۔
جس عہد سے محترم قاضی صاحب کا تعلق ہے اُس زمانے کے افسانہ کے بارے میں امید تھی کہ یہ خوب خوب طویل ہوگا۔ منظر نگاری، لفاظی، کردار نگاری اور بیان میں کم سے کم بیس صفحات تو ڈوب ہی گئے ہوں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں پایا گیا۔ آئیے پہلے افسانہ کے موضوع کے بارے میں بات کریں۔ موضوع ہندوستان کی تہذیب اور روایت کی مونہہ بولتی تصویر ہے کہ ہم ہندوستانی کس قدر مہمان نواز ہوتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اسلام مہمان کے لئے کیا سبق دیتا ہے۔ آپ کے لئے کھانا بچے یا نہ بچے مہمان کی بھوک کا انتظام کریں۔ وہ یہودی بھی تو اﷲ کے رسول کا مہمان تھا جس کی غلاظت حضورؐ نے اپنے بستر سے اپنے دست مبارک سے صاف کی تھی۔ ’’پیتل کا گھنٹہ ‘‘ مہمان نوازی کے لئے ایثار اور اپنی روایات سے جڑے رہنے کی کہانی ہے۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ میں راوی محو سفر ہے۔ افسانے کے دور کی بات کریں تو آزادی کے بعد کا عہد ہی کہا جاسکتا ہے۔ جب ریاستوں کے نواب اور جاگیردار اپنی شان شوکت اپنی حکومت، مال و جائیداد کھو کر بے یارو و مدد گا ر ہو چکے تھے اور کسمپرسی کی حالت میں جی رہے تھے۔ افسانہ میں مرکزی کرداروں میں راوی کے علاوہ بھسول کے قاضی انعام حسین ہیں جو کبھی حاکم اور انتہائی دولت مند انسان تھے۔ ذیلی کرداروں میں دادی ہیں جو قاضی انعام کی اہلیہ ہیں سرسری کرداروں میں یکّے والا اور ساہو کار ہیں۔ میں ایک بات کہے بغیر نہیںرہ سکتا کہ خوبصورت اور جاذب افسانے کا یہ وصف ہے کہ اُس کے دامن میں کم سے کم کردار ہوں۔ جو لوگ واقعی افسانے کی تکنیک جانتے ہیں وہ کردار مقرر کرنے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ کرداروں کی اگر بھر مار ہو تو قاری بھول جاتا ہے۔ کہ کس کردار کا کس سے کیا رشتہ ہے۔ کون کیا ہے، زیادہ کردار قاری کے ذہن کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں جس سے قاری کا اکتا جانا قدرتی ہے جس کا برا اثر بلاشبہ کہانی پن پر پڑتا ہے۔
واقعہ صرف اتنا ہے کہ راوی کی شادی کے موقع پر جب راوی گھر کے اندر سلام کرنے جارہا تھا تو قاضی انعام حسین نے اُسے روکا اور پھولوں کا ہار پہنایا۔ باہر آکر قاضی انعام اُسے بھسول آنے کی پر خلوص دعوت دیتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ اس رشتے سے پہلے بھی تم میرے کچھ تھے اب تو داماد بھی ہوگئے۔ افسانے کے آغاز میں اتفاقاً راوی کا گذر بھسول گائوں سے ہوتا ہے جہاں اُس کی لاری خراب ہو جاتی ہے۔ جب راوی پر واضح ہوتا ہے کہ یہ گائوں بھسول ہے تو راوی کو قاضی انعام حسین اور اُن کی پر خلوص دعوت یاد آجاتی ہے۔ خراب لاری کو الوداع کہہ کر وہ قاضی انعام کی حویلی کی طرف چل دیتا ہے۔ قاضی انعام راوی کو دیکھ کر کھل اُٹھتے ہیں اور اُسے گھر لے آتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد پانی کا ایک گھڑا اور ایک المونیم کا لوٹا دے کر کہتے ہیں۔
تم بیٹے اطمینان سے نہائو ،غسل سے پہلے راوی ایک بڑا سا پیتل کا گھنٹہ دیکھتا ہے جس پر لکھا ہے۔‘‘قاضی انعام حسین آف بھسول سٹیٹ، اودھ ،یہ وہ گھنٹہ تھا جو اعلان ریاست کے طور پر تقریباً ایک صدی سے بجتا آیا تھا۔ نہانے کے بعد راوی نے قاضی انعام کے ساتھ چائے پی ۔آدھی رات کو دادی نے بہت سی قسموں کا کھانا پروسا۔ بقول راوی کہ اُس نے اتنا نفیس کھانا کبھی نہیں کھایا۔ صبح کو راوی نے کئی قسم کا ناشتہ لیا۔ ناشتے کے بعد راوی کے لئے یکّہ آگیا۔ راوی جانے لگا تو دادی نے راوی کو اکیاون روپے مٹھائی کے اور دس روپے کرائے بھاڑے کے دئیے۔ اکسٹھ روپے کی رقم اُس دور میں بہت تھی۔یہ پہلے واضح کردیا گیا تھا کہ راوی کا رشتہ اب قاضی انعام سے دامادکا بن گیا تھا۔ راوی یکّے میں بیٹھ گیا یکّہ چل پڑا۔ راستے میں کسی سواری نے یکّہ رکوایا۔ یکّے والے نے راوی سے اجازت چاہی کہ اس آدمی کو یکّے میں بیٹھنے کی اجازت دیں جو یہاں کا ساہو کار ہے۔ ساہو کار نے پیتل کا گھنٹہ اٹھا کر یکّے میں رکھ دیا۔ راوی نے دیکھا کہ گھنٹہ تو وہی ہے جِسے اُس نے قاضی انعام کے یہاں دیکھا تھا۔ گھنٹے پر لکھا تھا ’’قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ، اودھ، یکے والا ساہو کار سے پوچھتا ہے۔
’’کاشاہ جی ۔۔۔۔۔۔!گھنٹہ بھی خرید لائیو۔۔۔۔۔۔!!‘‘
ساہو کار کہتا ہے۔’’ہاں!۔۔۔۔۔۔کل شام معلوم نائی کا وقت پڑا ہے میاں جی پر کہ گھنٹہ دئیے دیہیں ۔۔۔۔۔۔بلائی کے ۔۔۔۔۔۔اِی۔۔۔۔۔۔!!‘‘
اختتام پہ راوی کا محسوس کرنا کہ میاں کا برا وقت چوروں کی طرح بیٹھا ہواتھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ چابک گھوڑے کے نہیں میری پیٹھ پر پڑا ہے ۔کیونکہ راوی کی وجہ سے ہی قاضی انعام کو گھنٹہ فروخت کرنا پڑا۔ ظاہر ہے مہمان نواز ی کے لئے رقم درکار تھی۔
میری نظر میں ’’پیتل کا گھنٹہ ‘‘ کو ہم اردو افسانے کا شاہکار افسانہ کہہ سکتے ہیں۔ ہر لحاظ سے یہ اردو ادب کا سرمایہ ہے۔ نقاد حضرات ایمانداری سے اس افسانے کو بُو، کھول دو ،موذیل، لاجونتی ، گرم کوٹ، لحاف ،مہالکشمی ، مداری اور ماچس کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھیں اور خود فیصلہ کریں۔ میرا دعویٰ ہے یہ کسی سی کم نہیں اسلوب، اختصار، پرمعنی موضوع پر ہر زاویہ سے یک کامیاب افسانہ ہے ۔قبلہ قاضی صاحب نے کس قدر خوبصورت مثالیں دی ہیں ، ملاحظہ فرمائیں۔
آٹھویں مرتبہ ہم سب مسافروں نے لاری کودھکا دیا اور ڈھکیلتے ہوئے خاصی دور تک چلے گئے ۔۔۔۔۔۔لیکن ’’انجن گنگنا یا تک نہیں‘‘(واہ۔۔۔۔۔۔!‘
’’مسافرون کی نظریں گالیاں دینے لگیں۔(خوب ۔۔۔۔۔۔!)
ڈیوڈھی کے بالکل سامنے دو اونچے آم کے درخت ٹرافک کے سپاہی کی طرح چھتری لگائے کھڑے تھے۔ دادی نے سکھ اور دکھ کی گنگا جمنی آواز میں دعائیںدیں۔
اپنی جیب میں جاتے ہوئے روپیوں کو میں نے پکڑ لیا۔
ایک خوبصورتی یہ بھی دیکھئے ۔
ایک دیہاتی کا راوی کے ہاتھ سے ماچس کی تیلی کو چھین کر اپنی بیڑی جلانے سے دیہاتی کا دیہاتی پن اور کھردری عادت ظاہر ہوتی ہے۔ راوی کے لئے دیہاتی کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ بنتا ہے۔
بات افسانے کے مکالموں کی کریں تو قاضی صاحب نے کرداروں کے عین مطابق اُن کے مونہہ میں اُن کی اپنی زبان رکھ کر کرداروں کو زندہ کردیا۔
کرداروں کے سلسلے میں اردو افسانے کا یہ بہترین اسلوب مانا جاتا ہے کہ کردار کے مونہہ میں اُس کی اوقات کے مطابق زبان رکھی جائے۔
تا کہ وہ آپ کے افسانے میں سانس لینے لگے۔ وہ زندہ ہو اُٹھے۔ جیسے راوی دیہاتی سے پوچھتا ہے۔
’’یہ کون گائوں ہے۔۔۔۔۔۔!؟‘‘دیہاتی جواب دیتا ہے۔
’’یُو۔۔۔۔۔۔یُو بھسول ہے۔۔۔۔۔۔!‘‘قاضی انعام کا لہجہ اُن کے مطابق انتہائی مہذّب ہے، مہتر کا کہنا۔
’’مہتر ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔! ۔۔۔۔۔۔صاحب جی کا بلا بے آئے ہے۔۔۔۔۔۔!‘‘ کس قد ر قدرتی ہے۔
یکّے والے کا کہنا ۔’’کاشاہ جی ۔۔۔۔۔۔! گھنٹہ بھی خرید لائیو۔۔۔۔۔۔!‘‘
واقعی یکّہ والے کی زبان ہے۔
جس میں مقامی بولی کی ملاوٹ خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔
’’کاشاہ جی کا گھنٹہ بھی‘‘آپ ذرا لفظ پر بھی غور کریں ۔ یہ بھی ’’کتنی حکائتیں بیان کر گیا۔ یہی کمال ہے افسانہ نگار کا ۔ اگر کوئی چھٹ بھّیا ہوتا تو دس چیزیں گِنا دیتا۔ یہ بکا وہ بکا ، فلاں چیز بکی اب پیتل کے گھنٹے کی بھی باری آگئی یہ بک گیا۔ اس ایک لفظ ہی نے آدھا صفحہ لکھنے سے قلم روک دیا۔ انتہائی نپے تلے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایک جملہ بھی افسانے کا فالتو نہیں ہر جملہ حسب ضرورت ہے۔
اور دیکھئے محترم قاضی انعام حسین کی خستہ حالی کس قدر نفاست سے بیان کی ہے یہ انہیں کا حصّہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ڈیوڑھی کے دونوں طرف عمارتوں کا ملبہ پڑا تھا۔
وہ ڈیوڑھی سے چلّائے۔
’’اگر صندوق و ندوق کھولے بیٹھی ہو تو بند کر لو جلدی۔۔۔۔۔۔‘‘اپنی غربت چھپانے کی ناکام کوشش میں یہ مکالمہ تحریر کیا گیا۔ اور پھر یئہ دیکھئے کہ چادر کا ایک سرا اتنا لمبا کردیا کہ کرتے کے دامن میںلگا۔ دوسرے کپڑے کا چمکتا ہوا پیوند چھپ جائے۔
دادا گھڑو نچی سے ایک گھڑا اُٹھا کر لمبے چوڑے کمرے میں رکھ آئے جس میں ایک بھی کواڑ نہ تھا۔ صرف گھیرے لگے کھڑے تھے۔ المونیم کا لوٹا ہاتھ میں پکڑا کر مجرم کی طرح بولے۔
’’تم بیٹے اطمینان سے نہائو، اِدھر کوئی نہیں آئے گا،پردے تو ڈال دوں۔ لیکن اندھیرا ہوتے ہی چمگادڑ گھس آئے گی اور تم کو دِق کرے گی۔‘‘
قاضی انعام طباق اُٹھائے آئے جس میں الگ الگ رنگ کی دو پیالیاں تھیں۔ اور یہ کہ ڈیوڑھی میں مٹی کے تیل کی ڈبیا جل رہی تھی ۔(دیا بھی نہیں۔)
ریاست کے نوابوں اور جاگیرداروں، جنہوں نے خود حکومت کی شاہی ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گذاری۔ آزادی کے بعد اُن کا رہن سہن، کھانا پینا رکھ کھائو اور روایتیں وہی رہیں اُن کو غربت کے اندھیروں نے نگل لیا کیونکہ کوئی آمدنی نہیں رہی تھی۔ ایسا نہیں کہ راجوں رجواڑوں کی محرومی اور غربت کا یہ پہلا افسانہ تھا اس موضوع پر بہت لوگوں نے لکھا بلکہ فلم والوں نے بھی ایسے نواب خاندانوں کو دکھایا جن کا آزادی کے بعد سب کچھ چھن گیا۔ مشہور زمانہ فلم ’’میرے محبوب ‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔
خوبصورتی تو افسانے کے اسلوب میں ہے۔ ایک ایک جملہ تراش کر سجایا گیا ہے۔ تعریف تو تخلیقی انداز کی ہے۔ مہمان نوازی اور داماد کی عزت کی روایت کو بروئے کار لاتے ہوئے دادی کا راوی کو روپے دے کر کہنا۔
’’تیری دادی فقیرن ہوگئی۔۔۔۔۔۔بھکارن ہوگئی ۔۔۔۔۔۔بھکارن ہوگئی ۔۔۔۔۔۔!‘‘
اور پھر یہ جملہ جس میں کئی کہانیاں پنہا ں ہیں۔ معلوم نہیں کہاں کہاں کا زخم کھل گیا ،وہ دھاروں دھار رو رہی تھیں۔ دراصل دادی گئے وقت کو روتی تھی وہ خاندان جو حکومت کرتا تھا۔ جس نے ایک ایک عالیشان مسجد بنوائی تھی۔ مسجد بنوا کر وقف کردینا عام آدمی کا کام نہیں۔ قاضی انعام کی سرمایہ داری تو مسجدبنانے سے ہی ظاہر ہو جاتی ہے۔ اور پھر یہ کہ قاضی انعام کی گدی نشینی ہوئی تھی ۔جن کے لئے بندوق کا لائیسینس لینا ضروری نہیں تھا۔ جنہیں ہر عدالت طلب نہیں کرسکتی تھی۔ وہی شخص آج اپنے مہمان کی خاطر داری کے لئے مجبور اً ’’پیتل کا گھنٹہ ‘‘ فروخت کررہا ہے۔
ایک کلائمیکس تو وہیں ہو جاتا ہے۔ جب ساہو کار یکّے میں گھنٹہ رکھتا ہے اور راوی گھنٹے کو بخوبی پہچان لیتا ہے ۔اُس کے سامنے گھنٹے پر کندہ وہی تحریر ہے۔ جس کا ذکر پہلے جزیات کے طور پر کیا جاچکا ۔ دوسرا اختتام یہ کہ ساہو کار کی بات سن کر راوی کا شرم سار ہونا اوراحساس جرم میں مبتلا ہو جانا راوی کا ضمیر اُس کی ملامت کرتا ہے ۔گستاخی معاف اگر میں افسانے کو تخلیق کرتا تو اپنی ناقص سمجھ کے مطابق افسانے کو وہیں ختم کردیتا جب یکّے میں بیٹھا راوی گھنٹے پہ کندہ تحریر پڑھ لیتا ہے۔ باقی سوچنے کے لئے میں قاری پر چھوڑ دیتا۔ قبلہ قاضی صاحب نے راوی کو احساس جرم دلا کر قاری کے لئے مسئلہ کھڑا نہیں کیا۔
بلاشبہ محترم قاضی عبدالستار ہمارے عہد کے بزرگ اور ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ میں یہ ضرور کہوں کہ ’’پیتل کا گھنٹہ ‘‘ اُن دوستوں کے لئے ایک چیلنج ہے جو کہتے ہیں اس دور میں کمزور افسانے لکھے جارہے ہیں۔ محض رپورٹنگ میں جب تک افسانہ نگار حیات ہے(اﷲ اُن کو زندگی دے) یہ دور اُس کا اپنا ہوتا ہے۔ اُس کی تخلیقات دور حاضر سے ہی منسوب ہوں گی۔ پیتل کا گھنٹہ قاضی عبدالستار صاحب کا ایک کامیاب اور خوبصورت افسانہ ہے جسے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
٭٭٭