اردو میں ماہیا نگاری کی جتنی مخالفت ہورہی ہے اتنی ہی اسے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔تھوڑا عرصہ پہلے برمنگھم میں ممتاز ادیب اور صحافی محمود ہاشمی سے ٹیلی فون پر بات ہو رہی تھی۔
ماہیے کا ذکر ہوا تو محمود ہاشمی نے بتایا کہ برمنگھم کی ایک شاعرہ اور مزاح نگار رضیہ اسماعیل بھی ماہیے کہہ رہی ہیں۔مجھے اس خبر سے خوشی ہوئی ،تاہم ہلکا سا وسوسہ بھی رہا کہ یہ بھی کہیں عارضی قسم کی ماہیانگار خاتون نہ نکلیں۔جب ان سے رابطہ ہوا تو میرا وسوسہ دور ہوچکا تھا۔وہ مجھ سے کسی رابطہ کے بغیر محض ادبی تحریک سے اتنے ماہیے کہہ چکی تھیں کہ ان کا مجموعہ تیار ہو چکا تھا۔جب رابطہ ہوا تو ان کا دوسرا ادبی کام بھی سامنے آیا۔خواتین کی ادبی و ثقافتی تنظیم ”آگہی“کو قائم کرنے کے علاوہ تخلیقی سطح پر ان کے کام کی کئی جہات ہیں۔غزلوں کا مجموعہ”گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو“طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ”چاند میں چڑیلیں“اور نثری نظموں(نثرِ لطیف) کا مجموعہ ”میں عورت ہوں“(اردو،انگریزی میں ایک ساتھ)شائع ہو چکے ہیں۔شاعری کے بارے میں تو بات آگے ہوتی رہے گی،ان کی نثر کے حوالے سے محمود ہاشمی کی رائے درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔محمود ہاشمی لکھتے ہیں:
”شاعروں اور مشاعروں کی بالادستی کے اس دور میں ایک شاعر کا نثر اور وہ بھی طنزو مزاح کی طرف متوجہ ہوناایک خوش آئند بات ہے۔رضیہ اسماعیل مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف نہایت سنجیدگی سے معیاری شاعری کی ہے بلکہ نثر لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ اگر لکھنے کا ڈھنگ آتا ہو ،مزاج کی اپج ہو،طبیعت میں روانی ہو تو نثر میں برجستگی اور شگفتگی سے ایسی ایسی جادوبیانی کی جا سکتی ہے کہ اس پر کئی شعر قربان کیے جا سکتے ہیں۔رضیہ اسماعیل نے نثر لکھ کر اس فصیل کو بہت حد تک توڑ دیا ہے جو آج کے اکثر ادیبوں کے لاشعور میں نثر کی طرف جانے والے راستے میں ایک کوہِ گراں بن کر کھڑی رہتی ہے۔“
اب رضیہ اسماعیل کے ڈھیر سارے ماہیے ایک ساتھ پڑھنے کے بعدمیرے سامنے رضیہ اسماعیل کی ایک اور جہت روشن ہے۔ان کے ماہیے میں ان کے خیالات،احساسات اور تلخ و شیریں تجربات کا بے ساختہ اظہار ہے۔ایک طرف ان کے ماہیوں میں حمد،نعت،سانحۂکربلا اور تکریمِ صحابہ سے متعلق ماہیے ملتے ہیں تو دوسری طرف انگلینڈ میں مقیم ہونے کے باعث یہاں کے ثقافتی ٹکراؤاور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو عمدگی سے اجاگر کیا گیا ہے۔پہلے تبرک کے طور پر چند دینی ماہیے دیکھئے:
تو باغ کا مالی ہے رب کے احکام ہوئے اک شاخ انجیر کی ہے
تیری رحمت کا آقا آپ کے ہم رشتہ مدینے سے
جگ سارا سوالی ہے بے دام غلام ہوئے صورت زنجیر کی ہے
ہمیں تیرے سہارے ہیں دریا میں سفینہ ہے معراج کی رات آئی
پیاس بجھا دینا ماہِ رمضاں تو جھولیاں بھر لو تم
کوثر کے کنارے ہیں بخشش کا مہینہ ہے رب کی سوغات آئی
جب غم کی گھٹا چھائی پانی کا سوالی ہے اشکوں سے وضو کرکے
پیٹتی سر اپنا نانا نبی، جس کا ماہیے لکھتی ہوں
کربل میں قضا آئی کوثر کا والی ہے میں دل کو لہو کرکے
تو آمنہ جایا ہے دو فاطمہ جائے تھے بڑے دکھ سکھ ہوتے ہیں
بی بی حلیمہ نے تونے محبت سے تیرے پہلو میں
تجھے دودھ پلایا ہے کا ندھوں پہ بٹھائے تھے تیرے یار بھی سوتے ہیں
ان ماہیوں میں مذہبی محبت اور عقیدت کا رنگ غالب ہے لیکن مجھے مذہب سے یہ لگاؤایک طرح سے ثقافتی رنگ میں بھی محسوس ہوا ہے۔انگلینڈ میں رہتے ہوئے جب ہمیں اپنا دیسی معاشرہ اور ماحول یاد آتا ہے تو اس کا مذہبی رنگ اس انداز سے اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔یوں بھی ثقافت کے ارضی رنگوں کے دوش بدوش آسمانی رنگوں کی آمیزش سے ہی کسی تہذیب و ثقافت کی تکمیل ہوتی ہے۔آسمانی رنگ میں مذہبی عقائد سب سے قوی اور موثر ہوتے ہیں۔
ثقافتی ٹکراؤیا ثقافتی بحران کی وہ صورت جو بر صغیر سے تعلق رکھنے والے،یورپ میں مقیم کم و بیش ہر فردکو درپیش ہے،رضیہ اسماعیل نے اسے اپنے ماہیوں میں اتنی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ یہ گویا ہر دل کی آواز بن گئی ہے۔ایسے ماہیوں کی چند مثالوں سے میری بات بہتر طور پر واضح ہو سکے گی۔
کڑوے ہیں سکھ ماہیا کلچر کا رونا ہے سب زخم چھپاتے ہیں
کس کو سنائیں اب آکے ولایت میں رہنے کا یورپ میں
انگلینڈ کے دکھ ماہیا اب کچھ تو کھونا ہے ہم قرض چکاتے ہیں
یو۔کے میں بستے ہیں انگلینڈ کے میلے ہیں ہیریں ہیں نہ رانجھے ہیں
کیسا مقدر ہے جھرمٹ لوگوں کے ہم نے ہوٹل میں
روتے ہیں ،نہ ہنستے ہیں ہم پھر بھی اکیلے ہیں برتن بھی مانجھے ہیں
یورپ میں مقیم بعض دوسرے ماہیانگاروں نے بھی یہاں درپیش مسائل کو عمدگی سے اپنا موضوع بنایا ہے لیکن ایسا انداز کہ جس سے ہم لوگوں کا ثقافتی بحران اور اس مسئلے کی داخلی کیفیات نمایاں ہو سکیں،اس کو رضیہ اسماعیل نے ایسی بے ساختگی سے بیان کیا ہے کہ یہ ان کی انفرادیت بن گئی ہے۔ایسی انفرادیت جس میں پورے اجتماع کی ترجمانی یا عکاسی موجود ہے۔
یورپی زندگی کی بعض نجی اور اجتماعی نوعیت کی ملی جلی چند مثالیں بھی دیکھتے چلیں:
کس دیس میں رہتے ہیں دادا ہے نہ دادی ہے
بچے پیرنٹس کو پکڑ کے ڈیڈی نے
یہاں شٹ اپ کہتے ہیں شادی کرو ا دی ہے
یہاں کون ہمارا ہے کونجوں کی ڈاریں ہیں
سردی دشمن ہے بینیفٹ آفس میں
ہیٹر کا سہارا ہے بڑی لمبی قطاریں ہیں
مغرب میں رہنے والی ایک پاکستانی عورت کی حیثیت سے ماہیا نگاری کرنے والی رضیہ اسماعیل نے ماہیے کے عمومی موضوعات کو بھی چھوا ہے لیکن ان میں دوسروں میں شامل رہنے کے باوجود ان سے ہٹ کر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور انڈیا میں الگ الگ رائے پائی جاتی ہے اور دونوں طرف سے ماہیا نگاروں نے اپنے اپنے ماہیوں میں اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔رضیہ اسماعیل نے بھی کشمیر کے حوالے سے دو ماہیے کہے ہیں اور ان میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔تاہم ان کا ایک ماہیا اتنا عمدہ ہے کہ اس کی داد انڈیا کے ادبی ذوق رکھنے والے بھی دیں گے۔
کشمیر کی وادی ہے
جائے کوئی روکے
یہ جبری شادی ہے
مجھے لگتا ہے کہ یہ ماہیا کہتے وقت بھی رضیہ اسماعیل کے لاشعور میں یورپی کلچر سے ٹکراؤکا عمل جاری تھا۔یہاں بعض والدین نے جس طرح بچوں کی شادیاں جبراً کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجہ میں جو تلخ مسائل پیدا ہوئے،رضیہ کے ہاں کشمیر کی سیاسی صورتحال پر اپنے پاکستانی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لاشعوری طور پر ان کا اظہار ہوا ہے۔تاہم یوں بھی نہیں کہ رضیہ صرف یورپ اور مشرق کے ٹکراؤتک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ان کے ہاں ماہیے کا وہ رنگ بھی نمایاں ہے جو پنجاب کا رنگ کہلاتا ہے۔ان کے ایسے ماہیے دیکھیں:
میں لہر چناب کی ہوں اک لڑکی گاؤں میں اک نہر کنارا ہے
غیرت بھائیوں کی ماہیے لکھتی ہے گاؤں کا ہر ذرہ
بیٹی پنجاب کی ہوں پیپل کی چھاؤں میں مجھے جان سے پیارا ہے
بیلوں کی جوڑی ہے فصلوں کی کٹائی ہے ہاتھوں کی لکیریں ہیں
اس نے شرارت سے ساگ پراٹھے ہیں جوگیا! دیکھ ذرا
میری گاگر توڑی ہے کہیں دودھ ملائی ہے کیسی تحریریں ہیں
عورت کے حقوق کا موضوع رضیہ اسماعیل کا خاص موضوع ہے جو ان کی غزلوں،نظموں سے لے کر طنزیہ مزاحیہ مضامین تک نمایاں ہے۔ان کے ماہیوں میں بھی اس موضوع کو آنا تھا،سو آیا:
عورت کو ستاؤگے یہ دئیے کی باتی ہے عورت کو دغا دو گے
جنم جلی ہے جو قدر کرو اس کی بیوی بنا کر تم
کیا اس کو جلاؤگے دکھ سکھ کی ساتھی ہے چولہے میں جلا دوگے
کمہار کا آوا ہے شبنم کا قطرہ ہے
پکتا رہتا ہے تنہا عورت کو
مِرے دل کا جو لاوا ہے ہر طرف سے خطرہ ہے
رضیہ اسماعیل نے اپنی ماہیانگاری سے ماہیے کی تحریک کو تقویت پہنچائی ہے۔انگلینڈ کے مشاعروں سے لے کر بی بی سی ایشیا کے اردو ادبی پروگراموں تک اردو ماہیا کو ادبی وقار کے ساتھ متعارف کرایا ہے۔اب ان کے ماہیوں کا مجموعہ چھپنے جا رہا ہے تو مجھے دلی خوشی ہو رہی ہے۔
ان کے ماہیے ان کے دل کی کہانی ہیں۔اگرچہ انہوں نے یہ کہا ہے:
یہ دل کی کہانی ہے
کوئی نہیں سنتا
اب خود کو سنانی ہے
لیکن مجھے یقین ہے کہ اس مجموعہ کی اشاعت کے بعد ماہیے کے قارئین اس کہانی کو دلچسپی سے پڑھیں گے،کیونکہ یہ صرف رضیہ اسماعیل کی اپنی ہی نہیں،ہر صاحبِ دل کی کہانی ہے۔
ماہیا ”کتابِ دل “ہی تو ہے۔
بہر حال رضیہ اسماعیل کے اس مجموعے کا دلی خوشی کے ساتھ خیرمقدم کرتا ہوں!
(ماہیوں کے مجموعہ ”پیپل کی چھاؤںمیں“کا پیش لفظ۲۷جنوری ۲۰۰۱ء)