میں گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ اس پر نگاہ پڑی۔ پتلی پتلی تیلیوں سے بنا ہوا پنجرہ اور اس میں موجود چھوٹی سی مینا۔ پنجرہ دروازے کے پاس ہی برآمدے میں لٹکا ہوا تھا۔ میں اس کے قریب رکا۔ تیلیوں کے فرش پر دو پیالیاں رکھی تھیں۔ ایک میں بھگوئی ہوئی دال تھی اور دوسری میں پانی۔ مینا پیالی میں چونچ ڈالے دال ٹونگ رہی تھی۔ آہٹ پا کر اس نے سر اٹھایا اور میری سمت تکنے لگی۔ چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں جن میں معصومیت اور مانوسیت کا عکس تھا۔ میں نے اپنے ہونٹوں کا دائرہ بناتے ہوئے اس کے سر پر پھونک ماری۔ اس کے پروں میں ہوا بھری تو اس کا سر پھول کر بڑا دکھنے لگا۔ میں نے تیلیوں کو آہستگی سے تھپکتے ہوئے اپنے پیار کا اظہار کیا۔
کچھ دنوں سے یہ مینا میرے گھر میں مقیم تھی۔ میں اسے اپنے بیٹے اصغر کی دلبستگی کے لیے خریدلایا تھا۔ لیکن نہیں۔ میں اسے ارادتاً گھر نہیں لایا تھا بلکہ ایک شخص نے زبردستی مجھے سونپ دیا تھا۔ اس روز میں دفتر سے فارغ ہو کر سیدھا بس اسٹاپ پر آیا۔ بہت دیر انتظار کرنے کے بعد بھی بس نہیں آئی تو میں نے ایک پان والے سے استفسار کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی مقام پر کوئی حادثہ پیش آیا تھا۔ مشتعل لوگوں نے بسوں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ احتجاجاً بس والوں نے ہڑتال کر دی تھی۔ اب کیا کروں؟ میں عجیب مخمصے میں پڑ گیا۔ میرا گھر دو ڈھائی میل کے فاصلے پر تھا۔ دفتر کی تکان کے بعد اس قدر طویل فاصلہ پیدل طے کرنا مشکل تھا۔ لیکن بس اسٹاپ پر کھڑے رہنے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ مجبوراً میں نے فیصلہ کیا کہ پیدل ہی آگے بڑھا جائے۔ راستے میں کوئی آٹو رکشا یا دوسری سواری مل ہی جائے گی۔ نصف میل کا سفر طے کرنے کے باوجود کوئی آٹو نظر نہ آیا تو مجھے شک ہوا کہ بس والوں کی حمایت میں شاید وہ بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے ہوں۔ میں سڑک پر متلاشی نگاہیں دوڑاتا ہوا بوجھل قدموں سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ معاً ایک موڑ پر ایک شخص میرے سامنے آ گیا۔ دبلا پتلا مدقوق سا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ایک پنجرہ جھول رہا تھا جس میں ایک مینا سکڑی سمٹی بیٹھی تھی۔
’’یہ مینا خرید لیجئے صاحب۔ میرے بچے دعائیں دیں گے۔‘‘
اس کے لہجے میں عجیب سی لجاجت اور لاچاری تھی۔
میں نے تعجب سے اس کے پژمردہ چہرے اور پر امید آنکھوں کو دیکھا اور آہستگی سے کہا۔
’’نہیں بھئی۔ مجھے نہیں خریدنا ہے۔ میں اس پرندے کا کیا کروں گا۔‘‘
میں قدم بڑھانے کو ہوا تو اس نے پھر التجا کی۔
لے لیجئے نا صاحب! صرف پچاس روپئے میں۔ آپ کے بچے کھیلیں گے۔۔ اور میرے بچوں کو روٹی مل جائے گی۔ کل رات سے بھوکے ہیں۔‘‘
اس نے پنجرہ اٹھا کر میرے چہرے کے سامنے کر دیا۔ مینا مجھے تکنے لگی۔ مجھے لگا کہ وہ اپنی بے زبانی سے اس شخص کی باتوں کی تصدیق کر رہی ہے۔ ناگہاں میری آنکھوں میں اس کے بچوں کی مبہم سی تصویریں ابھر آئیں جو اپنی ماں سے کھانے کی ضد کر رہے تھے اور ماں انہیں تسلیاں دیتی ہوئی خود کو بھی بہلا رہی تھی۔
’’بس بیٹے! تھوڑی دیر اور صبر کر لو۔ تمہارے ابو آتے ہی ہوں گے۔ اللہ کرے کہ کوئی بھلا آدمی مل گیا ہو اور اس نے مینا خرید لی ہو۔ پھر تو وہ آٹا چاول لے کر ہی آئیں گے۔‘‘
غیر ارادی طور پر میرے ہاتھ جیب میں چلے گئے۔ میں نے کچھ روپئے نکالے اور بغیر گنے ہوئے اس کی طرف بڑھا دیئے۔ فرط مسرت سے اس کے چہرے کی جلد کپکپائی۔ اس نے کانپتے ہاتھ سے پچاس کا نوٹ کھینچا اور پنجرہ مجھے پکڑا دیا۔ پنجرے کو ہاتھ میں لے کر میں قدرے تذبذب میں کھڑا رہا اور وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا موڑ میں گم ہو گیا۔
جب میں پنجرہ لیے ہوئے گھر میں داخل ہوا تو میری ماں اور میری بیوی نے مجھے استعجاب سے دیکھا۔
’’یہ کیا اٹھا لائے؟‘‘
بیوی نے استفسار کیا تو میں نے جواب دیا۔
’’مینا ہے۔‘‘
’’وہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں۔ لیکن اس کا کریں گے کیا؟‘‘
اسی اثنا میں میرا چار سالہ بیٹا اصغر دوڑتا ہوا آیا اور گہری دلچسپی اور اشتیاق سے مینا کو دیکھنے لگا۔
’’کرنا کیا ہے؟ پالیں گے۔ اصغر بیٹے کا من بہلے گا۔ کیوں بیٹے۔ اس مینا سے کھیلو گے؟‘‘
’’ہاں ابو! میں اس کے ساتھ کھیلوں گا‘‘
وہ پنجرے کی تیلیوں کے درمیان انگلی ڈال کر مینا کو چھونے کی کوشش کرنے لگا۔
’’نہیں بیٹے۔ بے زبان پرندے کو قید میں نہیں رکھتے۔ گناہ ہوتا ہے۔‘‘
میری ماں بظاہر تو اپنے پوتے سے مخاطب تھی لیکن اس کا روئے سخن میری جانب تھا۔
’’لیکن ماں۔ دیکھئے نا۔ کتنا معصوم پرندہ ہے۔‘‘ میں نے پنجرہ ان کے سامنے رکھ دیا۔
’’کچھ دنوں کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ پھر آزاد کر دیں گے۔‘‘
میری ماں خاموش ہو گئیں۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ پرندہ پالنے کا مجھے قطعی شوق نہ تھا لیکن ایک لمحاتی احساسِ ترحم نے اسے میرے حوالے کر دیا تھا۔ اس طرح وہ ننھی سی مینا میرے گھر کی ایک مکیں ہو گئی۔ سبھی نے اس کے بے ضرر وجود کو قبول کر لیا تھا۔ اصغر تو دن بھر اس سے کھیلتا رہتا۔ اس کے دانے پانی کا خیال رکھتا اور اس سے باتیں کرتا رہتا۔
میں دروازے سے باہر نکلا تو وہی آشنا سے مناظر نگاہوں کے سامنے تھے۔ تنگ اور تعفن زدہ گلیوں کے جال کو کاٹتا ہوا میں چورا ہے پر آیا تو جیسے میری سانسیں اعتدال میں آئیں اور قدرے راحت کا احساس ہوا۔ میرا مکان جس علاقے میں تھا وہاں بڑی گنجان آبادی تھی۔ نچلے متوسط طبقے کے بھانت بھانت کے لوگ بے ترتیب اور بے قاعدہ بنے ہوئے مکانات میں رہائش پذیر تھے۔ سبھی مکان والے اپنے سامنے کے راستے کا زیادہ سے زیادہ حصہ غصب کر چکے تھے جس کی وجہ سے گلیاں تنگ سے تنگ ہوتی گئی تھیں۔ انہیں تنگ گلیوں میں گھروں کی نالیاں بھی نکلی ہوئی تھیں جن میں غلاظتیں بہتی رہتی تھیں۔ ہر مکان کا دروازہ گلی میں ہی کھلتا تھا۔ عورتیں دروازہ کھولتیں اور گھر کا کوڑا کرکٹ انہیں نالیوں میں ڈال دیتیں۔ کبھی کبھی تو یہ کوڑے راہ سے گزرتے کسی شخص کے کپڑوں پر بھی پڑ جاتے۔ بندہ شریف اور بزدل ہوتا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ورنہ ایک جنگ کی شروعات ہو جاتی۔ گلی سے گزرنے والے پانی کے میں پائپ میں سوراخ کر کے قدم قدم پر نلکے لگا لیے گئے تھے جو پانی بھر لینے کے بعد بھی کھلے رہتے اور پانی کی تیز دھار گلیوں میں گرتی رہتی۔ اکثر ننگ دھڑنگ بچے یا نیم برہنہ مرد نلکے کے نیچے نہاتے رہتے۔ کبھی کوئی دبنگ قسم کی عورت ڈھیر سارے کپڑے دھونے بیٹھ جاتی۔ پانی کی نکاسی کا درست انتظام نہ ہونے کے سبب نالیاں ابل جاتیں اور راستوں میں گندہ پانی بھر جاتا۔ لوگوں کو راستہ چلتے وقت پتلون کے پائنچے ہاتھوں سے اٹھائے رکھنے پڑتے۔ اس پر مستزاد کہ بچوں کی فوج ظفر موج انہی گلیوں میں پریڈ کرتی رہتی۔ گھر کے دروازوں پر بیٹھی عورتیں آپس میں فحش مذاق کرتی رہتیں یا بچوں کو تیز آواز میں ڈانٹتی رہتیں۔ اکثر بچوں کے درمیان جھگڑے ہو جاتے اور ان کی حمایت میں عورتیں لڑ پڑتیں۔ دن بھر عجب بیزار کن شور شرابا بپا رہتا جس سے طبیعت گھبرا جاتی۔
مجھے اپنے حلقۂ احباب میں سے کسی کو گھر بلانے میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ دو ایک دفعہ میرے دفتر کے دوچار غیر مسلم ساتھی گھر آئے تھے۔ دوبارہ انہوں نے کان پکڑ لیا تھا۔ اسی سال عید الاضحیٰ سے ہفتے بھر قبل میرے دفتر کا کلیگ اور دوست اروند کمار کسی ضروری کام سے گھر چلا آیا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو میں باہر نکلا۔ اروند کمار ناک پر رو مال رکھے کچھ گھبرایا ہوا سا کھڑا تھا۔ اس نے جلدی جلدی آنے کا مدعا بیان کیا۔ کچھ ضروری کاغذات سونپے اور سرعت سے واپس لوٹ گیا۔ میں شرمندہ اور پشیمان سا دروازے پر کھڑا رہ گیا۔ میں اس کی گھبراہٹ اور جلد بازی کا سبب سمجھ گیا تھا۔ اس محلے کے لوگ کس قدر بے احتیاطی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ دوسروں کے جذبات و احساسات کا ذرا بھی پاس نہیں رکھتے۔ ہر کوئی خود نمائی کی بیماری میں مبتلا تھا۔ ذرا سا زر ہاتھ آیا نہیں کہ زمین چھوڑ کر چلنے لگے۔ سابقہ تمام تنگ دستی اور بدحالی کو فراموش کر جاتے اور ہر کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ عید الاضحیٰ کے موقعے پر یہ منفی جذبہ کچھ زیادہ ہی واضح ہو جاتا تھا۔ ہرچند کہ میں اسی محلے میں پیدا ہوا، یہیں پرورش پائی لیکن میں خود کو یہاں کے ماحول میں کبھی ضم نہیں کر پایا۔ ایک اجنبیت اور بے گانگی کا احساس مجھ پر ہمیشہ حاوی رہا۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا کہ میں کسی عقوبت خانے میں کسی نا کردہ جرم کی سزا کاٹ رہا ہوں۔ مجھے اس علاقے سے بری طرح وحشت ہوتی تھی لیکن نہ جانے کون سی مجبوری کے تحت میں یہاں محبوس تھا۔
دوسرے دن دفتر میں اروند کمار سے ملاقات ہوئی۔ ہم دفتر کے کیبن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تبھی اس نے کہا۔
’’میں سنتا تھا کہ تمہاری قوم بھیڑوں کی مانند جھنڈ بنا کر ایک ہی جگہ رہتی ہے۔ جہاں سو افراد کی گنجائش ہو وہاں ہزاروں لوگ ٹھنسے رہتے ہیں۔ کل میں نے دیکھ بھی لیا۔ مجھے حیرت ہے کہ تمہارے جیسا تعلیم یافتہ اور مہذب شخص وہاں کیسے رہ لیتا ہے۔ وہ علاقہ تمہارے لائق نہیں۔ تم اپنے بچے کا مستقبل تباہ کر ڈالو گے۔‘‘
اس کی باتیں تلخ لیکن صداقت پر مبنی تھیں۔ مجھے خود بھی اس بات کا خوف رہتا تھا۔ بچوں پر ماحول اور صحبت کا اثر پڑتا ہی ہی ہے۔ میں اپنے بچے کو کہاں اور کب تک چھپائے رکھتا۔ کوئی نہ کوئی بندوبست تو کرنا ہی تھا۔ معاً اس نے کہا۔
’’شہر سے ذرا ہٹ کر بائی پاس کے قریب ایک نیا ٹاؤن شپ آباد ہو رہا ہے۔ بے حد پر فضا اور پر سکون مقام ہے۔ منصوبہ بند طریقے سے مکانوں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ بہت سے لوگ آباد بھی ہو گئے ہیں۔ سبھی تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ لوگ ہیں۔ میں بھی وہاں زمین کا ایک پلاٹ خرید چکا ہوں۔ میرے ہی پڑوس میں دو کٹھے کا ایک پلاٹ خالی ہے۔ تم چاہو تو اسے خرید کر اپنی پسند سے مکان بنوا لو۔‘‘
دفتر سے چھٹی کے بعد اس نے وہاں چلنے کے لیے کہا جہاں وہ زمین لے چکا تھا تو میں فوراً تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے اسکوٹر کی پچھلی نشست پر مجھے بٹھایا اور اسکوٹر اسٹارٹ کر کے چل پڑا۔ گھنٹے بھر کی مسافت کے بعد ہم مرکز شہر سے دور مضافات کے ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں ایک نوزائیدہ کالونی کے نقش و نگار واضح ہونے لگے تھے۔ جدید طرز کے بہت سے خوبصورت مکانات تعمیر ہو کر لوگوں کے مسکن بن چکے تھے۔ کچھ زیر تعمیر تھے جن میں راج مزدور لگے تھے۔ دو رویہ مکانوں کے درمیان کشادہ راستے تھے۔ ابھی پختہ نہ تھے لیکن جلد ہی پختہ ہو جانے کے قوی امکانات تھے۔ راستوں کے کنارے برابر فاصلے پر بجلی کے کھمبے نصب تھے جن سے کورڈ تار لٹک رہے تھے۔ اروند نے ایک ایسی جگہ اسکوٹر روکا جس کے سامنے پلاٹنگ کی ہوئی زمینوں کا بڑا رقبہ تھا۔ اس نے سامنے کے پلاٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ پلاٹ میں نے لیا ہے۔‘‘
پھر اس نے پاس والی زمین
دکھائی۔
’’یہ ابھی فروخت نہیں ہوئی ہے۔ تمہارے لیے مناسب رہے گی۔‘‘
مجھے پہلی نگاہ میں ہی وہ علاقہ اور وہ قطعۂ اراضی بے حد پسند آیا۔ ایسے ہی پر سکون اور پر فضا مقام پر سکونت اختیار کرنے کی میری دیرینہ خواہش رہی تھی۔ میں نے فوری طور پر فیصلہ کر لیا کہ مجھے ہر حال میں یہیں مکیں ہونا ہے۔ میں نے اس فیصلے سے اروند کو آگاہ کیا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔
’’تمہارے پڑوس میں آنے سے مجھے بھی خوشی ہو گی۔ پڑوسی اچھا ہو تو دن اچھے گذرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے ہیں۔‘‘
وہاں سے واپسی کے بعد میں نے گھر والوں کو اپنے فیصلے کی اطلاع دی۔ میری بیوی نے بلا تاخیر اس پر صاد کیا۔ وہ خود بھی اس حبس زدہ ماحول سے نالاں تھی۔ لیکن ماں نے متفکر لہجے میں کہا۔‘‘کیا اپنے لوگوں کو چھوڑ کر وہاں آباد ہونا ٹھیک ہو گا۔ غیروں کا علاقہ۔ ہر وقت خدشہ لگا رہے گا۔‘‘
’’آپ خواہ مخواہ فکر و تشویش میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اس پنجرے نما قید خانے سے تو رہائی مل جائے گی۔ کھلا آسمان، فرحت بخش فضا اور پر سکون ماحول۔ کیا آپ جانتی نہیں کہ یہاں کی گندگی اور آلودگی صحت کے لیے کتنی مضر ہے۔ مجھے سب سے زیادہ اصغر کی فکر ہے۔ اسے اس خطرناک ماحول سے نکالنا ہی ہو گا۔‘‘
میں نے حتمی لہجے ان کی باتوں کو رد کیا تو وہ خاموش ہو گئیں۔
ان کے خاموش احتجاج کے باوجود میں نے اس قطعۂ اراضی کا بیعانہ ادا کر دیا۔ جلد ہی رجسٹری
کرانی تھی جس کے لیے مجھے خاص تردد نہیں تھا۔ میرے اکاؤنٹ میں اتنی رقم موجود تھی۔ باقی رہے گھر کی تعمیر کے اخراجات تو کسی بھی سرکاری بینک سے ‘ہاؤس لون ‘ لیا جا سکتا تھا۔ رجسٹری سے قبل میں ماں اور بیوی بچے کو وہاں لے گیا۔ انہیں زمین کا وہ ٹکڑا دکھایا جو جلد ہی ہمارا ہونے والا تھا۔ سبھی کو جگہ پسند آئی تو مجھے بھی اطمینان ہوا۔ بس سے واپسی کے وقت میں نے سوچا کہ قسطوں میں ایک اسکوٹی بھی لے لوں گا۔ دفتر آنے جانے میں سہولت ہو گی۔ بسوں میں دھکے کھاتے کھاتے سارے اعضاء مضمحل ہونے لگے تھے۔ یہ بسیں بھی کتنی واہیات اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ بالکل میرے علاقے کی طرح۔ اندر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں لیکن لوگ بھرتے جا رہے ہیں۔ شور ایسا کہ بس سے اترنے کے بعد بھی دیر تک سماعت میں بپا رہتا ہے۔ اس کے برعکس اسکوٹی کتنی آرام دہ سواری ہے۔ نرم اور سبک رفتار۔ جیسے پانی کی پر سکوں سطح پر کشتی چل رہی ہو۔ حالانکہ یہ خاص لڑکیوں کے لیے بنائی گئی ہے لیکن اب تو پختہ عمر کے سنجیدہ مزاج افراد بھی اسے چلانا پسند کرنے لگے ہیں۔
رجسٹری کا مرحلہ طے پایا تو قرض لینے کا مسئلہ سامنے آیا جسے اروند کمار کے تعاون سے بآسانی حل کر لیا گیا۔ اس کے بعد منظور شدہ نقشے کے مطابق تعمیری کام کا آغاز ہوا۔ اروند کے مکان کی تعمیر بھی شروع ہو چکی تھی۔ دفتر سے فارغ ہوتے ہی ہم دونوں اسکوٹر پر بیٹھ کر وہاں پہنچ جاتے۔ اروند کے والد گوبند جی اپنے مکان کے ساتھ میرے مکان کے کام کی بھی نگرانی کرتے تھے۔ ہم دونوں تعمیری پیش رفت کا معائنہ کرتے۔ گوبند جی سے کچھ مشورے کرتے اور واپس چلے آتے۔ ٹھیکیدار بے حد سرعت سے تشفی بخش کام کر رہا تھا۔ دو ہی مہینے میں دونوں مکان اپنے مکینوں کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
اس دوران میں نے اسکوٹی بھی خرید لی تھی۔ بس کی بھیڑ بھاڑ اور دھکوں سے نجات مل گئی تھی۔ بہت سے ایسے کام جو وقت کی کمی کے باعث رکے ہوئے تھے، آسانی سے ہونے لگے تھے۔
آخر نقل مکانی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ میں اور میری بیوی ایسے قیدیوں کی طرح خوش تھے جن کی سزا کی میعاد پوری ہو چکی ہو لیکن میری ماں تھوڑی فکر مند اور اداس تھیں۔ یہ فطری امر تھا۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ اس علاقے میں گذارا تھا۔ یہاں کے چپے چپے سے ان کی آشنائی تھی۔ اس مکان کے ہر ایک حصے میں ان کا وجود بکھرا ہوا تھا جسے مجتمع کر کے دوسری جگہ لے جانا آسان نہ تھا۔ وہ تو میرا اصرار تھا کہ وہ نیم رضا مند سی ہو گئی تھیں۔
مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس پرانے مکان کا کیا کیا جائے۔ ہماری غیر موجودگی میں اس علاقے کے لوگ کیا اسے صحیح و سالم رہنے دیں گے؟ کہیں یہ دوسرے کے قبضے میں نہ چلا جائے؟ میں نے اسے فروخت کرنے کا مشورہ دیا تو ماں نے سختی سے انکار کر دیا۔ بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ بعد میں کسی معقول اور شریف آدمی کو مکان کرائے پر دے دیا جائے گا۔ میں نے گھر کے سارے سامان کا جائزہ لیا۔ ان میں بہت سے ایسے تھے جو کسی کام کے نہ تھے اور انہیں ڈھو کر لے جانا حماقت تھی۔ میں نے ان بیکار اشیا کو چھوٹے والے کمرے میں بھر دیا۔ دفعتاً میری نگاہ پنجرے میں بند مینا پر پڑی۔ اس مہذب اور شائستہ علاقے میں کسی پرندے کو قید رکھنا یقیناً معیوب سمجھا جاتا۔ اور پھر قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے اس معصوم پرندے کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا اور پنجرہ اتار کر دروازے کے باہر نکل آیا۔ میں نے پنجرے کا پٹ کھول دیا لیکن مینا باہر نکلنے کی بجائے ایک کونے میں سمٹ گئی۔ میں نے پنجرے میں ہاتھ ڈالا اور اسے مٹھی میں بھر کر باہر نکالا۔ وہ بے حد معصوم نگاہوں سے میری سمت دیکھنے لگی۔ میں نے اسے آزادی کا مژدہ سنایا اور ہوا میں ہلکے سے اچھال دیا۔ وہ پروں کو پھڑپھڑا کر سامنے والے دریچے کے چھجے پر بیٹھی۔ پھر وہاں سے اڑی اور اسی گھر کی منڈیر پر بیٹھ گئی۔ میں ایک عجیب سی سرشاری کی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا۔
اچانک۔۔۔۔ بالکل اچانک۔۔۔ جانے کہاں سے منڈیر پر ایک بلی نمودار ہوئی۔ اس نے تیزی سے جھپٹا مارا۔ مینا کو اپنے تیز نوکیلے دانتوں میں دبایا اور منڈیر سے چھت پر کود گئی۔ اضطراری طور پر میرے حلق سے ایک چیخ سی ابھری اور میں ساری جان سے لرز اٹھا۔ پنجرہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑا۔ خالی پنجرہ۔۔ جس میں موجود مینا آزاد ہوتے ہی موت کی گرفت میں آ گئی تھی۔ ایک انجانے خوف سے میرے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں اور سانسیں بے اعتدال ہو گئیں۔
میں ہڑبڑا کر اپنے گھر کے دروازے کے اندر داخل ہوا۔ دروازے کے پٹ بند کر کے کانپتے ہاتھ سے چٹخنی لگائی اور پھر اس سے پشت لگا کر اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کرنے لگا۔۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...