نوٹ: اس مضمون کے کچھ حصے کمزور دل افراد کے لئے مناسب نہیں۔
عرب دنیا میں جذبات کو آگ لگا دینے والا کام مشرقی شام میں 3 جنوری 2015 کی سرد صبح کو ہوا۔ رقہ میں ایک تباہ شدہ عمارت کے پیچھے داعش کی میڈیا ٹیم نے ویڈیو کیمرے اور ایک دھات کا پنجرہ سیٹ کر دیا تھا۔
اس فلم میں کام کرنے والے کم از کم دو درجن ایکسٹرا ایک جیسے ماسک اور یونیفارم پہنے اپنی جگہیں سنبھال چکے تھے۔ پھر اس ویڈیو کے مرکزی کردار کو لایا گیا۔ چھبیس سالہ معاذ ۔۔۔ اردن کی فضائیہ کے لڑاکا پائلٹ اب ایک نارنجی سوٹ میں تھے اور ایک دھندلکے والی صبح میں اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے تھے۔
یہ معاذ الکساسبیہ کے پکڑے جانے کے بعد کی پہلی تصویر تھی۔ نوجوان پائلٹ کا چہرہ سوجا ہوا اور خراش زدہ تھا۔ یہ ان کو پڑنے والی مار کے نشان تھے۔ فلم کے اس سیٹ پر لانے سے پہلے ان کو ایک کیمرہ کے سامنے بٹھا کر ان سے بیان سنوایا گیا۔
“میں فرسٹ لیفٹیننٹ معاذ صافی یوسف الکساسبیہ ہوں۔ اردن کی شاہی فضائیہ کا افسر”۔
ایف 16 کے اس پائلٹ کا تین سال کا تجربہ تھا اور 24 دسمبر کو رقہ میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے آئے تھے۔ ہر کوئی اب داعش کے خلاف متحد ہو گیا تھا۔ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات کی افواج اردن کے ساتھ اس کارروائی میں شامل تھیں۔ معاذ بمباری کے مشن پر تھے جب ان کا طیارہ میزائل کا نشانہ بن گیا۔ جلتے طیارے کو انہیں خیرباد کہنا پڑا اور وہ نیچے دریا میں گر گئے جہاں سے انہیں داعش کے ایک سیاہ داڑھی اور مضبوط جسم والے جنگجو نے گرفتار کر لیا۔ معاذ نے اپنا یہ واقعہ “میں اب مجاہدین کا قیدی ہوں” کے فقرے سے ختم کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت غالباً معاذ کو نہیں معلوم تھا کہ ان کی قسمت کا فیصلہ کیا کیا جا چکا تھا۔ داعش ٹوئٹر پر “اس سوٴر کے ساتھ کیا کیا جائے” کا ٹرینڈ عربی میں چلا کر معاذ کو مارنے کے طریقے پر آراء حاصل کرتا رہا تھا۔ اب فیصلہ لے لیا گیا تھا۔ ان کے انجام کو فلمانے کی تیاری مکمل تھی۔
دریا سے چند سو فُٹ دور دھات کا پنجرہ بنایا گیا تھا۔ داعش کے میڈیا کے عملے نے ٹرائیپوڈ پر کئی زاویوں سے کیمرے سیٹ کئے تھے۔ اس روز یہ سب تیار تھا۔ یہ ایک پروفیشنل پروڈکشن تھی۔ زرقاوی کی لوگوں کے گلے کاٹنے والی ویڈیوز سے بہت بہتر کوالٹی کی۔ اس میں اعلیٰ معیار کے کمپیوٹر گرافک تھے۔ اس کے جاری ہونے والی فائنل ورژن میں اردن کے شاہ عبداللہ کو تقاریر کرتے اور امریکی صدر اوبامہ سے مصافحہ کرتے دکھایا گیا۔ ایف 16 کے طیارے کے دو ٹکڑے ہونے کی گرافک چلی جو اس کے عنوان میں بدل گئی۔ “مومنین کے دلوں کی ٹھنڈک” اس ویڈیو کا عنوان تھا۔
اس میں شام کی تباہ شدہ عمارتیں دکھائی گئیں۔ پائلٹ کو بچوں اور دوسرے مرنے والوں کی لاشوں کے پس منظر میں دکھایا گیا۔ ایک کیمرہ معاذ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ معاذ آہستہ آہستہ نقاب پوش لوگوں کے ساتھ پنجرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سردی میں ان کی سانس سے بنتے بخارات نظر آ رہے تھے۔
اگلے منظر میں وہ پنجرے کے اندر تھے، سر دعا کے لئے جھکا ہوا۔ ان کا لباس اب ایندھن میں تر تھا۔ ایک نقاب پوش ایک مشعل جلا کر بڑھا اور پاوڈر کو آگ لگا دی۔ شعلہ پنجرے کی طرف جا رہا تھا۔ اگلے چند ہی سیکنڈ میں معاذ شعلوں کی لپیٹ میں تھے۔ اچھلتے کودتے اور چیخیں مارتے پائلٹ کے پاس راہِ فرار نہیں تھی۔ آخر میں وہ اپنے بازو چہرے کی طرف لے آتے ہیں اور گھٹنے کے بل گر جاتے ہیں۔ پھر ان کا سیاہ جسم گر پڑتا ہے۔ ایک بلڈوزر اس پنجرے کو کنکریٹ اور مٹی تلے کچل دیتا ہے۔
اگلے منظر میں کیمرہ زوم ہوتا ہے اور پائلٹ کا جل کر سیاہ ہو جانے والا ہاتھ اس ملبے سے نظر آ رہا ہے۔ اپنے اختتام میں یہ ویڈیو دوسرے اردنی پائلٹوں کے نام اور تصاویر دکھاتی ہے اور ساتھ انعام کا اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر پائلٹ کو پکڑنے والے کو یا مارنے والے کو سونے کے سو سکے دئے جائیں گے۔ بولنے والے کی آواز آتی ہے کہ ایسا کرنے والے کو نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی انعام ملے گا اور وہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہولناک کام صبح کو ہی فلما لیا گیا تھا۔ اسکی ویڈیو کو ایڈٹ کرتے اور پبلک کے لئے تیار کرتے کچھ ہفتے لگے۔ اس دوران داعش اردن کی حکومت سے اس کی رہائی کے بدلے ساجدہ الرشادی کی رہائی کی بات چیت کرتا رہا۔ وہ ناکام خودکش حملہ آور جسے زرقاوی نے ریڈیسن ہوٹل پر خودکش حملہ کرنے بھیجا تھا اور وہ اردن کی جیل میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داعش نے دلخراش مناظر کے ذریعے دنیا کو متوجہ کرنے کا کام پہلی مرتبہ نہیں کیا تھا۔ لوگوں کے گلے کاٹنے سے لے کر ان کو مصلوب کرنے تک قتل کرنے کے نت نئے طریقے تلاش کرنا اس کا دستخط رہا تھا لیکن اس بار عرب دنیا سے شدید ردِ عمل آیا۔ “آگ کا عذاب صرف اللہ دے سکتا ہے۔ اس فعل کا کسی بھی طرح دفاع نہیں کیا جا سکتا”۔ سعودی سکالر سلمان العودہ نے ٹویٹ کیا۔ سعودی مفتی اعظم نے کہا کہ “نہ صرف داعش مسلمان نہیں، بلکہ مسلمانوں کے دشمن ہیں”۔
اس کا ردِ عمل جہادی سکالر المقدیسی سے آیا۔ زرقاوی کے استاد اور القاعدہ کے رہنما اس سے پہلے زرقاوی سے اپنا تعلق عام شیعہ آبادی کے قتل کی وجہ سے توڑ چکے تھے۔ اس سے پہلے برطانوی ایڈ ورکر ہیننگ کا سر کاٹنے کی ویڈیو پر کڑی تنقید کر چکے تھے۔ اردنی پائلٹ کو چھڑوانے کے لئے داعش کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ ویڈیو آ گئی۔ “وہ مجھ سے قسم کھا کر جھوٹ بولتے رہے۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ پائلٹ کو پہلے ہی قتل کر چکے ہیں۔ یہ صرف قصائی ہیں۔ کیا یہ اسلام ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر میں اردن کے پائلٹ کے پکڑے جانے کے ایک ہفتے بعد صدر نے قاہرہ میں جامعہ الازہر میں تقریر میں کہا، “ہمیں اپنے آپ کو اور آج کی صورتحال کو ذرا ٹھنڈے دل سے دیکھنا ہے۔ یہ کونسا نظریہ ہے جو پوری قوم کو قتل اور تباہی کا نشان بنا رہا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جن سے بات کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں کچھ اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔ داعش اور القاعدہ علامتیں نہیں، ہمارا بحران ہیں۔ اس کا علاج ہم مسلمانوں نے ہی کرنا ہے”۔ انہوں نے جامعہ الازہر کے امام احمد الطیب کو مخاطب کر کے کہا، “فکری قیادت آپ کی ذمہ داری ہے”۔
جب داعش کی ویڈیو سامنے آئی تو جامعہ الازہر کے امام کا کہنا تھا کہ نہ صرف یہ اسلامی نہیں بلکہ یہ شیطانی عمل ہے۔ اس کے بعد الازہر نے انتہاپسندوں کے خلاف اپنا کریک ڈاون شروع کیا۔ وہ جو تشدد کرنے والوں سے ہمدردی رکھتے تھے، ان کی برطرفیاں شروع ہوئیں۔
داعش اس کے بعد بھی مقبول رہی۔ ہزاروں نوجوان اس کی طرف آتے رہے۔ امریکی جیٹ طیارے اور عرب ممالک کی جیلیں اس آگ کے لئے ایندھن کا کام کرتے رہے۔ ایسے لوگ بھی رہے جو پائلٹ کو آگ لگانے کا دفاع بھی کرتے رہے۔ “اصل قصوروار تو کوئی اور ہے”،”“یہ پائلٹ یہاں کیا کر رہا تھا” جیسے سوال اٹھاتے رہے۔ “ہمیں ایسا کرنے کی وجہ سمجھی چاہیے” جیسے کھوکھلے دفاع بھی کئے جاتے رہے۔
ایک شخص جو اب بغیر کسی اگر، مگر کے واضح فیصلہ لے چکا تھا، وہ اردن کے بادشاہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ عبداللہ اس وقت امریکہ میں تھے۔ جب وطن واپس پہنچے تو بتا کر آئے تھے کہ اب وہ جنگ لڑنے جا رہے ہیں۔ “میرے پاس اسلحہ ناکافی ہے، لیکن جو کچھ بھی ہے وہ اب استعمال نہ کیا تو اس کو بچا کر کیا کرنا ہے”۔ یہ انہوں نے امریکی انتظامیہ کو کہا۔ پیغام اردنی فوج کو دیا جا چکا تھا۔ ان کا طیارہ لینڈ ہونے سے پہلے ایک کے بعد اگلا مشن داعش کو نشانہ بنانے اڑنے لگا تھا۔ تربیتی کیمپ، بیرک، ہتھیاروں کے ڈپو نشانے پر تھے۔ ان ریلوں میں ایک دن میں داعش کے پچاس جنگجو نشانہ بنے۔
اس روز، جب شاہ عبداللہ سوٹ میں ملبوس اور سر پر کفایہ باندھے جب سیکورٹی کونسل سے بات چیت کر رہے تھے تو ٹی وی کیمرہ اس کو لائیو دکھا رہا تھا۔ “یہ جنگ ہمارا دین، ہماری اقدار اور انسانیت بچانے کی ہے۔ ہم ان مجرموں پر کاری وار کریں گے”۔
اس سے باہر ایک غیرمعمولی نظارہ تھا۔ ہزاروں اردنی اپنے بادشاہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے سڑکوں پر جمع تھے۔ نوجوانوں کا ہجوم، جو شام تک موم بتیاں جلائے اور پلے کارڈ پکڑے کھڑا رہا۔ عمان کی مساجد میں بھی اور چرچ میں بھی معاذ کے لئے دعا مانگی جا رہی تھی۔
ایک چھوٹے ملک کو اپنی دو سرحدوں پر دہشت گرد فوج کا سامنا تھا۔ اردن اس کے خلاف متحد تھا۔ “ہم اسلام کی اصل اقدار کو بچانے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ یہ صرف ابتدا ہے۔ سب دیکھ لیں گہ کہ اردنی کون ہیں”۔ یہ بیان اردن کے فوجی سربراہ کی طرف سے آیا۔
بمباری کا اگلا ریڈ تیار تھا، جب شاہ عبداللہ کرک شہر میں الکساسبیہ خاندان کے پاس پہنچے۔ بڑا مجمع ان کے استقبال کے لئے آیا ہوا تھا۔ وہ پائلٹ کے گھر گئے۔ معاذ کے بزرگ والد کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر انہیں باہر لے آئے۔ دونوں نے سرخ اور سفید کفایہ پہنا تھا، جو اس علاقے کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ ان کے ساتھ چلتے ہوئے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ اس وقت، بمباری کا مشن مکمل کر کے آنے والے طیارے پائلٹ کے گھر کے اوپر ایک فارمیشن بنا کر پہنچ چکے تھے۔ اس شہر کا ایک چکر کاٹ کر یہ طیارے موافق ائیر بیس پر اتر گئے، جہاں پر چھ ممالک کے طیارے کھڑے تھے۔
داعش اس وقت اپنے عروج پر تھی۔ اس کے کنٹرول میں رقبہ اردن کے پورے ملک سے کہیں زیادہ تھا۔ تیل کی بڑی آمدن تھی۔ دنیا بھر میں اس کے مداح تھے۔ ان کی قائم کردہ خلافت کا مقابلہ آسان نہیں تھا۔ 2015 ۔۔۔ داعش کے زوال کا آغاز تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر معاذ الکساسبیہ کی بیوہ انوار الطرانویة کی ہے۔ جب انہوں نے صرف خبر سنی کہ ان کے شوہر کے ساتھ کیا انجام ہوا ہے تو بے ہوش ہو کر گر پڑیں تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے آخری وقت کی ویڈیو نہیں دیکھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...