شبنم میں بھیگی ہوا اس پگھلتی چاندنی کی تاروں بھری رات کو اور بھی سحرانگیز کررہی تھی
انس کا دل کیا اس رات کو یہیں روک لے
مٹھی میں کہیں قید کرلے
مگر ظاہر ہے بظاہر ایسا ممکن نہ تھا
” تم خوش ہو اچھی لڑکی….”
انس نے وہ سوال پوچھا جو مہرماہ کی ذات کے حوالے سے اسے سب سے ذیادہ مقدم تھا
جسے ہم چاہتے ہیں اس کی خوشی کو بھی ہم مقدم مانگتے اور جانتے ہیں …..
” خوشی کا پتہ نہیں….مگر میں مطمئن ہوں …مجھے لگتا ہے میرے دل کو قرار آگیا ہے…ٹھر سا گیا ہے…انس یہ سوال آپ مجھ سے کچھ عرصے بعد پوچھیں گے تو لازمی میں آپکو آپکا من پسند جواب دوں گی….”
مہرماہ نے صاف گوئی سے کہا تھا
ابھی وقت لگنا تھا
پھول کھلنے میں
خوشبو پھیلنے میں….
ابھی تو اس نے زندگی میں پہلی بار
….پہلی بار اپنے لئے خود سے فیصلہ کیا تھا
اپنی ذات کو خوشی سے ہمکنار کیا تھا
اسکی خوشی ہی بہت تھی
اور انس اسکا درست انتخاب تھا….اسکا مان…اسکا درد گر….اسکا ہمدرد
اور
ابھی کچھ دن لگیں گے
کہ وہ محبوب شوہر بھی ثابت ہوگا ….
مہرماہ کو یقین تھا
” میری خوشی ذیادہ اس میں ہے مہرماہ کہ میں تمہارے دل کی بات جان سکوں….میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ تمہیں میرے لئے اپنا دل مارنا پڑے….”
انس نے اسکا سپید ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا
"میں….اتنی خوش نصیب ہوں….”
مہرماہ کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں
” انس ….آپ ….آپ بہت اچھے ہیں….”
وہ اتنا ہی کہہ سکی
” ایک اچھی سی لڑکی کا ہم سفر ہوں….تو اچھا تو ہوں گا ہی….”
انس نے کہتے ہوئے اسکے ہاتھ پہ اپنے نام کا پہلا حروف انگلی سے کھینچا تھا
” یہ کیا کررہے ہیں….انس…”
مہرماہ نے ہاتھ کھینچا
” اپنا نام تمہارے ہاتھ کی لکیروں میں سجا رہا ہوں…..”
انس نے کہا
"انس ….میں آپکے نصیب میں ہوں….اور نصیب لکیروں سے مشروط نہیں ہوتا….مجھے اللّه نے آپکا ہم سفر بنایا ہے….کیا آپکو یقین نہیں آرہا…”
مہرماہ نے پوچھا
” خود سے بھی ذیادہ یقین ہے مہرماہ….لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم کبھی اپنے آپکو اکیلا نہ محسوس کرو….میرا احساس تمہیں تحفظ دے….”
انس نے کہا
"انس….جب آپ محرم نہیں تھے تب بھی آپ نے میری حفاظت کی مجھے اپنا مان دیا….اب تو آپ میرے محرم ہیں….میری حفاظت تو اب آپ ہمیشہ کریں گے…”
مہرماہ نے پراعتماد لہجے میں کہا تھا
"خدا کرے تیرے حسن کو زوال نہ ہو
میں چاہتا ہوں تجھے یونہی عمر بھر دیکھوں
کوئی طلب نہ ہو دل میں تیری طلب کے سوا
یہی بہت ہے دعا کا یہی اثر دیکھوں ”
انس کے ان لفظوں میں نہ جانے کیا کیا تھا
ایک دعا…..
ایک امید…..
ایک چاہ….
کیا آج مہرماہ سیال….سے ذیادہ روئے زمین پہ اور کوئی خوش نصیب تھا بھلا…؟؟؟؟
_____________________________________
” لو جی….سارے شہر کو آگ لگا کے یہ پنچھی یہاں چھپے بیٹھے ہیں…..”
نیہا نے اچانک ہی چھاپہ مارا تھا مہرماہ فورا سیدھی ہوئی تھی جبکہ انس ریلکس سا بیٹھا تھا
” کیوں بھئی قیامت آگئی نیہا بی بی…”
انس نے استفسار کیا
” واہ…بھائی واہ…پورے شہر پہ قیامت لا کے اب قیامت کا پوچھتے ہو….قیامت ہی کرتے ہو….”
نیہا نے تھیکے لہجے میں کہا
” تم اس وقت کیا کررہی ہو….”
انس نے پوچھا
” یہ سوال تو میں بھی آپ دونوں سے کرسکتی ہوں….یقینا تہجد تو پڑھ نہیں رہے ہوں گے…”
نیہا نے اسے گھورا
” بھئی ہمیں اس طرح بیٹھنے کیلئے کسی کی پرمیشن کی ضرورت نہیں ہے….”
انس نے مزے سے کہا تھا
” ہاں ….ہاں چھپ چھپا کے نکاح کرکے بیٹھ گئے ہو….ذرا جو شرم ہو….آخر کو لحاظ بھی کوئی چیز ہوتی ہے…..”
نیہا کو انس کا انداز دیکھ کے غصہ آیا تھا
” اوہ جنگلی بلی….تمہیں کس نے بتا دیا..”
انس حیران ہوا
نیہا کو معلوم ہوا تو مطلب واقعی پورے شہر کو معلوم ہوا
” وہ آپ کی نہ ہونے والیں ساس ….صبوحی خالہ نے بتایا ….”
نیہا نے کہا
مہرماہ چونک گئی….اس کا کیا مطلب تھا
” نہ ہونے والی ساس…مطلب….”
” ارے…کچھ نہیں…یہ بس خالہ کی خواہش تھی…..”
انس نے بتایا
” اوہ… تبھی میں انہیں پسند نہ تھی…”
مہرماہ نے سوچا
” اچھا یہ سب چھوڑو مجھے یہ بتاؤ آخر ہوا کیا تھا کہ تم نکاح کر بیٹھے…..”
نیہا انکے پاس ہی کین کی کرسی پہ جم کے بیٹھ گئی تھی
مطلب وہ ٹلنے والی نہ تھی….
انس نے گہری سانس لے کے اسے بتانا شروع کیا تھا
ساری بات سن کے نیہا پہ ہنسی کا دورا پڑ گیا تھا
وہ ہنستے ہنستے بے حال ہوگئی تھی
انس اور مہرماہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے
” نیہا….کیا ہوگیا…ہے…پاگل ہوگئی ہو.”
مہرماہ نے پوچھا
” اف بھائی تم نے کیا سچوئشن کریٹ کی…حد ہے…اور وہ میر ہالار….اف…وہ ایک بار پھر کنوارہ رہ گیا….اوہ مائی گاڈ….اس شخص کے نصیب میں کیا شادی نہیں ہے؟؟؟؟؟…..”
نیہا کی ہنسی بے قابو ہوگئی تھی
” نیہا…..”
انس نے تنبیہ کی
"سوری بھائی….بٹ آپ خود دیکھیں….بیچارہ میر ہالار چہ چہ چہ…..”
نیہا نے افسوس کیا پھر بولی
” بھائی…وہ اتنی آسانی سے چپ نہیں بیٹھے گا…کچھ نہ کچھ تو وہ دادا پوتا ضرور پلان کریں گے…..”
مہرماہ کا دل جیسے رکا….جس بات کا اسے ڈر تھا وہ ڈر نیہا اپنی زبان پہ لے آئی تھی
"نو پرابلم….اب وہ کچھ نہیں کرسکتے….میں ہینڈل کرلوں گا….”
انس نے سنجیدگی سے کہا تھا
اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کہ انکی طرف سے کوئی نہ کوئی ایکشن لیا جائے گا ….
” ہاں بھائی…..تم ٹھرے فوجی تمہیں کیا غم….”
نیہا نے سر جھٹکا
” میں فوجی بعد میں ہوں اس سے پہلے ایک انسان ہوں….اور ایک انسان میں اتنی اہلیت ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے اسٹینڈ لے سکے….”
انس مضبوط لہجے میں بولا تھا
” کیا کہنے ہیں….اسکواڈرن لیڈر انس سفیر کے….وہ کیا کہتے ہیں تم ائیر فورس والوں کو….یس شاہین…..پہلی بار کسی شاہین کو دیکھا ہے جو شیر کے منہ سے اسکا نوالہ چھین کے لے آیا ……”
نیہا نے سر دھنا
” نیہا سوچ سمجھ کے بولا کرو….اتنی بڑی ہوگئی ہو…..”
انس نے خفیف سی ناگواری سے کہا تھا لیکن اسکا لہجہ نرم ہی ہوتا تھا اس لئے نیہا اسکی سن بھی لیتی تھی
” کیا عجیب بات ہے کہ تم نے مہرماہ کو ایک نوالے سے تشبیہ دی ….جو ایک چھین کے دوسرا اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے…..مہرماہ جیتی جاگتی انسان جسے میں نے اسکی رضا سے اپنا ہم سفر بنایا بنا کسی جبر کے…..”
انس نے وضاحت کی تھی
” اوہو….بھائی صبوحی خالہ ٹھیک ہی کہتیں ہیں…..کہ آپ مہرماہ کے پیچھے پورے دیوانے ہیں…..”
نیہا نے شگوفہ چھوڑا
” یہ تمہیں صبوحی خالہ اتنی یاد کیوں رہتیں ہیں….نیہا….کہیں پیر وغیرہ تو نہیں مان لیا….”
انس نے شرارتی لہجے میں کہا
” توبہ کرو….بھائی…میں تو چلی… تم لوگ کرو جو کررہے تھے….”
نیہا اٹھ کھڑی ہوئی تھی
ہوا ویسے ہی اور سرد ہو چلی تھی
مہرماہ کو تو عادت تھی ان سرد ہواؤں کی….اور رہا انس تو وہ باسی ہی ان سرد فضاؤں کا تھا
” مہرماہ….اب تمہیں آرام کرنا چاہئیے”
انس نے تفکر سے کہا تھا
” بس بہت دن ہوگئے تھے…میں یہ سب مس کررہی تھی….”
مہرماہ نے بتایا
” بعد میں دیکھتی رہنا….اب چلو جا کے آرام کرو….یہیں ہو تم بھی اور یہ چیزیں بھی…”
انس نے اسے ہاتھ پکڑ کے اٹھاتے ہوئے کہا
” انس….آپ کہاں جارہے ہیں.. ”
مہرماہ کو اچانک یاد آیا اسپتال میں انس نے یہی کہا تھا
” میں کہیں نہیں…. ”
انس نے کہا
” تو پھر وہ اسپتال میں کیا کہہ رہے تھے. ….”
مہرماہ نے استفسار کیا
” اوہ بیوی….چوبیس گھنٹے نہیں ہوئے تمہیں بیوی بنے ہوئے اور تفتیش شروع ….”
انس نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہیں بتانا تو مت بتائیں….”
مہرماہ روٹھنے لگی تھی
” ارے تمہیں نہیں بتاؤں گا تو کسے بتاؤں گا….بھئی تمہارے دادا ٹھرے زمانے بھر کے اکھڑ انہیں صرف میڈیا نام کا جن ہی کنٹرول کرسکا تھا اور انہیں میں اب کیا بتاتا کہ یہ سب اچانک کیوں ہورہا ہے اور اسپتال میں تو اسے فوجی زبان میں ہم کور اسٹوری کہتے ہیں…..”
انس نے مزے سے کہا
” پر یہ تو جھوٹ ہوا نا…..”
مہرماہ نے یاد دلایا
” وہ کیا ہے نا اچھی لڑکی….محبت اور جنگ میں جو کچھ ہو وہ جائز ہوتا ہے…..اور تم جیسی اچھی لڑکی کیلئے تو ایسے سات جھوٹ معاف…..”
انس کا اطمینان قابل دید تھا
” حد ہے….. ”
مہرماہ نے سر جھکا کے اپنی مسکراہٹ ضبط کی
” شب بخیر…..”
مہرماہ نے کہا
” شب بخیر…..اچھی لڑکی….”
انس کی کرنجی آنکھوں میں ایک جہان آباد تھا محبت کا
صرف اور صرف اسکے لئے
اور انس اسے اسکی محبت ایک اعزاز کی طرح دینا چاہتا تھا…..
ایک مان کے ساتھ
_____________________________________
” کیا…..تم پاگل ہوگئے ہو میر ہالار.
..”
میر برفت کا پارہ جھٹ آسمان کو پہنچا تھا
” دادا….آرام سے میری بات پہ غور کریں….”
ہالار نے سنجیدگی سے کہا تھا
” اس میں غور کرنے کے لائق ہے کیا….وہ کل کا لڑکا….ہماری ناک کے نیچے سے اس لڑکی کو نکال کے لے گیا….اور تم کہتے ہو کہ ہم اسے عزت دیں…”
میر برفت کو پاگل لگا تھا
” دادا….اس میں حرج ہی کیا ہے….یہ مہرماہ کا حق ہے….اگر آپکو واقعی اس سے محبت ہے تو آپکو اس کا یہ فرض ادا کرنا ہوگا….”
ہالار نے کہا
” میر ہالار جاذب…..تمہاری غیرت کہاں مرگئی ہے….وہ تمہاری منگیتر لے اڑا اور اب تم انکا ولیمہ کھانا چاہتے ہو … ہوا کیا ہے….”
میر برفت چڑے
” دادا….کوئی رشتہ نہیں تھا میرا اس سے…جس رشتے میں کسی ایک فریق کی مرضی نہ ہو وہ رشتہ کبھی بھی قائم نہیں ہوسکتا…..مہرماہ راضی نہیں تھی….اور اسکی رضا کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا تھا….”
ہالار نے انہیں بتایا تھا اک انجانا سا دکھ تھا
آگاہی کا پچھتاوا تھا
” یہ لڑکیوں کی رضا کون پوچھتا ہے….ہماری فیملی میں کبھی ایسا نہیں ہوتا وہی ہوتا ہے جو ہم کرتے ہیں….لڑکیاں وہی کرتیں ہیں….”
میر برفت نے اسے یاد دلایا تھا
” دادا…تبھی ہماری فیملی میں لڑکیاں نہ ہونے کے برابر ہیں….بیٹیاں رحمت ہوتیں ہیں دادا اور رحمتوں کا مان رکھا جاتا انکا مان توڑ کے ناشکری نہیں کی جاتی…..ہوسکے تو اس بارے میں سوچئیے گا جو مہرماہ نے کہا تھا کہ اگر ہمارے ہاں بیٹیاں نہیں تو کہیں خدا ہم سے ناراض تو نہیں….؟؟؟؟؟”
ہالار انہیں کہہ کے چلا گیا تھا
میر برفت اپنی جگہ سن بیٹھے رہ گئے تھے
_____________________________________
"واٹ….تم کیا کہہ رہے ہو ہالار….”
پروڈیوسر صاحب بوکھلا کے بولے تھے ہالار نے بات ہی ایسی کی تھی
” اٹس ٹائم ٹو لیو…..میں ریڈیو چھوڑ رہا ہوں….”
ہالار نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تھی
” مگر کیوں….تم اتنے سالوں سے اس فیلڈ میں ہے اتنے لوگ تمہیں جانتے ہیں….ایک نام ہے تمہارا….کیسے برداشت کریں گے تمہارے فین….”
امجد صاحب بولے
” وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجاتا ہے….میں امریکہ جا رہا ہوں فار ریسرچ….اور وہیں سیٹل رہوں گا….ہر سفر کا ایک وقت ہوتا ہے…اسکے مکمل ہونے کا…میرا یہ سفر مکمل ہوچکا ہے اٹس ٹائم فار نیو ڈسٹینشن….”
ہالار کے چہرے پہ پھیکی سی مسکان تھی
"میں واقعی نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ اچانک سے کیسے تم یہ سب چھوڑ رہے ہو….تمہیں اور تمہاری آواز کو میں نے یہاں پھلتے پھولتے دیکھا ہے….صدا کاری کیلئے تمہارا جنون دیکھا ہے….اور اب اچانک سے رئیلی میں بہت شاکڈ ہوں….”
امجد صاحب واقعی شاکڈ تھے
انکے چینل کی اچھی ریٹنگ میں ایک بڑا ہاتھ میر ہالار کی آواز کا بھی تھا
” میں نے کہا نا یہ سفر مکمل ہوا آپ مجھے گڈ وشز کے ساتھ گڈ بائے کریں….”
ہالار نے مسکرا کے کہا تھا
یہ اور بات دل بہت خالی ہوگیا تھا
اسکا اب دل ہی نہیں کرتا تھا ریڈیو کیلئے ….ایک دنیا اسکی آواز کی دیوانی تھی اور اسکے پراسرار انداز کی….مگر اس دیوانی مہرماہ کے جانے کے بعد ہالار خود کہیں کھو گیا تھا
نہ جانے کیا ہوگیا تھا…..
ایک چیز تو طے تھی….
اسکے سحر سے بچنے کیلئے مہرماہ نے چھوڑ دیا ہوگا اسے سننا
” آخری شو کرو گے….”
” آف کورس میں ساری فارمیلٹیز پوری کر کے جاؤں گا…..”
ہالار نے یقین دلایا تھا
” تو تم واقعی چلے جاؤگے…..”
امجد صاحب نے تصدیق چاہی
” آف کورس مجھے ریسرچ ورک کیلئے جانا ہی ہوگا …..”
وہ یہاں اب نہیں رہ سکتا تھا
_____________________________________
” عالیہ….تمہارے میاں نے کیا کیا یہ….”
صبوحی بیگم نے پوچھا
” کیا کیا….”
عالیہ بیگم نے الٹا ان ہی سے پوچھا
” ارے ایسے کیسے کردیا ان دونوں کا نکاح کیا موت آگئی تھی ایسی بھی….”
صبوحی چڑ گئیں تھیں
” انہیں جو مناسب لگا انہوں نے کیا….آپ ناشتہ کریں … ٹھنڈا ہورہا ہے….” .عالیہ نے کہا
” ارے کیسا ناشتہ….ادھر میری بچی کا رو رو کے برا حال ہے اور میں یہاں ناشتے کروں…..”
صبوحی بیگم پھٹ پڑیں تھیں
” کیوں …..کیا ہوا ماوی کو….”
عالیہ چونکیں
” ارے ہونا کیا ہے….میری بچی بے چاری وہ تو اس آس میں ماری گئی کہ خالہ ہی اسکی ماں بنے گی پرائے گھر کی بہو کے بجائے اپنی چھایا میں رکھے گی….مگر عالیہ تمہاری تو اپنے گھر میں نہ چلی تم کیا فیصلہ لو گی…..”
صبوحی بیگم نے انہیں پمپ کرنا چاہا
” آپا….حد ہے میں نے کبھی آپ سے ایسا کچھ کہا….اور مہرماہ اور انس کو ہم ہمیشہ سے سوچتے آئے ہیں…..میں نے تو آپ سے کبھی نہیں کہا کہ مجھے اسے بہو بنانا ہے….اور ایک بات بار بار دہرانا چھوڑ دیں آپا….میرے بیٹے اور میاں نے جو بھی کیا مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ میں بھی یہی چاہتی تھی…..”
عالیہ بیگم نے ناگواری سے بڑی بہن کو جواب دیا تھا
اپنی بہن سے وہ اچھی طرح واقف تھیں
اس لئے صاف صاف بات کی تھی
"ہنہ …..تمہاری مرضی…. اس مہرماہ کی تو ایسی کی تیسی وہ حال کروں گا کہ یاد رکھے گی….”
صبوحی نے کڑھتے ہوئے چائے کا گھونٹ بھرا تھا
_____________________________________
” یہ کیا کرتے پھر رہے ہیں آپ لوگ….مجھے بنا بتائے بغیر….”
مونا بیگم نے اچانک ہی شہر آ کے چھاپا مارا تھا
” کیا ہوا اب…..کونسی قیامت آگئی….”
میر جاذب نے پوچھا
"ارے قیامت ہی آنی باقی رہ گئی تھی ….کیا سمجھ رکھا ہے میرے بچے کو کبھی ایک سے نکاح کرانے کا سوچتے ہیں تو کبھی اس چڑیل کی بیٹی سے….میرا بیٹا تو پس کے رہ گیا ہے….”
مونا نے پتھر پھوڑے تھے
” یہ سب تمہارے بیٹے کی مرضی سے ہورہا تھا….اور تم شکر کرو.کہ اسکا نکاح کسی ایک سے بھی نہیں ہوا…..”
میر جاذب نے انکی غلط فہمی دور کی تھی
” اماں جان ….آپ کب آئیں… ”
ہالار اندر آیا تو انہیں دیکھ کے بولا
” بس آج ہی….میرا بچہ چلو میرے ساتھ میں اس بار کسی اچھی سی لڑکی سے تمہاری شادی کراہی دیتی ہوں…..”
مونا جوش سے بولیں تھیں
” اچھی لڑکی…..وہ تو بس ایک ہی تھی مہرماہ…انس سفیر کی اچھی لڑکی….”
میر ہالار کو وہ بے طرح یاد آئی تھی
اک میٹھی کسک کی صورت
” میں فی الحال ریسرچ کیلئے جا رہا ہوں….میرا کوئی ارادہ نہیں اب شادی کا…..”
ہالار نے انہیں اپنا پلان بتایا تھا
” کہاں…..اور یوں اچانک…..” میر جاذب نے پوچھا
"اچانک نہیں کافی وقت سے سوچ رہا تھا….ایک اچھی جاب بھی مل رہی ہے…اور ریسرچ کا وینیو بھی ایفیکٹو ہے…..سو اب جانا ہے….”
ہالار نے کنفرم کردیا تھا
کہ اسے جانا ہے
"میں چلتا ہوں بہت کام ہیں… ” ہالار چل دیا تھا
” اسے روکنا مت مونا…..جانے دو….یہی اس کے لئے بہتر ہے….یہاں رہا تو نہ جانے کب اس کے اندر کا روایتی مرد جاگ جائے اور سب تباہ کردے…..”
میر جاذب نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بولنے سے منع کیا تھا
اور اندر چل دئیے تھے
مونا بیگم الجھی کھڑی رہ گئیں تھیں….
یہ انکے پیچھے ہوا کیا تھا
_____________________________________
” اماں….گھر میں ڈھولکی رکھ لیں….” نیہا نے انکے کندھے سے لٹک کے بڑے لاڈ سے پوچھا تھا
” کیوں….تیرے باپ کی شادی ہے….”
عالیہ بیگم نے کڑے تیوروں سے پوچھا
"ہیں….اماں مطلب آپ اتنے کھلے دل کی ہیں ابا کی سیکنڈ میرج کی ڈھولکی رکھوائیں گی… ”
نیہا نے فورا انکی بات پکڑی تھی
ابھی کل ہی تو سفیر صاحب اور عالیہ مہرماہ اور انس کے ولیمے کا کہہ رہے تھے
عالیہ بیگم گڑبڑا گئیں تھیں….یہ نیہا کہاں سے پکڑتی تھی
حد ہے
مہرماہ دھیرے سے ہنسی تھی
” لو بی بی تم بھی ہنس لو ….بوڑھی ممانی پہ…”_
عالیہ بیگم کو کچھ اور نہ سوجھا تو مہرماہ پہ گرم ہوگئیں
"ارے آپ تو اتنی ینگ سی ہیں… بوڑھے ہوں آپکے دشمن….ابھی میں آپکو کلر لگاتی ہوں اور پھر لائٹ سی اسکن پالش پھر دیکھئے گا آپ کتنی فریش دکھتی ہیں…. ”
اگر ہوتی وہ پرانی مہرماہ تو فورا دبک جاتی مگر اب جب سے اسے اپنی ذات کا شعور ہوا تھا…..وہ اعتماد سے سب باتیں سنبھالنے لگی تھی
"مطلب….مانتی ہو کہ میں بوڑھی ہوگئ ہوں. ….” عالیہ تشویش سے بولیں تھیں
نیہا کی ہنسی کا فوارہ فورا چھوٹا تھا
"اف اماں حد ہے…..”
"تم تو رکو شیطان کی نانی….”
عالیہ نے چپل اٹھائی تھی تب ہی ملازمہ اندر آئی تھی
” وہ جی مہرماہ بی بی کے دادا آئیں ہیں…..”
ملازمہ نے بتایا
” کیا….”
عالیہ کے ہاتھ سے چپل چھوٹ کے نیچے گری تھی
” میر برفت اور یہاں…..”
” اس وقت تو گھر میں کوئی مرد بھی نہیں.. …”
"دادا…. کیوں آئے ہیں…”
وہ تینوں نفوس اپنی اپنی جگہ سن کھڑے تھے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو
صرف پنکھا چلنے کی آواز آرہی تھی
اور باہر پیلی ذرد منحوس دھوپ کا تھال شہر قائد پہ الٹتا ہی جا رہا تھا
خلش اور خوشی کے درمیان
کیوں زندگی رکی ہے درمیان
مٹنے ہی تھے فاصلے میرے
پہنچ کے لگا ہے درمیان
کیوں زندگی رکی ہے درمیان…..!!!!!!
"اب کیا ہوگا ….؟؟؟؟”
کہ عفریت نے مہرماہ کے وجود میں اپنے پنجے گاڑ لیے تھے
میر برفت کی پہلے خاموشی اور اب اس طرح یہ خاموش آمد …..مہرماہ کا دل دھک سے رہ گیا تھا
” میں دیکھتی ہوں…..”
نیہا نے ہی ہمت کی تھی وہ جی کڑا کے بولی تھی
"نہیں تم نہیں میں دیکھتی ہوں جا کے….تم اپنے ابا کو فون ملاؤ اور انہیں سب بتاؤ…..*
عالیہ نے کہا
” اچھا…..”
نیہا نے سیل فون اٹھا لیا تھا
” چلو مہرماہ تم میرے ساتھ چلو…..”
عالیہ سر جھٹکتے ہوئے بولیں تھیں
” میں……”
مہرماہ حیرت سے بولی تھی
"ہاں جاؤ ماہ….اور ڈرو مت….” نیہا نے اسکی ہمت بڑھائی تھی اور خود بھی آگے بڑھ گئی تھی
” خیر تو ہے میر صاحب…..آپ یوں اچانک…”
عالیہ نے پوچھا
"ہماری پوتی تمہارے گھر ہے عالیہ….اس سے ملنے آئے ہیں ہم…..”
میر برفت کا لہجہ سپاٹ سا تھا
” آپکی پوتی اب ہماری بہو بھی ہے میر صاحب….”
عالیہ نے یاد دلایا تھا
” جانتے ہیں….”
میر برفت اسی سپاٹ سے انداز میں بولے تھے
” مہرماہ ہم تمہیں لینے آئیں ہیں…..چلو ہمارے ساتھ….”
میر برفت براہراست اس سے مخاطب ہوئے تھے
” نہیں….میں نہیں جاؤں گی….”
مہرماہ نے نفی میں جواب دیا
” مہرماہ کو آپ زبردستی نہیں لے جاسکتے یہ ایک عاقل اور بالغ لڑکی ہے اور شادی شدہ بھی….آپکی ذرا سی زبردستی بالکل بھی مناسب نہیں ہوگی…..”
نیہا نے وارن کیا
” تم سے کس نے کہا ہم کوئی زبردستی کرنا چاہتے ہیں……مہرماہ کا نکاح ہوا ہے ابھی رخصت یہ ہمارے گھر سے ہوگی اس کیلئے اسے ہمارے ساتھ چلنا ہوگا…..”
میر برفت نے اطمینان سے کہا تھا
مہرماہ نے چونک کے انکا چہرہ دیکھا تھا
” یہ سچ مچ میر برفت تھے….!!!”
یہ پتھر کو جونک کیسے لگی تھی
یا پھر کوئی نئی سازش تھی
مہرماہ اندازہ کرہی نہ پائی
ایک بات تو طے تھی لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے میں وہ زیرو تھی….
” کوئی نئی سازش یا چالاکی….میر صاحب…” نیہا نے صاف کہا تھا بنا کسی ڈر کے
"مہرماہ یہاں آؤ تم سے کچھ بات کرنی ہے…..آپ لوگ کچھ دیر کیلئے مجھے اور اسے اکیلا چھوڑ دیں…..”
میر برفت نے نیہا کی بات نظر انداز کی تھی
عالیہ نے گھور کے اپنی ڈھیٹ اولاد کو دیکھا تھا …..اور اسے باہر آنے کا اشارہ کرکے چل دیں تھیں
” اماں…..کیا ایسے کیسے اسے اکیلا چھوڑ دوں….پتہ نہیں وہ بڑے میاں اسے کیا پٹی پڑھائیں گے…..”
نیہا چڑی تھی
* دودھ پیتی بچی نہیں ہے وہ اچھی خاصی سمجھ دار ہے…. "_
عالیہ نے ناگواری سے کہا
” جی بہت سمجھ دار ہے….”
نیہا نے کھینچھ کھینچھ کے لفظ کہے تھے
مہرماہ سے وہ اچھے سے واقف تھی
_____________________________________
” مہرماہ…. ناراض ہو…”
میر برفت نے پوچھا
” نہیں….کبھی نہیں….” ماہ نے انکار کیا
"ہو بھی تو تمہارا حق ہے یہ…..کیا اپنے دادا کو ایک موقع نہیں دوگی….کہ وہ اپنی بچی کا حق ادا کرسکیں….خدا نے جو رحمت مجھے دی اسکا حق ادا کرسکوں…..”
میر برفت کے لہجے میں ایسا گداز تھا کہ مہرماہ کا دل کٹ گیا تھا
” اپنے دادا کو ایک موقع دو…..یہ میرا تم سے وعدہ ہے کہ تمہاری مرضی کے حساب سے سب ہوگا….”
میر برفت نے یقین دیا تھا
"واقعی…..”_
مہرماہ نے سر اٹھایا
” ہاں….مہرماہ میر برفت جان چکا ہے ….کہ بیٹیاں بہت حق رکھتیں ہیں ہم پہ…..”
انکا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا
” میں چلوں گی آپکے ساتھ….”
مہرماہ نے کہا تھا
” تھینکس….مجھے معلوم تھا کہ تم نہ کر ہی نہیں سکتیں…..”
میر برفت مسکرائے تھے
مہرماہ محبت تھی اور اسے صرف محبت سے ہی حاصل کیا جاسکتا تھا
"واٹ…..تم پھر اپنے سو کالڈ داداکے ساتھ جارہی ہو….اس بار تو وہ تمہیں قبرستان تک پہنچا ہی دیں گے….”
نیہا اسکے سر پہ کھڑی ہو کے چیخی تھی
” آہستہ بولو ….نیہا میں بہری نہیں ہوں….*
مہرماہ بولی تھی
” تم بہری بھی ہو اور اندھی بھی….ایک جگہ سے دس مرتبہ ڈسی جاؤگی مگر باز نہیں آؤ گی…..”
نیہا نے غصے سے کہا تھا
” کچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہے….”
مہرماہ نے اسے تسلی دی تھی
” ہوں….سب ٹھیک ہے….بھائی کو پتہ لگا نہ تو پھر دیکھنا…..”
نیہا نے دھمکی دی
” ان سے پوچھ کے ہی جا رہی ہوں.,..”
مہرماہ نے اطمینان سے کہا تھا
سفیر صاحب گھر آئے تھے تو اسے بتا چکے تھے
* اوہ تو بنو جی چلیں میکے وہ بھی سیاں جی کی اجازت پہ…..واہ بھئی واہ….*
نیہا نے تالی بجائی
مہرماہ مسکراکے پیکنگ کرتی گئی تھی
اچھی لڑکی کے اچھے دن آگئے تھے
_____________________________________
” کبھی فرصت ملے تو سوچئیے گا ضرور…..کہ اگر اللّه نے آپکو بیٹیاں نہیں دیں تو کہیں وہ آپ سے ناراض تو نہیں…..”
سیانے کہتے ہیں لفظوں کی مار سب سے بھاری ہوتی ہے…..یہی میر برفت کے ساتھ ہوا تھا پہلے مہرماہ اور پھر میر جاذب کے الفاظ نے انکا سارا اکھڑپن سارا کلف کہیں دور کردیا تھا
” کیا واقعی اللّه ان سے ناراض تھا….؟؟؟؟
ہاں کیوں کہ انہوں نے قدر نہیں کی تھی اور ضروری نہیں کہ بیٹی وہی ہو جس کی ولدیت آپکے نام ہو ….بیٹی تو بہو بھی تو ہوتی ہے نا
اور انہوں نے کیا کیا تھا
انہیں سمیعہ یاد آئی تھی جسے ایک کالی رات میں انہوں نے اپنی زندگیوں سے دور کردیا تھا
اور پھر مہرماہ…. تقدیر نے انہیں کتنے برس دور رکھا تھا
صحیح کیا تھا
جن کی قدر نہ ہو انکا کھونا ہی بہتر ہوتا ہے
میر برفت نے ان کھلونوں کو دیکھتے ہوئے سوچا جو انہوں نے تب سے مہرماہ کیلئے لے کے رکھے تھے جب سے انہیں اسکا پتہ چلا تھا
رنگ برنگے بینڈز
دھانی رنگوں کی چمچماتی چوڑیاں
اور انہوں نے تب کیا کیا جب وہ انہیں ملی تھی
مگر اب اور نہیں…..
میر برفت نے سوچا تھا
اتنے برس انہوں نے یہ سب کیا تھا
اب وہ کفارا ادا کرنا چاہتے تھے
_____________________________________
” اوہ بہنا…..ہمیشہ خوش رہنا
کبھی دکھ نہ سہنا
آئی ….جنج تیری آئی
بجے گی شہنائی ….
ڈڈ ڈیں….ڈڈ ڈیں
ثمر نے مہرماہ کو دیکھتے ہی گانا شروع کردیا تھا
مہرماہ ہلکا سا مسکرائی تھی ثمر جہاں بھی اسے دیکھتا گانا شروع کردیتا تھا
” بس کردیں ثمر…..”
” ارے ابھی تو ہم شروع ہوئے ہیں ابھی تو پٹاری پہ اور بھی بہت کچھ ہے…..”
ثمر نے کشن سنبھالتے ہوئے کہا
” آئے ہو تم میری زندگی میں بہار بن کے
میرے دل میں یونہی رہنا ….تم
پیار پیار بن کے…..”
” اف ثمر…..کیا مسئلہ ہے اتنے کام پڑے ہیں اور تمہاری مسخریاں نہیں ختم ہورہیں…..چلو ان کارڈز پہ نام لکھو…..” عائشہ نے اسے لتاڑا
” ارے….اماں قسم سے اتنے غلط ٹائم پہ انٹری دی ….مجھے چیک تو کرنے دیں دلہن کے تاثرات….اور یہ کارڈ کا تکلف کیوں….اپنے ہی تو ہیں….”
ثمر ان سے پین لیتے ہوئے بولا تھا
” ہر بات پہ بحث شرط ہے….اتنا دماغ تم لڑکی ڈھونڈنے پہ لگا لو تو آدھے مسئلے حل ہوجائیں…..”
عائشہ تنگ آکے بولیں تھیں
پتہ نہیں یہ لڑکے شادیاں کیوں نہیں کررہے تھے
” ایک منٹ….اماں لڑکی کیلئے دماغ نہیں دل لگانا پڑتا ہے….اور ان لڑکیوں کے آنے سے مسئلے بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے …..کیا سمجھیں…. "_
ثمر افسوس سے بولا تھا
” تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا….” عائشہ جھلا کے بولیں تھیں
” اوپر سے ہالار بھی امریکہ جا رہا ہے….سب چھوڑ چھاڑ کے…”
مہرماہ چونکی تھی
پھر سر دوبارہ جھکا لیا تھا ضروی نہیں جس کہانی کا ہم حصہ ہوں اسکا عنوان بھی ہم ہی ہوں…..وہ اسکا نہیں تھا تو اسکا مسئلہ بھی نہیں تھا ….مہرماہ سمجھ گئی تھی
تبھی ہالار اندر داخل ہوا تھا
” خیریت یاد کیا آپ نے ….” ہالار نے ان سے پوچھا تھا
پھر ٹھٹک کے رک گیا تھا
مہرماہ سیال لوٹ آئی تھی
پھر سے جانے کیلئے
” یہاں اتنے کام پڑیں ہیں اور تم جارہے ہو منہ چھپا کے”
ثمر نے جھاڑا
جو مرضی کہو ….ہالار نے سر جھٹکا
” کیا اسے ایسے نہیں دیکھ سکتے….” ثمر نے سرگوشی کی تھی
"نہیں…..” ہالار نے آخری بار اس لڑکی پہ نگاہ ڈالی تھی جو خاموشی بن کہے بن سنے اسکے دل میں جگہ بنا چکی تھی
میں واقعی میں اسے کسے کا ہوتے نہیں دیکھ سکتا……
_____________________________________
” انس……”
وہ ماوی تھی
” تم اتنی رات کو میرے کمرے میں….” انس چونکا
"آپکی کل شادی ہے……”
ماوی نے پوچھا
* یہی پوچھنے آئی ہو تو جواب تمہیں معلوم ہے…..”
انس بولا
"انس….. مت کریں یہ شادی پلیز….”
ماوی نے منت کی تھی
” ماوی….میری بات سنو….غور سے….یہ سب ازل سے طے تھا….تم میرا نصیب نہیں ہو….خالہ امی کی باتوں میں آکے تم نے اپنے آپکو ڈی گریڈ کیا ہے….ورنہ تم اچھی لڑکی ہو….یہ ایک جذباتی فیز ہے گزر جائے گا….”
"انس….”
ماوی نے کچھ کہنا چاہا
"ماوی ہر چیز ہمارے لئے نہیں ہوتی….لیکن ہم انہیں اپنا سمجھتے ہیں ….لیکن کیا ایسے وہ ہماری ہوجاتی ہیں….کبھی نہیں….تم کیا چاہتی ہو میں مہرماہ کو دل میں بساتے ہوئے تمہیں گھر میں بسا لیتے….روح کا رشتہ مہرماہ سے بناتا اپنی محبتوں اور وفاؤں میں اسے شریک کرتا….اور تمہیں صرف ایک بوجھ سمجھتا…..کیا ایسی منافقت بھری زندگی تم گزار سکتی ہو….ایسا تین گھنٹے کی فلم میں ہوسکتا ہے اصل زندگی کے چوبیس گھنٹے میں کبھی نہیں ہوسکتا…..بی پریکٹیکل ماوی…. ”
انس نے اسے سمجھایا تھا
ماوی سمجھ بھی گئی تھی
مگر دل کو کون سمجھتا جو دیوانہ ہو رہا تھا
تو بالاخر ماوی کا دل ہمیشہ کیلئے ٹوٹ گیا تھا
_____________________________________
آسمان کے تارے تمہاری مانگ میں سجائے ہیں
یا گلوں کی مہک تمہیں مہکائے ہے
آنکھیں جیسے ہزار چاہت کے دیپ جلائے ہے
اور
اسم محبت جیسے پھیلتا ہی جائے
انس کے قدم تھمے تھے مہرماہ کے سجے سنورے وجود کو دیکھ کے
جس پہ ٹوٹ کے روپ آیا تھا
سرخ جوڑے میں اپنا پور پور سجائے وہ اسکے سنگ بابل کی دہلیز پار کرنے کو تیار تھی اس شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والے نیک دل شخص کے ساتھ
جس کی ہم سفری باعث انعام تھی
جو سفید روایتی گھوڑوں کی بگھی پہ بیٹھ کے اسے لینے آیا تھا
اس کرنجی آنکھوں والے شہزادے کی خوشی آج دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی
ماوی نے نظریں جھکا لی تھی
وہ ان دونوں کو ابھی ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتی تھی
مگر کسی اور نے ان دونوں کو ساتھ دیکھا تھا
وہ میر ہالار تھا
گو کہ وہ بھی انہیں نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اس نے دیکھا تھا
” یہی تمہارا اصل امتحان ہے…..”
اسکے دماغ میں میر جاذب کے الفاظ تھے
اور اتنا تو طے تھا کہ میر ہالار ہر امتحان میں کامیاب لازمی ہوتا تھا
” جس حساب سے آپ اسٹیج کو بار بار دیکھ رہیں ہیں…..یوں لگتا ہے کہ آپکو شادی کاخاصا شوق ہے…..”
ثمر کی شامت ہی آئی تھی جو ماوی کو چھیڑ بیٹھا تھا
"میرا تو چھوڑ یں مجھے لگتا ہے آپکو ازل سے گھورنے کی بیماری ہے جو دو سے چار کرلیں آنکھیں……”
ماوی نے تڑ سے اسکے گلاسز پہ چوٹ کی تھی
” ہاں اچھی چیزیں بھی تو تبھی ملتیں ہیں نا…”
ثمر نے ڈھٹائی سے کہا تھا
” لیکن پتہ ہےآپ ان چیزوں کو پھر دوبارہ نہیں دیکھ سکتے …..پتہ ہے کیوں….کیونکہ آپ اس قابل نہیں رہتے….” ماوی نے چبا چبا کے کہا تھا اور پاؤں پٹخ کے چلی گئی تھی
ثمر کی طبیعت صحیح صاف ہوئی تھی
_____________________________________
” مجھے لگتا تھا کہ آپ ایسا ویسا قدم اٹھائیں گے…..مگر نہیں آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا….یہ آپکی بڑائی ہے…..”_
نیہا نے ہالار سے کہا تھا جو الگ تھلگ سا بھی سب میں نمایاں دکھ رہا تھا
” میں کیوں ایسا کچھ کرتا…..وہ تو بس ایک سحر تھا ٹوٹ گیا….مجھے کبھی اس سے کوئی مطلب نہیں رہا….بس دادا ایسا چاہتے تھے….” ہالار نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا
اپنی محبت کا اشتہار وہ مر کے بھی نہیں لگانا چاہتا تھا….کسی کے سامنے بھی نہیں…. اور نیہا کے سامنے تو بالکل بھی نہیں وہ اس شخص کی بہن تھی جو اب مہرماہ کے سر کا سائیں تھا…..اور میر ہالار کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا
اس نے بس مہرماہ کی سترہ برس کی محبت….سحر….جو بھی تھا مگر وہ انکا حق ادا کرنا چاہتا تھا
"واقعی…..”
نیہا نے سر اٹھا کے اسے دیکھا
جس کی آنکھیں چغلی کھا رہی تھیں اسکی بات کی
نیہا سر جھٹک کے رہ گئی تھی ..!!!
” آپ جا رہے ہیں….” یونہی پوچھا تھا
” جانا تو پڑے گا ہی…..”
ہالار نے کہا
” واپس لوٹیں گے….”
” شاید….” ہالار کا لہجہ مبہم سا تھا
فی الحال تقدیر نے سب چھپا.رکھا تھا
_____________________________________
میروں کی بیٹی کی شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی تھی کہ جس نے آنکھ بھر کے دیکھا اس نے دوبارہ دیکھنے کی چاہ کی تھی
مہرماہ کو انہوں نے بہت شان سے رخصت کیا تھا
مہرماہ کا وجود سرخ زرتار جوڑ میں کانپ رہا تھا
"ریلکس ہوجاؤ…..اچھی لڑکی…”
انس نے اپنے مضبوط ہاتھوں کا تحفظ اسے دیا تھا
مہرماہ کو کچھ ڈھارس سی ہوئی تھی
عالیہ کی خوشی آج دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اور سفیر صاحب بہن کے آگے سرخرو ٹھرے تھے
مہرماہ کو نیہا اور دوسری لڑکیوں نے انس کے کمرے میں پہنچایا تھا
یہ وہی کمرہ تھا جانا پہچانا ….مگر مہرماہ کی حیثیت بدل چکی تھی
مہرماہ نے گہری سانس لے کے پھولوں کی بھینی بھینی مہک اندر اتاری تھی
انس اندر داخل ہوا
مہر کا جھکا ہوا سر مزید نیچے ہوا تھا
انس نیوی بلیو شیروانی میں جیسے کسی ریاست کا راجا لگ رہا تھا
اور وہ راجا ہی تو تھا جس نے محبت کی سلطنت اپنے نام کی تھی
” اوہوں….جیتنے والوں کے سر فخر سے اٹھتے ہیں….اچھی لڑکی….جھکتے نہیں…”
"خوش آمدید…..اچھی لڑکی…..”
انس نے اسکا گھونگھٹ الٹتے ہوئے کہا تھا
گو کہ اب اسکا فیشن نہ تھا مگر عالیہ اور عائشہ دونوں نے مل کے مہرماہ پہ یہ لاگو کردیا تھا
مہرماہ سے پلکیں بھی نہ اٹھائیں گئیں
"کچھ لوگوں کے سامنے سر تو کیا دل بھی جھک جایا کرتے ہیں…..”
مہرماہ نے دھیرے سے کہا تھا.
” سچ…..”
انس نے ہولے سے اسکی نم ہتھیلی چھوئی تھی جس پہ اسکے نام کی مہندی سجی تھی
” جی…..”
مہرماہ نے اقرار کیا
"مہرماہ….مگر میں کبھی نہیں چاہوں گا یہ سر کبھی میرے آگے جھکے…..”
انس نے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے کہا تھا
مہرماہ محجوب سی ہو کے دوبارہ سر جھکا گئی تھی
” دیکھنے دو اچھی لڑکی….آخر میرے لئے ہی تو اتنا سنوری ہو….اور دلہا ہی نہ دیکھے….یہ تو ظلم ہوا…..”
انس نے دوبارہ اسکا چہرہ اوپر کیا تھا
” انس….پلیز…..”
مہرماہ نے سیاہ آنکھیں بمشکل اٹھائیں تھیں .جو ہیروں کی مانند دمک رہیں تھیں
سیاہ آنکھیں…..اور اس پہ یہ جوبن
انس نے بے اختیار اسکی پیشانی پہ ٹکا ٹیکا چھو کے ماشاء اللّه کہا تھا
” مہرماہ…..”
انس نے پکارا
” جی….”
مہرماہ بولی تھی
” محرم بنو تو بتائیں تم کو
وہ محبت کی اصل شروعات
وہ محبت کا نہ ختم ہونے والا اختتام ”
انس سفیر نے اسکے کان کا آویزا چھوتے ہوئے سرگوشی کی تھی
مہرماہ محجوب سی ہوگئی تھی دل شکر گزاری سے لبریز ہوگیا تھا
اللّه نے اسے سب سے بہترین ہم سفر دیا تھا
وہ شکر گزار تھی رب کی
انس سفیر ہی اب اسکا محرم تھا
اور
ہمدرد اور درد گر تو وہ صدیوں سے تھا اس کا
_____________________________________
سات سال بعد……
” ماما…..بابا کا پلین ٹی وی پہ آرہا ہے ….بابا اس پلین میں ہیں….”
ننھا معاذ جھٹ مہرماہ کے پاس دوڑا آیا تھا
” اچھا…..اپکو کیسے پتا….”
مہرماہ نے اس سے پوچھا
جس کی کرنجیں آنکھیں بالکل باپ کی طرح تھیں
اینکر نے پاپا کا نام لیا تھا
” اوکے….اب آپ جاؤ ٹی وی دیکھو داداو کے ساتھ ماما کام کررہیں ہیں….”
مہرماہ نے اسے ہدایت دی تھی
” کیا کررہیں ہیں آپ میں ہیلپ کروں….”
انس کی طرح وہ بھی اسکا خیال کرنے کی پوری کوشش کرتا تھا
مہرماہ ہنس دی تھی ….مدد اس نے خاک کرنی تھی الٹا کام ہی بگاڑنا تھا
” بھئی شام میں آپکی پھپھو آئیں گی تو ڈنر کی تیاری کرنی ہے…..”
مہرماہ پلٹ کے بولی تھی
"رئیلی ماما…..ہالار انکل بھی ہوں گے ساتھ…”
معاذ نے پوچھا
” یس….”
مہرماہ نے جواب دیا
” ہی از رئیلی سوئیٹ…..” معاذ نے کہا تھا
وہ ہالار کو بہت پسند کرتا تھا …..جو بہت کئیرنگ اور رسپانسبل تھا اس کی پھپھو کے لئے
” اچھا اب جاؤ…..ماما کام کریں گی….” مہرماہ نے اسے باہر بھیجتے ہوئے کہا تھا
سات سالوں میں اتنا کچھ بدل گیا تھا…..وہ لوگ اسلام آباد شفٹ ہوچکے تھے انس کا پرموشن ہوچکا تھا وہ اور بزی تھا مگر مہرماہ سے اسکی محبت آج بھی پہلی ترجیح تھی اور معاذ کے بعد تو زندگی اور بھی مصروف ہوگئی تھی……مہر ماہ بہت خوش تھی اسے سب ملا تھا مان….چاہ…عزت….محبت….اور انس جیسا بے تحاشہ خیال رکھنے والا ساتھی
اور میر ہالار نے نیہا کو اپنایا تھا میر جاذب کی خواہش پہ نیہا انکے خاندان کیلئے ایک بہترین انتخاب تھی ایک کامیاب انجینئر…… خاص طور سے مونا بیگم کیلئے تو وہ بالکل موزوں تھی
ہالار ویسے ہی ماں کی باتوں پہ کان نہیں دھرتا تھا اور نیہا خود چکنا گڑھا تھی
_____________________________________
” کیا ہوا علیزے کیوں رو رہی ہو…..” ہالار نے پوچھا
” انکل…..فاران نے میری کار لی لی…..وہ کہہ رہا تھا لڑکیاں کار سے نہیں کھیلتیں…..” علیزے سسک کے بولی تھی
” کہاں ہے فاران….فاران ….یہاں آؤ….” ہالار نے تیز آواز میں کہا تھا
” کیا ہوا بھائی…..اب کیا کردیا اس نے….” ماوی کچن سے آئی تھی اس لئے پوچھا
” مما….فاران نے میری کار لے لی….واپس نہیں کررہا….”
علیزے نے ماں سے بھی کہا تھا
” حد ہے….علیزے تو کیا ہوا…بھائی صاحب چھوڑیں اسے ….روز یہی کرتی ہے ”
ماوی نے ہالار سے کہا تھا
” جی بابا….” فاران فورا آیا تھا
” آپ نے علیزے کی کار لی….” ہالار نے پوچھا
” جی….” فاران نے کہا
” کیوں….” باپ نے کڑے تیوروں سے پوچھا تھا
ماوی نے کچھ کہنا چاہا تھا نیہا نے ہاتھ بڑھا کے اسے چپ کرادیا تھا……وہ باپ بیٹے کے بیچ میں کبھی نہیں بولتی تھی
” دادو….نے کہا تھا لڑکیاں کار سے نہیں کھیلتیں…”
فاران نے بتایا
” اوہ….فاران علیزے آپکی بہن ہے…..اور بہنوں کو ہمیشہ اسپیس دیتے ہیں….اگر آپ نہیں دے گا تو کون دے گا….ناؤ بی نائس….اسے کار ریٹرن کرو….یاد رکھو بہن کو خوش رکھو گے تو ہی خوش رہو گے…..” ہالار نے نصیحت کی تھی
” جی بابا….” فاران نے تابعداری سے کہا تھا
باپ اور ماں دونوں سے وہ اچھی طرح واقف تھا …..جو بہت بڑی بات ہلکے پھلکے لہجے میں کہہ کے چلے جاتے تھے
” ماوی….شام کی تیاری کرلی….بھائی کی طرف جانا ہے…..”
نیہا نے پوچھا
” جی بس ثمر کا انتظار ہے…..وہ کسی سیمنار کیلئے لاہور گئے ہیں….دوپہر میں آجائیں گے….” ماوی نے بتایا تھا
ثمر نے اسے پسند کیا تھا….ماوی کو اس پہ ناز تھا….اس جیسی لڑکی کو ثمر جیسا ٹھنڈے مزاج کا معاملہ فہم ہی ڈیل کرتا تھا اور بہ خوبی کرتا تھا
ماوی نے اپنی محبت کھوئی تھی مگر کسی اور کی محبت گم نہیں ہونے دی تھی بلکہ اپنی محبت کو ثمر کی محبت میں اتار دیا تھا……
یہی رمز تھی محبت کی ….ایک محبت دوسری محبت میں مدغم ہوجاتی ہے ….یہ محبت کی صفت ہے
_____________________________________
” محبت کی رمز تو دیکھو مہرماہ…..
بن کہے
بن سنے
سب جان لیتی ہے
اور سارے سبق پڑھا دیتی ہے
وہ سبق جو ایک عرصہ بابا نے مجھے پڑھانے کی کوشش کی تھی….لیکن میں سیکھ نہ سکا
مگر تمہارے بچھڑنے کے دکھ نے…..تمہارے غم کے موسم میں سیکھ گیا میں…..میں نہیں چاہتا کل کو میر فاران بھی کھو دے جو میں نے ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی کھویا ہے اس لئے میں اس کی تربیت ایسی کررہا ہوں کہ وہ
بن کہے…..بن سنے….سب جان سکے….سب سن سکے…..
میر ہالار نے اپنے دل کے ایک گوشے میں یہ سب جیسے چھپایا تھا جس پہ مہرماہ کی حکومت تھی
ختم شد