JEAN BAPTIST PIGALLE (یاں بیپ تست پیگال) پیرس کا مشہور مجسمہ ساز تھا۔ اِس نے کئی قابلِ ذِکر مجسمے بنائے۔جن LOUIS XV (لوئی پانزدھم ۱۵ ) کا مجسمہ( جو کہ BOUCHARDON EDMES بوشاخداں اَیدمے نے شروع کیا تھا) کو مکمل کیا۔ اِس کے علاوہ ST. SULPICE (سینٹ سْلپس) میں دَو شیل J.B.PIGALLE (جے بی پیگال) نے تخلیق کیئے۔ جبکہ فرانس کے مشہور فلسفی VOLTAIRE (وولتیغ ) کا مجسمہ بھی اُسے تخلیق کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
پیرس میں پیگال کو و ُہی حیثیت حاصل ہے جو لندن میں WEST END (وَیسٹ اینڈ) کے علاقے SOHO (سوہو) کو حاصل ہے۔ اِس علاقے کی سب سے قابلِ ذِکر چیز MOULIN ROUGE (مولاں غوج، یعنی لال پن چکی)۔ یہ بالکل BOULEVARD DE CLICHY (بولواغد دی کلِشی ) پے BLANCHE METRO (بلانش میٹرو)کی بغل میں وَاقع ہے۔بالکل ہالینڈ کی بڑی بڑی پن چکیوں کے اَنداز کی بنائی گئی ہے۔اِس کا رَنگ اِس کے نام کی مناسبت سے لال ہے۔
MOULIN ROUGE (مولاں غوج ) ۱۸۸۵ میں تعمیر کی گئی۔ ۱۹۰۰ میں اِسے ناچ گھر میں تبدیل کردِیا گیا۔ کسی دَور میں پیگال ، آرٹ و ادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اَور یہاں اُونچے دَرجے کے ریستوران اَور ناچ گھر ہوا کرتے تھے۔آج کل پیگال PEEP SHOW (پیپ شوز یعنی اِیک چھوٹے سے سوراخ سے آپ عورتوں کو کپڑے اُتارتے ہوئے دِیکھتے ہیں اَور آخر میں ننگ دَھڑنگ ہوجاتی ہیں تو شو ختم ہوجاتا ہے) SEX SHOPS (سیکس شاپ، یعنی، جہاں ،مادر زاد ننگی فلمیں اَور جنس،یعنی سیکس کے متعلق تمام لوازمات ملتے ہیں۔ جن سے آپ عارضی لمس لے سکتے ہیں) اَور CABARETS (کیبرے، یعنی اِیک ناچ کی قسم جس میں نیم عریاں و بر ہنہ و عریاں عورتیں اَپنے ناچ سے لوگوںکو لبھاتی ہیں)کی وَجہ سے مشہور ہے۔ اَگر آپ BOULEVARD DE CLICHY (بولواغ دی کلِشی )پے چلتے چلیں جائیں تو آپ کو سڑک کے دَونوں کناروں پے PEEP SHOWS , SEX SHOPS (پیپ شوز، سیکس شاپز) کے باہر کھڑے لڑکیاں لڑکے آواز لگاتے دِکھائی دِیں گے۔ "ALLEZ MONSIEUR, DIX FRANCS, ALLEZ MONSIEUR DIX FRANCS (آلے موسیو، دی فرانک، آلے موسیو دی فرانک یعنی آئے جناب دس فرانک، آئے جناب دس فرانک)۔اِنھیں جنسی لوازمات کی وَجہ سے پیگال نہ صرف فرانس ویورپ میں مشہور ہے بلکہ پوری د ُ نیا میں مشہور ہے۔اَگر لوگ
EIFFEL TOWER (آئیفل ٹاور ، لیکن اس کا فرنچ نام ، لا توغ ایفل ہے) MONTEMARTE (مونت مارتے، لیکن اس کا فرنچ نام موںمارخت ہے) CHARLES DE GAULLE ETOILE (شالس دے گال ایتوآل) NOTRE DAME DE PARIS ( نوٹرے دامے دی پیر س یعنی نوتخ دام دی پاغی) دِیکھنے آتے ہیں تو پیگال کی یاترا کرنے بھی ضرور آتے ہیں۔
آپ پیگال سے پیدل چل کر (Sacre Coeur church) MONTMARTE (موں ماخت) دِیکھنے جاسکتے ہیں وَیسے تو MONTMARTE (موںمارخت) بڑا قابلِ دِید گرجا ہے لیکن اِس کے آس پاس دو عدد عجائب گھر ہیں۔ اِیک Montmarte Museum (موں مارخت عجائب گھر) اَور دَوسرا ہسپانوی نژاد مصور SALVADOR DALI (سلوادوغ دالی) کا ہے۔اِس علاقے میں مصوری کے شوقین حضرات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آپ نے پلک جھپکائی نہیں اَور وہ مصور آپ کی تصویر بنا کے آپ کے ہاتھ میں تھما دِے گا۔بھلے آپ چیختے چلاتے رَہیں کہ،’’ آپ نے تو کہاہی نہیں تھا‘‘۔آپ کو چند فرانک دِے کر ہی جان چھڑانی پڑے گی۔خواہ آ پ تصویر لیں یا نہ لیں۔ آپ کو پسند آئے یا نہ آئے۔اِس کے علاوہ MONTMARTE (موں مارخٹ ) کا قبرستان بہت مشہور ہے۔ یہاں کئی مشہور شخصیات مدفون ہیں۔جیسا کہ کمپوزرز، HECTOR BERLIOZ (ہیکتغ بیغلیو) اَور
JACQUE OFFENBACH (ییک آوفن باخ)۔ جرمن شاعر
HEINRICH HEINE (ہینرچ ہائین) اَور رَوسی بیلے ڈانسر NAJINSKY (ناجنسکی) اَور ہدایتکار FRANCOIS TRUFFAUT (فرانسوا تروغفو)۔
قبرستانوں کی بات چلی تو اِیک قبرستان کا ذِکر کر نا ضروری سمجھتا ہوں۔ جہاں فرانس کے مشہور اَفسانہ نگار GUY DE MAUPASSANT (گی دی موپاساں) کی آخری آرام گاہ ہے۔یہ قبرستان پیرس کے علاقے MONTPARNASSE (موں پاغ ناس) میں وَاقع ہے۔ یہاں نہ صرف موپاساں مدفون ہیں بلکہ یاں پال ساخت، سمن دی بوواغ بھی یہیں مدفون ہیں۔ SAMUEL BECKETT (سیموئل بیکٹ) اَور "LES FLEUR DU MAL” (لے فلغ دو مال، یعنی بدی کے پھول) جیسی شعری مجموعے کا خالق CHARLES BAUDELAIRE (شالس بودلیغ) بھی یہیں دَفن ہے۔
بالکل اِس طرح روم کے PYRIMIDE GRAVEYARD (پیرامدے قبرستان) میں اَنگریزی ادب کے دَو مشہور شاعر JOHN KEATS (جان کیٹز) اَور P.B.SHELLEY (پی بی شیلے) دَفن ہیں)۔
٭
آدم کا جب سے سامان پکڑا گیاتھا اِس نے کوئی دَوسرا کام نہیں شروع کیا تھا اَور ساتھ ساتھ داؤد کی شادی کا بھی سلسلہ چل رَہاتھا۔اِس کی شخصیت دَو حصوں میں بٹ چکی تھی۔پہلے پہلے وہ فرانس کے ادیبوں ،شاعروں ، مصوروں اَور مجسمہ سازوں کا ذِکر کردِیا کرتا تھالیکن لوگوں کی اِس طرف دِلچسپی نہ ہونے کی وَجہ سے اِس نے پوچھناچھوڑدِیا تھا۔خاطر خواہ جواب نہ پاکر اِسے دْ کھ پہنچتا۔اِیک دَفعہ اِس نے کسی سے پوچھا ،’’جناب آپ بیس سال سے فرانس میں رَہ رَہے ہیں۔ آپ نے VOLTAIRE (وولتیغ) کو تو ضرور پڑھا ہوگا‘‘۔
تو وہ صاحب کہنے لگے ،’’ ہاں کئی دَفعہ پڑھا ہے۔BOULEVARD VOLTAIRE (بولواغ وولتیغ) اَور نو نمبر میٹرو کا سٹاپ بھی ہے۔
و ُ ہاں ہماری ہر مال دَس فرانک کی دَوکان بھی ہے‘‘۔
وہ لوگ اَپنے تئیں ٹھیک تھے۔ وہ یہی مقصد لے کر آئے تھے کہ بہت سا پیسیہ کمائیں،اَپنی غربت دَور کریں، معاشی مسائل حل کریں۔ ہالینڈ، سپین، اٹلی اَور بیلجیئم کے مصوروں کی طرح تو نہ تھے ،جو اَپنے فن کی معراج حاصل کرنے پیرس آتے اَور آتے ہیں۔
اِٹلی کا مشہور زمانہ مصور، مجسمہ ساز، سائنسدان اَور رِیاضی دَان LEONARDO DA VINCI (لیوناردو دا ونچی)، فرانس کے بادشاہ کے بلاوے پر ۱۵۱۶ میں اَپنی مشہور تصویر مونا لیزا (MONALISA, LA GIOCONDAکے ساتھ اِس کے دَربار میں حاضر ہوا تھا۔جبکہ VINCENT VAN GOGH (ونساںوین گوغ)
نے د ُنیا کی سب سے قیمتی دی سن فلاور، یعنی سورج مْکھی کے پھول)، ۱۸۸۸ میں پیرس میں ہی مکمل کی تھی۔اَپنی اَپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ LEONARDO DA VINCI (لیوناردو دا ونچی) اَور VAN GOGH (وین گوغ) کے علاوہ PICASSO (پکاسو) DALI (دالی) CARVAGGIO (کاراواجو) GIOTTO (جوتو) MICHELANGELO (میکل آنجلو) RAFFEALLO (رافیلو) جیسے بلند پایہ تخلیق کاروںنے پیرس کو اَپنی مصوری کے فن کے لیئے اِستعمال کیا۔
یہ تمام لوگ د ُ نیا کے مختلف ممالک سے تعلق رَکھتے تھے۔ یا تو اِن کے کام کی نمائش پیرس میں کی گئی یاخود بہتر مستقبل کے لیئے پیرس آئے اَور پیرس کی تاریخ میں اَہم کردار ادا کر کے چلے گئے۔برصغیر پاک و ہند کے دَو فنکاروں کے علاوہ کسی کا بھی ذِکر سننے میں نہ آیا۔اِیک مصور و مجسمہ سازاَیم،اَیف حسین اَور دَوسرے اَنیش کپور ہیں۔اِس کے علاوہ جتنے بھی لوگ یورپ آتے ہیں اَپنے معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے آتے ہیں۔
آدم کے اِس طرح کے خیالات کی وَجہ سے کوئی بھی اِسے اَچھی نظر سے نہ دِیکھتا۔ وہ کئی دَفعہ تصویروں کی نمائش کے ٹکٹ خرید لاتا۔ جس پے سب کو اِعتراض ہوتا کیونکہ اِس کے پاس کاغذات نہیں تھے۔
٭
آدم ہر مہینے کی پہلی اِتوار کو اَگر فارغ ہو تو وہ MUSEE DU LOUVRE (میوزے دی لووغ)ضرور جاتا کیونکہ ہر ماہ کی پہلی اِتوار ، اِس کا کوئی ٹکٹ نہ ہوتا، رَش تو بہت ہوتا لیکن دَاخل ہونے میں کوئی قباحت نہ ہوتی۔ وَرنہ قطار میں دَو دَو تین تین گھنٹے گزر جاتے ہیں۔
MUSEE DU LOUVRE ( میوزے دی لووغ یورپ کا بہت بڑا عجائب گھر ہے۔اِس کے علاوہ فائن آرٹ سے متعلق عجائب گھر MUSEE GUIMET (میوزے گی مے) MUSEE D’ORSAY (میوزے د اوغ سے) اور CENTRE POMPIDOU (سانت خ پومپیدو) ہیں۔لیکن لووغ کی بات اَلگ ہی ہے۔
لووغ کی تعمیر ۱۱۹۰ میں ہوئی ۔ وَقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس محل میں تبدیلیاں کی گئیں ۔نئی تعمیرات بھی کی گئیں۔سب سے آخر میں اِس محل ( جو کہ عجائب گھر میں تبدیل ہوچکا تھا) میں جو چیز تعمیر کی گئی۔وہ تھا شیشے اَور دھات کا اِہرام۔ اِس کو ۱۹۸۱ میں چینی نژاد اَمریکی فنِ تعمیر کے ماہر I.M.PEI (آئی ایم پائی) نے تخلیق کیا۔
لووغ کے تین حصے ہیں۔ RICHELIEU (غیش لو) SULLY (سلی) DENON (دینن)۔
DENON (دینن) کی پہلی منزل پے د ُنیا کی سب سے مشہور تصویر MONALISA (LA GIOCONDA) (مونالیزا، لا جوکوندا) نمائش کے لیئے پیش کی گئی ہے۔
LEONARDO DA VINCI (لیو ناردو دا ونچی) نے دَو نشستوں میں یعنی ۱۵۰۶ تا ۱۵۱۰ اور ۱۵۱۳ تا ۱۵۱۶ میں جب یہ تصویر بنائی تھی تو اُس نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ یہ مصوری کا فن پارہ اِتنی شہرت پائے گا۔ DA VINCI (دا ونچی) نے اِس تصویر کو بارہ سال اَپنے پاس رَکھا اِس کے بعد FRANCOIS I (فرانسوا اول) کو پیش کردِی ۔ حال ہی میں دَریافت ہوا ہے کہ اِٹلی کے شہر اریزو سے چند میل کے فاصلے پر PONTE BURIANO (پونتے بوری آنو، یعنی بوری آنو کا پل) ہے۔اِس پُل اَور اِس کے نیچے بہتے ہوئے دریا ARNO (آرنو، اٹلی کے اِیک اَہم دَریا کا نام) کو MONALISA (مونالیزا) کی تصویر کے پس منظر میں دِکھایا گیا ہے۔
LEONARDO DA VINCI (لیوناردو دا ونچی ) کو جب فلورنس کے اِیک رَئیس آدمی FRANCESCO DEL GIOCONDA (فرانچسکو دَل جوکوندا، یعنی جوکوندا کا فرانچسکو)نے اَپنی تیسری بیوی ، جو اْس نے NAPLES کے اِیک خاندان GHERARDINI ( جیراردینی) سی کی تھی۔ اْس وَقت مونا لیزا جیراردِینی کی عمر قریباً بیس سال تھی ،جب اُس کی شادی فرانچسکو دَل جوکوندا سے ہوئی۔ مونا لیزا کے ہاں اِیک ہی اولاد پیدا ہوئی اَور وہ بھی تین سال بعد۔ لیکن یہ بچی ،دَارِ فانی سے کوچ کر گئی۔ اِس کے بعد یہ خوبصورت مونا لیزا اُداس رَہنے لگی۔ اِس کے خاوند فرانچسکو دَل جیراردینو نے اُس وَقت کے مشہورمصور لیو ناردَو دَا وِنچی کی خدمات حاصل کیں ۔ مونا لیزا اَپنی بیٹی کے غم میں اِتنی اُداس رَہتی تھی کہ کوئی بھی اِس پے چہرے پے مسکراہٹ نہ لاسکتا تھا۔اِس لیئے لیوناردَو دَا وِنچی نے اِس کا پورٹریٹ بناتے وَقت اِس بات کا خاص خیال رَکھا کہ اِس کو کبھی موسیقی سے ،کبھی مسخروں سے خوش کرنے کی کوشش کرتا اَور ساتھ ساتھ اِس کی تصویر بھی بناتا جاتا۔لیکن یہ تمام باتیں مونا لیزا کے چہرے پے ہلکی سی بھی مسکراہٹ نہ لاسکیں۔اَور آخر کار اُس نے دَو نشستوں میں ، چار سال اِیک دَفعہ صرف کیئے اَور تین سال دَوسری بار اَور تصویر مکمل ہونے پر اِسے اَپنے ساتھ فرانس لے گیا۔
۲۲ اگست ۱۹۱۱ کو مونا لیزا اَپنے فریم سے غائب تھی۔نہ صرف مونا لیزا بلکہ دَو دَوسرے اطالوی مصوروں TIZIANO (تسی آنو ) اَور CARAVAGGIO (کارا واجو) کی بنائی ہوئی تصاویر اَپنے اَپنے چوکھٹوں سے غائب تھیں۔ صبح ساڑھے سات بجے جب عجائب گھر (MUSEE DU LOUVRE) (میوزے دی لووغ)کے عملے کی نظر پڑی تو مونا لیزا اَپنے چوکھٹے سے غائب تھی۔ اِسے اِٹلی کے اِیک آدمی VICENZO PARUGI (ون چینسو پاروجا) نے چرایا تھا۔ یہ تصویریں اِس نے اِیک پرانی تصویروں کے شائق ALFREDO GERI (الفریدو گیری) کو بیچ دِیں ۔لیکن ۷ دسمبر ۱۹۱۳ کو وہ پکڑا گیا اَور ون چینسو پاروجا نے سب کچھ سچ سچ بتا دِیا۔۲۹ دسمبر ۱۹۱۳ کو یہ مشہور تصویر دَوبارہ فرانس پہنچی۔اِسے دَوبارہ MUSEE DU LOUVRE (میوزے دو لووغ) میں پہنچا دِیا گیا۔لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے SALON CARRE (سلوں کاغے) میں بہت ساری دَوسری تصویروں کی طرح مونا لیزا کی بھی اَصل سے نقل کی ہوئی تصویر لگی ہوئی ہے۔ اَور اَصل مونا لیزا فرانسیسی حکومت نے لاکر میں رَکھی ہوئی ہے۔ یہ یقینا اطالوی مصور نے بنائی ہے لیکن اُس نے یہ تصویر FRANCOIS I (فرانسوا اول ) کو بیچ دِی تھی۔ اِس لیئے یہ فرانس کی ملکیت ہے۔
پیرس کا دوسرا بڑا اَور مشہور فنونِ لطائف سے متعلق عجائب گھر MUSEE D’ORSAY (میوزے دا اوغسے) ہے۔ یہ پہلے ریلوے سٹیشن ہوا کرتا تھا۔۔۱۹۸۶ میں اِسے عجائب گھر میں تبدیل کردِیا گیا۔یہ دَو حصوں میں منقسم ہے۔ اِیک پہلی منزل ہے اَور دَوسرا بالا خانہ ہے۔ اِس عجائب گھر میں فنِ تعمیرات ، مجسمہ سازی اَور مصوری ۱۸۷۰ تک کی جن میں NATURALISM (نیچرل ازم) NEO IMPRESSIONISM (نی او امپریشن ازم) IMPRESSIONISM (امپریشن ازم) SYMBOLISM (سمبل ازم) ART NOVEAU (آرٹ نووو) اَور سینما کا ارتقا ء کے متعلق تصاویر اَور دِیگر چیزیں رَکھی گئی ہیں۔اِس کے علاوہ عارضی نمائشیں بھی کی جاتی ہیں۔یہاں پر RODIN (روداں) MANET (مانے) RENOIR (غانوآغ) VAN GOGH (وین گوغ) اَور دِیگر بڑے بڑے مصوروں کی تصاویر ،نمائش کے لیئے رَکھی گئی ہیں۔
پیرس کا تیسرا خاص الخاص عجائب گھر IL CENTRE NATIONAL D’ART ET CULTURE, GEORGE POMPIDOU (ال سانت خ ناسیونال داخت اے کلتوغ، یوغ ج پومپیدو) ہے ۔ ۱۹۷۱ میں اِیک تعمیراتی مقابلے کا اِعلان کیاگیا۔اِس مقابلے میں اِنگلستان کے فنِ تعمیر کے ماہر RICHARD ROGER (رچرڈ روجر) اَور اطالوی فنِ تعمیر کے ماہر RENZO PIANO (رین زو پی آنو ) کو کامیابی نصیب ہوئی۔۱۹۷۷ میں اِس خوبصورت فنِ تعمیرکے اَعلیٰ نمونے کا اِفتتاح ہوا۔اِس میں عصرِ حاضر کی مصوری کی تمام اَقسام پائی جاتی ہیں۔
اِس کے علاوہ چھوٹے بڑے کئی عجائب گھر ہیں جیسا کہ MUSEE RODIN (میوزے روداں) MUSEE PICASSO (میوزے پیکاسو) MUSEE DE LA CROIX (میوزے دا لا کوآ) وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داؤد کو سیاسی پناہ کی دَرخواست دِینے پر اُنہوں نے دَرخواست دَاخلِ دَفتر کروانے کی رَسید دِے دِی۔جسے پیرس کی زبان میں رِیسی پیسی کہتے ہیں۔یعنی اِسے رِیسی پیسی مل گئی تھی۔
دِیگر ضروری کاغذات وہ پہلے ہی منگوا چکا تھا۔داؤد نے گھر وَالوں سے کہا کہ،’’ اِس بات کو بالکل رَاز رَکھا جائے کیونکہ یہ شادی مَیں کاغذات کے لیئے کررَہا ہوں۔ جیسے ہی CARTE SEJOUR (کاخت سجوغ) ملے گا ، مَیں ببلی سے شادی کرونگا‘‘۔
آدم ،احترام الحق بٹ، داؤد اور MARIE ANTOINE(میری آنتوآں) رِجسٹریشن آفس کے باہر کھڑے تھے۔جیسے ہی اِن کی باری آئے وہ اَندر دَاخل ہوں۔ اِن کا چوتھا نمبر تھا۔ داؤد بہت خوش تھا۔منظر بالکل اَصلی شادی وَالا تھا۔اَگر کوئی باضمیر لڑکا ،لڑکی ہوتے تو یہیں سے بھاگ جاتے، لیکن دَونوں کو لالچ تھا۔ مَیری آنتوئن کو پیسوں کا اَور داؤد کو کاغذات کا لالچ تھا۔ احترام الحق کو سب سے زیادہ خوشی تھی۔اِس کے برعکس آدم کو یہ عمل بہت برا لگ رَہا تھا۔لیکن یاری نبھانے کے لیئے داؤد کے ساتھ آگیا تھا۔اَگر نہ کہہ دِیتا تو داؤد یقینا یہی محسوس کرتا کے آدم اِس کی ترقی سے جلتا ہے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ضمیر کی عدالت، اِنسانیت کیا چیزیں ہیں۔یہ بات دَو اِنسانوں کی شادی کی نہیں، کاغذات یا پیسوں کی نہیں۔ یہ دَو قوموں کی بات تھی۔دَو مذاھب کی بات تھی۔یہی شادی اَگر باہمی اَفہام و تفہیم اَور شادی برائے شادی ہورَہی ہوتی ، یا دَونوں اِیک دَوسرے سے پیار کرتے ہوتے اَور شادی کررَہے ہوتے تو آدم کو بالکل دُ کھ نہ ہوتا، نہ محسوس ہوتا۔ داؤد اَور مَیری آنتوئن کا نام پکارا گیا۔ یہ چاروںاَفراد رِجسٹرار کے سامنے حاضر ہوئے۔ اُس نے فرنچ میں کچھ کہا،داؤد کو کچھ پلے نہ پڑالیکن مَیری آنتوئن اَور آدم سمجھ گئے۔ دَونوں نے OUI, OUI (اوئی اوئی، یعنی ،جی جی ) کی۔
داؤد نے مَیری آنتوئن کو اَور مَیری آنتوئن نے داؤد کو اَنگوٹھی پہنائی ۔بٹ صاحب کی تربیت کے مطابق داؤد نے جھینپتے ہوئے میری کے ہونٹوں پے بوسا دِیا۔ رِجسٹرار اَفسر دِیکھ رَہی تھی۔ وہ داؤد کو بوسا دِیتے ہوئے دِیکھ کر ہنس پڑی۔بٹ صاحب نے فرنچ میں کہا، ’’ہمارا رَہن سہن اَور طرح کا ہے اِس لیئے یہ شرما رَہا ہے‘‘۔ وہ محترمہ سمجھ گئیں کہ ماجرا کیا ہے ۔ اُس کارَوز کاکام تھا۔ قانون کے مطابق کوئی بھی چیز ہو اُس کے لیئے اِنکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جانتی تھی کہ فرانس میں شادِیوں کا رِواج ختم ہوچکا ہے ۔ لوگ بنا شادی کے ساتھ رَہتے ہیں اَور بچے بھی پیدا کرتے ہیں۔ دَونوں ، نہ بیوی، نہ ہی خاوند ،اِیک دَوسرے کے پابند ہوتے ہیں۔ جب جی چاہے چھوڑ کے جاسکتے ہیں۔
آدم اَور بٹ صاحب نے گواہوں کی جگہ دَستخط کیئے اَور سب خوشی خوشی گھر چلے آئے۔ آدم یہی سوچ رَہا تھا کہ اَب مَیری آنتوئن، اَپنی رَقم لے کر چلی جائے گی لیکن اَیسا نہ ہوا۔ وہ اِسے گھر لے آئے۔
کھانے کے بعد پینے پلانے کا دَور چلا۔ داؤد ،بٹ اَور مَیری آنتوئن نے جی بھر کے پی۔ اِس کے بعد چرس کا دَور چلا۔ داؤد تو چادر کے پیچھے آدم کی بغل میں آکر سوگیا لیکن بٹ صاحب ، داؤد کی بیوی مَیری آنتوئن کے ساتھ ساری رَات ،سہاگ رَات مناتے رَہے۔
صبح جب آدم نے داؤد کو چھیڑا، ’’یار تیری بیوی کے ساتھ بٹ صاحب ساری رَات ، سہاگ رَات مناتے رَہے ہیں، کتنے پیسے لیئے ہیں‘‘۔ تو داؤد کہنے لگا، ’’میری کون سا اَصلی بیوی ہے۔ یہ تو ہوتی ہی رَنڈیاں ہیں۔ آج میرے ساتھ تو کل کسی اَور کے ساتھ شادی کرے گی۔ مجھے تو اَپنا اُلو سیدھا کرنا ہے‘‘۔
٭
آدم کو کبھی بجلی کا ٹھیکہ لینے وَالے ساتھ لے جاتے ، مدد گار کے طور پے۔ کبھی رَنگ کا ٹھیکہ لینے وَالے ساتھ لے جاتے۔زیادہ تر لڑکوں کے پاس اٹلی کی PERMESSO DI SOGGIORNO (پرمیسو دی سجورنو) تھی۔ اِس سجورنو کو وہ سفر کے لیئے اِستعمال کرتے اَور کام وَغیرہ پیرس میں ہی کرتے۔ جب بھی کبھی سجورنو کی تجدید کروَانی ہوتی تو تکمیل بانڈے یا چانکریہ جیسے لوگوں کو پیسے دِیکر اَپنی سجورنو کی تجدید کروَالیا کرتے۔آدم اِن سے کئی دَفعہ پوچھتا اُن لوگوں کے بارے میں۔ سب بڑی تعریف کرتے۔ تکمیل بانڈے اریزو میں تین چاندی کی فیکٹریوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد کا متولی بھی بن گیا تھا اَور چانکریہ صاحب کا کاروبار امیگریشن کی وَجہ سے مزید پھیل چکا تھا۔وہ ہندووں کے مندر کا کرتا دَھرتا تھا۔پنڈت کہہ لیجئے بن گیاتھا۔ یہ تو بالکل اِس طرح تھاجیسے ، ’’بغل میں چھری منہ میں رَام رَام‘‘۔
آدم کو رَنگ کرنے کی مہارت نہ تھی لیکن وہ اَپنی سی کوشش ضرور کرتا۔ اِس رَنگ میں خاص قسم کا کیمیائی مادہ اِستعمال ہوتا۔ جو اِنسانی صحت کے لیئے سخت نقصان دِہ ہوتا ۔ فرانسیسی حکومت نے اِس کیمیائی مادے وَالے رَنگ پے پابندی لگا دِی تھی کیونکہ اِس سے ٹی بی کا اَندیشہ ہوتا ۔لیکن بڑے بڑے فرنچ ٹھیکے دَار زیادہ کام ہونے کی وَجہ سے چھوٹے ٹھیکے دَاروں کو یہ کام دِے دِیتے ۔یہ پیسے کے لالچ میںاِس مہلک کیمیائی مادے وَالا رَنگ اِستعمال کرتے ، جس سے اِنھیں ٹی بی ہونے کا خدشہ ہوتا اَور کئی اِیک کو ہو بھی جاتی ۔وہ اَپنی صحت کے مقابلے میں پیسوں کو زیادہ ترجیح دِیتے ۔حالانکہ یہ کیمیائی مادہ آہستہ آہستہ سرایت کرنے وَالے زہر کی طرح ہوتا ہے۔ آپ گھل گھل کے مرجاتے ہیں۔
آدم اَپنے ساتھیوںکے ساتھ رَنگ کے کام سے وَاپس آرَہا تھا۔ میٹرو نمبر ۲ (دو) میں ہمیشہ کی طرح بھیڑ تھی۔جیسے ہی میٹرو LOUVRE RIVOLI (لووغ غی وولی) کے سٹاپ پے رُکی، آدم کی نظر اِیک دَم تاکنپ میلکووچ پر پڑی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ اِسے تاکنپ دَوبارہ دِکھائی دِے گی۔ آدم نے اِس کا کندھا تھپکایا۔تاکنپ نے تیزی سے مڑ کے دِیکھا اَور ٹھٹھک کر رَہ گئی۔چند ساعتیں آدم کو گھور کر دِیکھا اَور پھر آدم کے گلے لگ گئی۔ گھمبیر آواز میں کہنے لگی،’’آدم تم؟ ۔۔۔۔۔۔۔تم کیسے ہو؟۔۔۔۔۔تم نے فون نہیں کیا؟۔۔۔مَیں سمجھی تم مصروف ہوگے۔ تم نے اَپنا نمبر نہیں دِیا وَرنہ مَیں تمہیں فون کرتی‘‘۔ آدم کی حالت بالکل اَیسی تھی ، کھسیانی بلی کھمبا نوچے ۔اِس نے اٹلی سے فرانس کے سفر کے دَوران بتایا تھا کہ ،’’وہ پڑھتا ہے‘‘ لیکن وہ تو جب سے پیرس آیا تھااِس نے بطور وِیٹر کام کیا تھا۔اَب کبھی بجلی کا یا کبھی رَنگ کا کام کرلیتا۔آدم کو اِس سٹاپ پے اُتر کر میٹرو بدلنی تھی لیکن وہ باتوں باتوں میں آگے نکل آیا تھا۔ تاکنپ نے دَوبارہ آدم کو فون کرنے کی تاکید کی اَور HOTEL DE VILLE (اوتیل دی وِل،پیرس میںکے میئر کے گھر یعنی جہاں اُس کا دفتر ہوتا ہے کو کہتے ہیں) کے سٹاپ پے اُتر گئی۔آدم جیب سے چھوٹا سا میٹرو کا نقشہ نکال کر دِیکھنے لگا کہ BELLEVILLE (بیل ول) جانے کے لیئے کون سی میٹرو اَور ڈائیرکشن بہتر رَہے گی۔اُترنا تو اُسے بھی HOTEL DE VILLE (اوتیل دی ول) ہی چاہئے تھا لیکن میٹرو چل چکی تھی۔وہ BASTILLE (بستی) اُتر کر میٹرو نمبر پانچ پے بیٹھ جاتا اَور REPUBLIQUE (ریپبلک) اُتر کر پیدل گھر پہنچ جاتا ۔ لیکن آج اِس نے پٹھانوں کی طرح سوچا اَور NATION (ناسیوں، یعنی نیشن) کے سٹاپ پے اُتر گیا۔ و ُہاں سے اِسے دَو نمبر میٹرو مل گئی جو BELLEVILLE (بیل ول) کے سٹاپ پے رُکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داؤد کو دَس سال CARTE SEJOUR (کاخت سجوغ ) مل گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ آدم کو بھی خوشی تھی۔ وہ ریستوران سے جو پیسہ کماتا ،وہ مَیری آنتوئن کو دِے دِیتا۔اِس کے علاوہ اُسے اَور اُس کی سہیلیوں کو کئی دَفعہ مفت کھانا بھی کھلاتا۔ اُنھوں نے آدم کو بھی پیپر میرج کی پیشکش کی۔ لیکن آدم نے رَد کردِی۔ سب اِسے کہنے لگے ،’’نہ تم سیاسی پناہ کے حق میں ہو، نہ marriage blanc (ماغیاج بلاں، یعنی سفید شادی، یہ نام فرنچ میں پیپر میرج یعنی کاغذی شادی کا ہے) کے حق میں۔تو تم اَپنے کاغذات کیسے بناؤ گے۔ تمہیں اَگر پولیس نے پکڑ لیا تو ڈِیپورٹ کر دِیئے جاؤ گے‘‘۔ آدم کا یہی جواب ہوتا کہ،’’ مَیںتو سیاح ہوں۔ جب بھی پکڑا گیا ۔وَاپس چلاجاؤں گا۔ پولیس کی حراست سے اِنسان کو نجات مل جاتی ہے۔ ضمیر کی عدالت سے کبھی نہیں۔ اَگر مَیں آج پیپر میرج کرلوںگا تو میرا ضمیر مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ اِنسانی رِشتوں کا تقدس ہوتا ہے۔ محض کاغذات کے لیئے کسی لڑکی سے شادی کرنا اِنسانیت سوز عمل ہے۔ یہ ظاہری خوشی ہے۔ ہاں اَگر حقیقت میں کسی لڑکی سے مجھے پیار ہوجائے ۔ بھلے وہ فرنچ ہو یا چینی۔تو پھر اِس میں نہ تو ضمیر کی عدالت میں مجھے شرمندگی ہوگی نہ ہی اَپنی نظروں میںمَیں گرونگا۔شادی وَیسے بھی کاغذ کے چند ٹکڑوں پے دَستخط کرنے کانام تھوڑی ہی ہے۔ یہ تو اِیک بندھن ہے جس میں آپ ساری زندگی اِیک دَوسرے کے ساتھ رَہنے کا وَعدہ کرتے ہیں۔ آپ جب تک زندہ ہیں۔آپ سو کر اَپنی بیوی کے ساتھ اُٹھیں۔ یہ نہیں کہ وہ کہیں اَور سو رَہی ہے اَور آپ کہیں اَور۔ یہ صرف جنسی تلذذ کا نام نہیں۔نہ ہی بچے پیدا کرنے کے لیئے شادی کی جاتی ہے۔ یہ تو COVELANT BOND (کوولنٹ بونڈ) ہے۔ جس میں میاں بیوی اِیک دَوسرے کو پیار کے electron share (الیکڑون شیئر) کر کے ساری زندگی پیار کے بونڈکو مکمل کرتے رَہتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے بجلی سے اِنسان کی موت کیوں وَاقع ہوجاتی ہے۔ اِنسان کے جسم میں نمک ہوتا ہے۔ NaCL (SODIUM CHLORIDE) (این اے سی ایل ، سوڈیم کلورائیڈ ، یعنی کھانے کانمک)۔ یہ Naاَور CL جب دَونوں آپس میں اَلیکٹرون شیئر کرکے اِیک دَوسرے کے ATOMIC SHELL (ایٹومک شیل) مکمل کرتے ہیں تو کھانے کانمک بن جاتا ہے۔ اِیک سود مند چیز بنتی ہے۔جیسے ہی اِس سے اَلیکٹرک کرنٹ گزرتا ہے اِن کا بونڈ ٹوٹ جاتا ہے۔ ہمارا جسم کانپنا شروع کردِیتا ہے اَور کئی دَفعہ ہماری موت وَاقع ہوجاتی ہے۔ بالکل اِسی طرح پیار کا بونڈ ہوتاہے۔ شادی کا بونڈ ہوتا ہے۔ میاں بیوی کا بونڈ ہوتاہے۔ جب تک دُکھ دَرد، خوشی، غمی اَور اُونچ نیچ میں اِیک دَوسرے کا ساتھ دِیتے رَہتے ہیںاِن کے پیار کا ، شادی کا، اَور بطور میاں بیوی اِن کا بونڈ مکمل رَہتا ہے اَور کھانے کے نمک کی طرح یہ معاشرے میں سود مند کردار ادا کرتے رَہتے ہیں۔ جیسے ہی شک، اَلیکٹرک کرنٹ کی طرح اِن کے دَرمیان سے گزرتا ہے اِن کا بونڈ ٹوٹ جاتا ہے۔ جس طرح نیکیوں کو غیبت، لکڑی کو دِیمک، اِسی طرح شک پیار کو کھا جاتا ہے۔
شادی دَو جسموں کی نہیں دَو رَوحوں کے ملاپ کا نام ہے۔ جنسی تلذز اَور بچے پیدا کرنا اِس کا حصہ تو ہوسکتا ہے لیکن یہی سب کچھ شادی نہیں ہوسکتا۔ اَور وَیسے بھی اَگر آپ عورت کے ساتھ بنا مرضی کے جنسی تلذذ حاصل کریں، اُسے مجبور کریںتو میرے نزدِیک یہ زنا بالجبر ہوگا۔بھلے وہ آپ کی بیوی ہی کیوں نہ ہو۔ اِس طرح کا زَنا بالجبر نہ صرف اِیشیائی ممالک میں ہوتا بلکہ یورپی ممالک میں بھی ہوتا ہے۔
جہاں تک سیاسی پناہ کا تعلق ہے اَپنی ذَات کی حد تک تو اِنسان گِرسکتا ہے لیکن جس کام سے پورا ملک اَور مسلم اُمہ بدنام ہو۔وہ کام مَیں کبھی بھی نہ کرونگا‘‘۔داؤد نے کہا، ’’یار سب کرتے ہیں اِیک تمہارے نہ کرنے سے کیا ہوجائے گا‘‘۔ آدم کہنے لگا، ’’سب کرتے ہیں ٹھیک ہے، لیکن میرے اِیک نہ کرنے سے اِتنا ضرور ہوگا ۔ مَیں سر فخر سے بلند کر کے کہہ سکوں گا کہ مَیں نے خود کو تکلیف دِے کر اَپنے ملک کا وَقار اُونچا کیا۔ جھوٹ نہیں بولا‘‘۔ داؤد نے آدم کو رَاضی کرنے کے لیئے کہا۔کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ آدم یا شادی کرلے یا سیاسی پناہ لے لے، ’’اَور جو تم اٹلی کے جعلی کاغذات پے سفر کرکے فرانس آئے ہو‘‘۔آدم نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے مَیں نے جعلی کام کیا ہے ۔اِس کے لیئے میرا ضمیر مجھے اَب بھی ملامت کرتا ہے۔ لیکن کبھی کسی کی دِل آزاری نہیں کی۔ جس طرح پیپر میرج میں اِیک گوشت پوست کے اِنسان کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے‘‘۔
٭
بٹ صاحب ، داؤد کو اَپنے اکاؤٹنٹ کے پاس لے گئے اَور رَیستورا ن داؤد کے نام کردِیا۔داؤد بہت خوش تھا اَور وہ خدا کا شکر ادا کرتاکہ اِیک سال کے اَندر اَندر اِس کے کاغذات کا مسئلہ حل ہوگیا تھا اَور وہ اَپنے کاروبار کا مالک بھی بن گیا تھا۔یہ سب بٹ صاحب کی وَجہ سے تھا۔داؤد پڑھ تو سکتا نہیں تھااِس لیئے اِس نے آنکھیں بند کر کے تمام کاغذات پے دَستخط کر دِیئے تھے اَور اِس تمام کاروائی کو اِنھوں نے آدم سے چُھپائے رَکھا۔ آدم کو ساری بات کا اُس وَقت پتا چلا جب تمام لکھت پڑھت ہوچکی تھی۔ اَب وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔
آدم کو اِتنا دُ کھ ہوا کہ بیان سے باہر ۔ کیونکہ یہ دَونوں اَنوار کیفے سے لے کر پیرس تک اَکٹھے آئے تھے۔ داؤد نے آدم کو یہ بھی بتایا کہ،’’ وہ بینک سے قرضہ لے کر اپنا گھر بھی خریدے گا‘‘۔
BELLEVILLE (بَیل وِل ) وَالے اِس چھوٹے سے گھر میں آدم کا اِیک منٹ کے لیئے بھی دِل نہیں لگ رَہا تھا۔اِس کے اَندر جلن یا حسد نہیں تھا لیکن اِس کی چھٹی حس کہہ رَہی تھی کہ کچھ گڑ بڑ ہونے وَالی ہے۔
داؤد نے ریستوران کا کچن سنبھالا ہواتھا اَور بٹ صاحب نے ہال۔ داؤد مسلسل کام کرتا جبکہ بٹ صاحب ،ٹائی ،کوٹ، پتلون میں ملبوس سارا دِن گھومتے رَہتے۔ اُنھوں نے ڈرائیونگ ٹیسٹ بھی پاس کرلیا تھا اَور کمپنی کے نام اِیک عدد گاڑی بھی خرید لی تھی۔ جس کی قسط ہر ماہ ریستوران کے کھاتے سے جاتی۔ اِس میں پٹرول بھی ریستوران کے کھاتے سے بھروایا جاتا۔سارا دِن بٹ صاحب کے اِستعمال میں رَہتی ۔ داؤد کو صرف رَات کے وَقت اِس گاڑی میں بیٹھنا نصیب ہوتا۔ وہ بھی جب گھر وَاپس آنا ہوتا۔ صبح داؤد میٹرو میں ہی آجاتا۔ بٹ صاحب آج کل اَپنی رَاتیں پیرس کے مضافات میں اَپنی نئی معشوقہ کے ہاں گزارتے۔ دِن میں آتے ہی ملازمین کو رُعب وَغیرہ جھاڑ کے ، بول بچن اِستعمال کرکے چلے جاتے۔کبھی گاڑی کی پارکنگ نہ ملتی، کبھی اکاؤ ٹنٹ کے پاس جانا ہوتا،کبھی AUCHAN (اوشاں، پیرس کا ایک ملٹی نیشنل جنرل سٹور) یا MONOPRIX(مونو پری، پیرس کا ایک سستا سٹور) پے خرید و فروخت کرنے چلے جاتے۔اِن ساری قباحتوں کے باوَجود ریستوران اَچھا چل رَہا تھا۔ بٹ صاحب کے پاس جب کاغذ نہیں تھے ۔ وہ پولیس سے بھی ڈرتے اَور کسی لڑکی سے بات تک نہ کرتے نہ ہی کرسکتے تھے۔ کبھی جنسی بھوک مٹانی ہوتی تو RUE ST.DENIS (غیو سینٹ دینی)
پے کھڑی اَپسراؤں کے پاس چلے جایا کرتے۔ شاید ہی کوئی اَپسرا ہوگی جسے وہ نہ جانتے ہوں۔
٭
جیسے ہی آپ RUE ST. DENIS (غیو سینت دینی) پے قدم رَکھتے ہیںتو دَونوں اَطراف ، دَائیں بائیں، خاص کر شام کے وَقت یہ اَپنے اَپنے حجروں سے نکل کر کیل کانٹے سے لیس، تمام حشر سامانیوں کے ساتھ آکر کھڑی ہوجاتیں۔ اِن میں ہر عمر و رَنگ کی عورتیں ہوتیں۔کبھی کبھی کسی برِ اَعظم اَفریقہ کی اَفریقی عرب لڑکیاں بھی کھڑی ہوجاتیں۔
اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔پاکستان جیسے اِسلامی ملک میں جہاں گزشتہ پچاس سال سے اِسلام کا ڈَھول پیٹا جارَہا ہے ، و ُہاں بھی جسم بیچنے وَالی عورتیں پائی جاتی ہیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ و ُ ہاں سڑک پر کھڑی نہیں ہوتیں۔ و ُہاں تو جسم بیچنے وَالی بھی مسلمان، جسم بکوانے وَالے بھی مسلمان اَور جسم کے خریدار بھی مسلمان۔
نہ صرف پیرس میں رَیڈ لائٹ علاقے (جسے بازارِ حسن بھی کہتے ہیں اَور عرفِ عام میں ہیرا منڈی کہتے ہیں)بلکہ پورے یورپ میںرَیڈ لائٹ علاقے ہیں سوائے اِٹلی کے۔ ہر یورپی ملک میں باقاعدہ جسم بیچنے وَالی عورتیں لائسنس لے کر کام کرتی ہیںاَور باقاعدہ اِن کا میڈیکل چیک اَپ کیا جاتا ہے اَور اِنھیں اِیک عدد سرٹیفیکیٹ بھی دِیا جاتا ہے، لائسنس کے ساتھ ساتھ۔اٹلی میں لڑکیاں شاہراہوں پے کھڑی ہوتی ہیں۔
٭
بٹ صاحب ہر جمعے کو اِس باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتے جیسے اِن کی طرح کا مومن پورے پیرس میں نہیں پایا جاتا۔ داؤد حساب کتاب کی بات کرتا تو ٹال جاتے، ہمیشہ نئی نئی کہانیاں سناتے ، کبھی کہتے ، ’’داؤد صاحب جو بچت بھی ہوگی CHAMPS ELYSEE(شانزے لیزے) پے دَوسرا ریستوران خرید لیں گے۔ میری کونتابل( اکاؤنٹنٹ )سے بات ہوئی ہے‘‘۔ جب داؤد کا ریستوران نہیں تھا۔اِس کے حالات پھر بھی اَچھے تھے لیکن اَب اِس کے حالات رَوز بروز برے ہوتے جارَہے تھے ۔اِس کی سمجھ میںنہیں آتا تھا۔ کہ پیسہ آخر جاتا کدھر ہے۔اِس نے آدم سے دَرخواست کی کہ ،’’وہ اِس کی مدد کرے ‘‘۔کیونکہ آدم پڑھا لکھا بھی تھااَور اِسے فرنچ بھی آتی تھی۔ لیکن اِس بات پے بٹ صاحب کو اِعتراض تھاکہ،آدم ریستوران کے معاملات میںدَخل دَر معقولات کرے۔ اُن کے لیئے دَخل دَرمعقولات ہی تو تھیں، کیونکہ بٹ صاحب کا سارا پروگرام چوپٹ ہوجا تا۔
٭
آدم کئی دِنوں سے سوچ رَہا تھا کہ تاکنپ کو فون کرے۔ آج اِس نے نمبر ملا ہی دِیا۔ تاکنپ بہت ہی ملنسار لڑکی تھی۔ جیسے ہی اُسے پتا چلا کہ ٹیلیفون پے آدم خان چغتائی ہے۔ اُسے بہت خوشی ہوئی۔کہنے لگی، ’’آج شام کو GEORGE POMPIDOU CENTRE (یوغج پومپیدو سانت خ) کی آخری منزل جو ریستوران ہے و ُہاں ملو‘‘۔ آدم نے RENDEZ VOUS (غاندے وو، یعنی ملاقات کرنی طے کرلی)رَکھ لیا۔ پہلے وہ BELLEVILLE (بیل ول )سے داؤد کے ریستوران تک پیدل آیا۔ و ُ ہاں سے کھانا وَغیرہ کھایا، چائے پی اَور آکر سلیم سے باتیں کرنے لگا۔ دَور سے بٹ صاحب آتے دِکھائی دِیئے اَور آتے ہی طنز بھرے میں لہجے میں کہنے لگے، ’’کیوں آدم آج کل کام پر نہیں جاتے‘‘۔ حالانکہ بٹ صاحب داؤد اَور آدم اِیک ہی گھر میں رَہتے تھے۔ آدم اِس طنز بھرے لہجے کو سمجھتا تھا۔ کہنے لگا، ’’بٹ صاحب جس طرح آپ کوٹ پتلون پہن کر اَور ٹائی باندھ کر ،پرفیوم لگا کر، بن سنور کے ہاتھ میں بریف کیس لیئے گھر سے یہی سوچ کے نکلتے ہیںبلکہ خود کو باوَر کرانے کی کوشش کرتے ہیںکہ آپ کام پر جارَہے ہیں۔ بالکل اُسی طرح آج مَیںبھی کام کے لیئے نکلا ہوں‘‘۔ بٹ صاحب اِس بھول بھلیوں جیسے جواب سے خوش نہ ہوئے اَور ریستوران میں دَاخل ہوگئے۔
آدم نے سلیم صاحب سے اِجازت لی اَور پیدل ہی چل
GEORGE POMPIDOU CENTRE (یوغج پومپیدو سانت خ)کی طرف چل نکلا۔وہ جب RUE ST. DENIS (غیو سانت دینی) پے پہنچا تو لوگ کام ختم کر کے گھروں کو جارَہے تھے اَور آہستہ آہستہ اَپسرائیںاَپنے اَپنے مقام پے آکر کھڑا ہونا شروع ہو رَہی تھیں۔آدم مسکراتا ہوا اُن کے پاس سے گزر گیا۔ اِن میں کوئی اَنگریزی میں اَور کوئی فرنچ میں اِسے بُلا رَہی تھی۔ نہ صرف آدم بلکہ جو بھی گزرتا وہ سب کو آواز دِے کر بلاتیں۔
جیسے جسے وہ آگے چلتا گیا اَپسرائیں کم ہوتی گئیںاَورSEX SHOPS (سیکس شاپز) اَور PEEP SHOWS (پیپ شوز ) وَالی دَوکانوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اِن میں یہودِیوں کی کپڑوں کی بڑی بڑی دَوکانیں بھی تھیں ۔وَاحد اِیک دَوکان تھی اِس غیو (ریو) کی نکڑ پے جو کسی پاکستانی کی تھی۔ BHATTIS (بھٹی ز)۔آدم کی شروع سے عادَت تھی ،وہ تختیاں پڑھتا پڑھتا یا یوں کہہ لیجئے کہ سائن بورڈ پڑھتا پڑھتا آگے چلتا چلا جاتا۔ دَوکانوں کا سلسلہ ختم ہوا۔ آدم نے
RUE REAUMUR (غیو غومیوغ) کا اِشارَہ، سگنل پار کیا۔ سڑک پار کرکے
RUE DE SEBASTOPOL (غیو دا سبستپول) پے چلنا شروع کیایہ بولواغ (BOULEVARD) آگے چل کے پیرس کی مشہور شاہراہ RUE DI RIVOLI (غیو دی غی وولی) کو چھوتا ہے اَور ختم ہوجاتا ہے۔
سڑک کے دَونوں جانب رَیستوران تھے۔ اِن کے ملازمین برآمدے سجارَہے تھے۔ آس پاس کئی اِیک جدید فیشن کے کپڑوںکی دَوکانیںتھیں۔ اِیک طرف فائن آرٹ سے متعلق دَوکانیں تھیں۔
خداخدا کرکے آدم GEORGE POMPIDOU CNTRE (یوغج پومپیدو سانت خ) پہنچا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا آخری منزل پے پہنچا۔ اِیک کونے میںتاکنپ سجی سجائی بیٹھی تھی۔اُس کے آدم کے دَونوں گالوں کو چوما لیکن اَب آدم اِتنا جھینپا نہیںکیونکہ اَب وہ اِس کا عادِی ہوچکا تھا۔وہ کافی پی چکی تھی۔ اُس نے آدم کے لیئے کافی کا کہا۔وِیٹرس، کافی لائی ، اِنتہائی مہذب اَنداز میں کافی کی پیالی اَور رَسید اَیش ٹرے (رَاکھ دَانی) کے نیچے دَبا کے چلی گئی۔ آدم عہد کرکے آیا تھا کہ وہ آج تاکنپ کو سچ سچ سب کچھ بتا دِے گا۔اَور اِس نے اَیسا ہی کیا۔سب کچھ بتادِیا۔وہ اَصل میںکیا ہے اَور اِس نے اَیسا کیوں کیا۔ اَلف سے لیکر یے تک تاکنپ کو ساری کہانی سناڈَالی۔ تاکنپ سن کر بالکل حیران نہ ہوئی۔کہنے لگی،’’کوئی بات نہیں۔ تم بہت سے لوگوں سے اَچھے ہو۔ کم اَز کم ضمیر کا سودا تو نہیںکیا۔نہ صرف پیرس میں بلکہ اَپنے ملک میں بھی سر اُٹھا کے چل سکتے ہو۔ تمہارے جیسے کئی پاکستانی، ہندوستانی، میرا مطلب ہے غیر ملکی ہیںجو پیرس کی کئی گلیوں میں شرم کے مارے دَاخل نہیں ہوسکتے۔ جب یہ لوگ ڈَھیروں پیسہ کما کر پاکستان جائیںگے تو و ُ ہاں بھی اِن کا سر شرم سے جُھکا رَہے گا۔تنہائی میں اِنسان کا ضمیر ملامت کرتا ہے۔اَگر ہو تو۔ ہر چیز کا مکافاتِ عمل ہوتا ہے۔
what comes around ,goes around ۔جہاں تک کام کا سلسلہ ہے ۔تم میرے باس کے لیئے تصویریں بیچو۔پچاس فیصدبلکہ کبھی کبھی سو فیصد بھی بچت ہوجا تی ہے‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’مجھے کیا کرنا ہوگا‘‘؟ تاکنپ کہنے لگی، ’’یہ تمہیںمَیں سمجھا دَونگی۔تمہیںاَنگریزی بھی آتی ہے اَور فرنچ بھی ۔ وَیسے بھی تمہارے گاہک اَمریکی یا جاپانی ہونگے۔ تمہیںد ُنیا کے مشہور مصوروں ، خاص کر عصرِحاضر کے مصوروں ، مثلاًVAN GOGH, MATISSE, RENOIR. KLEE ROTHKO, CEZANNE,LAUTREC (وین گوغ، ماتس، غانوآغ، کلے، روتکو، سیزان، لوتریک)
وَغیرہ کی جعلی یعنی اِن کو دِیکھ کر دَوبارہ بنائی گئی تصویریں بیچنی ہونگیں۔مثال کے طور پے اَگر پچاس فرانک کی تصویر ہے۔ تم اَگر اِسے سو فرانک یا دَو سو فرانک میں بیچتے ہو تو پچاس فرانک سے زائد رَقم تمہاری ہوگی‘‘۔ آدم کو کام بڑا پسند آیا۔آدم نے کہا، ’’مجھے منظور ہے‘‘۔ تاکنپ نے کہا، ’’تو ٹھیک ہے کل سے اِسی وَقت مَیں تمہارے لیئے تھوڑی سی تصاویر لے آؤں گی تم اِنھیں بیچنے کی کوشش کرنا۔ تمہیںکام کا بھی پتا چل جائے گااَور تھوڑا بہت تجربہ بھی ہوجائے گا۔ اَچھا آدم مَیںاَب چلتی ہوں۔ مجھے ذرا جلدی ہے‘‘۔ اُس نے رَاکھ دَانی، (اَیش ٹرے) کے نیچے دَبا ہوا بل اُ ٹھایا اَور مطلوبہ رَقم اَور ٹپ رَکھ کر چلتی بنی۔
٭
آدم RUE DI RIVOLI (غیو دی غی وولی) پے تصویریںلیئے گھوم رَہا تھا۔ صبح سے اِس کی کوئی تصویر نہ بکی تھی۔اِسے بڑی اُمید تھی کہ VAN GOGH (وین گوغ) کی سورج مُکھی کے پھولوں وَالی مشہور و معروف تصویر ضرور بک جائے گی لیکن اِسے کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی۔تھک ہار کر RUE DI RIVOLI (غیو دی غی وولی) کے برآمدوں میں اِیک بار سے کافی لے کر بیٹھ گیا۔ کافی پیتے پیتے اِس کی نظر اِیک بہت بڑی دَوکان پر پڑی۔ جس پر لکھا ہوا تھا ARYANS (آرین ز)۔ آدم نے جلدی جلدی کافی ختم کی اَور دَوکان میں گھس گیا۔ اِس کے بَیگ میںتصاوِیر تھیں۔دَوکان میں جابجا نادِر و نایاب چیزیں رَکھی ہوئیں تھیں۔ کہیں سدھارتا گوتما بدھا کی مورتی، کہیں سرسوتی، پاروَتی، کالی ماتا کی مورتیاں، کہیںگھنیش، اِندر، سیتا، رَام ،لکشمن کی مورتیاں تھیں۔ دِ یوارَوں پے رَاجستھان کے رَاجاؤں، مہاراجاؤں کی سنہری چوکھٹوں میں تصاویر لگی ہوئیں تھیں۔آدم تو متحیر و مستعجب ہوکر دِیکھنے لگا۔دَوکان کے ہر کونے پے کیمرہ نصب تھا۔ جس سے پتا چلتا تھا کہ کس کونے میں کیا ہورَہا ہے، کون کھڑا ہے۔اَبھی وہ دَوکان کی بھول بھلیوں میں گم تھا کہ اِیک نہایت ہی خوبصورت عورت، آدم کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ عمر لگ بھگ چالیس سال یا اِس سے زیادہ ہوگی۔ اُس نے فراک نماں لباس پہنا ہوا تھا اَور کمر کے گرد بیلٹ اِس طرح کَس کر باندھی ہوئی تھی کہ ْاس کی چھاتیاں ضرورت سے زیادہ باہر کو آرَہی تھیں اَور اَپنے سائز سے زیادہ بڑی لگ رَہی تھیں۔ فراک کا گلہ اِتنا کھلا تھا کہ چھاتیوں کی لکیر دَور تلک دِکھائی دِے رَہی تھی۔ گلے میں سبز رَنگ کا کسی قیمتی پتھر کا ہار پہنا ہوا تھا اَور اُس کی اِیک لڑی چھاتیوں کی اِس بارِیک لکیر میں گھستے ہوئے اَپنا دَم گھٹتا ہوا محسوس کر رَہی تھی۔آدم کے سامنے آکر کہنے لگی، "BONJOUR MONSIEUR” (بوں یو موسیو اَچھادِن مبارک ہو)۔آدم ساری فرنچ بھول گیااَنگریزی میں بات کرنے لگا۔ وہ عورت اَنگریزی ، فرانسیسی تلفظ کے ساتھ بولتی بہت اَچھی لگ رَہی تھی۔کیونکہ فرانسیسی زبان میں "R” اَور "T” کی آواز بالکل مختلف ہوتی ہے۔ آدم نے اَپنا مدعا بیان کیا کہ،’’ مَیںتصاویر بیچتا ہوں‘‘ ۔اُس نے دِیکھنے کی فرمائش کی۔ آدم نے جلدی سے بَیگ کھول کر پینٹنگز دِکھانی شروع کردِیں۔باتوں باتوں میں وہ عورت پوچھنے لگی ،’’ تم اِنڈین ہو‘‘۔ آدم ہزاروں لوگوں کو بتا چکا تھاکہ وہ اِنڈین نہیں پاکستانی ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے تھے کہ پاکستان بھی کوئی ملک ہے۔ حالانکہ ذرائع اِبلاغ اِتنا ترقی کر چکا ہے۔ اِس کے باوجود لوگ پاکستان کو ہندوستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ آدم کہنے لگا، ’’نہیں۔۔۔۔پاکستانی
ہوں‘‘۔اْس عورت نے کہا، ’’مَیں یہ ساری تصاویر خریدنا چاہتی ہوں‘‘۔ اَور اُس نے د ُگنی قیمت پے تمام تصاویر خرید لیں۔تین سو فرانک کا منافع تھا۔اُس عورت کو نہ جانے آدم میں کیا بات نظر آئی۔آدم کو کہنے لگی ، ’’رَہتے کہاں ہو‘‘۔ آدم نے جواب دِیا، "BELLEVILLE”(بیل ول) ۔ متجسس اَنداز میں
پوچھنے لگی، ’’اَکیلے رَہتے ہو یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔
آدم نے کہا، ’’ اَپنے پاکستانی دَوستوں کے ساتھ رَہتا ہوں‘‘۔
وہ محترمہ پوچھنے لگیں، ’’ رَات کو کیا کر رَہے ہو‘‘؟ آدم نے جواب دِیا ، ’’کچھ نہیں۔ یہ تصاویر ، جس آدمی کے لیئے بیچتا ہوںاُس کو حساب کتاب دَونگا‘‘۔ تو کہنے لگی، ’’آج رَات کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ گے‘‘۔ آدم بالکل حیران تھا۔ یہ کیا ہے۔اِس طرح کے وَاقعات مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں پائے جاتے ہیں، ’’اُس نے میرے کندھے پے ہاتھ رَکھا اَور بات چل نکلی‘‘۔ لیکن ہر کوئی تارڑ نہیں ہوتا،کبھی کبھی عطا ء الحق قاسمی صاحب کندھے پے ہاتھ رَکھنی وَالی کو کہہ دِیتے ہیں، ’’معاف کیجئے گا مَیں تارڑ نہیں‘‘۔ آدم عجیب مخمصے میں پڑ گیا اَور اِسی شش و پنج میں اِس نے ہاں کردِی۔ وہ محترمہ تو جیسے ہاں سننے کے اِنتظار میں تھیں، ’’ مَیں تمہیںلینے آجاؤں گی‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی اَیسا مت کیجئے گا۔مَیںآپ کو فون کردَونگا‘‘۔ پھراُس نے مشورہ دِیا، ’’ اَیسا کرنا QUARTIER LATIN (کاخ تی ئیغ لاتاں) آجانا۔ و ُہاں آکر مجھے میرے موبائیل پے فون کر دِینا(اَپنا وزیٹنگ کارڈ تھماتے ہوئے) اَور ہاں اَچھے سے کپڑے پہن کر آنا‘‘۔ آدم کو کچھ سمجھ نہیںآرَہا تھا ۔ وہ اِس محترمہ کو جس کا نام بھی نہیں جانتا تھا خدا حافظ کر کے چلا آیا۔ اِسے وِزیٹنگ کارڈ پے ، اُس کا نام پڑھنے تک خیال تک نہ آیا۔آرین ز سے نکلتے ہی اِس نے CHATALET (شتلے) کی رَاہ لی۔ یہاںاِس کے باس کا آفس تھا۔ اِس نے پہنچتے ہی باس کو ساری تفصیل سمجھائی کہ،’’ ساری تصاویر بِک گئی ہیں‘‘۔ اَپنے حصے کا منافع پاس رَکھا ،باقی اُس کے ہاتھ میں تھما کر چلتا بنا۔ وہ چِلاتا رَہا کہ ،’’کل کا کیا پروگرام ہے‘‘ ۔لیکن آدم نے اِیک نہ سنی اَور گھر کی رَاہ لی۔ گھر پہنچتے ہی اِس نے پہلے سیدھی، پھر اُلٹی دَاڑھی بنائی۔ کئی کوٹ کیئے۔کئی دَفعہ منہ پر ہاتھ پھیرا۔ جب اِسے یقین ہوگیا کہ چہرہ بالکل ملائم ہوگیا ہے،تب اِس نے آفٹر شیو لگایا۔
پیرس رَہتے رَہتے اِسے لباس کی تراش خراش کا کافی علم ہوچکا تھا۔ اِس لیئے اِس نے بہترین COMBINATION (کمبینیشن) پہنا۔ خوبصورت ،پھولدار ٹائی باندھی، شیشے میں کئی دَفعہ دِیکھنے کے بعد اِس نے آخر میں جوتے پہنے۔ آدم کی بڑی بری عادَت تھی۔ وہ مکمل تیاری کے بعد جوتے پہنتا اَور کئی دَفعہ پولش بھی کرنے پڑتے۔ جس کی وَجہ سے اِس کے ہاتھوں سے پولش کی بو آتی۔ پھر وہ صابن سے کئی دَفعہ ہاتھ دَھوتا تب جاکر اِس کی تسلی ہوتی۔ آج بھی بالکل اَیسا ہی ہوا۔ اِس نے جوتے آخر میں پہنے۔ اِنھیں پہننے سے پہلے پولش کیا اِس کے ہاتھ خراب ہوگئے۔ اِس نے کئی دَفعہ ہاتھ دَھوئے تب جاکے کہیں ہاتھوں سے پولش کی بو گئی۔ اِس نے CALVIN KLEIN (کیلون کلائن) کا پرفیوم CK1 (ایک پرفیوم کا نام)سپرے کیا اَور BELLEVILLE (بیل ول)میٹرو سٹیشن کی رَاہ لی۔جمعے کا دِن تھا۔ شام کو میٹرو میں بہت بھیڑ تھی۔ آدم کو یہی فکر تھی کہ کہیں کپڑے خراب نہ ہوجائیں۔ وہ چھوٹے سے نقشے میں QUARTIER LATIN (کاخ تی ئیغ لاتاں) کا نزدِیکی میٹرو سٹاپ دِیکھنے لگا۔یا تو وہ CLUNY LA SORBONNE (کلونی لا سوغبون)اُتر جاتا یا MAUBERT MUTUALITE (موبیخت موتوئیلتے)۔ اِسے MAUBERT MUTUALITE (موبیخت موتوئیلتے) سٹاپ زیادہ بہتر لگا۔ اِس کاپہلا سٹاپ REPUBLIQUE (غیپبلک) تھا ۔یہاں سے اِس نے میٹرو نمبر پانچ لی اَور
GARE D’AUSTERLITZ (گاغ دوستیغ لش) آگیا۔ یہاں سے اِس نے میٹرو نمبر دَس لی اَور اَپنے مطلوبہ سٹاپ پر اُتر گیا۔ MAUBERT MUTUALITE (موبیخت موتوئیلتے) اُترتے ہی اِس نے ٹیلیفون کیبن سے اُس محترمہ کا موبائیل نمبر ملایا۔ آدم اَبھی تک مذاق ہی سمجھ رَہا تھا۔وہ سوچ رَہا تھا اَگر مذاق ہوا تو بہت بڑا مذاق ہوگا۔ وہ اَبھی سوچ ہی رَہا تھا کہ فرنچ اَنداز میں آواز آئی "ALLO” (اَلو)۔ تو آدم نے تعارف کروَاتے ہوئے کہا،’’ مَیں MUTUALITE (موتوئیلیتے) میٹرو سٹیشن کے باہر کھڑا ہوں‘‘۔ دَوسری طرف سے آواز آئی ، ’’ مَیں اَبھی آتی ہوں۔ و ْ ہیں کھڑے رَہنا‘‘۔ چند لمحوںبعد اِیک لمبی کار آدم کے پاس آکر رُکی۔ آدم دِیکھتے ہی پہچان گیا۔ آدم نے گاڑی کے قریب آکر کہا، ’’ BONJOUR (بوںیوغ، یعنی اَچھا دِن مبارک ہو)۔شوفر نے گاڑی سے اُتر کے آدم کے لیئے دَروازہ کھولا۔ آدم دَروازہ کھلتے ہی گاڑی میں بیٹھ
گیا۔ دَونوں نے اِیک دوسرے کا حال اَحوال پوچھا۔ گاڑی دَو گلیاں گھوم کر
QUAI DE LA TOURNELLE (کے دا لا تغ نیل) میں دَاخل ہوئی۔ شوفر نے گاڑی سے اُتر کر دَوبارَہ دَروازہ کھولا۔ وہ محترمہ گاڑی سے باہر نکلیں اَور اِس کے بعد آدم بھی گاڑی سے باہر نکلا۔ شوفر گاڑی پارک کرنے چلا گیا اَور یہ دَونوں LA TOUR D’ARGENT (لا تْغ داغ یاں، پیرس کا اِیک اِنتہائی مہنگا ریستوران)کے سامنے کھڑے تھے۔ریستوران کے دَربان نے دَونوں کے لیئے دَروازہ کھولا۔
LA TOUR D’ARGENT (لا تْغ داغ یاں) پیرس کے پرانے ریستورانوں میں سے اِیک ہے۔ اِ س کی بنیاد بہت پہلے رَکھی گئی تھی۔ آجکل اِس کا مالک اِیک نجیف و شریف آدمی CLAUDE TERRAIL (کلا تیغائی)ہے۔ یہ پیرس کا مہنگا ترین ریستوران ہے۔ اِس میں اِیک آدمی یا گاہک کا کم از کم بل کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے اَور آدم جیسا شخص اِس طرح کے ریستورنٹ میں کھانا کھانا تو کیا دَاخل ہونے بھی تصور نہیں کرسکتا تھا۔
یہ دَونوں اِیک کونے میں جاکر بیٹھ گئے۔ جہاں اِن کے لیئے ٹیبل رِیزرو تھی۔ محترمہ نے سکوت توڑا۔ بڑے معذرت وَالے انداز میں کہنے لگی، ’’معاف کرنامَیںتمہارا نام پوچھنا بھول گئی تھی۔ کیا نام ہے تمہارا‘‘؟آدم نے کہا، ’’میرا نام آدم خان چغتائی ہے ۔ آپ مجھے آدم کہہ سکتی ہیں اَور آپ کا نام‘‘؟محترمہ، ’’میرا نام ANNA MARIE AROUET DE LA FONTAIN (آنا ماغی آغوئیت دا لا فونتین) ہے تم مجھے آنا بھی کہہ سکتے ہو‘‘۔
آدم سارا وَقت مہبوت ہوکر ریستوران میںآتے جاتے لوگوں کو دِیکھتا رَہا۔ اِس نے اِتنا اَچھا ماحول کبھی نہیں دِیکھا تھا۔وہ موازنہ کرنے لگا، کہاں پساج براڈی تھا اَور کہاں
LA TOUR D’ARGENT (لا تْغ داغ یاں)۔ پساج براڈی میں دَاخل ہوتے ہی نتھنوں میں مصالحوں کے بھبھوکے دَاخل ہونے شروع ہوجاتے ۔ نشے سے چور نشئی پساج کے آغاز میں بیٹھے ہوتے۔ آواز لگانے وَالے اَور سب سے بڑی رَونق پساج براڈی کے چوہے۔وہ اِس طرح پساج میں دَندناتے پھرتے جیسے کسی غیرقانونی طور پے مقیم شخص کو قانونی طور پے رَہنے کا اِجازت نامہ مل جائے تووہ پیرس میں سینہ تان کے چلتا ہے۔ اَور اِیک یہ ریستوران تھا،LA TOUR D’ARGENT (لا تْغ داغ یاں)، اِتنی خاموشی کہ سوئی گرنے کی آواز بھی صاف سنائی دِے اَور صفائی ستھرائی میں اَپنی مثال آپ تھا۔ ۔ہلکی ہلکی موسیقی ماحول کو اَور زیادہ مسحور کن بنا رَہی تھی۔
آنا کا خاندان فرانس کے اَمیر ترین خاندانوں میں سے اِیک تھا۔ وہ یہودِیوں کے اَمیر ترین طبقے سے تعلق رَکھتی تھی۔ اِس نے جوانی کی منزلوں کو چھوتے ہی پَر پُر زے نکالنے شروع کر دِیئے تھی۔ لیکن مسلمانوں کی طرح یہودی بھی نہ تو آسانی سے مذھب بدلتے ہیں، نہ ہی اِن کی لڑکیاں، پارسیوں اَور اِسماعیلوں کی طرح کسی دَوسرے مذھب اَور فرقے کے لڑکے سے شادی کرتی ہیں۔یہودیوں کی لڑکیاں بھی شادی سے پہلے کسی مرد کے بستر تک نہیں جاتیں۔اِن کے ہاں بھی سہاگ رات کے بعد چادر کی جانچ کی جاتی ہے کہ لڑکی کنواری تھی یا نہیں۔ اِس لیئے خون کے دَھبے دِیکھنے کے لیئے سفید چادر بچھائی جاتی ہے۔اَور یہودیوں اَپنے ہم پلہ لوگوں میں ہی شادی کرنا پسند کرتے ہیں۔
دَوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر نے یہودِیوں کی دَولت ے قبضہ جمانے کے لیئے د ُنیا بھر میں مظالم ڈھائے۔ جس کی وَجہ سے د ُ نیا بھر میں یہودیوں کومصیبتیں اُٹھانی پڑیں۔اِنھیں میں سے اِیک خاندان آنا کا بھی تھا۔ جیسے ہی وہ جوان ہوئی ۔ اِس کے خاندان وَالوں نے مختلف تقریبات میںاَپنے ہم پلہ خاندان کے لڑکوں سے اِس کا تعارف کروَانا شروع کردِیا۔لیکن اِسے کوئی بھی لڑکا پسند نہ آیا۔اِس کے اَندر آہستہ آہستہ بغاوت کا بیج پنپ رَہا تھا۔جس نے رَنگ دِکھایا اَور اِس نے MONTMARTE (موں ماخت) کے غریب فنکار سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔لیکن آنا بزرگوں کے ہاتھ بہت لمبے تھے۔ اُنھوں نے اُس فنکار کو نہ جانے کیا لالچ دِیا کہ وہ فنکار و ُ ہاں سے رَاتوں رَات غائب ہوگیا۔ اِس وَاقعے کے بعد آنا نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اِس کے وَالدین یہی دُ کھ لے کر اِس د ُ نیا سے چل بسے اَور اَپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد آنا کے نام کر گئے۔ اَ ب جب بھی اِس کی دوکان پے مصوری کے متعلق کوئی بھی شخص آتا خواہ وہ عورت ہو یا مرد، وہ اُسے مایوس نہ لوٹاتی۔اِنھیں میں سے اِیک آدم بھی تھا۔
آدم نے آنا کی کہانی سننے کے بعد اَپنی رَام کتھا بھی سچ سچ بتادِی۔ آنا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔کہنے لگی، ’’یہودیوں کی HOLOCAUST (ہولوکاسٹ)کو میں بہت بڑا دُکھ سمجھتی تھی۔پھر ہیروشیما اَور ناگاساکا دُ کھ تھا۔لیکن د ُنیا میں دُکھ اَبھی ختم نہیں ہوا۔ اَب یہ رَوٹی کا دُکھ۔ تم صرف اِس لیئے فرانس میں چھوٹے چھوٹے کام کرتے رَہے ہو کیونکہ پاکستان کے معاشی حالت مضبوط نہیں۔ و ُہاں پر زیادہ تر ڈکٹیٹر شپ رَہتی ہے۔ سیاسی ڈھانچہ کمزور ہے۔ تمہیں پتا ہے آدم ، کمپوچیاء میں لوگ اَپنے بچوں کوبیچ دِیتے ہیں۔ صرف پیسوں کی خاطر‘‘۔ آدم نے کہا،’’یہ کون سی عجیب بات ہے، ہر سال متحدہ عرب عمارات کے شیخ سندھ اَور بہاولپور کے مختلف علاقوں سے چھوٹے چھوٹے بچے
خریدکرلے جاتے ہیں۔پھر اِنھیںرَسیوں سے اُونٹ کے اُوپر باندھ کر اُونٹوں کی دَوڑ کرواتے ہیں۔جیسے جیسے بچے کی چیخوں کی آواز اُونٹ سنتا ہے۔اُس کی رَفتار اَور تیز ہوجاتی ہے۔یہ دَوڑ عرب شیوخ کو بہت بھاتی ہے۔اَور کئی دَفعہ ڈر اَور خوف سے بچوں کی موت بھی وَاقع ہوجاتی ہے‘‘۔ دَونوں نے رَوتے ہوئے LA TOUR D’ARGENT (لا تْغ داغ یاں)چھوڑا۔آنا ریستوران سے باہر نکلتے ہوئے کہنے لگی، ’’آدم آج رَات میرے ساتھ گھر چلو، مَیںبالکل اَکیلی رَہتی ہوں۔ اِتنابڑا گھر ہے‘‘۔ آدم اِنکار نہ کرسکا۔
دَونوں گاڑی کے قریب آئے۔شوفر نے دَروازہ کھولا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی آنا نے آہستگی سے آدم کا ہاتھ پکڑا اَور سہلانے لگی۔آدم کو تھوڑی دِیر کے لیئے اِس طرح محسوس ہوا جیسے وہ MALE ESCORT (میل ایسکورٹ، جِگلو، یعنی اَیسا مرد جو پیسے لے کر عورتوں سے مباشرت و مجامعت کرے) یا GIGOLO (جِگلو) ہے۔ گاڑی دریائے سین کے کنارے چلتی چلتی پیرس سے باہر آگئی۔آدم کو تختیاں پڑھنے کی کوئی ہوش نہیں تھی۔وہ بڑا حیران تھا کہ کیا ہورَہا تھا۔گاڑی شہر کے اِنتہائی سرسبز علاقے سے گزرنا شروع ہوئی۔ وَقفے وَقفے سے گھر آتے پھر سبزہ شروع ہوجاتا۔ آخرکار گاڑی اِیک اِنتہائی خوبصورت گھر کے سامنے رُکی۔ شوفر نے رِیموٹ کنٹرول سے گھر کا مِین گیٹ کھولا۔ جو کے بہت ہی مضبوط لوہے کا بنا ہوا تھا۔ اَور اِس کے سنہرے ہینڈل گاڑی کی ہیڈلائٹوں سے جگمگا اُٹھے۔گاڑی اَندر دَاخل ہوگئی۔ گھر دَاخل ہوتے ہی آنا نے سکھ کا سانس لیا۔آدم کو ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کوکہا۔ آنا نے آدم سے پوچھا، ’’تم شراب نہیں پیتے،کوئی اَور چیز پیش کروں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ مَیں نے خوب سَیر ہوکر کھایا ہے۔اِس لیئے اَب مزید گنجائش نہیں۔۔ کافی دِیر تک دَونوں باتیں کرتے رَہے۔پھر آنا ، شاوَر لینے چلی گئی۔ آدم ہونقوں کی طرح ڈرائنگ روم میں بیٹھا رَہا۔آنا جب نہا کر آئی تو ڈھیلے ڈھالے لباس میں بہت اچھی لگ رَہی تھی۔اِس نے آد م سے کہا، ’’تم بھی شاور لے لو‘‘۔ اِس کے ہاتھ میںسلیپنگ سوٹ اَور گاؤن تھما تے ہوئے کہا، ’’مردوں کا وَاش روم اُس طرف ہے۔ اُس میں تولیہ اَور حلال صابن رَکھ دِیا ہے۔کیونکہ تم مسلمان ہو۔ اِس لیئے مَیں نے اِن چیزوں کی اِحتیاط برتی ہے‘‘۔
آدم بڑا حیران ہواکہ صابن بھی حلال و حرام ہوا کرتا ہے۔وہ کٹھ پتلی کی طرح اِس کی بات مان رَہا تھا۔ وہ نہانے چلا گیا۔ کافی دِیر تک وہ گرم پانی اَپنے جسم پے گراتا رَہا۔ جب اِس کا جی بھر گیا اَور وہ اَپنے اِس عمل سے اُکتاء گیا تو وہ تولیئے سے جسم کو سکھانے کی کوشش کرنے لگا۔ جب اِس کو یقین ہوچلا کہ جسم اَب خشک ہوگیا ہے تو اِس نے سلیپنگ سوٹ پہنا اَور اُس پے گاؤن پہن کر وَاش رَوم سے باہر آگیا۔ آنا شاید اِسی اِنتظار میں تھی کہ آدم نہا کر وَاش رَوم سے باہر نکلے ۔ وہ جیسے ہی واش روم سے باہر نکلا وہ اِس کا ہاتھ پکڑ کر اَپنے سونے کے کمرے میں لے گئی۔ اِسے نجمہ بیگم یاد آگئی۔ وہ بھی بالکل اِسی طرح کرتی تھی۔ نجمہ بیگم اِتنی اَمیرزادی تو نہ تھی لیکن تریا چلتر تو پوری د ُنیا میں اِیک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ آدم سمجھ گیا تھا کہ کیا ہونے وَالا ہے۔ جس سونے کے کمرے میںوہ آدم کو ساتھ لے کر آئی تھی۔آدم بستر اَور اِس کے آس پاس لگے ہوئے پردے دِیکھ کر حیران رَہ گیا۔ جو پردے کھڑکیوں پے لگے ہوئے تھے وہ اِس سے بھی زیادہ شاندار تھے۔ ہلکی ہلکی رَوشنی تھی۔اِسے بالکل اَیسا لگا جیسے وہ طلسمِ ہوشرباء کی کوئی کہانی پڑھ رَہا ہو۔آنا نے آدم کے گاؤن کی رَسی یا آپ تھوڑا رومینٹک اَنداز میں اِسے ڈوری کہہ لیجئے کھولی اَور اَپنی بانہیں اِس کی گردن کے گرد حمائل کرکے اَپنے دَونوں ہونٹ آدم کے ہونٹوں پے پیوست کردِیئے۔ دَونوں نے اِس زَور سے فرنچ کسنگ کی کہ دَونوں کے ہونٹ خشک ہوگئے۔ کسنگ کرتے کرتے دَونوں بستر پے آگئے۔ آدم نے آہستہ آہستہ آنا کے سلکی شب خابی لباس کے بٹن کھولنے شروع کیئے۔ جیسے ہی تمام بٹن کھلے آدم کے سامنے اِیک منظر تھا جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ ساری رَات آدم اَور حوا اَپنا کھیل کھیلتے رَہے۔آدم اَور آنا کو اَیسے لگا جیسے ،اِسلام اَور یہودیت میں دَائمی دْشمنی ختم ہوگئی ہو اَور دَونوں آپس میں گھل مل گئے ہوں۔
٭
ناشتہ کرنے کے بعد آدم نے آنا سے اِجازت چاہی۔ آنا نے کہا، ’’تم فکر نہ کرو تمہیں میرا شوفر چھوڑ آئے گا‘‘۔جیسے ہی آدم اُٹھنے لگا، آنا نے اِس کے ہاتھ میں سفید لفافہ تھمادِیا اَور منع کیا کہ اِسے کھولنا مت۔ لیکن آدم کو تجسس تھا۔اِس نے لفافے کو ٹٹولا۔ اِس میں رُقعہ نہیں بلکہ فرنچ فرانکس تھے۔ آدم نے لفافہ وَاپس کردِیا۔آنا کہنے لگی، ’’مَیںتمہارے جذبات سمجھتی ہوںلیکن یہ تمہارا معاوَضہ نہیںبلکہ مَیں اَپنی خوشی سے دِے رَہی ہوں‘‘۔ اُس کے مجبور کرنے کے باوجود آدم نے پیسے نہ لیئے۔ آنا کہنے لگی، ’’اَچھا ٹھیک ہے، مت لو،لیکن پھر کب ملو گے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جب آپ چاہیں‘‘۔ ا ِس نے آنا کو اِیک بھرپور کِس کیا اَور و ُہاں سے چلتا بنا۔ آنا کا شوفر اِسے BELLEVILLE (بیل ول ) میٹرو سٹیشن کے پاس چھوڑ کر چلا گیا۔
٭
گو کہ اِس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا لیکن وہ اَپنے تئیں سوچ رَہا تھا جیسے اِس نے کوئی غیر فطری عمل کیا ہو۔ داؤد اَور بٹ صاحب کو اِس نے فون نہیں کیا تھا کہ وہ رات کو نہیںآئے گا۔ اِس کے ذِہن میں یہی تھا کہ اِنھیں کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔دَونوں وِیک اینڈپے بہت مصروف ہوتے ہیں۔اُن کے پاس سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی۔آدم جیسے ہی گھر میں دَاخل ہوا۔داؤد ریستوران جانے کی تیاری کررَہا تھا۔آم کو دِیکھتے ہی اُس نے خدا کا شکر ادا کیا، ’’آدم کہاں تھے یار، ساری رات پریشان رَہا، کم اَز کم فون کردِیتے۔ مَیں یہی سوچ رَہا تھا شاید تمہیں پولیس پکڑ کر لے گئی اَور یہی ڈر تھا کہ ڈیپورٹ نہ کردِیں‘‘۔ آدم نے کہا،’’یار مَیںنے سوچا تم کچن میں مصروف ہوگے ۔ریستوران پے جمعے وَالے دِن گاہکوں کی بھیڑ ہوتی ہے اَور تمہیں تو پتا ہے بٹ صاحب فون رَسیو کرتے ہیں۔اُلٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں۔ وَیسے کوئی خطرے کی بات نہیں۔مَیںتمہیںساری کہانی سناؤں گا‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’ہاں ہاں ٹھیک ہے اِس وَقت میں بھی ذرا جلدی میں ہوںاَور جب اَیسا مسئلہ ہو تو فون کردِیا کرو۔ ریستوران کا مالک مَیں ہوںبٹ نہیں۔مَیں تو مَیری کو طلاق دِینے کے بعد بٹ کے چنگل سے آزادہوجاؤں گا‘‘۔ آدم کو بڑ ی حیرت ہوئی کہ داؤد ، بٹ صاحب کے خلاف بات کررَہا تھا۔داؤد نے آدم سے کہا، ’’مَیںتم سے تفصیل کے ساتھ بعد میں بات کروںگا۔ ہفتے وَالے دِن رَش زیادہ ہوتا ہے۔اِس لیئے مَیں جارَہا ہوں‘‘۔آدم ، دادؤ سے تھوڑا ناراض تھا لیکن جیسے ہی اِسے محسوس ہوا ،داؤد پریشان ہے تو وہ ساری ناراضگی بھول گیااَور اِس نے عہد کرلیا کہ وہ داؤد کی مدد ضرور کرے گا۔ اَگر کرسکا تو۔
٭
سردی ہو یا گرمی، آندھی آئے یا طوفان۔ آدم کے پاس کام ہو یا نہ ہو، لیکن اِسے ہر ماہ پاکستان اَپنے وَالد صاحب ، سوتیلی ماں اَور سوتیلے بہن بھائیوں کو رَقم ضرور بھیجنی پڑتی۔وہ
CHAMPS ELYSEES (شانزے لیزے) شاہراہ پے وَاقع نیشنل بینک آف پاکستان سے باقاعدگی سے پیسے بھیجتا۔اِسی شاہراہ پر پاکستان کی ایمبیسی وَاقع ہے۔کہتے ہیںلیاقت علی خان کا گھر تھااُنھوں نے بطور تحفہ دِیا تھا اِس میں کہاں تک سچائی ہے کوئی نہیں جانتا۔
٭
آدم کا آج کام کرنے کوبالکل دِل نہیں چاہ رَہا تھا لیکن وہ پھر بھی نکل کھڑا ہوا۔ CHATALET LES HALLES (شتلے لے ہال) کے پاس اِس کے باس کا آفس تھا۔ یہاں سے آدم تصاویر اُٹھاتا اَور شام کو یہیں آکر حساب دِیتا۔آدم نے چند تصاویر لیں اَور اَپنی قسمت آزمانے نکل کھڑا ہوا۔لیکن آج اِسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ کام سے وَاپسی پر جب وہ BELLEVILLE (بیل ول) میٹرو سٹاپ پے پہنچا تو و ُہا ں سخت چیکنگ ہورَہی تھی۔ عام طور پے پہلے سے ہی پتا چل جاتا تھا لیکن آج بالکل پتا نہ چلا۔ میٹرو میں لوگ باتیں کررَہے تھے کہ پیرس میں دَو بومب کے دَھماکے ہوئے ہیں۔ اِس لیئے چیکنگ ہورَہی ہے۔ آدم کئی دَفعہ چیک ہوچکا تھا۔ اِس کے پاس اٹالین CARTA D’IDENTITA (کارتا دی ایدنتیتا) تھا۔اِس لیئے وہ بنا خوف کے باہر آگیا۔ ہمیشہ کارڈ دِیکھ کر چھوڑ دِیا کرتے لیکن آج اَیسا نہ ہوا۔ اُنھوں نے کارڈ دِیکھا اَور اِسے علیحدہ کھڑا کر دِیا۔بعد میں ساتھ لے گئے۔ اُنھوں نے کمپیوٹر میں کارڈ چیک کیا۔جعلی نکلا۔آدم کو پندرہ دِن کے اَندر اَندر پیرس بلکہ فرانس چھوڑنے کا حکم ملا۔ SORTIE LETTRE (سوختی لیت خ، یعنی ملک بدری کا حکم نامہ جاری ہونا)ملتے ہی اِس کے پاؤں تلے زَمین نکل گئی۔اَب کیاکرے۔ بڑی مشکل سے وہ دِل لگا پایا تھا۔ اِسے پیرس سے عشق ہو چکا تھا۔ پیرس کے ریستوران، عجائب گھر، MONTMARTE (موں مارخت) CHATALET LES HALLES (شتلے لے ہال) CENTRE GOEORGE POMPIDOU (سانت خ یوغ ج پومپیدو) CHAMPS ELYSEES (شانزے لیزے) FNAC MUSIC SHOP (موسیقی سے متعلق دوکان فنیک)، وہ کیسے چھوڑ سکتا تھا۔
پیرس کے ادیب، ڈرامہ نگار، شاعر، مصور، مجسمہ ساز، DISCOTHEQUES (ڈسکوتھیک) کیبرے، فیشن، ،پرفیومز، وَائنز اَور سب سے بڑھ کے پیرس کی میٹرو۔ بالکل بھو ل بھلیوںکی طرح تھی۔اِسے اِس بات کا ڈرنہیں تھا کہ وہ ڈیپورٹ ہوگیا تو پاکستان میں بھوکوں مر جائے گا۔پریشانی تو اِس بات کی تھی کہ وہ پیرس کا عادی ہوچکا تھا۔اِسے اِیک عجیب سا نشہ محسوس ہوتاپیرس میں۔ یہ بات پیرس وَالوں کو یا فرنچ حکومت کو تھوڑی ہی پتا تھی کہ جب کسی کو کسی شہر سے عشق ہوجائے تو اُس کے لیئے اُس شہر کو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔پیسہ اِس کی معراج و منزل نہیںتھا۔وَرنہ وہ آنا سے ڈھیروں پیسہ بٹور سکتا تھا۔لیکن و ُہی ضمیر کامسئلہ آڑے آتا ۔ پہلے اِس نے سوچا آنا کو فون کرے، پھر سوچا تاکنپ کو، لیکن اِس کا دِل نہ مانا اَور وہ گھر چلا آیا۔ہفتے کی رَات داؤد کافی دِیر سے گھر آتا۔
گھر پہنچ کر اِس نے تاکنپ کو فون کیا ۔ وہ بہت خوش ہوئی کہ آدم نے اُسے یاد کیا۔کہنے لگی، ’’آدم ،کیسے فون کیا۔ کام کیسا جارَہا ہے‘‘۔ آدم اِس کے اِن سوالوں کے جواب دِینے کے موڈ میں بالکل نہیں تھا۔ آدم نے کہا، ’’کل اَگر تم فارغ ہو تو اَکٹھے پیرس کی سیر کو چلتے ہیں‘‘ ۔کہنے لگی، ’’مَیں تو بالکل فارغ ہوں۔ کل ملتے ہیںو ُہیں پرانی جگہ ،پومپیدو خدا حافظ‘‘ ۔اَور تاکنپ نے فون رَکھ دِیا۔
٭
آدم وَقت مقررہ پے پومپیدو سنٹر پہنچ گیا۔ تاکنپ پہلے ہی و ُ ہاں موجود تھی۔ آدم نے ملتے ہی کہا، ’’آج مَیںبالکل سیر و تفریح کے موڈمیں ہوں۔پہلے ہم NOTRE DAME DE PARIS (نوتخ دام دا پاغی) اَور ٹور اِیفل دِیکھنے چلیں گے ‘‘۔ تاکنپ کہنے لگی ،’’مجھے کوئی اِعتراض نہیں۔ یہاں سے پیدل کا ہی رَاستہ ہے‘‘۔ دَونوں نے چلتے چلتے RUE DI RIVOLI (غیو دی غیوولی) طے کیا۔باتوں باتوں میں وہ QUAI DEL’HOTLE DE VILLE (کے دا لا اوتیل دا ول)پے آگئے۔اِنھوں نے نوٹخ دَام کے پل کو پار کیا اَور ILE DE LA CITE (ال دا لا ستے) میں دَاخل ہوگئے۔پیرس میں دَو چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ اِیک کا نام
ILE DE LA CITE (ال دا لا ستے) ہے اَور دَوسرے کا ILE ST, LOUIS (ال سینت لوئی) ہے۔ ILE DE LA CITE (ال دا لا ستے)میں پیرس کا بلکہ د ُ نیا کا مشہور ترین گرجا گھر ہے۔ "NOTRE DAME ” (نوتخ دَام) ۔اِس کی شہرت اِتنی زیادہ ہے کہ اِس پر کئی اِیک کتابیںاَور ناول لکھے جا چکے ہیں۔سب سے مشہور ناول
NOTRE DAME DI PARIS (نوتخ دَام دِی پاغی) ، فرانس کے مشہور ناول نگار VICOTR HUGO (وِکٹر ہیگو)نے لکھا تھا اَور اِس پر نہ صرف اِیک فلم بنی بلکہ اِس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ بھی اِسی چرچ کے اَندر کی گئی۔ NOTRE DAME,HAGIA SOFIA, HOLY SPIRIT یہ اِیک ہی چیز کے مختلف زبانوں میںنام ہیں۔یعنی بی بی مریم۔ اِس گرجا گھرکی بنیاد ۱۱۶۳ میں رَکھی گئی۔ ۱۷۰ اِیک سو ستر سال کی کہنہ مشق محنت سے یہ گرجا گھر مکمل ہوا۔۱۵۷۲ میں MARGUERITE DI VALOIS (مارگریٹ دی والوآ) اَور HENRY DI NAVARA (ہنری دی ناوارا) کی شادی کی تقریبات اِسی چرچ میں ہوئیں۔ ۱۷۰۸ میں LOUIS XIV (لوئی چہاردھم )نے اِس چرچ میں مزید تبدیلیاں کروَائیں۔۱۸۰۴ میں نیپولیئن کی تاج پوشی بھی اِسی چرچ میں کی گئی۔۱۹۴۴ میں دَوسری جنگِ عظیم کے بعد پیرس کی آزادی کی تقریبات بھی نوتخ دَام میں منعقد کی گئیں۔۱۹۷۰ میں فرانس کے جنرل چارلس ڈیگال کا جنازہ اِسی گرجا گھر میں لایا گیا۔متوفی کی تمام رَسومات یہیں اداکی گئیں۔
وَیسے تو سارا گرجا ہی دِیکھنے لائق ہے لیکن اِس میں
ROMANESQUE GOTHIC (رومنسق گوتھک)آرٹ کا نادر نمونہ اِس کی دَو گول کھڑکیاں ہیں۔جنھیں ROSE SOUTH ,ROSE NORTH (شمالی گلاب، جنوبی گلاب)کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
آدم اَور تاکنپ اَپنے اَپنے اَنداز سے نوٹر دَام کو دِیکھ رَہے تھے۔ آدم نے حسبِ عادَت جو بھی کتابچے ملے اُٹھالیئے۔ دَونوں کو بھوک لگ رَہی تھی۔دَونوں آس پاس ڈونر کباب ڈھونڈنے لگے۔تاکنپ نے کہا، ’’کھانے کے بعد اِیفل ٹاور دِیکھنے چلیںگے‘‘۔ آدم کا بھی یہی خیال تھا۔وہ یہ پندرہ دِن بنا کام کیئے سیر و تفریح میں گزار دِے گا۔وہ اَپنی تشنگی مٹائے گا۔ جتنے بھی قابلِ ذِکر مقامات ہیں وہ دِیکھے گا۔ پھر اَگر وہ وَاپس بھی چلا گیا تو اِسے کوئی دُکھ نہیں ہوگا۔آدم اَور تاکنپ نے دَو ڈونر لیئے اَور کھانے کے بعد باغ میں آکے سَستانے لگے۔ یہ باغ پیرس کا زِیرو پوئنٹ ہے ۔آدم کو اِسلام آباد کا زیرو پوئنٹ یاد آگیا۔ پیرس کے مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب، کے تمام رَاستے اِسی زیرو پوئنٹ سے ماپے جاتے ہیں۔جیسے ہی دَونوں باغ میں سَستانے کے لیئے لیٹے،دَونوں کی آنکھ لگ گئی۔اَبھی تھوڑی دِیر ہی سوئے ہوں گے کہ دَوبارہ آنکھ کھل گئی۔ اَیسا لگا جیسے چند لمحے کے لیئے سوئے ہیں۔گھڑی پے وَقت دِیکھا تو پانچ بج چکے تھے۔
دَونوں نے کپڑے جھاڑے اَور جلدی جلدی میٹرو سٹاپ پے آئے۔ اِنھوں نے چار نمبر میٹرو لی اَور موں پاغناس (Montparnasse) آگئے۔ یہاں سے وہ چھ نمبر میٹروکی
CHARLES DE GAULLE ETOILE (چارلس ڈیگال اے توآل) وَالی ڈائرکشن پر بیٹھ گئے۔جیسے ہی CHAMP DE MARS, TOUR EIFFEL (شاں دی ماغس، توغ ایفل) کا سٹاپ آیا دَونوں میٹرو سے نکل کر تیز تیز چلتے سوختی، یعنی باہر آنے کے رَاستے سے باہر آگئے۔
TOUR EIFFEL ,EIFFEL TOWER (توغ ایفل ،ائیفل ٹاور ) جو بھی کہہ لیجئے،فرانس کے مشہور فنِ تعمیر کے ماہر
ALEXANDRE GUSTUVE EIFFEL (الیگزاندغ گستف ایفل) نے ۱۸۸۹ میں ہونے وَالی سالانہ نمائش کے لیئے تخلیق کیا تھا۔اِس کی تعمیر کا آغاز ۱۵ مارچ ۱۸۸۸ میں ہوا۔ اِس کی پہلی منزل ۱۵ ستمبر ۱۸۸۸ میں مکمل ہوئی دَوسری منزل ۲۵ دسمبر ۱۸۸۸ میں مکمل ہوئی۔ ۱۲ مارچ ۱۸۸۹ میں یہ مکمل طور پر تعمیر ہوچکا تھا۔ اِس کی تین منزلیںہیں۔ پہلی منزل ۳۳۔۵۷ میٹر بلند ہے۔دَوسری ۷۳۔۱۱۵ میٹر بلند ہے اَور آخری ۱۳۔۲۷۶میٹر بلند ہے۔آپ دَوسری منزل تک لفٹ کے ذَریعے یا چاہیں تو سیڑھیوں کے ذریعے جاسکتے ہیں۔لفٹ کا کرایہ زیادہ اَور سیڑھیوں کا کرایہ کم ہے ۔سات سو سیڑھیاں طے کرنے کے بعد آپ دَوسری منزل پے پہنچ جاتے ہیں اَور ہر سیڑھی پر اِیفل ٹاور اِیک نیا منظر پیش کرتا ہے۔ آپ اِس طرح کہہ سکتے ہیں کہ سیڑھیوں کے رَاستے اُوپر جاتے ہوئے آپ سات سو مختلف مناظر دِیکھتے ہیں۔
پہلی منزل پے ڈاکخانہ ہے۔دَوسری منزل JULES VERNE (جولز ویغن) نامی ریستوران ہے۔آخری منزل کی اُونچائی ۲۷۶ میٹر ہے۔و ُ ہاں آٹھ سو اَفراز اِیک وَقت میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔ GUSTAUVE EIFFEL (گستف ایفل ) کو ۱۸۸۹ کی سالانہ نمائش میں پہلا اِنعام ملا۔جسے فرانس میں LEGEND D’HONOUR (لیجاں دا ہونغ، یعنی فرانس کا سب سے بڑا سرکاری اعزاز)۔ فرانس کے مشہورعشقیہ شاعر PAUL VERLAIN (پال ویغلین) نے اِسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
لوہے کے اِس دِیو ہیکل مینار میںتقریبا ً ۲۵ ملین کیلیں لگی ہوئی ہیں، یعنی دَو کروڑ پچاس لاکھ کیلیں،جنھیںعرفِ عام میں رِو وَٹ (rivet) کہا جاتا ہے۔
آدم یہ تمام تفصیل پڑھ کر بڑا حیران ہوا۔ کہ بنا بولٹ اَور نٹ کے اُنھوں نے یہ مینار کھڑا کردِیا۔ جبکہ اِیک کیل(RIVET کو لگانے کے لیئے چار چار آدمیوں کی ضرورت پڑی۔ جیسے جیسے اُونچائی بڑھتی گئی مزدَورَوں کی مشکلات دَرپیش آتی گئیں۔
آدم اَور تاکنپ کو سیر و تفریح کرتے کرتے کافی دِیر ہوچکی تھی اَور جوں جوں اَندھیرا بڑھتا جارَہا تھاسیاحوں کی بھیڑ بڑھتی جارَہی تھی۔آدم نے کہا،’’ اَب چلنا چاہئے ‘‘۔اَور دَونوں نے گھر کی رَاہ لی۔
٭
سوموار وَالے دِن داؤد کا ریستوران بند ہوتا۔اتوار کو داؤد اَور آدم کی ملاقات ہوئی تھی۔ آدم کے سوختی لتخ یعنی ملک بدری کے حکم نامے کے بارے میں داؤد کو کچھ پتا نہیں تھا۔نہ ہی داؤد اَور بٹ کی سرد جنگ کا آدم کو کوئی علم تھا۔
اتوار کی رَات کو کام ختم کر کے بٹ اَپنی معشوقہ کے پاس چلا جاتا۔ اِس لیئے آج دَونوں اَکیلے تھے۔صبح داؤد نے کروٹ بدلتے ہوئے پوچھا، ’’آدم سورَہے ہو‘‘۔آدم نے جواب دِیا، ’’ہاں سو رَہاہوں‘‘۔ داؤد نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا، ’’کمال ہے سو بھی رَہے ہو اَور جواب بھی دِے رَہے ہو‘‘۔آدم نے کہا،’’تمہیں نہیں پتا د ُنیا کتنی ترقی کر چکی ہے‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’مذاق چھوڑو، مَیں نے تم سے ضروری باتیں کرنی ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’کیوں نیا پاکستان بنانے کی سوچ رَہے ہو‘‘۔’’وہ تو پہلے ہی جناح نے بنادِیا ہے۔ اَچھا خیر مذاق چھوڑو‘‘،داؤد نے کہا۔آدم نے کہا، ’’اَچھا بولو‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’پہلے ناشتہ کرلیں،پھر بات کرتے ہیں‘‘۔آدم نے کہا، ’’جیسے تمہاری مرضی‘‘۔
دَونوں نے اُٹھ کر ہاتھ منہ دَھویا اَور ناشتہ تیارکرنے لگے۔ اَور ساتھ ساتھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ ناشتے کے دَوران آخرکار داؤد اَصل موضوع کی طرف آیا۔وہ بولا، ’’میری بات غور سے سنوآدم! ۔۔۔۔جیسا کہ تمہیں پتا ہے مَیں نے اَور بٹ نے مل کر ریستوران ٹھیکے پر لیا تھا۔ جیسے ہی مجھے کاغذات ملے، ریستوران میرے نام کردِیاگیا۔جب ہم نے ریستوران شروع کیا تھا۔ ہم دَونوںنے اَپنی اَپنی تنخواہ دَس دَس ہزار فرانک فی کس مقرر کی تھی۔ اِس کے علاوہ جو منافع ہوگا آدھا آدھا۔
اِس میں ریستوران کا کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں، اکاؤنٹنٹ کی فیس مختلف اَقسام کے ٹیکسسز،ریستوران کے لیئے جو خرید و فروخت کی جاتی ہے وہ اَلگ۔ اِس کے علاوہ مَیں مَیری کو ماہوار قسط بھی دِیتا ہوں۔ جب تک دَو سال مکمل نہیں ہوجاتے مَیں اُسے طلاق بھی نہیں دِے سکتااَور جب تک طلاق نہیںہوگی، کاغذ چھن جانے کی تلوار لٹکتی رَہے گی۔ جب تک یہ معاملہ رَفعہ دَفعہ نہیں ہوتااُس وَقت تک بٹ کی ہربات مجھے ماننی پڑے گی۔کیونکہ، مَیری کا کنٹرول بٹ کے ہاتھ میں ہے۔وہ اُس کی ہربات مانتی ہے۔ جب سے ہم نے ریستوران کاآغاز کیا ہے۔ ریستوران کا حساب کتاب بٹ کے پاس ہوتا ہے۔ مَیں جب بھی پوچھتا ہوں بٹ جھاڑدِیتا ہے۔شروع سے لے کر آخر تک اَپنے تمام اِحسانوں کی تفصیل سنادِیتا ہے۔ جب ہم یہ کام شروع کرنے لگے تھے تو بٹ نے مجھے سختی سے منع کیا تھا کہ کسی کو نہ بتانا، خاص کر آدم کو۔ ریستوران اَچھا خاصہ چلتا ہے۔ کمائی بھی اَچھی ہوتی ہے۔اِ س کے باوجود ہم لوگ قرض دَار ہیں۔ منافع تو دَور کی بات مجھے تنخواہ تک دِیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ اَور تو اَور جب کوئی ، قرض خواہ ریستوران پے آتا ہے تو وہ میرا گریبان پکڑتا ہے کیونکہ ریستوران میرے نام ہے۔ اَگر کوئی قانونی چارہ جوئی ہوگی تو میرے خلاف ہوگی۔بٹ سلیپنگ پارٹنر ہے۔ وہ صاف بچ جائے گا۔لیکن پیسے بٹورنے کے نئے نئے بہانے تلاش کرتا رَہتا ہے۔ وَیسے بھی کیش اُس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کبھی ماں کی بیماری کا بہانہ کرکے پیسے لے جاتا ہے، کبھی گاڑی کی مرمت کے لیئے اَور سارا دِن آگ کے سامنے کھانے میں تیار کرتا ہوں۔ کمپنی کے نام اِیک عدد مکان لے رَکھا ہے۔ و ُہاں ہمارے جیسے پاکستانی بھائی رَہتے ہیں۔ اِن کاکرایہ بھی بٹ اَپنی جیب میں رَکھتا ہے اَور ریستوران کے کھاتے سے گھر کی MORTGAGE (مورگیج)ادا کرتا ہے۔ بٹ کے پاس ہر چیز کے لیئے اِیک معقول وَجہ ہوتی ہے۔اُس کاکہنا ہے یہ گھر بڑے کام کی چیز ہے۔ کل اَگر تمہاری شادی ہوتی ہے ،تو تمہاری بیوی کی امیگریشن کرانے میںآسانی ہوگی ۔ جوکام لوگ دَس دَس سالوں تک نہیں کرسکے وہ تم نے چند سالوں میں کرلو گے۔ وہ تمہاری مثال دِیتا ہے کہ اَپنے دَوست آدم کو ہی دِیکھو۔کوئی کام بھی جی لگا کر نہیں کرتا اَور جب بھی کبھی پاکستان جائے گا خالی ہاتھ جائے گا۔ اَور سب سے ضروری بات، ہماری اَلطاف چچا سے ناراضگی ختم ہوگئی ہے۔میرے چچا کا کاروبار اَب پہلے جیسا نہیںرَہا۔اُنھوں نے ،مارشل لاء دَور میں ٹھیکیداری شروع کی تھی۔ خوب چمکی، لیکن یہ اُوپر تلے حکومتیںبدلنے سے اُن کا کام تقریباً ختم ہوگیا ہے۔اُن کے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ ببلی نے بھی بی اَے کرنے کے بعد اِیک پرائیویٹ سکول میں پڑھانا شروع کردِیا ہے۔اِس کے برعکس میرے وَالد صاحب کا کاروبار خوب چمک گیاہے۔ جس دَوکان کے سامنے وہ پہلے رِیڑھی لگاتے تھے۔ وہ دَوکان اُنھوں نے خرید لی ہے۔مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ یورپ کی طرح و ُ ہاں بھی لیز پے جائیداد ملتی ہے۔خیر تو مَیں تمہیں بتا رَہا تھا۔اَلطاف چچا کہہ رَہے تھے کہ اَگر داؤد آجائے تو دَونوں کی شادی کردِیں گے۔ مَیں نے سوچاہے، چھوٹی عید پر پاکستان چلا جاؤں۔ اِس طرح مَیں عید بھی کرلوں گا اَور شادی بھی ہوجائے گی۔جب سے مَیںنے ریستوران کا کام شروع کیا ہے عشق وِشق تو بھول ہی گیا ہوں۔سردِیوں میں وَیسے بھی کام کم ہوتا ہے۔ اِس لیئے سوچتا ہوںکہ چکر لگا آؤں۔ بٹ سے ذِکر کیا تو کہنے لگا، ’’ہاں ہاں ضرور جاؤ۔ مَیں تمہارا ٹکٹ رِیزرو کروادِیتا ہوں۔لیکن سامنے مسائل کا پلندہ رَکھ دِیا کہ اِن کو حل کرنے کے لیئے کئی سال لگ جائیں‘‘۔آدم سر جھکائے داؤد کی باتیں سنتا رَہا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ داؤد اِن چھ ماہ میںاِتنا بدل چکا تھا۔ اِسے اَفسوس ہونے لگا، کاش وہ داؤد کا کہا مان کر اِس کی مدد کرتا۔لیکن اَب بہت دِیر ہوچکی تھی۔ داؤد نے کہا، ’’ہاں تم بتاؤ تم کیا کہنا چاہتے تھے۔‘‘۔ آدم نے جیب سے سوختی لیتخ،یعنی ملک بدری کا حکم نامہ نکال کر دِکھا دِیا۔۔داؤد کہنے لگا، ’’یہ کیا ہے‘‘۔ آدم نے جواب دِیا، ’’یہ فرانس چھوڑنے کا حکم نامہ ہے۔ مجھے فرانس
پندرہ دِن کے اَندر اَندر چھوڑنا ہوگا‘‘۔داؤد اَپنی ساری پریشانی بھول کر سوختی لیتخ، (ملک بدری کا حکم نامہ) دِیکھنے لگا۔آدم سے مخاطب ہوا، ’’تم نے کیا سوچا ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’پاکستان چلا جاؤں گا۔کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا‘‘۔ داؤد نے غصے میں کہا، ’’بیوقوفی کی باتیں مت کرو۔و ُہا ں کچھ نہیں رَکھا۔ سنا ہے اَب حالات مزید خراب ہوگئے ہیں‘‘۔آدم نے جواب دِیا، ’’تیرہ کروڑ عوام جی رَہی ہے‘‘۔ داؤد نے کہا،’’اُن کی بات اَور ہے۔ لوگ لاکھوں رَوپیہ دِیکر فرانس آتے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا،’’آخر میں کیا ملتا ہے۔ جوکماتے ہیں اِنھیں کو وَاپس دِے کر جاتے ہیں۔ کچھ ٹیکسوں کی صورت میںچلا جاتا ہے۔کچھ پیپر میرج اَور کچھ ایجنٹ کھا جاتے ہیں۔ ہمیں تو و ُہی ملتا ہے جو ہم کھالیتے ہیں یاپہن لیتے ہیں۔ یہ سب پاکستان میں بھی ملتا ہے۔بس ہمارے اَندر قناعت کی کمی ہے۔ہم نام کے مسلمان ہیں‘‘۔ داؤد نے آدم کوسمجھاتے ہوئے کہا، ’’ آدم یار یہ بحث کا وَقت نہیں ۔ اِسی لیئے تمہیں کہتا تھا کہ سیاسی پناہ کی دَرخواست دِے دَو۔کم اَز کم تم کسی حد تک لیگل تو ہوتے۔اَورہاںوہ آئی ڈی کارڈ‘‘۔ آدم نے کہا، ’’وہ تو اُنھوں نے اَپنے پاس رَکھ لیا۔کہتے ہیںمزید اِنکوائری کریں گے‘‘۔ داؤد نے فرنچ میں گالی دِیتے ہوئے کہا، ’’putian merde ‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اَچھا ہی ہے۔تمہاری شادی میں مَیں بھی شامل ہوجاؤں گا۔ ہوسکتا ہے نادِیہ سے ملاقات ہوجائے‘‘۔ داؤد حیرت و اِستعجاب سے پوچھنے لگا، ’’یہ نادِیہ کون ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’مَیں اُسے پسند کرتا ہوں‘‘۔ داؤد کہنے ؛لگا، ’’اَور چار سال میں تم نے کبھی اِیک دَفعہ بھی ذِکر تک نہیں کیا‘‘۔آدم نے کہا، ’’مَیںنے ضروری نہیں سمجھا‘‘۔ داؤدنے موضوع بدلا، کیونکہ آدم نے گفتگو کا
رُ خ دَانستہ طور پے بدل دِیا تھااَور داؤد اَصل موضوع کی طرف آنا چاہتا تھا۔’’خیر بچوں جیسی باتیں مت کرو۔تم پاکستان نہیں جاؤ گے۔ تم اِنگلینڈ چلے جاؤ۔ و ُہاں تم سے کاغذات کا کوئی نہیں پوچھے گا اَوراَنگریزی تو تمہیں بہت اَچھی آتی ہے۔و ُہاں بہت سارے پاکستانی رَہتے ہیں،ہوسکتا ہے تمہارا کوئی شادی کا سلسلہ چل نکلے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جاؤنگا کیسے‘‘۔ داؤد نے جواب دِیا، ’’جس طرح پاکستان سے یہاں تک آئے ہو‘‘۔ توآدم کہنے لگا، ’’تمہارا مطلب ہے کنٹینر میں بند ہوکر‘‘۔ داؤد نے سرد آہ بھر کے جواب دِیا، ’’ہاں‘‘۔آدم نے داؤد کو ڈراتے ہوئے کہا، ’’تمہیں پتا ہے آئے دِن لوگ مرتے ہیں‘‘۔ داؤد سمجھتا تھا کہ آدم کا اِرادہ کیا ہے۔اِس نے جھلا کر کہا، ’’تم نہیں مرو گے۔ تم بہت ڈھیٹ ہو‘‘۔ آدم نے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’اَچھا تو اَب تم بھی ایجنٹ بن گئے ہو۔لوگوں کو سرحد پارکروَاتے ہو۔ اُن کی ڈنکیوں کا کام کرتے ہو‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’مذاق چھوڑو۔مَیںاِیک دَو بندوں کو جانتا ہوں۔ اَبھی تمہارے پاس دَس بارہ دِن ہیں۔تم اَگر چھپ کر رَہو گے تو تمہیںکوئی کچھ نہیںکہے گا۔ اَگر تم چاہو تو اَب بھی پیپر میرج کی بات کی جاسکتی ہے۔اَب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ پیرس رَہنا ہے یا لندن جانا ہے‘‘ آدم نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’نہیں نہیں، مجھے کنٹینر میںبند ہوکر لندن جانا زیادہ پسند ہے۔ ذرا تفریح رَہے گی‘‘۔
کنیز فاطمہ چیریٹیبل ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیر سوسائٹی، کریلی، الہ آباد کی جانب سے تہنیتی پروگرام کا انعقاد
تہنیتی پروگرام پریس ریلیز۔ ۱۸؍ جنوری ۲۰۲۵ء پریاگ راج کنیز فاطمہ چیریٹیبل ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیر سوسائٹی ، کریلی ،...