Each night I lie and dream about the one
Who kissed me and awakened my desire
I spent a single hour with him alone
And since that hour, my days are layed with fire.
– L.J. Smith, Secret Circle Booklet
کشیپ صاحب میٹرو ریلوے کی سائٹ پر کام کا بغور جائزہ ضرور لے رہے تھے لیکن کبھی کبھی وہاں سے گذرتی لڑکیوں کو نظر بچا کر دیکھنا بھی نہیں بھولتے۔ اب جو انھوں نے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں چمک بڑھنے کی بجائے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر آئے۔ انھیں جوہر دو لمبے تڑنگے جوانوں کے ساتھ ادھر ہی آتا ہوا نظر آیا۔ جوہر کافی دہشت زدہ نظر آ رہا تھا۔ کشیپ صاحب بڑبڑائے، ’’صحیح کہتے ہیں لوگ…ہر بات لگے بھوتیا ، اگر ساتھ میں ہو چوتیا۔‘‘
جوہر ایک بار پھر رورہا تھا۔ کشیپ صاحب نے اس کی طرف ناگواری سے دیکھا لیکن لہجے کو نرم ہی رکھا۔
’’اب کیا پرابلم ہے جوہر صاحب؟‘‘
’’بہت سے ہیں کشیپ صاحب،‘‘ جوہر نے سبکتے ہوئے ان دو لمبے تڑنگے جوانوں کی طرف اشارہ کیا، ’’یہ لوگ سائبر کرائم بیورو سے ہیں…میرے ISP سے گھر کا پتہ نکالا، گھر آئے اور کمپیوٹر اسکین (scan) کرنے لگے۔‘‘
کشیپ صاحب کی پیشانی پر بل پڑگئے اور براہ راست ان لوگوں کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال دیں، ’’کیوں بھائی؟‘‘
لیکن ان لوگوں پر اس ’دھونس‘ کا کوئی اثر نہیں ہوا،شاید وہ ایسے ردعمل کے عادی تھے۔ ان میں سے ایک نے الٹا کشیپ صاحب سے سوال کر ڈالا، ’’یہ بولتا ہے، تو بھی اس کے ساتھ تھا…رات کو؟‘‘
’’ہاں، ہم تھے…لیکن اس تو ۔تڑاک کا کیا مطلب ہے؟ ٹھیک سے بات نہیں کرسکتے؟‘‘
دوسرا نوجوان اپنے خطرناک تیور کے ساتھ آگے بڑھا، ’’چل گاڑی میں بیٹھ۔ صاحب تیرے کو برابر سے سمجھائے گا۔‘‘
کشیپ صاحب کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا، وہ اس نئی صورت حال کے سامنے سپر ڈال چکے تھے۔ جوہر اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔
بدتمیز جوانوں نے ان دونوں کو سائبر کرائم بیورو میں ایک سینئر افسر کے حوالے کردیا اور چلے گئے۔ افسرمعقول آدمی لگ رہا تھا، ان کی طرح اجڈ نہیں تھا۔
’’child pornography کو لے کر cyber law بہت سخت ہوگیا ہے۔ تم لوگوں نے کل جو لنک visit کیا ہے، ان میں سے کچھ child-porn کے لنک ہیں۔سارے انٹرنیٹ سروس providers کو ہم نے ہدایت دے رکھی ہے کہ اگر ایسے کسی لنک پر کوئی visit کرے تو ہمیں خبر کیا جائے۔‘‘
اس قدرے نرم وضاحت نے جوہر کی ہمت بندھائی، ’’تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں cyber law کے بارے میں کچھ پتہ نہیں؟‘‘
افسر نے اسے گھورنا شروع کردیا، اب اس کی آواز سرد تھی، ’’اس کا مطلب آپ نے سب کچھ جاننے کے باوجود ایسے لنک پر visit کیا؟‘‘
کشیپ صاحب نے دل ہی دل میں جوہر کو ایک عدد گالی سے نوازا ، پھر معاملے کو سنبھالنے کے لیے اپنی خدمات پیش کردیں، ’’نہیں سر، ان کو معلوم ہے لیکن شراب کے دو تین پیگ اندر اتارنے کے بعد ان کی عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔‘‘
جوہر اس اچانک حملے پر اچھل ہی تو پڑا تھا۔
“Mr. Kashyap, this is a humilating and over-simplistic version of severe technical condition I’m suffering from.”
افسر نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، ’’میں سمجھتا ہوں کہ نشے کی حالت میں آپ سے غلطی ہوگئی اور…‘‘
لیکن جوہر کی جوہری توانائی واپس آچکی تھی، اس نے بڑی بے دردی سے افسر کی بات کاٹی، ’’No, you don’t understand …میں مانتا ہوں کہ الکوحل کی وجہ سے میرے لیفٹ اور رائٹ برین کے بیچ کا coefficient friction بڑھ چکا تھالیکن اس unfortunate accident کے پیچھے یہی ایک factor نہیں تھا۔‘‘ آخری جملہ بولتے ہوئے اس نے کشیپ صاحب کی طرف دیکھا۔
’’تو اب آپ اس کے لیے ہمیں blame کریں گے؟‘‘ کشیپ صاحب نے تیوری چڑھائی۔
جوہر نے الزام لگانے کی بجائے ایک نیا پینترا بدلا، ’’معاف کیجیے گا، میں اتنا cheap اور shallow انسان نہیں ہوں۔ میں آپ کی hedonistic inclination ، ethnic اور racial groups کو blame کر رہا تھا۔‘‘
کشیپ صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا، ’’تو کیا یہ barriers صرف ہماری personal trait ہے؟‘‘
ان دونوں معزز شخصیتوں کے بیچ افسر سینڈوچ بنا ہوا تھا اور ہونق کی طرح یہ نہ سمجھ میں آنے والی مناظرے بازی دیکھ رہا تھا، حتیٰ کہ اس کی قوت برداشت جواب دے گئی اور وہ اپنی شستہ شخصیت کے خول سے باہر آگیا۔
’’چو و و و و و وپ پ پ پ‘‘، افسر دہاڑا، ’’Arrest-warrant نکلواؤں تم دونوں کا؟‘‘
دونوں یک لخت خاموش ہوگئے ۔ ایک بار پھر وہ سراپا مظلوم نظرآ رہے تھے۔
معمولی سی کاغذی کاروائی کرنے کے بعد دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔ دونوں خاموش تھے اور ایک دوسرے سے نظریں بچا ئے سائبر کرائم بیورو کے کاریڈور سے گذر رہے تھے کہ دفعتاً ان کے عقب سے ایک آواز آئی، ’’اے، پاؤلی کم۔‘‘ دونوں ہی اپنی جگہ ٹھٹھک گئے، پلٹ کر مخاطب کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن جب انھیں آواز دینے والا خود ہی ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے اسے پہچان لیا۔ یہ وہی انسپکٹر تھا جس نے انھیں ڈانس بار میں پکڑا تھا۔
’’کیا رے…کتنا گرمی چڑھا ہے تم دونوں کے دماغ میں؟‘‘
دونوں کے سر شرم سے بے اختیار جھک گئے۔
کشیپ صاحب نے گردن جھکائے ہوئے ہی لب کشائی کی، ’’ابھی وارننگ مل گیا ہے صاحب، we will be careful ‘‘۔
انسپکٹر مسکرایا، ’’careful رہوگے، گھنٹا۔ تم لوگ سالے پھر کسی نہ کسی لفڑے میں پھنسوگے، میرے کو معلوم ہے۔ میرا بھائی بھی تم لوگ جیسا پاؤلی کم تھا…بولے تو fultoo genious…بچپن میں اس کو چاند پر جانے کا دھن سوار ہوگیا۔ سب اس کو منع کیا لیکن وہ بولا میں جائے گا…اور سالا، جب دیکھو چاند پر جانے کے لیے راکٹ بنانے میں لگ جاتا۔لوگوں کی گاڑیوں سے انجن نکال لیتا…ہمارا ٹن کا پترا نکال کر ایسا گول لفافہ بنا دیا اس کا…جینیس تھا سالا…راکٹ بنا کے ہی دم لیا۔‘‘
جوہر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، ’’راکٹ بنا لیا؟‘‘
’’اور کیا۔‘‘ انسپکٹر نے فخر سے کہا، ’’ لیکن راکٹ میں وہ لگتا ہے نا، پائلٹ۔ یہ تو سائنٹسٹ تھا، پائلٹ کہاں سے لائے؟ پھر اس نے ایک اور پاؤلی کم ڈھونڈ لیا اور اس کو راکٹ کے اندر بٹھا کر راکٹ اسٹارٹ کردیا۔‘‘
کشیپ صاحب کا تجسس اپنی انتہا پر تھا،’’پھر؟‘‘
’’پھر کیا، وہ پائلٹ کنولا تھا ، راکٹ اس سے سنبھلا نہیں…ابھی میرا بھائی اندر ہے اس کے مرڈر کے چارج میں…جبھی چھوٹے گا تو دیکھنا ، پھر راکٹ بنائے گا۔‘‘
جوہر سے اب انسپکٹر کی شٰیخی برداشت نہیں ہوئی، ’’ برا مت ماننا سر، لیکن گاڑیوں کے انجن اور ٹن کے پترے سے کہیں راکٹ بنتا ہے؟‘‘
انسپکٹر نے خلاف توقع اس کی تائید میں زور سے اپنا سر ہلایا، ’’ہاں، یہی تم لوگوں کو میں سمجھانا مانگ رہا تھا کہ سالے ڈانس بار اور انٹرنیٹ پر تم لوگوں کی گرمی نہیں نکلنے والی‘‘، اس نے اپنی جیب سے ایک اخبار کا تراشہ نکالا اور انھیں تھماتے ہوئے بولا، ’’ یہ دیکھو۔‘‘
کشیپ صاحب اور جوہر دونوں دلچسپی سے اس تراشے پر نظر دوڑاتے رہے اور انسپکٹر ان کے معلومات کے خزانے میں اضافہ کرتا رہا، ’’ یہ friendship club اور escort service کا Ad ہے…ادھر نمبر بھی ہوگا، اس کو ڈائل کرو ، تمھارا کام ہو جائے گا۔ کسی کو بولنا نہیں کہ میں نے بولا ہے…تم لوگ سے personal equation نکل آیا تو سوچا مدد کردوں، ورنہ یہ سب…‘‘
کشیپ صاحب نے انسپکٹر کی بات پوری ہونے سے قبل ہی ’’تھینک یو‘‘ ادا کردیا لیکن انسپکٹر اس وقت سچ مچ ان کی مدد کے لیے پرجوش نظر آ رہا تھا، ’’ادھر فون پر اپنا اصلی نام نہیں بتانے کا…کچھ بھی فلمی نام بول دینا، خفیہ کھیل ہے یہ۔‘‘
کشیپ صاحب کے چہرے پر اس وقت زمانے بھر کا تجسس اور دلچسپی کے رنگ گڈمڈ ہو رہے تھے، ’’خفیہ کھیل؟ very interesting …سر، reference کے لیے آپ کا نام فون پر بول دیں؟‘‘
انسپکٹر اچھل ہی تو پڑا تھا، ’’بھک …بھول جاؤ میں نے جو بولا…تم لوگوں کے بس کی بات نہیں…چلو اب یہاں سے کٹ لو…پتہ نہیں اپنے کو بھی کیا شوق ہے لوگوں کے اڑتے راکٹ کو پکڑنے کا۔‘‘
دونوں وہاں سے ’کٹ‘ لیے، پتہ نہیں یہ سنکی انسپکٹر کہیں انھیں سچ مچ اپنے بھائی کے راکٹ کا پائلٹ بنا کر نہ بٹھا دے۔
دونوں اپنے اپنے خیالوں میں گم ساتھ ساتھ چل رہے تھے لیکن دونوں کے چہروں کے تاثرات بالکل مختلف نظر آرہے تھے۔ کشیپ صاحب کا چہرہ دمک رہا تھا جیسے انھوں نے کوئی نئی چیز دریافت کرلی ہو۔ جب کہ جوہر کچھ فکرمند نظر آرہا تھا۔ کشیپ صاحب اس کے محسوسات سے بے خبر بڑبڑانے لگے ؛حالاں کہ وہ جوہر ہی سے مخاطب تھے لیکن اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ ان کی آواز خوشی سے لرز رہی تھی۔
’’ہم نے کیا بولا تھا آپ کو، یہ شہر ’کرُو ‘ لوگوں کی ریسپکٹ کرتی ہے۔ دیکھیے کیا زبردست لنک ہاتھ لگا ہے۔‘‘
جوہر نے بھی ان کی طرف نہیں دیکھا، بس چلتا رہا۔ پتہ نہیں اس کے اندر کیا چل رہا تھا۔ کچھ پل بعد وہ باہر نکل آیا؛ ’’لنک تو زبردست ہے لیکن اسے uplink کہاں کیجیے گا؟ میری وائف ویسے تو فرائڈے کو آتی ہے لیکن کبھی کبھی تھرس ڈے کو ہی آ دھمکتی ہے۔‘‘
کشیپ صاحب نے اب اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا؛ ’’ارے ہمارا بنگلہ ہے نا؟ ٹینشن کیوں لیتے ہیں۔ فرنیچر تھوڑا کم ہے، صاف صفائی کی پرابلم ہے لیکن خفیہ کھیل کے لیے بالکل صحیح اسٹڈیم ہے۔‘‘
جوہر کی بانچھیں کھل گئیں؛ اس نے شکریے والے انداز میں کشیپ صاحب کی طرف دیکھا جسے انھوں نے آنکھ مارتے ہوئے قبول کرلیا۔جوہر پر دھونس جمانے کے لیے انھیں ایک اور موقع مل گیا تھا اور شاید وہ کامیاب بھی رہے۔
جوہر کی احساس کمتری اس وقت مزید بڑھ گئی جب اس نے کشیپ صاحب کے بنگلے پر ایک سفید بورڈ پر ایک نقشہ چسپاں دیکھا۔ پہلے پہل تو جوہر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہے لیکن ذرا غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ایک flow-chart قسم کی کوئی چیز ہے۔ آخر وہ بھی مرین انجینئر تھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں اب تک یہ نہیں آر ہا تھا کہ یہ کس چیز کا flow-chart ہے، جسے دکھانے کے لیے کشیپ صاحب نے اسے اپنے بنگلے پربلایا تھا۔ کشیپ صاحب کے ہونٹوں پر وہی تحقیر آمیز مسکراہٹ موجود تھی جسے دیکھ کر جوہر کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی تھی۔ لیکن اس نے مصلحتاً اس آگ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
کشیپ صاحب گویا اسی استفسار کا انتظار کر رہے تھے، انھوں نے فخریہ انداز میں اپنے کارنامے کو ڈرامائی انداز میں سمیٹنے کی کوشش کی۔
“Flow-chart of the possible communication with Tony.”
جوہر کی سمجھ میں کچھ خاک نہ آیا۔
’’ٹونی؟ کون ٹونی؟‘‘
کشیپ صاحب نے فاتحانہ انداز میں سرہلایا؛ ’’ہاں، ٹونی! ہم نے پورے ریسرچ کے بعد ٹونی کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔ یہ دیکھیے ، آج کے سارے لوکل نیوز پیپر ہم نے پلٹ ڈالے۔ بس ایک ہی ایسی Esort Service ہے جس کا اشتہار لگ بھگ سبھی نیوز پیپر میں ہے؛ اندازہ لگائیے کس کا؟‘‘
کشیپ صاحب نے جوہر سے یوں پوچھا جیسے ’’کون بنے گا کروڑ پتی ‘‘ میں امیتابھ بچن کوئی مشکل سوال سامنے والے سے پوچھ رہے ہوں۔ جوہر نے بھی بالکل اسی طرح ہچکچاتے ہوئے جواب دیا جیسے وہ سچ مچ امیتابھ بچن کے سامنے Hot Seat پر بیٹھا ہو۔
’’ٹونی کا۔‘‘
کشیپ صاحب نے پوری رعونت کے ساتھ اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
’’درست جواب۔ مطلب ٹونی کے پاس ایڈورٹائزنگ کا اچھا خاصا فنڈ ہے۔ اس کا مطلب ٹونی کا بزنس اچھا چل رہا ہے اور اس کا مطلب ٹونی کی سروس بہتر ہے…Better Service جوہر صاحب…کچھ سمجھے؟‘‘
اب جوہر اتنا بھی احمق نہیں تھا کہ اتنی معمولی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی؛ اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا اور اس کے چہرے سے اس کا جوش باہر چھلکنے لگا لیکن پوری طرح نہیں؛ شاید اب بھی کچھ کسر باقی تھی۔
’’لیکن یہ Flow-chart کس لیے؟‘‘
کشیپ صاحب اچانک ویسے ہی سنجیدہ نظر آنے لگے جیسے وہ ریلوے کی بورڈ میٹنگ میں نظر آتے ہیں۔
’’For perfect planning!…مجھے explain کرنے دیجیے…‘‘
وہ دیوار پر لگے ہوئے بورڈ کی طرف بڑھے اور Flow-chart کی مدد سے منصوبے کی نوک پلک پر اپنی گراں قدر رائے سے جوہر کو نوازنا شروع کردیا۔
’’…ہم ٹونی کو کال کریں گے…لیکن یاد رہے، اپنے نام سے نہیں…تو ہم کہیں گے؛ Hello Mr. Tony! This is Amrish Puri and Prem Chopra here! …اب اُدھر سے تین جواب مل سکتے ہیں…‘‘
اس سے پہلے کہ کشیپ صاحب اپنے بے داغ منصوبے کی تفصیل آگے بڑھاتے، جوہر نے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔
’’ایک منٹ! یہ امریش پوری اور پریم چوپڑا کے پیچھے کیا thought ہے؟
کشیپ صاحب کو جوہر کا یوں بیچ میں ٹوکنا پسند نہیں آیا۔ یہ ان کی ایک پرانی عادت تھی کہ جب وہ بول رہے ہوں تو ان کی بات ختم ہونے سے پہلے اگر ان کا کوئی ماتحت انھیں درمیان میں ٹوک دیتا تو وہ آپے سے باہر ہو جاتے تھے۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا؛ ان کے سامنے ان کا ماتحت نہیں بلکہ ’’خفیہ کھیل‘‘ کا پارٹنر تھا جسے ناراض کرنے کا وہ خطرہ نہیں مول سکتے تھے۔ انھوں نے اپنے غصے کو تھوک بنا کر حلق کے نیچے دھکیلا اور مسکرائے؛ وہی تحقیر آمیز مسکراہٹ جسے دیکھ کر جوہر کی سلگ جاتی تھی۔
’’اررے جوہر صاحب! اتنا بھی نہیں سمجھتے ۔ دونوں ’کرُو‘ ایکٹر ہیں نا۔ سامنے والا ان کے نام کے ساتھ ہمارا مقصد بھی سمجھ جائے گا۔ بولیے کیسی رہی؟‘‘
اس بار جوہر صاحب کو ان کی تحقیر آمیز مسکراہٹ کو لوٹانے کا موقع مل گیا تھا۔
’’دونوں ’کرُو‘ ایکٹر تھے…کب سے آپ نے فلم نہیں دیکھی؟‘‘
کشیپ صاحب اس اچانک وار سے سٹپٹا گئے۔ انھیں جوہر سے زیادہ خود پر غصہ آ رہا تھا۔ اتنی بڑی مسٹیک کیسے ہوگئی۔ جوہر ان کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں محظوظ ہو رہا تھالیکن وہ مقابل کو مزید کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا؛ اسے تو ابھی کشیپ صاحب کی پوری ’ریسرچ‘ اور ’منصوبے‘ کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرنا باقی تھا۔
’’چھوڑیے! یہ گھسی پٹی methodical approach یہاں کام نہیں کرے گی۔ میرے حساب سے خفیہ کھیل ایک spontaneous process ہے، منصوبہ بندی کی یہاں کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
کشیپ صاحب نے اس کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھا؛ ’’کیسے؟‘‘
جوہر کے لیے یہ استفسار کافی معنی رکھتا تھا۔ اس اکلوتے استفسار نے اسے جیسے ’رنگ ماسٹر‘ بنا کر رکھ دیا ۔ اس نے کمان سنبھالتے ہوئے کشیپ صاحب کو دوسرے ہی وار میں دھول چٹانے کا فیصلہ کرلیا۔
“This Khufia Khel is to release heat that means exothermic reaction …اس کا مطلب یہ نکلا کہ change in Enthalpy negative…یعنی when the change in Enthalpy is negative then according to the second law of thermodynamics, the process is?”
جوہر نے ایک سانس میں اپنا علم بگھار دیا ۔ اسے خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنا کچھ جانتا ہے۔ کبھی اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع ہی نہیں ملا ورنہ کہاں سے کہاں ہوتا۔ آج موقع ملا تو پورا مسئلہ ہی پانی کردیا اور وہ بھی ایک جھٹکے میں۔
جھٹکے تو خیر کشیپ صاحب کو ایسے لگ رہے تھے کہ ان کا منھ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔ شاید وہ سوچ رہے تھے کہ اوپر سے چغد نظر آنے والا جوہر اتنا قابل کیسے ہوسکتا ہے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ اس پر حاوی ہونے کی کوشش ضرور کرتے لیکن انھیں اچانک وہ کم بخت سریش یاد آگیا ۔ جوہر تو کم از کم غنیمت تھا اور سب سے بڑی بات وہ اس کا ہم رتبہ تھا۔ انھوں نے ایک لمبی سانس کا اخراج کیا؛ پتہ نہیں ناک سے یا اپنے کھلے منھ سے۔ لیکن ہاں ان کی یہ لمبی سانس ان کی سپردگی کا اعلان ضرور تھی۔ جوہر نے فوراً مورچہ سنبھال لیا اور نیوز پیپر دیکھ کر ٹونی کا نمبر ڈائل کردیا۔
’’ہیلو!‘‘
’’کون بول رہا ہے؟‘‘ دوسری طرف سے شاید ٹونی نے پوچھا۔
’’عمران ہاشمی اور وکی ڈونر۔‘‘ جوہر نے کشیپ صاحب کو آنکھ مارتے ہوئے جواب دیا۔
’’دونوں ایک ساتھ؟‘‘ ٹونی کی آواز میں حیرت تھی یا تمسخر ؛ جوہر کو پتہ نہ چلا، اس نے صاد کیا۔ٹونی بھی اپنی باتوں سے گھاگ لگ رہا تھا، کھل کر بات نہیں کررہا تھا۔
’’رومانٹک کامیڈی بنا رہے ہیں کیا؟‘‘
’’ارادہ تو passionate love triangle بنانے کا ہے۔‘‘ جوہر کو اس طرح خود اعتمادی سے باتیں کرتا دیکھ کر کشیپ صاحب مرعوب لگ رہے تھے۔دوسری طرف ٹونی اب پیشہ ورانہ گفتگو پر اتر آیالیکن اب بھی وہ کوڈ میں باتیں کررہا تھا۔
’’بڑے بجٹ میں؟‘‘
’’نہیں، low budget میں۔‘‘ جوہر نے ڈی۔کوڈ کرتے ہوئے جواب دیا۔’’لیکن اگر ہائی کنسیپٹ ٹائپ میں کچھ…‘‘
ٹونی نے دوسری طرف سے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا؛ ’’اپنا ایڈرس اور بجٹ مجھے ایس ایم ایس کیجیے، میں دیکھتا ہوں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں۔‘‘
اس نے جوہر کے جواب کا انتظار کیے بغیر فون کاٹ دیا۔ جوہر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کشیپ صاحب کی طرف پلٹا۔
’’کیا سمجھے کشیپ صاحب؟‘‘
کشیپ صاحب بچارے جوہر کی اس اضافی قابلیت سے پوری طرح مرعوب ہو چکے تھے، جائے فرار بھی کوئی نہ تھی، سو ہتھیار ڈالنے میں ہی انھیں عافیت نظر آئی۔
’’فلمی نالج کو بہت under-estimate کیا ہم نے لائف میں۔ ٹوٹل نالج اب ہم کو اپ ڈیٹ کرنا پڑے گا۔‘‘
جوہر اب انھیں مزید دق کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ زیادہ بے عزتی کشیپ صاحب نہ جھیلنے کے سبب اسٹڈیم سے ہی کہیں واک آؤٹ نہ کرجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اکیلے اس کھیل کو کیسے جیت سکتا تھا، مدمقابل کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ لہٰذا جوہر نے کشیپ صاحب کے شکست خوردہ اعتماد پر زندگی کی ایک پھونک ماری۔
’’وہ پھر کبھی کر لیجیے گا، پہلے اسٹڈیم کو تو up-to-date کر لیں خفیہ کھیل کے لیے؟‘‘
کشیپ صاحب کو جیسے پنر جنم مل گیا ہو۔ ان کی خود اعتمادی ایک بار پھر عود آئی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ جوہر اتنا بھی برا نہیں ہے۔
دونوں نے مل کر ’اسٹڈیم ‘ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔دھلے ہوئے پردے لگادیے گئے، اور mood lighting روشن کردی۔ شمپئین کی ایک کنواری بوتل خوب صورتی اور سلیقے کے ساتھ موم بتی کے اسٹینڈ کے پاس رکھ دی گئی۔ ڈائننگ ٹیبل پر پھلوں کی ٹوکری سجا دی گئی ۔ حتیٰ کہ میوزک سسٹم میں ایک شہوت انگیز موسیقی بھی لگادی۔ کشیپ صاحب اپنے نوٹ پیڈ پر آنے والے لمحوں کے تعلق سے کچھ حکمت عملی درج کرنے میں مصروف تھے۔انھوں نے جوہر کو آواز لگائی جو کمرے میں air-freshner چھڑک کر پورے ماحول کو معطر کررہا تھا۔
’’یہ سب چھوڑیے جوہر صاحب۔ سین سمجھ لیجیے، بعد میں کوئی کنفیوژن نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’کوئی کنفیوژن نہیں ہوگا، مجھے سب پتہ ہے…لوکیشن آپ کی ہے، پیسہ آپ لگا رہے ہیں تو lead آپ ہی کریں گے۔ میں سپورٹنگ کاسٹ میں رہوں گا، یہی نا۔ ‘‘
کشیپ صاحب حیرت زدہ رہ گئے، سسرا بغیر دیکھے ہی سین سمجھ گیا۔ وہ دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگے؛ کشیپ صاحب! آپ’ کشیپ۔کر ‘ہو گئے لیکن پھر بھی آپ کی اسٹوری اب تک predictable ہی ہے۔ کشیپ۔کر کے ’کر‘ کی گہرائی میں جائیے مسٹر کشیپ!
وہ اور بھی خود کو برا بھلا کہنے کے موڈ میں تھے کہ اچانک باہر سے کسی نے دروازے کی گھنٹی بجائی جو کشیپ صاحب اور جوہر کے لیے دھماکہ ثابت ہوئی۔ دونوں اپنی اپنی جگہ سے ایک ساتھ اچھلے اور دونوں کی زبان سے ایک ہی ساتھ نکلا؛ ’’آ گئی!‘‘
تھوڑی دیر تک دونوں یوں ہی بت بنے کھڑے رہے ، شاید دونوں ہی سوچ رہے تھے کہ کون دروازہ کھولے۔ ایک بار پھر گھنٹی بجی۔ کشیپ صاحب نے جھرجھری لی اور پھر خشک گلے کو اندر ہی اندر تر کیا؛ جوہر کی طرف دیکھا اور پرسرار انداز میں گویا ہوئے؛ ’’رکیے! دروازہ ہم کھولیں گے۔ تھوڑا میوزک بڑھائیے۔‘‘
جوہر نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ کشیپ صاحب نے گل دان سے ایک گلاب نکالا ، پھر تقریباً کسی Rock Starکی طرح دروازے کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ ان کا یہ انداز جوہر کے لیے بالکل غیر متوقع تھا۔ وہ ہونق بنا ہوا کشیپ صاحب کو تکے جارہا تھا اور شاید سوچ رہا تھا کہ یہ آدمی تو ان کی امید سے زیادہ frustrated ہے۔
کشیپ صاحب دروازہ کھولنے سے پہلے اپنے لبوں پر ایک سیکسی مسکراہٹ سجانا نہیں بھولے تھے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ والہانہ انداز میں استقبالیہ لفظ مکمل کرتے؛ ان کے ’’ویلکم ‘‘ کا ’سندھی وچیدھ‘ ہوگیا۔ زبان پر صرف ’ویل‘ آیا ہی تھا کہ انھیں ’کم‘ ہونے کا احساس ہوگیا ۔
ان کے سامنے دروازے پر انجینئر کالونی کے منیجر بھٹ صاحب کھڑے تھے، ان کے ساتھ ایک پنڈت جی اور ان کا شاگرد بھی کھڑا تھا۔ بھٹ صاحب نے کشیپ صاحب کو دیکھا ، پھر ان کے ہاتھوں میں گلاب دیکھا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سمجھ نہ پائے پھر اپنے طور پر کچھ سمجھنے کی کوشش کی تو ان کی آواز میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔
’’کیا بات ہے! کل یگ میں ہم گیانی مہاتماؤں کا ایسا سواگت! آپ نے تو بھاوُک کردیا جناب! آئیے پنڈت جی، بنگلے کا واستو سمجھ کر پوجا کا سیٹ اپ لگا لیجیے۔‘‘
کشیپ صاحب کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ ان کے حواس معمول پر آتے، پنڈت جی اور ان کے شاگرد نے کمرے کا معائنہ شروع کردیا۔ کشیپ صاحب نے سوالیہ نگاہوں سے بھٹ صاحب کی طرف دیکھا تو وہ اس طرح مسکرائے جیسے کسی نادان بالک کی خراب یادداشت پر اسے سرزنش کررہے ہوں۔
’’ارے! اتنی جلدی بھول گئے، آپ ہی نے تو ہم سے ستیہ نارائن بھگوان کی کتھا کروانے کی لیے کہا تھا نا؟ تو معاملہ یہ ہے جناب کہ وہ کتھا تھوڑی ٹیکنیکل ہوتی ہے ، اس لیے اس کے اسپیشلسٹ پنڈت جی کو بڑی مشکل سے ڈھونڈ کے لایا ہوں۔‘‘
اس سے پہلے کہ کشیپ صاحب کچھ کہتے ، پنڈت جی نے اپنی تشویش ظاہر کردی۔
’’یہاں تو کیبرے ڈانس کا ماحول زیادہ لگ رہا ہے۔‘‘
کشیپ صاحب نے گھبرا کر ادھراُدھر نظریں دوڑائیں لیکن انھیں جوہر نظر نہیں آیا۔نظر آتا بھی کیسے، وہ تو صوفے کے پیچھے جا چھپا تھا۔ بھٹ صاحب،کشیپ صاحب کی پریشانی بھانپ نہ پائے کیوں کہ ان کی نظریں اس وقت پنڈت پر ٹکی ہوئی تھیں۔
’’اچھا؟ مطلب کیبرے ڈانس کا بھی تجربہ ہے آپ کو؟ وشوامتر اور مینکا کی کتھا سنانے گئے ہوں گے وہاں؟ کیوں؟‘‘
پنڈت بغلیں جھانکنے لگا، اس نے اپنی خفت مٹانے کے لیے اپنے شاگرد کو حکم دینا شروع کردیا؛ ’’چل کھڑکیاں کھول۔ پوری بتی جلا دے اور کمپاس میں ’پُرو‘(مشرق) دشا دیکھ کر بھگوان کا آسن لگا۔‘‘
اب کشیپ صاحب کے لیے خاموش رہنا دشوار ہوگیا تھا۔ ’’ارے رکو بھائی! بھٹ صاحب، ہم نے ستیہ نارائن کی پوجا کرانے اس وقت کہا تھا جب ہماری وائف آئیں گی تب…‘‘
بھٹ صاحب لگتا ہے پوری تیاری سے آئے تھے اور شاید کشیپ صاحب کے اس احتجاج کا جواب ان کے پاس پہلے ہی سے موجود تھا؛ ’’یہ سب انھی کی بھلائی کے لیے کیا جا رہا ہے جناب۔ ان کے سہاگ کی سرکشا کے لیے بھگوان کا دخل دینا ضروری ہے۔ وہ بے چاری تو گاؤں میں ہیں، انھیں کیا پتہ کہ ممبئی میں گنّے کو گُڑ بنتے دیر نہیں لگتی۔‘‘
’’ گنّا؟ گُڑ؟ آپ کیا بات کر رہے ہیں، بھٹ صاحب ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے… بھئی ہماری ایک بڑی امپورٹنٹ میٹنگ ہے…‘‘
’’کہاں؟ صوفے کے پیچھے؟‘‘ بھٹ صاحب کی مسکراہٹ زہر آلود تھی، انھوں نے صوفے کے پیچھے چھپے جوہر کو آواز لگائی؛ ’’کیا ڈھونڈ رہے ہیں وہاں اتنی دیر سے جوہر صاحب؟‘‘
جوہر لجاتے ، شرماتے ہوئے صوفے کے پیچھے سے دھیرے دھیرے نمودار ہوتا ہے، ’’ارے بھٹ صاحب، آپ؟ مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے؟‘‘
’’یہی کہہ رہا تھا جناب کہ گنّے سے گُڑ جتنا آسانی سے بن جاتا ہے، گُڑ سے گنّا بنانا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔‘‘
جوہر کو یہ علامتی گفتگو سمجھ میں نہ آئی ، لیکن وہ اپنی نا سمجھی کا اعتراف بھی کرنا نہیں چاہتا تھا؛ ’’بالکل ٹھیک بھٹ صاحب! دونوں کی کیمیکل کمپوزیشن ہی الگ ہے۔ Ganna is just 5 to 15% sucrose …جب کہ گُڑ میں لگ بھگ 70% sucrose ہے۔‘‘
بھٹ صاحب انجینئر کالونی کے منیجر ہونے کے باوجود انجینئری کے اصطلاحات سے قطعی نابلد تھے، انھوں نے جوہر کے استعمال کردہ ایک لفظ “sucrose” پر اپنی بھنویں سکوڑیں؛ ’’Suck کیا؟‘‘
جوہر نے ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی؛ ’’SUC-ROSE‘‘
بھٹ صاحب نے اس طرح زور زور سے اپنا سر ہلانا شروع کردیا جیسے انھیں مرگی کا دورہ پڑنے والا ہو۔ وہ باآواز بلند بڑ بڑاتے چلے جا رہے تھے؛ ’’روز نہیں…پلیز…ایک بار غلطی سے ہوگیا… مسٹر کشیپ نے اس کا ہرجانہ بھی بھر دیا…اب ختم کیجیے…او۔کے؟‘‘
اُدھر پنڈت اور اس کا شاگرد گنّے اور گُڑ سے بے نیاز اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ شاگرد نے ٹیبل صاف کرتے ہوئے شمپئین کی بوتل کھول دی، تھوڑی دیر تک اس عجیب و غریب چیز کو دیکھتا رہا۔ پنڈت کی نظر پڑی تو اس پر برس پڑا۔
’’یہ کیا کیا بے! تیرے کو پتہ ہے یہ کتنی مہنگی والی ہے؟‘‘
شاگرد بے چارہ پہلے ہی تشویش میں تھا، پنڈت کی سرزنش پر مزید بوکھلا گیا؛ ’’لیکن مہاراج! یہ ہے کیا؟‘‘
پنڈت اس اچانک سوال سے خود بھی بوکھلا گیا؛ ’’ہم کو کیا پتہ؟‘‘ پھر اس نے بھٹ صاحب کو آواز لگائی؛’’ بھٹ صاحب! کون سا جَل ہے یہ؟‘‘
بھٹ صاحب اس نادانی پر بھڑک اٹھے؛ ’’جھاگ دیکھ کر بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ فنائل ہے یہ؟ اس سے پورا کمرہ صاف کردو۔ اور ہاں سارے پھول اٹھا کر بھگوان کے چرنوں میں رکھ اور پھل چڑھا دے پرشاد میں۔‘‘
کشیپ صاحب پھٹی آنکھوں سے اپنے ’حرم‘ کی مرمت ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ جوہر ان کے پاس کھسک آیا اور ان کے کان کے پاس اپنا منھ لا کر بدبدایا؛ ’’ ولن نے آکر اپنا ٹوٹل اسکرین پلے بدل دیا کشیپ صاحب؟‘‘
کشیپ صاحب گھٹی گھٹی آواز میں منمنائے؛ ’’تو کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
’’آپ ہیرو ہیں۔ سامنا کیجیے ولن کا…میں سپورٹنگ ایکٹر ہوں، ہیروئن کے لیے کچھ…‘‘ جوہر کی بات مکمل ہونے سے پہلے کشیپ صاحب پھٹ پڑے۔
’’بکواس بند کیجیے۔ جب سپورٹنگ کا موقع تھا تب تو آپ صوفے کے پیچھے جا چھپے۔‘‘
اور بھی بہت کچھ کہتے کشیپ صاحب لیکن اسی وقت بھٹ صاحب نے انھیں پوجا میں مدعو کرلیا ۔ کیلے کے پتوں سے بنا ہوا عارضی مندر تیار ہوچکا تھا۔ کشیپ صاحب نے پہلے تو دانت پیسے ، پھر جوہر کو اپنے ساتھ تقریباً گھسیٹتے ہوئے انھوں نے مندر میں پرویش کیا۔
پنڈت اور اس کا شاگرد پورے جوش کے ساتھ کتھا پیش کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ بھٹ صاحب کی تنقیدی نگاہ صرف ان کے پرفارمنس پر نہیں تھی بلکہ کشیپ صاحب اور جوہر کی ہر حرکت پر بھی ٹکی ہوئی تھی۔
اچانک دروازے کی گھنٹی بجی اور کشیپ صاحب اچھل کر کھڑے ہوگئے۔پنڈت نے انھیں ٹوکا؛ ’’بیٹھے رہیے ججمان! بیچ کتھا سے اٹھنا ورجت ہے۔‘‘
کتھا جاری رہی۔ کشیپ صاحب دل پر پتھر رکھے بیٹھے رہے۔ جوہر کو اشارہ کیا، لیکن شاید یہ اشارے بازی بھٹ صاحب نے دیکھ لی تھی، انھوں نے بھی اشارے سے جوہر کو بیٹھے رہنے کے لیے کہا اور خود اٹھ کھڑے ہوئے۔
بھٹ صاحب نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک پری چہرہ نسیم کو دیکھ کر بوکھلا گئے۔
’’ہائے! کترینا۔‘‘ پٹاخہ نے اپنی بھوری زلفوں کی لٹ کو سر کی جنبش سے ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا۔
جوہر اور کشیپ صاحب کی نظریں ادھر ہی لگی ہوئی تھیں۔ جوہر بدبدایا؛ ’’Low budget میں کترینا! اس کو کہتے ہیں کاسٹنگ کوپ۔‘‘
کشیپ صاحب کے لیے اب وہاں بیٹھنا دو بھر ہو رہا تھا۔ انھوں نے پنڈت کی طرف دیکھا؛ ’’اور کتنی بچی ہے پنڈت جی؟‘‘
’’ابھی تو آرمبھ ہوئی ہے۔ پانچ کتھائیں باقی ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب کو لگا کہ اس پنڈت کو کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر شنٹنگ انجن کے ساتھ باندھ دے ۔ جوہر کی حالت یہ تھی کہ وہ بار بار زور لگا کر اٹھتا تھا لیکن کشیپ صاحب اسے ہاتھ مار کر دوبارہ بٹھا دیتے تھے۔
بھٹ صاحب نے دروازے پر کھڑی دوشیزہ کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ کترینا نے الٹا انھی سے پوچھ لیا؛ ’’مسٹر ہاشمی؟‘‘
’’نو۔ مسٹر بھٹ!‘‘بھٹ صاحب نے سپاٹ لہجے میں اپنا تعارف کرایا۔
’’اوہ! same camp ۔ ‘‘ کترینا نے بغیر اجازت کے کمرے میں داخل ہوگئی۔ بھٹ صاحب کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ’’اچھا ہوا پوجا نہیں آئی، ورنہ فیملی پروڈکشن ہو جاتا۔‘‘ کترینا نے خود اپنی بات پر قہقہہ لگایا جس کا ساتھ کسی نے نہیں دیا۔ البتہ بھٹ صاحب نے اپنی عادت کے خلاف نہایت شائستہ انداز میں اسے متنبہ کرنے کی کوشش ضرور کی۔
’’یہاں already پوجا چل رہی ہے محترمہ۔‘‘
’’ہاں دیکھ رہی ہوں، لیکن کیوں؟ کیا تم لوگ سچ مچ فلم بنا رہے ہو؟ یہ سب کیا ہے؟ فلم کا مہورت؟
گفتگو اس موڑ پر آگئی تھی جہاں سب کچھ کھل جانے کا اندیشہ تھا۔چنانچہ چار و ناچار کشیپ صاحب کو جوہر پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنی پڑی۔ انھوں نے اسے اشاروں میں سمجھایا کہ سپورٹنگ ایکٹر کی ضرورت آن پڑی ہے، اب وہ اپنے جوہر کا کھل کے مظاہرہ کرسکتا ہے۔
’’یہ تو بس…تھوڑی house-warming بھی ضروری ہے نا؟ ‘‘ جوہر نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنا رول بخوبی نبھائے گا، اس نے کترینا کے کانوں کے پاس اپنا منھ لے جا کر اپنی بات مکمل کی؛ ’’before bed warming?‘‘
کترینا ہنسی تو ایسا لگا جیسے ایک ساتھ کئی گھنگھرو بج اٹھے ہوں۔ اس نے جوہر کو سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے پوچھا؛ ’’اچھا تو آپ ہیں مسٹر ہاشمی؟‘‘
جوہر کے انکار یا اقرار کی نوبت ہی نہیں آئی، اس سے پہلے بھٹ صاحب نے ہی جوہر کا تعارف کرا ڈالا؛ ’’ نہیں محترمہ! آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔یہ مسٹر جوہر ہیں۔‘‘
ایک بار پھر گھنگھرو بج اٹھے؛ ’’جوہر؟ تو اس لیے اتنی دھرما۔دھرمی ہے؟ لیکن اتنے لوگ یہاں کیوں ہیں؟ Gang-Bang کا سین ہے کیا؟ اس کے لیے میں الگ سے چارج کروں گی…بعد میں پھر low budget کا رونا مت رونا۔‘‘
بھٹ صاحب ’’محترمہ‘‘ کی بات سمجھ نہ پائے۔ ایک تو وہ پہلے ہی ان کی زندگی انجینئری کے ادق اصطلاحات سے عاجز تھی اور اب یہ ’’گینگ بینگ‘‘ کیا ہے؟
کشیپ صاحب کم پریشان نہیں تھے۔ ان کا پورا دھیان ادھر ہی لگا ہوا تھا۔ وہ خوف اور جھنجھلاہٹ سے اپنا غصہ بار بار پنڈت پر اتار رہے تھے؛ ’’آپ بار بار رک کیوں جاتے ہیں پنڈت جی؟ پانچ کتھائیں کیا پانچ گھنٹوں میں پوری کیجیے گا؟‘‘
کشیپ صاحب کے غصے کا پنڈت پر اثر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن ہاں اتنا ضرور ہوا کہ کترینا کی نظر ان پر پڑی۔ اس نے اشارے سے کشیپ صاحب کو ’’ہائے‘‘ کہا۔ کشیپ صاحب نے بے بسی سے جواب دیا۔
’’مسٹر ڈونر؟‘‘کترینا نے ان کاتعارف جاننا چاہا۔
کشیپ صاحب بھلا کیا جواب دیتے لیکن کوشش کرسکتے تھے اگر بھٹ صاحب نے انھیں مہلت دی ہوتی ۔
’’ڈونر؟ آپ ڈونیشن کے لیے آئی ہیں؟‘‘
کترینا نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔ ان کی مسکراہٹ کو بھٹ صاحب نے تائید سمجھا۔
’’ڈونر تو پوجا میں بزی ہے۔ تب تک آپ کوشش کیجیے ان کپڑوں میں بیٹھنے کی؛لیکن بنا دھارمک بھاوناؤں کو ٹھیس پہنچائے۔‘‘
کترینا نے بھٹ صاحب کی بکواس پر بالکل دھیان نہیں دیا، وہ شاید انھیں سنکی سمجھ رہی تھی۔ “Where’s the washroom here?”
جوہر تو جیسے ایسے ہی کسی موقعے کا منتظر تھا، وہ کترینا کے قریب لپک کر پہنچ گیا۔’’آئیے، میں لے چلتا ہوں۔‘‘ پھر اس نے کشیپ صاحب کی طرف ایک نگاہ غلط ڈالی؛ ’’آپ جاری رہیے۔‘‘
کشیپ صاحب کھا جانے والی نظروں سے جوہر کی طرف دیکھ رہے تھے جو کترینا کو اپنے ساتھ باہر لے جا رہا تھا۔
’’آپ باہر کہاں جا رہے ہیں؟ واش روم تو اُدھر ہے۔‘‘کشیپ صاحب سے رہا نہ گیا۔
’’آپ کے ہاں واٹر پرابلم ہے نا مسٹر ڈونر‘‘ جوہر نے بھٹ صاحب کی نظروں سے بچا کر کشیپ صاحب کو معنی خیز انداز میں آنکھ ماری’’تو میں انھیں اپنے یہاں….آپ جاری رہیے۔‘‘
کشیپ صاحب سمجھ گئے کہ ان سے Lead چھینی جا رہی ہے، انھوں نے بے بسی میں جوہر کو دہائی دی؛ ’’آپ اسٹوری بدل رہے ہیں۔‘‘
پنڈت کو لگا کہ کشیپ صاحب ان سے مخاطب ہیں، اس نے نظر اٹھا کر کشیپ صاحب کی طرف دیکھا؛ ’’نہیں ججمان! اسٹوری یہی ہے، میں پڑھ کر سنا رہا ہوں۔ آپ دیکھ لیجیے۔‘‘
بھٹ صاحب نے بھی کشیپ صاحب کے دل کی حالت سے انجان پنڈت کی تائید کی؛ ’’یہی ہے ستیہ نارائن بھگوان کی کتھا مسٹر کشیپ! آپ بے فکر رہیں۔‘‘
جوہر نے بھی ٹکڑا لگایا؛ ’’رائٹ! آپ بے فکر رہیں۔ آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
کشیپ صاحب اب ساری احتیاط کو بالائے طاق رکھنے کا ارادہ کرچکے تھے۔ بھاڑ میں جائے پوجا، یہ سالا جوہر سچویشن کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر تلا ہوا تھا۔
’’ارے آخر میں کیا ٹھیک ہو جائے گا، جب beginning ہی رانگ ہے۔ آپ اپنے رول سے باہر جا رہے ہیں۔‘‘
جوہر نے جز بز ہو کر انھیں سمجھانے کی کوشش کی؛ ’’ارے یار، آپ سمجھ کیوں نہیں رہے؟‘‘
بھٹ صاحب جو اب تک ان دونوں کی بات سننے سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے، اچانک میدان میں کود پڑے؛ ’’میں لیکن سمجھ گیا مسٹر جوہر! آپ باہر جائیں گے تو گنّا اور گُڑ کا مسئلہ حل کیسے ہوگا؟ مسٹر کشیپ! دونوں پارٹیوں کا بھگوان کے دربار میں رہنا ضروری ہے۔‘‘
کترینا جو اس پورے ڈرامے کو اول تو سمجھ نہیں پا رہی تھی اور دوم یہ کہ اسے ان چیزوں میں کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی؛ اس کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار دبیز ہوتے جا رہے تھے؛ ’’Listen Boss! I really don’t have time for all this bull shit….تم لوگ اگر سیریس نہیں ہو تو…‘‘
بھٹ صاحب نے کترینا کے منھ سے لقمہ اچک لیا؛ ’’ میں سیریس ہوں محترمہ! آپ میرے ساتھ چلیے، میں آپ کو relieve کرواتا ہوں اپنے گھر میں…سامنے ہی ہے، چلیے۔‘‘
کترینا نے ایک بار غور سے بھٹ صاحب کو دیکھا جیسے وہ اس کے لیے اب تک غیر متوقع رہے ہوں۔ پھر اس نے ٹھندی سانس لی اور آگے قدم بڑھاتے ہوئے ان سے دریافت کیا؛ ’’گولی ہے نا تیرے پاس؟‘‘
بھٹ صاحب ٹھٹھک گئے؛ ’’گولی؟‘‘
’’ہاں۔ میں ایک گھنٹہ انتظار نہیں کروں گی تیرا موڈ بننے کا۔‘‘
گو مگو کی کیفیت میں بھٹ صاحب ، کترینا کے ساتھ باہر نکل گئے اور اپنے پیچھے بے بس ، شکست خوردہ جوہر اور کشیپ صاحب کو چھوڑ گئے جوکسی متوقع دھماکے کے انتظار میں تھے۔
کشیپ صاحب آرتی کرتے ہوئے ہال کے کھلے دروازے سے باہر دیکھتے بھی جا رہے تھے جہاں سے بھٹ صاحب کی کھڑکی نظر آ رہی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ بھٹ صاحب ، کترینا کو ایک ساڑی پیش کر رہے تھے۔ ان کے ہوش اس وقت اڑ گئے جب انھوں نے دیکھا کہ کترینا ، بھٹ صاحب کی موجودگی میں ہی اپنے بالائی حصے کا کپڑا اتار رہی تھی۔
آرتی کے اختتام میں تو ان کی بے چینی مزید بڑھ گئی جب ان کی نظر بھٹ صاحب کی کھڑکی پر پڑی جہاں کترینا کا سر اوپر نیچے ہوتا نظر آرہا تھا۔ جوہر بے چارہ تو صوفے پر اپنا سر پٹکنے لگا۔ پنڈت نے اس کی اس جنونی حالت کو دیکھ کر جلدی جلدی منتر پڑھنا شروع کردیا اور بالآخر پوجا ختم ہوگئی۔
پوجا ختم ہوتے ہی کشیپ صاحب اور جوہر لان کی طرف بھاگے۔ جوہر تو چاہتا تھا کہ وہ اپنی دوڑ بھٹ صاحب کی کھڑکی تک پہنچ کر ہی ختم کرے لیکن درمیان میں ہی کشیپ صاحب نے اسے روک دیا۔جوہر نے جھنجھلا کر کشیپ صاحب کی طرف دیکھاتو انھوں نے کچھ اشارہ کیا۔
بھٹ صاحب اور کترینا کے درمیان کچھ بحث چل رہی تھی۔ کترینا نے تو اپنے باؤنسر تک کو بلانے کی دھمکی دے ڈالی کہ اب وہی بھٹ صاحب سے نپٹیں گے۔
کشیپ صاحب اور جوہر کی نظریں ملیں اور وہ دبے پاؤں اپنے ’اسٹیڈیم‘‘ لوٹ آئے جہاں پنڈت اور اس کا شاگرد ’دکشنا‘ کے لیے ان کے منتظر تھے۔ کشیپ نے جیسے تیسے ان کو چلتا کیا اور دروازہ بند کرلیا۔ دونوں ہی خاموش تھے۔ بولنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔کشیپ صاحب سوچ رہے تھے کہ کہیں کترینا اور اس کے غنڈے یہاں بھی نہ آ دھمکیں۔ کیا عزت رہ جائے گی سوسائٹی میں ان کی؟ بات صرف انکلیو تک محدود تھوڑی ہی رہے گی؛ یہ بھٹ کا بچہ تو ڈیپارٹمنٹ تک میں رپورٹ کر دے گا۔ برسوں کی بنائی ہوئی عزت پل بھر میں خاک میں مل جائے گی۔ اور ان کی بیوی اور بچے؟ کیا ان سے زندگی بھر وہ آنکھیں ملا پائیں گے؟ معلوم نہیں اورکتنے سوال تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ تھمتے بھی نہیں اگر دھماکے کی طرح ان کے دروازے کی گھنٹی نہ بجتی۔
’’آگئے! وہ لوگ یہاں بھی آگئے۔‘‘ جوہر کی رندھی ہوئی آواز نے ان کے شک کی تائید کی۔ گھنٹی بے صبری سے مسلسل بجایا جارہا تھا۔ کوئی چارہ نہ تھا، کشیپ صاحب نے ہمت کی اور دروازہ کھول دیا۔ بھٹ صاحب اندر آندھی طوفان کی طرح داخل ہوئے۔ کشیپ صاحب وہیں دروازے پر کھڑے رہے۔ شاید انھیں بھٹ صاحب کے پیچھے پیچھے کترینا اور اس کے غنڈوں کا انتظار تھا۔
’’بیس ہزار! جناب بیس ہزار وہ محترمہ اور ان کے غنڈے ہمیں مار مار کے لے گئے۔ اس طرح کے لوگوں کو آپ انکلیو میں انوائٹ کرتے ہیں؟‘‘
اگرچہ بھٹ صاحب کا لہجہ جارحانہ تھا اور کسی قدر توہین آمیز بھی؛ کوئی اورموقع ہوتا تو کشیپ صاحب ان کی اوقات بتانے میں تاخیر نہ کرتے لیکن اس وقت انھیں یہ جملے سرشار کر گئے۔ ان کے لیے یہ خوش خبری کافی تھی کہ ’’وہ لوگ چلے گئے۔‘‘ دوسری خوشی کی بات تھی کہ بھٹ صاحب لٹ گئے جنھوں نے ان کے خفیہ کھیل میں روڑے اٹکائے تھے۔ان کی پرانی خود اعتمادی پل بھر میں بحال ہوگئی۔
’’ہم نے کس کو انوائٹ کیا؟ جس کو کیا ، آپ نے کیا۔ پنڈت جی کو آپ لائے، اس لیڈی کو بھی آپ ہی اندر لائے اور پھر آپ ہی ساتھ لے گئے اپنے گھر۔‘‘
بھٹ صاحب کو اس حملے کی توقع بالکل نہ تھی، وہ پل بھر کے لیے سٹپٹا سے گئے؛ ’’ہم لے گئے تھے کیوں کہ…‘‘ بولتے بولتے وہ رکے اور جوہر کی طرف دیکھا؛ ’’آپ کیوں چپ بیٹھے ہیں مسٹر ہاشمی؟‘‘
جوہر نے اپنے شانے اچکائے اور بالکل لاتعلق بن گیا؛ ’’Don’t involve me into all this!…مجھے نہ آپ سے مطلب ہے اور نہ آپ سے۔ ‘‘
بھٹ صاحب کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی؛ ’’ آپ کی گیسٹ نے سر عام ہماری عزت لوٹ لی، ہمارے پیسے چھین لیے اور آپ کو کوئی مطلب نہیں ہے؟‘‘
جوہر نے آگ میں تھوڑا اور گھی ڈال دیا؛ ’’جب عزت لٹوائی ہے تو پیسے نہیں دیجیے گا؟ آج کل کوئی مفت میں عزت لوٹتا ہے کیا؟‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ بھٹ صاحب نے جوہر کو گھورا۔ لیکن اس بار کشیپ صاحب نے مورچہ سنبھال لیا۔
’’یہ upset اس لیے ہیں کہ آپ جیسے عزت دار انسان نے یہ سب کیسے ہونے دیا اپنے ساتھ؟وہ بھی اس وقت جب بازو کے گھر میں پوجا چل رہی تھی؟
بھٹ صاحب اب دفاعی پوزیشن پر آگئے تھے؛ ’’ارے جناب! پوجا کے لیے ہی ہم نے ان سے کہا کہ محترمہ یہ آپ کے کپڑے ٹھیک نہیں ہیں، ہماری وائف کی پرانی ساڑی پہن لیجیے… تو انھوں نے وہیں کھڑے کھڑے ہی میرے سامنے کپڑے اتار دیے…سمجھ رہے ہیں نا آپ؟ اس سے پہلے کہ ہم کچھ بولتے انھوں نے (ناف کے نیچے اشارہ کرتے ہوئے) پکڑ لیا…ہمیں ہوش تو اس وقت آیا جب انھوں نے پیسوں کے لیے جھگڑا شروع کردیا۔‘‘
کشیپ صاحب نے پرتجسس انداز میں پوچھا؛ ’’مطلب، آپ نے کردیا؟‘‘
’’کیا کردیا؟ کچھ نہیں کیا۔ پندرہ سال ہوگئے بھائی کچھ کیے ہوئے.. ‘‘ بھٹ صاحب اپنی روانی میں بولے چلے جا رہے تھے،حتیٰ کہ وہ مادرزاد برہنہ ہوگئے؛ ’’کچھ کرنے لائق ہوتا تو ہماری وائف اپنی انڈین سٹیز ن شپ کیوں چھوڑتی؟‘‘
’’انڈین سٹیزن شپ چھوڑی دی؟‘‘ کشیپ صاحب نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔
’’جی ہاں۔ چھوڑ کے چلی گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ سالی کوئی Lesbia نام کی کوئی فالتو سی جگہ کی شہری ہوگئی ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب سمجھ نہیں پائے کہ اس نام کی کون سی جگہ ہے لیکن جوہر کا قہقہہ ابل پڑا جس نے آگ میں گھی کا کام کیا۔ بھٹ صاحب گویا پھٹ ہی تو پڑے تھے۔
’’ہنسیے مت جناب۔ میں خالص انڈین ہوں۔ میں مرجاؤں گا لیکن انڈین ویلیو ز کے ساتھ کسی کو کھلواڑ کرنے نہیں دوں گا۔ آج ہم چوک گئے لیکن اب اگر کوئی ڈونیشن والی مجھے اس انکلیو میں نظر آئی تو اس کا اور اس کے ڈونر دونوں کا منھ کالا کروا کے یہاں سے باہر نہ پھینکا تو آپ مجھے بھی انڈیا سے Lesbia بھیج دیجیے گا۔‘‘
بھٹ صاحب طوفان کی طرح آئے تھے اور آندھی کی طرح نکل گئے۔ کمرے میں اب خاموشی تھی۔ شاید کشیپ صاحب اور جوہر ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے مناسب اوزار تلاش کررہے تھے جو اتفاق سے جوہر کو پہلے مل گیا۔
’’آپ کی خود غرضی کی وجہ سے یہ disaster ہوا ہے۔ اچھا خاصا میں اسے اپنے گھر لے جا رہا تھا مگر آپ سے برداشت نہیں ہوا…‘‘
’’ہم تو آپ کو بچا رہے تھے، آپ ہی نے بولا تھا کہ آپ کی وائف کبھی کبھی جلدی بھی آ جاتی ہے؛ بولا تھا نا؟‘‘ کشیپ صاحب نے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی۔
’’وائف جلدی آ جاتی ہے مگر آئی تو نہیں نا؟‘‘ جوہر نے ان کی دلیل رد کردی۔
کشیپ صاحب بھی کہاں ہار ماننے والے تھے، زچ کر کہا؛ ’’اور اگر آ جاتی تو؟ لڑکی دیکھتے ہی آپ خفیہ کھیل کے سارے اصول، سارے پروٹوکول بھول گئے؟ آپ کی وجہ سے بھٹ صاحب اس گیم میں involve ہوگئے۔ اتنا زبردست لنک ہاتھ لگا تھا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ بھٹ صاحب کے رہتے آپ دوبارہ اسے اس انکلیو میں استعمال کر پائیں گے؟‘‘
جوہر نے انھیں ٹکا سا جواب دیا؛ ’’مجھے بھی آپ جیسے سیلفش انسان کے ساتھ کوئی joint uplinkingکرنی بھی نہیں ہے۔‘‘
کشیپ صاحب کی برداشت اب جواب دے گئی۔ اس آدمی کی اتنی اوقات کہ وہ انھیں ’’سیلفش‘‘ کہہ ڈالے۔ ’’آپ ہمیں سیلفش کہہ رہے ہیں؟ سائبر پولس نے آپ کے گھر پر چھاپہ مارا تو آپ نے جھٹ سے ہمارا نام بک دیا۔‘‘
جوہر اس ضرب کاری سے بوکھلا گیا؛ ’’آپ کو پھنسانے کے لیے نہیں کیا تھا، آپ کو اپنی innocence کا گواہ بنانے کے لیے کہا تھا۔‘‘
’’ہم نے بھی آپ کو بچانے کے لیے کیا…‘‘ کشیپ صاحب کے ہاتھوں سرا لگ چکا تھا، اب صرف اسے لپیٹنا باقی تھا؛ ’’ہماری پلاننگ کے مطابق، اسٹیڈیم کے parameters کے باہر خفیہ کھیل safe نہیں تھا۔ لیکن آپ پر تو سیکس چڑھا تھا، وہ ‘JLO‘ والے کیس کی طرح۔‘‘
جوہر کے پاس کچھ کہنے کو بچا تو نہیں تھا لیکن وہ اپنی کمینگی کا اعتراف بھی تو نہیں کرسکتا تھا۔ ’’ارے جائیے، آپ کو ڈر تھا کہ سپورٹنگ ایکٹر protocol پھاند کر کہیں ہیرو نہ بن جائے۔‘‘ بولتے بولتے اچانک جوہر درمیان ہی میں رک گیا ، کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کشیپ صاحب کو گھورنا شروع کردیا؛ ’’آپ کو کیسے پتہ کہ اس کا نام “JLO“تھا۔‘‘
کشیپ صاحب اس اچانک گرفت پر ہڑبڑا کر رہ گئے۔ کچھ بھی تو نہ کہہ پائے بے چارے۔ لیکن ان کی مجرمانہ خاموشی سے جوہر نے سب کچھ سمجھ لیا ۔ وہ تار سے تار ملا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کئی رنگ آتے رہے جاتے رہے؛ آخری رنگ بہت بھیانک تھا۔کشیپ صاحب نے جھرجھری لی اوراندر ہی اندر وہ آنے والے واقعات سے نپٹنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے لگے ۔
’’مسٹر کشیپ آپ کا گھٹیا پن is dividing by zero ‘‘ جوہر کی آواز اتنی اونچی تھی کہ وہ پورے انکلیو میں اٹکھیلیاں کرنے لگی’’ Infinite… no one can define it. ‘‘
اتنا بڑا اپمان؟ اس سالے سریش کے بچے نے سیدھا سادا وار کیا تھا لیکن یہ دو کوڑی کا انسان جوہر تو علامتی اور استعاراتی مار، مار رہا تھاجو حقیقت کاری سے زیادہ گہرا چوٹ پہنچاتی ہے۔ ان کی آنکھوں کے آگے تھوڑی دیر کے لیے اندھیرا چھا گیا ؛ روشنی آئی تو جوہر وہاں نظر نہیں آیا۔ کشیپ صاحب باہر کی طرف لپکے۔ جوہر غصے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے بنگلے کی طرف جا رہا تھا۔ کشیپ صاحب نے اس سے زیادہ بلند آواز میں اسے پکارا؛’’اور آپ کیا ہیں مسٹر جوہر! آپ کے arguments are like pi…completely irrational“
جوہر جو پہلے ہی کافی غصے میں تھا؛ کشیپ صاحب کے اس ریمارکس سے اس کے منھ سے کف نکلنے لگا؛ ’’آج کے بعد don’t you ever try to make a stress-strain curve with me. مسٹر کشیپ! کیوں کہ آپ کے لیے میری نفرت is going to be a concave up function…ever increasing!”
کشیپ صاحب اور جوہر کے درمیان بیچ سڑک پر ہی مناظرے بازی شروع ہوگئی۔
” I don’t care! ۔ویسے بھی we are as compatable as windows and macintosh!”
جوہر کی قابلیت بھی کم نہ تھی، اس نے بھی رعایت لفظی کے جوہر دکھانے شروع کردیے؛ ’’ہم compatible ہو بھی نہیں سکتے…I am a marine, you are a moron!‘‘
’’رائٹ! کیوں کہ آپ مرین والے are not just a regular moron. You are the product of the greatest minds of a generation working together with the express purpose of building the dumbest moron who ever lived.”
یہ ’’دانشورانہ تکرار‘‘ بہت دیر تک جاری رہی جسے دلچسپی سے دیکھنے والوں میں انکلیو کے کتے بلی بھی شامل تھے جنھوں نے شاید اس سے قبل دو شریف زادوں کو اتنے مہذب اور پروفیشنل انداز میں کبھی جھگڑتے نہیں دیکھا تھا۔