کسی فزیکل سسٹم پر عمومی قوانین کے اطلاق کے تین سٹیپ ہیں۔
پہلا: ہم اس فزیکل سسٹم کو بیان کرتے ہیں۔
دوسرا: ہم کسی ایک خاص وقت پر اس کی خاصیتوں کی فہرست بناتے ہیں۔ اگر سسٹم پارٹیکلز سے بنا ہے تو ان خاصیتوں میں ان کے پوزیشن اور رفتار جیسی چیزیں آئیں گی۔ اگر یہ ویوز سے بنا ہے تو اس میں ان کی ویولینتھ اور فریکوئنسی جیسے چیزیں ہوں گی۔ خاصیتوں کی یہ فہرست سسٹم کی “حالت” ہے۔
تیسرا: ایک فزیکل قانون کو پاسچولیٹ کیا جاتا ہے جو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی کس طرح سے آئے گی۔
فزکس کے قوانین سسٹم کی ایک حالت سے ارتقا کا راسته بیان کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم فزکس سے قبل، فزسسٹ کے لئے سائنس کا ایک سادہ اور طاقتور مقصد تھا۔ دوسرے سٹیپ پر ہم سسٹم کی دو پہلووٗں سے مکمل وضاحت کر دیں۔ تکمیل کا پہلا پہلو یہ کہ اس سے زیادہ تفصیلی وضاحت کی نہ ضرورت ہو اور نہ ہی ایسا کیا جانا ممکن ہو۔ دوسرا یہ کہ یہ خاصیتیں ہمیں اس سسٹم کے ارتقا کا پریسائز پتا دینے کے لئے کافی ہوں۔ اور اس ارتقا کا فزیکل قوانین سے معلوم ہوتا ہے۔
حال کا مکمل علم اور قوانین کا مکمل علم اس بات کو ممکن کر دیتا ہے کہ سسٹم کے ارتقا اور مستقبل کے کسی بھی خاص وقت پر حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ہمیں سسٹم کے تمام پارٹیکلز کی پوزیشن اور مومینٹم کا علم نہ ہو۔ ایک کمرے میں ہوا کے 10^28 ایٹم اور مالیکیول ہیں۔ اس لئے ان کی تمام خاصیتوں کی فہرست بنانا عملی طور پر ممکن نہیں۔
ہم یہاں پر approximation استعمال کرتے ہیں جو اس کی شماریاتی خاصیتیں ہیں جیسا کہ کثافت، پریشر اور درجہ حرارت۔ یہ شماریاتی خاصیتیں دراصل ایٹموں کے پوزیشن اور رفتار کے اوسط سے ہی آتی ہیں۔ اور شماریاتی خاصیتیوں کے لئے امکانیات در آتی ہیں۔ اس لئے ہماری پیشگوئی میں بھی ایک حد تک غیریقینیت پیدا ہو جاتی ہے۔
لیکن یہاں پر ایک بنیادی طور پر مختلف چیز کی بات کر رہے ہیں۔ اس صورت میں ہم اپنی آسانی کے لئے امکانیات کو استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن گیس کی کثافت یا درجہ حرارت کے پیچھے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس کے پارٹیکلز خود میں پریسائز خاصیت رکھتے ہیں اور اصولی طور پر آخری ایٹم کی جگہ اور رفتار کو بھی نوٹ کیا جا سکتا ہے۔ اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں اگر ہمارے پاس ان سب کی رسائی ہو تو پھر ہم مستقبل کو بالکل پریسائز طریقے سے بتا سکیں گے۔
یہ یقین اس بات کا ہے کہ معروضی حقیقت وجود رکھتی ہے اور اس کو جاننا ہمارے لئے ممکن ہے۔ ہر شماریاتی خاصیت کے پیچھے کیا ہے؟ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں جو اصولی طور پر نامعلوم ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم مکینکس ہمارے اس ambition کو مسدود کر دیتی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ہم نے اس کا پہلا اصول پڑھا کہ “ہم زیادہ سے زیادہ نصف کو جان سکتے ہیں”۔ تو پھر فزیکل قوانین کی مدد سے کوانٹم سسٹم کی حالت کا ارتقا کیسے ہوتا ہے؟ اب ہم اس سوال کی طرف چلتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...