پھو پھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امیمہ باہر سے پکارتی ہوئی اندر آئی تھی۔۔۔دروازے میں ایستادہ ازلان اسے کھڑی تیوروں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔۔۔
امیمہ کا موڈ خراب ہوگیا صبح صبح اس ہٹلر کو دیکھ کر۔۔۔۔۔۔ اب راستہ دوگے یا پھر دروازے پر ہی کھڑا رہنا پڑیگا مجھے۔۔۔۔وہ منہ کے عجیب عجیب زاویہ بناتی کہنے لگی۔۔۔
بندے کی شکل اچھی ہو یا نہ ہو کم سے کم بات تو تمیز سے کرلیا کرنا چاہئے۔
امیمہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کمر پر باندھ کر کھڑی ہوگئی۔
کیا برائی ہے میری شکل میں اپنی شکل دیکھی ہے زو کے
چمپینزی کی طرح لگتے ہو۔۔۔۔۔
خود تو کہی کی اپسرا ہو۔۔۔۔۔۔ہاں میں تو اپسرا ہی ہوں
ایک ادا سے اپنے لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ ہم نہ شکل نہ عقل۔۔۔۔۔۔
بس کردو ورنہ پھوپھو سے کہکر ڈانٹ کھلوائوں گی۔
امیمہ کو کالج کیلئے دیر ہورہی تھی وہ اس وقت ازلان سے الجھنا نہی چاہتی تھی۔
کیوں آئی ہو یہاں۔۔۔۔۔!میں تم سے نہی پھوپھو سے ملنے آئی ہوں۔۔۔۔
پتہ ہے مجھے کیوں آئی ہو۔۔۔۔۔۔۔
تو پوچھ کیوں رہے ہو راستہ دو مجھے۔۔۔۔۔۔وہ اونچی آواز میں چلاتے ہوئے کہنے لگی۔
تمیز سے بات کرو میں عمر میں تم سے بڑا ہوں۔
اوہو تو بڑا بن کر دکھائو۔۔۔۔مجھ سے کیوں الجھتے رہتے ہو۔ارے امیمہ تم آگئی میں کب سے تمہارا انتظار کررہی ہوں بیٹا۔۔۔۔۔
جی پھو پھو پتہ ہے اسی لئے تو کالج جانے سے پہلے میں آپکے پاس آگئی اور آپ اپنے اکڑو بیٹے سے کہہ دیں مجھ سے خوامخواہ الجھا نا کرے۔
کیا ہوگیا اذلان تم نے پھر سے امیمہ سے کچھ کہا ہے کیا۔!
جی پھو پھو میرا راستہ روکے کھڑا ہوگیا آپ کا لاڈلا۔
وہ منہ بسور کر کہتی ہوئی۔انکے ہاتھ سے گاجر کے حلوے کا باول لیکر کھانے لگی۔
کیوں بچی کے ساتھ ایسے کرتا ہے ازلان۔۔۔۔۔
اپنی بچی کو کچھ تمیز سکھائیں ممی۔۔۔۔
جب بھی آتی ہیں محلے میں ڈھول پیٹتی ہوئی آتی ہیں۔۔۔پھو پھو کا جیسے آپ یہاں گھر پر نہی محلے میں اسکا انتظار کررہی ہوں۔۔۔
آچھا بس کرو تم دونوں اب جلدی سے آجائو میں نے تم دونوں کیلئے گرم گرم آلو کے پراٹھے بنائے ہیں۔
واہ پھو پھو میں آئی تو تھی ناشتہ کرکے لیکن آلو کے پراٹھے کا سن کر مجھے پھر سے بھوک لگ گئی۔۔
وہ کچن کی طرف بھاگ گئی تھی۔ازلان تاسف سے سر ہلاتا خود بھی اندر چلا گیا تٙھا۔
امیمہ جلدی سے پراٹھا کھانے لگی۔۔۔۔تو ازلان اسے گھورنے لگا۔۔۔۔امیمہ کا بڑھتا ہاتھ ازلان کو دیکھ کر رک گیا تھا۔
پھو پھو یہ دیکھو آپکا لاڈلا مجھے کیسے گھور رہا ہے جیسے ابھی کچا جبا جائیگا۔
سب سے پہلی بات تم مجھے تم کیوں کہتی ہو آپ کہو۔
امیمہ اسکی بات پر کھکھلا کر ہنس دی تھی جیسے اسکا مزاق اڑا رہی ہو۔۔۔۔
چلو شکل دیکھو اپنی آپ تو میں بلانے سے رہی تمہیں۔
ازلان تلملاتا ہوا ناشتہ کرکے کالج جانے کیلئے اپنی بائیک نکالنے لگا۔۔۔۔
ازلان مجھے بھی ڈراپ کردو۔۔۔۔۔
بلکل نہی۔۔۔۔۔۔۔۔پھو پھو بولیں نا مجھے بھی ٹائم ہورہا ہے۔
ازلان بیٹا چھوڑ دو نا بیٹا ویسے بھی تم دونوں کی ایک ہی تو کالج جاتے ہو۔۔۔
امی اس سے کہیں پہلے مجھ سے تمیز سے بات کرے۔
پھو پھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امیمہ بے بسی سے پھو پھو کو دیکھنے لگی۔بہت مشکل سے زاہدہ بیگم نے ازلان کو مناکر بھیجاتھا۔۔۔۔
ازلان اسے اپنی بائیک پر بٹھا کر خوب اسپیڈ میں گاڑی کو اُچھالتے ہوئے لیکر جارہا تھا۔
کالج کے قریب آکر امیمہ کی جان میں جان آئی تھی۔ورنہ وہ سارے راستہ بس اللہ سے اپنی جان کی سلامتی۔کی دعائیں مانگ رہی تھی۔
کالج کے پارکنگ میں اپنی بائیک روک کر امیمہ کو دیکھنے لگا۔جو چھلانگ لگا کر کود چکی تھی۔
ازلان کے بچے میں دیکھ لوں گی تمہیں۔وہ غصہ سے پیر پٹکتی ہوئی کالج کے اندر چلی گئی تھی۔
ازلان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔۔۔وہ بھی بائیک سے اتر کر اپنی کلاس کی جانب چلاگیا تھا۔
دونوں کا کالج ایک ہی تھا لیکن امیمہ بی ایس سی کی اسٹوڈنٹ تھی۔تو ازلان ایم ایس سی کا اسٹوڈنٹ تھا۔
دونوں ہی پڑھائی میں بہت تیز تھے۔۔۔۔
امیمہ پیر پٹکتی ہوئی غصہ سے اپنی کلاس کی جانب جارہی تھی جب اسکا ٹکرائو اسی کے کلاس میٹ فہد سے ٹکرائی تھی۔
فہد اسکا کلاس میٹ تھا ساتھ میں وہ امیمہ کو پسند بھی کرتا تھا۔جبکہ امیمہ اسے کتنی بار بے عزت کرچکی تھی۔۔۔۔۔
وہ ان چیزوں سے ہمیشہ دور رہتی تھی۔وہ بس پڑھائی میں دھیان دیتی تھی۔دوسری چیز جس سے وہ محبت کرتی تھی اس کالج میں وہ تھی صبا۔۔۔۔۔اسکی بسٹ فرینڈ تھی وہ دونوں آپس میں ہر چیز شیئر کیا کرتے تھے۔