جی پھپھو ۔! مگر روحیل ایسا چاہتے تھے اس لیے میرا سارا سامان ادھر ہی ہے۔۔
شریفاں اوپر جاؤ اور روحیل کو بولو زینہ کے لیے ایک کلپ نکال کر دے۔
جی بیگم صاحبہ۔! میں ابھی جاتی ہوں۔
زینہ تم فورا اس دھنیے اور پودینے کی باریک بینی سے چھانٹی کر کے اسے پانچ سات مرتبہ ثابت دھو لو اور پھر کٹائی کے بعد دوبارہ دھونا ہے ۔!
جی بہتر۔!!
زینہ کپکپاتے ہاتھوں سے نئے حکم نامے پر عملدرآمد کرنے کے لئے جت گئی جبکہ مکئی کی روٹی کی پریشانی الگ ستائے جا رہی تھی۔۔
ریشمی زلفیں پھپھو کے تیور بگاڑنے کے لیے کافی تھیں۔۔
دروازے پر دستک نے روحیل کے باچھیں کھلا دیں۔
صوفے پر بیٹھے بیٹھے اندر بلانے کی ہانک لگائی۔
شریفاں کو دروازے سے نمودار ہوتے دیکھ کر دل کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
وہ صاحب جی زینہ بی بی کے بال باندھنے کے لیے کلپ درکار ہے ، آپ ذرا وہ نکال دیں۔!
زینہ کو بولو خود آکر لے جائے، مجھے نہیں پتا اسکے کلپ کہاں پر رکھے پڑے ہیں۔ روحیل نے سکرین پر نظریں جمائے کورا جواب دے کر شریفاں کو پریشان کر دیا۔۔
صاحب اگر آپ اجازت دیں تو میں خود دیکھ لیتی ہوں۔؟
نہیں ۔! کوئی ضرورت نہیں ہے۔!
زینہ کو بھیجو اوپر۔!
صاحب بڑی بیگم صاحبہ پہلے ہی بہت غصے میں ہیں۔
خالہ آپ زینہ کو بولو کہ صاحب نے بولا ہے خود آکر لے جاؤ۔!
جی بہتر۔ شریفاں کو چار و ناچار خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔۔۔
باورچی خانے میں پہنچتے ہی پھپھو کی سوالیہ نظریں شریفاں کو ہراساں کرنے لگیں۔۔
وہ بیگم صاحبہ روحیل صاحب بول رہے ہیں کہ زینہ بی بی خود اوپر آئیں اور اپنی ضرورت کی تمام چیزیں لے جائیں۔۔
ٹھیک ہے تم لہسن چھیلو۔!
زینہ تم نے کونسا منتر میرے بھتیجے کے اوپر پڑھ کر پھونک دیا ہے جو وہ تمہارے ارد گرد منڈلاتا رہتا ہے۔ ہر وقت زینہ زینہ کرتا رہتا ہے۔
اب دیکھو ذرا نیا بہانا۔! شرم و حیا بھی کسی چڑیا کا نام ہے لڑکی۔!
نجانے کتنے عرصے سے میرے بھتیجے کو پھانسے بیٹھی تھی ، اسے ہزار مرتبہ بولا تھا کہ اپنی کلاس کی لڑکی ڈھونڈ مگر مجال ہے جو اس کے کان پر جوں بھی رینگ گئی ہو ۔۔
مڈل کلاس کی لڑکیوں کو صرف مال کی ہوس ہوتی ہے ، اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ اس طرح کی بدھو لڑکیاں کیا جانیں۔!
اے زینہ میں تیری کوئی چال اس گھر میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔۔!!
ٹھیک ہے تمہاری امی نے عاصم کو تمہارے ساتھ دودھ پلا کر بہت بڑی نیکی کی تھی مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ وہ نیکی ساری زندگی گلے کا ڈھول بنا کر لٹکائے پھرو۔۔! پھپھو کا غصہ سوا نیزے پر پہنچ چکا تھا ، جو منہ میں آ رہا تھا بولے چلی جا رہیں تھیں۔۔
سینک پر کھڑی زینہ کا دل خوف سے لرزنے لگا ، آنکھیں توہین آمیز القابات پر نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں ، چند بےقابو قطرے باغی ہو کر گول گالوں کو بھگو گئے۔۔ کپکپاتے ہاتھوں سے دھنیا پودینہ دھوتی زینہ
دل ہی دل میں دعائیہ کلمات پڑھنے لگی۔۔
” اللَّهُمَّ لا سَهْلَ إِلاَّ ما جَعَلْتَهُ سَهْلاً، وأنْتَ تَجْعَلُ الحَزْنَ إذَا شِئْتَ سَهْلاً”۔۔
(عمل الیوم واللیلہ لابن السنی:351؛ ابن حبان:974و سندہ حسن)
“اے اللہ کوئی کام آسان نہیں ہے مگر جسے تو آسان بنا دے اور تو جب چاہتا ہے مشکل کو آسان بنا دیتا ہے”۔
زینہ کی طرف سے جواب نہ پا کر پھپھو تلخ کلامی کے بعد خود ہی خاموش ہو گئیں۔۔
شریفاں میرے کمرے میں سنگھار میز پر پونی پڑی ہے اسے لا کر دو۔!
جی بیگم صاحبہ بس ابھی لائی۔۔
زینہ شدت غم میں بھول چکی تھی کہ کتنی مرتبہ وہ دھنیا پودینہ دھو چکی ہے نل کھولے بس دھوتی چلی جا رہی تھی۔۔
تم دھنیا دھو رہی ہو یا سینک پر کھڑی دھنیا اگا رہی ہو۔؟؟
ججججی ۔! زینہ نے چونک کر اپنے آنسو صاف کیے۔۔
شریفاں اسکے بال باندھو ۔! زینہ تم نے بالوں کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔
ججججی۔!
زینہ چھلنی دل کے ساتھ پھپھو کی طرف سے ملنے والے تمام کچوکے خاموشی سے سہنے لگی۔۔
*****************************************
ماشاءاللہ آج تو کھانا بہت ہی لذیذ بنا ہے ،ہماری بہو رانی نے تو کمال کر دیا ہے۔
ارے زینہ کو بھی بلاؤ۔! کتنے گھنٹوں سے باورچی خانے میں گھسی پڑی ہے۔۔
بھائی جان اسے میں نے تازہ روٹیاں ڈالنے کا بولا ہے ،اسے نان بنانے جو نہیں آتے ہیں۔پھپھو نے ایک اور نقص نکالا۔۔
شمیم نان کس لیے بھئی جب بریانی موجود ہے ۔
بھائی جان قورمے کے ساتھ نان ہی ہونے چاہئیں۔۔!!
ویسے پھپھو اگر آپ کی کلاس کی لڑکی ہوتی تو کیا وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرتی۔؟؟ جیسے آپ زینہ کو اپنے اشاروں پر نچوا رہی ہیں ، اس کلاس کی لڑکی آپکو ایک سانس میں دس باتیں سنا ڈالتی۔
عاصم سے رہا نہ گیا اور زینہ کی ہمدردی میں بول پڑا۔۔
اے عاصم ہو گئیں ہیں تیری طرف داریاں شروع۔۔!!
چھوٹے گھرانوں کی لڑکیوں کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے ورنہ اپنی اوقات بھول جاتی ہیں۔۔
پھپھو اوقات تو ہم بڑے گھرانوں والے بھول چکے ہیں۔
ہمارے دل بڑے گھروں میں رہتے رہتے بہت تنگ ہو چکے ہیں، اور پتا ہے ہم سب بڑے گھروں کے مکین تنگ نظری میں اپنی مثال آپ ہیں۔!
بس اب عاصم کا فلسفہ شروع ہو گیا ہے۔!!
پھپھو یہ فلسفہ نہیں ہے ، یہ تلخ حقیقت ہے جسے ہم جیسے امراء ماننے سے انکاری ہیں۔!!
تم چپ کر کے کھانا کھاؤ۔!
روحیل خاموشی سے سب کی گفتگو سن رہا تھا جبکہ دل زینہ کی ہمدردی میں جل رہا تھا مگر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔۔ بیتاب دل بار بار زینہ کے لیے ہمک رہا تھا ، کتنے گھنٹے بیت چکے تھے اس معصوم لڑکی کا دیدار کیے ہوئے۔۔۔
پھپھو نے تمام کھانا میز پر سجوا کر سب کو کھانے کے لیے بلایا لیا اور زینہ کو روٹیاں پکانے کا بول کر خود کھانا شروع کر دیا۔۔
ٹھیک دومنٹ بعد شریفاں چنگیر میں تازہ روٹیاں ڈھانکے آن پہنچی۔۔
شریفاں زینہ کدھر ہے بھئی ۔؟؟ اسے بلاؤ۔!
وہ بڑے صاحب جی بی بی اپنی امی کو کھانا کھلانے چلی گئی ہیں۔۔
آپ سب کو اور روٹی چاہئے تو میں لا دیتی ہوں۔؟؟
نہیں نہیں کافی ہے۔! تم جاؤ۔! ارشاد صاحب نے شریفاں کو نرمی سے پوچھ کر واپس بھیج دیا۔۔۔
روحیل پہلو بدل کر رہ گیا۔ عاصم سے رہا نہ گیا تو بولا۔۔
میں ماسی امی کو کھانا کھلاتا ہوں اور زینہ کو ابھی بھیجتا ہوں۔ عاصم نے فوراً کرسی چھوڑ دی۔۔
ارے آپا کھانا تو خود سے کھا لیتں ہیں ایسے ہی خواہ مخواہ یہ لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ پھپھو کی زبان میں کھجلی ہوئی۔ جبکہ روحیل کا سارا دھیان زینہ کی طرف تھا۔ جی چاہا بھاگ کر اسے اپنی باہوں میں بھر کر اپنے پاس بٹھا کر خود اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلائے۔۔
************#Zaynah_Hayyat*************
زینہ آپا ذیشان بھائی شہلا آپا کو اپنے ساتھ گھر لے گئے ہیں۔ تم نے آپا کو سمجھایا نہیں تھا کیا ۔؟؟
آپا میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر ذیشان بھائی بڑی عاجزی سے منت ترلا ڈال رہے تھے تو آپا مجبور ہو گئیں۔۔۔ اور پھر آپا کے انکار پر دوسری شادی کی دھمکی بھی دینے لگ گئے۔۔۔
زید اللہ ذیشان بھائی کو ہدایت دے آمین۔۔۔
آپا اب وہ لوگ آپ کے گھر آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔!
زید شہلا آپا کو منع کر دو ۔! یہاں پر روحیل کی پھپھو بھی موجود ہیں انہیں شاید اچھا نہ لگے۔۔
زید دیکھو امی بھی ادھر ہیں اور مجھے ان سب پر بوجھ بننا اچھا نہیں لگتا۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا میری بات زید۔؟؟ میرے سسرال کی بات ہے زید۔!
آپا میں تو ہر بات اچھی طرح سے سمجھتا ہوں مگر ذیشان بھائی کو کون سمجھائے۔! اب میں بھی بڑی آپا کی وجہ سے مجبور ہو گیا ہوں ، ساری زندگی بہن کو گھر میں بھی نہیں بٹھایا جا سکتا ہے اور ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔۔
زینہ کا چھلنی دل زید کی باتوں پر مزید کڑھنے لگا۔۔
تم بتاؤ پاسپورٹ وغیرہ کا کیا بنا ہے۔؟؟
آپا پاسپورٹ تو تیار ہے مگر روحیل بھائی نے بولا ہے کہ دبئی نا جاؤ۔!!
وہ کیوں۔؟؟
وہ چاہتے ہیں کہ میں انکی میرپور والی تمام جائیداد کی دیکھ بھال کروں اور کرایوں کی وصولی کروں تو وہ ماہانہ مجھے معقول تنخواہ دیں گے ، جتنا میں دبئی جا کر کماؤں گا اتنا ہی وہ مجھے یہاں پر دیں گے۔ پھر میں نے بھی سوچا ہے کہ امی کو آپ کے گھر لمبا عرصہ تو نہیں رکھا جا سکتا ہے ، لہذا انکی صحت بحال ہوتے ہی میں انہیں اپنے ساتھ میرپور واپس لے آؤں گا ان شاءاللہ۔
مگر زید وہ تمام جائیداد تو بیچ رہے تھے۔؟؟
جی وہ تو بیچنا چاہتے ہیں مگر خریدار انکی منشا کے مطابق رقم دینے سے انکاری ہے اس لیے انہوں نے تمام جائیداد کرائے پہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔۔
اچھا۔! پر زید تم کتنا سارا کما لو گے۔؟
آپا ستر ہزار ماہانہ روحیل بھائی دیں گے اور انہوں نے بولا ہے کہ میں اپنا ورکشاپ والا کام بھی جاری رکھوں۔۔
تم ایسا کرو چھ مہینے ان کے لئے بنا تنخواہ کے کام کرو اور انہیں بولو کہ یہ امی اور آپا کے علاج کا خرچہ ہے جو انہوں نے تمہیں قرض حسنہ کے طور پر دیا تھا۔۔ تم اب اکیلے ہو تمہارا خرچہ بآسانی پورا ہو جائے گا۔۔! بلکہ ایسا کرو پانچ مرلے کے بجائے کوئی تین مرلے والا مکان دیکھو ۔!!
آپا میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ جلد از جلد قرضے کا بوجھ سر سے اتار دوں اور کسی چھوٹے مکان کا بھی بندوبست کرتا ہوں ان شاءاللہ۔۔
وہ دونوں بھائی تو کل دبئی جا رہے ہیں تو پھر تم ان سے کب ساری بات طے کرو گے۔؟؟؟
زید ٹھہرو۔!!! یہ عاصم ویر آ گیا ہے تم خود ہی بات کر لو۔!
ویر عاصم زید سے بات کر لیں۔!
زید تم فون بند کرو ، میں تمہیں اپنے فون سے کال کرتا ہوں۔!
زینہ تم جاؤ کھانا کھاؤ ۔! ڈیڈ بار بار تمہارا پوچھ رہے ہیں۔ میں ادھر ماسی امی کے پاس ہی ہوں اور زید سے بھی بات کر لیتا ہوں۔۔
تم اپنا فون ساتھ لے جاؤ ۔! میں زید کو اپنے فون سے کال کرتا ہوں۔۔!!
ٹھیک ہے ویرے پر امی نے صرف چند چورا لقمے ہی لئے ہیں اور اب مزید کھانے سے انکاری ہیں تو بیچ میں ہی زید کی کال بھی آ گئی۔
ویرے اب دیکھو امی پھر سے غنودگی میں چلی گئی ہیں۔ فورا تھک جاتی ہیں۔!
ہاں فالج کے مریض کی قوت بحال ہونے میں وقت درکار ہے ۔!
تم فکر نہ کرو ، میں انہیں دیکھتا ہوں۔!
اور تم نے کھانا ٹھیک سے کھانا ہے ، تم نے کھانا بہت مزے کا بنایا ہے ویسے ۔۔
عاصم نے لاڈ سے زینہ کو ساتھ لگا کر شاباشی دی۔۔
ویرے تم کتنے کم عرصے میں ہمارے اتنے قریب آ گئے ہو ، ویرے تم بہت یاد آؤ گے۔! زینہ کی آنکھیں جھلملانے لگیں۔
پگلی نہ ہو تو، میں سارے کام نپٹا کر فوراً لوٹ آؤں گا۔! اور یہ رونا میرے لیے ہے یا پھر کسی خاص ہستی کی جدائی کا رونا ہے ۔؟؟
ویرے۔!!! تم بھی نا ۔! زینہ کا چہرہ لال ہونے لگا۔۔۔
ویسے وہ خاص ہستی بھی تمہارے دیدار کے لئے بیتاب ہے ذرا جا کر اپنا مکھڑا دکھا آؤ۔!
ویرےےےےے ۔!! تم بہت شرارتی ہو گئے ہو۔!
کیونکہ میں اپنے بڑے بھائی کی رگ رگ سے واقف ہوں ، بھائی بعد میں دوست پہلے ہے۔ جاؤ اس سے پہلے کہ وہ ادھر انتظار میں سوکھ کر کانٹا بن جائے۔۔
ویرے سچی پوچھو تو مجھے ذرا بھی بھوک نہیں ہے بلکہ ابھی مجھے انکی کل کی تیاری مکمل کرنی ہے۔۔
تم بتاؤ تمہارا سامان کون کون سا ہے ۔؟ میں سب اکھٹا کر کے ابھی رکھ دیتی ہوں۔
تم میری فکر نہ کرو ۔! صرف میرے اس بھائی کو سنبھالو جس کا علاج صرف تمہارے پاس ہے ۔۔!!
زینہ میری ساری تیاری مکمل ہے ۔! مجھے اکثر سفر کرنا ہوتا ہے تو اب عادت سی ہو گئی ہے ، میں ہر چیز بآسانی کر لیتا ہوں۔۔!
تم صرف میرے اس مجنوں بھائی کا خیال رکھو۔!!
ویرےےےےے۔! زینہ نے زچ ہو کر دانت پیسے۔۔
اب بس کرو زینہ ۔! اندر سے لڈو پھوٹ رہے ہیں۔!
میں جا رہی ہوں اوپر انکا سارا سامان تیار کروں ۔ تم امی کا دھیان رکھنا۔! زینہ نے لال بھبھوکا چہرے کے ساتھ بولا اور کمرے سے فوراً نکل گئی۔۔
اوپر روحیل کے کمرے میں پہنچنے پر روحیل کو نا پاکر سکھ کا سانس لیا۔۔
سب سے پہلے بستر کی چادر درست کی ، پھر کھلی بوتل کا ڈھکن بند کر کے میز پر رکھا۔ روحیل کے موزوں کو سیدھا کرکے کونے میں پڑی کپڑوں کی ٹوکری میں ڈالنے کے لیے پلٹی تو روحیل ہاتھوں میں کھانے کی ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوا۔۔
زینہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
وہ میں آپ سے معافی چاہتی ہوں پھپھو مکئی کی روٹی کے لئے رضامند نہ تھیں ، میں نے کوشش تو کی تھی۔۔
زینہ نے سہمے لہجے میں روحیل کو صفائی پیش کی۔۔
تم سے کسی نے مکئی کی روٹی کا پوچھا ہے کیا۔؟؟ آپ نے بولا تھا کہ آپ نے مکئی کی روٹی کھانی ہے۔
وہ تو تمہاری صلاحیتوں کو چیلنج کر رہا تھا۔۔
خیر ابھی خاموشی سے آؤ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گا۔۔روحیل نے ٹرے کو میز پر رکھا۔۔۔
مجھے بھوک نہیں ہے۔!
تمہیں بھوک کیوں نہیں ہے۔؟؟
بس کھانا بناتے ہوئے اسکی خوشبو سے بھوک اڑ گئی۔۔ زینہ الماری کے پٹ کھولے کپڑوں کو الٹ پلٹ کرنے لگی۔۔
مجھے کوئی بہانا نہیں سننا ہے ۔فورا سے پہلے آ جاؤ ورنہ مجھے زبردستی کرنا بھی آتا ہے ۔۔
روحیل سچی مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے۔
روحیل کی جان کو بھوک ہو یا نہ ہو ، کھانا تو کھانا پڑے گا۔۔!!
روحیل نے جھپٹ کر زینہ کو اپنے حصار میں لے کر دیوار کے ساتھ پڑے صوفے پر لا بٹھایا۔۔
ضد کیوں کرتی ہو۔؟؟ مچلتی ہو اور پھر مجبوراً تمہیں میری بات ماننا پڑتی ہے۔! روحیل کی محبت پاش نظریں زینہ کے دل کی دھڑکنیں اتھل پتھل کرنے لگیں۔۔
اب مجھ خوبرو جوان کو گھورنا چھوڑ دو اور منہ کھولو۔!! روحیل نے چاولوں کی چمچ بھر کر زینہ کی طرف بڑھائی۔۔
کیا تم نہیں چاہتی کہ میں اللہ کے حضور اجر کما سکوں؟ زینہ میں بھی چاہتا ہوں کہ نیکیوں کا ذخیرہ کر لوں۔!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کواپنی بیوی کے بارہ میں احسان اوراس کی عزت کرنے کی وصیت فرمائی ہے ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو لوگوں میں سب سے بہتر ہی اس شخص کوقرار دیا جو اپنی اہل عیال کے ساتھ احسان کرتا ہے ۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“تم میں سے سب سے بہتر اوراچھا وہ ہے جواپنے گھروالوں کے لیے اچھا ہے ، اورمیں اپنے گھروالوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں”۔۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر :3895 ؛ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 1977 ؛ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو صحیح سنن ترمذي میں صحیح قرار دیا ہے ۔
اور بیوی کے ساتھ احسان اور اچھے سلوک کے بارہ میں جو سب سے بہتر اورخوبصورت ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی کوکھلانا اور اس کے منہ میں لقمہ ڈالنا یہ اس کے لیے صدقہ کا درجہ رکھتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“آپ جوبھی نفقہ کرتےہیں اس کا اجر ملتا ہے حتی کہ وہ لقمہ جو آپ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہیں وہ بھی”۔۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر:6352 ) (صحیح مسلم حدیث نمبر: 1628 ) ۔
چمچ منہ میں لیتے ہی زینہ کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔۔
چاولوں نے چٹکی کاٹی ہے جو رو رہی ہو ؟؟ آج پہلی بار کسی کو کھانا کھاتے ہوئے روتے دیکھا ہے۔۔!
روحیل آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں یہاں پر ہوں۔؟؟ میرا ہمدرد غمگسار بھائی جو میرے درد میں برابر کا شریک ہے ، اس نے فورا
مجھے پیغام رسانی کر دی تھی۔۔!!
اب خوش۔؟؟!
آپ میرا اتنا خیال کیوں کرتے ہیں۔؟؟
جو لوگ دل کے قریب ہوتے ہیں ، دل میں بسیرا کیے بیٹھے رہتے ہیں ، بےپناہ کوشش کے باوجود بھی انکا خیال دل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے۔۔
ان تمام گھنٹوں کے دوران میرا تمام دھیان تمہاری طرف لگا رہا ہے حالانکہ میں کام کر رہا تھا، پھر بھی تم میرے حواس پر سوار تھی ۔!!
کوشش تو بہت کرتا ہوں مگر پھر بھی تمہاری یہ من موہنی صورت آنکھوں کی پتلیوں پر قابض ہے۔۔!!
اب مجھے باتوں میں نہیں لگاؤ بلکہ سارا کھانا کھاؤ۔!!
روحیل مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے۔!
اچھا صرف مزید پانچ چمچے کھا لو پھر زبردستی نہیں کروں گا۔۔!!
کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں۔؟؟
میں تم سے ناراض ہونا بھی چاہوں تو بھی ناراض نہیں رہ پاتا ہوں۔!
میں خود سے کھا لوں۔؟ نہیں تم صرف میرے ہاتھوں سے کھاؤ گی۔!!
مگر آپ چمچ کو لاد لاد کر میرے منہ میں ڈال رہے ہیں۔! اتنے بڑے نوالے میں نہیں کھا پاؤں گی۔!!
اوہ میں تو اپنے کھانے والا انداز اپنائے ہوئے ہوں۔! روحیل ہنسا تو اسکے موتیوں کی طرح سفید دانت زینہ نے بہت قریب سے پہلی مرتبہ دیکھے۔۔۔
تمہیں پتا ہے میں نے پہلے کبھی بیوی کو کھانا کھلایا جو نہیں ہے۔!! مگر اب بہت جلد سیکھ جاؤں گا ان شاءاللہ۔
روحیل۔!!
جی روحیل کی جان۔!!
وہ مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ، مگر آپ یہ کھانا روکیں پلیز۔۔
یہ آخری چمچ حلق سے نیچے اتارو پھر جی بھر کر باتیں کرو۔!
یہ پانی بھی پی لو۔! روحیل نے ٹرے میں رکھا گلاس سامنے بیٹھی زینہ کی طرف بڑھایا۔۔
چند سپ لینے کے بعد زینہ نے گلاس ٹرے میں واپس رکھ دیا۔
اب بولو ۔! کیا کہنا چاہتی ہو۔؟؟
روحیل وہ بات دراصل یہ ہے کہ آپ میرے سے ناراض نہ ہوا کریں پلیز۔ زینہ نے دھیمے لہجے میں التجا کی۔۔
روحیل نے آگے بڑھ کر زینہ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے لیا۔
تم بیوقوف لڑکی سے میں ناراض نہیں رہ سکتا ہوں۔!!
تو وہ جو پہلے ناراضگی اور غصہ دکھا رہے تھے۔؟؟
وہ تو تمہیں بہادر بنانے کی ایک تدبیر تھی جو کارگر ثابت ہوئی ہے ، میری زینہ میرے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی۔
روحیل نے بولتے ساتھ زینہ کی پیشانی چوم ڈالی۔۔
زینہ کا چہرہ یکدم شرم سے لال ہوگیا۔۔
پتا ہے جب ایسے شرماتی ہوتو پہلے سے بھی زیادہ حیا کے رنگ تمہارے چہرے پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔۔
مجھے پتا ہے تم جو کہنا چاہتی ہو مگر تم میں ہمت نہیں ہے کے کہہ سکو۔!! یہی بات ہے نا۔؟؟؟
زینہ نے فوراً نظر اٹھا کر اوپر دیکھا۔۔
زینہ مجھے پتا ہے اس نئے رشتے کے کچھ حلال پاکیزہ تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے، اسکی سب سے بڑی وجہ تمہاری پارسائی ہے، تمہاری حیا ہے اور پھر تم ذہنی طور پر خود کو تیار نہیں کر پا رہی ہو اور ویسے بھی تم اس نئے رشتے میں اچانک سے باندھ دی گئی ہو۔!!
زینہ مجھے تم سے محبت ہے مگر تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے۔!!
تمہیں اس رشتے کو قبول کرنے میں وقت لگے گا۔ اور میں تمہیں وقت دینے کے لیے تیار ہوں ۔!!
اس رشتے میں حلال تقاضوں کے لئے جتنا وقت لینا چاہو لو میں کبھی بھی تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کروں گا۔۔
مگر خدارا مجھ سے ڈرنا چھوڑ دو۔!!
زینہ پھٹی پھٹی نظروں سے روحیل کی اس حقیقت شناسی پر حیران تھی۔۔
آپ کو کیسے پتا چلا میں یہ سب سوچتی ہوں۔؟؟
زینہ میں ایک باشعور مرد ہوں اور شاید چہرہ شناس بھی ہوں ۔!!
زیادہ نہ سہی اپنی معصوم بھولی بھالی زینہ کی نفسیات کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں۔۔!!
اب وعدہ کرو۔!!
کیا ؟؟
مجھ سے ڈرو گی نہیں ۔!!
کوشش کروں گی۔!!
کوشش نہیں بلکہ عمل بھی کرنا ہے۔ روحیل نے آنکھیں پھیلائیں۔۔
روحیل کی باتیں سن کر گویا زینہ کے سینے پر پڑا بھاری پتھر سرک گیا۔۔۔ زینہ نے لمبی سانس خارج کی۔
روحیل آپ کا بہت شکریہ۔!! زینہ نے دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔
“آج سے میں آپ کی پکی والی دوست ہوں”۔!!
نئی اور پکی والی سہیلی صاحبہ تمہارا بہت بہت شکریہ۔!!
روحیل نے زینہ کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا لیا۔۔
اب بس اتنا ہی کافی ہے۔! زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔! سمجھے ہیں۔؟؟!!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا روحیل کا فلک گیر قہقہہ بلند ہوا۔۔
سہیلی صاحبہ کی زبان بھی چلنے لگی ہے۔۔!!
سہیلی صاحبہ اپنی ہتھیلی دو ۔!!
کیوں۔؟؟
ہتھیلی تو دو یار .!!!
زینہ نے روحیل کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلا دی۔
روحیل نے جیب میں پڑا بٹوہ نکال کر زینہ کے ہاتھ پر رکھا اور اسکی ہتھیلی بند کر دی۔۔
یہ کیا ہے روحیل۔؟؟
یہ میری سہیلی بیوی کا جیب خرچ ہے۔!!
میں نے اتنے سارے پیسوں کا کیا کرنا ہے؟؟ روحیل مجھے ضرورت نہیں ہے۔!! آپ یہ پاس رکھ لیں۔!!
فزیو کے پیسے آپ پہلے سے ادا کر چکے ہیں ، میرے کھانے پینے ، اوڑھنے پہننے کی ہر چیز دستیاب ہے تو مجھے ان پیسوں سے کیا کرنا ہے۔؟؟ میں کونسا آپ کی غیر موجودگی میں گھر سے باہر نکلوں گی۔!!
سہیلی بھی ہو اور بات بھی نہیں مانتی ہو۔؟ روحیل نے منہ لٹکا کر دہائی دی۔۔
زینہ کا نقرئی قہقہہ بلند ہوا۔۔
کھکھلا کر ہنسنے سے چہرے کی لالی کے ساتھ چہرہ دمکنے لگا۔۔
اب بس بھی کر دو یار۔!!
روحیل دوبارہ ویسی شکل بنائیں پلیز۔!! زینہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔۔۔
بس اب کافی ہو چکا ہے اب میرے کپڑے تیار کرو۔!! روحیل نے اپنی ہنسی دبا کر زینہ کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔
مچل کر ہاتھ چھڑاتی زینہ نے صوفے سے اٹھ کر الماری کے پاس کھڑے ہو کر دوبارہ قہقہوں پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام۔۔۔
زینہ تم پاگل ہو گئی کیا ؟؟
پاگل ہوئی نہیں ہوں مگر آپ کی حرکتیں مجھے پاگل کر دیں گی۔۔۔زینہ کے قہقہے روحیل کو نہال کر گئے۔۔۔ کبھی چہرے کو ہاتھوں میں چھپاتی تو کبھی منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنے کی کوشش کرتی۔
زینہ میں تمہیں پہلے یقین دہائی کروا دیتا تو شاید ایسے حسین لمحات سے محروم نہ رہتا۔روحیل سوچ کر رہ گیا۔۔
پونی کی قید سے آزاد شدہ ریشمی زلفیں مچلتی زینہ کے معصوم سراپے کو چار چاند لگانے لگیں۔۔
معصوم بھولا چہرہ ہنس ہنس کر دمکنے لگا۔۔۔
صوفے پر براجمان روحیل زینہ کی ان نئی حرکتوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں خیرہ کر رہا تھا ، پھر کچھ سوچ کر زینہ کی طرف لپکا۔۔
میری سانولی سلونی سی محبوبہ اس سے پہلے کہ میرے اٹل ارادے ڈگمگانے لگیں ، اپنی کھنکتی ہنسی پر قابو پا لو۔
ارے ایسے ہی خواہ مخواہ اٹل ارادے ڈگمگائیں گے۔؟ ہمت ہے تو ہاتھ لگا کر دکھائیں۔!! زینہ نے سرعت سے ہاتھ چھڑا کر وسیع کمرے میں دوڑ لگا دی۔
تم تو آج مڈل پاس لڑکیوں والی حرکتیں کر رہی ہو۔!!
روحیل نے مسکرا کر بولتے ساتھ زینہ کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ روحیل کا کمرہ کھیل کا سماں باندھنے لگا۔
زینہ کبھی صوفے کے پیچھے چھپتی تو کبھی کرسی کے آگے پیچھے دوڑیں لگانے لگتی۔۔۔
نازک سی لڑکی روحیل کے ساتھ مقابلہ بازی پر اتر آئی۔۔
آپ پکڑ سکتے ہیں تو پکڑ لیں۔!! زینہ نے میز کی دوسری طرف سے روحیل کو للکارا ۔
تم کیا سمجھتی ہو ؟ میرے میں تمہیں پکڑنے کی صلاحیت نہیں ہے کیا ۔؟؟
آپ کی صلاحیتوں کو ابھی دیکھ لیتی ہوں۔!!
زینہ نے روحیل کو چڑانے کے لیے منہ بنایا۔۔
اب تو تم میرے ہاتھوں سے نہیں بچ پاؤں گی زینہ۔! روحیل نے ایک چھلانگ سے میز کو پھلانگ لیا جبکہ دوسری طرف سے زینہ برق رفتاری سے کھلکھلاتی کمرے کا دروازہ کھول کر باہر بھاگ گئی ۔۔
اچانک سامنے سے آتی پھپھو کو دیکھ کر ہنسی کو بریک لگ گئے۔۔
فوراً ادب سے سلام کیا۔۔
پھپھو نے جواب کے بجائے ایک کڑی نظر زینہ کو سر سے پاؤں تک گھورا اور پھر دوسری گھوری سے دروازے کے بیچ میں کھڑے روحیل کو نوازا جس نے پھپھو کو کھڑے دیکھ کر اپنی پھرتیوں پر قابو پا لیا۔۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے۔؟؟؟
یہ گھر ہے یا اکھاڑا گاہ ہے۔؟؟
سیڑھیوں تک آپ لوگوں کے شور شرابے کی آوازیں جا رہی ہے ۔!!
روحیل اس لڑکی کی تو عقل گھاس چرنے گئی ہے تم تو کچھ عقل سے کام لو ۔!! پھپھو نے ناک بھوں چڑھائی۔۔
پھپھو کیوں ہر وقت خون جلاتی رہتی ہیں ۔؟؟ ہم تو بس پکڑن پکڑائی کھیل رہے تھے۔۔!! روحیل نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔۔۔
شاباش اس عمر میں پکڑن پکڑائی کھیلتے ہوئے کتنے اچھے لگ رہے ہو ۔!!
تم دونوں کو داد دینی پڑے گی۔!! واہ بھئی واہ۔!!
تو پھپھو پھر ساٹھ سال کی عمر میں پکڑن پکڑائی کھیلنی چاہئیے جب ایک ایک جوڑ اور ایک ایک ہڈی اپنی جگہ سے ہل چکی ہوتی ہے۔۔!
زینہ نے روحیل کی بات سن کر پھپھو کے خوف سے بمشکل ہنسی پر قابو پایا۔۔۔
بس تم سے کوئی باتیں بگھارنا سیکھ لے۔!!
پھپھو حقیقت تو ہے نا۔!!
آپ نے پکڑن پکڑائی کھیلنا ہے تو چلیں تینوں مل کر کھیل لیتے ہیں۔! روحیل نے بائیں آنکھ دبا کر پھپھو کو چھیڑا۔۔
بے ساختہ پھپھو کی ہنسی چھوٹ گئی جس پر فوراً قابو پانے کی کوشش کرنے لگیں۔۔
روحیل تم کسی دن میرے ہاتھوں سے پٹ جاؤ گے۔!!
ارے پھپھو جی نا جلایا کریں، بس میرے کمرے میں تشریف لے آئیں ، آپ کو ہم دونوں مل کر بارہ چودہ سال کی عمر کی بچی بنا دیں گے۔!!
زینہ ہنوز گردن جھکائے روحیل کی باتوں پر محفوظ ہو رہی تھی جبکہ پھپھو کی مسکراہٹ گہری ہونے لگی۔۔۔
روحیل تم بہت نٹ کھٹ نہیں بنتے جا رہے ہو۔؟؟
ظاہر سی بات ہے پھپھو جب انسان کا نکاح ہو جائے تو پھر اندر کے ارمان باہر تو نکلتے ہیں نا۔!! روحیل نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے بولا۔۔
ویسے پھپھو اپنے نکاح کا بھی کوئی یادگار قصہ ہمیں سنا دیں تاکہ ہم بھی کوئی عبرت پکڑیں ۔!
چل پرے ہٹ۔!
باؤلا ہوا جا رہا ہے۔بڑا آیا عبرت پکڑنے والا۔!!!
اور زینہ تم ادھر کھڑی کیا کر رہی ہو ۔؟؟ نیچے باورچی خانے میں جاکر سہ پہر کی چائے تیار کرو ۔! پھپھو نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا۔۔
چلو جی۔!! زینہ پھر میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں۔!!
تم کدھر جا رہے ہو۔؟؟
تم میرے ساتھ آؤ ۔!! تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔۔
پھپھو بعد میں کر لیں گے نا ضروری باتیں۔!! روحیل ضروری باتوں کا سن کر دانت پیس کر رہ گیا۔۔
نہیں مجھے ابھی کچھ حساب کتاب کروانا ہے ، فورا میرے ساتھ نیچے چلو ۔!!
زینہ تم اچھی سی کڑک چائے تیار کرو بلکہ ساتھ کچھ پکوڑے بھی تل لو۔!!
جی پھپھو۔!!
زینہ نے خاموشی سے گردن جھکائے باورچی خانے کی راہ لی جبکہ روحیل دل مسوس کر رہ گیا۔۔
***************#Zaynah_Hayyat**********
دونوں بھائیوں کا سامان گاڑی میں رکھا جا چکا تھا ، ڈرائیور گاڑی میں تیار بیٹھا دونوں کا منتظر تھا ۔۔
زینہ کا دل عین رخصتی کے وقت ڈوبنے لگا ، ایسے لگنے لگا جیسے دونوں بھائیوں کے گھر سے نکلتے ہی وہ غیر محفوظ ہو جائے گی۔۔
روحیل کے ساتھ گزارے چار دنوں کے اتار چڑھاؤ اور پھر اسکا حسنِ ظن زینہ کو کسی حد تک مطمئن کر گیا۔۔۔ زینہ ناچاہتے ہوئے بھی روحیل کی طرف سے ملنے والی توجہ اور محبت کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگی۔۔
عاصم نے ماسی امی کے ساتھ الوداعی ملاقات کے بعد زینہ کو اپنے ساتھ لپٹا کر سر پر ہاتھ رکھا اور خوب تسلی دی۔۔ زینہ کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔۔۔
زینہ تم پگلی ہو ، ہم تو اپنا کام نپٹا کر بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔
گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے۔ زید بھی شاید چند دنوں میں چکر لگائے گا۔ گھر میں ڈیڈ ہیں پھپھو ہیں اور ماسی امی بھی تو ہیں۔!
ویرے تم بہت یاد آؤ گے۔!! تمہاری وجہ سے مجھے کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہ تھی، میں اپنی تمام فکریں تمہارے کندھوں پر ڈال کر بےفکر تھی۔۔
پگلی صرف میرے کندھوں کی بات کرتی ہو اور جو میرے عقب میں بیٹھے پھپھو اور ڈیڈ کے ہمراہ محو گفتگو ہیرو صاحب ہیں انکا کیا بنے گا۔؟؟ عاصم نے سرگوشی والا انداز اپنا کر زینہ کو چھیڑا۔۔
میرے بھیا کو ذرا نظر بھر کر تو دیکھو پورے ہیرو ہیں ماشاءاللہ ، جہاں سے گزرتے ہیں ،بس چھا جاتے ہیں۔۔۔!!
ویرےےےےے۔!! زینہ رونا بھول کر عاصم کی حقیقت پسندی پر شرما کر اسے گھورنے لگی۔۔۔
اب دیکھو شرما کیسے رہی ہو۔! مان جاؤ کے میرے بھیا کے لیے آنسو بہائے جا رہے ہیں، میں تو بس پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہوں۔!!
زینہ کی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں مسکرا اٹھیں۔۔
ایسے مسکراتی رہا کرو ۔!! پریشان بالکل بھی نہیں ہونا ، کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوا فورا ہمیں آگاہ کرنا۔!!
جی ان شاءاللہ۔! زینہ پھر غمگین ہونے لگی۔۔
اب بس میرے ساتھ لاڈیاں کم اور میرے بھائی کے ساتھ زیادہ لاڈیاں کرو پلیز۔!!
ویرے تم بہت شرارتی ہوتے جا رہے ہو۔!! زینہ نے ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا۔۔
یقین مانو تمہیں ایئرپورٹ ساتھ لے کر جاتے مگر آدھی رات کو ڈرائیور کے ساتھ تنہا کیسے واپس آؤ گی۔؟؟ اب ڈیڈ اور پھپھو گھر سے الوداع کرنے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں۔
بھیا میری بات سنیں۔! عاصم نے ادھر زینہ کے پاس کھڑے کھڑے ہانک لگائی۔
روحیل مہمان خانے سے اٹھ کر کوریڈور میں عاصم کے پاس آن پہنچا۔
ہاں عاصم کیا بات ہے۔؟؟
وہ بھیا زینہ آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہے لہذٰا میں ڈیڈ اور پھپھو سے چند گھڑیاں گپ شپ کرتا ہوں۔ عاصم بولتے ساتھ نو دو گیارہ ہو گیا جبکہ زینہ کھلے منہ کے ساتھ عاصم کی پشت کو گھورنے لگی۔۔
جی بیوی صاحبہ فرمائیے خادم آپکی کیا خدمت کر سکتا ہے۔؟؟ روحیل نے زینہ کے دائیں کان کے قریب جاکر سرگوشی کی۔۔
کککچھ بھی نہیں۔! زینہ بوکھلاہٹ کا شکار ہونے لگی۔۔ ویر تو ویسے ہی چھیڑ خانیاں کرتا رہتا ہے۔۔
اچھا مجھے تو اسکی یہ چھیڑ خانیاں بہت بھاتی ہیں۔!!
ویسے میں نے صرف سرگوشی کی ہے ، کوئی بم دھماکہ تو نہیں کرنے جا رہا ہوں۔!!
آپ ایسی دھماکوں والی باتیں نہ کریں مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔!!
اچھا تو یعنی میری فکر ستائے گی۔؟؟
ظاہر سی بات ہے آپ میرے شوہر ہیں۔!!
اور ویر میرا بھائی بھی تو ہے نا۔!! زینہ نے ہمت جمع کرکے بول دیا۔۔
اگر تم صرف میرا نام بھی لے لیتی تو کوئی کبیرہ گناہ سرزد نہ ہوتا۔!
خیر اس سے پہلے پھپھو ہمارے سروں پر آن دھمکیں فورا بہترین طریقے سے مجھے الوداع بولو۔!!
زینہ جو شرم سے گردن جھکائے کھڑی تھی ،نشیلی سوگوار آنکھوں کی جالر اٹھا کر روحیل کو یک ٹک دیکھنے لگی۔۔
اب کچھ بول بھی دو محبوبہ جی ۔! یا پھر اپنی ان نشیلی آنکھوں سے مجھے پاگل کروں گی؟؟
روحیل اپنا بہت سارا خیال رکھیئے گا۔ مجھے آپ سے محبت تو ابھی نہیں ہوئی ہے مگر آپ کے حسنِ سلوک کی عادت سی ہونے لگی ہے شاید۔۔!!
اچھا جی ۔!! چلو شکر ہے فی الحال حسنِ ظن ہی سہی ، کسی بات کی تو عادت ہونے لگی ہے میری زینہ کو۔۔!!!
آپ کو میں اللہ کی رحمت کے سپرد کرتی ہوں۔!!
“اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ”
میں تیرا دین اور تیری امانت اور تیرا خاتمہ اعمال اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔(حسن ، سنن الترمذی:3442؛ سنن ابنِ ماجہ:2826)
اب میں بھی تمہیں دعا دوں ؟؟رات کو جب نیند نہیں آئی تو دعا یاد کر لی تھی۔ روحیل نے پرشوق نظروں سے زینہ کو شانوں سے تھام کر بولا۔۔
“أَسْتَوْدِعُكَ اللَّهَ الَّذِي لَا تَضِيعُ وَدَائِعُهُ” (صحیح، سنن ابن ماجہ:2825، مسند احمد:2/ 403)
(میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں جسے سپرد کی ہوئیں چیزیں ضائع نہیں ہوتیں)۔
زینہ نے دھیمے لہجے میں آمین بول کر گردن جھکا لی۔
بس۔؟؟ روحیل نے زینہ کو چھیڑا۔
نہیں ابھی ایک اور دعا ذہن میں آ رہی ہے آپ کا دوران سفر کہیں بھی پڑاؤ ہوا تو یاد سے پڑنا۔!
جی وہ کونسی دعا ہے۔؟ روحیل نے زینہ کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اوپر کیا۔۔
کیا کر رہے ہیں؟؟ کوئی دیکھ لے گا؟؟
آدھی رات کو یہاں پر کوئی بھی دیکھنے کے لیے نہیں بیٹھا ہوا ہے۔!!
پھپھو آ جائیں گی۔!
تم بےفکر رہو جب تک عاصم وہاں پر موجود ہے پھپھو وہاں سے ہل بھی نہیں سکیں گی۔!
مگر آپ جہاز کے ذریعے جا رہے ہیں کہیں آپ کی تاخیر سے جہاز اڑ نہ جائے۔! زینہ کو جہاز کی پریشانی ستانے لگی۔۔
تم جہاز کے غم میں خود کو ہلکان نہ کرو اور وہ دعا بتاؤ جو بیچ میں ہی رہ گئی۔
ججججی کہیں پڑاؤ ہوا تو یہ والی دعا پڑھنا۔!!
“أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ “(صحیح مسلم:2708)
میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ساتھ اس کی مخلوق کےشر سے، پناہ میں آتا ہوں۔
زینہ نے تیزی سے دعا پڑھ کر چہرہ جھکا لیا۔۔
بیوی صاحبہ اپنا مکھڑا اوپر اٹھائیں۔!!
یہ تمام دعائیں اپنی خوبصورت آواز میں ریکارڈ کر کے ووٹس ایپ کر دینا۔۔ مجھے یہ دعائیں یکدم یاد نہیں ہوں گی لہٰذا میں موقع کی مناسبت سے اپنی محبوبہ کے ساتھ ساتھ دہراتا رہوں گا ان شاءاللہ۔
روحیل۔!!
پھپھو کی مہمان خانے سے آواز گونجی۔۔روحیل۔!!
جی پھپھو۔!!
بیٹا جلدی کرو ۔! ایئر پورٹ پہنچنے کے لیے تم لوگوں کو ابھی نکلنا چاہئیے۔۔۔
جی پھپھو بس دو منٹ دیں۔! روحیل نے کوریڈور میں کھڑے کھڑے جواب دیا۔۔
زینہ مجھے ملو یار۔!! پتا نہیں یہ دو ہفتے کیسے کٹیں گے۔
زینہ کے آنسو نا چاہتے ہوئے بھی معصوم چہرے کو بھگونے لگے۔۔
زینہ۔!! رونا بند کرو۔!! ورنہ میں نہیں جاؤں گا۔!! میں تمہیں بول رہا ہوں ورنہ عاصم اکیلا جائے گا اور پھر پھپھو نے جو ہم دونوں کی چمڑی ادھیڑنی ہے وہ الگ داستان غم ہو گی۔۔
جلدی سے رونا بند کرو۔!!
زینہ نے پھپھو کے خوف کے مارے فوراً آنسو پونچھ ڈالے۔۔
یہ ہوئی نا ایک بہادر محبوبہ والی بات۔! روحیل نے زینہ کو اپنے حصار میں لے کر بھینچا ۔روحیل کے کسرتی وجود سے اُٹھتی مہک زینہ کی سانسوں میں گھلنے لگی۔۔اس شخص کی موجودگی کا احساس اسکے جسم سے اٹھنے والی خوشبو سے ہو جاتا ہے۔ میرپور چند گھنٹے بیٹھک میں گزار کر جانے والا یہ شخص اپنی پسندیدہ خوشبو کے باقیات چھوڑ گیا تھا۔۔۔زینہ روحیل کے ساتھ خاموشی سے لپٹی سوچ کر رہ گئی۔۔
اپنے آپ کو تنہا نہیں محسوس کرنا۔۔! میں اپنی بہت ساری یادیں تمہارے لیے چھوڑے جا رہا ہوں، تمہارے پاس وقت ہوگا ، فرصت میں بیٹھ کر میری الماری میں پڑی ڈائری کو بغور پڑھنا۔
زینہ لکھ کر دیتا ہوں تمہیں مجھ سے محبت ہو جائے گی ان شاءاللہ۔ روحیل نے زینہ کی پیشانی پر مہر محبت ثبت کی اور دوبارہ سے بھینچ کر الوداعی نظروں سے خارجی دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔
عاصم آ جاؤ یار ۔!! پھپھو ڈیڈ آپ لوگ بھی آ جائیں۔ !
زینہ تم اندر اپنے کمرے کی کھڑکی سے ہمیں جاتا دیکھ لو۔!
باہر نکلنے کے لیے تمہیں ڈرائیور کے سامنے دوبارہ حجاب لینا پڑے گا۔۔!
جی ٹھیک ہے۔! زینہ نے مریل آواز میں حامی بھری۔۔
اچھا زینہ۔! تم کمرے میں چلی جاؤ اور ہمیں اجازت دو۔! عاصم نے قریب آتے ہی زینہ کے سر پر دوبارہ سے دست شفقت رکھا۔۔
جاؤ بیٹی تم آرام کرو۔! ارشاد صاحب بھی عاصم کی پیروی میں چلتے ہوئے آئے اور زینہ کو کمرے میں جانے کا عندیہ سنایا۔۔ سب نکل گئے تو روحیل خارجی دروازے کے بیچ میں کھڑا دیکھتا رہ گیا۔۔
مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی زینہ دوبارہ پلٹی ، روحیل کو اپنی طرف دیکھتا پا کر بے اختیار الوداعی ہاتھ اوپر اٹھ گیا۔ دھیرے سے ہاتھ ہلاتی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔۔
روحیل نے لمبی سانس کھینچ کر باہر کا رخ کیا اور گاڑی کی طرف لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔۔
گھر کے باغیچے میں گھپ اندھیرے میں ٹمٹماتی بتیاں اداس سا منظر پیش کر رہیں تھیں۔۔
شاید باہر کے موسم کا تعلق اندر کے موسم سے جڑا ہوتا ہے۔۔
دھیرے دھیرے گاڑی سرکنے لگی اور پھر بڑے خارجی دروازے سے نکل کر نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو گئی۔۔۔
زینہ کی آنکھیں بنا کسی تگ و دو کے برسنے لگیں۔ کمرے میں زیرو بلب کی روشنی میں امی زینہ کی آنکھوں کی برسات نہ دیکھ پائیں۔۔ زینہ میرے بچے گھر سے نکل گئے ہیں کیا۔؟؟
جی امی۔! زینہ نے فوراً آنسو رگڑ ڈالے۔۔
آ جاؤ میری بچی سو جاؤ۔!! صبح پھر فجر کے لیے کیسے اٹھو گی۔؟؟
جی امی۔! آپ آرام کریں میں بس کچھ دیر میں سو جاؤں گی۔ کھلی کھڑکی کے پاس کھڑی زینہ باہر کی اداسی کو اپنے اندر اتارنے لگی۔۔
بزبز بز ۔ میز پر پڑا فون تھر تھرایا۔
زینہ مجھے بہت یاد آ رہی ہو یار۔! پتا نہیں دو ہفتے کیسے کٹیں گے۔؟؟روحیل نے پیغام کے ساتھ ٹوٹا دل بھیجا۔۔
روحیل کا پیغام پڑھتے ہی زینہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
“ابھی صرف پانچ منٹ گزرے ہیں آپکو گھر سے نکلے ہوئے۔! مسافر ہیں شدت سے دعائیں مانگیں قبول ہوں گی ان شاءاللہ۔”
میں سونے جا رہی ہوں۔!کل بات ہوگی۔!
خبردار جو سوئی تو۔! جب تک میرا جہاز اڑ نہیں جاتا تم سو نہیں سکتی ہو۔!
میں دعائیں جہاز میں بیٹھ کر مانگ لوں گا۔!
دونوں طرف سے انگلیاں برق رفتاری سے پیغامات کی ترسیل میں مصروف عمل تھیں۔۔
آپ کے جہاز اڑنے میں دو سے تین گھنٹے باقی ہیں روحیل ، اس دوران رتجگے سے میں ضرور اڑ جاؤں گی۔!
تم میرے بغیر نہیں اڑ سکتی ہو۔!
کیوں آپکی اڑان میں کونسے پر لگے ہیں۔؟؟؟
میری اُڑان میں محبت اور خلوص ہے نا محبوبہ زینہ بیوی عرف خشک مزاج۔!!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا زینہ ہنسی۔
آپ مجھے باتوں میں الجھا رہے ہیں۔!
تو اور کوئی چارہ جو نہیں ہے۔!
شکر ہے پھپھو نہیں وگرنہ پیغام رسانی پر بھی پابندی لگا دیتیں۔!
روحیل آپ کا علاج ہے ویسے۔! پھپھو آپ کو صحیح خوراک فراہم کرتی ہیں۔!
تمہیں محبت نہیں ہے اس لیے ایسے بولتی ہو وگرنہ تمہارا جی چاہے پھپھو کو کسی کوٹھڑی میں بند کر دوں۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا میں آپ کے یہ نادر خیالات کل پھپھو کو بتا دوں۔؟؟
ہمت ہے تو بتا کر دکھاؤ۔!
میری ہمت کو چیلنج کر رہے ہیں ۔؟ کمرے میں پکڑن پکڑائی کے دوران پکڑ تو پائے نہیں ہیں۔!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا کوئی نہیں دبئی سے واپس آ کر جیت میری ہی ہونی ہے۔!
بلی کے خواب میں چھیچھڑے وہ بھی باسی والے۔!!!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا زینہ تم کتنی حاضر جواب اور شریر ہوتی جا رہی ہو ۔؟!
جی آپ کی مبارک صحبت کا اثر ہوتا جا رہا ہے۔
واووووووو۔! بہت خوب۔ میں ابھی ڈرائیور کو بولتا ہوں گاڑی واپس موڑ لے تاکہ تمہاری شخصیت کے اصل رنگ میری صحبت میں رہ کر نکھر جائیں۔!
کس لئے مزید وقت کا ضیاع کروں۔؟
جی نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔! شرافت سے سیدھے ائیرپورٹ جائیں اور جہاز میں سوار ہوں۔!
اور میرا ویر کیسا ہے؟؟
عقبی نشست پر براجمان اونگھ رہا ہے۔۔
تو آپ بھی اونگھ لیں۔! کسی نے گردن پر تلوار رکھی ہوئی ہے کہ آرام نہیں کرنا ہے ۔!
محبوبہ صاحبہ کی یاد ستاتی ہے تو کیسے آرام کروں۔؟
آپ اور آپ کی محبت گوئی روحیل ۔!
ابھی تم یقیناً شرما رہی ہو گی۔!
جانتے ہیں تو پھر پوچھتے کیوں ہیں۔؟؟؟
تمہیں بتانے کے لیے کہ میں تمہیں کتنی اچھی طرح جان چکا ہوں۔
آپ ماہر نفسیات ہیں۔؟؟
اوروں کا تو پتا نہیں ہے مگر تمہاری نفسیات کو حفظ کر چکا ہوں۔!
میری نفسیات کو حفظ کے بجائے آخری پارے کی سورتیں حفظ کر لیں۔!
ڈائری پڑھو گی تو تمام معلومات مل جائیں گے۔
اور دھیان سے وہ ڈائری پھپھو کے ہاتھ نہ لگ جائے زینہ۔!!
جی بہتر روحیل صاحب عرف شوہر جی۔!!
روحیل میری انگلیاں تھکتی جا رہی ہیں۔
کوئی بات نہیں ہے۔! صرف آج کے لئے اپنی انگلیوں کو جنبش دیتی رہو پھر پتا نہیں کل زندگی ہو گی بھی یا نہیں۔!
روحیلللللللللل۔!
آپ میرے ساتھ ایسی باتیں نہ کیا کریں پلیز۔!
کیوں۔؟ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔؟؟
روحیل محبت نہ سہی مگر آپ میرے شوہر ہیں ، کچھ تو خیال کریں۔ میرا آپ کے سوا اس دنیا میں اور کون ہے۔؟
“میں نا بھی رہا مگر میری باتیں ، میری یادیں تمہارے ساتھ ہونگی”۔
“مجھے باتیں یادیں نہیں چاہیئے ، مجھے صرف روحیل چاہیئے”۔!
زینہ نے جذبات میں آکر لکھ ڈالا مگر فوراً پیغام کو حذف کر دیا۔۔
زینہ تمہارے حذف سے قبل ہی میں پیغام پڑھ چکا ہوں ۔!
زینہ کی انگلیاں فون پر پھرتی سے چل رہیں تھیں کہ کھڑکی سے باہر کا منظر بدل گیا۔
اچانک خارجی دروازہ کھلا اور ایک بڑی گاڑی باغیچے کے ساتھ بنی روش پر آن رکی۔۔
اس وقت کون ہو سکتا ہے۔؟
کچھ دیر کے لئے زینہ کی انگلیاں تھم گئیں۔