ابھی تو وہ منظر اس کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا۔
پچھلی شام جب وہ کہانی سنا کر گھر لوٹا تھا تو گھر میں ایک عجیب و غریب منظر دیکھا تھا۔
برآمدے کی چھت سے ایک پنجڑا لٹک رہا تھا۔
پنجڑے میں ایک پرندہ بند تھا۔ چاروں طرف سے بچے پنجڑے کو گھیرے کھڑے تھے۔ بچوں کے ہاتھوں میں ڈنڈیاں تھیں اور ان ڈنڈیوں پر مرغوں کے پر لپٹے ہوئے تھے۔ بچے بار بار پروں والی ڈنڈیوں کو تیلیوں کے بیچ میں ڈالتے تھے۔ پنجرے کا پرندہ ڈنڈوں کو دیکھتے ہی ان پر جھپٹ پڑتا تھا۔
’’یہ پنجرا کہاں سے آیا‘‘ اس نے بچوں سے پوچھا تھا۔
اس کی آواز سن کر بچوں کے ہاتھ رک گئے تھے۔
’’بڑے بھیا خرید کر لائے ہیں‘‘ سہمے ہوئے لہجے میں ایک نے جواب دیا تھا۔
’’پرندہ کون سا ہے؟‘‘
’’یہ باز ہے پایا! کوّے ہمارے امرودوں کو کتر رہے تھے نا۔ ان سے بچانے کے لیے ہم نے اسے خریدا ہے۔‘‘ بڑے بیٹے نے جواب پیش کیا تھا۔
’’کیا یہ کوؤں کو بھگا دے گا؟‘‘ اس نے پرندے کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔
’’کیوں نہیں، اسی لیے تو ہم اسے ٹرینڈ کر رہے ہیں۔‘‘
’’یار! تم لوگ بھی خوب ہو۔ الٹی سیدھی چیزیں خریدتے رہتے ہو۔‘‘
’’خوب یہ نہیں جناب! خوب آپ ہیں۔ یہ آپ ہی کی دین ہے۔‘‘ اس کی بیوی بول پڑی تھی۔
’’میری؟‘‘ وہ چونک پڑا تھا۔
’’جی ہاں، آپ کی، آپ ہی نے اپنی کسی کہانی میں کوؤں کو بھگانے کی اسکیم تیار کی تھی۔‘‘
بیوی کی یہ بات سنتے ہی اس کی ایک کہانی اس کے ذہن میں کوندے کی طرح کوندنے گئی تھی۔ اس کی نگاہیں پنجرے کی طرف مرکوز ہو گئی تھیں۔
اسے محسوس ہوا تھا کہ اس پر عائد کیا گیا کم سے کم ایک الزام غلط نہیں تھا۔ وہ منظر اپنے سیاق و سباق کے ساتھ رات بھر اس آنکھوں میں ڈولتا رہا تھا۔ آج بھی وہ اس کے ذہن میں محفوظ تھا اور اس کی وجہ توجہ اپنی جانب مبذول کیے ہوئے تھا۔
’’کیا سوچ رہے ہیں انکل! سنائیے نا۔‘‘
آواز پر وہ چونک پڑا۔ دھیان کہانی کی طرف لوٹ آیا۔
ایک بہت بڑا لمبا چوڑا جنگل تھا۔ وہ کافی دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اُس جنگل کے ایک ہرے بھرے علاقے میں ایک لومڑی رہتی تھی۔ لومڑی پھول کر کُپّا ہو گئی تھی۔
ایک دن اس پھولی ہوئی لومڑی پر چیتے نے حملہ کر دیا۔ لومڑی پر چیتے کے حملے کی خبر حملے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے جنگل میں پھیل گئی۔ تمام جانوروں کے کان کھڑے ہو گئے۔ چھوٹے موٹے اور منجھولے قسم کے جانوروں میں جگہ جگہ کانا پھوسی ہونے لگی۔
کسی نے کسی سے آنکھیں پھیلا کر پوچھا ’’کیوں بھائی! چیتے نے لومڑی پر حملہ کیوں کیا؟‘‘
کوئی آنکھیں نچا کر بولا ’’لومڑی کو پھلتا پھولتا دیکھ کر چیتے کے منہ میں پانی تو نہیں آ گیا؟‘‘
کسی نے کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہت ہی دبی زبان میں کہا ’’کہیں لومڑی چیتے کے لیے خطرہ تو نہیں بن گئی تھی؟‘‘
کوئی کسی کے کان میں چپکے سے بولا ’’کیا پتہ لومڑی نے ہی کچھ چالاکی دکھائی ہو؟‘‘
ایک نے بدبداتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کی ’’ہو سکتا ہے لومڑی اور پھولنا چاہتی ہو؟‘‘
دوسرا ہونٹ پر ہونٹ چڑھاتے ہوئے بولا۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے کوئی بھید ہو؟‘‘
ایک نے بہت ہی گمبھیر لہجے میں سوال کیا ’’اب کیا ہو گا؟‘‘
ایک موٹے تازے جسم والے جانور نے جواب دیا۔
’’چیتے پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ لومڑی کا حصّہ لوٹا دے۔‘‘
’’اگر اُس نے نہیں لوٹایا تو؟‘‘ سوال کرنے والے نے پھر سوال کیا۔
’’تو دباؤ تیز کر دیا جائے گا۔ اِتنا تیز کہ چیتے کی گردن بھی کس سکتی ہے۔‘‘ آنکھیں نچا کر جواب دینے والے نے جواب دیا۔
’’اِتنا آسان نہیں ہے؟‘‘ کسی نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘‘ جواب دینے والے موٹے جانو ر نے غرّاتے ہوئے جواب دیا۔
کانا پھوسیوں سے جنگل میں کھلبلی مچ گئی۔
جنگل کے راجا ببر شیر کی بے چینی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔
’’جانوروں کی انجمن، اصلاح الوحشیان، کی میٹنگ بلائی گئی۔ انجمن کے سارے ممبر اپنے اپنے علاقوں سے نکل کر ایک بڑی سی گپھا میں جمع ہوئے۔ اور آتے ہی اپنے غصّے کو ظاہر کرنے لگے۔
کسی نے بار بارا پنا بڑا سا منہ پھیلایا
کسی نے خون میں سنی دودھاری تلوار کی طرح اپنی لال لال زبان لپلپائی۔
کسی نے ہوا میں اپنے بھیانک پنجے لہرائے۔
کسی نے زمین میں اپنے ناخن گڑوے۔
کسی نے اپنے دانت کچکچائے۔
غار میں کسی کی غرّاہٹ گونجی تو کسی کے دہاڑ سے دھرتی دہل اُٹھی۔
کچھ دیر بعد خبر بھیج کر چیتے اور لومڑی کو بھی بلوایا گیا۔
لومڑی آتے ہی چیخنے چلّانے اور ہائے ہائے کرنے لگی۔
’’سرکار! حضور! مائی باپ! میں لٹ گئی۔ برباد ہو گئی۔ اِس ظالم نے میرا سب کچھ لوٹ لیا۔ میرے ٹھکانے پر قبضہ کر لیا۔ ’’لومڑی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
’’صاف صاف پوری بات بتاؤ! ’’ببر شیر نے بڑی نرمی سے پوچھا۔
لومڑی آنکھوں میں آنسو بھر کر روہانسی آواز میں گڑگڑاتے ہوئے بولی۔
’’سرکار! میری اس سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی میں نے کبھی اِس کا کچھ بگاڑا ہے۔ میں تو چپ چاپ اپنے گھر میں چین کی نیند سو رہی تھی کہ اچانک اِس نے مجھ پر حملہ کر دیا اور میرا سب کچھ چھین لیا۔ یہاں تک کہ میں بے گھر ہو گئی سرکار! حضور مجھ پر دیا کیجیے۔، میرے لیے کچھ کیجیے ورنہ میں جیتے جی مر جاؤں گی۔‘‘
لومڑی کے آنسوؤں کی روانی تیز ہو گئی۔
ببر شیر نے لومڑی کو دلاسا دیتے ہوئے کہا
’’روؤ نہیں، یقین رکھو! ہم تمہارے ساتھ پُورا پُورا انصاف کریں گے۔‘‘
لومڑی کی فریاد کے دوران ببر شیر کا دھیان بار بار چیتے کی طرف چلا جاتا تھا۔ اُس کی نگاہیں رہ رہ کر چیتے کے جسم میں اُلجھ جاتی تھیں۔
چیتا کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ وہ اپنے قد سے اونچا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا جسم زیادہ سڈول ہو گیا تھا۔ کھال میں چمک پیدا ہو گئی تھی۔ اَنگ اَنگ سے کس بل جھلک رہا تھا۔ اس کے تیور میں بھی تناؤ آ گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے کیے پر کسی قسم کا پچھتاوا نہیں تھا۔ چہرے پر کسی طرح کے خوف یا گھبراہٹ کے آثار بھی نہیں تھے۔
’’لومڑی کی درد اور آنسو میں ڈوبی فریاد سن کر جانوروں کی انجمن، اصلاح الوحشیان، کے تمام ممبروں کی آنکھیں لال ہو گئیں۔ ان کے دانت جبڑوں سے باہر آ گئے۔ ان کی لال لال زبانیں شعلوں کی طرح لپلپانے لگیں۔ مونچھوں کے بال تن گئے۔ ان کی خوف ناک نگاہیں چیتے کو گھورنے لگیں۔
ان میں سے ایک نے اپنے لمبے لمبے دانتوں کو دور تک چمکاتے ہوئے چیتے سے کہا۔
’’تم نے جنگل کے قانون کو توڑا ہے۔‘‘
غرّاتے ہوئے دوسرا بولا۔
’’تم نے انصاف کا گلا گھونٹا ہے۔‘‘
کسی نے برچھیوں کی طرح ناخنوں سے بھرے اپنے پنجے کو ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔
’’تم نے ایک بہت بڑا جرم کیا ہے اس کی سزا تمہیں ملنی چاہیے۔‘‘
کوئی اپنا بڑا سا منہ پھیلاتے ہوئے بولا۔
’’تم نے جنگل کی اِس انجمن کی ناک بھی کٹوا دی ہے۔‘‘
آخر میں انجمن اصلاح الوحشیان کے سردار ببر شیر نے دہاڑتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا۔
’’تم نے کمزور لومڑی کو لوٹا ہے۔ نیند میں اس پر وار کیا ہے۔ تمہیں تمہارے اِس جرم کی سزا ضرور ملے گی۔ نہ صرف یہ کہ تمہیں لومڑی کا علاقہ اُسے لوٹانا ہو گا بلکہ ہم سب سے معافی بھی مانگنی پڑے گی۔‘‘
جانوروں کی للکار اور انجمن اصلاح الوحشیان کا فیصلہ سن کر چیتا نہایت اطمینان کے ساتھ بولا۔
’’جناب! میں نے لومڑی پر حملہ ضرور کیا ہے مگر اِس میں میرا قصور نہیں ہے۔‘‘
چیتے کا جواب سن کر انجمن کے کچھ ممبروں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ سوالیہ نظروں سے چیتے کی طرف دیکھنے لگے۔
چیتے نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں، میں بالکل سچ بول رہا ہوں۔ قصور میرا نہیں بلکہ اس مکّار لومڑی کا ہے۔ اِسی نے مکّاری سے زمین کے اندر ہی اندر سوراخ کر کے میرے چشمے کا پانی اپنی طرف لے جانا شروع کیا۔ جب مجھے پتہ چلا تو میں نے اسے بہت سمجھایا کہ تم اپنی حرکت سے باز آ جاؤ! اور میرا پانی جوتم اپنی طرف چوری اور چالاکی سے بہا لے گئی ہو۔ اسے مجھے واپس کر دو۔ مگر یہ نہیں مانی۔ میرے سمجھانے کے باوجود اس کی مکّاریاں جاری رہیں اور یہ میرے پانی سے خود کو ہرا بھرا کرتی رہی۔ مجبوراً ایک دن مجھے اِس پر حملہ کرنا پڑا۔
چیتے کا پورا بیان سن کر کچھ جانوروں کی نگاہیں لومڑی کی طرف مڑ گئیں۔ پھولی ہوئی لومڑی اپنے ڈیل ڈول سے زیادہ بڑی اور اونچی لگ رہی تھی۔
مگر اپنی صفائی میں کہی گئی چیتے کی بات پر اصلاح الوحشیان کے زیادہ تر ممبروں نے کان نہیں دھرا۔ ایک آدھ کے ہونٹ ہلے بھی مگر ببر شیر کی غرّاہٹ سے وہ بھی بند ہو گئے۔
جانوروں کی انجمن نے اپنے ممبروں کے رائے مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ چیتا ایک ماہ کے اندر اندر لومڑی کا علاقہ لوٹادے اور انجمن اصلاح الوحشیان کے ممبروں سے اپنی اس حرکت کی معافی مانگے۔
چیتے نے انجمن کا فیصلہ سن کر ایک تگڑی سی جماہی لی۔ اپنے کسے ہوئے چھریرے جسم کو ڈنڈوت کے انداز میں آگے پیچھے کیا اور آنکھیں چمکا کر جست لگاتا ہوا اپنی گپھا کی طرف بڑھ گیا۔
ایک دن ببر شیر کی دہاڑ سے سارا جنگل دہل اُٹھا۔ ببر شیر کی دہاڑ سن کر جنگل کے کونے کونے سے جانور شیر کے کچھار کی طرف سرپٹ دوڑ پڑے۔
قریب آ کر دیکھا تو ببر شیر اپنے کچھار میں بے چین پھر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہکی ہوئی تھیں۔ بار بار کی غرّاہٹ سے چہرہ بھیانک ہو گیا تھا۔ دُم لگاتار ہل رہی تھی۔ بار بار منہ کھل رہا تھا۔
ببر شیر کی یہ حالت دیکھ کر سب پر خوف طاری ہو گیا۔ اُن کے چہروں سے گھبراہٹ ظاہر ہونے لگی۔
چھلانگ لگا کر ببر شیر اُن کے پاس آ گیا۔ بہت سے جانوروں کے دل دہل اُٹھے۔ خوف سے اُن کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ چہروں کا رنگ اُڑ گیا۔ ماحول پر سنّاٹا چھا گیا۔
ببر شیر اپنی آنکھوں سے آگ برساتا ہوا بولا۔
’’چیتے نے ہمارے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اُسے اِس کا مزا چکھانا ہو گا۔‘‘
ببر شیر کی غرّاہٹ سنّاٹے کو چیرتی ہوئی دُور دُور تک پہنچ گئی۔ اپنی اپنی دُم اور اپنا اپنا سر ہلا کر انجمن کے سبھی ممبروں نے ببر شیر کی رائے سے اتفاق کیا۔
———حملے کی تیّاریاں شروع ہو گئیں۔ جنگل کے سبھی بڑے خطرناک اور خوں خوار جانور اپنی اپنی جنگلی فوج لے کر چیتے کے علاقے کے آس پاس پہنچنے لگے۔ ببر شیر، باگھ، بھالو، بھیڑیا، ہاتھی، ارنا بھینسا، گینڈا، بن سؤر، وغیرہ سب نے اپنی اپنی فوج کی کمانیں سنبھال لیں۔
چیتے کے علاقے میں ایک بار پھر ببر شیر کی دہاڑ گونج پڑی۔
’’اپنی جان کی سلامتی چاہتے ہو تواب بھی وقت ہے لومڑی کا علاقہ اس کے حوالے کر دو اور ہم سب سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لو۔‘‘
مگر ببر شیر کی خوفناک دھمکی پر جھُکنے کے بجائے چیتا اپنے چست، چالاک اور چوکنّے ساتھیوں کے ساتھ تن کر کھڑا ہو گیا۔
اُس کی یہ گھمنڈ بھری جرأت دیکھ کر ببر شیر اور دوسرے بڑے جانوروں کی طرف سے حملہ شروع ہو گیا۔
چھلانگیں لگنے لگیں۔ پاؤں اُچھلنے لگے۔ پنجے چلنے لگے۔ گتھّم گتھّی ہونے لگی۔ سروں کی ٹکّریں ٹکرانے لگیں۔ سینگ بجنے لگے۔ دانت جسموں میں گڑنے لگے۔ ناخن کی نوکیں ایک دوسرے میں چبھنے لگیں۔
چیتے نے اصلاح الوحشیان کی فوج کے ہروار کا مقابلہ کیا۔ جوابی حملے بھی کیے۔ اپنے کس بل اور طاقت کا جی جان لگا کر مظاہرہ کیا۔ اس کے بھیانک حملوں سے جنگلی فوج کے خوں خوار لڑاکوؤں میں سے کچھ کے پنجے اُتر گئے۔ کچھ کے پیروں کی ہڈیاں چٹخ گئیں۔ کتنوں کے دانت ٹوٹ گئے۔ کسی کے سینگ بج اُٹھے۔ کسی کی مونچھوں کے تنے ہوئے بال اُکھڑ گئے۔ کوئی چاروں خانے چِت ہو گیا۔ کوئی منہ کے بل گر پڑا۔ مگر چیتا انجمن کی بہت بڑی فوج کا مقابلہ دیر تک نہ کر سکا۔ آخر کار اُسے ہارنا پڑا۔ جنگلی فوج کے کمانڈروں نے چیتے کو برُی طرح زخمی کر دیا۔ چیتا بھاگ کر کسی غار میں چھپ گیا۔ اُس کی جان تو بچ گئی مگر اُس کے ننھے منّے بچّے مارے گئے۔
جانوروں کی انجمن کے سردار ببر شیر نے لومڑی کا علاقہ لومڑی کے حوالے کر دیا۔ لڑائی ختم ہو گئی۔
بڑے جانور اپنی اپنی فوج لے کر جانے لگے تو ببر شیر نے پھر دہاڑا۔ سبھی جانوروں کے پاؤں رُک گئے۔
ببر شیر اُن کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔
’’سنو! مجھے شبہ ہے کہ زخمی چیتا سنبھلنے کے بعد لومڑی پر پھر سے حملہ کر سکتا ہے۔ اِس لیے لومڑی کی رکھوالی بہت ضروری ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ مجھے لومڑی کی حفاظت کے لیے اُس علاقہ میں کچھ دنوں تک رکنا چاہیے۔‘‘
’’آپ بالکل ٹھیک سوچتے ہیں۔‘‘ باگھ، بھیڑیا، ہاتھی، بھالو، بن سور، گینڈا، وغیرہ نے اپنی دُم اور اپنا سر ہلا کر ببر شیر کی ہاں میں ہاں ملائی۔
ببر شیر اپنی فوج کے ساتھ لومڑی کے علاقے میں ٹھہر گیا۔ باقی سارے جانور اپنے اپنے علاقوں میں واپس لوٹ گئے۔ ————
کچھ دنوں بعد اچانک ایک روز جنگل میں یہ خبر گرم ہو گئی کہ پھولی ہوئی لومڑی پچک گئی۔
یہ خبر سنتے ہی جنگل کے سارے جانور سنّاٹے میں آ گئے۔
اُن کی اُچھل کود رُک گئی۔ چوکڑیاں بند ہو گئیں۔ چھلانگیں تھم گئیں۔ چہلیں چپ ہو گئیں۔
بڑے جانوروں کی آنکھیں بھی حیرت سے بھر گئیں۔ سبھی آنکھیں پھاڑ کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
جنگل میں کانا پھوسی شروع ہو گئی۔
کسی نے پوچھا——
’’لومڑی کیوں پچکی؟‘‘
کسی نے سوال کیا——کیا ’’زخمی چیتا ٹھیک ہو گیا؟‘‘
کسی نے اپنی بھنوؤں کو اُوپر اُٹھاتے ہوئے کہا——
’’کمال ہے! اِتنی موٹی تازی پھولی ہوئی لومڑی سکڑ کر چوہا ہو گئی؟‘‘
کوئی اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولا——
’’حیرت ہے ببر شیر اور اُس کے بہادر ساتھیوں کی موجودگی میں لومڑی پر پھر سے حملہ ہو گیا؟‘‘
جنگل میں ہونے والی کانا پھوسی نے اُن تمام جانوروں کے اندر ہلچل پیدا کر دی جن کے جسموں پر موٹاپا چڑھ گیا تھا۔ اُن کی آنکھوں میں اُن کا موٹاپا چُبھنے لگا۔ وہ اپنے موٹاپے کی بدولت خوف زدہ رہنے لگے۔ اور ایک دن اُن کا خوف اور بڑھ گیا جب اُنہوں نے سنا کہ جنگل میں لومڑی کے بعد ایک اور موٹا جانور دُبلا ہو گیا۔ اور بہت سارے پھولے ہوئے جانور اپنے آپ غبّارے کی طرح سکڑتے چلے گئے۔
————
مجمعے میں بھی سرگوشیاں شروع ہو گئی تھیں۔
اس کے کان میں ایسی ایسی آوازیں پڑیں کہ اس کی آنکھیں پھیل گئیں
پھیلی ہوئی آنکھوں میں چھوٹی شے بڑی دکھائی دینے لگی۔
٭٭