صبح اس کی آنکھ فون کی مسلسل بجتی گھنٹی کی وجہ سے کھلی تھی۔ اس نے نیند میں اونگھتے ہوئے ہی فون اٹھا کر کان سے لگا لیا۔
”کون؟“ اس نے نیند میں ڈوبی آواز میں سلام کرنے کے ساتھ پوچھا۔
”سر میں حمزہ ۔۔آپ نے کشمالہ امجد کے بارے میں آج کی خبر دیکھی ہے؟“ دبے دبے جوش کے ساتھ آواز سنائی دی۔
”اس لڑکی کے بارے میں مجھے کیوں بتا رہے ہو؟؟؟ میرا نہیں خیال حمزہ کے میں نے تمہیں اس لڑکی کے بارے میں باخبر رکھنے کا کام سونپا ہے“ گو کہ اس کی نیند اڑ گئی تھی لیکن پھر بھی اس نے اپنے لہجے میں زمانے بھر کی بیزاریت سمو کر کہا وہ نہیں چاہتا تھا حمزہ کو یہ پتا چلے کہ کشمالہ اب بھی اس کے پاس ہے۔ دوسری طرف حمزہ کے جوش پر ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔
فون بند کرنے کے بعد اس نے ہاتھ میں پکڑے نوکیا تینتیس دس کو گھورا اور کمرے کی طرف ایک نگاہ ڈالی جس کے مختصر سامان میں ٹی وی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ایسے ہی وقت کے لئے ولی کہتا تھا کہ کوئی اچھا موبائل لے لو اور وہ فضولیات کہہ کر ٹال دیتا تھا۔ وہ خبریں سننا چاہتا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے ولی کو کال کر کے ملنے کا کہا تو اس نے ناشتہ کے لئے اپنے گھر ہی بلا لیا۔
”ناظرین کشمالہ امجد کیس نے لیا ایک نیا موڑ۔۔۔۔ ابھی ابھی بھارتی چینلز سے پتہ چلا ہے کہ میجر آتش بھی کشمالہ امجد کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔۔ میجر آتش پر غدار ہونے کا الزام لگنے کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے عہدے سے برطرف کر دئیے گئے ہیں بلکہ انہیں جیل میں بھی ڈال دیا گیا ہے۔۔۔ حکومت کو یہ ساری سچائی ان کے قریبی دوست کبیر نے بتائی ہے۔۔۔ جن کا کہنا ہے مجھے ملک غدار سے دوستی پر افسوس ہے۔۔۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمالہ اور میجر آتش کا افیئر چل رہا تھا“ وہ اینکر چیخ چیخ کر یہ خبر بار بار دوہرا رہا تھا ساتھ ساتھ سکرین پہ کشمالہ اور میجر آتش کی تصویر بھی دکھائی جا رہی تھی۔ وہ لب بھنچے اس کی بکواس سن رہا تھا دل تو چاہ رہا تھا کہ کاش وہ اس کے سامنے ہوتا اور وہ اس اینکر کو دو چار تھپڑ رسید کر دیتا جو بنا تحقیق کے بھارتی خبروں کو نقل کر کر کے سنا رہا تھا۔
اس سے پہلے کے ولی کوئی تبصرہ کرتا مجتبٰی کو آفس سے کال آ گئی سر ہارون نے فوراً آنے کے لئے کہا تھا۔ گہری سانس خارج کرتے ہوئے اس نے فون جیب میں رکھا اور آفس کی طرف بڑھ گیا۔
”مجتبٰی اس لڑکی کو کہاں رکھا ہے؟ “ انہوں نے اس کے سلام کو نظر انداز کرتے ہوئے پہلا سوال ہی یہ کیا۔
”کون سی لڑکی سر؟“ وہ انجان بنا۔
”تم نے آج کی نیوز نہیں سنیں ؟“سر ہارون نے ابرواچکا کر پوچھا۔
آپ کا کوئی انٹرویو آ رہا ہے؟“ ان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس نے مصنوعی حیرانگی سے سوال داغا۔
”میں نہیں چاہتا کہ تمہارا نام اس لڑکی کے ساتھ آئے۔۔۔ تم پہلے بھی ایک بار ان کی نظروں میں آ چکے ہو“سر ہارون نے بیچارگی سے کہا۔ کچھ بھی تھا وہ اسے کسی صورت ان درندوں کے سامنےلانے کے حق میں نہیں تھے۔
”بالکل نہیں آئے گا سر“مجتبٰی نے یقین دلانے کی کوشش کی ۔
”پھر اسے اپنے گھر سے کہیں اور منتقل کر دو“ اس نے حیرت سے نظریں اٹھا کر دیکھا سر ہارون اس بار بھی اس پر بازی لے گئے تھے۔
”سوری سر میں اس کی ذمہ داری لے چکا ہوں“ جب وہ سب جان ہی گئے تھے تو اس نے مزید جھوٹ بولنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
”میں آسیہ سے بات کر چکا ہوں۔۔۔ “انہوں نے عام سے انداز میں بتایا۔
”وہ مان گئیں؟“ مجتبٰی کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
”نہیں اسی لئے تو تمہیں بلایا ہے۔۔۔ معاملے کی نزاکت کوسمجھو۔۔۔ تم پہلے بھی ایک بھارتی جاسوس کو مار کر ان کی نظروں میں آ چکے ہو اب ایسی لڑکی کو پناہ دے رہے ہوں جو انہیں مطلوب ہے۔۔۔ بہت مشکل میں پڑ جاؤ گے“انہوں نے اب کہ اسے ذرا رسانیت سے سمجھانے کی کوشش کی۔
” مجھے ان کی نظروں میں رہنا اچھا لگتا ہے“مجتبٰی نے شرارت سے مسکراہٹ دبائی۔
”دیکھو مجتبٰی ابھی تک یہ بات مجھ تک ہے میں نہیں چاہتا اعلیٰ محکوم تک بات جائے اور وہ خود کو کلئیر کرنے کے لئے لڑکی واپس کرنے پر زور ڈالیں“سر ہارون کو لگا شاید اب تک اسے مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ نہیں ہے اس لیے دوبارہ سمجھا نے کی کوشش کی۔
”سر میں ان کے مجرم انہیں واپس کرنے کا روادار نہیں ہوں اور کہاں آپ مجھے ایک مظلوم کو واپس کرنے کا کہہ رہے ہیں“اس کی آنکھوں میں چٹانوں سی سختی در آئی تھی۔
”میں تمہارے فائدے کے لئے ہی کہہ رہا ہوں مجتبٰی۔۔۔میری بات مانو گے تو جلد ہی تمہیں تمہارے پرانے عہدے پر بحال کر دیا جائے گا۔۔۔تم نے اپنی بیوقوفی سے میجر کی جو جگہ گنوائی ہے وہ واپس مل جائے گی“ انہوں نے آفر کی۔
” سوری سر۔۔۔میں اپنی بات سے نہیں پھیروں گا“مجتبٰی نے بے لچک لہجے میں کہا۔
”تم مجھے اس بات پر مجبور مت کرو مجتبٰی کے میں کوئی انتہائی قدم اٹھاؤں“ اسے کسی طور مانتے نہ دیکھ کر انہوں نے وارن کیا۔
”میں آپ کو کل تک جواب دوں گا“ مجتبٰی نے ٹال مٹول سے کام لیا۔
”ٹھیک ہے اس وقت تک تمہارے گھر کے باہر پہرا رہے گا اسے کہیں اور لے جانے کی غلطی نہ کرنا“ سر ہارون نے تنبہیہ کی۔
”اوکے سر۔۔۔ “ وہ خدا حافظ کہتے ہوئے آفس سے نکلتا چلا گیا۔
اب حالات پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئے تھے کشمالہ کو زیادہ تحفظ کی ضرورت تھی۔ وہ نہ صرف بھارت بلکہ اب پاکستان کو بھی مطلوب تھی۔
۔۔۔۔۔۔
”بیٹا آپ کب سے ایسے ہی بیٹھی ہو۔۔۔کھانا کھاؤ نا“ آسیہ بیگم نے اس کا کندھا ہولے سے ہلا کر کہا۔ وہ جیسے اس کے آگے کھانے کی ٹرے رکھ کر گئی تھیں اب تک ویسی ہی پڑی ہوئی تھی اور وہ گم صم بیٹھی نہ جانے کہاں پہنچی ہوئی تھی۔ جواب میں وہ خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی جیسے سمجھ نہ آیا ہو کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔
”وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے ہر زخم بھر دیتا ہے آپ بھی جلد سنبھل جائیں گی“ انہوں نے پیار سے اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے تسلی دی۔ جب سے مجتبٰی نے انہیں اس کے بارے میں بتایا تھا وہ ایک ہی دن میں انہیں عزیز ہو گئی تھی۔اس کا دکھ انہیں اپنا محسوس ہوا تھا اتنی سی عمر میں اس نے کیا کیا نہیں دیکھا تھا۔
”زخم بھر جاتے ہوں گے۔ لیکن جب کوئی اپنا پیارا بچھڑتا ہے صرف زخم تو نہیں لگتے۔ زندگی میں اک خلا سا آ جاتا ہے۔ وقت زخم بھر سکتا ہے خلا نہیں۔ جو جگہ کوئی اپنا خالی چھوڑ جاتا ہے وہ جگہ پھر کبھی نہیں بھر سکتی“ اس نے شکستہ انداز میں جواب دیا۔
”یہ بھی تو دستورِ دنیا ہے۔۔۔ ہمیں وہی رشتے عطا بھی کرتا اور پھر چھین بھی لیتا ہے۔۔ یہ سب اسی کے اختیار میں ہے ہم کیا کر سکتے ہیں“ انہیں نے رسانیت سے سمجھانا چاہا ۔
”وہ تو انصاف کرنے والی ذات ہے پھر یہ کیسا انصاف کہ کسی کو ایک دم سے ہی سب رشتوں سے محروم کر دیا جائے؟“ اتنے دنوں میں پہلی بار اس نے کسی سے اپنے دل کا حال بیان کیا تھا۔ اسے نفیس سی آسیہ بیگم اچھی لگی تھیں۔
”یہ تصویر دیکھو۔۔۔“ انہوں نے موبائل سے ایک تصویر کھول کر اس کے سامنے کی۔ جس میں آسیہ بیگم کے ساتھ وردی میں ملبوس چار مرد تھے وہ صرف ایک چہرے سے آشنا تھی۔ اس تصویر میں ان سب کے چہروں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تصویر کی دلکشی میں اضافہ کر رہی تھی۔
”یہ میرے شوہر اور بیٹے ہیں۔۔۔ ان میں سے اب صرف ایک زندہ ہے جس سے تم مل چکی ہو۔۔۔باقی سب کو میں نے آگے پیچھے کھو دیا لیکن میں اداس نہیں ہوں کیونکہ میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں ایک شہید کی بیوی ہوں اور دو شہیدوں کی ماں ہوں“ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کشمالہ نے انہیں عجیب نظروں سے دیکھا ۔
”آپ نے ایسے ملک کے لئے اپنوں کو قربان کر دیا جنہیں قدر ہی نہیں ہے ۔۔۔بہت بیوقوف ہیں آپ “ اسے آسیہ بیگم کے لئے بیوقوف سے زیادہ مناسب کوئی لفظ نہیں ملا تھا۔
”میرے ساتھ چلو۔۔۔ میں تمہیں کچھ دکھاتی ہوں “ وہ اسے ساتھ لیے ٹیرس تک آئی تھیں۔
“ وہاں دیکھو۔۔“ انہوں نے ٹیرس سے نظر آتی سڑک پر کھیلتے بچوں کی طرف اشارہ کیا۔
” جب میں اپنے ارد گرد ان لوگوں کو پرسکون مسکراتے ہوئے دیکھتی ہوں تو میرے رگ و پے میں طمانیت بھرا احساس سرایت کر جاتا ہے کہ ان کا سکون ان کی مسکراہٹ قائم رکھنے میں کہیں نہ کہیں تھوڑا سا حصہ میرا بھی ہے“ کشمالہ کے تاثرات جانچنے کے لئے وہ لخطہ بھر کو رکیں اور پھر گویا ہوئیں۔
” دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا اور آزادی تو بالکل نہیں۔۔۔ کچھ لوگوں کو سانس لینے کے لئے کھلی فضا فراہم کرنے کی خاطر کچھ سانسیں روکنی پڑتی ہیں۔۔۔ کچھ جانیں بچانے کے لئے کچھ جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں“ اسے ان کی بات سمجھ آئی تھی یا نہیں لیکن وہ خاموش ہو گئی تھی۔ اس کے اندر دکھ کا ایک اور احساس اترا تھا اس خاندان کے دو افراد نے بھی اس ملک کی محبت میں اپنے پیارے کھوئے تھے بس فرق اتنا تھا کہ وہ خوش تھے اور کشمالہ نا خوش۔
۔۔۔۔۔۔۔
”آ گئے شہزادے صاحب فتح کے جھنڈے گاڑ کر؟؟ “ اسے گھر میں قدم رکھتے دیکھ کر آسیہ بیگم نے مصنو عی خفگی سے کہا۔
”آپ کا بیٹا ہو اور فتح کے جھنڈے نہ گاڑے ایسا ہو سکتا ہے ممی؟“ وہ آگے بڑھ کر ان کے گلے لگتے ہوئے شوخی سے بولا تو وہ مسکرا دیں۔
”اب کی بار کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟“انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”میں کیا خود سے اپنی تعریف کروں ۔۔۔آپ کے بھائی نے ساری رپورٹ دے ہی دی ہو گی“مجتبٰی نے شاہانہ انداز میں کندھے اچکائے ۔
”تم اصولوں کی پابندی کیوں نہیں کرتے؟“انہوں نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑتےہوئے ڈپٹنے والا انداز اپنایا۔
”ایک خوبصورت لڑکی نے میری تربیت اس انداز سے کی ہے کہ میں اصول اور سچائی میں سے صرف سچائی کو چنتا ہوں“ مجتبٰی نے ان کے ماتھے پر بوسا دیا تو آسیہ بیگم نے خود کو لڑکی کہے جانے پر اس کے سر پر ایک ہلکی چپت لگائی تھی۔
”ٹھیک ہے پھرآج سے میں چھٹیوں پر ہوں تم گھر سنبھالوں ۔۔۔ میں اور کشمالہ تو خوب گھومیں گے“ انہوں نے مزے سے کہا وہ اکثر کام میں ان کی مدد کر دیا کرتا تھا۔
”ممی آپ بھول رہی ہیں میں آپ کی سلیقہ شعار بیٹی نہیں بگڑا ہوا بیٹا ہوں۔۔۔ جسے آرمی والے بمشکل جھیل رہے ہیں “اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
” کھانا تیار ہے میں رفیق سے کہتی ہوں تمہارے لیے لگا دیتا ہے۔۔۔ میں اور کشمالہ ذرا بازار تک جا رہے ہیں اس کے لئے شاپنگ کرنی ہے“اس کی بات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے رفیق کو آواز دی۔ ان کے لاپرواہ انداز پر مجتبٰی کو شبہ ہوا شاید سر ہارون نے انہیں حالات کی سنگینی کا نہیں بتایا اور پہرے والی بات تو وہ کبھی بتائیں گے بھی نہیں۔
”کچھ عرصہ تک آپ اسے باہر نہ لے کر جائیں خطرہ ہے“ آسیہ بیگم کے استفسار کرنے پر مجتبٰی نے ساری تفصیل بتا دی۔ وہ جو دروازے میں کھڑی اپنے ذات سے متعلق ان کی ساری گفتگو سن چکی تھی آگے بڑھ آئی۔
”آپ مجھے میرے انکل کے گھر چھوڑ دیں۔۔۔ یہ ان کا ایڈریس ہے“ کشمالہ نے ایک کاغذ کی چٹ ان کے سامنے کی اس نے وہاں سے جانے کا ارادہ کر لیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ان اچھے لوگوں کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنے۔
” فی الحال تو آپ کہیں نہیں جا سکتیں۔۔۔ حالات بہتر ہوں گے تو ہم آپ کو چھوڑ آئیں گے“ مجتبٰی نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے صاف انکار کیا۔
”آپ لوگوں کا بہت شکریہ آپ نے میری بہت مدد کی ۔۔۔ لیکن میں آپ کی پابند نہیں ہوں لہذا مجھے جانے دیں میں انکل سے مل کر کشمیر واپس چلی جاؤں گی“ اس کا انداز فیصلہ کن تھا۔
”آپ کے لئے واپسی بھی آسان نہیں ہے۔۔۔ بھارتی آرمی آپ کو زندہ نہیں چھوڑے گی “ مجتبٰی نے اسے حقیقت کا ادراک کروانا چاہا۔
”یہاں کسی مسلمان کے ہاتھوں مرنے کے بجائے میں کسی کافر کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گی۔۔۔ اگر آپ نہیں چھوڑ سکتے تو میں خود چلی جاؤں گی“ کشمالہ نے اٹل لہجے میں کہا اس پر مجتبٰی کی بات کا اثر نہیں ہوا تھا۔
آسیہ بیگم اور مجتبٰی نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مانی تو مجبوراً وہ اسے لے جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ پہرے کا اسے مسئلہ ہی نہیں تھا اس نے ساتھ والے گھر میں مقیم اپنے دوست سے مدد مانگی تو وہ مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گیا۔ وہ تینوں چھت سے دیوار پھلانگ کر ان کے گھر گئے اور وہاں اس کی گاڑی لے کر آسانی سے نکل گئے۔ اگر ہارون صاحب پہرا لگا سکتے تھے تو وہ بھی ان کا ہی بھانجا تھا ہر مسئلہ کا توڑ نکالنا جانتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
آدھہ گھنٹہ پہلے وہ لوگ کشمالہ کے بتائے ہوئے پتے پر آ چکے تھے۔ کمرے کے وسط میں رکھی میز پر پڑی چائے پڑے پڑے ہی ٹھنڈی ہو چکی تھی ان تینوں میں سے کسی نے بھی چائے کے کپ کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔ آسیہ بیگم مختصراً ساری روداد سنا چکی تھیں اور اس وقت سے باسط صاحب کے چہرے پر گہری سوچ کی لکیریں نظر آ رہی تھیں۔
”کشمالہ بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا مجھے اس کا بے حد افسوس ہے لیکن۔۔۔“ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ کر ایک طائرانہ نظر ان سب کے چہروں کی طرف ڈالی جو ان کی اگلی بات کے منتظر تھے۔
”میری بیوی حیات نہیں ہیں اور سب بچے بھی شادی شدہ ہیں اپنے گھروں میں مصروف ہیں۔۔۔ ایسے میں میں ایک جوان بچی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا اگر زینب ساتھ ہوتی تو انہیں پناہ دے دیتا لیکن اب ممکن نہیں ہے“ انہوں نے لفظ تولتے ہوئے ادا کیے تھے۔
”ابو۔۔۔ میں تیار ہو ں کشمالہ کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے “ کمرے میں داخل ہوتے شخص نے کہہ کر ایک اچٹتی نگاہ کشمالہ کے سراپے پر ڈالی گلابی رنگ کے لباس میں جس کی رنگت مزید کھل رہی تھی۔ حسن میں شامل حزن نے خوبصورتی کو مزید چار چاند لگا دئیے تھے جو دیکھتا لمحہ بھر کو مبہوت رہ جاتا۔ یہی حال اندر داخل ہونے والے شخص کا بھی ہوا تھا وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے گیا جو اپنے ہاتھوں پہ نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ اس کے مسلسل دیکھنے پر مجتبٰی نے ناگواری سے گلا کھنکھارا تو اس نے سٹپٹا کر نظروں کا رخ موڑ لیا۔
”تم سے اپنی بیوی تو سنبھالی نہیں جاتی روز میکے گئی ہوتی ہے ۔۔۔ تم کیسے اس کی ذمہ داری لو گے؟“ باسط صاحب نے بیٹے کو گھرکا۔
”اسی لئے تو کہہ رہا ہوں اسے وہیں رہنے دوں گا۔۔۔ آپ میرا کشمالہ سے نکاح پڑھوا دیں“ اس کی بات پر جہاں مجتبٰی نے پہلو بدلا تھا وہیں آسیہ بیگم کو بھی اس کی بات سخت ناگور گزری تھی۔ اور جو موضوع گفتگو تھی وہ تو نظریں جھکائے ایسے بیٹھی تھی جیسے وہاں اس کی ذات کے بجائے کوئی اور موضوع بحث ہو۔
”آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں کشمالہ کو صرف آپ سے ملوانے لائی ہوں اور ساتھ آپ کو انوائیٹ بھی کرنا تھا آنے والے جمعہ کو کشمالہ اور مجتبٰی کا نکاح ہے“ ان کی بات پر جہاں مجتبٰی کو سو واٹ کا کرنٹ لگا تھا وہیں کشمالہ نے بھی انتہائی شاک کے عالم میں نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا تھا۔ یہاں آنے سے پہلے تک تو انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ دونوں بھی ہونقوں کی طرح انہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ بھی مجتبٰی کی ماں تھیں کوئی بھی ان کے چہرے کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ بات انہوں نے ابھی ابھی بیٹھ کر سوچی ہے یا پھر پہلے سے طے شدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔