فون کی چنگھاڑتی بیل پر کچن کی جانب بڑھتے اس کے قدم رک گئے۔
’’شاید پھوپھو کا ہو۔‘‘ وہ یہی قیاس کرتی فون سیٹ کی جانب آئی تھی۔
’’ہیلو فاطمہ؟‘‘ ریسیور کان سے لگاتے ہی دوسری جانب سے استفسار کیا گیا تھا۔ یہ آواز یہ لہجہ تو وہ سینکڑوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔
مگر اب کیوں ؟‘‘
کتنے پل، پہر، موسم، اسے تو یوں لگتا تھا، جیسے صدیاں بیت چکی ہوں۔ اب تو اس نے موسموں کا، دنوں کا پہروں کا حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اب تو وہ اپنے نصیب پر صابر شاکر ہو کر تقدیر سے سمجھوتا کر چکی تھی۔
’’فاطمہ! میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے ملتجی لہجے پر وہ جیسے اپنے حواسوں میں واپس لوٹی۔
’’کیوں ؟‘‘ لاکھ چاہنے پر بھی وہ اپنا لہجہ تلخ نہ کر سکی۔
’’مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں اب کے دبا دبا سا جوش تھا۔ جس پر وہ متجسس ہوئے بغیر رکھائی سے بولی۔
’’اپنے لیے کوئی دوسرا سامع ڈھونڈ لو۔ مجھے اب اتنی فرصت کہاں۔‘‘ وہ بھلا اب اس سے ملنے کیسے جا سکتی تھی۔ اس کا حوالہ، اس کا نام، اس کی پہچان تک تو بدل چکی تھی۔ اب وہ بیلا مانیک کہاں رہی تھی۔ اب تو وہ فاطمہ زریاب بن چکی تھی۔
’’پلیز فاطمہ! بس ایک بار … میں تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘ اس نے جگہ اور وقت بتا کر فون بند کر دیا۔
وہ کتنی ہی دیر شش و پنج کا شکار ریسیور ہاتھ میں تھامے کھڑی رہی اور پھر سر جھٹک کر اسے کریڈل پر پٹخ دیا۔ اس کا ارادہ کہیں جانے کا نہیں تھا۔
دوسری جانب اپنے بیڈ روم کے ایکسٹینشن سے اتفاقاً ان کی گفتگو سننے کے بعد زریاب کا خون کھول اٹھا۔
وہ اس سے کتنا ہی اجنبی اور لاتعلق سہی۔ مگر وہ تھی تو اس کی بیوی نا۔ ایسی عورتوں کو ان کے خاندان میں کاری قرار دیتے ہوئے سرعام سنگسار کیا جاتا تھا۔
تب ہی وہ کمرے میں چلی آئی۔ وہ اس پر ایک زہر خند سی نگاہ ڈالتا باہر نکل گیا۔ لان میں ٹہلتے ہوئے اس کی نگاہ اوپر اٹھی اور کتنے ہی پل خاموشی سے سرک گئے۔
’’عورتوں کو سرعام سنگسار کرتے ہو اور ایسے مردوں کے لیے کیا سزا تجویز کی ہے۔‘‘ کوئی اس کے اندر سے بولا۔ اس نے جھنجھلا کر مہک سے نظریں ہٹا لیں اور پاؤں پٹختا ہوا حویلی سے دور نکل گیا۔ اسے کل شام چار بجے کا بے چینی سے انتظار تھا۔
٭٭٭
دن بھر وہ معمول کے کام نبٹاتی رہی۔ مگر چار بجتے ہی اس کا دل معمول سے ہٹ کر دھڑکنے لگا۔
’’میں انتظار کروں گا۔‘‘ اس کے لفظ بار بار سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے۔
’’مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔‘‘ بالآخر اس نے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
آئینے میں اپنا آخری جائزہ لینے کے بعد وہ حویلی سے باہر نکل آئی۔ آج اس نے کوئی خاص بناؤ سنگھار نہیں کیا تھا۔ وہ اس وقت عبایا کے اوپر سیاہ حجاب لپیٹے ہوئے تھی۔ مطلوبہ جگہ پہنچ کر اسے مانیک سے اپنی آخری ملاقات یاد آ گئی۔ جس میں وہ اپنی محبت کا مان ہار چکی تھی۔ مانیک نے اسے کتنا مایوس کیا تھا۔
مگر شاید اس نے کہیں زیادہ مایوس تو وہ اسے کر چکی تھی۔
’’السلام علیکم!۔‘‘ ایک یک سراجنبی مرد نے اسے کسی کی تلاش میں سرگرداں دیکھا تو اٹھ کر قریب چلا آیا۔
فاطمہ اپنی جگہ حیرت کا بت بنی، منہ کھولے محض دیکھتی ہی رہ گئی۔
سفید، شلوار سوٹ میں ملبوس سر پہ کروشیے کی ٹوپی پہنے، ہلکی ہلکی داڑھی والا وہ خوبرو نوجوان کوئی اور نہیں مانیک تھا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے۔ گویا ہوئی۔ ’’مانیک …‘‘
’’میرا نام علی ہے۔‘‘ وہ اس کے انداز میں بولا۔
’’کیا؟‘‘ اس کے دل میں چھن سے جیسے کچھ ٹوٹ گیا۔
علی نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب بینچ پر بٹھا لیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر شرارت سے بولا۔
’’محترمہ! اب تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دیکھو! نام بھی تمہارے برابر کا رکھا ہے۔‘‘
’’یہ سب یوں اچانک …‘‘
’’اچانک نہیں۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولا۔
’’جب تم مجھے ٹھکرا کر چلی گئی تھی تو میں بہت دل برداشتہ ہوا تھا۔ کتنے ہی دن تمہاری بے وفائی کے روگ نے مجھے بستر سے اٹھنے نہ دیا۔ ان دنوں سوزین نے میرا بہت خیال رکھا۔ پھر وہ شادی پر اصرار کرنے لگی اور جب میں نے دو ٹوک انکار کیا تو اس نے بھری محفل میں مجھے ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کی۔ تمہارے حوالے سے مجھے ذلیل کیا۔ میرا دل تو اس ملک سے ویسے ہی اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں نے سامان سمیٹا اور برمنگھم چلا آیا۔ میں تمہیں بے وفا کہتا تھا۔ مگر دل تمہاری بے وفائی کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ پہلے پہل میں اسے مختلف دلائل دے کر مناتا رہا۔ مگر جب یہ نہ مانا تو میں نے ہار مان لی۔ میں نے حقیقت پسندی سے سوچا کہ تم جو مجھ سے اتنی محبت کرتی تھیں۔ جس کے لیے میرے بغیر جینے کا تصور بھی محال تھا۔ تم نے محض ایک مذہب کی خاطر کیسے مجھے چھوڑ دیا۔ ایسا کیا ہے اس مذہب میں جس کی خاطر تم نے اپنی جان سے پیاری چیز اپنی محبت تک کو قربان کر دیا ہے۔‘‘ وہ ایک لمحے کو رکا اور اسے دیکھ کر مسکرایا۔
’’بس یہ خیال تھا، جو مجھے روز اکساتا تھا کہ میں تمہارے مذہب کا مطالعہ کروں اور جانوں کہ اس میں ایسی کیا کشش ہے، جو مجھ سے بڑھ کر تھی۔ مگر تم تو جانتی ہو کہ میں کتابوں سے کتنا الرجک تھا۔ کتنے ہی مہینے میں خود کو ٹالتا رہا۔ مگر جب بے چینی حد سے سوا ہوئی تو میں جا کر قرآن پاک لے آیا اور تم یقین نہیں کرو گی، چھتیس گھنٹے بغیر کچھ کھائے پیئے اپنے بیڈ روم میں محصور ہو کر میں نے محض اسے پڑھا۔
’’وہ جیسے سحر کی سی کیفیت میں بول رہا تھا۔ فاطمہ دم بخود اسے سن رہی تھی۔‘‘
’’اور تب میں جانا کہ تم نے مجھے کھو کر کیا پایا ہے۔ اس کے بعد میں نے اسلامک سینٹر جوائن کر لیا چھ ماہ تک وہاں سے احکام شریعت کی تعلیم حاصل کی۔ خود کو تمہارے قابل بنایا۔ میں آنا چاہتا تھا، جب اچانک ڈیڈ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان پر فالج کا شدید اٹیک ہوا تھا۔ دو ماہ دن رات میں نے ان کی خدمت کی۔ مگر وہ صحت یاب نہ ہو سکے۔ ان کی وفات کے بعد جائیداد میں مما اور ٹومی کو ان کا حصہ دینے کے بعد پہلی فلائٹ سے پاکستان آیا ہوں اور اب …‘‘
’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ اسی لمحے زریاب نے ایک جھٹکے سے اس کا بازو پکڑتے ہوئے انتہائی درشت لہجے میں استفسار کیا۔ اس کی آنکھوں سے جیسے شرارے نکل رہے تھے۔
فاطمہ اسے یوں غیر متوقع طور پر سامنے دیکھ کر بوکھلا کر رہ گئی۔ اس پر اس کے بگڑے تیور، اسے جیسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی یہاں موجودگی کا کیا جواز پیش کرے۔
’’ایکسکیوزمی مسٹر۔‘‘ علی نے اٹھ کر اس کا گریبان پکڑ لیا۔
’’علی! یہ میرا شوہر ہے۔‘‘ علی کی گرفت وہیں ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ بے یقین نظروں سے فاطمہ کو دیکھنے لگا۔
’’چلو!‘‘ زریاب نے اسے چلنے کا اشارہ کیا۔
وہ مرے مرے قدموں سے اس کے ساتھ چلنے لگی تھی۔ لیکن اس کا سارا دھیان پیچھے کھڑے علی میں اٹکا ہوا تھا۔
جیپ کے قریب پہنچنے تک وہ ایک فیصلہ کر چکی تھی۔
زریاب نے اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ مگر وہ بیٹھنے کا ارادہ موقوف کر چکی تھی۔ دور کھڑا علی ابھی تک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’زریاب! مجھے تم سے طلاق چاہیے۔‘‘ اس کے لہجے کی مضبوطی اور اطمینان بھرے انداز نے ایک پل کے لے زریاب کو ساکت کر ڈالا۔ جو بات، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہ کتنی آسانی سے بول گئی تھی۔
مگر اس کا یہ مطالبہ کسی صورت قابل عمل نہیں تھا۔ ان کے خاندان میں سات پشتوں تک کبھی کسی مرد نے عورت کو طلاق نہیں دی تھی۔
’’میں تمہاری اس حرکت کے لیے تمہیں معاف کر سکتا ہوں۔ مگر طلاق نہیں دے سکتا۔ یہ ایک نا ممکن سی بات ہے۔‘‘ ایک جھٹکے سے اسے گاڑی میں دھکیلتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
٭٭٭
’’اتنی اداس کیوں کھڑی ہو؟ لگتا ہے منگنی ٹوٹنے کا کچھ زیادہ ہی ملال ہے ؟‘‘ وہ ٹیرس پہ کھڑی خشک اور بے رنگ درختوں سے سوکھے پتوں کو گرتے دیکھ رہی تھی، جب وہ اچانک اس کے عقب میں آ کر بولا۔ انداز ایسا جی جلانے والا تھا کہ وہ سر تاپا سلگ کر رہ گئی۔
’’دیکھو! بہت برداشت کر چکی ہوں میں اب اگر تم نے ایک بھی فضول اور بے ہودہ بات کی تو تمہارا منہ نوچ لوں گی۔‘‘
’’جہاں تک برداشت کرنے کی بات ہے، وہ تو اب تمام عمر کرنا پڑے گا … اور رہی فضول اور بے ہودہ بکواس تو ان کے کرنے کا تو جلد ہی باقاعدہ سرٹیفکیٹ ملنے والا ہے۔‘‘ اطمینان سے اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ اس کی معلومات میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔
’’فاطمہ کہاں ہے ؟‘‘ اس کی بکواس کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے اس نے متلاشی نظروں سے پورا لان بالکونی اور سیڑھیاں تک کھنگال ڈالیں۔ وہ غائب تھی اور ڈرائیور بھی خالی گاڑی لیے واپس آیا تھا۔
’’وہ جا چکی ہے، تمہیں سلام کہہ رہی تھی اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ زریاب سے میرا نکاح ضرور ہوا تھا مگر ہم آپس میں کسی طرح کا کوئی تعلق نہ جوڑ سکے۔ سو یہ رشتہ کاغذ تک ہی محدود رہا اور اسی پر ختم بھی ہو گیا۔ اب تم سے درخواست ہے کہ زریاب کا بہت خیال رکھنا۔ وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے۔‘‘ ایک لائن کے سوا باقی سارے جملے اس کے اپنے تھے۔
گاڑی اسٹارٹ کرنے کے بعد جب اس نے فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رک گیا۔ اس کے دل نے کہا تھا۔
’’زریاب شاہ! کیوں زندگی کو سزا بنا دینا چاہتے ہو۔ تقدیر مہربان ہے اور منزل قریب۔ کشتی اگر بھنور سے نکل کر ساحل پر آ ہی چکی ہے تو پھر کیوں ڈبو دینا چاہتے ہو؟ خود کو بھی اور اپنے سے وابستہ تمام لوگوں کی خوشیوں کو بھی؟ تم وہ کیوں نہیں کرتے جو سیدھا اور آسان ہے ؟ بھلے ہی وہ اعتراف نہ کرے۔ مگر محبت تو تم سے ہی کرتی ہے نا۔‘‘
’’جاؤ فاطمہ! میں نے تمہیں آزاد کیا۔‘‘ اس کی آواز سرگوشی سے بلند نہیں تھی۔
فاطمہ نے بے یقین نظروں سے اسے دیکھا اور پھر بھیگی پلکوں سے مسکراتے ہوئے گاڑی سے اتر گئی۔
جس رہ گزر پر دونوں چل رہے تھے۔ اس کے اختتام پر دونوں کی منزل الگ تھی۔ سوراستے جدا کیونکر نہ ہوتے۔
’’تم نے انہیں جانے کیوں دیا؟ گھر لے کر آتے۔ پھر ہم دھوم دھام سے ان کی شادی …‘‘
’’بس! دوسروں کی شادیوں کا شوق ہے تمہیں … اور جو میں بکواس کر رہا ہوں، اس پہ کان نہ دھرنا۔‘‘ اتنے رومانٹک جملے کے بدلے ایسی فرمائش پر اسے تپ نہ چڑھتی تو کیا ہوتا۔ مگر وہاں جو ذرا پروا ہو۔
’’مجھے نہیں کرنی تم سے شادی۔ کتنی بار انکار کروں ؟‘‘
’’اب کیا اعتراض ہے تمہیں ؟‘‘ وہ کھول ہی تو اٹھا تھا۔
مہک مصنوعی گھبراہٹ کا مظاہرہ کرتی دو قوم پیچھے ہٹی۔
’’ایسے خونخوار انداز میں پرپوز کرو گے تو میں کیا، دنیا کی کوئی بھی لڑکی تم سے شادی نہیں کرے گی۔‘‘ خفگی سے کہتے ہوئے اس نے رخ موڑ لیا۔
’’یہ لو۔‘‘ اس نے سرخ گلابوں کا بکے اور چاکلیٹ اس کی جانب بڑھائیں۔
’’اب بھی انکار کیا تو زبردستی اٹھا کر لے جاؤں گا۔‘‘
’’بہت موٹی ہو چکی ہوں۔ ایسی حرکت سے احتراز ہی کرنا۔‘‘ وہ اس کی دھمکی پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’قسم سے مہک! مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے اب تم مجھے کبھی نہیں مل سکو گی۔‘‘
’’اپنی وہ الٹی سیدھی تمام تر حرکتیں یاد ہیں تمہیں ؟
’’وہ تو بس تمہیں جیلس کروانا چاہتا تھا۔‘‘
’’اور میں جیلس ہو بھی جاتی۔ اگر فاطمہ میری بہن نہ ہوتی۔‘‘
’’اچھا! اور اگر فاطمہ آج بھی ہمارے درمیان ہوتی تو تم ساری زندگی میرے بغیر کیسے گزارتیں ؟‘‘ زریاب کو اس کا فاطمہ کی حمایت میں بولنا اچھا نہیں لگا تھا۔ وہی تو تھی جس نے دونوں کی ہنستی مسکراتی زندگی سے سارے رنگ چرا لیے تھے۔
’’تمہیں یاد ہے جہاں زیب پھوپھا نے کہا تھا کہ جو چیز ہمارے مقدر میں ہو، وہ ضرور ملتی ہے اور فاطمہ کہا کرتی تھی کہ مقدر میں لکھی چیزیں وقت سے پہلے نہیں ملتیں۔ یونو! تمہارے مقدر میں دو شادیاں لکھی تھی اور مجھے اپنے وقت کا انتظار تھا۔‘‘
’’لیکن پیار ایک ہی بار لکھا تھا اور میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔‘‘ وہ اس کی بڑی بڑی سنہری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
مہک کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ سچی، شرمیلی اور محبت بھری مسکراہٹ۔
٭٭٭
’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے زندگی کے دو سال تمہارے بغیر برباد کر دیے۔ کاش! کہ میں نے اس وقت تمہاری بات مان لی ہوتی۔ جب تم آخری بار مجھ سے ملنے آئی تھیں۔ ’’علی سے اس کا نکاح ہوئے چھ ماہ ہو چکے تھے۔ مگر اسے ان دو سالوں کا غم آج بھی تھا۔
’’تمہارے وہ ماہ و سال ضائع نہیں ہوئے۔ ان دو سالوں نے تمہیں ایک اچھا مسلمان بھی تو بنایا تھا۔ اگر تم تب میری بات مان لیتے تو اتنے اچھے با عمل مسلمان کبھی نہ بنتے اور اب اٹھ جاؤ! اذان ہو چکی ہے۔ یہ ڈائیلاگ آ کر جھاڑ لینا۔ ابھی تو رات باقی ہے۔‘‘ فاطمہ نے بمشکل تمام اسے باہر دھکیلا۔
’’ہاں ! تم سچ کہتی ہو۔ پھر واقعی میں اتنا اچھا با عمل مسلمان کبھی نہ بنتا تو گویا اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت یا مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ مگر ہم ہی دیر سے سمجھتے ہیں۔‘‘ وہ سوچتے ہوئے چلتا جا رہا تھا۔ اس کا رخ مسجد کی جانب تھا۔
جہاں سے ’’حی علی الفلاح‘‘ کی صدا بلند ہو رہی تھی۔
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید