پِھر اُسی بے وفا پہ مَرتے ھیں
پھر وھی زندگی ھماری ھے
بے خودی ، بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ھے ، جس کی پردہ داری ھے
شاہ زر نے فون کر کے چوکیدار کو ڈاکٹر کو گھر بلانے کو بھیجا لیڈی ڈاکٹر نے آ کر پری کا چیک اپ کیا ٹیمپریچر اب کافی کم تھا سر کی چوٹ کی وجہ سے ابھی بھی پری بہت کمزوری محسوس کر رہی تھی کچھ ضروری ہدایات دے کر ڈاکٹر واپس چلی گئی۔ پری لیٹی سوچو میں گم تھی اسے رہ رہ کر اپنے باپ کا خیال آ رہا تھا وہ باپ ہو کر کیسے ایک شادی شدہ بیٹی کو ایک غیر مرد کے ساتھ شادی کرنے کا مشورہ دے سکتے تھے ۔بوا نے کھانا وہی لا کر دیا
“بوا کھانا کھانے کے بعد پلیز مجھے میرے کمرے تک چھوڑ آیے میں اب وہاں آرام کرنا چاہتی ہوں ” پری نے کھڑکی سے باہر دیکھ کر کہا باہر اس وقت سورج کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی پہاڑوں پر موجود برف سورج کی روشنی میں دمھک رہی تھی
کھانا کھا کے دوائی لی پھر بوا کے سہارے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی شاہ زر واپس گھر لوٹا اپنے کمرے میں آیا جہاں بیڈ پر کل پری لیٹی تھی آج وہ جگہ بلکل خالی پڑی تھی
“اسے جہاں ہونا چاہیے تھا کل اسے وہاں بھیج دوں گا ” خود سے کہتا وہ واشروم چلا گیا فریش ہو کر لوٹا اسے کمرہ خالی خالی نظر آ رہا تھا ” یہ مجھے کیا ہو گیا ہے اس کا مقام اس کمرے میں میری زندگی میں کہی بھی نہیں ہے میں کیوں اس کو سوچ رہا ہوں کچھ نہیں لگتی وہ میری کچھ بھی نہیں ” وہ خود سے لڑتے لڑتے نا جانے رات کے کس پہر نیند کے آغوش میں چلا گیا
پری جب سے شاہ زر کے کمرے سے واپس اپنے روم میں آئی تھی اسے ایک پل کے لیے بھی چین نہیں مل رہا تھا دل ایک الگ انداز میں ڈھڑک رہا تھا اسے رہ رہ کر کل رات والا منظر یاد آ رہا تھا پری جب ہوش میں آئی رات ہے دو بج رہے تھے پری نے آنکھیں کھولیں پہلے اسے کچھ سمجھ نہیں آیا وہ کہا ہے پھر تھوڑا اٹھنے کی کوشش کی تو سر میں درد کا احساس ہوا اپنے دائیں طرف نظر گئی تو وہاں شاہ زر اس کے قریب ہی بیٹھا بیھٹا لیٹ رہا تھا پری نے نفرت سے اسے دیکھا
“پہلے زخم دیتے ہوں آپ پھر اس کا مداوا کرنے آ جاتے ہو میں اتنی گری پری نہیں تھی شاہ زر جیسے آپ نے اتنی بے دردی سے مارا ہے میں لاوارث نہیں ہو جو جیسا آپ کا دل کرے آپ میرے ساتھ کرتے رہے ۔۔۔ صبح ہوتے ہی چلی جاؤ گی میں یہاں سے پاپا سچ کہتے ہیں آپ اس قابل نہیں ہو کے آپ سے کوئی ہمدردی بھی کرے ” پری نے شاہ زر کے سوئے ہوئے وجود پر نا پسندیدگی کی نظر ڈالی پھر دربارہ سے وہ نیند کے آغوش میں چلی گئی تھی صبح اس کی آنکھ کسی کی سسکیوں کی آواز سے کھولیں اس نے وہی سے نظر اٹھا کر دیکھا تو شاہ زر کو اپنے لیے روتا پایا پری نے بے یقینی سے شاہ زر کو دیکھا اور غور سے اس کے الفاظ سنے لگی جو سیدھا پری کے دل پر جا کر لگے پہلی بار پری کو شاہ زر برا نہیں لگ رہا تھا پری کا دل کر رہا تھا وہ ایسے ہی بیٹھا پری کے لیے دعا مانگتا رہے اور وہ اسے دیکھتی رہے پھر شاہ زر جائے نماز سے اٹھ کر اس کے قریب آیا کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری اور اس کے پاس بیٹھ کر اس سے معافی مانگی تھی شاہ زر تو یہی سمجھا تھا پری ابھی بھی بےہوش ہے اس لیے اس نے بھی پری سے معافی مانگی ورنہ عام حالات میں وہ مر تو جاتا وہ سب کبھی پری سے نہ کہتا
پری بھی مشرقی لڑکی ہی نکلی ایک بار معافی مانگنے سے اس نے شاہ زر کی ہر خطا معاف کر لی تھی
ابھی پری وہ سب سوچ کر مسکرائی
“میں نہیں جانتی شاہ میں ٹھیک کر رہی ہو اپنے ساتھ یا غلط مجھے خود بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہے ۔۔ آپ کی مار کھا کر مجھے آپ سے بھر کر کوئی بندہ درندہ نہیں لگا تھا ۔۔ اور اب آپ کے معافی کے دو بول سن کر میرا دل کرتا ہے میں ایک بار آپ کو ازما لوں ایک بار اپنی آنا کو سائیڈ پر رکھ کر آپ کے اور اپنے رشتے کو ایک موقع دے دوں اور میں یہ موقع دوں گی یا تو میں ہار جاؤ گی یا پھر آپ کو جیت لوں گی مگر میرا وعدہ ہے آپ مجھ سے محبت نہیں عشق کرنے لگوں گے عورت کی محبت میں اتنی طاقت ہوتی ہے شاہ کے وہ آپ جیسے بندے کو بھی محبت کرنے پر مجبور کر سکے ”
پری خیالوں ہی خیالوں میں شاہ زر سے مخاطب ہوئی پری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں کچھ پا لینے کا عزم ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال صاحب جھلی بلی کی طرح ایک پاؤں پر کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہے تھے غصہ تھا کہ کم ہونے کے بجائے اور زیادہ ہو رہا تھا
“دانیال کیا ہو گیا ہے آپ کو بس بھی کرے اسے کر کے وہ آ تو نہیں جائے گی آپ کو اسے پیار سے سمجھانا چاہئے تھا وہ آپ کی بات کھبی نہیں ٹال سکتی تھی ”
کلثوم بیگم نے اپنے شوہر کو دیکھا جو پری سے بات کرنے کے بعد غصے سے پاگل ہو رہے تھے
“پیار سے ہی سمجھایا تھا آپ کی لاڈلی کو اس نے صاف انکار کر دیا آنے سے میں باپ ہو اس کا دشمن نہیں اس کا اچھا برا اچھے سے جانتا ہو وہ اس دو تکے کے انسان کے لیے مجھے باتیں سنا رہی تھی مجھے اپنے باپ کو” وہ غصّے کی زیاتی سے اونچی آواز میں بولے ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس وقت ہی جا کر شاہ زر کا قتل کر دے جس نے ان سے ان کی بیٹی چھین لی تھی وہ نکاح کا فیصلہ ان کی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ سابت ہوا تھا وہ تو شاہ زر سے بے انتہا نفرت کرتے تھے صرف اس لیے اس وقت اس کے ساتھ نکاح کروایا تھا کہ وہ جانتے تھے شاہ زر کو ان سے اور ان کی جائداد سے کوئی غرض نہیں تھی نہ ہی ان کی بیٹی سے مگر شاہ زر نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا ۔
“آپ ریلکس ہو کر بیٹھ جائے میں پری سے بات کروں گی وہ اس وقت ہم سے ناراض ہے اس لیے اس کا ردعمل اتنا سخت ہے ” کلثوم بیگم جانتی تھی دانیال صاحب کو شاہ زر ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا پھر جب سے ارحم نے انہیں ساری بات بتائی تھی تب سے وہ اسے ہی غصّے میں تھے وہ کل کا لڑکا ان کی بیٹی کو دھمکیاں دے رہا تھا اور وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے یہی سوچ سوچ کر وہ آپے سے باہر کو رہے تھے
“خدا گواہ ہے کلثوم میں نے تو پری کو اپنی سکی اولاد سے بھر کر چاہا ہے میری اپنی اولاد بھی ہوتی میں اس سے بھی اتنا پیار نہیں کر سکتا تھا جتنا مجھے پری سے ہے “انہوں نے بیڈ پر بیٹھ کر بےبسی سے کہا کلثوم بیگم کے دل کو کچھ ہوا وہ تو اس بات کو مانتی ہی نہیں تھی کہ پری ان کی اپنی بیٹی نہیں ہے
“پلیز دانیال ایسا نہ کہے وہ ہماری بیٹی ہے میری اور آپ کی اس بات کو یاد کر کے خود کو اور مجھے تکلیف مت دے “وہ رو پڑی دانیال صاحب نے اپنی بیگم کو روتے دیکھا ان کے اپنے دل کو کچھ ہوا انہوں نے آگے بڑھ کر اپنی بیوی کو گلے لگایا کلثوم بیگم کے رونے میں اور شدت آ گئی
“پاگل ہو گی ہو کیا میں نے بس ایک بات کی تھی بس “انہوں نے کلثوم بیگم کے آنسو صاف کیے
“آئندہ ایسی کوئی بات بھی مت کیجئے گا اس راز کو راز ہی رہنے دے پری کو پتا چلا وہ ہم سے دور ہو جائے گی وہ صرف اور صرف ہماری بیٹی ہے کیا ہوا جو اس کو میں نے پیدا نہیں کیا ماں سے بڑھ کر چاہا ہے اسے ”
“آئندہ ایسا کچھ نہیں کہوں گا بس چپ کر جائے صبح ہوتے ہی پری کو فون کر کے یہاں آنے کا کہے میں اس کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا ” کلثوم بیگم نے سر اٹھا کر دانیال صاحب کو دیکھا
“آپ بے فکر ہو جائے پری کو میں منا ہی لوں گی کوئی اولاد کب تک ماں باپ سے ناراض ہو سکتی ہے ” دانیال صاحب نے دھیرے سے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا جیسے تسلی دے رہے ہوں کے ان کی بیٹی واپس آ جائے گی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زر صبح صبح جاگنگ کر کے کچن میں آیا وہاں بوا اس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی اس نے کلاس میں پانی لیا وہی کرسی پر بیٹھ کر پینے لگا
“بوا پریشے کیسے ہی اب “اس بات کو ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت گزار چکا تھا شاہ زر نے جان کر اس کا سامنا نہیں کیا تھا شاہ زر نے سوچا تھا جیسے ہی اس کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی وہ اسے اس کے باپ کے گھر بھیج دے گا اس کے ہاتھ کا زخم بھی اب پہلے سے کافی بہتر تھا
“وہ اب کافی بہتر ہے بیٹا کمرے سے نکل کر باہر آتی جاتی ہے”
“ہہہم ٹھیک ہے آپ ایسا کریں ناشتہ تیار کر کے اسے بھی بولا لے آج میں اور پری ساتھ ہی ناشتہ کرئے گے “اس نے کچھ سوچ کر بوا سے کہا بوا نے سر ہلا دیا
شاہ زر بھی آٹھ کر روم میں آیا تیار ہو کر نیچے گیا جہاں ابھی تک پری نہیں آہی تھی اس نے بلک کافی کا سپ لیا اور اخبار لے کر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا
آہٹ پر اخبار سے نظر ہٹائی سامنے پری کھڑی تھی اس کے چہرے پر پٹی ابھی بھی لگی ہوئی تھی جو اس کے شفاف چہرے پر بہت جج رہی تھی پری نے بلک شلوار قمیض کے ساتھ ریڈ کرئی والی شال اوڑھ رکھی تھی ۔ “کیسے گھور رہا ہے ہیٹلر کا جانشین نہ ہو تو”
مکمل جائزہ لیانے کے بعد شاہ زر نے پری کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
“ناشتہ شروع کروں پریشے اس کے بعد کام کی بات بھی کرنی ہے “شاہ زر نے اس کے چہرے سے نظر ہٹائی وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے اور پری کے ساتھ کوئی زیاتی کرے وہ اگر پری کو قبول کر بھی لیتا تب بھی وہ اس معصوم سی لڑکی کو وہ مقام وہ عزت نہیں دے سکتا تھا جو پری کا حق تھا وہ اتنا علی ظرف والا نہیں تھا کہ ایک مجرم کی بیٹی کو اپنے دل کی سلطنت پر حکمرانی کرنے کی اجازت دیتا اس نے پری سے بدلہ نہ لینے کا فیصلہ کر لیا یہی بہت تھا اس سے ذیادہ وہ اچھا نہیں بن سکتا تھا اس نے پری کو دیکھا جو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی “شاہ زر نے نے ایک نظر پری کو دیکھا وہ واقعی چاہے جانے کے قابل تھی مگر وہ شاہ زر کی قسمت میں نہیں تھی
“میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ اب تم پہلے سے کافی بہتر ہو آرام سے سفر کر سکوں گی ویسے بھی یہاں سے اسلام آباد کا سفر اتنا زیادہ نہیں ہے تمہیں آج ڈرائیو تمہارے گھر چھوڑ آئے گا ” شاہ زر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا پری کے چہرے پر ناگواری در آئی
“کون سا گھر کہا کا گھر شادی کے بعد شوہر کا گھر ہی لڑکی کا گھر ہوتا ہے ”
پری کو لگا تھا سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے اب شاہ زر اس کو اپنی زندگی میں شامل کرے گا اور اس سے معافی مانگے گا خیر وہ جانتی تھی معافی اور شاہ زر کھبی بھی مانگنے والا نہیں تھا مگر شاہ زر نے گویا اس کی سوچ اور خوش فہمی پر پانی پھینک دیا
“زبردستی کے رشتہ ہے تمہارا اور میرا اور میں اب اس رشتے کو اور نہیں نبھا سکتا “شاہ زر نے چبا چبا کر اسے اس شوہر بیوی والے رشتے کی حقیقت یاد دلائی
“اور آپ شاید بھول گئے ہو اس زبردستی کے رشتے کو آپ نے بہت سوچ سمجھ کر قائم کیا تھا” اس نے بھی طنزیہ لہجے میں جواب دیا
“اور اب میں ہی ختم بھی کر رہا ہو بہتر ہے آپ اپنا سامان پیک کرئے اور جائے یہاں سے”
شاہ زر نے اطمینان سے جواب دیا اور پری کا سارا اطمینان پل میں ہی ختم کر دیا
“آپ اتنی آسانی سے ایسے کیسے سب ختم کر سکتے ہیں مذاق سمجھ رکھا ہے آپ نے سب کچھ” وہ بےیقنی سے بولی
“یہی سمجھ لوں ” سکون سے جواب دیا گیا
پری کو سر سے پاؤں تک آگ لگ گئی وہ منہ کھولے اس کھڑورس انسان کو دیکھنے لگی
“ٹھیک ہے ٹھیک ہے چلی جاتی ہوں میں یہاں سے نہیں ہے میرا کوئی گھر آپ ایک اور احسان کر لے مجھ پر مجھے کسی اچھے سے دارلعلوم میں بھیج دے میں یہاں نہ وہاں کہی بھی نہیں رہنا چاہتی سمجھے آپ ” وہ تلحی سے بولی
“پہلے پاپا نے مجھے آپ پر قربان کر دیا پھر جب میں آپ کے ساتھ آپ کی دھمکیوں پر یہاں اگی تو آپ مجھے واپس بھیجنا چاہتے ہیں سمجھ کیا رکھا ہے آپ سب نے مجھے نہیں رہنا مجھے یہاں نہ وہاں” وہ اپنے آنسو ضبط کر کر اٹھ کر جانے لگی وہ شاہ زر کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی وہ اس شخص پر اپنے دل کا حال ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی جب وہ اسے وہ مقام دینا ہی نہیں چاہتا تھا اسے بھی اپنی آنا بہت عزیز تھی
“روکو پری واپس آ کر بیٹھوں میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی ” وہ سنجیدگی سے گویا ہوا پری روکی ضرور مگر واپس مڑ کر نہیں دیکھا
“پری سنا نہیں تم نے ” اب کے شاہ زر کے لہجے میں سختی تھی ناچار پری کو واپس بیٹھنا ہی پڑا چہرے پر بےزاری صاف دکھائی دے رہی تھی وہ اسے بیٹھی تھی جیسے ابھی اجازت ملتے ہی بھاگ کھڑی ہو گئی
شاہ زر نے غور سے اس کے غصّے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا پھر اس کے خوبصورت چہرے سے نظریں چرا گیا
“پری تم بےجاہ ضد کر رہی ہوں ابھی پوری عمر پڑی ہے تمہارے آگے تم یہاں سے جاؤ گی تو ایک نئی زندگی شروع کر لوں گی اگر یہاں رہی تو سوائے دکھوں کے تمہیں کچھ بھی نہیں مل سکے گا میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ”
شاہ زر نے ایک آخری بار پری کو سمجھانے کی کوشش کی ۔پری نے ایسی نظروں سے گھورا جیسے وہ اس کی بات کا مذاق اڑا رہی ہوں
“بہت خوب شاہ زر صاحب اپ کو لگتا ہے کہ ایک لڑکی جس کی شادی والے دن بارات ہی نہیں آئی اس لڑکی کی شادی اس کے باپ نے اپنی عزت بچانے کے لیے اس کے نام نہاد کزن سے کر لی پھر شادی کے دو مہینے بعد وہ طلاق لے کر واپس آ گی اس لڑکی کو کوئی بھی شریف انسان اپنی زندگی میں شامل کر لے گا نہیں شاہ زر ہم جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہاں منگنی ٹوٹ جانے کے بعد کوئی مڑ کر اسے نہیں اپناتا مجھ جیسی لڑکیاں تو پھر بھی بدکردار لڑکیوں کے فرسہت میں شمار ہوتی ہے کوئی تو بات ہوتی ہے نہ کہ مجھ جیسی لڑکیوں کو چھوڑ کر چلے جاتے ہے ان کے منگیتر ان کے شوہر ” اس نے اب کی بار آنسو کو بہنے سے نہیں روکا وہ اس شخص کے سامنے چاہ کر بھی ان کو روک نہیں پائیں
“میں آپ پر اور بوجھ نہیں بنوں گی آج ہی چلی جاؤ گی آپ فکر مت کرے ” اس نے ایک ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کیے
شاہ زر اسے ہی دیکھ رہا تھا شاہ زر کے دل میں کچھ ٹوٹا شاید اس کا دل اس نے انجانے میں ہی سہی ایک معصوم لڑکی کا دل توڑ دیا تھا اس کی خوشیاں اس سے چین لی
“تم یہاں سے کہی نہیں جاؤ گی یہاں ہی رہو گی مگر ہاں میں تمہیں اس گھر میں تو رکھ سکتا ہو اس دل میں نہیں “اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے سنجیدگی سے کہا اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا
پری نے اپنے آنسو صاف کیے اور دھیرے سے مسکرائی “میں بھی دیکھتی ہو آپ کب مجھ سے میری محبت سے بھاگتے ہے ایک نہ ایک دن آپ کی نفرت میری محبت کے سامنے ہار جائے گی یہ میرا وعدہ ہے آپ سے ” اس نے خود سے عہد کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر بوا سے گرم ناشتے کا کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زر نے پری کو رہنے کی اجازت تو دے دی تھی مگر اس کا دل اداس تھا وہ اس لڑکی کو اپنی زندگی سے بہت دور کر دینا چاہتا تھا پری جب جب اس کے سامنے ہوتی تھی اس وہ زخم پر سے تازہ ہو جاتے تھے آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ سارا کام یوں ہی چھوڑ چھاڑ کر گھر آ گیا اور آکر روم لاکٹ کر کے الماری کی طرف بڑھا وہاں سے کچھ بوسیدہ کاغذات لے کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گیا اس نے پہلے ان بوسیدہ کاغذات کو محبت سے اپنی آنکھوں سے لگایا اسے یاد نہیں پڑتا تھا اس نے ان میں لکھی تحریروں کو ناجانے کتنی بار پڑھا تھا ۔
پھر جب جب وہ بڑا ہوا اس نے ان کاغذات کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہو گے اب بھی جب وہ خود کو اکیلا محسوس کرتا تھا ان صفحات کو لے کر بیٹھ جاتا تھا اور ماضی کی تلخ یادوں میں گھو جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی۔۔۔۔۔
دانیال اور اکرام دو ہی بھائی تھے اکرام دانیال سے تین سال بڑا تھا ان کا گھر خوشحال گھرانوں میں شمار ہوتا تھا اماں ابا اور وہ دونوں ہی اس گھر میں قیام پذیر تھے
“اماں اماں کہا ہے آپ مجھے سخت بھوک لگی ہے”دانیال گھر میں داخل ہو کر چلاتا ہوا کچن میں آیا جہاں اماں منہ پھلائے کھڑی روٹیاں پکا رہی تھی ساتھ ساتھ کچھ بڑبڑا بھی رہی تھی دانیال دابے پاؤں ان کے پیچھے گیا اور اپنے دونوں ہاتھ ان کی آنکھوں پر رکھ دیے
“دور ہٹو بدبخت انسان تم سب نے مل کر میرا جینا حرام کر دیا ہے “انہیں نے اس کے ہاتھ جھٹک دیے
“کیا ہو گیا میری پیاری اماں جان آج بادل کیوں زوروں شور سے گرج چمک رہے ہیں ” دانیال نے ان کے غصے کو کسی خاطر میں لائے بغیر ہی ان سے مذاق کیا
“ہاں ہاں میں تو جھلی ہو گی ہو نہ تم باپ بیٹوں نے میری زندگی عذاب کر رکھی ہے ”
“اماں بتائے تو آخر کیا بات ہوئی ہے “دانیال نے وہی کرسی کھینچ کر دھڑام سے اس پر بیٹھ کر ماں سے کہا
“ہونا کیا ہے تم بھی سنو گے تو یقین نہیں کر سکوں گے ” اماں نے روٹیاں پکا کر ہاٹ پاٹ میں رکھی اور خود دانیال کے ساتھ ہی دوسری کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی
“تمہارے بھائی جان کو ایک لڑکی پسند آ گی ہے ابھی تمہارا باپ اور تمہارا بھائی رشتہ پکا کرنے گئے ہے “اماں نے روتے ہوئے اپنے آنسو اپنی چار کے کونے سے صاف کئے
دانیال سن کر اچھل پڑا
“یہ آپ کیا کہ رہی ہے اور کون ہے وہ لڑکی مجھے تو کسی نے کچھ بتانے کی توفیق نہیں کی”
“تم گھر پر ہی کب پائے جاتے ہو جو تم سے کوئی دکھ سکھ کی بات کر سکے بندہ دو ہی میری اولادیں ہیں اور دونوں ہی کمبخت ایک نمبر کے نکمے ” وہ ان دونوں کی کھنچائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی
“اوہو اماں یہ سب گلے شکوے بعد میں کر لیجیے گا ابھی باتیں وہ کون ہے ” دانیال نے جھنجھلا کر کہا
“وہ تمہاری ایک ہی ایک بدذات پھوپو کی بیٹی ثانیہ بی بی جو بڑی نیک پروین بنی پڑتی تھی میرے معصوم بیٹے پر ڈورے ڈال کر اسے اپنے عشق میں مبتلا کر گی” اماں کو اپنی نند کے ساتھ خدا واسطے کی بھیڑ تھی وہ بچاری تو اماں کی سخت مزاجی کی وجہ سے آتی بھی کم کم تھی اب اس کی بیٹی پوری عمر کے لیے ان کے سینے پر مونگ دال کر بیٹھنے آ ہی تھی
“یہ آپ کیا کہ رہی ہے ایسے کیسے ہو سکتا ہے ثانیہ اور بھائی نہیں” وہ بے یقینی سے بولا دانیال کو شروع سے ہی ثانیہ پسند تھی ابھی وہ پڑھ رہا تھا اس لیے خاموش تھا مگر اب تو اس کے اردگرد دھماکے ہو رہے تھے
“دیکھا تمہیں بھی سن کر شاک لگا نہ مجھے پتا تھا تم ضرور میری بات سمجھو گے “اماں کو کچھ تسلی ہوئی کہ کوئی تو ان کے ساتھ تھا یہ جانے بنا کے ان کے ایک نہیں دونوں بیٹے اس لڑکی کے پیار میں مبتلا تھے
“میں نے تو سوچا تھا اکرام کے لیے آپا کی بیٹی سعدیہ کو مانگوں گی اور تمہارے لیے کلثوم کو مگر میری قسمت ہی خراب نکلی وہ منحوس میرے بیٹے کو لے اڑیں ” اماں اپنی ہی دکھ بھری داستان سنانے میں لگی ہوئی تھی دانیال سے اب وہاں بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا کچھ بھی کہے بنا وہ کچن سے نکل کر اپنے کمرے میں چلا گیا اماں آوازیں ہی دیتی رہ گی اپنے غم میں وہ اپنے بیٹے کے چہرے پر موجود کرب دکھ غم نہیں دیکھ پائی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج موسم سرد تھا سورج کچھ وقت کے لیے بادلوں سے نکل کر اپنا دیدار کرواتا پھر بادلوں کے آؤٹ میں جا کر چھپ جاتا پری لان میں کرسی پر بیٹھی ہاتھ میں کتاب لیے مطالعہ کر رہی تھی آج کل شاہ زر صبح کا گیا رات دیر سے آتا وہ خود سے چھپ رہا تھا یا اس حقیقت سے وہ خود بھی نہیں جانتا تھا پری اب بھی پڑھتے پڑھتے اس کے خیالوں میں کھو گئی کیا تھا وہ شخص جس نے پری کے دل کو ایک پل میں اپنا غلام کر لیا تھا ارحم نے جب اسے پرپوز کیا تھا تو پری کو لگا تھا وہ ایک اچھا ہمسفر ثابت ہو گا محبت جیسے لفظ سے بھی وہ ناواقف تھی ہاں اسے محبت تھی اپنے مما پاپا سے اپنے لائف سٹائل سے شاپنگ سے مگر اسے کبھی کیسی مرد سے محبت نہیں ہوئی تھی محبت اگر محرم سے ہو تو اس محبت کو سوچنا اس کے خیالوں میں گم ہونا کوئی بری بات تو نہیں تھی
مگر جب وہ ہی محرم آپ کی محبت کو سرے سے ماننے سے ہی منکر ہو جائے تو تکلیف ہوئی ہے بہت ہوتی ہے اور اسی دور اسی تکلیف سے پریشے بھی گزر رہی تھی
“کاش شاہ مجھے آپ سے محبت نہ ہوتی اگر ہو بھی گئی تھی تو ہمارے درمیان میں اتنے فاصلے نہ ہوتے مجھے اب آپ کے بنا جینا نہیں ہے آپ مجھے نہ ملے تو مجھے لگتا ہے میں جیتے جی مر جاؤ گی شاہ مجھے جینے دے اپنے سنگ بھول جائے وہ ماضی اس خوبصورت حال میں جی لے مجھے مکمل کر لے شاہ اللّٰہ کرے آپ کو مجھ سے عشق ہو مگر ناجانے کیوں میرا دل کہتا ہے تب بہت دیر ہو چکی ہو گی اللّٰہ کرے یہ بس میرے دل کا میرا سوچ کا وہم ہو آپ جب بھی میری طرف لوٹ کر آؤ میں آپ کی منتظر ہوں گی ”
ایک آنسوں اس کے آنکھ سے گر کر اس کے کتاب کے ورک کو بھگو گیا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...