پھر تیرا ذکر کیا بادِ صباء نے مجھ سے
پھر میرے دِل کو ، دھڑکنے کے بہانے آۓ۔۔
گولڈن کلر کے بھاری کامدار لہنگے میں سر پر سلیقے سے ملبوث بھاری دوپٹے پر نفاست سے کئے گئے میک اپ میں وہ پرستان کی شہزادی لگ رہی تھی ۔۔دلہن کے روپ میں بھی اسکے چہرے پر اداسی کے رنگ چھائے تھے ۔۔یہ رنگ کسی اور کے نہیں بلکہ اس انسان کی دی ہوئی نشانی ہے جو بزدلوں کی طرح پیٹھ دکھا کر بھاگ گیا ۔۔اسنے ایک نظر اپنے ہاتھوں میں سجی مہندی پر ڈالی جو اب کسی اور کے نام کی تھی ۔۔آنکھوں سے آنسوں موتیوں کی لڑی کی مانند ٹوٹ کر اسکے چہرے کو بھگوگئے ۔۔۔
اسنے ہاتھ میں پکڑی تصویر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔کتنے خوش تھے نہ ہم سب ۔۔۔ایک ساتھ ۔۔نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ۔۔۔تم لوٹ آؤ نہ واپس ۔۔یہ آنکھیں تمہیں دیکھنے کی ضد کرتی ہیں ۔۔آجاؤ واپس ۔۔۔روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گئی ۔۔۔میرے دل کو سکون بخشو اپنی موجودگی کی صورت میں ۔۔۔آجاؤ واپس ۔۔۔وہ تصویر کو سینے سے لگائے بے تحاشا رونے لگی ۔۔۔
۔*************************۔
پہلے money نکالو money ۔۔۔۔ظفر نے اپنی گرل فرینڈ کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ڈیٹھائی سے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔
اور وہ چہرے پر معصومیت طاری کئے انھیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بھائی ڈپارٹمنٹ کے پوچھنے پر بھی پیسے لگتے ہیں ۔۔۔
وہ نہ جانے کب سے چشمے کے اس پار انکی لڑائی دیکھ رہی تھی ۔۔۔یہ تو سچ میں بونگا لگتا ہے ۔۔۔عمل نے اسکا جائزا لیتے ہوئے بڑبڑائی ۔۔۔
وہ خاموشی سے جانے لگا جبھی ظفر اسکے راستے میں رکاوٹ بنا ۔۔۔
ایسے کیسے جارہے ہو ۔۔۔حساب تو دیتے جاؤ تم نے اتنا وقت برباد کیا ہمارا ۔۔۔
لمبوترے ظفر کے سامنے وہ خود کو بےبس محسوس کرنے لگا لڑائی جھگڑے سے تو وہ ویسے بھی دور تھا ۔۔پتا نہیں کونسی منحوس گھڑی تھی جب اس سے مدد مانگی ۔۔۔وہ لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھا ۔۔۔
اہ شٹ ۔۔۔۔عمل کے منہ سے یہ لفظ نمو دار ہوئے ۔۔۔وہ اجلت میں اپنے ساتھ بیٹھی کانوں میں ہینڈ فری لگائے دنیا جہاں سے بیگانی تابین کو جھنجھلانے لگی ۔۔۔
تابی ۔۔۔تابی بات سنو ۔۔۔
کیا ہے ۔۔? اب کیا آفت آگئی ۔۔?وہ بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے بےزاری سے بولی ۔۔۔
یار وہ دیکھو نہ ۔۔۔ظفر اور اسکا گروپ نہ جانے کب سے اس بےچارے کو پریشان کر رہے ہیں ہمیں انکی مدد کرنی چاہئے ۔۔۔وہ اس سے التجا کرنے لگی ۔۔۔
ہمم ۔۔۔بے چارہ ۔۔۔اگر وہ بے چارہ ہے تو ظفر سے پنگا کیوں لیا ۔۔جانتا نہیں کیا اسے ۔۔۔وہ جل کر بولی ۔۔۔
تابی ۔۔۔وہ نیا لگتا ہے ۔۔۔عمل نے اسکی سائیڈ لیتے ہوئے کہا ۔۔
یار عمل ۔۔۔نہ تو میں کوئی پولیس والی ہوں اور نہ ہی میرا موڈ ہے اس کمینے کے منہ لگنے کا تو بہتر یہی ہے کہ چپ کر کے بیٹھ جاؤ ۔۔۔اپنے کام سے کام رکھو اور مجھے بھی تنگ نہ کرو شکریہ ۔۔۔وہ دوبارہ کانوں میں ہینڈفری ڈال کر اسی پوزیشن میں بیٹھ گئی ۔۔
مگر تابی ۔۔۔وہ افسردگی سے سر ہلا کر رہ گئی ۔۔۔
میرے راستے ۔۔سے ہٹ ۔۔جاؤ ۔۔۔مجھے۔۔ کوئی ۔۔حساب ۔۔برابر نہیں کرنا ۔۔۔بامشکل ہی وہ لرزتی زبان سے کہہ پایا ۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔کیا بات ہے ۔۔تم تو ابھی سہی سے بولنا بھی نہیں سیکھے ۔۔۔ظفر نے اسکا مذاق اڑانا چاہا ۔۔۔
یار تم تو ابھی دودھ پیتے بچے ہو ایسا کرو منہ چھپا کر ماں کی گود میں سو جاؤ للو کہیں کے ۔۔۔نتاشا نے اسکا مذاق اڑایا ۔۔۔
اسکی اس بات پر وہ غصے اور بے بسی کے ملے جلے تاثرت سے پیشانی کا پسینہ صاف کرتے ہوئے آس پاس لوگوں کا ہجوم دیکھ رہا تھا مگر مجال ہے جو کوئی بھی اسکی مدد کو لپکا ہو ۔۔۔
عمل نے آس پاس نظر دوڑا کر کسی کو تلاش کرنا چاہا ۔۔جب کوئی نہ ملا تو ایک نظر تابی پر ڈالتی ہوئی لرزتے قدموں کے ساتھ انکی جانب بڑھی ۔۔نہ جانے کیوں اسے اس معصوم لڑکے پر بے ہد ہمدردی محسوس ہوئی ۔۔۔
ظفر کوئی قدم اٹھاتا ۔۔۔اس سے پہلے عمل چٹان بن کر اسکے اسکے سامنے کھڑی ہوئی ۔۔۔
کیا مسلہ ہے ۔۔کیوں تنگ کر رہے ہو اسے ۔۔۔وہ اپنا ڈر چھپاتے ہوئے چیخی ۔۔۔
وہ جو اسکے پیچھے سر نیچے کئے کھڑا تھا ایک دم عمل کے اس طرح چیخنے پر اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھنا چاہا ۔۔۔لیکن اسکی پشت ہونے کے باعث دیکھ نہ سکا ۔۔
اوہ ۔۔۔۔واؤ ۔۔۔۔۔ایک بونگے کو بچانے ایک بونگی آگئی ۔۔۔دیکھو ذرا ۔۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔وہ اسکا مذاق اڑانے سے بھی باز نہ آئے ۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔لمبوترے انسان ۔۔۔بندر جیسی شکل والے وہ اس پر چلا اٹھی تھی ۔۔اور تم ۔۔۔اب وہ نتاشا کی جانب مڑی تھی باندری کہیں کی ۔۔کبھی خود کو آئینے میں غور سے دیکھا ہے ایسا لگتا ہے جیسے چڑیل نے میک اپ کے دریا میں چھلانگ لگائی ہو۔۔۔وہ منہ بناتے ہوئے بولی ۔۔
آس پاس موجود سب کی ہنسی چھوٹی جو نتاشا کو تپانے کے لئے کافی تھی ۔۔۔
کیا کہا تم نے ۔۔۔؟ ظفر کا چہرہ دیکھنے لائق تھا ۔۔۔وہ غصے میں بپھرا دوقدم اسکی جانب بڑھا ۔۔
وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹی ۔۔۔۔
ظفر کا ہاتھ ہوا میں ہی ساکن رہ گیا ۔۔۔کیوں کہ سامنے اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے تابین کھڑی تھی ۔۔۔
سب اپنا اپنا کام چھوڑ کر انکی لڑائی دیکھنے میں مصروف تھے ۔۔۔
کھڑی ناک ۔۔تیکھے نقوش ۔۔جینز کے ساتھ لمبی قمیض ۔۔گلے میں مفلر ڈالے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ دیکھنے لائق لگ رہی تھی ۔۔۔
ہائے ۔۔۔۔زہ نصیب ۔۔۔قربان ایسے لمحے پر ۔۔۔جس لمحے میں آپکا دیدار نصیب ہو ۔۔وہ اسکے سراپے کا جائزا لیتے ہوئے ڈیٹھائی کے ساتھ بولا ۔۔۔
تابین نے بنا کسی کی فکر کئے زناٹے دار تھپڑ اسکے گال پر رسید کیا ۔۔۔
سب ششدر رہ گئے ۔۔۔تابی یہ کیا کیا ۔۔۔وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے روہانسی ہو کر بولی ۔۔۔
باسط بیچارہ حیرانگی سے کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا کہ بھائی اب تو گئے ۔۔
زبان سمبھال کر بات کرو ۔۔۔اپنی ماں بہن کو کیا کرائے پر دے آئے ہو کمینے انسان ۔۔۔وہ غصے میں بپھری ۔۔۔چلانے لگی ۔۔۔سب نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ۔۔۔
ظفر منہ پر ہاتھ رکھے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہا تھا ۔۔۔
How dare you۔۔۔۔
نتاشا اسکی جانب لپکی ۔۔
او ہیلو نمونی ۔۔۔۔۔یہ اپنا دبنگ سٹائل کہیں اور جا کر دکھاؤ ۔۔۔میں ڈرنے والی نہیں ۔۔۔وہ آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
تابی چلو ۔۔ عمل نے اسکے گروپ کو اپنی جانب آتا دیکھ کر سرگوشی میں کہا ۔۔۔
ارے آؤ ۔۔۔ہم ڈرتے نہیں ہیں ۔۔۔ماں کا دودھ پیا ہے تو آؤ ۔۔۔وہ آستین کو فولڈ کرتی ہوئی ۔۔۔بوکھی شیرنی کی طرح بولنے لگی ۔۔۔
یااللہ مارے گئے ۔۔۔عمل ناخون چباتے ہوئے روہانسی ہو کر بولی ۔۔۔جو اسکے پیچھے کھڑے باسط نے باخوبی سن لی تھی ۔۔
وہ فوراً حرکت میں آیا ۔۔۔جلدی سے عمل کی نازک سی کلائی اپنے ہاتھ میں تھامی ۔۔۔
وہ جو اب سے تابی کا ہاتھ پکڑے کھڑی تھی اپنے ہاتھ پر کسی کا لمس محسوس کر کے فوراً پیچھے کی جانب دیکھا ۔۔باسط کے ہاتھوں میں اپنی کلائی دیکھ کر اسکا منہ بن گیا ۔۔وہ کچھ بولتی اس سے پہلے باسط نے دوڑ لگا دی ۔۔وہ مقناطیس کی طرح اسکی جانب کھینچی ۔۔۔
پورے گراؤنڈ میں وہ ایسے دوڑ رہے تھے جیسے انکے پیچھے بہت سارے جن ہوں ۔۔
چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔آخر کب تک بھاگو گی ۔۔ظفر غصے پر قابو پاتے ہوئے بولا ۔۔۔
بھاگتے بھاگتے وہ یونی کے گیٹ سے باھر کھڑے ہاںپ رہے تھے ۔۔۔
بھاگنے کی وجہ سے اسکی سانس پھول رہی تھی وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانس لینے لگی ۔۔ضبط سے آنکھوں سے پانی بہہ نکلا ۔۔
عمل ۔۔۔تم ٹھیک ہو ۔۔۔؟ انہلر کہاں ہے تمہارا ۔۔۔?تابی پریشانی سے اسکا بیگ ٹٹولنے لگی ۔۔۔
وہ ناسمجھنے کی کیفیت میں کھڑا رہا کہ اب کیا کیا جائے ۔۔؟
۔*****************************۔
یہ تابین نے آج آنے میں دیر کردی سو کام پڑے ہیں ۔۔گھر مہمانوں سے بھرا پڑا ہے کہا بھی تھا اس لڑکی سے کہ نہ جاؤ ۔۔مگر نہیں اسے تو جانا ہے ۔۔۔امی ادھر ادھر منڈلاتے ہوئے بڑبڑائے جارہی تھیں ۔۔۔
ارے ۔۔حدید ۔۔۔۔اچانک انکی نظر لان سے گزرتے ہوئے حدید پر پڑی وہ اسے پکار بیٹھیں ۔۔۔
جی تائی جان ۔۔۔اسنے فرمانبرداری سے جواب دیا ۔۔۔۔
تم آگئے یونی سے ۔۔تابین نہیں آئی ۔۔؟
پر میں تو گیا ہی نہیں آج ۔۔اس نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
جی بھابھی میں نے ہی اسے نہیں جانے دیا ۔۔۔کل رباب کی شادی ہے اور گھر میں بہت سے کام پڑے تھے سو اسکے ابا نے جانے سے منا کردیا ۔۔۔
اچھا ۔۔۔پر تابی کس کے ساتھ آئے گی ۔۔۔؟وہ فکرمندی سے بولیں ۔۔
ارے فکر نہ کریں میں لے آتا ہوں ۔۔۔حدید آگے بڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے تابی ہاتھ میں بیگ لئے نمودار ہوئی ۔۔۔
چڑیل کتنی دیر کر دی تم نے کب سے تائی جان پریشان ہو رہی تھیں ۔۔۔
چھوڑو یار ۔۔۔میرا کوئی موڈ نہیں بات کرنے کا ۔۔۔وہ بیگ کو ایک سائیڈ رکھ کر صوفے پر دھڑام سے گرتے ہوئے بولی ۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔سڑا ہوا منہ کیوں بنایا ہے ۔۔۔؟ امی نے دریافت کیا ۔۔۔
کچھ نہیں امی بس ایسے ہی ۔۔۔اپ یہ بتائیں میری ڈریس آگئی ۔۔۔؟ وہ موضوع تبدیل کر گئی ؟
ہاں کمرے میں رکھا ہے ۔۔۔جاؤ دیکھ لو ۔۔چلو رشیدہ ۔۔۔وہ یہ کہتی اپنی دیورانی کے ساتھ آگے بڑھ گئیں ۔۔۔
۔****************************۔
کیسا رہا دن بھائی ۔۔۔؟ وہ تھکا ہارا یونی سے آیا تھا کہ مناہل سر پر سلیکے سے دوپٹہ لئے اسکے لئے پانی کا گلاس لائی ۔۔۔
پورے دن کے بارے میں سوچ کر اسنے جھرجھری لی ۔۔۔بس ٹھیک ہی تھا ۔۔۔
کھانے میں کیا پکا ہے ۔۔۔؟اسنے موضوع بدلنا چاہا ۔۔۔
بھائی رات کے لئے تو کچھ بھی نہیں ہے ۔۔ابھی کے لئے تو دال اور چاول پکا دئے ہیں ۔۔۔وہ نرم لہجے میں بولی ۔۔۔
ٹھیک ہے گڑیا فکر نہ کرو ہو جائے گا مسلہ حل ۔۔۔وہ مناہل کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
کہاں جارہے ہیں کھانا تو کھائیں ۔۔۔وہ اسے باھر کی جانب بڑھتا دیکھ کر جلدی سے بولی ۔۔۔
میں آتا ہوں تھوڑی دیر میں تم دروازہ بند کرو ۔۔اور ہاں اماں کا خیال رکھنا ۔۔۔وہ جاتے جاتے اسے تاکید کر گیا ۔۔
اور وہ گم سم سی کھڑی اپنے سے تین سال بڑے بھائی کو دیکھنے لگی ۔۔
وقت نے کتنا بدل دیا ہے نہ انھیں۔۔23 سال کی عمر میں ہی اتنی بڑی ذمہ داری خود پر مسلط کر دی ۔۔۔
وہ دو بہن بھائی تھے ۔۔۔چند سال پہلے ابا کو یرقان جیسی جان لیوا بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جسکی وجہ سے وہ اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔۔
اماں کو ابا کی موت سے گہرا صدمہ ہوا وہ دن با دن اپنی عمر سے بڑی نظر آنے لگیں غموں نے انھیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ۔۔
تبھی سے وہ دو کمرے کے مکان میں اپنے دو بچوں کے ساتھ تنہا زندگی بسر کرنے لگیں ۔۔بڑے گھروں میں ماسی کا کام کر کے وہ دو وقت کی روٹی سے اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرتیں ۔۔باسط سے انکی حالت دیکھی نہ گئی تبھی اسنے پڑھائی چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔بھاری آٹے کی بوریاں اٹھانے سے اسکے ہاتھ چھید رہے تھے جب مناہل کی نظر اسکے ہاتھوں پر پڑی تو وہ تڑپ اٹھی ۔۔۔جبھی محلے کے بچوں کو ٹیوشن اور قرآن مجید پڑھا کر اس سے جو پیسے جمع ہوتے وہ اکھٹے کر کے بھائی کے ہاتھ میں تھمادئے کہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھے جبھی تو کوئی اچھی سی نوکری ملے گی ۔۔۔بہن اور ماں کے بے حد اسرار کرنے پر اسنے اچھی سی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔۔پہلے دن ہی اسکے ساتھ نہ جانے کیا کچھ ہوا ۔۔ اب نہ جانے زندگی اور کتنے امتحان لے گی ۔۔۔اصل میں زندگی امتحان لینے کا ہی تو نام ہے نہ جانے کتنی مشکلات سے دو چار ہو کر زندگی گزارنی پڑتی ہے اور زندگی کے اس سفر میں اس وقت صبر ہی ہوتا ہے جو کرنے کے بعد انسان کامیابی کی حدوں کو چھوتا ہے ۔۔۔زندگی سب کی ایک جیسی ہوتی ہے بس جینے کے انداز مختلف ہوتے ہیں ۔۔۔کوئی لڑتے لڑتے مٹی میں دب جاتا ہے تو کوئی غموں کو گھٹڑی لئے در بدر پھرتا ہے ۔۔۔
وہ ایم ٹھنڈی اہ بھر کر رہ گئی ۔۔۔۔
۔*********************************۔
کیا ہے تابی یار ۔۔۔کل میری شادی ہے اور تم دونوں ڈھولکی کے بجائے یہاں بیٹھ کر اداس چہرہ لئے کھسر پھسر کر رہے ہو ۔۔۔رباب نے شکوہ کیا ۔۔۔
ہائے پھپھو ۔۔۔اداس ہوں میرے دشمن میں تو اداس نہیں ۔۔تابی جلدی سے بولی ۔۔۔
مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے اس ظفر سے ۔۔۔عمل صوفے پر پیر جمائے ناخن چبانے میں مصروف تھی ۔۔۔
کیا ۔۔۔کیا کیا پھر اسنے ۔۔۔؟ رباب اسکی جانب لپکی ۔۔۔کیوں کہ وہ ظفر کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی وہ bبھی انکی بدولت ۔۔۔
کیا پوچھو یار ۔۔۔آج تو حد ہی ہو گئی ۔۔۔مطلب تابی نے اسکے منہ پر تھپڑ مارا ۔۔۔
کیا ۔۔۔؟تو کیا اسکی چڑیل نتاشا نے تمہیں بخش دیا ۔۔۔؟رباب نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔
اسکی ہمت ہے مجھے ہاتھ لگانے کی ۔۔۔میں اسکے ہاتھ نہ توڑ دوں ۔۔۔تابی نے لفظ کو چباتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارے ہوا کیا تھا ۔۔یہ تو بتاؤ ۔۔۔؟
پھپھو کے پو چھنے پر عمل نے اسے سری حقیقت بتا دی ۔۔۔
وہ منہ کھولے ہکا بکا بیٹھی اس آفت کی پڑیا تابین کو گھور رہی تھیں ۔۔۔
وہ کچھ بولتیں اس سے پہلے حدید اندر داخل ہوا ۔۔۔
تمہارے پاس کتنا اسلحہ جمع ہے ۔۔۔؟وہ تابی کے سر پر کھڑا ہو گیا ۔۔۔
کیسا اسلحہ ۔۔۔۔؟ یہ کیا بات کر رہے ہو ۔۔۔؟وہ جھنجھلاتے ہوئے بولی ۔۔۔
نہ جو وہ ظفر کی شکل میں تم دہشت گرد پلس جن پلس بھیڑیا ۔۔۔تیار کر آئی ہو اب اس سے کون نپٹے گا ۔۔۔آخر میں وہ چیخ پڑا ۔۔۔
تم اور کون ۔۔۔تابی نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔میں تاکہ اس بوکھے لومڑے کا شکار میں بنوں ہاں ۔۔۔۔وہ جلتے ہوئے بولا ۔۔
ہاں تو تم کزن ہو میرے اور کزن تو بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں ہینا پھپھو ۔۔۔وہ رباب کے گرد بازؤں کا ہلکا بناتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
میں کوئی کزن وزن نہیں تمہارا ۔۔۔مصیبت کے وقت ہی کزن یاد آتا ہے ۔۔۔۔؟ جاؤ اس سے اب خود ہی نپٹنا ۔۔۔وہ ہاتھ کے اشارے سے کہتا جانے لگا جبھی اسکی نظر دروازے میں سہمی کھڑی عمل پر گئی ۔۔۔
بونگی ۔۔۔وہ اچانک سے چلایا ۔۔۔
عمل ڈر کے مارے چیخ مار کر اچھل پڑی ۔۔۔
وہ ہنسی دباتا ہوا باھر کی جانب چل پڑا ۔۔
بد تمیز نہ ہو تو ۔۔۔وہ دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسکی پشت کو گھورنے لگی ۔۔۔
۔************************************۔
نہ جانے کب سے اسکا فون بج رہا تھا ۔۔اور وہ بے سدھ سا بیڈ پر پڑا سو رہا تھا ۔۔
سر میں شدید درد ہونے کی وجہ سے آج وہ یونی بھی نہ جاپایا ۔۔۔ملازم کے دروازے کھٹکھٹانے پر اس نے مندی مندی سی آنکھیں کھولیں ۔ ۔
حزیفہ بابا ۔۔۔یہ آپ کے دوست حدید بابا کی کال آئی ہے میں نے انسے کہا بھی کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں مگر وہ با ضد تھے کہ اپکو اٹھاؤں ۔ ۔ ملازم نے صفائی پیش کرنا چاہی ۔۔۔
ٹھیک ہے رؤف دادا ۔۔۔میں اسے کال کرتا ہوں اپ ایسا کریں ایک کپ چائے بنا دیں ۔۔۔اسنے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے فون ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔
موبائل کو کھولتے ہی اسکے بارہ تباک روشن ہو گئے کیوں کہ لاتعداد کالز ڈیڈ کی بھی تھیں ۔۔۔
شٹ یار ۔۔۔اسنے افسردگی سے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے پہلے حدید کو کال ملانے کا فیصلہ کیا ۔۔کیوں ڈیڈ کی ڈانٹ کی لسٹ بہت لمبی ہونے والی تھی ۔۔۔
۔*************************************۔
ویسے سوچنے والی بات ہے تمہارا وہ دوست پلس بھائی پلس وغیرہ وغیرہ نظر نہیں آیا ۔۔؟ تابی نے شکل کے زاویئے بگاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔
کیوں ۔۔۔تمہیں اسکی بڑی یاد آرہی ہے ۔۔۔؟ حدید نے اسے تنگ کرنا چاہا ۔۔۔
ہمم ۔۔۔یاد کرے میری جوتی ۔۔۔آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جسے تابین یاد کر سکے ۔۔۔اس نے بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے ایک ادا سے کہا ۔۔۔۔
کیا پتا ہو گیا ہو ۔۔۔اسنے شرارت سے کہا ۔۔۔
جی نہیں ۔۔۔ایسا کبھی نہیں ہوگا دیکھ لینا ۔۔۔تابی نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
ٹھیک ہے دیکھ لیں گے ۔,۔اچانک بائیک سے اترتے ہوئے حزیفہ نے بالوں کو ہاتھ سے بناتے ہوئے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا ۔۔۔
شیطان کا نام لیا اور شیطان حاضر ۔۔ہمم ۔۔۔وہ ناک کو رگڑتی گی آگے بڑھ گئی ۔۔۔
اور وہ اسکی پشت کو دیکھتا رہ گیا ۔۔۔
۔****************************۔
تابین ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی ۔۔۔اس بڑے سے گھر میں وہ سب اکھٹے مل جل کر پیار سے رہتے تھے ۔۔۔ظہور صاحب کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔۔جن میں سے سب خیر سے شادی شدہ تھے سوائے ایک بیٹی کے (رباب ) جسکی ابھی شادی ہونے جارہی تھی ۔۔۔
تابین کے ابو صلاح الدین صاحب سب سے بڑے بیٹے تھے ۔۔اسکے بعد جلال الدین ۔۔جنکے دو بیٹے تھے شہیر اور حدید ۔۔شہیر شریف بچہ تھا جبکہ حدید بلا کا شرارتی ۔۔اسکے اور تابین کے درمیان کزن کے علاوہ بہت گہرا رشتہ تھا دوستی کا ۔۔۔دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑا بہت عام سی بات تھی ۔۔۔دونوں کی عمروں میں ایک سال کا فرق تھا شاید اس لئے بھی دونوں کی نہ بنتی تھی ۔۔
تابین کی بڑی پھپھو ۔۔۔جو شہر سے باھر اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی تھیں ۔۔۔اسکے بعد آخر میں رباب تھی ۔۔جسے سب نے بیٹی بنا کر پالا تھا ۔۔۔وہ تابین اور حدید کی پھپھو کم ۔۔۔دوست زیادہ تھیں ۔۔آج کل کے دور میں انکے ہنستے بستے خوشیوں سے بھرے خاندان کو دیکھ کر سب کے دل میں کہیں نہ کہیں حسد کی ایک لہر دوڑتی ھی تھی ۔۔۔رابعہ بیگم ( تابین کی امی ) تو دعائیں کر کے تھکتی نہ تھیں کہ اس گھر کی خوشیاں ہمیشہ یونہی برقرار رہیں ۔۔آمین ۔۔
۔**************************۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...