(Last Updated On: )
پھر خدا سے اُلجھ پڑا ہوں کیا
اپنی حد سے نکل گیا ہوں کیا
تو مجھے دیکھنے سے ڈرتا ہے
لن ترانی کا سلسلہ ہوں کیا
اتنا کیا کان دھر کے سنتا ہے
میں بہت دور کی صدا ہوں کیا
پیرہن پھاڑ کر میں رقص کروں
عشق وحشت میں مبتلا ہوں کیا
بات دشنام تک چلی گئی ہے
سچ بتاؤ بہت برا ہوں کیا
کیا کہا تُو بھگت رہا ہے مجھے
میں کسی جرم کی سزا ہوں کیا
آ رہے لوگ تعزیت کے لیے
میں حقیقت میں مر گیا ہوں کیا
لوگ جھوٹا سمجھ رہے ہیں مجھے
یار میں کوئی گڈریا ہوں کیا
کن کہوں اور کام ہو جائے
آدمی ہوں کوئی خدا ہوں کیا
ہر کوئی بور ہونے لگتا ہے
وجہ بے وجہ بولتا ہوں کیا
جس طرح چاہے گا برت لے گا
تجھ غزل کا میں قافیہ ہوں کیا
ایک ہی فارہہ سے پیار کروں
میں کوئی جون ایلیا ہوں کیا
میں انا الشوق انا الوفا ، کاشرؔ
بندۂ عشق دہریہ ہوں کیا