پھر اسے کار کی پچھلی سیٹ پر ڈال دیا گیا تھا ۔اسکے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے تھے۔کار آدھے گھنٹے تک چلتی رہی تھی پھر انجان راستوں پر سفر کرتی کار ایک جگہ رک گئی ۔کار کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے باہر نکالا گیا ۔اسکے سر پر بندوق رکھے وہ شخص اسے کوئی ہوشیاری نہ کرنے کی تنبیہ کرتا اسے دھکیلتا ہوا آگے بڑھنے کے لئے کہہ رہا تھا ۔وہ اپنے نقاہت زدہ وجود کے ساتھ بمشکل چلتی زیر تعمیر عمارت کے پارکنگ ایریا میں داخل ہوئی۔یہ وہی عمارت تھی جہاں اسنے ایک خوفناک رات گزاری تھی۔اسے ایک طرف کھڑے رہنے کو کہا گیا۔وہ چپ چاپ انکی ہدایت پر عمل کر رہی تھی ۔جانے کتنی دیر وہ بت بنی وہیں کھڑی رہی ۔اسکے جسم میں اس وقت حرکت ہوئی جب کوئی اسکے سامنے منہ کے بل گرا تھا۔سامنے گرے شخص کی سفید شرٹ خون آلود تھی ۔
“بھائی!” اسکے لب آہستہ سے کپکپائے۔
داور نے فہد ندیم کی پشت پر جوتے سے دباؤ دیتے ہوئے پہلے اسکے ہاتھ پشت پر باندھے اور پھر اسکے بالوں کو مٹھی سے پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔اسکا چہرہ بھی خون میں ڈوبا ہوا تھا اور سر پر کسی وزنی چیز سے مارے جانے کا نشان تھا۔
“ایک دفعہ تمہیں وارننگ دی گئی تھی نا کہ فائل پر کام کرنا بند کرو۔ایک بار سے تم لوگ سمجھنا کیوں نہیں چاہتے؟” اسنے پوری قوت سے اسکی ناک پر گھونسہ مارا۔ناک سے سرخ خون ابل پڑا تھا ۔
“بھائی!” جویریہ کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔وہ اس وقت اپنی ساری تکلیف بھول چکی تھی ۔یاد تھا تو بس اپنے باپ جیسے بھائی کا خون میں ڈوبا وجود ۔۔۔
” میں۔۔میں سب بند کر دونگا۔”فہد ندیم نے لڑکھڑاتی آواز میں بمشکل کہنے کی کوشش کی ۔”میں تمہارے خلاف کچھ نہیں کرونگا۔تم میری بہن کو جانے دو۔” وہ تکلیف کی شدت کو دبائے کہہ رہا تھا ۔
“اب دیر ہو چکی ہے فہد!” کریم یزدانی نے قریب آتے ہوئے کہا ۔
“خدا مت بنو کریم یزدانی! تمہیں اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ کب تم اپنے سارے غرور سمیت منہ کے بل گروگے؟”
“تمہاری اسی ہٹ دھرمی نے تمہاری بہن کا یہ حال کیا ہے ۔”کریم نے تاسف سے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
“میری بہن کا بار بار نام مت لو۔۔۔” فہد طیش سے چیخا۔اسکی کنپٹی کی رگیں ابھرنے لگی تھیں ۔
” اتنا غصہ؟ “اسنے اسے حیرانی سے دیکھا۔”تمہیں اگر اپنی بہن کی اتنی فکر تھی تو تمہیں میرے خلاف کھڑے نہیں ہونا چاہئے تھا۔”
فہد نے اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکا دیا۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود کو کس طرح آزاد کر لے ۔
“میں ڈیل کرنا چاہتا ہوں ۔۔” اسنے ہار مانتے ہوئے کہا ۔اپنی بہن کا زرد چہرہ دیکھنا اسکے بس سے باہر ہو رہا تھا ۔وہ ایک ایماندار اور فرض شناس صحافی تھا۔ایک غلط انسان کے سامنے جھکنا اسکے نزدیک اپنے پیشے سے غداری تھی۔وہ خود کو ملنے والی دھمکیوں یا اپنے خاندان کو درپیش آنے والے خطرات سے لڑ کر سچائی کی جنگ فتح کرتا تھا ۔مگر اب مزید نہیں ۔۔۔وہ غداری کرنے کے لئے تیار تھا۔وہ سچ کی سودے بازی کے لئے تیار تھا۔وہ بکنے کے لئے تیار تھا۔
“داور! کیا خیال ہے؟” کریم نے داور کی جانب دیکھ کر معنی خیز انداز میں کہا ۔
“جیسا آپ مناسب سمجھیں باس!” اسنے تابعداری سے کہا۔
“میں سارے پیپرز تمہارے حوالے کرونگا اور اسکے بدلے تم میری بہن کو طلاق دوگے۔”
“ٹھیک ہے ۔۔پہلے میرے آدمی پیپرز لے کر آئینگے اس کے بعد ہی تم اپنی بہن کے ساتھ یہاں سے جا سکتے ہو۔”
“میں یہ کس طرح یقین کر لوں کہ پیپرز ملنے کے بعد تم اپنے وعدے سے نہیں مکروگے؟”
“مائی ڈئیر رپورٹر! “کریم نے قریب آ کر اسکا کندھا تھتھپایا۔” ڈیل کرنا تمہاری مجبوری ہے اور مجھ پر اعتبار کرنا آخری راستہ ۔”سیاہ باریک مونچھوں تلے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھر گئی۔
فہد کے پاس اسکے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔اسلئے اسنے پیپرز کا پتہ بتا دیا تھا ۔
” باس! “داور نے کریم یزدانی کو اپنی جانب متوجہ کیا ۔جیسے پوچھ رہا ہو کہ آگے کیا کرنا ہے ۔
” پہلے یہ کنفرم ہونے دو کہ اس نے ہمیں غلط اطلاع نہیں دی ہے ۔”
داور نے سمجھ کر اپنا سر ہلایا اور فہد کو کندھوں سے پکڑ کر جویریہ کی جانب دھکا دے دیا ۔وہ لڑکھڑاتا بالکل اسکے سامنے گرا۔
“جویریہ بس تھوڑا انتظار! پھر تم اپنے گھر رہوگی ہاں؟” وہ اٹھتا ہوا دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
جویریہ کی آنکھیں گیلی ہونے لگیں۔وہ بھی بیٹھتی ہوئی اسکے قریب ہوئی اور بھائی کے کندھے پر اپنا سر رکھا۔تازہ خون اسکے چہرے پر ٹپکنے لگا۔اس خون میں اسکے آنسوؤں کی بھی آمیزش تھی۔وہ تو اتنی بے بس تھی کہ اپنے بھائی کے آنسوؤں کو بھی صاف نہیں کر سکتی تھی۔
“بھائی بس تھوڑا انتظار! پھر ہم اپنے گھر ہونگے نا؟” اسنے اسکے کندھے سے لگے یقین دہانی چاہی۔
فہد نے بمشکل اپنے آنسوؤں پر قابو پایا۔جانے کیوں اسے اس بات کا یقین نہیں رہا تھا کہ وہ واپس پہلے کی طرح ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ۔
“جویریہ! وکی تمہیں بہت مس کرتا ہے ۔تمہاری بھابھی بھی ہر دن مجھ سے یہی پوچھتی ہے کہ جویریہ کب واپس آ رہی ہے ۔اور۔۔اور۔۔۔” اسکی آواز بھرانے لگی۔آنسو ٹوٹ کر گرنے لگے۔ “اور مجھے معاف کر دو. میری وجہ سے تمہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔تمہارا بھائی تمہارے سامنے شرمندہ ہے بیٹا۔۔” وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔
” جویریہ نے اپنا سر نہیں اٹھایا۔وہ ہنوز اسکے کندھے پر سر رکھے رہی۔
“آئی ایم سوری بھائی ۔۔۔میں آپکے لئے کمزوری بن گئی۔میں آپکے دشمنوں کے لئے انکا ہتھیار بن گئی ہوں ۔آئی ایم سو سوری۔”
فہد کے آنسوؤں سے اسے اپنا دل کٹتا محسوس ہو رہا تھا ۔اگر وہ مزید روتا رہا تو وہ پاگل ہو جائیگی۔اسکے آنسو اسے بھی رلانے لگے تھے۔پھر اس وقت تک وہ دونوں بھائی بہن ایک دوسرے سے لگے سسکتے رہے تھے جب تک فہد کو کھینچ کر جویریہ سے الگ نہیں کر دیا گیا ۔فائل ملنے کی کال آ چکی تھی اسلئے اب کریم یزدانی کے سامنے فہد ندیم کا مصرف ختم ہو چکا تھا۔اور وہ اتنا بیوقوف نہیں تھا کہ اس انسان کو زندہ چھوڑ دیتا جو اسکے رازوں سے واقف ہو چکا تھا ۔وہ اپنے دشمنوں کا سر اٹھانے سے پہلے کچلنے پر یقین رکھتا تھا ۔اور رہی یہ لڑکی تو یہ کسی گنتی میں تھی ہی نہیں ۔اسے یقین تھا کہ اپبے بھائی کا انجام دیکھ کر وہ کبھی اپنا سر نہیں اٹھا پائیگی۔
“تمہیں فائل مل چکی ہے ۔اسلئے اب مجھے میری بہن کو لے کر جانے دو۔” وہ داور کے سامنے کھڑا گڑگڑایا۔اسکے چہرے پر موجود خون جم چکا تھا۔
“کلمہ پڑھ لو رپورٹر!” داور نے سفاک انداز میں کہتے ہوئے اسکے سر پر پستول رکھی۔
فہد کی آنکھوں میں کوئی بے یقینی نہیں آئی۔وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ اسکا زندہ رہنا کریم یزدانی کے لئے خطرہ تھا۔مگر صرف جویریہ کے لئے اسنے آخری امید کے طور پر اسکی بات مانی تھی۔
“جویریہ کو پہلے جانے دو اسکے بعد اپنا یہ شوق بھی پورا کر لینا۔” اسنے کہا۔اسکے خون آلود چہرے پر موت کی زدری چھا گئی تھی ۔
“کلمہ پڑھ لو۔۔” سر پر رکھی پستول سے اسے ٹہوکا دیا گیا ۔
جویریہ کی آنکھیں خوف و بے یقینی سے پھیلتی جا رہی تھیں۔
“کریم یزدانی! جویریہ کو جانے دو۔”وہ پوری قوت سے چلایا۔
جویریہ گھٹنوں کے بل بیٹھی زور زور سے سانس لینے کی کوشش کرنے لگی۔اسکی آنکھوں کے آگے سیاہ دائرے ناچنے لگے تھے۔
“جویریہ کو چھوڑ دو۔۔میری بہن کو جانے دو۔۔میں نے وہی کیا جو تم نے کہا تھا۔خدا کا واسطہ ہے کہ میری معصوم بہن کو جانے دو۔۔۔”اپنے سر پر رکھے پستول سے بے پروا وہ دیوانہ وار کہے جا رہا تھا ۔
“بھائی!!” جویریہ اٹھتی ہوئی اسکی طرف بھاگی۔مگر اسکے پاس کھڑے شخص نے اسکی گردن کی پشت کو اپبے پنجوں میں جکڑ لیا ۔
کریم یزدانی نے داور کو اشارہ کیا اور اسنے ٹریگر پر دباؤ ڈالا ۔سائلنسر لگے پستول کی سنسناتی گولی فہد ندیم کی کنپٹی میں سوراخ کرتی دوسری جانب سے نکل گئی تھی ۔خون کے چھینٹے داور کے کپڑوں پر پڑے اور فہد فرش پر گر پڑا۔آس پاس بکھرے سناٹے میں اسکی آخری چیخ نے ارتعاش برپا کر دیا تھا۔جویریہ مچلتی، تڑپتی خود کو آزاد کرانے کی کوشش میں پاگل ہوئی جا رہی تھی ۔اپبے بھائی کا تڑپتا وجود اسکے ہوش اڑا رہا تھا ۔وہ روتی چلاتی بے ربط الفاظ میں رحم کی بھیک مانگ رہی تھی ۔
“بھائی مر جائیگا۔۔خدا کے لئے کوئی اسے ہاسپٹل لے جاؤ۔۔۔وہ مر جائیگا۔۔”
کریم نے اسے پکڑے شخص کو اشارہ کیا ۔اسے گھسیٹ کر پہلی منزل پر بنے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ۔
فہد کا تڑپتا جسم اب ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔
” اسد خان کو لے کر آؤ۔”کریم نے ٹھنڈے لہجے میں کہتے ہوئے اشارہ کیا ۔اسکے سامنے ایک چالیس سالہ شخص کو لایا گیا تھا جسکے چہرے سے خوف و بے بسی ٹپک رہی تھی ۔
“کال لگاؤ۔” اسنے اشارہ کیا ۔داور نے ایک نمبر ڈائل کر کے موبائل اسکی جانب بڑھایا۔
“ہیلو! وہاں کی پوزیشن بتاؤ۔”اسنے دوسری طرف سے فون اٹھانے پر ہدایت کی ۔
فون اسپیکر پر کر کے اسنے فون اسد خان کی طرف کیا۔
“سر! میں اسد خان کے گھر پر موجود ہوں ۔میرے سامنے اسکی بیوی اور بیٹا کرسی پر بندھے ہیں ۔کیا کروں؟”
“اسد خان کے چہرے کا ہراس مزید گہرا ہوا۔
“فون اسکی بیوی کی طرف بڑھاؤ۔”
” اوکے سر! ”
” ہیلو! ہیلو! ہمیں بچالو ۔۔”
” پاپا! پلیز ہمیں بچا لیں ۔۔”اسکا پندرہ سالہ بیٹا بھی روتا ہوا کہہ رہا تھا ۔
فون کاٹتے ہوئے کریم نے اسد کی جانب دیکھا ۔
“سر! میں اپنی غلطی پر آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔لیکن اسکی سزا میرے خاندان کو نہ دیں۔”وہ گڑگڑایا۔
“بہت آسان ہے اسد خان! تم نے فہد ندیم کا قتل کیا ہے کیونکہ تمہارا اس سے جھگڑا ہوا تھا اور یہی بیان تم اپنی ساری زندگی دہراؤگے۔”
وہ چونکا۔
“قتل! میں اتنے بڑے گناہ کا الزام اپبے سر پر کس طرح لوں؟ ”
” اسکا مطلب یہ ہے کہ تم ساری زندگی خود کو اپبے بیٹے اور بیوی کی موت کا ذمہ دار سمجھ کر گزارنا چاہتے ہو؟ ”
اسنے اپنا سر گرا لہا۔فیصلہ مشکل تھا مگر فیصلہ وہی کرنا تھا جو اسنے کیا تھا۔
یکدم اینٹوں کے ڈھیر کے پاس حرکت محسوس ہوئی۔مگر جب تک داور اور اسکے بندے وہاں تک پہنچ پاتے وہاں موجود شخص ہوا کے جھونکے کی طرح غائب ہو چکا تھا ۔
” باس! مجھے یقین ہے کہ وہاں کوئی تھا؟” واپس آتے ہوئے داور نے تشویش سے کہا۔
“تم فکر مت کرو۔اگر کوئی ہوتا تو اتنی جلدی نہیں غائب ہو جاتا۔”
رات کی پراسراریت میں زمین پر پڑی فہد ندیم کی لاش اب ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔
– – – – – – – – – –
تھکا تھکا سا وکی گھر میں داخل ہوا تھا۔اسکول بیگ کندھے سے اتار کر اسنے میز پر ڈالا اور مدھم لہجے میں سلام کیا ۔اور اس سلام کا جواب اسے ہمیشہ کی طرح خاموشی نے دیا تھا ۔اسنے لبوں کو کاٹتے ہوئے اپنی ماں کو دیکھا جو گھٹنوں میں سر ڈالے اسی طرح بیٹھی ہوئی تھی جس طرح وہ اسکول جاتے ہوئے اسے چھوڑ گیا تھا ۔
“ممی! بھوک لگی ہے ۔” اسنے قریب آ کر نرم لہجے میں کہا ۔حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہر روز کی طرح آج بھی اسکی ماں نے کھانا نہیں پکایا ہوگا اور نہ ہی خود کچھ کھایا ہوگا۔
ثمرین نے اسکے پکارنے پر بھی اپنا سر نہیں اٹھایا اور ہنوز اسی طرح بیٹھی رہی۔
“ممی! پلیز مجھے بھوک لگی ہے ۔صبح بھی میں نے کچھ نہیں کھایا تھا ۔” وکی کے لہجے کی نرمی غائب ہونے لگی۔
“وکی جاؤ بریڈ لے آؤ اور وہی کھا لینا۔” اسنے بھرائی آواز میں کہا ۔
“مجھے بریڈ نہیں کھانا ہے۔” اسنے بلند آواز میں کہا ۔”آپ مجھے روٹی پکا کر دیں ۔”
“بیٹا مجھے پریشان مت کرو ۔”
” مجھے کچھ نہیں معلوم ۔آپ بس مجھے روٹی پکا کر دیں ۔مجھے بریڈ اچھا نہیں لگتا ۔”اسکی آواز مزید بلند ہوئی۔
” وکی! “ثمرین جھنجھلانے لگی۔
“اگر آپ مجھے کچھ کھانے کو نہیں دینگی تو میں…. میں بھی آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤنگا ۔”اسنے ضدی لہجے میں کہا ۔
ثمرین بے اپنا جھکا سر اٹھایا اور اسکی بھیگی آنکھوں میں حیرت آئی اور پھر اسکی جگہ غصہ ہلکورے لینے لگا۔
“آپ مجھ سے بالکل محبت نہیں کرتیں ۔جس دن سے پپّا ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں آپ بالکل بدل گئی ہیں ۔نا ہی آپ میرا خیال رکھتی ہیں اور نا ہی میرا کچھ کام کرتی ہیں ۔” وکی کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔”آپ کو پتہ ہے کہ تین دنوں ںسے ہوم ورک نہ کرنے پر میم مجھے سزا دے رہی ہیں ۔مگر آپ… آپ کو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔پری رات بھر روتی رہتی ہے مگر آپ کو اسکی بھی فکر نہیں ہے ۔”دس سال کا چھوٹا سا بچہ پھٹ پڑا تھا ۔باپ کے جانے کے بعد ماں کی بے توجہی نے اسے پوری طرح توڑ کر رکھ دیا تھا ۔
” وکی! “وہ غصے سے کھڑی ہوئی ۔” یہ سب جو کچھ ہوا ہے تمہارے ضدی باپ کی وجہ سے ہوا ہے ۔فرض سناش لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ ایماندار لوگوں کی فیملی کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔وہ اسی قابل ہوتے ہیں ۔آخر انہیں ہی کیوں حق و صداقت کا جھنڈا بلند کرنے کی پڑی ہوتی ہے ۔”وہ چہرہ چھپائے رو پڑی۔
“ممی پلیز…..”وکی نے دکھ سے اسے دیکھا۔
” اور تم بھی مجھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔آخر ہو تو تم فہد کے بیٹے۔”وہ روتی ہوئی چیخی۔
وکی دو قدم پیچھے ہوا اور اسنے بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
” کیا آپ کو سچ میں میری ضرورت نہیں ہے؟ “اسکا معصوم دل ٹوٹ گیا ۔
“نہیں ہے… نہیں ہے…. میری طرف سے جہنم میں جاؤ سب۔”وہ دوبارہ بیٹھ گئی اور سر گھٹنوں میں گرا لیا۔
چند لمحے وکی آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا پھر وہ باہر نکل گیا تھا ۔
اسکول یونیفارم میں ملبوس دس سالہ بچہ سڑک پر چلتا ہوا جانے کتنی دور نکل گیا تھا ۔بغیر دائیں بائیں دیکھے وہ بس بہتی آنکھوں کے ساتھ سیدھا چلتا چلا جا رہا تھا ۔دوپہر ڈھل کر گہری شام میں بدل گئی تھی ۔گہرے ہوتے اندھیرے سے بے پروا وکی شہر سے دور نکل آیا تھا ۔جب شام نے رات کا لبادہ لپیٹنا شروع کیا تب وہ پریشان ہوا۔اسے اپنے اطراف پر مہیب سناٹا نظر آیا تھا ۔اسے خوف محسوس ہونے لگا ۔پکی سڑک ختم ہو کر کچی سڑک شروع ہو گئی تھی ۔چند گھروں کے علاوہ وہاں کوئی آبادی نہیں تھی ۔وکی کی آنکھوں سے آنسو مزید تیزی سے گرنے لگے۔خوفزدہ انداز میں اِدھر اُدھر دیکھتا وہ روئے جا رہا تھا ۔یکدم اسے قدرے نشیب میں لکڑیوں کا چھوٹا سا گھر دکھائی دیا جسکی شیشے کی کھڑکیوں سے موم بتیوں کی مدھم روشنی چھن کر باہر آ رہی تھی ۔وہ سرعت سے نشیب میں اترا. چند جھاڑیوں میں اسکا پیر پھنسا اور وہ پھسلتا ہوا نیچے آ گرا۔گرنے سے لگی چوٹوں کو نظر انداز کر کے وہ دوڑ کر دروازے کے پاس گیا تھا اور دروازے پر بغیر رکے دستک دینے لگا۔تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد دروازے کے پیچھے کسی کی کرخت آواز آئی جو غصے سے دستک دینے والے کو برا بھلا کہتا آ رہا تھا ۔
“کتنی دفعہ کہا ہے کہ میرے گھر…..” فوجیوں کے انداز میں کٹے بالوں والا شخص غصے سے کچھ کہتے کہتے رکا۔اپنے سامنے کھڑے روتے بچے کو دیکھ کر وہ حیران ہوا۔
“کون ہو تم؟” اسنے کرختگی سے پوچھا۔
“میں راستہ بھول گیا ہوں ۔مجھے اپنے گھر جانا ہے ۔” وکی ہنوز روئے جا رہا تھا ۔
” چلو اندر آؤ۔”اسنے اسے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔
کچھ پلوں کے بعد وکی ایک کمرے میں کرنل صفدر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔
“چلو لڑکے اپنا نام بتاؤ۔”
“مم… مم…. میرا نام….” وکی نے سسکیوں کے درمیان بولنے کی کوشش کی ۔
” پہلے رونا بند کرو۔” کرنل نے بیزاری سے اسے روکا۔مگر وکی مزید بلند آواز میں رونے لگا تھا ۔اسے بڑی شدت سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ وہ کھو گیا ہے ۔
“چپ!” اس دفعہ کرنل نے اونچے لہجے میں اسے جھڑکا۔” ایک دم خاموش ۔رونے والے لوگ مجھے سخت برے لگتے ہیں ۔”
“وکی نے لبوں کو بھینچا اور آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔آنسو رکے تو نہیں تھے مگر انکی رفتار میں خاصی کمی آ گئی۔
” ہاں شاباش! اپنا اور اپنے باپ کا نام بتاؤ۔”
“میں وکی ہوں اور میرے پپّا کا نام فہد ندیم ہے ۔” اس بار اسنے صاف لہجے میں کہا ۔
کرنل، فہد کا نام سن کر چونکا اور اسکے چہرے کے تاثرات قدرے نرم پڑ گئے۔
“ویری گڈ مائی بوائے!” وہ اٹھا اور اسکے ساتھ آکر بیٹھ گیا ۔”آنسو کسی بھی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتے ہیں ۔اور جنکے پاس رونے کی وجہ ہوتی ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے آنسو کو کسی کے سامنے ظاہر کئے بغیر بہا لیں۔اگر تم نے دوسروں کے سامنے رونے کی عادت اپنا لی تو تم جلد ہی لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے عادی ہو جاؤگے مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمارا اپنے علاوہ کوئی دوسرا ہمدرد نہیں ہوتا۔”اسنے نرمی سے اسکا کندھا تھپکتے ہوئے کہا ۔
” اور تم جانتے ہو کہ رونے کے لئے اگر ہم ایک دفعہ کسی کے کندھے لے لیں تو ہر دفعہ ہمیں کندھوں کی ضرورت پڑ جائیگی اور دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ہے ۔ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے ۔”
” وعدہ کرو لڑکے کہ تم اب کبھی نہیں روؤگے۔وعدہ کرو کہ تم اس دنیا سے لڑوگے جس نے تم سے تمہارا باپ چھین لیا ۔اور جن بچوں کے باپ نہیں ہوتے ہیں وہ بچے مزید بچے نہیں رہتے۔نا چاہتے ہوئے بھی انہیں اپنا بچپن چھوڑنا پڑتا ہے ۔نا چاہتے ہوئے بھی انہیں اپنی ذمہ داریاں وقت سے پہلے اٹھانی پڑتی ہیں ۔اسلئے تمہیں بھی مضبوط بننا ہوگا۔پورے عزم سے، حوصلے سے سر اٹھا کر تمہیں حالات سے لڑنا ہوگا۔”کرنل نے مزید اسے سمجھایا۔
وکی اسکی چند باتیں ہی سمجھ پایا تھا ۔مگر جتنی بھی باتیں اسنے سنیں اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لی تھیں ۔
پھر کرنل صفدر نے اسے اسکی کالونی کے پاس چھوڑ دیا تھا ۔وہ دوڑتا ہوا اپنے گھر تک گیا جہاں دروازے کے پاس کھڑی اسکی ماں پاگلوں کی طرح ٹہلتی ہوئی اسی کا انتظار کر رہی تھی۔
“ممی! آئی ایم سوری!” اسنے قریب جا کر مدھم لہجے میں کہا ۔
ثمرین نے گیلی آنکھوں سے اسے دیکھا پھر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنے بازو وا کر دیئے ۔
وکی نے اپنے ہاتھ اسکی گردن کے گرد حمائل کئے اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا ۔
“وکی! میں نے غلط کہا تھا ۔مجھے تمہاری ضرورت ہے اور میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی ۔آئی ایم سوری بیٹا میں نے اپنے غم میں تمہیں بھلا دیا تھا۔ممی از ویری سوری!” ثمرین نے اسکے گرد بازو لپیٹے اور اسکے اسکے آنسو وکی کے نرم بالوں پر گرنے لگے۔
وکی نے گہری سانس لے کر اپنے سارے آنسو حلق میں اتار لئے۔کیونکہ ابھی ابھی اسنے سیکھا تھا کہ آنسوؤں کو اپنی آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آنکھیں آنسوؤں کا بوجھ نہیں اٹھا پاتیں۔ہاں دل سمندر کے مانند گہرا ہوتا ہے. اپنے آنسو بے فکری سے اسکے سپرد کر دینا چاہیے کیونکہ وہ اپنی گہرائی میں سارے غموں و دکھوں کو جذب کر لیتے ہیں ۔
– – – – – – – – –