The Book of Laughter and Forgetting کا انگریزی ترجمہ ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا تھا۔ انٹرویو کے قارئین اس کو ذہن میں رکھ سکتے ہیں۔
روتھ: کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کی تباہی جلد ہونے والی ہے؟
کنڈیرا: یہ منحصر ہے اس پر کہ آپ لفظ جلد سے کیا مراد لیتے ہیں۔
روتھ: کل یا پرسوں۔
کنڈیرا: احساس کہ دنیا تیزی سے تباہ ہونے کی طرف جارہی ہے، ایک قدیمی احساس ہے۔
روتھ: تب تو ہمارے پریشان ہونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
کنڈیرا: اس کے برخلاف۔ اگر کوئی خدشہ انسانی ذہن میں زمانوں سے ہے، اس میں کچھ نہ کچھ ہوگا۔
روتھ: کچھ بھی ہو، یہ معاملہ آپ کی تازہ ترین کتاب کی ساری کہانیوں کے عقب میں موجود ہے۔ ان میں بھی جو فیصلہ کن طور پر مزاحیہ مزاج کی ہیں۔
کنڈیرا: جن دنوں میں لڑکا تھا، کوئی مجھ سے کہتا، تم اپنی قوم کو دنیا سے غائب ہوتے دیکھو گے، میں اس بات کو ناسمجھی کی بات خیال کرتا، ایسا میں گمان بھی نہ کرسکتا تھا۔ آدمی جانتا ہے کہ وہ فانی ہے، لیکن وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی قوم کسی نوع کی دائمی زندگی کی حامل ہے، لیکن ۱۹۶۸ء کے روسی حملے کے بعد ہر چیک پر یہ خیال مسلط ہوگیا کہ اس کی قوم چپ چاپ یورپ سے مٹ جائے گی جس طرح پانچ عشروں سے کچھ زیادہ میں چالیس ملین یوکرانی خاموشی سے دنیا سے غائب ہورہے ہیں اور دنیا ان پر توجہ ہی نہیں دے رہی ہے، یا لتھوانی (Lithuanians)۔ کیا آپ کو معلوم ہے سترھویں صدی میں لتھوانیا طاقت ور یورپی قوم تھی۔ آج روسی لتھوانیوں کو ایک ایسے قبیلے کی حیثیت سے رکھتے ہیں جو آدھا مٹ چکا ہے۔ ان کو سیاحوں اور آنے جانے والوں سے خفیہ رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی موجودگی کا بیرونی دنیا کو معلوم نہ ہوپائے۔ میں نہیں جانتا کہ میری قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ تو یقینی امر ہے کہ روسی اس کو جستہ جستہ اپنی تہذیب میں تحلیل کردیں گے۔ کوئی نہیں جانتا آیا وہ کامیاب ہوں گے، لیکن امکان موجود ہے۔ اچانک جاننا کہ ایسا امکان موجود ہے کسی کی بھی زندگی کو کلی طور پر بدلنے کے لیے کافی ہے۔ ان دنوں میں یورپ کو بھی دیکھتا ہوں: ناتواں، فانی۔
روتھ: اب جس کو آپ فرشتوں کا قہقہہ کہتے ہیں، ایک نئی اصطلاح ہے ’’زندگی کے بارے میں نغماتی رویے‘‘ (Lyrical Attitude to Life) اپنی پچھلے ناولوں سے متعلق۔ اپنی کتابوں سے ایک میں آپ نے اسٹالن کے عہدِ دہشت کو پیش کیا ہے۔ سولی دینے والے اور شاعر کے دور کی صورت میں۔
کنڈیرا: ٹوٹالی ٹیریانزم صرف دوزخ ہی نہیں، جنت کا خواب بھی ہے۔ ایسی دنیا کا پرانا ڈراما جہاں ہر آدمی چین میں بسر کرے گا، مشترکہ عقیدے اور ارادے کے تحت باہم متحد ایک دوسرے سے کچھ بھی خفیہ نہ رکھتے ہوئے۔ آندررے بریتوں (Andre Breton) نے بھی اس جنت کا خواب دیکھا تھا جب اس نے شیشے کے مکان (glass house) کی بات کی تھی جس میں رہنے کی اسے تمنا تھی۔ اگر ٹوٹالی ٹیریانزم ان بنیادی نمونوں (Archetypes) کو استعمال نہیں کرتا جو گہرائی میں ہم سب میں موجود ہیں اور تمام مذاہب کی جڑوں میں اندر تک ہیں، وہ کبھی بھی اتنے سارے لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کرسکتا خاص طور پر اپنے وجود کے ابتدائی ادوار میں جیسے ہی خوابِ بہشت حقیقت میں بدلنے لگا، یہاں، وہاں ایسے لوگ اٹھنے لگے جو اس کے رستے میں کھڑے ہوئے۔ حکمرانِ بہشت نے چھوٹا سا گلاگ [(Gulag)، اس کا متبادل اردو لفظ مفہوم کو الجھا دے گا] تعمیر کردیا عدن (Eden) کے برابر میں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بڑے سے بڑا ہوا اور خوب سے خوب تر اور مکمل ہوتا گیا۔ جب کہ ساتھ میں لگی ہوئی بہشت چھوٹی اور مفلس ہوتی گئی۔
روتھ: آپ کی کتاب میں عظیم فرانسیسی شاعر ایلووارڈ بہشت اور گلاگ کے اوپر نغمہ برانداز ہوا۔ کیا یہ تاریخ کا ٹکڑا جس کا آپ نے ذکر کیا ہے، معتبر ہے؟
کنڈیرا: جنگ کے خاتمے کے بعد پاؤل ایلو وارڈ (Paul Eluard) نے سرریئلزم (Surrealism) کو ترک کردیا اور میری لفظیات کے مطابق ’’ٹوٹالی ٹیریانزم کی شاعری‘‘ کا مہمان نغمہ خواں بن گیا۔ اس نے اخوت، امن، عدل، خوب تر فردا کے لیے شعر کہے اور نغمے تخلیق کیے۔ کامریڈیت کے حق میں اور عزلت کے خلاف، مسرت کے حق میں اور حزن کے خلاف، معصومیت کے حق میں اور ترکِ دنیا کے برخلاف۔ ۱۹۵۰ء میں جب حکمرانانِ بہشت نے ایلووارڈکے پراگ کے باسی دوست سرریئلسٹ شاعر زیلوس کیلینڈرا (Zalvis Kalandra) کو پھانسی کی سزا کا فیصلہ سنا یا تو ایلووارڈ نے اپنی ذاتی دوستی کے جذبات کو بالاتر آدرشوں کی خاطر دبائے رکھا اور اپنے کامریڈ کی سزا کو باجواز قرار دیا۔ جب مصلوب کرنے والا اس کی جان لے رہا تھا، شاعر گارہا تھا۔
اسٹالن کے پورے عہدِ دہشت کے دورانیے کو اجتماعی نغماتی خواب ناکی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اب تک یہ سب بھلایا جاچکا ہے،، صرف معاملے کا مرکزی نقطہ رہ گیا ہے۔ لوگ یہ کہنا پسند کرتے ہیں، انقلاب خوب صورت ہے۔ البتہ اس سے جس دہشت کا جنم ہوا وہ برا ہے، لیکن یہ سچائی نہیں ہے۔ خوب صورتی میں برا اب بھی موجود ہے، دوزخ خواب بہشت کے اندر موجود ہے اور اگر ہم دوزخ کی اصل کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں بہشت کا مشاہدہ کرنا پڑے گا جس میں سے یہ جنما ہے۔ گلاگس کی مذمت کرنا آسان ہے، لیکن ٹوٹالی ٹیریانزم کی شعریات کو مسترد کرنا جو حالات کو گلاگس تک پہنچاتی ہے (بہشت کے راستے سے) ہمیشہ کی طرح مشکل ہے۔ ان دنوں لوگ دنیا بھر میں ہم آواز ہوکر گلاگس کے خیال کو مسترد کرتے ہیں، لیکن وہ اب بھی راضی ہیں، ٹوٹالی ٹیرین شعریات سے ہپناٹائزڈ (Hypnatized) کروانے کے لیے اور نئے گلاگس کی جانب قدم بڑھانے کے لیے لیریکلیاتی نغمے کی لے پر جو ایلووارڈ نے بجایا جب وہ پراگ پر پرواز کررہا تھا، عظیم عالی مرتبہ لیر (Lyre) کے فرشتے کی مانند جب کریمیٹوری کی چمنی سے کیلے مینڈرا کا بدن دھویں کی صورت میں آسمان تک بلند ہورہا تھا۔