جاڑے کی سرد رات تھی اور وہ ڈیوٹی ختم کر کے ہسپتال سے لوٹ رہی تھی۔ راستہ خاصا سنسان تھا مگر اس کے لئے کوئی پریشانی نہیں تھی، کیونکہ اس کی ڈیوٹی ہی ایسی تھی اور وہ اکثر رات گئے گھر واپس آتی تھی۔ ہسپتال اس کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اس لئے اسے پیدل آنے جانے میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔
وہ ریلوے پھاٹک کے قریب پہنچی تو اچانک اسے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ قمقموں کی دم توڑتی زرد روشنی میں اچانک اس کی نظر سامنے کوڑے کے ڈھیر پر جا پڑی، جہاں کوئی چیز حرکت کرتی نظر آ رہی تھی۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ تیز تیز قدم اٹھاتی جب وہ قریب پہنچی تو سامنے کا دلدوز منظر دیکھ کر وہ دہل اٹھی۔ کوڑے کے ڈھیر پر کپڑوں میں لپٹی ایک معصوم بچی سردی سے ٹھٹھری رو رہی تھی اور اس کے ہونٹ بری طرح سے کانپ رہے تھے۔ وہ حیرت سے اس تڑپتی اور چیختی بچی کو دیکھنے لگی۔
’’کس حرامزادی نے اپنے جسم کا ٹکڑا گندگی پر پھینک دیا ہے۔‘‘ وہ غصے کی شدت سے بڑبڑائی اور نیچے جھک کر ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیئے۔
اچانک اس نے ہاتھ اس کی گردن پر رکھ دیئے اور دھیرے دھیرے اس کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اس نے اس وقت تک ہاتھ نہ اٹھائے جب تک وہ تڑپتا ہوا ننھا وجود ساکت نہ ہو گیا۔ وہ اس سفاکانہ حرکت کے بعد اٹھ کھڑی ہوئی اور نمناک آنکھوں سے اس بے جان کلی کو دیکھنے لگی۔ جو پھینکے ہوئے لمحے کی اس اذیت سے بے خبر پڑی تھی جس سے وہ خود آج تک بندھی ہوئی تھی۔
٭٭