ڈاکٹر عبدالرب استاد،ہردئے بھانو پرتاپ،
رضینہ خان، منزہ یاسمین اور عامر سہیل کے
پی ایچ ڈی ، ایم فل اور ایم اے کے مقالات میں ذکر
ان کے گھر جتنے بھی افرادرہتے ہیںوہ سب اردولکھتے،پڑھتے اور بولتے ہیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔آفرین صد آفرین کہنا پڑتا ہے حیدر قریشی اور آپ کے خاندانی افراد کو۔کیونکہ انہوں نے اتنا تو کیا۔ان کے افرادِ خانہ جن میں ان کی اہلیہ مبارکہ بھی قابلِ مبارکباد ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مشرقی عورت،مشرقی ماں،مشرقی نانی،اور مشرقی دادی ہونے کا پورا پورا حق اداکیا اور باقاعدہ ادا کرتی جا رہی ہیں۔
عبدالرب استاد کے پی ایچ ڈی کے مقالہ’’ حیدر قریشی شخصیت اورادبی جہات ‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب Internet پر ان کے دوستوں کا حلقہ بڑھنے لگا توان کی بیگم مبارکہ صاحبہ کو اس سے تھوڑی بہت پریشانیاں بھی ہوئیں یہاں تک کہ مبارکہ صاحبہ نے کمپیوٹر کو اپنی سوتن تک بناڈالا۔لیکن انٹرنیٹ پر مصروف رہنے کے باوجود حیدرقریشی اپنی اہلیہ مبارکہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب وہ دو روز کے لئے اپنی بیٹی کے یہاں چلی گئی تھیں اورحیدر صاحب کوئی بھی کام نہ کرسکے ۔ بلآخر یہ کہاجاسکتا ہے کہ حیدرقریشی ایک اچھے شاعر وادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شوہر اور والد بھی ہیں۔
ہردئے بھانو پرتاپ کے ایم فل کے مقالہ ’’حیدر قریشی کی شاعری کا مطالعہ‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کا نرم ونازک لہجہ جب بھی ان کی آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو حیدرقریشی کا شاعر دل بھر آتاہے اورآنکھیں چھلک پڑتی ہیںاور ایسا ہونے سے ماںکی مامتا پھر سے تازی ہوجاتی ہے۔ لیکن حیدرقریشی جب اپنی بیوی کا ذکر کرتے ہیں تویہی محبت ایک نئے رخ کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے۔پھران کا تخلیقی قلم ایک نیا شعر لکھتا ہے ؎
(بیوی)
اک روح کا قصہ ہے
میرے بدن ہی کا
جوگم شدہ حصہ ہے
حیدرقریشی نے اس شعر میں بیوی کو اپنے جسم کا گم شدہ حصہ قرار دیا ہے۔یہ بات فلمی نغموں سے لے کرادبی تصنیفات اورمذہبی کتابوں میں بھی بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاتی ہے۔اس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ہرمذہبی کتاب اس بات کو اپنے اپنے طریقے سے بیان کرتی ہے۔شاعر نے یہاں پر اس دنیا کی ایک ایسی سچائی کا بیان کیاہے جس کی بنیاد اس دنیاکے وجود میں آنے سے جاکر ملتی ہے۔یہاں پر حیدرقریشی کا نظریہ بالکل واضح ہوجاتا ہے اورماں اور بیوی دونوں کی کیا اہمیت ہے یہ بھی صاف صاف سمجھ میں آجاتا ہے۔ویسے توبچہ جس ماں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اس سے اس کا اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔یہاں تک کہ بعض دفعہ ماں کی بہت سی خصوصیات بھی بچوں میںچلی آتی ہیں۔لیکن حیدرقریشی اس بچے کو ماں کے جسم کا حصہ قرار نہیں دیتے ہیں اور یہی اصل سچائی بھی ہے۔مرد کی دنیا ایک عورت (بیوی)کے ملنے کے بعدہی مکمل ہوتی ہے اور عورت کی دنیا ایک مرد (شوہر)کے ملنے کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔اس فلسفے کو حیدرقریشی بہت ہی آسان الفاظ میں ماہیے کے محض تین مصرعے میں بہت ہی کامیابی سے پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں ماہیوں کو پڑھنے سے ماں اوربیوی دونوں کا بنیادی فرق واضح ہوجاتا ہے۔
ہردئے بھانو پرتاپ کے ایم فل کے مقالہ ’’حیدر قریشی کی شاعری کا مطالعہ‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ پسلی کی ٹیڑ ھ ‘‘ کتاب میں شامل آٹھواں خاکہ ہے جوحیدر قریشی نے اپنی بیوی کالکھا ہے۔ خاکے کی ابتدا نہایت ہی خوبصورت شعر سے کی گئی ہے۔شعر ملاحظہ ہو۔
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں با دِ صبا ہوتا گیا
اس خاکہ کو لکھنے سے پہلے حیدر قریشی اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ کہیں ان سے کوئی زیادتی نہ ہو جائے۔شاید اسی وجہ سے انہوںخاکے کی ابتدا سے پہلے ہی سچ لکھنے کا اقرار کر لینا مناسب سمجھا۔ لکھتے ہیں۔
’’بیوی۔ ۔۔۔بالخصوص زندہ بیوی کا خاکہ لکھنا اپنی خیریت کو داؤ پر لگانے اور شیر بلکہ شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے ۔بہر حال میں اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ لکھوںگا سچ لکھوں گا ۔سچ کے سوا کچھ نہ لکھوں گا۔اللہ میری حفاظت فرمائے ۔ ( آمین)‘‘ ( ۲۹)
زِیر نظر خاکے میں حیدر قریشی نے اپنی اہلیہ (مبارکہ) کی شخصیت سے قاری کو بخوبی متعاف کرایا ہے۔لکھتے ہیں ’’ مبارکہ صاف دل اور صاف گو عورت ہے۔محبتی بیوی اور بے تکلف ماں ہے۔‘‘ ( ۳۰)
یہ خاکہ حیدر قریشی اور ان کی بیوی کے درمیان محبت،سمجھ ،اور رشتہ پہ اعتماد کی کھلی وضاحت کرتا ہے۔حیدر قریشی کا یہ خاکہ میاں بیوی کے درمیان ایک صحت مند رشتہ کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ میاں بیوی میں محبت بہت زیادہ ہو تو دونوں میںشباہت یکساںہوجاتی ہے۔فیض اور ایلس کی تصویر یں دیکھ کر یہ بات سچ معلوم ہونے لگتی ہے۔میری اور مبارکہ کی شکلوں میں بھی کچھ ایسا تغیر رونما ہو رہا ہے۔ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کی حد تک تو محبت ٹھیک تھی لیکن جب اس مقام سے آگے بڑھی تو پھر دونوں کی شکلیں بگڑنے لگیں اور بگڑتے بگڑتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ ’’ تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم‘‘۔۔۔اچھی بھلی شکلیں بگڑ گئیں مگر ہماری محبت کی شدت توثابت ہو گئی۔( ۳۱)
حیدر قریشی اور ان کی بیوی مبارکہ کے درمیان کس حد بے تکلفی اور اعتماد کا رشتہ قائم ہے یہ بات اس خاکہ میں مکمل طور پرنظر آتی ہے۔بالآ خر حیدر قریشی لکھتے ہیں ’’ اس سے زیادہ مبارکہ کے بارے میں لکھنے کی جرات نہیں۔اس خاکے کادوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوں یا میر ی وفات کے بعد وہ لکھے گی۔
رضینہ خان کے ایم فل کے مقالہ’’ حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کا مطالعہ‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی نے اپنی پڑھائی کے سلسلے کو جاری رکھا ۔ انہوں نے ۱۹۷۰ء میں پرائیویٹ امیدوار کے طور پر ایف ۔اے کا امتحان پاس کیا ۔ ۱۹۷۱ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں ان کی شادی ان کے ماموں کی بیٹی ‘ ’’مبارکہ ‘‘ سے ہو گئی۔ حیدرقریشی نے نوکری اور شادی شدہ زندگی کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر اپنا سلسلہ تعلیم بھی جاری رکھا ۔
منزہ یاسمین کے ایم اے کے مقالہ’ ’حیدر قریشی شخصیت اورفن‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’سلگتے خواب‘ کا انتساب حیدر قریشی نے اپنی شریک حیات ’’ مبارکہ‘‘ کے نام کیاہے۔ انتساب یوں ہے۔
مبارکہ کے نام
استعار سے تو کجا سامنے اس کے حیدرؔ
شاعری ایک طرف اپنی دھری رہتی ہے
منزہ یاسمین کے ایم اے کے مقالہ’ ’حیدر قریشی شخصیت اورفن‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم ’’پھاگن کی سفاک ہوا‘‘ میں حیدر قریشی کے شائستہ اور مہذب لب و لہجہ میں ایک نرم و لطیف محبت کا احساس ملتا ہے ۔ اس نظم میں شاعر کی شریک حیات بھی متحرک نظر آتی ہے اور اس کے بچے بھی ۔ اس کی امیدیں بھی ہیں اور آنے والے سہانے دنوں کا تصور بھی ۔ اس کی نظم میں ماضی بھی ہے ‘ حال بھی اور مستقبل بھی ۔
منزہ یاسمین کے ایم اے کے مقالہ’ ’حیدر قریشی شخصیت اورفن‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری شاعری میں عموماًبیوی کا ذکر کم ملتا ہے لیکن حیدر قریشی نے اپنی ازدواجی زندگی کے ساڑھے بارہ سال مکمل ہونے پر ’’نصف سلور جوبلی‘‘ کے نام سے جو نظم کہی ہے وہ اُن کے جذبات کی شگفتگی اور محبت کی انتہا کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے اپنی اس نظم میں اپنے بچوں کو بھی جزوِ حیات بنالیاہے۔۔۔۔۔اس نظم کی مسرتوں اور اطمینان سے بھرپور سطریں دل میں ایک عجیب خوش گوار احساس پیدا کرتی ہیں۔ ان نظموں میں حیدر قریشی محبت کے رشتوں کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھتا نظر آتاہے۔
منزہ یاسمین کے ایم اے کے مقالہ’ ’حیدر قریشی شخصیت اورفن‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوجہ مبارکہ کا خاکہ
اُردو ادب میں خاکہ نگاری کی روایت اور ذخیرے پر نظر کی جائے تو علم ہوتا ہے کہ لکھنے والوں نے تقریباً ہر قسم کی شخصیت پر دل کھول کر لکھا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی ادیب نے اپنی بیوی پر خاکہ لکھ کر محبت کا ثبوت فراہم کیا ہو۔ حیدر قریشی کا تخلیقی قلم جہاں تمام اہل خانہ کے ذکر پر روانی اور جولانی کا مظاہرہ کرتا ہے وہاں اہلیہ کا ذکر ِ خیر بھی فراخ دلی سے صفحہ ء قرطاس کی زینت بنتا ہے۔اس موضوع میں اُن کی خاص دل چسپی نظر آتی ہے،یہی وجہ ہے کہ نظم و نثر کی اہم اصناف میں وہ اپنے دل پسند موضوع کو حد درجہ سلیقے اور قرینے سے نبھاتے ہیں۔اس دل چسپ اور شگفتہ خاکے کا آغاز ایک حسب ِ روایت طبع زاد شعر سے ہوتا ہے:
؎ پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں باد ِ صبا ہوتا گیا
حیدر قریشی نے خاکے کا عنوان بھی بہت منفرد رکھا ہے۔۔۔۔’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ (مبارکہ) ۔خاکے کی ابتدائی سطور قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔انداز ملاحظہ ہو:
’’ بیوی۔۔ بالخصوص زندہ بیوی کا خاکہ لکھنا اپنی خیریت کو دائو پر لگانے
اور شیر بلکہ شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔بہر حال میں
اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ لکھوں گا سچ سچ لکھوں گا۔۔سچ کے سوا کچھ نہ لکھوں
گا۔( کلیات:ص ۳۱۱)
’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ میں خاکہ نگاری کے ممکنہ اہم نکات اور وسائل یکجا صورت میں ملتے ہیں۔ بچپن کا تذکرہ نہایت میٹھے انداز میں سامنے آتا ہے اور قاری کو پتا چلتا ہے کہ حیدر قریشی نے بچپن کی معصومیت میں ماموں کی بیٹی سے شادی کرنے کی جس خواہش کا اظہار کیا تھا وہ بالآخر پوری ہو گئی تھی۔وہ خود بھی کہتے ہیں:
’’ بچپن میں غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر کہی ہوئی مذاق کی ایک بات اتنی سنجیدگی
ا ختیار کر گئی کہ اب وہ سارا مذاق وجدانی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ( کلیات:ص ۳۱۱)
یہ خاکہ اپنائیت اور محبت کی ملی جلی کیفیات کا عکاس ہے،اور اگر اسے ’’ میری محبتیں‘‘ کا کلیدی او ر نمائندہ خاکہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اُردو ادب میں ایسے خاکے کم ملتے ہیں جس میں اپنی اہلیہ کو اتنے ادبی رکھ رکھائو کے ساتھ پیش کیا گیا ہو۔ ہمارے ہاں بیویوں کا تمسخر اُڑانا عام سی بات اور اگر کبھی تعریف بھی کرنا پڑ جائے تو اُس میں سے بھی ایسے پہلو لازماً تلاش کرلیتے ہیں ہیں جس میں طنز پوشیدہ ہوتا ہے۔حیدر قریشی کے ہاں یہ رویہ کسی سطح پر نہیں پایا جاتا۔ اس کے بر عکس توازن اور شائستگی نظر آتی ہے۔یہ توازن اوصاف نگاری کے دوران بھی برقرار رہتا ہے۔چند مثالیں دیکھئے:
’’ مبارکہ صاف دل اور صاف گو عورت ہے۔محبتی بیوی اور بے تکلف ماں ہے۔
ماں والی دھونس نہیں جماتی البتہ دوستانہ دھونس ضرور جماتی ہے۔ ‘‘ ( کلیات:ص ۳۱۳)
حیدر قریشی کو جہاں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنا ہوتا ہے وہ بھی برملا کر دیتے ہیں۔
’’ میں اپنی فکری آزادہ روی کے باعث مبارکہ کے لیے بہت تکلیف کا سامان
کر بیٹھا۔‘‘ ( کلیات:ص ۳۱۳)
اس ادبی خاکے میں ہر طرح کے رنگ موجود ہیں۔کہیں ممدوح کی شخصیت نمایاں کرنے کی خاطر گہرے شوخ رنگ برتے گئے ہیں اور کہیں کہیں ہلکے رنگ شخصیت کی پر تیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔خاکہ نگار نیبے جا لفاظی اور طوالت سے اپنا دامن بچایا ہے۔مختصر اشارے کنائے اس تحریر کا خاص حسن ہے جس کی وجہ سے شخصیت کا ناک نقشہ اور عادات و اطوار کا بیانیہ فطری اُسلوب متاثر کرتا ہے۔حیدر قریشی جانتے ہیں کہ خاکہ نگاری ایک ایسی ظالم صنف ہے جس میں ایجاز و اختصار کا جادو اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے۔
عامر سہیل کے ایم فل کے مقالہ’’ حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم فل کے وائیوا میں ذکر
ایک اطلاع کے مطابق ہزارہ یونیورسٹی ،مانسہرہ میں جب عامر سہیل صاحب کے مقالہ کا وائیوا ہوا تب ان سے ڈاکٹر عابد سیال صاحب نے دو سوال ایسے پوچھے جو براہِ راست امی سے متعلق تھے۔
پہلا سوال:حیدر قریشی کی اہلیہ کا کیا نام ہے؟
دوسرا سوال:حیدر قریشی نے اپنی اہلیہ کا جو خاکہ لکھا ہے اس کا عنوان کیا ہے؟
عامر سہیل صاحب نے دونوں سوالوں کے درست اور دلچسپ جواب دئیے۔
(نوٹ از مرتب شعیب حیدر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔