پشاور میں بنے اس بنگلے کی کھڑکھی کے ساتھ رکھی کرسی پر سیمل بیٹھی تھی۔ وہ کافی دیر سے بولتے بولتے رکی تھی۔
اسکے سامنے تین لڑکیاں بیٹھیں تھیں۔
محلہ سکندر ۔
اروشے جہانگیر۔
کنول شجاعت۔
” بابا نے شادی سے انکار کیوں کیا تھا ” پہلا سوال اروشے کی طرف سے آیا تھا ۔ اسکی سنہری آنکھیں سیمل کی طرف سوالیا اٹھیں تھیں۔
” ڈیڈ نے ماما کو معاف کیسے کیا” دوسرا سوال محلہ کا تھا جو یہ سب بہت دلچسپی اور حیرت سے سن رہی تھی۔ اسکی آنکھیں اپنے باپ کے جیسے ہی تھیں۔ چمکدار نیلی۔
” کیا داود کو اسکی سزا ملی ۔ کیا میری ماں کو انصاف ملا۔” تیسرا سوال کنول( پری ) کا تھا۔ وہ جیسے صرف داود کا انجام سن نے کی منتظر تھی۔ عائشہ کی طرح وہ بھی سنوالے رنگ اور گھنگھرایلے بالوں والی تھی۔
سیمل سب کے سوالات سن کر بس ہلکا سا مسکرادی۔
” اس دن مجھے لگا میں ختم ہو گئیں ہوں۔ دل کیا اسی درخت کے پاس قبر بناوں اور اس میں دفن ہوجاوں مگر پھر سوچا کہ جب تک حقیقت سامنے نا آئے مجھے کوئی انتہائی فیصلہ نہیں کرنا۔ اور پھر ۔۔۔۔۔۔”
□□□
وہ کار اندھیرے میں اس جگہ آکر رکی۔ ایک آدمی ادھر ادھر نظریں گھماتا اس کار تک آیا۔
” آپ کی گن میڈم ” کار کا شیشہ نیچے ہوا اور وہ جھک کر کہنے لگا۔
” اندر موجود ایک عورت نے نوٹوں کا بنڈل آدمی کو تھمایا۔
اگلے پل کار وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔ وہ آدمی اب نوٹ گنتا اندھیرے میں آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
□□□
اسنے مضبوطی سے ہاتھوں میں گن تھام رکھی تھی۔ یہ فیصلہ بہت مشکل سے کیا تھا مگر کچھ جرم نا قابل معافی ہوتے ہیں اور یہی حال داود حمدانی کا تھا۔
اگر داود اسکا نہیں تھا تو وہ کسی کا نہیں ہو سکتا ۔
وہ اپنے بیٹے کو داود جیسا نہیں بننے دے گی اور اسکا بیٹا اسکے پاس ہی رہے یہ داود کے زندہ ہوتے ممکن نہیں تھا۔
شوہر یا بیٹے میں سے ایک کو چننا تھا۔ ایک نے بے سہارا چھوڑا تھا۔ ایک نے سہارا بننا تھا ۔ رامین نے بیٹے کو چن لیا تھا۔
□□□
ایک کے بعد ایک سمگلنگ پولیس کی ریڈ سے پکڑی جارہی تھی مگر اسکا تعلق داود حمدانی سے سے نہیں جڑ رہا تھا۔
وہ ایک فائیو سٹار ہوٹل کا کمرہ تھا۔ ٹی وی پر منی لانڈرنگ کرتے ہوئے ایک لڑکی کے پکڑے جانے کی خبر چل رہی تھی۔
لاپ ٹاپ پر بھی نیوز چینل چل رہا تھا جو کہ بہت سے کالے اور غیر قانونی کاموں میں ملبوس لوگوں کی گرفتاری کی خبر نشر کر رہا تھا۔ وہ گرفتاریاں پولیس کے ساتھ مل کر اینٹی سمگلنگ ایجنسیز کر رہی تھی۔ یا شاید صرف ایجنسیز ہی۔
داود کا بلیو کلر کوٹ صوفے پر بے ترتیب پڑھا تھا۔ وہ سگریٹ کے لمبے کش لگاتا کمرے میں بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔ اس کا کھیل ختم نہیں ہو سکتا ۔ ہر گز نہیں۔ وہ ایک ایک کو مار دیگے۔ سب کو مار دے گا۔
دفعتا دروازہ کھلا اور عمر اندر داخل ہوا
” سر ہم بڑی طرح سے پھنس چکے ہیں۔ اس دفعہ ہم کورٹ میں اپنا دفع نہیں کر سکیں گے۔ ہمارے سارے پاڑٹنرز نے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔۔۔۔” وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ مزید کچھ کہہ رہا تھا جب داود زور سے ڈھاڑا
” بکواس بند کرو اپنی۔ میں داود حمدانی ہوں اور داود حمدانی نا آج تک کسی سے ہارا ہے نا ہارے گے ” عمر کا گریبان پکڑ وہ دانت پیس کر بولا تھا۔
اس کا یہ غرور تو بہت جلد ٹوتنے والا تھا۔
عمر کے گریبان چھوڑا اور لمبے لمبے سانس لیتا واپس ٹہلنے لگا۔
” وہ یوسف کی ویڈیو ۔ وہ ہے ہمارے پاس۔ اس ویڈیو کے زریعے ہم اسکی کڑیڈیبیلیٹی خراب کر دیں گے۔ اور موسی ۔۔۔” کنپٹی مسلتے ہوئے کچھ سوچا۔
” اسے میں اپنے ہاتھوں سے گولی ماروں گا ” ۔
پھر عمر کو دھکا دیتا باہر نکل گیا۔ اسے کچھ کرنا تھا۔
“بس اس لڑکی پر نظر رکھو۔ اسکے خلاف اگر ساری چالیں ناکام ہو گئیں تو یہ چال ضرور کامیاب ہو گی ۔ اگر یوسف واقعی اس لڑکی کو چاہتا ہے تو یہ لڑکی اسکی کمزوری ہوگی اور تم جانتے ہو داود کو دوسروں کی کمزوری سے کھیلنا پسند ہے ” اسے اپنی کہی بات یاد آئی۔ اسکا زہن تیزی سے چلتا کوئی سازش بن رہا تھا ۔
□□□
” سیمل بس کردو ۔ دروازہ کھول دو۔ ” اسنے خود کو کل رات سے کمرے میں بند کر رکھا تھا۔ ابا ۔ سنی اور مایا پریشان اسکے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑے تھے جب مایا نے زور سے دروازہ پیٹ کر کہا۔
” وہ میری غلطی کی سزا میری بیٹی کو دے گیا۔ ” کمال صاحب ندامت بھرے لہجے میں بولے۔
دفعتا دروازہ کھلا اور سیمل باہر آئی۔ وہ رات والے عروسی لباس میں ہی ملبوس تھی۔ جبکہ میک اپ اور زیور سارا اترا ہوا تھا۔ منہ دھلا ہوا ۔ آنکھیں سرخ تھیں۔ رنگت پیلی پڑھ رہی تھی۔ ایک رات میں گویا قیامت توٹی تھی۔
” سیمل تم تھیک ہو ۔” مایا تیزی سے اسکی طرف بڑھی۔
” ہاں ” وہ بولی تو آواز مغموم سی سنائی دی۔
” یہ سوچ کر خود کو ہلکان کرتی رہی کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔ مگر میں کسی بھی نتیجے پر سچ یا مکمل بات جانے بغیر نہیں پہنچ سکتی تھی۔ وہ اگر کل گیا ہے تو اسکے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہو گی۔ ” اسکا لہجہ ایک دم سپاٹ تھا۔ چہرے سے سارے تاثر فنا ہو چکے تھے۔ بس آنکھوں سے ایک درد چھلکتا تھا جو وہاں موجود ہر کوئی محسوس کر سکتا تھا۔
” بس اسے کہنا اگر مجھے چھوڑ کر جانا ہی تھا تو وجہ بتا کر جاتا ۔ یوں درمیان میں چھوڑ کر تو نا جاتا ۔ کوئی وجہ تو بتا کر جاتا ”
کچھ دیر بعد وہ تکلیف دہ لہجے میں یوسف سے کہہ رہی تھی۔ اسکی بات پر بس وہ گہری سانس لیکر رہ گیا۔
” اسے باتیں چھپانے کی عادت ہو گئی ہے۔ مجھے بھی بہت سے سوال کرنے ہیں اس سے ” افسوس سے کہتا وہ فون بند کرگیا جبکہ سیمل نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔
کتنا انتظار کیا تھا اسنے اس لمحے کے لیے جو کل رات اسکی زندگی میں آیا تو تھا مگر کہیں کھو گیا تھا۔ وہ بس ایک بار موسی جہانگیر کا گریبان پکڑ کر اس سے سوال کرنا چاہتی تھی۔ وہ ایسے موقع پر کیوں چھوڑ گیا۔ یہ باز پرس کرنا چاہتی تھی۔ کیا موسی نے اسے اسکے باپ کی غلطی کی سزا دی تھی۔ یا پھر کیا وجہ تھی۔
وہ سوچتے سوچتے کب کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر نیند کی وادی میں کھو گئی ، علم نا ہوا۔
□□□
کورٹ میں آج معمول سے زیادہ رش تھا۔
آج ایک بار پھر داود حمدانی کے کٹھگڑھے میں کھڑے ہونے کا وقت تھا۔مگر اس بار وہ مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے۔
داود اور عمر دائیں طرف والی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ عمر بار بار گھبراہٹ سے پہلو بدلتا تھا جبکہ داود ٹانگ پر ٹانگ جمائے اعتماد سے بیٹھا تھا۔ اسے غرور تھا وہ نہیں ہارے گا۔ کوئی داود حمدانی کو مات نہی دے سکتا اور ایسے لوگوں کو مات اس جگہ سے ہوتی ہے جو انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ داود کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہونے والا تھا۔
کاروائی شروع ہوئی ۔
یوسف اور موسی کے وکیل ناظم بیگ نے کچھ فائلز جج کے ڈیکس پر رکھیں۔
” اب تک کے ریڈ کر کے پکڑے جانے والے سارے غیر قانونی کاموں کی لسٹ ان فائلز میں موجود ہے ۔یور آنر ” ناظم بیگ ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔
جج نے موٹا فریم آنکھوں پر لگاتے فائل پر نظر دھڑائی ۔
داود کے چہرے پر ناپسندیدہ تاثرات آکر ٹھہرے۔
اب وہ کٹھگھڑے میں کھڑا تھا۔ اور ناظم بیگ سامنے کھڑا سوال کر رہا تھا۔
” مسٹر داود حمدانی آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے۔ ”
” میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان سب کاموں کے پیچھے اگر کسی کا ہاتھ ہے تو وہ عائشہ صبحانی ہے۔ یہ بے بنیاد الزام ہے ” وہ گرے سوٹ میں ملبوس تھا۔ ہمیشہ کی طرح تیز پرفیوم سے خود کو گھیرے ہوئے وہ پر اعتماد سا کہہ رہا تھا۔
” آپ مس عائشہ پر الزام لگا رہے ہیں۔ مس عائشہ جو کہ آپ کی کزن تھیں۔ کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے یا آپ بھی بے بنیاد الزام لگا رہیں ہیں۔ ” ناظم بیگ زور دیتے ہوئے بولا۔
” میرے وکیل کے پاس ثبوت موجود ہیں جو نا صرف اس بات کی تصدیق کریں گے بلکہ یہ بھی ثابت کریں گے کہ اسکی موت کے بعد بھی اسکے ساتھی اسکے غیر قانونی کاموں کو چلاتے رہیں ہیں۔ ” اب کی بار وہ آگے کو جھک کر دانت پیس کر کہہ رہا تھا۔
” یور آنر میں اسد نیازی صاحب سے التجاء کرونگا کہ وہ کورٹ میں اپنے ثبوت پیش کریں ۔ ” ناظم بیگ نے اجازت چاہی جو اسے دے دی گئی۔
اسد نیازی نے ایک نظر داود کو دیکھتے جج صاحب کے سامنے ایک فائل رکھی۔
” اس فائل میں صبحانی گولڈ ڈیلرز کی اکوئنٹنگ ڈیٹیل ہے جو اس بات کو ثابت کر سکتی ہے کہ فینینشیلز میں بھری ہیر پھیر ہوئی ہے۔ ”
جج نے اس فائل پر بھی نظر ڈھورائی اور ناگوری سے سامنے دیکھا۔
” آپ کے مطابق فائنینشلز میں گربر ہے مگر یہاں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے ۔ یہ سب کلیئر ہے ۔ ” جج صاحب نے باری باری داود اور اسد نیازی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ دونوں کے چہرے ایک دم پریشان تاثرات سے اٹے تھے۔
داود نے اسد نیازی کو گھورا جبکہ اسد نے نفی میں سر ہلایا۔ یہ کیسے ہو گیا اسنے تو خود جعلی پیپرز تیار کروائے تھے۔
” اسد نیازی صاحب کیا آپ کے پاس کوئی اور ثبوت موجود ہے۔ ” جج نے ایک بار پھر استفار کیا۔
اسد نیازی انکار میں سر ہلاکر بیٹھ گیا۔ یہ آخر کیسے ہو سکتا تھا۔ وہ پریشانی سے لب کاٹنے لگا۔
” یور آنر میں کٹھگھڑے میں یوسف سکندر کو بلانا چاہتا ہوں ” ناظم بیگ نے اجازت چاہی۔
” مسٹر یوسف سکندر عدالت کو یہ بتائیے کہ آج سے دھائی سال پہلے 12 جون کو کیا ہوا تھا۔” ناظم نے اپنا پہلا سوال کیا۔
یوسف نے ایک کٹیلی نظر داود پر ڈالی ۔ داود کا بھی پارا ہائی ہو رہا تھا۔ یوسف کی حقیقت اس پر کھل چکی تھی۔
” اس روز میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ۔ میں اس روز کورٹ ہی آرہا تھا۔ ” یوسف نے سنجیدگی سے کہا۔ اسکی نیلی آنکھیں داود پر گھڑہیں تھیں۔
” کورٹ کو بتائیے اس روز آپ عدالت کس سلسلے میں آ رہے تھے۔ ”
” اسی کیس کے سلسے میں آ رہا تھا۔ میرے پاس کچھ ثبوت تھے جو کو اگر کورٹ تک پہنچ جاتے تو ملزم ( داود کو دیکھا) کو بھاری نقصان ہو سکتا تھا۔ ”
” کیا وہ یہ ہی ثبوت تھے جو آج کورٹ میں جمع کر وائیں گئے ہیں ” ناظم کا اشارہ اس فائل کی طرف تھا جو سب سے پہلے جج صاحب کو پیش کی گئی تھی۔
” جی ”
” اسد نیازی صاحب آپ سوال کر سکتے ہیں ۔” ناظم بیگ اپنی جگہ سے ہٹ کر گئے۔
اسد نیازی گلا کھنکارتے ہوئے یوسف کے سامنے آیا۔
” کیا آپ کورٹ کو بتانا چاہتے ہیں۔ یہ ثبوت آپ نے کہاں سے حاصل کیے۔ ” ساتھ ساتھ وہ گاہے بگاہے داود کو بھی دیکھتا تھا۔
” ایک طوائف سے ” یوسف کے جواب پر داود کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔
” کیا آپ کا اس جگہ یا اس طوائف سے کوئی تعلق تھا۔ ”
” نہیں ۔ میں محض اس ثبوت کی خاطر وہاں گیا تھا ایک روز ۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ہے۔ کیا آپ نے وہ عدالت میں جمع نہیں کر وائی۔ ” اسکا انداز لا علم سا تھا مگر لہجا ایسا کہ سب کچھ جانتا ہو۔
” جی بلکل۔ جج صاحب آپکے ڈیکس پر ایک سی ڈی رکھی ہے۔ ” اسد نیازی تھوڑا کھسیانا سا ہوکر بولا۔
سی ڈی چلائی گئی مگر چونکہ وہ پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ اس روز اس وہاں گیا تھا تو شک کی کوئی نوبت ہی نہیں رہ گئی تھی۔
اب اسد نیازی کو اپنا اگلا حربہ آزمانا تھا۔ داود اب بار بار بے چینی سے پہلو بدلتا تھا۔ پہلے عائشہ کے کمپنی کے اکاونٹس کا تھیک ہونا۔ پھر یوسف کا خود ہی وہ سب قبول کرنا جس کے زریعے وہ الٹا اس پر ہی کیس کر سکتے تھے۔ جیسے وہ سب جانتا تھا۔ وہ پہلے سے انکے ارادوں سے آگاہ تھا۔
” اس روز رینا نام کی ایک طوائف کا قتل ہوا تھا ۔ اس بارے میں کیا کہیں گے۔ کیونکہ جس وقت کی یہ سی سی ٹی وی فوٹیج ہے ۔ اس سے کچھ لمحے پہلے وہ قتل ہوا۔ یعنی آپ وہاں موجود تھے۔ ” اسد نیازی اگلا مدعے پر آیا۔
” جی ہاں۔ وہ قتل میرے سامنے ہوا تھا۔ میں گواہ ہوں۔ میں اس روز اس لڑکی سے بس کچھ معلومات نکلوانے کئ کوشش کر رہا تھا کیونکہ مجھے علم ہوا تھا کہ اس جگہ سے منشیات کی سمگلنگ ہوتی ہے۔ وہاں آنے والے گاہک منشیات کی خریدو فروخت کرتے ہیں۔ اسی دوران اس لڑکی نے گن نکالی اور مجھ پر تھام لی۔ اپنے دفع اور گن چھیننے کی کوشش میں گولی چل گئی۔ گن پر سائلینسر تھا تو آواز نہیں آئی۔ میرا مقصد اس لڑکی کو مارنا نہیں تھا۔ اور ویسے بھی وہ لڑکی مجھے ثبوت دے سکتی تھی۔ اسکا زندہ رہنا میرے لیے زیادہ ضروری تھی۔ ” وہ ساری حقیقت بیان کرگیا۔ داود کی حالت بگڑ رہی تھی۔ سب کچھ الٹا ہو رہا تھا۔
” یور آنر فرانسک ریپوڑٹ کے مطابق اس وقت گن رینا کے ہاتھ میں ہی پائی گئی تھی۔ اور اسکی پوزیشن ایسی تھی جیسے گولی اس نے خود چلائی ہو۔ ” ناظم بیگ جج کی طرف دیکھتا بولا۔
” آبجیکشن یور آنر ۔ گولی چلانے کے بعد یوسف وہ گن اسکے ہاتھ میں بھی تو پکڑا سکتا تھا۔ ” بل آخر اسے ایک سرا مل ہی گیا۔
” رینا نامی لڑکی کی موت اور یوسف کے پچھلی دیوار پھلانگ کے نکلنے میں طرف ایک ڈیڑھ منٹ کا وقت تھا۔ ہاں اس وقت میں گن تھمائی جا سکتی تھی۔ میں اپنے کلائنٹ سے پوچھنا چاہوں گا یہ وقت انہوں نے کس کام کے لیے صرف کیا تھا۔” وہ یوسف کی طرف گھوما۔
” اس کمرے کی تلاشی لینے میں۔ وہیں سے مجھے یہ فائل ملی تھی۔ ”
” یورآنر ایک ڈیڑھ منٹ اتنا لمبا وقت نہی ہوتا ان دونوں کاموں کے لیے۔ ”
“آبجیکشن۔ آپکے کلائنٹ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔ ” اسد نیازی نے فورا تردید کی۔
” میرے کلائنٹ نے وہ وقت فائل یا کسی ثبوت کی تلاش میں صرف کیا اس کا ثبوت وہ فائل کے جو جج صاحب دیکھ چکے ہیں۔ مگر اسنے رینا کے ہاتھ میں گن تھمائی اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اور فرانسک کے مطابق گن کے ڑریگر پر رینا کے ہی انگیوں کے نشان ملے ہیں۔ اور رینا کے ہاتھ پر گن پاوڈر بھی ملا تھا۔ ” ناظم نے ایک اور فائل جو کہ فرانسک کی ریپوڑٹ تھی جج صاحب کو پکڑائی۔ جج نے عینک لگا کر اس پر نظر ڈھوڑائی۔
” ناظم صاحب صحیح کہہ رہی ہیں ” جج کی تصدیق پر جہاں کچھ کو تسلی اور تسکین ہوئی وہیں کچھ کو آگ لگی
” یور آنر یہ نکلی بھی ہوسکتی ہے۔ آج کل جعلی چیزیں بنوانا مشکل نہیں ہے ”
” بلکل ویسے ہی جیسے آپ نے یہ جعلی پیپرز تیار کروائے تھے صبحانی ڈیلرز کے اکاونٹس کے ” ناظم نے ایک اور فائل اسد کے سامنے لہراتے ہوئے جج صاحب کو پیش کی ۔ اسد نے ناگواری سے پہلو بدلا۔
سب کچھ ہاتھ سے نکل رہا تھا۔
” یوسف اپنے ہاتھ کے نشانات مٹا بھی تو سکتا ہے ۔ ” اسد نیازی کا اگلا وار ہوا۔
” کیا ایسا ممکن ہے کہ دو نشانات میں سے صرف ایک نشان مٹائے جا سکیں ” ناظم نے ایک آبرو اچکا کر اسد کو دیکھا “اور اگر نشان مٹائے ہی گئے ہیں۔ تو وہ نشان کیوں ہیں جو گن کے اگلے حصے پر پائے گئے ہیں۔ ” اسد کی طرف دیکھ کر طنزیہ کہا پھر جج صاحب کی طرف منہ موڑا ۔
” یور آنر آپ ریپوڑٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔وہاں صاف لکھا ہے۔ گن کے اگلے حصے پر صرف یوسف کے انگلیوں کے نشان پائے گئے جو کہ ظاہر ہے گن کو رینا سے پکڑنے کی کوشش میں آئے تھے۔ اور میرا کلائنٹ عدالت میں سب کے سامنے یہ قبول کر چکا ہے کہ وہ اس روز کس مقصد کے لیے وہاں گیا تھا۔ وہ مقصد آپ کے سامنے ہے۔ رینا کا قتل محض بچاو اور دفاع کا نتیجہ ہے۔ اور قانونی رو سے ایسا قتل ، قتل نہیں کہلاتا ۔ ” ناظم بیگ اپنا تمام مدعا کہہ کر جج صاحب کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ یوسف سنجیدہ سا جج صاحب کو دیکھ رہا تھا جبکہ داود آگ بگولا سا۔ اسکی سانسیں تیز سے تیز تر ہو رہیں تھیں۔ نہیں وہ نہیں ہار سکتا۔
” عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یوسف سکندر بے گناہ ہے مگر داود حمدانی پر جو الزام لگا ہے اسکے لیے ثبوت نا کافی ہیں۔ عدالت اس کیس کو ملتوی کرتی ہے ” جج صاحب نے بھاری کرخت آواز میں فیصلہ سنایا۔
داود نے ایک سکون بھری سانس لی۔
مگر اگلے ہی لمحے ایک نگاہ غلط اسد نیازی پر ڈالی۔
” سر ناظم بیگ تو ہمارے ہر حربے کا پہلے سے توڑ کر کے آیا ہوا تھا۔ اسے کسی نے مخبری کری ہے شاید ” باہر نکلتے ہوئے اسد نیازی نے اسکے پاس آکر سرگوشی کی۔
” بکواس بند کرو ۔ تم کیا تیاری کر کے آئے تھے۔ وہ فائل کیسے چینج ہوئی۔ ” داود اسکی طرف گھوما اور زور سے ڈھارا ۔
” مم۔ می۔۔۔ سر معلوم نہیں وہ فائل کیسے چینج ہوئی اور ناظم بیگ کے پاس کیسے پہنچی ” اسد بیگ خود بھی الجھا ہوا تھا۔ “یہ کسی اندر کے آدمی کا کام ہے ” اسنے اندازہ لگایا۔
” ہوں۔۔۔! یہ کسی اندر کے آدمی کا کام ہے ” وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتا آگے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسنے یوسف پر یقین کر کے غلطی کردی تھی۔ وہ کبھی بھی اسکے ساتھ نہیں تھا۔ وہ اسکے پاس آیا ہی ثبوت کے مقصد کے لیے تھا مگر یوسف اتنی رازدرانہ معلومات حاصل نہیں کر سکتا تھا ۔ کسی نے اسکی مدد کی تھی۔ اسکا پہلا شک زینت پر گیا۔ لیکن پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔
□□□
اگلی پیشی۔
” یوسف سکندر ۔ اگر تم مایا اعوان کی زندگی چاہتے ہو تو آج کورٹ میں۔۔۔” وہ فون کال مزید کچھ کہہ رہی تھی مگر اسنے فون بند کر دیا اور تیزی سے اپنا ناشتا کرنے لگا۔
کورٹ میں سنوائی شروع کی گئی۔ اس بار بھی ناظم بیگ کے پاس ہر حربے کا توڑ تھا۔ اس بار اسنے کچھ آڈیو ریکارڈنگ عدالت میں سنوائی جس میں صاف صاف داود حمدانی کی منشنیات کے گروہوں سے ڈیلنگز کی بات ہورہی تھی۔ وہ سب ریکاڑڈنگ دیڑھ سال کے عرصے کے دوران لی گئیں تھیں۔
وہ میٹنگز تو بہت رازدرانہ تھیں ۔ آخر انکی ریکارڈنگ کیسے لی جاسکتی تھی۔ داود کو پورا یقین ہوگیا تھا۔ غدار کوئی اندر کا آدمی ہی تھا۔ صبح دی گئی دھمکی پر بھی یوسف نے کوئی نوٹس نہی لیا تھا۔ کون تھا جو یوسف کی مدد کر رہا تھا۔
” تمام ثبوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ داود حمدانی اپنے تمام بزنس کی آڑ میں غیر قانونی کاموں میں ملوث تھا۔ داود حمادانی کو یہ عدالت 12 سال قیدبا مشقت کی سزا سناتی ہے۔ ”
اس روز تیسری سنوائی تھی۔ جب عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ اسد نیازی کی کوئی بھی چال یا ترکیب نہیں چلی تھی۔ ناظم بیگ کے پاس ہر چیز کا ٹوڑ تھا۔ اسکے ثبوت مضبوط تھے۔ ہر حربہ الٹا ہی جا رہا تھا۔
داود کا بس نہیں چل رہا تھا سب کو جلا کر راکھ کردے۔ دو پولیس آفیسر اسے ہٹھکڑیوں میں باندھے کورٹ سے باہر لے جا رہے تھے جب وہ جھٹکا دے کر ہاتھ چھڑواتا یوسف کے قریب آیا۔
” میں تم میں سے ایک ایک کو دیکھ لونگا۔ جلد ہی میں باہر آونگا اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ برباد کردوں گا تم سب کو۔ اپنے ہاتھوں سے ماروں گا سب کو ” سخت غصے اور آگ بگولہ لہجے میں وہ دھمکی دے رہا تھا ۔ اسکے ہاتھ نا بندھے ہوتے تو یوسف کا گلا دبوچ لیتا ۔
” بلکل ویسے ہی جیسے عائشہ کو مارا تھا۔ ” منہ کان کے قریب لاکر وہ پرسکوم سرگوشی سے بولا۔ اس سے پہلے داود کچھ کہہ پاتا وہ مزید بولا۔
” اسکے علاوہ تمہے آتا ہی کیا ہے ۔ ہر چیز کا حل یا تو کسی کو مار دو یا اغوا کرلو۔ میرے پاس ابھی بھی ایسے بہت سے ثبوت ہیں جو تمہے پھانسی کے پھندے تک لے جاسکتے ہیں۔ عائشہ کے قتل سے لیکر مایا کی کیڈنیپنگ تک۔ اور ہاں میں تمھاری کسی دھمکی سے نہیں ڈرتا ۔ ” آخری فقرہ اسنے لفظ چبا چبا کر بولا تھا ۔
داود کی آنکھیں سرخ ہوئیں۔
” تم یہ سب اکیلے نہیں کر سکتے تھے۔ کس نے مدد کی تھی تمھاری۔ ”
” ظاہر ہے ۔ کسی نے میری مدد کی تھی۔ ہر بات مجھ تک پہلے سے ہی پہنچائی تھی۔ مگر وہ کون ہے یہ تم خود اس سے ہی پوچھ لو ۔ ” یوسف نے سامنے کی طرف اشارہ کیا تو داود کا دماغ بھک سے اڑا۔ کسی نے اسکے منہ پر جیسے زور دار چماٹ مار دیا تھا
سامنے سے عمر چلتا آرہا تھا ۔ اسکے چہرے پر سخت نفرت کے آثار تھے۔ وہ قدم قدم چلتا اسکے قریب آیا ۔
” تم۔ تم نے دھوکا دیا مجھے ۔ ” داود شوکڈ سا بولا۔
” ہاں میں نے۔ یوسف کو وہ سارے ثبوت میں نے دیے۔ وہ میٹنگز کی ریکاڑڈنگز میں نے لی تھیں۔ وہ فائل بھی میں نے چینج کی تھی۔ ” عمر ایک ایک پفظ دبا دبا کر بولا۔ داود نے اس سے پہلے اسکا یہ لہجا نہیں سنا تھا۔
“مگر کیوں ۔ اس دھوکے کا تمہے۔۔۔” عمر نے اسکی بات درمیان میں ہی کاٹی۔
” بدلا لینے کے لیے۔ تمہے برباد کرنے کے لیے۔ تم میرے بھائی کے قاتل ہو۔ ولی یاد ہے تمہے ۔ وہ میرا بھائی تھا۔ ابھی میرا بدلہ پورا نہیں ہوا۔ تم جس روز بھی باہر آوگے ولی اور عائشہ کے قتل اور مایا کی کیڈنیپنگ اور یوسف سکندر پر جان لیوا حملہ کرنے کے جرم میں دوبارہ اندر جاوگے۔ تم اب برے پھنس گئے ہو۔ اب تمھاری بربادی کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ ” وہ عمر نہیں لگ رہا تھا جو یس سر جی سر کہتا تھا ۔ وہ بس ایک دشمن لگ رہا تھا جس کے بھائی کو داود نے مار دیا تھا ۔ یہ سب اسکے لیے غیر متوقع تھا۔ اسے یاد آیا بہت پہلے عمر نے اسے بتایا تھا کہ ولی اسکا بھائی ہے مگر وہ یکسر بھول چکا تھا۔ آج داود حمدانی کی سزا شروع ہونے کا پہلا دن تھا۔
□□□
یوسف اس فلیٹ میں داخل ہوا تو لانج میں صوفے کے آگے دو زانوں موسی بیٹھا دیکھائی دیا۔ لانج اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اسنے لائٹ آن کیں اور اسکے قریب آیا۔
” آخر تم چاہتے کیا ہو۔ کیوں تم اس قدر سفاق ہو سکتے ہو۔ ایک بار بھی تم نے سوچا تمھارے اس عمل سے سیمل پر کیا گزرے گی۔ وہ تو جیتے جی مر گئی ہو گی۔ کیوں چھوڑ آئے ہو اسے یوں درمیان میں۔ ” وہ صوفے پر بیٹھا اور سنجیدہ سا پوچھنے لگا۔
” میں اسے ایسے رشتہ میں کیوں باندھوں جو صرف چند لمحوں کا ہو۔ شادی تو عمر بھر کا ساتھ ہوتی ہے مگر میں تو خود نہیں جانتا میں کتنی دیر اسکا ساتھ نبھا سکوں ” وہ سر جھکا کر تکلیف سے بولا تھا۔
” تم آخر کس چیز سے ڈر رہے ہو ”
” مجھے ڈر ہے کہ اس سے رشتہ جوڑتے ہی ختم نا ہو جائے۔ آج پہلی بار مجھے موت سے ڈر لگ رہا ہے۔ ” اسکے لہجے میں واقعی خوف تھا۔ یوسف نے گہری سانس لی۔
” چاہے دو دن کا ہو یا عمر بھر کا تمہے اب اسکا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تمہے کیا لگا وہ بہت خوش رہے گی۔ نہیں اور تم امید کیوں کھو رہے ہو۔ کیا معلوم تمھاری قسمت میں سیمل کا ساتھ پا کر ہی زندگی لکھی ہو۔ تم آپریشن کی وجہ سے ٹینشن میں ہو ۔ تم ڈر رہے ہو کہ کل تم زندہ رہو یا نا رہو مگر میں صرص اتنا جانتا ہوں محبت میں اتنا جنون تو ہوتا ہے کہ انسان موت سے بھی لڑ سکتا ہے۔ یا تو تمہے محبت نہیں یا پھر محبت پر یقین نہیں۔ ” وہ خالصتا اسے چوٹ کر گیا تھا۔
موسی بس خاموش رہا۔ بے بسی سے لب کاٹتا رہا ۔
“کیا اتنی کمزور ہے تمھاری محبت جو موت کو بھی مات نہیں دے سکتی۔ میں کچھ نہیں جانتا ۔ مجھے آج تم سے تمھاری مدد کرنے کا صلہ چاہیے اور وہ سیمل کا ساتھ نبھانا ہے ہمیشہ کے لیے میں نے وعدہ کیا تھا خود سے میں ہر حال میں تمہے اور سیمل کو ایک کر کے رہوں گا۔ تمھارا آپریشن ہو جائے گا۔ تم تھیک ہو جاو گے ۔ سب کچھ تھیک ہو جائے گا۔ تم دونوں ایک ہوجاو گے۔ بس اپنی ضد چھوڑ دو ”
” اور تمھاری ضد ۔ دوسروں کے بارے میں تو سوچتے ہو اپنے بارے میں کیا۔ ”
” اب اپنے بارے میں کچھ نہیں سوچنا چاہتا ۔ جہاں زندگی لے جائے وہیں چلا جاونگا۔” وہ اداسی سے بولا۔
” مجھے کہتے ہو جبکہ خود ناامیدی کی باتیں کرتے ہو۔ مان لی تمھاری بات۔ اب چاہے زندہ رہوں یا نہیں مجھے ہر حال میں سیمل اپنی زندگی میں چاہیے۔ میں مانتا ہوں اسے اس طرح چھوڑ کر آنا بہت غلط تھا۔ لیکن میں کیا کرتا ۔ میں ڈر گیا تھا۔ میں اسے ساری زندگی اپنے ساتھ رشتے میں قید نہیں کر سکتا تھا۔ اس طرح وہ آزاد تو ہوگی۔ ” وہ کوئی خدشہ بیان کر رہا تھا۔
” قید تو وہ اب بھی ہے۔ اسکی قید مزید نا بڑھاو۔ میں اسے سب کچھ بتا رہا ہوں۔ ” وہ فیصلہ کن انداز میں بولا۔
” تم کب رہا کر رہے ہو مایا کو قید سے۔” وہ اسکی بات الٹا اس پر دھہرا گیا۔
” وہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ ”
” نہیں ختم ہوا۔ مجھے تو بہت نصیحتیں کر رہے ہو۔ اپنے ساتھ کیوں ظلم کر رہے ہو۔ ایک غلطی تھی محض ۔ تمہے اس قدر ظالم نہیں ہونا چاہیے۔ اب تمھاری محبت کہاں گئی۔ محبت میں تو ناراضی نہیں ہوتی۔ کیا محبت معاف کر دینے کا نام نہیں ہے۔ کیا محبت در گزر کر دینے کا نام نہیں ہے۔ یوسف تم اسکے ساتھ خود کو بھی تکلیف دے رہے ہو۔ اسے بھی اور خود کو بھی رہا کرو اس قید سے۔”
” اور یہ ہی بات میں تمہے کہوں تو۔ ہم چاروں نے ہی ایک دوسرے کو قید میں ڈال رکھا ہے۔ ”
” مگر اب قید توڑنے کا وقت ہے۔ ” وہ کھڑا ہوا اور فریج تک آیا۔
” آج اس میں گھاس پھونس نہیں ہے۔ تمہے بھوک نہیں لگی کیا۔ ” وہ آبرو اچکا کر بولا تو یوسف ہلکے سے ہنس دیا۔
” ایک بار تمھارا آپریشن ہو جائے پھر کھل کر ٹریٹ لونگا تم سے۔ یاد رکھنا اور ٹریٹ لیے بنا چھوڑوں گا نہیں۔ اور پھر ہمیں داود کا انجام بھی تو سیلیبڑیت کرنا ہے ”
” مجھے اسکے لیے بہت دکھ ہو رہا ہے۔ آخر وہ کسی زمانے میں دوست تھا۔ وہ اچھا انسان ہو سکتا تھا مگر اسکے باپ نے اسے ایسا بنا دیا۔ ”
” سچ کہوں تو آج پہلی بار مجھے بھی اسکے لیے افسوس ہو رہا ہے مگر وہ حد پار کر چکا تھا۔ اسے سزا ملنی ہی تھی۔ اور وہ کونسا جیل میں رہے گا۔ کچھ دن میں باہر ہوگا اور تب کیا نئی قیامت آئے ۔کون جانے ” یوسف نے کندھے اچکائے
” ہوں۔وہ بدلہ ضرور لیگا۔ ”
” اچھا چھوڑو اسے ۔ ہم کیوں اسکا بارے میں سوچ رہیں ہیں۔ داود کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں کرنے کو ” یوسف بےزار سا ہوا۔
تو موسی نے بھی مزید زکر نہیں کیا۔
□□□
قسمت اسکے لیے کچھ اچھا چھپائے ضرور بیٹھی تھی مگر کچھ امتحان لے کر۔
اسے یوسف سے جیسے اصل بات کا معلوم ہے۔ وہ ہسپتال جانے کا اصرار کرنے لگی۔ یوسف اسے اپنے ساتھ لے آیا۔
وہ دونوں ہسپتال کی ایک راہ داری میں موجود تھے اس وقت۔ کوئی لمحہ ایسا نا تھا جب اسکے دل سے دعا نا نکل رہی تھی۔
” وہ آدمی مجھے دبوچے ہوئے تھا۔ تب وہاں موسی آیا اور مجھے چھڑوایا۔ بعد میں اس آدمی نے موسی پر الزام لگا دیا۔ سب اسے مارنا شروع ہو گئے۔ اسے تب ہی چوٹ لگی تھی۔ کسی نے یقین نہیں کیا تھا ۔ ” وہ بے خیالی سے بولے جارہی تھی۔
” وہ ماضی تھا بھول جاو اسے۔ آنے والے وقت کا سوچو صرف ” یوسف نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔
سیمل نے سر اثبات میں ہلا دیا ۔
” میں نے خود سے وعدہ کیا تھا اب کبھی نا امید نہیں ہونگی۔ ہمیشہ مثبت اور اچھی امید رکھوں گی۔ موسی تھیک ہو جائے گا۔ ہم دونوں مل کر ایک اچھی خوبصورت زندگی گزاریں گے۔ وہ زندگی جس کا میں نے خواب دیکھا تھا۔” وہ آخر میں مدھم سا مسکرائی۔ اسکی آنکھوں میں ڈھیر ساروں خوابوں کی چمک تھی۔
آپریشن کامیاب ہوا تھا ۔ یہ سیمل کی دعائیں اور محبت ہی تھی ۔
وہ آپریشن کا چوتھا روز تھا۔ آج وہ کچھ ہوش میں تھا۔ تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھا سامنے بیٹھے یوسف سے بات کر رہا تھا۔ تب دروازہ کھلا اور سیمل اندر آئی ۔ وہ روز آتی تھی یا وہیں رہتی تھی مگر وہ ہوش میں اسے آج دیکھ رہا تھا۔
وہ نرم سی مسکراہٹ لیے آگے آئی۔
” یوسف تمہے ڈاکٹر زاہد بولا رہیں ہیں۔ ” اسکے کہنے پر یوسف اٹھ کر باہر چلا گیا۔
” کیا سمجھا تم نے اتنی آسانی سے مجھ سے بچ سکتے ہو۔ ایسے مجھے چھوڑ کر چلے جاو گے ۔ تم حقیقت بھی بتا سکتے تھے ۔ کیا تمہے زرا اندازہ ہے میری تکیف کا۔ تمھاری خاطر میں نے گھر چھوڑ دیا۔ اور تم بس ایک انکار کیا اور چلے گئے ” وہ گلہ کر رہی تھی اور وہ بس اسے دیکھے جا رہا تھا۔
” تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا مجھے اسکیچ بنانا سکھا و گے۔ تم نے وعدہ کیا تھا تم ہمارے بنگلے کے لان میں لگے اس درخت کی چھاوں میں بیٹھ کر ڈھیر ساری باتیں کرینگے ۔ وہی درخت جو تم نے خود لگایا تھا۔ کیا یاد ہے تمہے ”
” مجھے سب یاد ہے۔ ہر وعدہ یاد ہے۔ ہر لمحا یاد ہے جو تمھارے بارے میں سوچ کر گزارا ہے ۔ ہر لمحا جو صرف تم سے محبت میں گزارا ۔ معلوم نہیں کیسے مگر تمھاری محبت آہستہ آہستہ مجھ پر سوار ہوتی گئی۔ اس روز یوں وہاں سے آجانا ۔ ایک ڈر تھا کہ تمہے اپنا بنا کر تمہے تنہا کیسے چھوڑوں گا۔ مگر اب لگتا ہے یہ زندگی تمھاری وجہ سے ہی دی گئی ہے۔ یہ زندگی اب تمھارے نام ہی کرنا چاہتا ہوں۔ میں تم سے کیا ہر وعدہ پورا کرنا چاہتا ہوں۔وہ بھی جو ابھی کرنے ہیں۔ ” وہ محبت اور خزب سے کہہ رہا تھا جبکہ سیمل ایک خوبصورت سے حصار میں خود کو محسوس کر رہی تھی۔
” ضرور میرے پاس لمبی لسٹ ہے۔ ایک ایک پورے کرواوں گی۔ اور ہاں جان نہیں چھوٹے گی تمھاری کسی صورت بھی۔ ”
” میں چھڑوانا بھی نہیں چاہتا ۔ ” وہ مسکراکر بولا تو سیمل بھی سر پیچھے پھینک کر ہنس دی۔ ایک دم سب خوبصورت اور حسین لگنے لگا تھا۔ اسنے دل سے خواہش کی تھی وہ لمحے کبھی ختم نا ہو ۔
□□□
دو ماہ بعد موسی اور سیمل کی شادی ہوگئی۔ اس روز سب خوش تھے۔ سب سے زیادہ سیمل خوش تھی۔
” اب تم بھی شادی کرلو۔ کب تک خود ہی کھانا بناتے رہو گے۔ ” وہ چھیڑنے والے انداز میں بولی۔
” ہاں سوچ رہا ہوں۔ خوب خاطر مدارت کرواوں اب اپنی۔ ” یوسف بھی مزاح میں بولا۔
” تو دیر کس بات کی ہے۔ جاو جاکر مایا کو پرپوز کرو ۔”
” کیا میں جاوں ۔” اسنے آبرو اچکائے۔
” تم نے کہا تھا میں تمھاری مدد کروں گہ تو مجھے بھی میری محبت مل جائے گی۔ مجھے مل گئی اب تمھاری مدد کرنی ہے۔ ” وہ کہتے ساتھ اٹھی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر لان میں آئی ۔
” ابا آپ سے ایک بات کرنی تھی۔ ”
کمال صاحب جو کہ اپنے پولیس ڈیپاڑٹمنٹ کے لوگوں کے ساتھ مصروف تھے اسکی طرف پلٹے۔
” کہو کیا بات ہے ” انکے لہجے میں خدشہ تھا۔
” آپ مولوی صاحب سے کہہ کر نکاح پڑھوا دیں۔ ” ابا اور یوسف دونوں نے حیرت سے دیکھا۔
” مگر کس کا۔۔”
” میرے دو سب سے اچھے دوستوں کا۔ دلہا یہ ہے ۔ دلہن کو لیکر آتی ہوں۔” وہ تیزی سے اندر کی طرف بڑھی۔
یوسف اسے آوازیں دیتا رہ گیا مگر وہ رکی نہیں ۔
” چلو میرے ساتھ۔ ”
مایا کا ہاتھ تھامتے وہ تیزی سے بولی۔
” مگر کہاں ” وہ الجھ سی گئی۔
” سوال نہیں۔ بس مولوی صاحب کچھ پوچھیں تو کہنا ۔ ‘ قبول ہے ‘ ” ۔ مایا نے ایک دم اس سے ہاتھ چھڑوائے تھے۔
” یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ ”
” میں نے وعدہ کیا تھا ۔ بس وہ پورا کر رہی ہوں ۔ چلو سب انتظارکر رہے ہیں۔
بڑی مشکل سے یوسف کو راضی کیا ہے۔ اب تم نخرے نا دیکھاو۔ ”
” اور اگر اس نے انکار کر دیا تو۔ ” وہ خوف زدہ سی بولی۔
” نہیں کرے گا۔ ” سیمل نے تسلی دی۔
وہ لان میں کھڑا بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا جب موسی قریب آیا۔
” کیا بات ہے ۔ پریشان کیوں ہو۔ ”
” تمھاری بیگم زبردستی کر رہی ہے میرے ساتھ۔ میری مرضی کے بنا میرا نکاح کروا رہی ہے۔ اسے کچھ سمجھاو ”
” اچھا کر رہی ہے۔ تم نے تو ضد چھوڑنی نہیں ۔ اور ہاں جب مولوی کچھ پوچھے تو کہنا ‘ قبول ہے۔ ” وہ ہنسی دبا کر بولا تو یوسف نے حیرت بھرے غصے سے اسے دیکھا پھر ہنس کر سر جھٹک دیا۔
” تم دونوں ملے ہوئے ہو۔ ”
” ہاں ظاہر ہے ہم الگ تھوڑی ہیں۔ ” کہہ کر وہ سامنے دیکھنے لگا جہاں سیمل مایا کو لیکر آرہی تھی۔
” میں یہ شادی نہیں کر سکتا ”
” تم پھر ضد کر رہے ہو۔ معاف بھی کردو اب اسے ” اب کی بار موسی نے اسے گھورا۔
” تم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں سیمل کو اپناوں اور اسے کبھی نا چھوڑوں۔ اب میں بھی تم سے وہی کہہ رہا ہوں۔ میں نے اپنی بات پوری کرلی ہے۔ اب تمھاری باری ہے۔ ”
” تھیک ہے۔ ” بل آخر وہ گہری سانس لیکر بولا۔
” مگر یہاں میری فیملی سے کوئی نہیں ہے۔ میں انکے بنا ۔۔۔۔” وہ کہہ رہا تھا جب ایک بھاری آواز اسکے کانوں میں پڑی ۔
” میں نے اس لیے تمہے گھر سے نہیں نکالا تھا کہ ہمیں بتائے بغیر شادی کرو۔” سامنے سے سکندر اور شہانہ چلتے ہوئے آرہے تھے۔ وہ انہیں اچانک وہاں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔
” اگر سیمل ہمیں نا بتاتی تو تم شادی کر لیتے۔ ” شہانہ قریب آئیں۔ مصنوئی خفگی سے کہنے لگیں۔
” آپ کے بغیر کیسے کر سکتا ہوں۔ میں موسی سے یہ ہی کہہ رہا تھا ابھی۔ ” یوسف نے شہانہ کا کندھا تھاما۔
” دلہا ہے۔ دلہن ہے۔ گھر والے ہیں ۔ مہمان ہیں ۔ مولوی صاحب ہیں۔ اب دیر کس بات کی۔ یا کسی کو اعتراض ہے۔ ” سیمل نے سوالیہ نظریں سب کی طرف اٹھائیں۔
” مجھے ہے۔ ” وہ جان بوجھ کر بولا اور مایا کا تو دل ہی دہل گیا۔ وہ معاف کر چکا تھا۔
” تم چپ کرو ۔ تم دلہے ہو ۔ میں نے باقی سب سے پوچھا ہے۔ ” سیمل نے باقاعدہ اسے ڈپٹا ۔
” آپ کی بیگم کیسے ڈانٹ رہیں ہیں مجھے۔ ” یوسف نے شکایتی انداز میں موسی کو دیکھا۔
” میری بیگم بعد میں تمھاری دوست پہلے ہے ۔ اب تو سالی بھی بن جائے گی۔ اور میں سالی بہنوئی کے بیچ میں نہیں پڑھ رہا ” موسی نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا دیے۔
” تم میرے دوست ہو یار۔ ” اسنے منہ بنایا
” پر آج میں اپنی بیگم کی سائڈ پر ہوں۔” موسی کہہ کر سیمل کے ساتھ جا کر کھڑا ہوگیا۔
“مولوی صاحب نکاح پڑھانا شروع کریں۔۔۔۔”
اس دن وہاں دو جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے تھے۔
□□□
چار سال بعد۔۔۔۔۔
داود نے ایک تجربے کار وکیل کرکے اپنی ضمانت کروالی تھی۔ باہر آنے کے بعد
اسکا پہلا مقصد بیٹے کی کسٹیڈی اپنے ہاتھ میں لینا تھی۔
اسنے رامین کو ملنے بلوایا تا کہ اس پر دباو ڈال کر رامین کا فیصلہ تبدیل کروا سکے۔
” میں یہاں تمھاری سن نے نہیں آئی۔ ” وہ داود کی سنے بغیر اپنی کہنے لگی۔ آج رامین نے اپنی ہی کہنی تھی۔
” اور میں تمھاری نوکر نہیں ہوں جو تمھاری ہر بات مانوں۔ آج رامین داود اپنے ساتھ کی گئی تمام زیادتیوں کا بدلہ لینے آئی ہے ” وہ بولی تو لہجا ٹھوس تھا۔
” کیا کرلو گی تم ۔ ہاں۔ اوقات ہی کیا ہے تمھاری میرے سامنے۔ ” وہ لفظ چبا کر اسکے چہرے پر آنکھیں گاڑھ کر بولا۔
” میں کیا کرسکتی ہوں۔ خود دیکھ لو۔ اور جو کروں گی تمھارے سامنے ہی کرونگی۔ عائشہ نے اچھا کیا تھا تم سے رشتہ ٹوڑ کر۔ اگر تمھاری اصلیت مجھے معلوم ہوتی تو کبھی تم سے شادی نہیں کرتی۔ ” وہ افسوس سے نفی میں سر ہلا گئی۔
” بکواس بند کرو اپنی۔ ” وہ ڈھاڑا تھا۔
” تم بھی اپنی بکواس بند کرو۔ ” وہ اسکے انداز میں چلائی ۔
” آج میں تمھارا کھیل تمھارے ساتھ ہی کھیلنے آئی ہوں۔ یقین کرو پہلے بہت تکلیف ہو رہی تھی مگر اب زرا بھی دکھ نہیں ہو رہا۔ یہ ہی کرتے ہو نا تم جو راستے میں آئے اسے راستے سے ہٹا دو۔ تم میرے اور میرے بیٹے کے راستے میں آ رہے ہو اور آج میں تمہے راستے سے ہٹانے آئی ہوں۔ ” رامین نے نفرت آمیز لہجے میں کہہ کر اپنے بیگ سے ایک گن نکالی اور داود پر تانی۔
” مزاق بند کرو ۔ اسے واپس رکھو ۔ ” وہ شکڈ سا کہنے لگا۔
” میں مزاق نہیں کر رہی ۔اور تم سے تو بلکل بھی نہیں۔ ” وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
” تم گولی نہیں چلاو گی۔ ہم بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں۔” داود کے لہجے مئں خوف کی رمق تھی۔
” ڈر لگ رہا ہے۔ موت کی تکلیف سے ۔ وہ لوگ جن کو تم نے مارا ۔ وہ بھی ایسے ڈرے ہونگے ۔ تم نے رہم کیا۔ نہیں ۔ تو تم پر کیوں کیا جائے۔ آج رامین ان سب کی موت کا بدلہ تم سے لے رہی ہے۔ اور موت کا بدلہ موت ہوتی ہے۔ قانون تمہے معاف کردے مگر میں نہیں کرونگی۔ ” ڈھیر سارے آنسو اندر ہی دبا کر بولی اور اگلے ہی لمحے اسنے ٹریگر دبا دیا۔
پہلی مرتبہ ( عائشہ کا وجود داود کے سامنے ٹرپ کر زمین پر گرا )
دوسری مرتبہ( عائشہ کے زمیں بوس وجود نے زور دار جھٹکا کھایا۔)
اور پھر وہ رکے بغیر گولیاں چلاتی گئی۔ یہاں تک کہ داود کے وجود میں زندگی کی رمق تک نا رہی۔ گولی کہاں لگی کہاں نہیں لگی۔ اس نہیں معلوم تھا۔
رامین نے گن ایک طرف پھینکی اور دو زانوں زمین پر بیٹھی۔ ایک افسوس بھری نگاہ داود کے خون آلود وجود پر ڈالی تھی۔
وہ جو کہتا تھا وہ نہیں ہار سکتا ۔ وہ ہار گیا تھا۔ جسے اپنے آپ پر غرور تھا ۔ آج وہ غرور مٹی میں مل گیا تھا۔ آج داود حمدانی اپنے انجام کو پہنچا تھا وہ بھی اس کے ہاتھوں جسے وہ بیوی تو کیا شاید ملازمہ بھی نہیں سمجھتا تھا۔
وہ کتنی دیر دھندلائی آنکھوں کے ساتھ وہاں بیٹھی رہی پھر جانی کا خیال آنے پر اٹھ گئی۔ اپنے سابقہ شوہر کی موت پر اتنا افسوس کافی تھا اور اگر وہ داود جیسا ہو تو یقینا ۔
□□□
” تم آج پھر آگئی۔ ” وہ سب لانج میں بیٹھے تھے جب سیمل داود کا انجام بتا رہی تھی کہ دروازہ کھولتا لانج میں حمین خہانگیر داخل ہوا۔ اسکی مجاطب محلہ سکندر تھی۔
” تمہے کوئی تکلیف ہے۔ میں تمھارے پاس نہیں آئی ” محلہ نے منہ چھڑایا۔
” تم میرے گھر میں ہو ۔ ” وہ دونوں ہاتھ پہلو پر جمائے اسکے سامنے آکر کھڑا ہوا۔
” یہ تمھارا نہیں آنو کا گھر ہے اور میں جب چاہوں یہاں آسکتی ہوں۔ ” وہ بھی اسی کی طرح ہاتھ پہلو ہر جما کر بولی ۔
” تم روز آو شوق سے آو ۔ مگر میرے سامنے نہیں آو ۔ ” حامین نے شرط رکھی۔
” آونگی روز آونگی اور تمھارے سامنے آونگی۔ روک سکتے ہو تو روک لو۔ ” محلہ سراسر اسے چیلنج دے رہی تھی۔ اسکی نیلی آنکھیں شرارت سے بھری ہوئیں تھیں۔
” تم غلط پنگا لے رہی ہو۔ ” وہ انگلی اٹھا کر تنبیہ کر گیا۔
” محلہ یوسف سکندر کو پنگے لینے کی عادت ہے۔ مزا آئے گا ” وہ نادیدی گرد کندھے سے جھاڑتے ہوئے بولی۔
دونوں کی تو تو میں میں شروع ہوچکی تھی اور سب کے لیے یہ عام بات تھی سو کسی نے غور نہیں کیا۔
” سنی ابھی تک آیا نہیں ۔ اروشے فون کرو۔ ” سیمل کو فکر ستائی تو اروشے سے کہا۔
” ماما ۔ فکر نا کریں۔ کسی کو پیٹ رہیں ہونگے ” اروشے ہنسی دبا کر بولی۔
” وہ ہوتھوں سے پیٹتے ہیں اور کنول زبان سے۔ ” اروشے کی بات پر کنول دھیرے سے ہنس دی۔ آج اسکے وجود پر ایک گہرا سکون اترا تھا۔ اسکی ماں کا قاتل اپنے انجام کو پہنچا تھا۔ اپنے باپ کی طرح اسنے بھی وکالت میں قدم رکھا تھا اور آج پروسیکیوٹر کنول شجاعت کے نام سے جانی جاتی تھی۔
تھانے کا ایک منظر ۔۔۔۔
وہ تفتیشی کمرا تھا۔ درمیان میں رکھی کرسی پر ایک آدمی بیٹھا تھا۔ اسکے سر سے خون بہہ رہا تھا۔
” تم نے زبان نا کھولی تو اگلی بار فرشتوں کے سامنے کھولو گے۔ ” سلمان کمال ( سنی ) تیز کرخت آواز میں بولتا اس آدمی کے چہرے پر ایک تھپر دھڑ گیا۔ وہ چھ فٹ چار انچ قد کے ساتھ مضبوط اور چوڑے جسم کا مالک تھا۔ اسکے ایک تھپر سے ہی وہ آدمی ہل کر رہ گیا۔ دوسرا اٹھنے سے پہلے ہی وہ آدمی فر فر بولنے لگا
□□□
وہ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک بزنس پاڑتی تھی۔ اسکا میزبان موسی جہانگیر اور یوسف سکندر تھا۔ پچھلے سالوں میں دونوں نے مل کر کاروبار شروع کیا تھا اور آج کاروبار کی دنیا میں ایک نام بنا لیا تھا۔ شہر کی بڑی کاروباری شخصیت اس پارتی میں مدعو تھیں۔
کنول بلیک کلر کی ساڑھی ڈالے ایک طرف کھڑی تھی جب سامنے سے سنی چلتا آیا۔ وہ بار بار جوڑے میں سے نکلی ایک لٹ انگلی پر لپیٹ رہی تھی۔
وہ بلیک سوٹ میں ملبوس تھا مگر عادت کے مطابق کوٹ اتار رکھا تھا۔ صرف ویسٹ کوٹ پہنے شڑت کے بازوں کہنیوں کے اوپر تک موڑ رکھے تھے۔ وہ قدم قدم چلتا کنول کے پاس آیا۔
” کیسی لگ رہی ہوں ” کنول نے اسکے چہرے پر نظریں جمائے پوچھا ۔
” ڈائن ” وہ اسکے کان کے پاس ہوکر سرگوشی میں بولا۔ کنول کی لٹ گھماتی انگلی ایک لمحے کو رکی ۔ پھر وہ بھی اسی کی طرح سرگوشی میں بولی۔
” اور تم ڈیول ( devil)۔” اور آگے بڑھ گئی۔
ایک طرف موسی اور یوسف کاروباری ساتھیوں کے ساتھ کھڑے تھے تو دوسری طرف مایا اور سیمل خواتین سے گھڑہیں تھیں۔
محلہ سکندر بہت دیر سے سیمل کو کسی عورت سے ہنس کر باتیں کرتا دیکھ رہی تھی جب وہ بولی۔
” آنی پیچ کلر میں کتنی پیاری لگ رہیں ہیں ۔ ”
” وہ ہمیشہ ہی پیاری لگتی ہیں۔ نظر نا لگا دینا ” نا معلوم کہاں سے حمین جہانگیر وہاں آگیا۔
” بس اسی بات کا دکھ ہے ۔ وہ اتنی پیاری ہیں پر پتا نہیں تم جیسا کوجا کیوں پیدا ہوگیا ” وہ ہنسی دباتی آنکھیں ٹمٹما کر بولی۔
” کوجا کس کو کہہ رہی ہو۔ اتنی لڑکیاں مرتیں ہیں مجھ پر۔ ” حمین نے کالر جھاڑے۔
” بیچاری لڑکیاں ۔ تم پر جو بھی مرے مگر تم صرف مجھ پر مرو ” آنکھ دبا کر کہتی وہ آگے چلی گئی جبکہ حمین وہیں کھڑا حیرت سے دیکھنے لگا پھر سر جھٹک کر ہنس دیا۔
” ابھی بھی نہیں آنا تھا ۔ کیوں آئے ہو۔ ” اروشے اپنا منہ دوسری طرف کرتے بولی
” سوری نا۔ راستے میں بہت ٹریفک تھا۔ ” اسمائیل داود نے باقاعدہ کان پکڑے۔ وہ صورت میں تو باپ جیسا تھا مگر سیرت میں نہیں۔
رامین اسے لیکر موسی کے کہنے پر پشاور آ گئی تھی۔
” تھیک ہے۔ ” وہ فورا مان گئی۔ اروشے جہانگیر اسمائیل داود ( جانی ) سے کم ہی ناراض ہوتی تھی۔
کسی کی آواز پڑھنے پر وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔
فوٹو گرفر ایک فیملی فوٹو کے لیے سب کو ساتھ کھڑا ہونے کو کہہ رہا تھا۔ سب کھڑے ہوگئے تو تصویر کھینچی گئی۔
وہ تصویر بعد میں یادوں کی البیم میں لگنی تھی۔ وہ تصویر جو مسکرا رہی تھی۔
وہ سیمل کا شجر حیات تھا اور اسکی ہر ایک ڈالی ہر ایک پتا اسے بہت عزیز اور پیارا تھا۔
□□□
The end۔۔