نذیر فتح پوری کہنہ مشق قلم کار ہیں۔شاعری ہو یا نثرنگاری،نذیر فتح پوری ایک پُر گو تخلیق کاردکھائی دیتے ہیں۔۱۶ دسمبر۲۰۱۴ء کو پشاور؍پاکستان کے ایک اسکول میں طالبان دہشت گردوں کا ہولناک حملہ ہواتو دنیا بھر میں اس انسانیت سوزوحشیانہ کاروائی کی ہولناکی کو شدت سے محسوس کیا گیا۔دنیا بھر کے میڈیا نے اس سانحہ کی کوریج کی اورطالبان دہشت گردوں کی پُر زور مذمت بھی کی۔
انڈیا اور پاکستان کے تعلقات ایک طویل عرصہ سے لاگ اور لگاؤ کے درمیان جھول رہے ہیں۔تاہم ان دنوں میں دونوں طرف تناؤ میں شدت آئی ہوئی تھی۔تناؤ کے اس عالم میں بھی سانحۂ پشاور کے بارے میں انڈین میڈیا نے اپنے دکھ کا برملا اظہار کیا۔ہندوستانی معاشرہ کے ہر طبقہ نے اپنے رنج و غم اور ہمدردی کا اظہار کیا۔
نذیر فتح پوری چونکہ بنیادی طور پر شاعر اور ادیب ہیں،اس لیے انہوں نے ایک ہندوستانی ادیب ہونے کے ناطے اپنے حصے کا چراغ جلانے کی کاوش کی ہے۔اس مختصر سے مجموعہ میں انہوں نے چند کہانیوں ؍واقعات کی صورت میں سانحۂ پشاور کے بارے میںاپنا دکھ بیان کرنے کی مخلصانہ کاوش کی ہے۔اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے انہوں نے ایک حد تک ہندوستان کے مختلف سماجی گروہوں کے دکھ کی ترجمانی بھی کی ہے۔ان تمام کہانیوں کے لیے بنیادی مواد سانحۂ پشاور کی خبروں سے لیا گیا ہے۔اس لحاظ سے یہ کہانیاں خبروں کے تناظر میں بھی اور ہنگامی ردِ عمل کی صورت میں بھی مثبت صحافیانہ اقدار کی ترجمانی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
مجھے امید ہے کہ ادب و صحافت کے حوالے سے نذیر فتح پوری کی اس مخلصانہ کاوش کو سراہا جائے گااور پشاور اسکول میں معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی طالبان دہشت گردوں کی بربریت کی ہر سطح پر مذمت کی جاتی رہے گی۔یہی نذیر فتح پوری کی اس کاوش کی کامیابی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(کتاب میں درج تاثرات)