پشاور کے پوش علاقے میں موجود وہ کمال صاحب کا خاندانی گھر تھا ۔ اسی گھر میں کمال صاحب اور فرزانہ کی شادی ہوئی تھی۔ اسی گھر میں سیمل پیدا ہوئی تھی۔ اسی گھر میں اس نے اپنی ماں کو بیماری کے ہاتھوں کھویا تھا۔ اسی گھر میں وہ گل رخ سے ملی تھی ۔اسی گھر میں وہ پہلی بار اپنے ماموں کے بیٹے موسی جہانگیر سے ملی تھی۔ اسی گھر میں سنی جیسا پیارا بھائی ملا تھا۔ سیمل کی زندگی میں لوگوں کا آنا اور جانا اسی گھر سے شروع ہوا تھا۔ وہ گھر سیمل کے لیے بہت سی اچھی اور بہت سی بری یادیں لیے ہوئے تھا۔
اس وقت وہ کھڑکھی کے ساتھ رکھی راکنگ چیئر پر بیٹھی تھی ۔ لائٹ بلیو کلر کے سوٹ میں ملبوس۔ آنکھوں پر ریڈنگ گلاسز لگائے ہوئے۔ سامنے ایک ایلبم رکھا تھا۔ وہ ایلبم اسکی زندگی کے بہت سے سالوں کی عکاسی کرتا تھا۔ وہ خشمگیں آنکھوں کے ساتھ ایک ایک صفحہ پلٹ رہی تھی۔
بچپن ، لڑکھپن اور جوانی۔زندگی کے نشیب و فراز اور پیچ و خم۔
وہ کئی کئی دیر تک ایک ایک تصویر کو دیکھتی رہتی پھر وہ ایک تصویر پر آکر رکی ۔ تصویر میں وہ بلیک میکسی میں موجود تھی۔ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ وہ اپنی گود میں اٹھائے بچے کا ہاتھ پکڑے کیک کاٹ رہی تھی۔ اسکے چہرے پر سکون تھا۔
” کیا دیکھ رہی ہیں آنی ۔ مجھے بھی دکھائیں ” وہ نسوانی دل موہ لینے والی آواز اسکے پاس گونجی تو وہ چونک چونک گئی۔
“بس کچھ پرانی یادیں ” ایلبم بند کرتے ہوئے گہری سانس لے کر گویا ہوئی۔
” یہ ہنی ہے نا ۔ کتنا کیوٹ تھا بچپن میں ۔” لڑکی نے ایک دم سے سیمل کے ہاتھ سے ایلبم لیا۔ اب وہ بہت غور سے تصویر دکھنے میں مشغول تھی۔
” اب بھی ہے پر میرے جتنا نہیں ہے ” وہ کنھکتی ہوئی آواز میں اتراتے ہوئے بولی۔
سیمل اسکے انداز پر اپنی ہنسی نا روک سکی ۔
” آپ کتنی پیاری ہوتی تھیں ” تھوڑا گربرائی۔ ” آئی مین اب بھی ہیں ” ۔ دانتوں تلے زبان دبائی۔ بلکل اپنے باپ جیسا انداز ۔ وہ اپنے باپ کی فوٹو کاپی تھی۔
” آنی آپ پلز بتائیں نا اپنے بچپن کی باتیں ۔ آپ اور آنو کہاں ملے۔ سب کچھ” وہ ایسے پیار بھرے انداز میں منت کرتے ہوئے سیمل کو چھوٹی بچی لگی تھی نا کہ مشہور فیشن ماڈل ۔ سیمل ہمیشہ اس میں اپنا عکس دیکھتی تھی۔
” تمھارا کوئی شو نہیں ہے آج ” سیمل نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
” نہیں آج نہیں ہے۔ اسی لیے آج کی ساری شام آپکے اور آپکی مزیدار کہانی کے نام ۔ ” وہ سیمل کے سامنے فلور کشن پر بیٹھی اپنے پروگرام سے اطلاع کیا۔ ( مزیدار !کیا واقعی؟ سیمل نے یاسیست سے سوچا)۔
” کیسی کہانی” اندر آتے ہوئے آشو نے پوچھا جو ان کی باتیں سن چکی تھی۔
” اپنی اور آنو کی کہانی۔ ” وہ خوبصورت آواز والی لڑکی دلچسپی سے بولی۔
” وہ کہانی جس کا میں بھی چھوٹا سا حصہ ہوں ” ۔ کنول کورٹ سے آتے ہی سیدھا لانج میں باتوں کی آوآز سن کر آئی تھی۔ بلیک کوٹ باذوں پر ڈالے ۔ گولڈن براون بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے وہ تبصرہ سا کرتے ہوئے بولی۔
” اگر ایسا ہے تو میں ضرور سننا چاہوں گی ۔ ” کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر آئی تھی۔ سیمل حیران تھی کہ وہ کوڑٹ سے آنے کے بعد زیادہ دیر کمرے
میں ہی رہتی تھی۔ وہ بات بھی بہت کم کیا کرتی تھی مگر آج وہ مزاج کے بر خلاف لگی تھی۔
” آنی شروع کریں نا”
” ہاں” وہ ایک دم خیال سے چونکی
” میری کہانی تب سے شروع ہوتی ہے جب میں دس سال کی تھی۔ اس دن پہلی بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
□□□
سترہ سالہ موسی جہانگیر نے جھجھکتے ہوئے اپنی چھوٹی پھوپھو فرزانہ کے گھر کا دروازہ بجایا تھا۔
دادا کے گھر سے ناہید کا گھر وہاں سے بورڈنگ اور بورڈنگ سے فرزانہ کا گھر۔
وہ اپنے آپ کو بنجارہ نا کہتا تو اور کیا کہتا۔
” کون ” وہ آواز دنیا جہاں کی معصومیت سموئے ہوئے دریافت کر رہی تھی۔ دروازہ نہیں کھلا تھا بس دروازے میں لگی چھوٹی سی کھڑکھی کھلی اور دو سیاہ آنکھیں نمودار ہوئیں۔
” مم۔ میں ۔ ! موسی ” وہ ناجانے کیوں گربرا گیا۔
یہ احساس کے اب وہ اپنی پھوپھو کے پیسوں پر پلے گا اسے شرمندہ سا کر رہا تھا۔ لیکن وہ سوچ کر آیا تھا پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرے گا ۔ اپنے اخرجات خود اٹھائے گا۔
” ماما گھر پر نہیں ہیں ” اطلاع دی گئی۔
” میرے آنے کا پتا تھا انہیں ۔ وہ تمہے بتا کر نہیں گئی” وہ حیرت سے بولا۔
” ماما کہہ کر گئیں ہیں انکی غیر موجودگی میں دروازہ نا کھولوں ۔وہ کچھ دیر میں آجائیں گیں ۔ ” پھر سے اطلاع کی گئی۔
“اچھا ٹھیک ہے ” بچی کا انداز یہ بتانے کے لیے کافی تھا وہ کبھی کبھی دروازہ نہیں کھولے گی ۔
موسی نے ایک بار آسمان کی طرف دیکھا ۔ سورج آج خوب موڈ میں تھا۔ پھر دروازے کو جو فل وقت اسکے لیے کھل نہیں سکتا تھا۔
وہ اپنے سفری بیگ کے ساتھ وہیں بیٹھ گیا۔ پہلے ہی اتنا پیدل چلا تھا۔ اور اوپر سے دروازہ نا کھولنے کی ضد۔
” موسی تم یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ ” فرزانہ سامنے سے ہاتھ میں سامان کا بیگ اٹھائے چلی آرہی تھیں ۔ اسے دیکھ کر حیرت سے بولیں۔
” آپ کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ آپ کے بغیر یہ دروازہ نہیں کھلنا تھا ۔” موسی نے کندھے اچکائے۔ وہ پونے گھنٹے سے دھوپ میں بیٹھا تھا ۔ اسے معلوم تھا اسکی پھوپھو زاد کزن دروزے کی کھڑکھی سے مسلسل اسے دھوپ میں تپتا دیکھ رہی ہے پر دروازہ نہیں کھول رہی تھی۔ وہ اپنی ضد کی پکی تھی۔
” ارے میں بلکل بھول گئی ۔نہیں تو سیمل کو کہہ کر جاتی ۔ سوری بیٹا ۔ پر اسے بھی تو عقل ہونی چاہیے نا ۔ یہ نا سمجھ ہے ” فرزانہ نے موسی سے معزرت کے ساتھ سیمل کو بھی جھڑکا ۔
” کوئی بات نہیں پھوپھو ۔ اچھا کیا جو دروازہ نہیں کھولا ۔ کوئی چور وغیرہ بھی گھس سکتا تھا۔ ” موسی نے کہتے ہوئے سیمل کو دیکھا جو آنکھیں چھوٹی کیے اسے تکنے میں مصروف تھی۔
وہ سیمل کمال کو پسند نہیں آیا تھا ۔ یہ بات تو طے تھی۔
” کالج وغیرہ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ کب تک ایڈمیمیشن لینا ہے ؟ ” شام کو کمال صاحب کھانے کے بعد موسی کو لیکر لان میں بیٹھے تھے ۔ وہ آگے کے بارے میں سارے معملات آج ہی طے کرنا چاہتے تھے۔
” کچھ دن میں رزلٹ آجائے گا پھر میرٹ کے مطابق ۔ امید تو ہے اچھا میرٹ آئے۔ ” وہ پر امید لگ رہا تھا ۔
” انشاء اللہ بہترین نتیجہ آئے گا ”
” انکل مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی۔ ” آج ہی وہ کام والی بات بھی کرلے تو اچھا ہے۔
” ہاں کہو میں سن رہا ہوں ” کمال صاحب متوجہ ہوئے۔
” شام کے ٹائم میں فری ہونگا تو سوچ رہا ہوں کہ کوئی کام وغیرہ کرلوں ”
” لیکن تمہے ضرورت کیا ہے کام کرنے کی ۔ تم صرف پڑھائی پر دھیان دو ” کمال صاحب کو گویا اسکی بات پسند نہیں آئی تھی۔
” پڑھائی کے ساتھ ہنر بھی ہاتھ آئے تو۔ اور کام میں اپنی مرضی سے کرنا چاہتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں اپنی فیس خود دوں ۔ ” وہ آگے ہوکر بیٹھا زور دیتے ہوئے بولا
” ٹھیک ہے برخوردار جیسی تمھاری مرضی۔ ورنہ تمھاری پھوپھو ناراض ہو جائیں گیں ۔ کہیں گیں لڑکے کی بات نہیں مان رہے آپ ۔بن ماں باپ کا بچہ ہے۔ ” کمال صاحب کہتے ہوئے اٹھ گئے مگر موسی اپنی جگہ خاموش بیٹھا رہ گیا ۔
□□□
موسی کا رزلٹ آ چکا تھا۔ بورڈ میں ٹاپ کیا تھا اسنے۔ کالج کا ایڈیمیشن بھی ہو چکا تھا۔ شام کے ٹائم ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کی نوکری بھی کرلی تھی۔۔
اس دن وہ کالج سے واپس آیا تو فرزانہ نے اسے ایک گلاس جوس کے پکرایا۔
” موسی یہ زرا سیمل کو پکرادو ۔ صبح سے کمرے میں بیٹھی ہے کوئی آرٹ پروجیکٹ ہے سکول کا ۔ اسے تو نا کھانے کی حوش ہے نا کسی اور چیز کی۔” فرزانہ شامی کباب تلتے ہوئے بولی تھیں۔
وہ جب جوس لیکر اسکے کمرے میں پہنچا تھا تبھی دروازے میں پڑی کسی چیز سے اسکا پاوں ٹکرایا ۔ ہاتھ سے گلاس اچھلا اور جوس سیدھا سٹیدی ٹیبل پر بیٹھی سیمل کے سامنے رکھے چارٹ پر جا گرا ۔
” ماماااااااااااا” وہ اتنی ہی تیزی سے اچھلی تھی۔
” اوہ آئی ایم سو سوری ” وہ ہق دق سا بولا۔
” کیا ہوگیا بیٹا ” فرزانہ ایک دم اسکی چیخ پر بھاگی ہوئی آئیں ۔
” موسی نے ۔۔ماما موسی نے ۔۔۔ جوس گرادیا اس پر ۔ اتنی محنت سے ڈرائنگ کی تھی میں نے۔۔۔۔ ۔ اس نے خراب کر دیا۔ ” وہ ہچکیوں کے درمیان بول رہی تھی۔ معصوم بچی جس کے لیے شاید وہ آرٹ ہی سب کچھ تھا ۔
” تو کوئی بات نہیں بیٹا ۔ دوبارہ بنا لو۔” فرزانہ نے اسے سمجھایا ۔” اور موسی نے جان بوجھ کر نہیں کیا ہوگا ایسا ۔”
” میں نے واقعی جان بوجھ کر نہیں کیا ۔” وہ ایک دم اپنی صفائی میں بولا تھا۔ روتی ہوئی وہ لڑکی اس کا دل دکھا رہی تھی۔ نا جانے کیوں۔
” تم نے کیا ہے ۔ جان بوجھ کر کیا ہے ۔۔۔ تم بہت برے ہو ۔ ۔۔۔ آئی ہیٹ یو ۔۔آئی ہیٹ یو ۔۔۔۔”
وہ جو منہ میں آیا بولتی گئی پھر دروازے میں کھڑے موسی کو دکھا دے کر اوپر چھت پر بھاگ گئی ۔ وہ جب بھی ناراض ہوتی چھٹ پر جاکر بیٹھ جاتی تھی۔
” یہ لڑکی ۔دیکھو زرا سی بات ہوئی ہے اور کیسے رو رہی ہے۔ کیا بنے گا اسکی۔ ” فرزانہ افسوس سے بولیں تھیں۔
” اور تم اسکی باتوں کا برا نا ماننا ۔ چھوٹی ہے ۔ ” وہ شرمندہ سی لگتی تھیں۔
” نہیں پھوپھو۔ غلطی میری بھی ہے ۔ مجھے دھیان کرنا چاہیے تھا۔ “وہ شرمندہ سا تھا۔
سیمل کافی دیر تک چھت پر بیٹھی رہی۔ تیز دھوپ میں پسینے سے شرابور مگر اسے تو صرف اپنی محنت کے ضیاع ہونے کا دکھ تھا۔
خوب رو رو کر جب تھک گئی تو لٹکے ہوئے منہ کے ساتھ نیچے آئی ۔بے دلی سے کمرے میں گئی۔ سٹیڈی ٹیبل کے پاس اس ارادے سے آئی کہ خراب ہوئی ڈرائنگ کو اٹھا کر پھینکے اور نئی بنائے مگر اسکے سامنے تو کچھ اور ہی تھا۔ وہ اسکی اپنی ڈرائنگ تھی مگر بہت تبدیل ہو چکی تھی ۔ گڑیا جو اسنے بنائی تھی وہ ہنستی ہوئی تھی مگر اب وہ اداس لگ رہی تھی۔ روشنی اب اندھیرے میں بدل چکی تھی۔ ہلکے کھلے ہوئے رنگ گہرے رنگوں میں بدل چکے تھے۔ ایک اداس لڑکی اندھیرے میں بیٹھی تھی ۔ وہ بہت بکھری اور ٹوٹی ہوئی لگتی تھی۔
پینٹنگ کو تھیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر اسکے اجلے رنگ برقرار نہیں رہ سکے تھے۔
سیمل کے چہرے پر پہلے تو تعجب آیا پھر مسکراہٹ ۔
وہ بھاگی ہوئی فرزانہ کے پاس گئی ۔
” ماما آپ نے تھیک کی میری پینٹنگ ۔ وہ بہت اچھی ہوگئی ہے ۔ تھینکیو ماما۔ ” وہ خوشی سے فرزانہ کو لپٹ گئی۔
[ ] ” بیٹا شکریہ مجھے نہیں موسی کو بولو۔ اسنے تھیک کی ہے ۔ تمھاری پینٹنگ کے چکر میں اسنے کچھ کھایا پیا بھی نہیں ۔ ریسٹورنٹ سے بھی اسے دیر ہوگئی ۔” فرزانہ نے اسے حقیقت بتائی تو اسکا منہ تھوڑا سا لٹکا۔
[ ] “اور تمہے ایسے بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وہ تم سے بڑا ہے۔ کزن ہے تمھارا ۔” فرزانہ نارضی اور غصے سے بولی تھیں
[ ] ” سوری ماما ۔” وہ آنکھیں جھپکاتے ہوئے معصومیت سے بولی تھی۔
فرزانہ نے اسے پیار کیا۔ ” اب شام کو موسی سے بھی معافی مانگنا ۔ اور پینٹنگ ٹھیک کرنے کے لیے ٹھنکس بھی کہنا ۔” فرزانہ نے تاقید کی تو وہ لاپرواہی سے سر ہلاتی ہوئی چلی گئی۔ دل ایک دم ہلکا ہو گیا تھا۔ اب کل وہ اپنا پروجیکٹ جمع کروا سکتی تھی۔ اب ٹیچر اسے بلکل نہیں ڈانٹے گیں ۔
” سوری ” شام کو موسی کے کمرے میں کھڑی وہ لب کاٹتے ہوئے بولی تھی۔ ہاتھ دونوں باہم پھنسائے انہیں اوپر نیچے کر رہی تھی۔
” ایٹس اوکے ” وہ مسکراکر بولا۔
” اور ٹھینکس بھی پینٹنگ ٹھیک کرنے کے لیے۔”
” اسکی ضرورت نہیں ۔ تم یہ بتاو کیا وہ سکول میں دکھانے کے لائق ہے یا پھر زیرو گریڈ ملے گا ۔” وہ سر کجھاتے ہوئے بولا۔
” ہاں بہت اچھی ہے وہ ۔ٹیچر کو بہت پسند آئے گی ۔ تم بہت اچھی پینٹنگ کرتے ہو ۔” کہتے ساتھ اسنے کمرے کی دیواروں کو دیکھا جن پر پینٹنگنز لٹکی ہوئی تھیں وہ موسی کی آرٹ میں دلچسپی کو ظاہر کر رہیں تھیں ۔
” تھینک یو ” وہ تعریف قبول کرتے ہوئے بولا۔
” مجھ سے دوستی کروگے۔ ” وہ زرا سا شرماتے ہوئے بولی۔
” ہاں ضرور ” موسی نے ہاتھ آگے بڑھایا جسے سیمل نے تھام لیا۔
اس روز سیمل اور موسی کی دوستی ہوگئی تھی۔ اور اس دن کے بعد سے سیمل ہمشہ ہر کام میں اسکی مدد لینے لگی تھی۔ وہ ریسٹورنٹ سے آکر رات کو بیٹھ کر اسے پڑھاتا تھا۔ وہ ہر چیز چھ چھ بار پوچھتی اور وہ بنا زچ ہوئے اسکو سب سمجھاتا۔
ایک دن وہ ایک چھوٹا سا پودا خرید کر لایا۔
لان میں لگا رہا تھا جب وہ بھی پاس آگئی۔ اور سوال کی بوچھاڑ کردی ۔
” اس کا نام کیا ہے؟۔ یہ کہاں سے لائے ہو ۔؟ یہ اتنا چھوٹا کیوں ہے ؟ یہ کب بڑا ہوگا ؟
” یہ ٹیولپ کا درخت ہے۔ اسے نرسری سے لایا ہوں۔ اسے بڑا ہونے میں بہت سال لگے گیں۔ ” وہ اپنا کام کرتے ہوئے اسکے سوالوں کا جواب دے رہا تھا۔
“میں کروں یہ ؟ ” دلچسپی سے پوچھا
“ہاں ” وہ اجازت دیتے ہوئے پیچھے ہوا ۔
سیمل نے اپنے نرم اور نازک ہاتھوں سے پودے کی ارد گرد کی مٹی کو دبانا شروع کیا ۔ جب مٹی دب گئی تو اس پر پانی ڈالا۔ اس بڑے سے باغیچے میں وہ پودا بہت چھوٹا سا لگ رہا تھا ۔
” میں روز اس پودے کو پانی دوں گی ۔ ایک دن یہ بہت بڑا درخت بن جائے گا ۔ پھر ہم دونوں اس کی چھاوں میں بیٹھ کر دھیڑ ساری باتیں کریں گے ۔ کریں گے نا ۔” وہ معصوم سے انداز میں پوچھ رہی تھی ۔
” ہاں کیوں نہیں ۔ ہم دھیڑ ساری باتیں کریں گے اسکی چھاوں میں بیٹھ کر ” موسی نے مسکراکر وعدہ کیا۔
□□□
دن گزرتے گئے ۔موسی اور سیمل کی دوستی اور اچھی ہوگی۔ سیمل کو اسکی پسند نا پسند سب کا علم ہوگیا۔ وہ پروجیکٹ والی پینٹنگ واپس لائی تو اسے کناروں سے تھوڑا چھوٹا کر کے ابا کو کہہ کر اسے فریم کروالیا تھا ۔ وہ اسکی پسندیدہ تصویر بن گئی تھی۔ جان سے بھی زیادہ عزیز ۔
اسکی زبان پر ہر وقت موسی موسی رہنے لگا تھا۔ سیمل کو موسی کی دوستی راس آگئی تھی۔
اس روز وہ کمرہ سیٹ کر رہا تھا جب وہ بھی وہاں آگئ۔ اسکی چیزیں یوں ہی الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ دڑیسنگ میں رکھی ایک مخملی ڈبی کو اٹھایا ، کھولا اور اس میں موجود ہیرے کی انگوٹھی نکال لی ۔
” یہ کس کی ہے ۔ کتنی خوبصورت ہے۔” وہ انگوٹھی ٹتولٹے ہوئے بولی ۔
” یہ میری ماما کی ہے ۔ان کی امانت ہے ۔” وہ سٹیڈی ٹیبل کی دسٹنگ کرتے ہوئے بولا۔
” یہ میں لے لوں؟ ”
” ہاں ” وہ بے خیالی میں بول گیا تو وہ انگلی میں انگوٹھی پہنتی ہوئی باہر بھاگی۔ انگوٹھی چونکہ بڑی تھی اس لیے بار بار اوپر کر رہی تھی۔ اسے ماما کو انگوٹھی دکھانی تھی۔
□□□
” فرزانہ تم سیمل کا خیال رکھا کرو ۔ اسکا بہت زیادہ تمھارے بھتیجے کی طرف جھکاو ہو رہا ہے ” کمال صاحب نے کسی اندیشے کے تحت بیگم سے کہا۔
” آپ یہ کیسی باتیں کر رہیں ہیں۔ دونوں بچے ہیں ۔ اور کزن ہیں ایک دوسرے کے ۔” وہ شوہر کی منطق سمجھ نہیں پائیں تھیں۔
” لیکن ان دونوں کا اتنا ایک دوسرے سے اٹیچ ہونا مناسب نہیں ہے۔”
فرزانہ مزید کچھ کہنے لگیں تھیں۔ جب وہ بھاگتی ہوئی آئی ۔
” ماما دیکھیں یہ کتنی پیاری ہے۔ موسی نے مجھے دے دی ۔” وہ ماں کے سامنے انکوٹھی لہراتے ہوئے بولی خوشی سے جیسے کوئی خزانہ مل گیا ہو ۔
” ارے تم یہ کیوں اٹھا لائی ۔ اتنی قیمتی ہے یہ ۔ جاو جلدی سے واپس کر کرکے آو اسے ۔” فرزانہ نے فورا اسے جھرکا ۔
” میں نہیں دوں گی یہ اب میری ہے ۔ ” وہ مضبوطی سے انگوٹھی ہاتھ میں دباتے ہوئے بولی ۔
” موسی تم نے اسے دی ہے یہ۔ ” وہ پردے برابر کرتے ہوئے حیرانی سے پلٹا ۔
پہلے سیمل کے ہاتھ میں انگوٹھی پھر اسکا چہرا دیکھا۔ آنسو اسکی آنکھوں سے نکلنے کو بے تاب تھے ۔
” جی میں نے ہی دی ہے” وہ اس بچی کا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا
” وہ تو بیوقوف ہے ۔مگر تمہے کیا ہوا ہے ۔ اتنی قیمتی چیز کیسے دے دی تم نے” فرزانہ سخت کبیدہ خاطر ہو رہی تھیں ۔
” سیمل اسکی بہت اچھے سے حفاظت کرے گی ۔ وہ اسے سنبھال کر رکھے گی ” وہ تسلی آمیز لہجے میں بولا۔
” نہیں بلکل نہیں ۔ سییمل رنگ واپس کرو ”
” نہیں ۔۔نہیں کروں گی ۔ یہ میری ہے ” وہ انگوٹھی ہاتھ میں دباتے ہوئے باہر بھاگ گئی۔
” یہ لڑکی بھی نا ۔ ” فرزانہ نے سر جھٹکا۔
” تم نے آخر اسے وہ دکھائی ہی کیوں ” وہ پریشانی سے بولیں ۔ “اتنی قیمتی انگوٹھی وہ گھما دے گی ۔”
” میں لے لوں گا واپس ۔ آپ فکر نا کریں ”
” یاد سے لے لینا ۔” وہ تاقید کرتے ہوئے چلی گئیں ۔
شوہر کی باتیں زہن میں گھومنے لگی تھیں ۔
□□□
ان دنوں موسی کے فسٹ ائیر کے امتحان چل رہے تھے۔ اس روز پریکٹیکل تھا۔ سیمل کو سکول سے چھٹی تھی۔ وہ اکثر موسی کی غیر موجودگی میں اسکے کمرے میں چلی جاتی تھی۔ اور اسکی چیزیں ترتیب سے رکھ دیتی تھی۔ ترتیب تو پہلے ہی ہوتی تھی وہ سب چیزوں کو پہلے خراب کرتی پھر دوبارہ ٹھیک کرکے رکھتی۔ یہ اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
” سیمل تم نے اپنا کمرہ تو کبھی صاف نہیں کیا۔ موسی کا صاف ستھرا کمرہ بھی بگاڑ دیتی ہو۔” فرزانہ جب بھی اس سے کہتی تو وہ ہلکا سا جھینپ کر مسکرادیتی ۔
آج بھی وہ موسی کے کمرے میں گھسی ہوئی تھی۔ سٹیدی ٹیبل کی چیذیں الٹ پلٹ کرتے ہوئے سامنے ایک پریکٹیکل بک آئی ۔ وہ آنکھیں چھوٹی کیے دیکھنے لگی پھر ایک دم دماغ کی گھنٹی بجی۔ ” اوہ ! یہ تو موسی نے آج لے کر جانی تھی۔ وہ بھول گیا۔ ” تیزی سے فرزانہ کے پاس گئی ۔
” ماما جلدی چلیں یہ موسی کو دینی ہے ۔ وہ بھول گیا ہے۔ وہ فیل ہو جائے گا۔ ” وہ ہربری میں بولی۔
” مگر موسی اتنا لاپرواہ نہیں ہے جو پریکٹیکل بک گھر چھوڑ جائے ۔ یہ کوئی دوسری ہوگی۔ ” فرزانہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
” نہیں مجھے پتا ہے ۔ یہ آج ہی لیکر جانی تھی۔ ٹیچر اسے ڈانتے گیں۔ آپ چلیں نا۔” وہ پھر سے بضد ہوئی۔
” اچھا ٹھیک ہے چلو ”
کچھ دیر بعد امتحانی سینٹر کے باہر کھڑے فرزانہ گاڑد سے بات کر رہی تھی۔
” وہ سامنے آفس ہے وہاں جا کر بات کرلیں ۔” گارڈ نے ایک جانب اشارہ کیا۔
سیمل بھاگ کر آفس گئی۔ اندر پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک ٹیچر بیٹھا تھا۔
سیمل نے اسے ساری بات بتائی۔
“آو میرے ساتھ ۔ ” وہ ٹیچر معنی خیز لہجے میں بولا۔
سییمل مزے سے اس انسان کے پیچھے چل پڑی۔ اس بات سے بے خبر کہ وہ غلط ارادہ رکھتا ہے ۔ وہ ایک حوس پرست انسان ہے
ٹیچر اسے پچھلی طرف لے گیا۔ وہ جگہ خالی تھی ۔وہاں کوئی نہیں تھا ۔
وہ ایک شریف دکھنے والا انسان شیطانی صفات رکھتا ہے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
” ادھر آو ” وہ ٹیچر اسے ایک خالی کلاس میں لے گیا۔ ان دنوں امتحان چل رہے تھے اس لیے پیچھے والی کلاسز استعمال میں نہیں تھیں۔
ہاتھ میں بک پکڑے وہ انتظار کرنے لگی۔
اس ٹیچر نے دروازہ بند کیا مگر وہ ٹھیک سے ہوا نہیں ۔
پھر وہ دانٹ کچکچاتا ہوا سیمل کی جانب بڑھا ۔ وہ خوف سے پیچھے کو ہٹی۔ وہ کیا کر رہا تھا ۔ سیمل کی سمجھ سے باہر تھا۔ پتا تھا تو اتنا کہ غلط کر رہا تھا۔ تبھی اس انسان نے اپنا ہاتھ اسکے منہ پر رکھ کر دبایا۔ سیمل کے منہ سے گھٹی ہوئی چیخ نکلی۔ وہ ہاتھ پاوں مارنے لگی مگر اس انسان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ ۔۔
موسی پریکٹیکل دے کر کلاس سے باہر نکلا تو پیاس سی محسوس ہوئی۔ فرزانہ نے ٹھیک کہا تھا وہ اتنا لا پرواہ نہیں تھا۔ جو بک سیمل لائی تھی وہ دوسری تھی۔ واٹر کولرز پچھلی طرف تھے۔ وہ وہاں آیا تو عجیب سی آواز آئی۔ گھٹی ہوئی رونے بلکنے کی آوازیں۔
وہ آواز کی سمت بڑھا ۔ ایک کلاس کا دروازہ دکھا مار کر کھولا ۔ اندر کا منظر اسکے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا ۔ ٹیچر روتی بلکتی تڑپٹی ہوئی سیمل کو دبوچے ہوئے تھے۔ موسی کا چہرا دھواں دھواں ہوا۔ اگلے ہی پل وہ آگے بڑھا اور زور دار مکا ٹیچر کی کمر پر مارا ۔
” آہ ” وہ کرہاتے ہوئے پلٹا ۔
سیمل باہر کی جانب بھاگی اونچا اونچا چیختی ہوئی۔
وہ ٹیچر اسے اپنی حوس کا شکار بنا چکا تھا ۔ وہ اسکے وجود کو اپنے غلط ارادے سے ناپاک کر چکا تھا
” تمھاری ہمت کیسے ہوئے ۔۔۔” ٹیچر آگ بگولہ انداز میں بولا مگر موسی نے دوبارہ ایک زور دار مکا اب کے منہ پر رسید کیا۔ اسکے سر پر خون سوار تھا۔
ٹیچر کے منہ سے خون نکلنے لگا۔ وہ باہر کی جانب بڑھا۔
” تمہے اسکی سزا ملے گی۔ ” دانٹ پیستے ہوئے بولا اور آگے بڑھ گیا ۔
سیمل کہاں ہے اچانک موسی کو خیال آیا۔ وہ بھی باہر بھاگا
جیسے ہی وہ مین گیٹ کے سامنے آیا کچھ لوگ اس پر چڑھ پڑے۔
ٹیچر نے یہ بات پھیلا دی کہ اس لڑکے نے بچی کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے اور روکنے پر حملہ بھی کیا ہے۔ اسکے منہ سے نکلتا خون اسکی بات کی گواہی دے رہا تھا۔ گارڈ ، سٹودنٹس ، ٹیچرز اور ملازم سب جمع ہوگئے۔
۔ بے شرم بے حیا ایک بچی کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہوئے تجھے موت نہیں آئی ۔ مارو اسکو سارے ۔ اسکی وہ حالت کرو ہمیشہ یاد رکھے ۔”
” اسے پولیس کے حوالے کردو ”
میں تو کہتا ہوں اسکی ایک ایک ہڈیاں ٹوڑ دوں ”
وہ اپنے بچاو میں صرف بازوں کی ڈھال ہی بنا سکا ۔ فرزانہ بھی بھاگی ہوئی اندر آئی اور دم بخود کھڑی سیمل کو خود سے لپٹا لیا۔ وہ لمحہ فرزانہ کے لیے قیامت کے مصدق تھا ۔
ماں سے لپٹے سیمل نے خالی خالی نظروں سے سامنے دیکھا ۔بہت سے لوگ کسی کو مار رہے تھے ۔ بڑی طرح سے ۔مکے، لاتیں ۔صفائی کرنے والا ایک لکڑی اٹھا لایا تھا ۔ اسنے زور سے موسی کے سر پر وہ لکڑی ماری۔ لکڑی میں لگی کیل پیشانی پر گہرا چیڑا ڈال گئی۔
ساتھ ساتھ وہ سب اسے گالیوں سے بھی نواز رہے تھے ۔
اچانک سیمل کی نظر موسی کے زخمی چہرے پر پڑی ۔وہ ایک دم کانپ کر رہ گئی ۔ وہ چیخی تھی مگر وہاں کوئی اسکی بات نہیں سن رہا تھا ۔ کیسے سنتا وہ بے آواز چلا رہی تھی۔
وہ بار بار چیخ چیخ کر ایک ہی بات کہہ رہی تھی ۔
” اسے مت مارو ، اسے چھوڑ دو ”
مگر آواز حلق میں ہی پھنس کر رہ جاتی۔
سب لوگ جب خوب مار مار کر تھک گئے تو پیچھے ہٹے ۔ موسی چکراتے ہوئے سر وہ زخمی وجود کے ساتھ نیچے گرا۔ آنکھیں بند ہونے سے پہلے جو آخری چیز اسنے دیکھی تھی وہ سیمل کی پٹھی ہوئیں گہری سیاہ آنکھیں تھی
□□□
اس واقعہ کی خبر آگ کی طرح پھیلی۔
کمال صاحب نے موسی کو گھر سے نکال دیا ۔ کالج سے بھی اسکا نام خارج کر دیا گیا۔
” آج کے بعد اس کا نام بھی اس گھر میں نہیں لیا جائے گا” وہ غصے اور تحکم سے بولے تھے ۔ ” میں نے تمہے تنبیہ کی تھی مگر تم نے میری بات نہیں سنی۔ اب بھگتو انجام۔” ان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ موسی کو جان سے مار دیں۔ وہ ایسا کر بھی دیتے اگر فرزانہ درمیان میں نا آتیں۔
” بچہ ہے ۔ غلطی ہوگئی اس سے معاف کر دیں۔”
کمال صاحب نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھیں ۔
” دفع ہو جاو ۔ اپنا زلیل چہرا میرے سامنے سے ہتا لو اور پھر کبھی اپنا مکروہ چہرا مت دکھانا۔” وہ طیش سے گلا پھاڑ تے ہوئے بولے تھے ۔
” انکل مم مم ۔۔۔میں بے قصور ہوں ” وہ اٹکتے ہوئے بولا۔
سر پر پٹی بندھی تھی ۔ گردن اور ہاتھ پر بھی بیندیج لگی نظر آرہی تھی چہرے پر بے بسی کے آثار تھے۔ ۔ اپنی بے گناہی کیسے ثابت کرے۔ اور اوپر سے سیمل وہ بھی تو چپ لگا کر بیٹھ گئی تھی۔ وہ بھی تو اسکی صفائی میں کچھ نہیں بولی تھی۔ اور سیمل کی یہ خاموشی اسے مزید مجرم بنا رہی تھی۔
” بکواس بند کرو اپنی۔۔جاتے ہو یہ تمہے جیل میں ڈلواوں ” وہ اب کے مزید غصے سے دھاڑے تھے۔
اس روز موسی گھر سے چلا گیا تھا۔ کہاں یہ بات سیمل آج تک نہیں جان پائی تھی۔ ابا سے اس نے کئی بار بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ ہمت نا کر سکی۔
راتوں کو اسکے کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر رونا اپنی بے بسی پر ۔ کیا سوچتا ہوگا موسی وہ اسکی صفائی میں کچھ نہیں بولی۔ وہ خود اس ٹراما اور صدمے سے بہت دیر بعد نکلی تھی مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ موسی انکی زندگیوں سے بہت دور جا چکا تھا۔
فرزانہ کی طبیعت میں بھی ایک عجیب بھوجل پن رہنے لگا تھا۔ وہ بیمار بیمار سی نظر آنے لگیں تھیں۔ گھر کے تینوں افراد کشمکش سے جونج رہے تھے۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ڈاکٹر کو چیک کروایا تو لاسٹ سٹیج کینسر کی تشخیص ہوئی۔
فرزانہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی۔ کمال صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا بیوی کو بچانے کے لیے مگر وہ ناکام رہے۔
بارہ سال کی عمر میں اس واقعے کے ایک سال بعد ہی سیمل نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا۔
بیرونی سیھڑیوں پر وہ گم سی بیٹھی تھی۔ ابا دوسرے لوگوں کے ساتھ فرزانہ کو آخری آرام گاہ چھوڑنے گئے تھے۔
کتنی سیر وہ ایسے ہی بیٹھی رہی۔ صرف ایک واقعہ اور سب کچھ برباد ہوگیا۔ وہ بدکردار اور شیطانی صفت انسان صرف ایک جھٹکے میں ہی سیمل سے اسکی معصومیت چھین گیا۔
ابا جب واپس آئے تو بہت تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ ان کی چال میں بھی لڑکھڑاہت تھی۔ چہرے پر کرب نمایاں تھا۔ وہ اسکے پاس بیٹھے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔
” ماما کیوں چلیں گیں مجھے چھوڑ کر” وہ بھیگے لہجے میں دریافت کر رہی تھی۔
” ماما اللہ کے پاس چلی گئیں۔ اللہ نے بلا لیا انہیں۔ تم رو گی تو ماما کو تکلیف ہوگی ۔ تم دعا کرو انکے لیے۔ ” کمال صاحب مغموم لہجے میں بولے ۔
سیمل کی آنکھ جو اتنی دیر سے پتھر بنی ہوئی تھی اس سے ایک آنسو ٹوت کر گرا۔
□□□
چند ہی دنوں میں کمال صاحب کو اندازہ ہو گیا ۔وہ سیمل کی پرورش اکیلے نہیں کر سکتے ۔ وہ ایک ہی سال میں جن دو بڑے صدموں سے گزری تھی ایسے میں اسکا اکیلا رہنا مناسب نہیں تھا ۔وہ بھی کب تک گھر میں بیٹھ سکتے تھے ۔ وہ پولیس آفیسر تھے اور انکی ڈیوٹی بہت ٹف ہوتی تھی ۔ بہت سوچ بچار کر کے وہ ایک فیصلے پر پہنچے تھے ۔ دوسری شادی کا فیصلہ۔
□□□
گل رخ خان کمال صاحب کے ساتھ کالج میں پڑھتی تھیں ۔ دونوں کے درمیان اچھی دوستی تھی۔ دونوں نے پولیس کی ٹریننگ بھی ساتھ ہی لی تھی ۔ پشاور کے جس پولیس ڈیپاڑٹمنٹ میں دونوں کی بھرتی ہوئی تھی وہاں کے ڈی سی پی گل رخ کے والد تھے۔
دونوں باپ بیٹی بہادری کی مثال سمجھے جاتے تھے۔
گل رخ ایک بہادر دلیر عورت تھیں ۔وہ اکیلی کئی مردوں پر بھاری پڑتی تھیں۔ اونچا لمبا قد ۔ پٹھانی نکشونگار ۔ سرمئی کانچ جیسی چمکدار آنکھیں ۔
کھلتا ہوا سرخ و سپید رنگ۔ انکے انداز میں رعب تھا ۔ دبدبہ تھا ۔ ایک شان و شوکت تھی ۔ اور یہ وراثت میں ملی تھی۔ وہ کالج کے زمانے سے ہی کمال صاحب کو پسند کرنے لگی تھیں ۔ مگر یہ بات کبھی زبان پر نا لائیں تھیں۔
انکے والد کبھی کبھی اس بات پر راضی نا ہوتے۔
انہوں نے خموشی اختیار کرلی ۔ اور اپنے صبر کا امتحان انہیں اس وقت ملا جب کمال صاحب نے شادی کے بارے میں دریافت کیا۔
” مجھے منظور ہے ” ۔ آج نہیں تو پھر کب وہ اپنی رضامندی ظاہر کریں گیں۔
” ڈی ایس پی صاحب ۔۔ انہیں اس بات سے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ میں یہ شادی صرف اپنی بیٹی کے لیے کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے زیادہ بہتر عورت سیمل کی ماں بننے کےلیے نہیں ہوسکتی۔ ” کمال صاحب نے اعتراف کیا۔
” نہیں بابا جان اعتراض نہیں کریں گے۔ وہ میری بات کبھی نہیں ٹالیں گے۔ ” کاش کہ اس بات کو بہت پہلے ہی سوچ لیا ہوتا ۔ کمال صاحب کی فرزانہ کے شادی کے بعد جب انہوں نے اپنے دل کی بات کری تو انکے والد نے بلکل اعترض نہیں کیا۔
” گل رخ آپ کو مجھ سے زکر تو کرنا چاہیے تھا ۔ آپ نے کیسے سوچ لیا میں راضی نہیں ہونگا ۔ آپ ایک بار مجھ سے کہتی تو ۔ آپ میری بیٹی ہو ۔ میری زندگی کا چشم و چراغ ہو ۔ ”
وہ بہت پیار سے بولے ۔ سارا رعب ، جلال بیٹی کے آگے ٹھنڈا پڑجاتا تھا۔
“مجھ سے غلطی ہوگئی بابا جان ۔میں نے غلط سوچا ۔”
پر آج انہیں اپنی غلطی دوبارہ نہیں دھرانی تھی ۔
□□□
چودہ سال کی عمر میں سیمل کو پہلی بار گل رخ سے متعارف کروایا گیا تھا اسکی دوسری ماں کے روپ میں ۔
” ادھر آو بیٹا ۔” دلہن بنی گل رخ بیڈ پر بیٹھی تھی ۔سیمل خاموشی سے دروازے میں آکر کھڑی ہوگئی تو گل رخ نے پیار سے اسے بلایا ۔
وہ کھڑی دیکھتی رہی پھر اچانک بھاگ گئی۔ وہ گل رخ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
کمال صاحب پہلے ہی سب کچھ گل رخ خو بتا چکے تھے ۔ انہیں کافی محنت کرنا تھی سیمل کو خود سے اٹیچ کرنے کے لیے ۔
” ارے واہ ۔” سیمل لان میں بیٹھی آرٹ کر رہی تھی اس دن ۔بے دلی سے پینسل کو گھمارہی تھی۔ آواز پر اچانک چونکی ۔ سر اٹھایا تو ستائشی مسکان والی گل رخ نظر آئیں ۔
” آپ بہت اچھی درائنگ کرتی ہیں ۔” کہتے ساتھ اسکے پاس بیٹھیں ۔
” اچھی تو موسی کرتا تھا ۔” اچانک اسکے منہ سے پھسلا۔ ۔۔وہ گربرا کر کاغز دیکھنے لگی جس پر کیا بنا تھا اسکا تعین زرا مشکل تھا۔
” مجھے بلکل نہیں آتی تم سکھاو گی مجھے ۔ ” گل رخ بات کو بدلتے ہوئے بولی ۔
” موسی مجھے بھی سکھاو نا سکیچنگ ۔” اسنے پرجوش انداز میں کہا۔ وہ عادت سے مجبور پھر اسکی چیزوں میں گھسی ہوئی تھی ۔جب ایک سکیچ بک سامنے آئی ۔
” ہاں کیوں نہیں۔ میرے اگزیمز ہو جائیں پھر سکھاوں گا ۔” وہ وعدہ کرتے ہوئے بولا۔ مگر اسکے سارے وعدے اسکے ساتھ ہی چلے گئے ۔
” سیمل بتائیں ۔ مجھے سکھائیں گی نا ۔” گل رخ کی آواز پر سیمل حال میں آئی پھر تیزی سے سر ہلایا۔
” یہ تو بہت اچھا ہوگیا ۔مجھے بہت خوشی ہوگی مس سیمل سے آرٹ سیکھنے میں۔” وہ مسکرائیں تو سیمل بھی مسکرادی ۔
” آج کیا کھانا پسند کریں گی آپ ۔” وہ با ادب سی کسی کنیز کی طرح بولیں تھیں جیسے سیمل کوئی شہزادی ہو ۔
” آج آپکی پسند کا کھانا کھاوں گی میں ” ہونٹ کچکاتے ہوئے بولی۔
” تھیک ہے پھر آپ کچن میں آئیں ۔اور میری مدد کروائیں۔ آج میں آپ کو اپنے ہاتھ کی بریانی کھلاوں گی ۔ زیادہ لزیز نہیں ہوگی مگر شہزادی صاحبہ کو پسند آئے گی۔ ” وہ پیار سے سیمل کا خوبصورت مگر اترا ہوا چہرا اٹھاتے ہوئے بولیں۔
اس دن کے بعد سے سیمل نے گل رخ سے بات کرنا شروع کردی تھی ۔ بات زیادہ گک رخ ہی کرتی تھیں ۔ مگر یہ بھی غنیمت تھی کہ وہ جواب تو دیتی تھی۔ گل رخ فرزانہ کی جگہ نہیں لے سکتی تھیں اور نا ہی انہوں نے کوشش کی تھی
” سیمل میں چاہتی ہوں آپ مجھے اپنا دوست سمجھو۔ میں آپ کی ماں نہیں ہوں اور نا ہی بن سکتی ہوں ۔ مگر ہم اچھے دوست تو بن سکتے ہیں نا ۔”
اس روز وہ سیمل کو پاس بیٹھاتے ہوئے بولیں۔
” کیا مجھے سیمل کمال کی دوستی کا شرف حاصل ہو سکتا ہے ۔” انکے سامنے گویا کسی ریاست کی شہزادی بیٹھی تھی جا سے دوستی ایک انمول عنایت ہوتی ان پر ۔
” آپ مجھے شرمندہ کر رہیں ہیں۔ بلکہ مجھے بہت خوشی ہوگی آپ سے دوستی کرکے۔ مگر ۔۔۔” وہ بات ادھوری چھوڑ گئی ۔
” مگر کیا ۔۔۔”
” آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گی نا ” وہ آس سے جواب طلب لہجے میں بولی تھی ۔
یہ بات سیمل کے زہن میں نا جانے کہاں سے آئی تھی کہ وہ جس سے دوستی کرے گی وہ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا ۔
اس لیے وہ ڈر رہی تھی ۔
” میں بھلا کیوں جاوں گی آپ کو چھوڑ کر ۔ میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گی ۔” گل رخ کی تسلی بھی اسکا اندیشا دور نہیں کر پائی تھی ۔
پھر وہی ہوا جسکا در تھا ۔
□□□
دو سال بعد سیمل کی زندگی میں سنی آیا تھا ۔ سنی کے پیدا ہونے کے تین دن بعد وہ نور بابا کے ساتھ ہسپتال گئی تھی ۔نور بابا گل رخ کے ساتھ ہی آئے تھے۔ وہ واڑد کے دروازے میں جاکر کھڑی ہوگئی۔ بلکل ویسے جیسے دو سال پہلے گل رخ کے کمرے کے دروازے میں کھڑی ہوئی تھی۔
” اندر آئیں سیمل اپنے بھائی سے ملیں۔” گل رخ کافی نقاہت زدہ لگ رہی تھیں۔ وہ کمزور نظر آ رہیں تھیں۔
سیمل اندر بڑھی اور بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی۔
” دیکھو یہ بلکل آپ کے جیسا ہے ۔ ” گل رخ نے کمبل میں لپٹا ایک بچہ سیمل کے سامنے کیا ۔
” یہ بلکل میرے جیسا نہیں ہے ۔” اس نے ناپسندیدگی سے بچے کو دیکھا ۔ البتہ بچے کے پھولے ہوئے گالوں نے سیمل کو ایک بار ان پر چٹکی کاٹنے کے لیے اکسایا ضرور تھا ۔ وہ کافی صحت مند تھا۔
” یہ بڑا ہوکر بلکل آپ جیسا ہوگا۔ اور یہ ہمیشہ آپکی حفاظت کرے گا ۔ آپ بھی ہمیشہ اپنے بھائی کا خیال رکھنا ۔کبھی اسکا ہاتھ نا چھوڑنا ۔ اور نا ہی یہ کبھی آپ کا ہاتھ چھوڑے گا۔ مجھ سے وعدہ کرو سیمل آپ کبھی بھی اپنے بھائی کو اکیلا نہیں چھوڑو گی ۔” گل رخ نے سیمل کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
وہ ٹھورا بےچین سی ہوئی ۔ وعدے ۔ یہ وعدے محض تکلیف کے اور کچھ نہیں لاتے ۔پھر بھی وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔
دو دن مزید گزرے ہوگیں جب ایک آفت اور ان کے سر پر ٹوتی۔ گل رخ کی اچانک سے طبیعت خراب ہوئی ۔ سانس اکھڑنے لگا ۔ ہسپتال لے جانے کے راستے میں ہی انکی موت ہوگئی ۔
اس رات سیمل بہت روئی تھی۔ خود کو کوستی ۔ گلا پھاڑتی ہوئی۔ وہ بہت بری قسمت لے کر پیدا ہوئی تھی ۔ اسکی زندگی میں موجود اب ہی لوگ آہستہ آہستہ اسے چھوڑ کر جا رہے تھے اور نا جانے یہ سلسلہ کب تک مزید چلنا تھا ۔
“منحوس ۔” یہ وہ واحد لقب تھا جو اس رات اس نے خود کو دیا تھا ۔ کیا وہ واقعی منحوس تھی۔ اسکا فیصلہ تو وقت ہی کرنے والا تھا ۔
□□□
” دیکھو سیمل اب نا تمھاری ماں اس دنیا میں ہے اور نا ہی سنی کی۔ تمہے اب اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرنی ہے ۔ تم سمجھ رہی ہونا۔ ” اگلے روز کمال صاحب نے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔ انکا لہجہ شکست خوردہ سا تھا ۔
” آپ فکر نا کریں ابا۔ میں نے گل رخ سے وعدہ کیا تھا ۔ میں ہمیشہ سنی کا خیال رکھوں گی۔۔وہ میرا بھائی ہے ۔ میں اسکی حفاظت کروں گی وہ میری حفاظت کرے گا ۔” وہ مضبوط اور پراعتماد لہجے میں بولی تھی۔ کل رات روتے ہوئے اچانک اسے گل رخ کی بات یاد آئی تھی۔
” بیٹا پلیز اپنے آپ کو سنبھالوں ۔ابھی تو زندگی شروع ہوئی ہے۔ اور ابھی تو اور بھی مشکلیں آئیں گی۔ آپ ایسے ہی ہر بار ہار مانتی رہیں گیں تو مصیبتوں کا سامنا کیسے کریں گیں۔ آپ کو بہادر بننا پڑے گا۔ بلکل میری طرح ۔ ایک بہادر لڑکی جو کبھی بھی ہار نہیں مانے گی۔ آپ کے ساتھ جو ہوا وہ بہت برا ہوا ۔اس واقعے کے اثرات ہمیشہ آپکے ساتھ رہیں گے مگر آپ کو اسے خود پر حاوی نہیں کرنا ہے۔ ” گل رخ نے بہت اپنائیت سے کہا تھا۔
اور پھر سیمل نے یہ فیصلہ کیا تھا اب وہ مزید نہیں روئے گی ۔ وہ ہر آفت کا سامنا بہادری سے کرے گی۔
□□□
(عائشہ اور حمزہ کی شادی۔)
شادی سے ایک ہفتہ پہلے داود اپنے پر تعیش آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ برینڈڈ سوٹ میں ملبوس ۔ نک سک سے تیار ہوا۔ وہ بے چین سا لگ رہا ۔تھا۔ سامنے بیٹھا عمر کوئی فائل کھولے مسلسل کسی معاملے کے بارے میں اسے آگاہ کر رہا تھا۔ مگر وہ سن نہیں رہا تھا۔ زہن ایک ہی جگہ پر اٹکا ہوا تھا۔ عائشہ کی شادی میں۔
” عمر ابھی چلے جاو ۔ میرا موڈ نہیں ہے کام کرنے کا ۔” وہ سیٹ سے سر ٹکاتے ہوئے بولا ۔ چہرے سے الجھن نمایاں تھی۔
” لیکن سر آج میٹنگ ہے ۔”
” آئی سے گیٹ آوٹ ” وہ چلایا تو عمر فورا چیزیں سمیٹتا ہوا نکل گیا ۔
داود نے سیٹ سے سر ٹکائے ہوئے ہی آنکھیں مسلی۔
“تم ایسا کیوں کر رہی ہو عائشہ۔ مجھ سے کس چیز کا بدلہ لے رہی ہو۔ کیوں تم اس حمزہ کو میرے سامنے لاکر کھڑا کر رہی ہو۔ اس کی اوقات کیا ہے میرے سامنے ۔ تم مجھے تھکراکر اسے اپنا رہی ہو ۔ کیوں ؟؟ میں نے رامین سے شادی کرلی اس لیے۔ تم بدلہ لے رہی ہو ۔ مگر یاد رکھنا میں تمہے کبھی معاف نہیں کروں گا۔ دیکھنا میں تم سے بہتر عورت کو تمھارے سامنے لا کر کھڑا کروں گا ۔ تب میں دکھاوں گا تمہے کہ تم واحد عورت نہیں ہو اس دنیا میں جو میرے لائق ہے۔ مجھے ٹھکرانے کی تمہے سزا ملے گی اور ضرور ملے گی ۔”
وہ اس وقت ہر چیز سے بیگانہ اس زلازت کو سوچ رہا تھا جو اس نے اس دن محسوس کی تھی جب عائشہ صبحانی نے اسکا پرپوزل ٹھکرایا تھا۔ اسے ہر حال میں اس بے عزتی کا بدلہ لینا تھا۔ وہ ، وہ مرد تھا جس کے ساتھ کے لیے ایک دنیا ٹرپتی تھی اور ایسے مرد کو کوئی ٹھکرادے تو مسئلہ سراسر انا کا بن جاتا ہے۔ اور داود حمدانی سے زیادہ خود غرض اور انا پرست کون ہوسکتا تھا۔
□□□
” میں تم سے محبت کروں گا یہ تم نے سوچا بھی کیسے۔ ” حیدر سر جھٹک کر سامنے کھڑی حیا سے کہہ رہا تھا۔ اسے حیا کی بات مزاق لگ رہی تھی۔
” تم نے شکل دیکھی ہے اپنی ۔ رنگ دیکھا ہے۔ مجھ جیسا حسین و جمیل لڑکا تمہے پسند کرے گا مگر کیوں۔ تمہے کوئی نابینا شخص ہی پسند کر سکتا ہے۔ لوگ کیا کہیں گے ۔ مجھے ایک کالی رنگت والی لڑکی ہی ملی تھی پوری دنیا میں۔” وہ تمسخر سے بولا
” تمھارے لائق صرف ایک ہی انسان ہے ۔ طارق ۔ وہ نیم پاگل ۔ان پڑھ اور غصیل”
” بکواس بند کرو اپنی ۔ میں نے صرف اپنی محبت کا اعراف کیا ہے۔ بھیک نہیں مانگی رہی میں جو تم مجھے زلیل کر رہے ہو۔ اور کیسے پڑھے لکھے ہو تم جو میرے سانولے رنگ پر طنز کر رہے ہو ۔
تم سے بہتر تو وہ طارق ہے ۔” وہ جو کافی دیر سے صبر کیے کھڑی تھی بند ٹورتے ہوئے چلائی۔
” مجھ سے اونچے لہجے میں بات مت کرنا ” حیدر سے یہ بے عزتی برداشت نہیں ہوئی تھی۔
” نہیں تو کیا ۔کیا کرو گے ۔” حیا بھی بغیر لحاظ کیے بولی تبھی بپھرا ہوا حیدر آگے بڑھا اور زور دار تپھڑ اسکے منہ پر رسید کر دیا ۔
” آئندہ میرے سے بات کرتے ہوئے ہزار بار سوچنا ۔ ورنہ میں بہت برا پیش آونگا ۔ سمجھی تم۔” انگلی اٹھا کر تنبیہ کی اور آگے بڑھ گیا۔
حیا اپنی جگہ ساکت سی کھڑی رہ گئی۔
کیا اسکے نصیب میں طارق ہی لکھا تھا۔
کیا اسکو پسند کرنے والا کوئی نابینا ہی ہو سکتا تھا ۔ آنکھوں والا اسے محبت کیوں نہیں کرے گا۔ وہ اپنے خاندان میں واحد لڑکی تھی جسکا رنگ سانولہ تھا اور اس بات پر کئی طعنے اور طنز سنتی آئی تھی۔
مگر اس روز تو انتہا ہو گئی تھی۔
□□□
مایا جس وقت سیمل کے گھر پہنچی وہ تیار کھڑی سنی کو پرفیوم کم لگانے کا کہہ رہی تھی۔
نیوی بلیو کلر کی گھیرے دار فراک اور چوڑی دار میں ملبوس ۔ لمبے سیاہ بالوں کو ہاف کیچر میں باندھے وہ کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
” ماشاءاللہ میری دوست کو کسی کی نظر نا لگے ۔ ” مایا آگے بڑھتے ہوئے بولی تو سیمل بے دلی سے مسکرادی۔