بے شک اللہ ہی دعاؤں کو سننے والا اور قبول کرنے والا ہے-
ڈاکٹر نے الہیٰ بخش کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے افسوس سے کہا ” مجھے افسوس ہے”
“ہوا کیا ڈاکٹر جی؟”
“دل کا دورا پرا—- اور وہ ختم ہو گئے”
الہیٰ بخش بت بن کر رہ گیا- صدمے نے جیسے اس کی جان نکال دی تھی- مگر فوراٰ ہی اسے فرض یاد آیا- ابا نے کہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ کر پتر جو کرنا چاہیئے- اس نے بڑی تیزی سے خود کو سنبھالا- غم کرنے کو بہت وقت پڑا تھا- پہلے معاملات نمٹانے تھے- اس نے ڈاکٹر سے پوچھا “آپ سند میں کیا لگیں گے ڈاکٹر جی؟”
“یہی کہ موت ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں ہوئی”
“تو مجھے سند بنا دیں ڈاکٹر جی”
“بن جائے گا، ایسی جلدی ک یاہے؟”
آنسو اب الہیٰ بخش کی آنکھوں سے برس رہے تھے “جلدی ہے ڈاکٹر جی- مجھے ابا کو قبر میں اتارنے سے پہلے تمام حلات صاف کرنے ہیں، ورنہ ابا کی روح خفا ہو گی- خدا کے لئے ڈاکٹر صاحب”
ڈاکٹر اس کی وحشت دیکھ کر گھبرا گیا “یہ کام وقت لیتے ہیں مگر خیر —- پوسٹ مارٹم ہو جائے تو بنا دوں گا”
الہیٰ بخش روتا ہوا ایک طرف چلاگیا- باہر جا کر اس نے بیٹوں کو اطلاع دی-
اس کےے جانے کے بعد ڈاکٹر نے نرس سے کہا ” عجیب بیٹا ہے- باپ کے مرنے کا دکھ نہیں- سند کی فکر ہے- یقیناٰ بڑی جایئداد ہو گی مرنے والے کی”
ادھر الہیٰ بخش اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا- “اب سمجھ میں آیا ابا- سب سمجھ میں آ گیا- مجھے افسوس ہے ابا- نیت، قسمت خراب کرتی ہے، اسی لیئے میں قربان نہیں ہو سکا”
ایس ایچ او نے کانسٹیبل کو آواز دی “اوئے سعیدے —– چائے لے آ جدی سے”
“ابھی لایا سر جی” سعید نے باہر ہی سے ہانک لگائی-
ایس ایچ او پاؤں پھیلا کر بیٹھ گیا- اسی وقت الہیٰ بخش کمرے میں داخل ہوا- اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے- چہرہ آنسوؤں سے تر تھا- ایس ایچ او اقبال نے اسے اس حال میں دیکھا تو سنبھل کر بیٹھ گیا “آؤ الہیٰ بخش ادھر بیٹھو” اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا “کیا حال ہے تمہارے ابا کا؟”
الہیٰ بخش نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا “مشکل آسان ہو گئی تھانے دار جی”
“انا للہ وا انا الیہ راجعون- بڑا افسوس ہوا الہیٰ بخش- اب کیا چاہتے ہو؟”
“میں چاہتا ہوں کہ پرچہ نہ کٹے”
“پرچہ تو کٹ چکا ہے الہیٰ بخش”
“کیسے؟ مدعی تو میں ہوں”
“وقت پر کوئی مدعی سامنے نہ آئے تو قانون کو ایسا کوئی حق نہیں- آپ خود بتاؤ، قانون خون معاف کر سکتا ہے کسی کا؟”
“دیکھو الہیٰ بخش یہ سب باتیں قانون بنانے والے جانیں” تھانے دار نے ہمدردی سے کہا ” اب تو فیصلہ عدالت میں ہی ہو گا”
الہیٰ بخش گڑگڑانے لگا “ایک احسان کر دو تھانے دار جی- سلیم شاہ کو گرفتار نہ کرنا”
“کیسی بات کرتے ہو” اقبال نے خفا ہو کر کہا “اس نے تمہارے باپ کو مارا ہے”
“آس نے نہیں مارا تھانیدار جی” الہیٰ بخش بولا “ابا نے پہلے فائر کیئے تھے اس پر — دو فائر- اس نے تو اپنے بچاؤ میں گولی چلائی تھی”
“پستول میں چیک کر چکا ہوں- اس سے دو گولیاں چلائی گئی ہیں، پر پستول تو تم نے مجھے لا کر دیا تھا، کیا پتا وہ فائر تم نے کیئے ہوں”
“میں ایسا کیوں کروں گا- میرا تو باپ مرا ہے جی- پر میں بے انصافی نہیں کر سکتا- مجھے معلوم ہے کہ سلیم شاہ بے قصور ہے”
“مگر میں تو اسے قاتل سمجھتا ہوں”
“لیکن تھانیدار جی، میرا ابا اس گولی کے زخم سے نہیں مرا- ہارٹ اٹیک ہوا تھا اسے” الہیٰ بخش نے جیب سے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا- اقبال سرٹیفیکیٹ پڑھنے لگا-
“پھر تھانیدار جی، ابا نے مرتے وقت اپنی غلطی تسلیم کرلی تھی- انہوں نے دو فائر کئے مگر نشانہ خطا ہو گیا- سلیم شاہ گولی نہ چلاتا تو خود مارا جاتا”
“اس علاقے میں نشانے اتنے کچے نہیں ہوتے الہیٰ بخش- تم جانتے ہو- اور ی جو تم نے کہا یہ تمہارا بیان ہے- اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں”
الہیٰ بخش نے جیب سے ایک اور کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھایا “یہ بھی دیکھ لو تھایندار جی- انگوٹھا ابا نے خود لگایا تھا —– اپنی زندگی میں”
اقبال نے وہ اعتراف نامہ بھی پڑھا، پھر الہیٰ بخش کی طرف دونوں کاغذ بڑھا دئیے “کام تم نے پکا کیا ہے الہیٰ بخش —- لڑکا پہلی پیشی میں ہی چھوٹ جائے گا”
“انشااللہ” الہیٰ بخش نے بڑے خلوص سے کہا “پر ایک کام تم بھی کر دو تھانیدار جی- میں ہاتھ جوڑتا ہوں- تم جو خدمت کہو گے، میں کروں گا”
“آو خدمت نہیں چاہئیے مجھے- تم کام بتاؤ” اقبال نے برا مانتے ہوئے کہا-
“سلیم شاہ کو گرفتار نہ کرنا — ہتھکڑی نہ لگانا اسے”
اقبال اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا “تم کیا چیز ہو الہیٰ بخش؟”
“گناہ گار بندہ ہوں اپنے رب کا- میری شرم رکھ لو تھانیدار جی” الہیٰ بخش نے پیشانی کے زخم کو انگلی سے سہلاتے ہوئے کہا- اسے اپنے معاملے میں باپ کا ایس ایچ او کے سامنے گڑگڑانا یاد بھی آ رہا تھا اور اب وہ اسے سمجھ بھی سکتا تھا- مگر اس وقت باپ اسے بہت بے رحم لگا تھا- اس نے سوچا تھا —- ابا کو مجھ سے محبت نہیں- میں بس قربانی کا بکرا ہوں ان کے لئے- یہ سب سوچ کر اس کی آنکھیں ندامت کے آنسوؤں سے بھر گئیں-
ایس ایچ او اقبال کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا- پھر وہ سر اٹھا کر بولا “یہ کوئی بڑی بات نہیں- تو نے ثبوت ہی ایسے دئیے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ اس معاملے میں بہت گڑبڑ ہے- میں تو رگڑ دیتا اسے- خدا کی قسم، صرف تری وجہ سے چھوڑ رہا ہوں- جا، اسے ہتھکڑی نہیں لگے گی”
الہیٰ بخش بچوں کی طرح رونے لگا- پھوٹ پھوٹ کر- پھر اس نے چھت کی طرف سر اٹھاتے ہوئے کہا “تیرا شکر ربا —– تیرا احسان ہے” وہ اٹھا اور جانے لگا- دروازے پر پہنچ کر اس نے ایس ایچ او کو پلٹ کر دیکھا “شکریہ تھانیدار جی- سلام علیکم”
——————-٭—————
پیر بخش کی موت کے ایک ماہ بعد ماسٹر جی بھی چل بسے- اب الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ وہ دنیا میں بالکل اکیلا رہ گیا ہے- ابا اور ماسٹر جی کے سوا اس کا کوئی دوست نہیں تھا- وہ بجھا بجھا رہنے لگا-
البتہ جس روز مبشر نے بی اے کا امتحان پاس کیا، اس روز وہ بہت خوش ہوا “اب تیرا کیا ارادہ ہے بیٹے؟”
“ڈھنگ کی کوئی نوکری تو ملے گی نہیں ابا”
“دیکھ بیٹے تعلیم نہ عہدے کے لئے حاصل کی جاتی ہے، نہ پیسے کے لئے- اس کا مقصد صرف دل اور دماغ کو روشن کرنا اور مہذب بنانا ہونا چاہیئے”
مبشر مسکرایا- “ابا، اجازت دو تو دکان پر بیٹھ جاؤں؟”
“تو دکان داری کر سکے گا بیٹے؟”
“کیوں نہیں ابا، میرا تو شروع سے دل تھا کاروبار کا”
الہیٰ بخش جانتا تھا کہ مبشر نے صرف اسے خوش کرنے کے لئے تعلیم حاصل کی ہے- اس کا دل خوشی سے بھر گیا- “ٹھیک ہے بیٹے، مل بیٹھ کر بات کریں گے اس سلسلے میں”
الہیٰ بخش اب ہلکا پھلکا ہو گیاتھا- وہ دیر میں دکان پہنچتا اور گلے پر ہی بیٹھا رہتا- بیٹے سب کام سنبھالتے تھے مگر مبشر سے گفتگو کے بعد الہیٰ بخش نے ان کے کاروبار کے انداز پر غور کرنا شروع کیا- پہلے اسے اطمینان نہیں تھا کہ بیٹے کاروبار کے رموز کو سمجھتے ہیں- لیکن چند روز میں ہیاس کی غلط فہمی دور ہو گئی اور وہ مطمئن ہو گیا-
“بیٹے یہ سیب تو تیس روپے کلو بیچ رہا ہے” ایک روز اس نے مزمل کو ٹوکا ” پیٹی کتنے کی ہے آج کل؟”
“ساڑھے تین سو کی ابا”
“تو بیٹے یہ ستائیس روپے کلو بنتا ہے منافع سمیت”
“بازار میں سیب چالیس روپے بک رہا ہے ابا- صرف ہم تیس روپے بیچ رہے ہیں- اس میں پیٹی کے خراب دانوں کابھی نکل آتا ہے- غریبوں کا بھلا بھی ہو جاتا ہے- اور دیکھو ابا مہنگائی بھی بہت ہو گئی ہے”
الہیٰ بخش نے سر د آہ بھرتے ہوئے سرکو تفہیمی جنبش دی “ٹھیک ہے بیٹے- اچھا یہ بتا بتول کے ہاں پھل بھجوا دئیے تھے؟”
“ہاں ابا- صرف وہیں نہیں ہر اس جگہ بپھل دے دئیے ، جہاں تم بھجواتے ہو”
اتنی دیر میں ایک دکان دار آ گیا- اس نے مدثر سے کہا- “مجھے سیب آلو بخارے اور خوبانی کی ایک ایک پیٹی دے دو”
“چاچا پرانے پیسے لائے ہو کہ نہیں؟” مدثر نے پوچھا-
“اگلی بار دے دوں گا”
“نہیں چاچا، پھر فروٹ بھی اگلی بار ہی لے لینا”
“یار تو بڑی بے مروتی کرتا ہے” دکان دار برا مان گیا ” تیرے باپ نے کبھی ایسا نہیں کیا میرے ساتھ”
“تو ابا والاحساب تم نے آج تک صاف بھی نہیں کیا ہے” مدثر نے ترکی بہ ترکی کہا- “ہم مال منڈی سے مفت نہیں لاتے ہیں- نقد پیسہ دیتے ہیں اور پیٹی پر مشکل سے بیس تیس روپے بچتے ہیں- تم پیسے نہیں دو گے تو ہمارا کام کیسے چلے گا”
“ٹھیک ہے میں منڈی سے لے لوں گا”
“شوق سے لے لو- ذرا منڈی کا بھاؤ بھی تو تمہیں پتا چلے- یہاں آؤ تو پچھلے پیسے لے کر آنا”
دکان دار کے جانے کے بعد الہیٰ بخش نے بیٹے سے کہا “بیٹے دے دینا تھا مال- اپنا پرانا گاہک ہے”
“ابا یہ کوئی غریب آدمی نہیں ہے- بس پیسے دبانے کی عادت ہو گئی ہے اسے- منڈی جائے گا تو دماغ ٹھیک ہو جائے گا آپ ہی”
اور مدثر کی بات درست ثابت ہوئی- اگلے روز وہ دکاندار پچھلے پیسے لے کر آیا “کیوں چاچا، منڈی کا بھاؤ دیکھ لیا” مدثر نے اس سے پوچھا-
“نہیں منڈی تو میں گیا ہی نہیں”
“جھوٹ مت بولو چاچا- تم ہم سے مال خرید کر ہم پر نہیں، خود پر بھی مہربانی کرتے ہو”
دکاندار کھسیا کر خاموش ہو گیا- پھر ایک دن ایک ملنے والا آیا- دیر تک وہبیٹھا باتیں کرتا رہا- الہیٰ بخش کا جی چاہا لیکن وہ کچھ بولا نہیں- اس کے جانے کے بعد اس نے مزمل سے کہا “بیٹے علم الدین اتنی دیر بیٹھا، تو نے اس کی خاطر نہیں کی”
“چائے منگوائی تو تھی ابا”
“بیٹے پھل سے بھی اس کی تواضع کر سکتا تھا تو—- دیکھ بری بات ہے”
“ابا یہ ہمارا گھر نہیں، دکان ہے- گھر پر ہم ہر طرح کی رواضع کریں گے- پر ابا، دکان پر بس چائے کو ہی پوچھا جا سکتا ہے- دکان کے مال سے تواضع کریں تو برکت نہیں رہتی”
اس روز الہیٰ بخش کی طمانیت کی کوئی حد نہیں تھی- وہ بے فکر ہو گیا- بچے اس سے زیادہ سمجھدار تھے- انہوں نے اس کی غلطیوں کی بھی اصلاح کر لی تھی- وہ دکان چلا سکتے تھے- وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے تھے-
رقیہ سولہ برس کی ہوئی تو الہیٰ بخش نے اس کی شادی کر دی- اس بوجھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ اور ہلکا پھلکا ہو گیا- اس کے بعد اسے ایک کاما ور کرنا تھا- مبشر دکان پر تو بیٹھنے لگا تھا مگر الہیٰ بخش مطمئن نہیں تھا- اسے سب کچھ از سر نو منظم کرنے کی ضرورت کا احساس ہو رہا تھا-
اس روز اس نے تینوں بیٹوں کو جمع کیا “تم بہت اچھے ہو میرے بیٹو- مجھے تم پر فخر ہے” اس نے کہا “آج میں تمہیں جو نصیحت کر رہاہوں، اسے ہمیشہ یاد رکھنا- ایکے میں بڑی طاقت ہے میرے بچو- مل کر رہو گے تو تمہاری طاقت زیادہ ہو گی- الگ ہو جاؤ گے تو کمزور ہو جاؤ گے”
“ہم یہ بات سمجھتے ہیں ابا”
“میں چاہتا ہوں کہ تم کاروبار الگ الگ کرو لیکن ہمیشہ ایک ساتھ رہو- ایک بات یاد رکھو- فساد ہمیشہ عورت سے ہوتا ہے- گھر عورتوں کی وجہ سے توٹتے ہیں مگر عورتیں مردوں کی ذمے داری ہوتی ہیں- بیوی کو اپنی مرضی پر چلانا شوہر کا کام ہے- ایک ساتھ رہنے کے لئے تمہیں اپنی بیویوں کو قابو میں رکھنا ہو گا- نہیں رکھ سکے تو خسارے میں رہو گے- ہار جاؤ گے”
“پر ابا — الگ کاروبار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟” مدثر نے کہا-
“ہاں ابا، ایک دکان ہم لوگوں کے لئے بہت ہے”
“تم ابھی کی سوچ رہے ہو- میں آگے کی سوچتا ہوں میرے بچو- تمہاری شادیاں ہوں گی- کنبہ بڑھے گا- میں چاہتا ہوں کہ وہ وقت آئے تو کاروبار میں ساجھا نہ ہو”
“پھر ابا، سوچا کیا ہے؟” مبشر نے پوچھا-
“ایک دکان اور ڈالنی ہے بیٹے”
“تب بھی دو بھائیوں کا ساجھا تو ہو گا” مدثر نے اعتراض کیا-
‘نہیں بیٹے، میرے ذہن میں نقشہ اور ہے- تو ہمیشہ منڈی جاتا ہے- فروٹ لانا تیری ذمے داری ہے- میں سمجھتا ہوں، تجھے دکان کی ضرورت نہیں- تو مال لا کر دیا کرے گا—– اپنے دونوں بھائیوں کو بھی اور دکان داروں کو بھی- تجھے ایک سوزوکی دلا دوں گا میں- یوں تیری کافی اچھی آمدنی ہو گی- پر یہ بتا تجھے کوئی اعتراض تو نہیں اس میں؟”
“نہیں ابا، آپ ہمارا بھلا ہی سوچو گے نا” مدثر بولا “ویسے بھی میرا دل دکان سے زیادہ باہر کے کاموں میں لگتا ہے”
“یہ دکان مبشر سنبھالے گا، نئی دکان مزمل چلائے گا”
“ٹھیک ہے ابا”
“کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں؟”
“اعتراض کیسا ابا! آپ کا حکم ماننا ہی تو ہماری زندگی ہے” مزمل نے کہا-
“مگر میں وجہ ضرور بتاؤں گا- مبشر کاروبار میں اب آیا ہے- نیا ہے- اس کا تجربہ بھی سب سے کم ہے- اس کے لئے نئی دکان بھاری ہو گی- یہ چلتی ہوئی دکان ہے- اسے یہ بڑی آسانی سے سنبھال لے گا- پھر میں کبھی کبھار اس کا ہاتھ بٹا دوں گا- مزمل چھوٹا سہی مگر دکان کا تجربہ ہے اسے- یہ انشاللہ آسانی سے نئی دکان جما دے گا-”
“آپ کا فیصلہ درست ہے ابا”
ایک مہینے میں اس فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا-
—————-٭————–
زندگی ہموار زمین پر بہنے والی ندی کی طرح پر سکون تھی- سکون ہی سکون، طمانیت ہی طمانیت، نماز بھی قائم تھی اور ———- رات کو سادی سے باتیں کرنے کا شغل بھی جاری تھا- فرق پڑا تو صرف صحت میں جوڑوں کا درد پچھلے کئی برسوں سے جان کے ساتھ لگا ہوا تھا اور وہ جانتا تھا کہ جان کے ساتھ ہی جائے گا-
سادی اس کے لئے پہلی جیسی محترم نہیں تھی- بلکہ پہلے سے زیادہ محترم تھی- آج وہ جو کچھ بھی تھا، اللہ کے کرم کی وجہ سے تھا اور وسیلہ سادی تھی- اس ملازمت ہی کہ وجہ سے وہ یہ کاروبار کرنے کے قابل ہوا تھا- ورنہ جوڑوں کے درد کے باوجود کہیں کام ڈھونڈتا اور کرتا پھرتا- یہ سکون اور طمانیت نہ ہوتی- یہٰی نہیں، آخری دن بھی سادی نے اس پر احسان کیا تھا- وہ اسے نہ بھگاتی تو وہ عمر بھر اس در پر پڑا رہتا اور ذلت اٹھانے کا عادی ہو جاتا- ساری عمر وہ کڑھتا رہتا، دکھی رہتا اور سادی اتنی قریب بھی نہ ہوتی-
یہ خیال جب بھی آتا وہ سادی کے لئے شکر گزاری میں ڈوب جاتا-
مگر اس روز مزمل کی دکان میں بیٹھے بیٹھے اس کی اچانک عجیب ہی حالت ہو گئی- گزری پوری زندگی اس کی نگاہوں میں پھر گئی، کیا وہ سوچ بھی سکتا تھا کہ کبھی ایسی فراغت کی زندگی گزار سکے گا- اسے ایسی محبت کرنے والی خدمت گزار بیوی ملے گی- ایسی سعادت مند اولاد ملے گی- ایسے حکم ماننے والے بچے! کہتے ہیں نیک اولاد اللہ کا سب سے اچھا تحفہ ہوتی ہے- تو اللہ نے اپنے نا فرمان بندے کو کیسے کیسے نوازا- کیا کیا کچھ عطا کیا اور بندے کو تو شکر کی بھی توفیق نہیں ہوئی-
بیٹھے بیٹھے الہیٰ بخش پر لرزہ طاری ہو گیا- بہت عرصے کے بعد باپ کہی کہی ہوئ باتیں یاد آئیں- باپ کہتا تھا حق یہ ہے کہ شکر ادا کر اور بہتر یہ ہے کہ عشق کر- لیکن وہ تو عشق ہی سے گھبرا کر گھر چھوڑ بھاگا تھا- پھر بھی اللہ نے کیسے قدم قدم پر اسے سہارا دیا- کیسی دستگیری کی اس کی- کیسے اس پر عنایت کی بارش کی- اور وہ ہے کہ اب تک پہلے جیسا ہے- نہ شکر نہ عشق ——-
اس کے وجود میں جیسے پشیمانی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے، چنگھارنے لگا- جسم کا رواں رواں استغفار کرنے لگا- پھر پشیمانی کے سمندر نے آنکھوں کا رخ کیا- اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے-
جانے کتنی دیر آنکھوں ست آنسو بہتے رہے- پھر اچانک اس پر گبھراہٹ طاری ہو گئی- اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل بڑا ہوتا جا رہا ہے —- مسلسل — جیسے وہ اس کے جسم سے بھی بڑا ہو گیا ہے- —— پھیلتا جا رہا ہے —— دور پوری زمین کی حد تک —– اوپر آسمان کی حد تک—— اور جیسے دل پوری کائنات پر چھا گیا ہے- یہ بہت خوف زدہ کر دینے والا احساس تھا- وہ —– اس کا وجود جیسے حقیر —— بہت حقیر ذرہ ہو گیا تھا اور دل جیسے کائنات کو نگل رہا تھا- اور اس دل کی آواز —- دھڑکن- ہر دھڑکن جیسے اللہ اللہ پکار رہی تھی——- اور وہ آواز بلند ——- بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی- حتیٰ کہ اس آواز کے سوا کائنات میں کچھ بھی نہیں رہا-
اللہ —- اللہ —- اللہ —- اللہ ——
اچانک ایک اور آواز ابھری- فلک شگاف آواز —– اللہ —– اللہ ہو- اسے احساس ہوا کہ وہ آواز اس کے حلق سے نکلی ہے-اس کے وجود میں گونجی ہے اور وہ دھماکے سے پھٹ گیا ہے، اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا ہے——
اچانک ایک اور آواز ابھری- فلک شگاف آواز —– اللہ —– اللہ ہو- اسے احساس ہوا کہ وہ آواز اس کے حلق سے نکلی ہے-اس کے وجود میں گونجی ہے اور وہ دھماکے سے پھٹ گیا ہے، اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا ہے——
اس چیخ کے ساتھ ہی وہ پیچھے کی طرف گرا- لیکن اللہ —- اللہ ہو کا وہ سلسلہ رکا نہیں- اس کے حلق سے مسلسل یہ صدا نکل رہی تھی اور اسے اس پر قابو نہیں تھا- وہ اس کے اختیار میں نہیں تھی-
مزمل نے وہ چیخ سنی تو باپ کی طرف لپکا- اس نے گرے ہوئے باپ کا سر اپنی گود میں رکھا- وہاں اللہ —- اللہ ہو کے سوا کوئی آواز نہیں تھی- ادھر ادھر کے دکان دار بھی جمع ہو گئے – “کیا ہوا —- یہ کیا ہوا؟ ” کسی نے پوچھا-
‘پتا نہیں ابا بیٹھے تھے- بس اچانک یہ کیفیت ہو گئی”مزمل نے بتایا-
کوئی گلاس میں پانی لے آیا اور چھینٹے دینے لگا لیکن الہیٰ بخش کی کیفیت نہیں بدلی- اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اللہ —– اللہ ہو پکارے جا رہا تھا- البتہ اس کی آواز بتدریج دھیمی ہوتی جا رہی تھی- پھر وہ نالکل ہی معدوم ہو گئی- الہیٰ بخش بے ہوش ہو چکا تھا-
کچھ دیر بعد ہوش آیا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا- اس کی نگاہوں میں اجنبیت تھی- اس نے پھر اللہ ہو کا فلگ شکاف نعرہ لگایا اور اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر بھاگا- مزمل نے اسے روکنے کی کوشش کی- لیکن الہیٰ بخش نے اسے جھٹک دیا- اس وقت وہ بہت توانا، بہت طاقتور ہو گیا تھا-
شام تک پورے ایبٹ آباد کو معلوم ہو گیا کہ بانڈہ بٹنگ کا الہیٰ بخش دیوانہ ہو گیا ہے-
——————–٭————–
شام کو الہیٰ بخش خود ہی گھر آ گیا وہاں سب ہی پریشان تھے- بیٹے اٹھ کر اس کی طرف لپکے اور اسے سہارا دے کر چارپائی تک لائے- “اب کیسی طبعیت ہے ابا؟” مبشر نے پوچھا-
“ٹھیک ہوں بیٹے”
اتنے میں حاجرہ بھی اندر سے چلی آئی “کہاں چلے گئے تھے؟”
“پتا نہیں مگر تھی بڑی خوبصورت جگہ” الہیٰ بخش نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا-
مبشر نے ماں کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ ایسے سوال نہ کرے- “ابا —- تم لیٹ جاؤ” مبشر نے کہا-
الہیٰ بخش لیٹ گیا- مزمل اس کے پاؤں دبانے لگا “اماں لسی لاؤ ابا کے لئے” مدثر نے کہا-
لیکن الہیٰ بخش نے صرف دو گھونٹ پی کر لسی کا گلاس واپس کر دیا- “کیسا خراب ذائقہ ہے اس کا” وہ بڑبڑایا-
“کیسا محسوس کر رہے ہو ابا؟” مبشر نے پوچھا-
“نیند آ رہی ہے اور ٹانگیں بہت دکھ رہی ہیں”
بیٹے اس کی بات سمجھ سکتے تھے- نہ جانے کہاں کہاں مارا پھرا ہو گا وہ- اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تو ان تینوں کی ٹانگیں بھی دکھ گئی تھیں اور وہ انہیں نہیں ملا تھا- یہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کتنا پیدل چلا ہو گا- جبکہ وہ جوڑوں کا مریض بھی تھا-
“ماں —– ابا کا بستر ٹھیک کر دو” مدثر نے ماں سے کہا-
الہیٰ بخش بستر پر لیٹتے ہی بے خبر ہو گیا- سوتے ہوئے وہ بہت پر سکون لگ رہا تھا- اس کے چہرے پر روشنی تھی-
اس روز الہیٰ بخش کے گھر میں شام ہی سے رات ہو گئی- بیٹوں کو بھی اس کی تلاش نے تھکا مارا تھا- وہ بھی جلدی سو گئے- ایک حاجرہ تھی، وہ جاگ رہی تھی- اسے تھکن نہیں تھی- لیکن اس کا دل بہت پریشان تھا- بیٹے اسے سب کچھ بتا رہے تھے- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے-
وہ بیٹھی الہیٰ بخش کی ٹانگیں دباتی رہی-
جانے کتنی دیر بعد الہیٰ بخش کسمسایا “بہت گرمی ہے” وہ بڑبڑایا-
“باہر صحن میں بستر بچھا ہے- چلو — وہاں سو جاؤ”
“صحن میں” الہیٰ بخش نے کہا- پھر اس کا پورا جسم لرزنے لگا- “نہیں—- وہاں تو آسمان ہے- مجھے اس سے ڈر لگتا ہے-”
‘آسمان سے ڈر لگتا ہے- آسمان تو ہمیشہ سے ہے” حاجرہ نے دہرایا-
“ہمیشہ سے ہے لیکن اب بہت قریب آ گیا ہے- میرا دل آسمان کو چھونے لگا ہے اب”
حاجرہ کی تشویش بڑھ گئی- وہ تو سمجھ رہی تھی کہ اب وہ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن وہ تو اب بھی دیوانوں کی سی باتی ں کر رہا تھا- “تمہیں ہوا کیا تھا؟” اس نے پوچھا-
چند لمحے خاموشی رہی پھر الہیٰ بخش نے کہا- “کچھ بھی نہیں- یہ میرا دل بڑا ہونے لگا تھا — ہوتا جا رہا تھا- پھر وہ میرے سینے سے نکل گیا- پوری زمین، پورے آسمان تک پھیل گیا- بلکہ اس بھی آ گے نکل گیا- مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا- پھر مجھے ہوش نہیں رہا- کیا ہوا، مجھے کچھ یاد نہیں” وہ کہتے کہتے رکا- “مجھے اب بھی ڈر لگ رہا ہے حاجرہ”
“وہ وہم تھا تمہارا -ایسا ہو جاتا ہے” حاجرہ نے اسے تسلی دی-
“وہ وہم نہیں تھا حاجرہ” الہیٰ بخش نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کا “لیکن تم نہیں سمجھو گی”
حاجرہ کچھ نہیں بولی- اسے بھی خوف آنے لگا تھا-
“حاجرہ سنو! ذرا یہاں سر رکھو” الہیٰ بخش نے اچانک کہا اور اس کے سر کو اپنے سینے کی طرف کھینچنے لگا-
“نہیں — سنو تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں ہے”
“بیوقوف عورت تم غلط سمجھ رہی ہو” الہیٰ بخش نے غصے سے کہا- “میں کہہ رہا ہوں، تم میرے دل سے کان لگا کر سنو”
حاجرہ کچھ نہیں سمجھی لیکن وہ بہت سہم گئی تھی- اس نے الہیٰ بخش کے سینے پر سر رکھ دیا- “کیا — کیا بات ہے”
“کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی؟”
“ہاں — دھڑکن کی آواز ہے- دل تو دھڑکتا ہے نا”
“کوئی اور آواز نہیں؟” الہیٰ بخش کے لجے میں مایوسی تھی- “میں ہاتھ رکھ کر سنوں تو کچھ اور سنائی دیتا ہے”
“لو —- ہاتھوں کے بھی کان ہوتے ہیں کیا”
“ہاں ہوتے ہیں- تو تمہیں کوئی اور آواز نہیں —”
اسی لمحے حاجرہ کا جسم لرزنے لگا- پہلے اس نے وہمسمجھا- مگر پھر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ جو کچھ سن رہی ہے، حقیقت ہے- الہیٰ بخش کا دل دھڑک رہا تھا—— لیکن دھک دھک کی بجائے وہاں سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی تھی- اس پر لرزہ طاری ہو گیا-
“کیا ہوا —– کیا ہوا حاجرہ؟” الہیٰ بخش نے پوچھا-
“تمہارے دل سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی ہے”
“یہی تو مجھے لگ رہا تھا- میرے ہاتھ نے بھی یہی سنا تھا- تو یہ سچ ہے”
“ہاں جی یہ سچ ہے”
الہیٰ بخش نے حاجرہ کا ہاتھ تھام لیا- “حاجرہ میری بات غور سے سنو، تم نے ٹھیک کہا تھا- یہ سب وہم ہے- نہ میرا دل برا ہوا تھا—–آسمان اور زمین جتنا —- اور نہ ہی یہ آواز اصل ہے- یہ سب وہم ہے- اور وہم کسی کو نہیں بتاتے-”
“لیکن —–”
“میں تمہیں حکم دے رہا ہوں- یہ بات کسی سے نہیں کہنا ورنہ —-”
“نہیں کہوں گی جی- کبھی تمہارا حکم ٹالا ہے” حاجرہ نے لجاجت سے کہا “پر ایک بات میری بھی مانو گے؟”
“بولو—”
“دیکھو—– اب دکان پر نہ جانا- بچے پریشان ہیں- تمہارے پیچھے بھاگیں گے تو کاروبار چوپٹ ہو جائے گا- ہماری تو گزر چکی- مگر انہیں تو زندگی گزارنی ہے- گھر چلانا ہے- سمجھ رہے ہو نا؟”
الہیٰ بخش نے اثبات میں سر ہلایا- “سمجھ رہا ہوں حاجرہ، تم ٹھیک کہتی ہو- مگر کسی طرح انہیں سمجھانا کہ میں بیمار نہیں ہوں- اب تو صحت مند ہوا ہوں”
حاجرہ کا ہاتھ اب بھی لرز رہا تھا-
“جاؤ —- اب تم سو جاؤ”
الہیٰ بخش حاجرہ کے جانے کے بعد بھی دیر تک جاگتا رہا- یہ اس کا معمول تھا- ہمیشہ کی طرح اس رات بھی سادی اس کے پاس آئی تو وہ دور سے ہاتھ ہلانے لگا- “نہیں سادی اب واپس چلی جاؤ – اور آج کے بعد کبھی نہ آنا”
“کیوں الہیٰ بخش —- ناراض ہو گئے ہو کیا؟”
“نہیں سادی، ناراض تو تم سے کبھی نہیں ہو سکتا- تمہارے تو بڑے احسان ہیں مجھ پر- بس اب تم سے رشتہ ٹوٹ گیا- یہیں تک تھا ہمارا ساتھ-”
“بے وفائی کر رہے ہو؟”
“نہیں سادی، بے وفائی کا دور خت م ہو گیا- اب تو وفا کا دور ہے- میں اس کا ہو گیا، جس کا پہلے ہی ہو جانا چاہیئے تھا-”
سادی نے غور اس کی آنکھوں میں دیکھا- پھر آگے بڑھ کر اس کی سینے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا دی- “مبارک ہو الہیٰ بخش، تمہیں منزل مل گئی- میں جاتی ہوں- الودع”
“الودع سادی”
سادی چلی گئی- الہیٰ بخش پھر بھی جاگ رہا تھا- وہ سر گوشی میں دل کی آواز سے آواز ملا رہا تھا- دیوانگی میں بھی اتنا ہوش تھا اسے کہ بچوں کی نیند خراب نہیں ہونی چاہئے-
——————٭——————
دن رات بدل گئے تھے- زندگی بدل گئی تھی- الہیٰ بخش اب دکان پر نہیں جاتا تھا- بعض اوقات دن میں کئی کئی بار اس پر دورے پڑتے تھے اور کبھی دورے کے بعد کی کیفیت اس پر کئی کئی دن طاری رہتی اور کبھی ایسا ہوتا کہ کئی کئی دن وہ نارمل رہتا- نارمل ہوتا تو وہ الہیٰ بخش ہوتا- کیفیت میں ہوتا تو کچھ اور لگنے لگتا- ایسے میں زیادہ تر وہ چپ چاپ بیٹھا رہتا- اس کے ہونٹ ہلتے رہتے مگر آواز نہ آتی- کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کیفیت میں اس پر وحشت طاری ہو جاتی- ایسے میں وہ بغیر بتائے گھر سے نکل جاتا- کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا- اس میں بلا کی طاقت آ جاتی- وہ کسی کے قابو میں نہ آتا- نہ جانے کہاں کہاں وہ مارا مارا پھرتا —— اور آخر میں گھر لوٹ آتا- مگر کبھی تو کئی کئی دن گھر سے غائب رہتا- واپس آتا تو وہ تھکن سے چور ہوتا- نڈھال لیٹا رہتا- یہ معلوم نہ ہوتا کہ وہ کہاں رہا ہے-
وہ پہلے بھی نظریں نیچی کر کے بات کرنے کا عادی تھا- مگر اب تو وہ نظریں اٹھاتا ہی نہیں تھا- ایک بار اس نے نظریں اٹھائیں تو حاجرہ کو خوف آنے لگا- اس کی آنکھو کی وہ چمک —– الامان —-
اس کی آنکھوں کی وہ چمک —– الامان!
ان سے توانائی پھوٹتی اور مسخر کرتی ہوئی محسوس ہوتی تھی- ان میں اتنی طاقت محسوس ہوتی تھی کہ لگتا تھا کہ وہ پہاڑ کو بھی اٹھا کر ایک طرف رکھ سکتی ہیں- پھر ایک دن حاجرہ کو اندازہ ہو گیا کہ الہیٰ بخش جب کیفیت میں ہوتا ہے تو اسے نظر انداز کرنے میں ہی عافیت ہے- اس سے بات کرنا، اسے چھیڑنا ٹھیک نہیں- دشواری یہ تھی کہ بعض اوقات ظاہری حالت سے یہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ وہ کیفیت میں ہے-
اس روز وہ لنگری میں مسالہ کوٹ رہی تھی- سامنے چارپائی پر الہیٰ بخش بیٹھا تھا- وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا- حاجرہ نے تین چار بار اسے پکارا- پھر جھنجلا کر بولی “سنتے نہیں ہو جی، ذرا دروازہ کھول دو جا کر- کوئی ہے دروازے پر”
اس بار الہیٰ بخش نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور بولا “مجھے تنگ نہ کر- تو لنگری توڑتی رہ”
بات زبان سے ادا ہوئی تھی کہ پکے پتھر کی مظبوط لنگری ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی- حاجرہ نے الہیٰ بخش کو دیکھا- وہ پھر اپنی سوچوں میں گم ہو گیا تھا- ادھر دروازے پر دستک اب بھی ہو رہی تھی- اب مسالہ پیسنا تو ممکن نہیں تھا- وہ دروازہ کھولنے چلی گئی-
حاجرہ نے اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی- ایسا ہوتا ہے کہ پتھر کی لنگری رکھے رکھے بھی ٹوٹ جاتی ہے- مسالہ پیسنا ضروری تھا- وہ مسالہ لے کر پڑوس میں چلی گئی “ہماری لنگری ٹوٹ گئی ہے آج”
اس نے پڑوسن سے کہا-
اس نے بٹا اٹھا کر مسالے پر پہلا رگڑا ہی لگایا تھا کہ یہ لنگری بھی ٹوٹ گئی- اس بار حاجرہ کے رونگٹھے کھڑے ہو گئے- کیا یہ الہیٰ بخش کی بد دعا کا اثر ہے-
آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ اب وہ جو لنگری بھی استعمال کرنا چاہے گی، وہ ٹوٹ جائے گی- اس نے یکے بعد دیگرے پانچ لنگریاں منگوائیں اور پانچوں پہلے ہی رگڑے میں ٹوٹ گئیں-
مدثر جھنجلا گیا- “کیا کرتی ہو اماں لنگری کے ساتھ- جانتی ہو، ٹیکسلا سے لانی پڑتی ہے- میں ہر بار دیکھ کر لنگری لایا ہوں”
“بس بیٹے ایک بار لا دے- اب نہیں ٹوٹے گی انشاللہ-” حاجرہ نے گہری سانس لے کر کہا- وہ سمجھ گئی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے- اس نے خود مسالہ پیسنا چھوڑ دیا- اس کام کے لئے اس نے ایک نوکرانی رکھ لی—– مگر اب وہ پریشان ہو گئی تھی- اس کیفیت میں الہیٰ بخش کو تو کچھ پتا نہیں ہوتا تھا- کوئی بیٹا کچھ کہہ بیٹھے اور خدانخواستہ وہ جواب میں کچھ کہہ دے- وہ ہر وقت بیٹوں کے سمجھانے ٹوکنے لگی- یہ اس کے لئے روگ بن گیا تھا-
———————–٭——————–
ایک دن مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ الہیٰ بخش کیفیت میں کہاں جاتا اور کیا کرتا پھرتا ہے!
الہیٰ بخش دو دن سے غائب تھا- اب یہ ایسا معمول بن گیا تھا کہ وہ لوگ پریشان ہی نہیں ہوتے تھے- اس روز وہ دوپہر سے کچھ دیر پہلے دروازے پر دستک ہوئی- حاجرہ کو خیال ہوا کہ الہیٰ بخش آیا ہے- اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اجنبی عورت کے ہاتھ میں مٹھائی کا بڑا ڈبہ تھا-
“جی کس سے ملنا ہے؟” حاجرہ نے پوچھا-
“بابا یہیں رہتا ہے؟”
“کون بابا؟” حاجرہ کو حیرت ہوئی-
“پانی والا بابا”
“کون پانی والا بابا، کس کو ڈھونڈ رہی ہو – کوئی نام تو ہو گا اس کا”
“نام کہاں بتاتا ہے وہ کہتا ہے —- بندہ ہوں خدا کا- ہم تو اسے پانی والا بابا کہتے ہیں- وہ بس پانی مانگ کر پیتا ہے- کہتا ہے —– اندر آگ جل رہی ہے- بجھتی ہی نہیں- پانی پلا دو”
اس دوران الہیٰ بخش آ گیا- عورت نے کہا ” یہی تو ہے پانی والا بابا”
“کیا بات ہے بہن؟” الہیٰ بخش نے پوچھا-
“بابا — یہ میرا بیٹا واپس آ گیا ہے- میں تیرے لئے مٹھائی لائی ہوں”
“میرے لئے کیوں لائی ہو مٹھائی؟”
“تم نے کہا تھا نا کہ یہ ایک مہینے کے اندر آ جائے گا- اٹھایئسویں دن یہ گھر آ گیا-”
‘میرے کہنے سے نہیں اللہ کے حکم سے آیا ہے” الہیٰ بخش نے ترشی سے کہا- “مجھے تمہاری مٹھائی نہیں چاہیئے- جاؤ اللہ کے نام پر غریبوں کو دو- اللہ کا شکر ادا کرو” یہ کہہ کر الہیٰ بخش اندر کمر ے میں چلا گیا-
دونوں عورتیں حاجرہ کی خوشامد کرنے لگیں کہ وہ مٹھائیی رکھ لے “میں کیسے لے لوں” حاجرہ نے کہا “تمہارا بابا جو منع کر رہا ہے”
حاجرہ نے ان سے تفصیل پوچھی تو پتا چلا کہ وہ نواں شہر سے آئی ہیں- الہیٰ بخش کبھی کبھی وہاں جاتا ہے- وہاں کسی کے گھر سے پانی مانگتا ہے اور کئی کئی جگ پانی پی جاتا ہے- کہتا ہے اندر آگ ہی آگ ہے- بجھتی ہی نہیں-
“بابا اسی گھر سے پانی مانگتا ہے، جو کسی مشکل میں ہوں — بڑی مشکل میں ” ادھیڑ عمر کی عورت نے بتایا-
“تمہارا مسئلہ کیا تھا؟” حاجرہ نے پوچھا-
“یہ میرا بیٹا ہے —- اس کا شوہر —” بوڑھی عورت نے ادھیڑ عمر عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “وہ بارہ سال پہلے روزگار کے سلسلے میں کراچی گیا تھا- پہلے تو خط لکھتا رہا- پھر ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا- جیتا ہے یا مر گیا ہے- ہم بڑی تنگی میں رہے- اس کے بچے بیت تھے- جیسے تیسے گزارہ ہوتا رہا- بچے بڑے ہوئے تو کچھ سہارا ملا- پھر اس دن بابا آیا، پانی مانگا- میں نے پانی پلایا- یہ دو جگ پانی پی گیا- پھر بولا- —– بہن تیرا بیٹا ایک مہینے کے اندر اندر آ جائے گا- آٹھائیسویں دن میرا بیٹا آگیا”
وہ اب بھی مٹھائی کے لئے اصرار کر رہی تھیں کہ الہیٰ بخش کمرے سے نکل آیا- “تم گئی نہیں ؟” اس نے پوچھا-
“متھائی لے لو نا بابا”
“میں نے کہا نا ، تمہارا بیٹا اللہ کے حکم سے واپس آیا ہے- اس کا شکر ادا کرو- اپنی حیثیت کے مطابق اس کے نام کی خیرات دو غریبوں کو-”
“حکم اللہ کا تھا بابا پر وسیلہ تو تو تھا”
یہ سن کر الہیٰ بخش آگ بگولا ہو گیا—–
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...