حیات غالب کے سات دہوں کو نہ صرف خود ان کی ذات بلکہ اس دور کی دہلی اور اس کے اطراف کے باسیوں کی زندگی کے حوالے سے ایک انتہائی پر آشوب دور کہا جائے گا۔یہ زمانہ شاعری کیلئے کتنا ساز گار تھا یا ناسازگار یہ بہت کچھ شاعری اور اس کے محرکات سے متعلق آپ کے تصورات و توہمات پر منحصر ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں برٹش اقتدار دن بدن مستحکم ہوتا جا رہا تھا اور مغلیہ تہذیب و معاشرت تیزی سے رو بہ زوال۔غالب آج کے مفہوم کے مطابق ایسے Committedشاعر بھی نہ تھے جس کی شاعری اجنبیوں کے اقتدار کے خلاف احتجاج ، مزاحمت یا پھر بغاوت کی Strategiesمہیا کرتی۔چنانچہ یہ کچھ زیادہ غیر متوقع نہ تھا کہ ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے ملبے پر کھڑے ہو کر انہوں نے جو کچھ لکھا وہ اس ناقابل تلافی نقصان کے احساس کا اور مایوس و بے بسی اور غم و اندوہ کا عکاس ہے جس کے نقوش رفتہ رفتہ ان کے ذہن و ادراک پر مرتسم ہوتے رہے تھے۔اس طرح بنیادی طور پر یہ شاعری ایک قسم کا ماتم و مرثیہ تھی تباہی و بربادی کی ذاتی نقصانات کی اور اس سے پہونچنے والے شدید صدموں کی یا پھر ترجمان تھی اس سنگین حقیقت کے احساس کی کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا اور ہمارا ہو سکتا تھا وہ اب نہیں رہا۔
یہ غم و اندوہ کے ساتھ فکر و استغراق اور شدیدReverberationsسے عبارت شاعری بھی ہے جسے باری باری سے شگفتہ یا یاس انگیز اور مصفّا و مشفّی زبان کی ردا فراہم کی گئی ہے۔نیز یہ کہ یہ شاعری جس حسیت کی نشاندہی کرتی ہے وہ ایک ایسے فلسفیانہ ادراک کا حصہ معلوم ہوتی ہے جس کا وصف انتہائی دشوار اور ناموافق حالات میں بھی صبر و ضبط اور خوش مذاقی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا ہے۔
ان تاثرات کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو نامناسب نہ ہو گا کہ غالب کی شاعری تیزی سے سب کچھ ختم ہو جانے کے شدید اور منفی احساس سے بالآخر انسانیت کے استحکام اور زندگی کی بقا میں ایقان کی مثبت سمت سفر کرتی ہے اور یوں اپنے مجموعی تاثر میں زماں و مکاں کی قید سے آزاد ایک بڑے تخلیق کار کے وجدان کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک قسم کیNihilismکے تناظر سے ابھر کر اس فائنل Affirmationتک پہنچنے اور آفاقیت کی سرحدوں کو چھو لینے کے بعد بھی غالب کا Poetic personaہمیں رزمیہ کی نہیں بلکہ المیہ کی روایت سے ہی جڑا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کی ترجمانی شاید ان کے مندرجہ ذیل شعر سے بخوبی ہو جاتی ہے۔
نے گلِ نغمہ ہوں نہ پردہ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
مگر خود غالب نے جس شعر کے ذریعہ اپنے اس المیہ Personaکی صورت گری کی تھی اور جوان کی ذات کاSignifierمانا جا سکتا ہے وہ حسب ذیل تھا۔
کل اسد کو ہم نے دیکھا گوشہ غم خانہ میں
دست برسر سر بہ زانوئے دلِ مایوس تھا
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اسے شاید اپنا ایک انتہائی سادہ پورٹریٹ تصور کرتے ہوئے اپنے منتخب کلام ریختہ سے خارج کر دیا تھا۔
ویسے غالب کے کلام میں کتنے ہی اور ایسے اشعار ملیں گے جو ایک Tragic poetکی بیاض سے ہی برآمد کئے جا سکتے ہیں۔ اور جن کی Over whelmingly morbid imageryاور تخیل کی خوں آشامی ان کے خالق کے حوالے سے ایک ایسی نفسیات کی نشاندہی کرتی ہے جو خود ترسی و خود اذیتی سے قریب تر معلوم ہوتی ہے۔چند اشعار دیکھئے۔
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
دل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہگزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
ہے خونِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خونبار فشاں اور
قطرہ قطرہ ایک ہیولہ ہے نئے ناسور کا خوں
بھی ذوقِ درد سے باقی میرے تن میں نہیں
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا
سراپا ایک آئینہ دار شکستن
ارادہ ہوں ایک عالم افسردگاں کا
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغ نہاں اور
باغ میں مجھ کو نہ لے جاؤ کہ میرے حال پر
ہر گل تر ایک چشمِ خو ں فشاں ہو جائے گا
منحصر مرنے پر ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہئے
میری قسمت میں غم جب اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیئے ہوتے
مئے ہی کیوں پھر نہ میں پیئے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام
جلوہ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جُو
یاں رواں مژگان چشمِ ترسے خوں ناب تھا
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دوکہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہو گئیں
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یہاں ہجوم اشک سے تار نگہ نایاب تھا
ان کی فارسی بیاض سے بھی کتنے ہی اور ایسے اشعار برآمد کئے جا سکتے ہیں۔
ہم غور کریں تو پائیں گے کہ اپنی ساری شوخی اور طبعی ظرافت کے باوجود غالب کی شاید کوئی ایسی غزل نہیں جسے پوری طرح Cheerfulکہا جا سکے۔ تقریباً ان کے ہی ہمعصر انگریزی کے معروف رومانوی شاعر کیٹس کی زیادہ تر سوگوارOdes (Melancholy)میں سے کم از کم ایک نظم ’’Ode to Autumnکو نقادوں نے ایک exceptionقرار دیتے ہوئے ایک optimisticیاHappy odeکا نام دیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ غالب کی شاید ہی ایسی کوئی غزل ہو جس میں ان کے آنسووں کی نمی نہ محسوس کی جا سکتی ہو۔
غالب کی بیشتر زندگی محرومی سے عبارت رہی ہے کمسنی میں والدین کی شفقت سے محروم ہو جانا ، ننہال میں پرورش ، عزیزوں اور رشتہ داروں کے رحم و کرم پر زندگی گذارتے ہوئے انا و غیرت پر لگنے والے کچوکوں سے نبرد آزمائی ، معاشی پریشانیوں کے حل کے طور پر کم عمری میں ہی بے جوڑ شادی کے بندھن میں باندھ دیا جانا، اولاد کی پے درپے اموات، 1857 کے پر آشوب دنوں میں بھائی یوسف کی دیوانگی میں موت اور دیرینہ دوستوں اور عزیزوں سے جدائی ، بیوی سے مسلسل کشیدگی اور برائے نام رشتہ ، زیست کرنے کیلئے انا و غیرت کی قربانی اور ناپسندیدہ حالات سے مفاہمت اور مالی مسائل سے آخری دم تک چھٹکارہ نہ مل سکنا۔ چنانچہ غالب کی شاعری کے قاری کو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کلام کو ایک ایسے انسان سے نسبت ہے جس نے ایک انتہائی کٹھن وقت میں نہ صرف اپنے فنکارانہ وجود کو پوری طرح ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچائے رکھا بلکہ یاس و محرومی کے اندھیروں اور تباہی و بربادی کے ویرانے میں بھی شاعری کے بیش بہا گل بوٹے کھلاتا رہا۔ ایک انسان کی حیثیت سے غالب کے تئیں آسمان کی یہ بے رحمی اور زمین کی ایسی سفاکی اور ستم ہائے روزگار کے باعث ان کی انا پر لگنے والی ضربات کے بارے میں سوچا جائے تو شاعری کے مختلف رنگ و آہنگ کے باوجود ہمیں فرانسیسی شاعر Baudelaireکی یاد آ جاتی ہے جس کے فنکارانہ وجود کو مسلسل آزمائشوں کا سامنا رہا تھا۔
مغرب کا حوالہ آ ہی گیا ہے تو وہاں کی اس Orientalistسوچ کا ذکر بھی یہاں نامناسب نہ ہو گا جس کے نتیجے میں اردو اور فارسی شاعری دونوں ایک عرصے تک بے توجہی کا شکار رہیں یا پھر غلط توجہ کا مرکز۔ 19ویں صدی تک آتے آتے یورپین نو آباد کاروں نے اپنی اپنی کالونیوں میں قدم جما لینے کے بعد اپنے استعماری مقاصد کے حصول کی غرض سے مقامی زبانوں کے ادبی و ثقافتی سرمائے سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تھی اس کے ساتھ ہی ترجموں کا دور بھی شروع ہوا مگر بد قسمتی سے چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تراجم ناقص اور معمولی درجے کے تھے اور ان اصحاب نے کئے تھے جو زبان و ادب کا اکستابی علم رکھتے تھے اور ناکافی ادبی و شعری ذوق کے حامل تھے۔یہ برٹش پوسٹ Tennysonianجارگن کو شاعری کی معراج سمجھتے تھے اسی کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ برٹش تعلیمی نظام کے رائج ہو جانے سے خود فارسی اور اردو کی حیثیت ثانوی ہو گئی اور عصری اسکالرس کی تربیت Tennyson، Swinburn، Macauleyاور Pater کی تصنیفات سے استفادہ کرنے اور مغربی علوم کے مطالعے پر منحصر ہو گئی۔اس طرح اب اگر غالب اردو کا بڑا شاعر تھا تو بس اسی طرح جیسے Tennysonانگریزی کا۔۔۔۔۔۔یعنی ایک Native Tennyson۔ یوں غالب کی اس تبدیل شدہ پوسٹ رومانوی امیج میں ان کے مشرقی ذہن و ادراک کی کلاسیکی پیچیدگی اور وقت و تاریخ کے جبر یا بالکلیہ خاتمہ وغیرہ کی حسّیات کی جگہ ایک رومانوی کرب(Romantic agony) کی کیفیت نے لے لی جس میں اس تباہی و بربادی اور مایوسی و رنجوری کا کوئی نقش شامل نہ تھا جس سے غالب کی شعری حیات یا زمانہ و تاریخ عبارت رہے تھے۔شاید یہ استعماری ذہنیت کا تقاضہ ہی تھا کہ اس طرح انہیں اردو ، فارسی شاعری کی کلاسیکی روایت سے کاٹ کر محض ایک Victorian Romantistبنا دیا جائے۔بعد کے دنوں میں بھی ایک عرصے تک فارسی اور اردو کے اہم اور بڑے ادیبوں کی تخلیقی حیثیت کے تعین کیلئے زیادہ تر انگریزی اور کبھی کبھی فرانسیسی یا جرمن زبانوں کے اوسط درجے کے ادیبوں کی تخلیقات کو معیار بنایا جاتا رہا۔
مغرب کی اس orientalistسوچ کا نتیجہ تھا کہ وہاں فارسی اور اردو کے شاعروں کا ایک ایسا تصور ابھرا جسے عرصے تک بدلا نہ جا سکا۔ موسم بہار میں جب کہ پھول کھلتے ہیں اور بلبل گاتی ہے باغ کے کسی گوشے میں محو عیش شاعر جس کے پہلو میں اس کی محبوبہ اور ہاتھوں میں شراب کا پیالہ۔ ایسے میں یہ زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ مغرب میں فردوسی یا رومی اور حافظ کے بمقابلہ عمر خیام کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہو جب کہ عمر خیام کی شاعری کے بھی جو ترجمے ہوئے انہوں نے انہیں ایک ایسے وکٹورین شاعر کے رنگ میں رنگ ڈالا جس سے مغربی ذہن کو رغبت تھی۔یہ غور طلب ہے کہ Robert Gravesوہ تنہا اہم انگریزی شاعر ہے جس نے فارسی شاعری کو کسی حد تک قابل اعتنا سمجھا مگر اس نے بھی صرف عمر خیام کی ہی رباعیوں سے ناطہ جوڑا۔چنانچہ اچھے اور بہتر ترجموں کی عدم موجودگی میں فارسی اور اردو میں موجود شعری سرمایہ جسے ایران میں حافظ و رومی نے اعتبار بخشا اور ہندوستان میں غالب اور ان کے ہم عصروں و پیش رووں نے ، ایک طویل عرصے تک گل و بلبل کی شاعری کے نام سے ہی جانا جاتا رہا۔مغرب کی اس Orientalist سوچ کے باعث فارسی اور اردو کے بیشتر مشاہیر کا بیرونی دنیا سے تعارف نہ ہو سکا اور جو کچھ پہونچتا رہا وہ ان کی محض ایک مسخ شدہ stereo typedامیج تھی۔غالب بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھے بلکہ ان کے سلسلے میں تو مزید تاخیر یوں بھی ہوئی کہ ایک مخلص اور قابل مترجم کیلئے بھی ان کی شاعری کا ترجمہ کسی بیرونی زبان میں دشوار ہی رہا۔
فارسی کی طرح اردو شاعری بھیAbstractionsکی شاعری ہے جو غالب کے یہاں اپنے کمال کو پہونچی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔یہ اپنے مابعد الطبعیاتی مزاج کے باعث فلسفیانہ اور تجریدی موضوعات و تصورات سے قربت اور معمولی موجود اور ٹھوس یا Concreteسے گریز کرتی معلوم ہوتی ہے یا پھر انہیں بھی مابعد الطبعیاتی بلندیوں تک لے جانے کی سعی کرتی ہے۔یہ عموماً معنی کی تشریح سے کام نہ کر معنی آفرینی اور نکتہ سنجی کا طریقہ کار اپناتی ہے۔غالباً اردو شاعری کے اسی مزاج کے باعث اس میں ڈرامائی یا بیانیہ شاعری کی کوئی بڑی روایت نظر نہیں آتی۔یہ اپنے اظہار میں تہہ داری زبان کے اختصار اور استعاراتی اسلوب سے عبارت غنائی لہجے کا کلام ہے۔ گو کہ یہ ابتداء سے ہی عشق و محبت سے سروکار رکھتی رہی ہے مگر انفرادی یا مخصوص رشتوں کے تناظر میں نہیں بلکہ ایک وسیع تر جذبے اور ہمہ گیر انسانی احساس و تجربے کے طور پر۔ چنانچہ اردو شاعری کی یا پھر غالب کی شاعری کی مابعد الطبعیات کو اس کے اپنے ہی بنیادی اور فلسفیانہ سوالوں کے جوابات میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ جیسے کائنات میں انسان کی جگہ اور اس کا مقدر، خدا اور انسان اور عشق و محبت کا مثالی یا اخلاقی تصور اور اس کی معنویت وغیرہ۔اردو شاعروں کے تہذیبی و ثقافتی پس منظر اور ان کے کلام پر غور کیا جائے توی ہ سوالات اور ان کے جوابات باہم مربوط نظر آتے ہیں۔
غالب اور ان کے ہم عصروں کی شاعری عموماً صوفیوں کے کلام کی طرح عشق و محبت کی سرشاری یا تمنا و آرزو کی شدت کو Celebrateنہیں کرتی بلکہ ان احساسات و تجربات کے مختلف پہلوؤں کو بار بار نظم کر کے ان کی ہمہ جہتی اور پیچیدگی کا ادراک کرواتی ہے۔فارسی شاعری کی روایت سے جڑے ہونے کے باعث اردو کی صنف غزل ایسے شعری تجربوں اور تخلیقی عمل کو فطری اور مثالی طور پر Carryکرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری کے ابتدائی دور(ریختہ) سے تا زمانۂ حال یہی مقبول ترین صنف رہی ہے جس کا اس سے بہتر متبادل کہیں کسی دوسری زبان کی شاعری میں دکھائی نہیں دیتا۔غالب کایہ اعجاز رہا ہے کہ انہوں نے اردو میں اس صنف سخن کو اس کی معراج تک پہونچا دیا۔ انہوں نے اس میں ایک لٹتی اور برباد ہوتی ہوئی تہذیب کے تناظر میں اپنی وجودی بے بسی ایک اجنبی اقتدار اور کلچر کے اس کی جگہ لینے کے تئیں اپنی الجھن و تشویش اپنوں کے بچھڑ جانے اور سب کچھ گنوا بیٹھنے سے پیدا شدہ جانکاہ تنہائی اور ماضی کی روایت و اقدار اور انسانی رشتوں اور ان کی تقدیس کی بازیافت کی شدید خواہش سبھی کچھ سمودیناچاہا چنانچہ یہ غزلیں جنہیں ہم Condensed versesکہہ سکتے ہیں وسیع ترانسانی ہمدردیوں اور شدید تر داخلیت سے عبارت ہیں جن میں عشق اور المیہ محبت ایک عظیم اور over reaching استعارہ بن کر ابھرتے ہیں کیونکہ شاعر کے نزدیک شاید یہی اسے خدا ، کائنات اور انسان تینوں سے جوڑ کر رکھ سکتے ہیں۔آخر میں کہنا چاہوں گا کہ غالب کی بہترین شاعری اپنی تحریر کی تمام تر شوخی کے باوجود ایک قسم کی گہری سوچ اور استغراق میں ڈوبی ہوئی شاعری ہے گو کہ اس کا پیرہن بہرحال کاغذی اور فریادی کا ساہی ہے کہ یہ کبھی دبی دبی سسکیاں بن کر ابھرتی ہے اور کبھی نالہ و شیون۔ اپنے مکتوبات میں بھی وہ خوں چکاں خامہ اور فگار انگلیوں سے حال دل لکھتے ہیں یا پھر مزاح کے پردے میں دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔
ایک دو نقادوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ غالب کی شاعری اپنے اجتماعی تاثر میں مغرب میں Wallace Stevensکی شاعری کے مزاج سے کسی قدر مماثلت رکھتی ہے جہاں ایک حقیقی اور ذہنی و تخلیقی زندگی جو جیسی اور جس طرح بھی جی گئی اس کی گونج اس انسان سے منسوب شاعری میں بھی بڑی حد تک سنائی دیتی ہے۔ چونکہ غالب کے یہاں بھی شخصی یا ذاتی اور آفاقی یا کائناتی الگ الگ نہیں ہیں تویوں ان کی روداد حیات بھی نہ صرف ان کی ذہنی و تخلیقی دنیا کی کہانی سامنے لاتی ہے بلکہ اس وقت اور زمانے کی بھی جس میں وہ سانس لیتے تھے۔ ساتھ ہی Stevensکی تخلیقات کی طرح ہی غالب کی شاعری میں بھی رومانویت اور عقلیت پسندی کے دو متضاد رویے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے نظر آتے ہیں۔
یہاں اس بات کا اظہار بھی اہم معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی شاعری اپنے قاری کے تئیں پراعتماد لگتی ہے اور شاید اسی لئے اس کے ذوق و ذہانت کیلئے ایک چیلنج بن کر سامنے آتی ہے وہ اس کے احساس و شعور کا حصہ بن کر اس پر بتدریج منکشف ہونا چاہتی ہے کہ اسے اس کا درک ایک ایسے فنکار کی تخلیق کے طور پر ہو جس نے ایک انتہائی پر آشوب دور میں جیتے ہوئے تکمیلیت کی تمنا کی جب کہ تکمیلیت کا حصول ناممکن ہو چلا تھا یا پھر محبت کی نامرادیوں کا ادراک ہوتے ہوئے بھی اسے اپنی ذات کے حوالے سے ایک ایسے بے مروت زمانے میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتارہاجس سے وہ رخصت ہو چکی تھی غالب نے شاعری کی کہ شاید وہ اُسے ہی اپنی نجات کا آخری وسیلہ سمجھتے تھے اور اپنے ذہن میں بسنے والے اُس انسان کی شبیہ کی بازیافت کا بھی جس کے نقوش بڑی تیزی سے دھندلے پڑتے جا رہے تھے۔
ـــژان ماری گستاو لے کلینرو(فرانسیسی ادیب) نے 2008ء کا نوبل انعام پیش کئے جانے پر اپنے خطبہ قبولیت میں بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ ہم کیوں لکھتے ہیں اس آسان سوال کا ہم سب اپنا اپنا جواب رکھتے ہیں۔مگر ہم لکھ رہے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عملی اقدام نہیں کر رہے ہیں اور ہم حقیقت کے روبرو اپنے آپ کو بڑی مشکل میں پاتے ہیں چنانچہ ہم نے اپنے رد عمل کو ظاہر کرنے کیلئے ایک دوسرا راستہ منتخب کر لیا ہے ابلاغ کا دوسرا وسیلہ ،ایک مخصوص فاصلہ اختیار کر کے غور کرنے کا موقع ڈھونڈ لیا ہے۔
تو شاید ایک انتہائی پر آشوب دور میں تاریخ کے جبر اور زندگی کی سفاکیوں کا سامنا کرنے کیلئے زبان کے دیگر وارثوں کی طرح جوکسی عملی اقدام کے سلسلے میں اپنے آپ کو بے بس پا کر ایک مخصوص فاصلہ اختیار کرتے ہوئے ابلاغ کا دوسرا راستہ منتخب کر لیتے ہیں غالب نے بھی شاعری کی اور اپنے دل کی باتیں یوں کاغذ کے سپرد کرتے رہے جیسے کسی قریبی شفیق دوست کو راز دار بنا رہے ہوں اور اس طرح شاعری کے استعاراتی اسلوب میں ایک ایسے دور میں بھی بات کرنے کی آزادی حاصل کر لی جو مکمل طور پر زبان بندی سے عبارت تھا۔ ہاں جب وہ مصلحتوں کے شکنجے میں کسے ہوئے ’’ دستنبو‘‘ کی تصنیف کے لیے مجبور ہوئے اور یوں قلم کو سیدھے سیدھے ظالم و غاصب کی مدح سرائی کیلئے استعمال کرنے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے ایک سچے ادیب کا فرض نبھاتے ہوئے کچھ خفیف ترین اور مبہم لکیریں ہی کھنچیں۔ اپنی شاعری اور تحریروں میں وہ وقت و تاریخ کے گواہ بنے گو کہ ہر ادیب کی طرح وہ بھی جانتے رہے ہوں گے کہ ان کی تخلیقات وقت کا دھارا نہیں بدل سکتیں مگر شاید ہر ادیب جب لکھتا ہے تصور کرتا ہے اور خواب دیکھتا ہے تواس کے دل میں یہی آرزو دبی ہوتی ہے کہ مبادا اس کے الفا ظ اختراعات اور اس کے خواب حقیقت پر اثر انداز ہو جائیں اور ایک بہتر دنیا کے لئے راستہ ہموار ہو جائے کیونکہ بقول ژاں ماری گستاو ادیب کوئی عملی اقدام نہیں کر سکتا وہ صرف لکھ سکتا ہے کہ اگراسے کچھ آتا ہے توبس سوچنا ، یاد کرنا اور تصور کرنا۔
٭٭٭٭٭٭