عاہل ہوٹل ميں داخل ہا تو ساحل سامنے ہى كهڑا اوئے بڈى اٹھ گياچل آ پهر كهانا كها ليں بڑى بهوک لگى ہے يار “”كهانا كها كر دونوں بهائى باہر نكلے اپنے بابا كے لئے تهوڑى بہت شاپنگ كى اور اک كيفے ميں چلے گئے يار تم كو پہلى نظر كى محبت والى بات پر يقين ہے عاہل نے پوچها “ہاں كچھ حد تک ہے”” تم كو ہے يقين ساحل نے الٹا سوال كر ديا پہلے تو نہيں تها اب كچھ كچھ ہونے لگا ہے عاہل نے كهوئے كهوئے انداز ميں كہا “”اوووو بهائى ساحل نے عاہل كى آنكهوں سامنے چٹكى بجائى خيريت ہے نا سب ساحل نے اپنے شرارتى لہجے ميں كہا”يار تم بهى نا ميں بس يوں كہ رہا تها خير چهو ڑو چلو ہوٹل چل كے سوئيں صبح ناران كے لئے بهى نكلنا ہے كہتا ہوا عاہل اٹھ كهڑا ہوا اور دونوں بهائى ہوٹل كى جانب چل پڑے
*************
جى بات سنيں اشمل كى امى نجمہ بيگم نے اپنے شوہر اجمل صاحب كو مخاطب كيا آج وه صغرى بہن آئيں تهيں اشمل كے لئے بہت اچها رشتہ لے كر لڑكا كا فوڈسٹريٹ ميں اپنا كهانے كا ريسٹورنٹ ہے اكلوتا ہے اور ہمارى طرح شريف لوگ ہيں صغرى بہن بتا رہيں تهى کہ بہت اچهے لوگ ہيں ہمارى اشمل بہت خوش رہے گى انشاء اللّه آپكا كيا خيال ہے؟؟؟
بيگم بات يہ ہے كہ ہر ماں باپ كى خواہش ہوتى ہے كہ انكى بيٹى كے نصيب بہت اچهے ہوں ميرى بهى يہى دعا ہے ہاں اک بار ميں ايوب بهائى سے مشوره كر لوں اس رشتے كے بارے ميں پهر ہى بات آگے بڑهائيں گے آپكو تو پتا ہے ايوب بهائى ميرے بهائيوں سے بڑھ كر ہيں انہوں پچهلے 25 سالوں ميں ميرا ہر مشكل ميں تب تب ساتھ ديا ہے جب اپنے سگے رشتے داروں نے بهى منہ موڑ ليا تها انكا مشوره ميرے لئے بہت اہم ہے آخر بيٹى كا معاملہ ہے بيٹيوں كے معاملات ويسے بهى بہت نازک ہوتے ہيں “”جى ٹهيک ہے ايوب بهائى كاغان ناران سے واپس آ جائيں تب بات كيجيے گا تب تک اشمل بهى آ جائے گى نجمہ بيگم نے بهى شوہر كى ہاں ہاں ملائى
*************
اگلے دن صبح صبح ايوب صاحب فيملى كو لے كاغان روانہ ہوئے كاغان پہنچ كر سب نے خوب ہلہ گلہ كيا خوب سارى شاپنگ اور سير كے بعد اگلے دن وه ناران كے لئے نكلے “”گو كہ ناران پہنچ كر اشمل كو بہت تهكن ہو گئى تهى پر جهيل سيفل ملوک كا نام سنتے ہى اسكى سارى تهكن اتر گئى سب مل كر جهيل پر گئے”” افففففف بسمہ كيا ہم جنت ميں آگئے ہيں اشمل كے نہ سے بےاختيار نكلا “”بسمہ بهى منہ كهولے حسين پہاڑوں كى گود ميں چهپى اس حسين جهيل كو ديكھ رہى تهى”” صحيح كہ رہى ہو اشمل مجھے یہى لگ رہا ہےہم جنت ميں آ گئے ہيں يار دونوں ابهى باتيں كر ہى رہيں كہ بسمہ كو اسكى امى نے آواز دى اور وه انكى بات سننے چلے گئى اب اشمل وہاں اكيلى تهى كتنا حسين نظاره ہے اشمل نے سوچا “”
پانى سےكهيلتى اشمل آہستہ آہستہ چلتى ہوئى كب گہرائى ميں آگئى اسے اس بات كا احساس تب ہوا جب اسے اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا “”اشمل نے ہاتھ پاؤں مارے پر كوئى فائده نهيں تها اسے تيرنا بلكل نهيں آتا تها اسكى سانس ركنے لگى آنكهيں بند ہونے اور وه اپنے ہوش و حواس سے بيگا نا ہوگئى “”
اشمل كو جب ہوش آيا تو وه ہوٹل كۓ كمرے ميں ليٹى تهى اور پاس كهڑى ايوب صاحب كى فيملى اسے پريشانى سے ديكھ رہى تهى “”اسكے ہوش ميں آتے ہى بسمہ نے پوچها كيا ہوا تها تمہيں ميں تو تمہيں جهيل كے پاس بيٹها چهوڑ كے گئى تهى پهر يہ سب كيسے ہوا تم ڈوب كيسے گئى تمہيں پتہ ہے ہم كتنے پريشان ہو گئے تهے””وه تو اللّه بهلا كرے اس فرشتہ صفت انسان كا جس نے تم كو گہرے پانى سے بر وقت نكال ليا ورنہ پتا نہيں آج كيا ہو جاتا ايوب صاحب نے اشمل كے سر پر ہاتھ پهير كے كہا ” آئى ايم سورى انكل مجھے پتا ہى نہيں چلا ميں كب پانى سے كهيلتى كهيلتى گہرے پانى ميں چلے گئى آئنده سے ايسى كوئى غلطى نہيں ہو گى “ارے نہيں بيٹا تم ايسے سورى مت بولو قسمت ميں يہ پريشانى لكهى تهى سو جو ہونا تها ہو گيا شكر اس بات كا ہے كے تم ٹهيک ہو چلو بيٹا اب آرام كرو صبح تهوڑا سا گهوم لينا تم بچے لوگ پهر كل شام كو واپسى ہوگى ہمارى كہتے ہوئے سب چلے گئے اور بسمہ اشمل كے سر ميں ہاتھ پهير كر اسے سلانے كى كوشش كرنے لگى وه جانتى تهى كہ اسكى معصوم سى سہيلى اس واقعے كے بعد بہت خوفزده ہو گئى
اگلے دن جب اشمل سو كر اٹهى تو كافى فريش فيل كر رہى تهى كل كا واقعہ كافى حد تک اسكے دماغ سے نكل گيا تها فجر كى نماز ادا كرنے كے بعد سب نے مل كر ناشتہ كيا اور شاپنگ كے لئے نكلے شاپنگ كے بعد آخر ميں سب نے آنسو جهيل ديكهنے كا پلان بنايا
جهيل كا نام سنتے ہى اشمل تهوڑا گهبرا گئى”پر بسمہ كے سمجهانے پر مان گئى دوپہر كے كهانے كے بعد سب آنسو جهيل پر پہنچے ٹهنڈى ٹهنڈى ہوا اشمل كو بہت اچهى لگ رہى تهى بسمہ اور عبداللّه جهيل كے كنارے فٹبال سے كهيلنے لگے بسمہ كے ابا اور امى ايک طرف بيٹهے انكو كهيلتا ديكھ كر خوش ہو رہے تهے اور اشمل تهوڑے فاصلے پر كهڑى جهيل كى پكس بنا رہى تهى “”قريب جا كر بناتى ہوں پكس يہ سوچتے ہوئے اشمل چل كر تهوڑا آگے آئى اور جهک كر پک لينے لگى ۔۔۔۔۔۔۔هممممم آج پهر خود كشى كرنے آئيں ہيں آپ آخر ميں كب تک آپكو بچاتا رہوں؟؟؟ اشمل كو اپنے كان كے پاس بلكل پيچھے سے آواز آئى اس نے گهبرا كر پيچھے ديكها تو پيچھے اک انجان انسان كهڑا تها اشمل نے جب اسكى سبز آنكهيں ديكهيں تو اسے لگا پہلے بهى اسے كہيں ديكها ہے ججججى آپ كون اشمل نے تهوڑا جهجهکتے ہوئے پوچها “”نيكى كا تو كوئى صلہ ہى نہيں لو جى ہم نے دو بارميڈم كو بچايا
اک بار پہاڑ كى اونچائى سے گرنے سے اک بار پانى كى گہرائى ميں ڈوبنے سے اور آپ ہيں كے اپنےمحسن كو بهول بهى گئيں “”چليں جى گوڈ بائے عاہل مصنوعى خفگى دكهاتے ہوئےآگے كى جانب چل ديا ۔
اسكو يوں غصے سے آگے جاتا ديكھ كے اشمل كو شدت سے شرمندگى كا احساس ہوا بات سنيں اشمل تقريبا بهاگتے ہوئے اسكے پيچهے آئى “”اشمل كى آواز پر وه رک كر مڑا جى فرمائيے “”آئى ايم سورى ميں نے آپكو پہچانا نہيں تها وه تو آپكى آنكهوں كا رنگ ديكھ كر ياد آيا بہت شكريہ ميرى جان بچانے كے لئے “” ويسے اک بات پوچهوں ؟؟؟اشمل نے كہا۔
جى ضرور پوچهيں عاہل نے كہا “” جب ميں پانى ميں كهيل رہى تهى تو ارد گرد كوئى مجهے نظر نہيں آيا پهر گہرے پانى ميں آپ كہاں سے آگئے تهے مجهے بچانے ؟؟؟
ہا ہا ہا ميم يہ لمبى كہانى ہے كہيں بيٹھ كر سناؤں؟؟؟عاہل نے شرارتى لہجے ميں پوچها۔
ارے نہيں نہيں رہنے ديجئے بس شكريہ بہت بہت دو بار ميرى مدد كر كے جان بچانے كے لئے كہتى اشمل تيزى سے آگے بڑھ گئى اور عاہل سينے پر دونوں ہاتھ باندهے اسے دور جاتا ديكهتا ره گيا ۔
******************
واپسى كے لئے سب گاڑى ميں بيٹھے تو اسى وقت ايوب صاحب كے فون پر بيل ہوئى انہوں جيسے ہى كال پک كر كے كان كو لگائى انكے چہرے كا رنگ ہى اڑ گيا۔
كال پر انكے جان سے پيارے چهوٹے بهائى اسلم كى موت كى خبر تهى ۔اسلم شہر كسى ضرورى كام سے آيا تها دير رات واپسى ہوئى تو راستے راہگير لٹيروں نے روک كر جب پيسے مانگے تو اسلم كے انكار پر اک لٹيرا طيش ميں آكر اسے گولى مار گيا گولى اسلم كے دماغ ميں لگى اور وه سارى رات سنسان سڑک پر پڑا رہا اور خون بہتا رہا صبح وہاں سے گزرتے راہگيروں نے اسكى لاش ديكهى اور پوليس كو خبر دى پوليس نے ضرورى كاروائى كے بعد لاش كو لواحقين كے حوالے كر ديا 4 جوان بيٹيوں كے باپ كى لاش جب گاؤں پہنچى تو كہرام مچ گيا۔
*****************
لاہور پہنچتے ہى ايوب صاحب اجمل صاحب كے گهر گئے اور انكو سارى بات بتانے كے بعد بولے اجمل بهائى آپ تو جانتے ہيں ہم دو ہى بهائى تهے اسلم كو ميں نے اپنى اولاد كى طرح پالا ہے آج وه اس دنيا ميں نہيں رہا تو ميں اسكى جوان بيٹيوں كو دنيا كى گندى نظروں كے لئے اكيلا نہيں چهوڑ سكتا اس لئے ميں نے فيصلہ كيا ہے بيوى بچوں سميت گاؤں شفٹ ہو جاؤں وہاں اپنى زميں بهى سنمبهالنى ہے اسلم كے بعد كوئى مرد نہيں وہاں جو زمينوں كى ديكھ بهال كرے ميں جا رہا ہوں اپنا بهابهى كا اور اشمل كا بہت خيال ركهيے گا ميں بيچ بيچ ميں چكر لگاتا رہوں گا كو ئى پريشانى ہو تو كال كر لى جئے گا اب ميں چلتا ہوں جنازے كا وقت ہو رہا سب ميرى راه تكتے ہوں گے كہتے ہى ايوب صاحب اجمل صاحب كے گلے لگ گئے “” كاش ميں معذور نا ہوتا تو آج تمہارے ساتھ اسلم كے جنازے ميں شركت كرتا آتے رہنا ملنے ہمارا تمہارے سوا كوئى مخلص رشتہ نہيں اپنے سگے رشتوں نے بهى منہ موڑ ليا تها ميرے معذور ہونے كے بعد اس وقت بس تم ہى تهے جس نے مجهے زندگى كى طرف واپس آنے ميں مدد كى پتا نہيں ہم تم سب كى جدائى كيسے سہ پائيں گے بولتے بولتے اجمل صاحب كى ہچكى بندھ گئى آنسو تهے كے رک ہى نہيں رہے تهے اسى طرح نم آنكهوں سے اجمل صاحب كى فيملى نے ايوب صاحب كى فيملى كو رخصت كيا ۔
اجمل صاحب كو لگا كےاصل ميں وه آج معذور ہوئے ہيں اور اشمل تو بہنو ں جيسى دوست كے چلے جانے سے ٹوٹ ہى گئى۔
بيٹياں اپنے ماں باپ كى كتنى ہى لاڈلى كيوں نا ہوں پر اک دن بياه كر ماں باپ كا آنگن چهوڑ كر جانا پڑتا ہے ماں باپ تو كانٹا تک چبهنے نہيں ديتے سسرال ميں ہر سختى سہ جاتيں ہيں والدين كى خواہش ہوتى ہے كہ انكى بيٹى كو دنيا كى ہر خوشى ملے پر ضرورى تو نہيں انسان كى ہر خواہش پورى ہو “اشمل كے بابا اور امى كى بهى يہى خواهش تهى كے انكى بيٹى كو دنيا كى ہر خوشى ملے پر انہيں يہ نہيں پتا تها انكى يہ خواہش انكى زندگى ميں پورى نہيں ہوگى۔
***********
اتوار كے دن خالہ صغرى آ گئيں لڑكے والوں لے كر قسمت ميں سب كچھ جلدى جلدى ہونا لكها تها سو سب جلدى جلدى طے ہوگيا ان لوگوں كو پہلى نظر ميں ہى اشمل پسند آ گئى
كچھ دن بعد نجمہ بيگم بهى خالہ صغرى كے ساتھ جاكر لڑكا پسند كر آئيں گو كہ انہيں لڑكا بس قبول صورت ہى لگا پر يہ سوچ كے شكل كا كيا كرنا سيرت اچهى ہونى چاہيے لڑكا اچها كماتا اور تميز دار ہے كافى ہے ويسے بهى بہن صغرى نے لڑكے كے شريف اور اچهے ہونے كى گارنٹى لى ہے انہوں نے اس معاملے پر شوہر سے بات كى تو انكا دل نہيں مانا پهر بهى بيوى كى منہ سےاتنى تعريفيں سن كے مان ہى گئے ۔
لڑكے والوں كا كہنا تها كۓ انكو لڑكى كے سوا كچھ نہيں چاہيے پهر بهى نجمہ بيگم نے آج تک كميٹياں ڈال كر جنتے پيسے جمع كئے تهے اس ميں بيٹى كو اپنى حيثيت سے بڑھ كر جہيز ديا اس اميد پر كے وه اپنے گهر ميں خوش رہے پر اشمل كى قسمت ميں كچھ اور ہى لكها تها۔
***********
كل ہى عاہل اور ساحل واپس اسلام آباد اپنے گهر پہنچے تو اپنے بابا جانى كو اپنے لئے اداس پايا “ارے يار تم دونوں تو جا كر باپ كو بهول ہى گئے تهے دبريز صاحب نے محبت بهرا شكوا كيا “”اوه ه ه ميرے پيارے بابا جانى آپ ہى كو اپنے مريضوں سے اتنا پيار ہے جو يہاں ركے تهے ورنہ ميرا تو دل چاه رہا آپكو بهى ساتھ لے چلوں خير اب ميں آپكو چهوڑ كر كہيں نہيں جاؤں گا وعده ميرے پيارے بابا جانى ساحل نے دبريز صاحب سے لاڈ سے لپٹ كر كہا “”پر ميں آپكو دو سال كے لئے چهوڑ كر جا رہا ہوں بابا آپ ہى كى خواہش پر آپ ہى چاہتے ہيں كے ميں آگے كى پڑهائى كے لئے ابروڈ جاؤں جانے آپكے بنا يہ وقت كيسے كٹے گا عاہل نے اداسى سے كہا “اوه ہو يار بڑے ہو گئے ہو بچے تهوڑى ہو جو يوں اداس ہو رہے ہو اور چٹكى بجا كے دو سال گزر بهى جائيں گے ويسے بهى انٹر نيٹ كا دور ہے ويڈيو كال پے كيا كريں گے باتيں روز بيٹے كو حوصلہ ديتے ہوئے دبريز صاحب نے كہا حالانكہ دل سے خود بہت اداس تهے پر اپنى اداسى بيٹے سے چهپا رہے كے كہيں وه باپ كى اداسى ديكھ كر جانے كا فيصلا ترک ہى نا كر دے ايسا ہى پيار تها باپ اور بيٹوں كا دوستوں سے بڑھ كر
***********