دانش یار کل تم اکیلے ہی چلے جانا میں نہیں جاؤں گا۔۔ دانش کو کل اپنے کزن کی شادی پر جانا تھا جو کہ حسین کا بھی دوست تھا۔۔
کیوں تم کیوں نہیں جاؤ گے۔۔
یار بابا جان نے ایک ماہ کے لیے اپنے دوست کی جگہ مجھے یونیورسٹی میں لیکچر دینے کا بولا ھے۔۔ تو مجھے کل صبح سے وہاں کلاس اٹینڈ کرنی ہے۔۔ اس کے بعد مجھے شام کو آفس میں بھی ایک ضروری کام ہے۔۔۔
اوہو!!!! تو مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔ مجھے خود نہیں پتہ تھا آج صبح ہی بابا جان نے کہا ہے۔
حسین بہت تھکے سے لہجے میں بولا۔۔ آج کل وہ بہت اداس رہتا ہے چاہ کر بھی وہ مناہل کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کر سکا سوائے نام کے۔۔
حسین ولید کی واپسی کا شدت سے منتظر تھا کہ کب وہ واپسی آئے اور میں اپنے گھر والوں کو مناہل کے گھر بھیجوں۔۔
اچھا اب میں سوتا ہوں کل جلدی اٹھنا بھی ہے۔۔
گڈ نائٹ۔۔۔
اب دانش نے بھی تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اس ورنہ اس کا بھی دل تھا اس سے باتیں کرنے کو بہت دنوں سے ٹھیک سے بات چیت نہیں ہوئی تھی۔۔
دانش جانتا تھا کہ یہ اس لڑکی کے بارے میں سنجیدہ ہے اور اس سے عشق کرنے لگا تھا۔۔
نہ جانے کب حسین کی آنکھ لگی مناہل کے بارے میں سوچتے سوچتے۔۔
وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار کھڑی بھائی کا انتظار کر رہی تھی۔۔
آج موسم بہت ہی خوشگوار تھا بادلوں سے ڈھکے آسمان اور ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی
کسی بھی وقت بارش کے برسنے کا مقام تھا۔
گھر والوں نے مناہل کو آج یونیورسٹی جانے سے منع بھی کیا تھا موسم کی خرابی کے باعث۔۔ لیکن وہ نہیں مانی اور اب جانے کے لیے تیار تھی۔۔ مناہل کو تو بارش والے موسم سے عشق تھا۔۔
دوسری جانب حسین اس موسم کو دیکھ کر سخت کوفت میں مبتلا ھو گیا تھا۔۔ مناہل جونہی یونیورسٹی پہنچی تو اس کی دوستں بھی موسم سے لطف اندوز ہو رہیں تھیں۔۔ اس موسم سے لطف اندوز ھونے کے بعد وہ سب کلاس میں چلی آئیں۔
آج سر قاسم کی جگہ کس اور نے لیکچر دینا تھا اس وجہ سے وہ تھوڑی بہت گھبرای ہوئیں تھیں۔۔
ساری کلاس آنے والے سر کا انتظار کر رہی تھی۔۔ تب ہی سر کلاس میں انٹر ہوئے۔
سلام کے بعد اپنا مختصر سا تعارف کروایا۔
ساری کلاس آنے والے سر کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔۔ یہ بات سر نے بھی بری طرح محسوس کی پر نظر انداز کر دیا۔۔
سر اپنا لیکچر سٹارٹ کرنے ہی واے تھے کہ کلاس میں سے کسی لڑکی کی آواز آئی۔
سر آپ کا نام کیا ہے۔؟؟؟؟
وہ لڑکی کوئی اور نہیں مناہل کی دوست زرناب تھی۔۔
یہی سر نے نام پوچھنے والی کی طرف نطر ڈالی تو دم بخود رہ گئے۔۔
اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی کوئی اور نہیں بلکہ مناہل فرید تھی۔۔
سر کو ساکت کھڑے دیکھ کر ساری کلاس سر کی اس حرکت پر بوکھلائی گئی ۔۔
حسین کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ حقیقت میں مناہل کو دیکھ رہا ہے یا کوئی خواب۔۔
زرناب پھر سے بولی سر آپ کا نام؟؟
تو حسین سوچ کی دنیا سے باہر آیا اور اپنا نام “حسین سعادت” بتایا۔۔ تب ہی مناہل کی بے ساختہ نظر اٹھی اور وہ کچھ وقت کے لیے نظر ہٹانا بھول گئ۔۔ وہ حسین کو دیکھ کر بوکھلائی گئ تھی۔۔
اور حسین بھی لیکچر دیے بغیر کلاس سے باہر آگیا۔۔
حسین آج حد سے زیادہ خوش تھا اس کو تو کوئی خواب لگ رہا تھا۔۔ لیکن یہ کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی۔۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ مناہل فرید ہی تھی
حسین کی پہلی نظر کی محبت۔۔
اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کی دعا اتنی جلدی قبول ہو جائے گی ابھی کل ہی تو اس نے دل میں مناہل سے ملنے کی دعا مانگی تھی اور آج وہ حقیقت بن کر اس کے سامنے بیٹھی تھی۔۔
شام ہو چکی تھی۔۔ موسم آج صبح سے ہی خوشگوار تھا۔۔ کافی دیر جاری بارش اب ہلکی ہلکی پھوار میں بدل چکی تھی۔۔ موسم بہار کی پہلی بارش نے ہر سو رنگ بکھیر دے تھے۔۔ فضا جسے ساری دھل دھلا کر نکھر گئی تھی۔۔ ہوا کی ہلکی ہلکی خنک بڑی بھلی اور دل کو سکون دیے رہی تھی۔
ایسے خوبصورت موسم میں حسین اپنے آفس کی کھڑکی کے قریب کھڑا کچھ زیادہ ہی اداس ہو گیا تھا۔۔ اس کے خوبرو چہرے پر داستان محبت کی بڑی وضاحت تھی۔۔
اور زہن میں اس حسن کی دیوی کی تصویر تھی۔۔ جو اس کے دل کے چمن کو آباد کرنے والی ھے۔۔
حسین یا سوچ کر مسکرا دیا۔۔
آج یونیورسٹی میں اسے دیکھنے کے بعد حسین کا دل شدت سے اس سے بات چیت کرنے کو چاہ رہا تھا۔۔
ابھی وہ انہیں سوچوں میں گم تھا کہ دانش آفس میں داخل ھوا۔۔
اسلام علیکم!!
مگر حسین کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔۔
یار کیا بات ہے۔۔
اسے کیوں کھڑے ہو۔۔
سب ٹھیک تو ہے نا؟؟
تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔
ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔
بس آج اس سے ملنے کو دل کر رہا ہے۔۔
لیکن ملنا کیسے ہے۔ تم اس کے بارے میں کچھ جانتے تو ہو نہیں۔۔ اور یہ ولید بھی ابھی نہیں آیا واپسی۔۔
تمہیں پتہ ہے۔۔
کیا!
آج وہ ملی تھی۔۔
ہیں؟؟ خواب میں ملی تھی۔۔ دانش اس کی بات سن کر حیران ھوا تھا۔۔
نہیں یار آج سچ میں وہ ملی تھی۔۔
اچھا کہا ملی تھی۔۔
یونیورسٹی میں۔۔
یہ تو اچھی بات ہے ملی ہے تو۔۔ پھر اداسی کسی بات کی۔۔۔۔
اچھا یونیورسٹی میں پڑھتی ہے یا پروفیسر ہے۔
پتہ نہیں میں تو اس کو کلاس میں دیکھ ہے۔۔ میرے خیال سے سٹوڈنٹ ہے۔۔
اچھا تو پھر تمہیں خوش ھونا چاہیے آج اس سے مل لیا ھے۔۔
نہیں یار صرف دیکھ ہے بات نہیں ھوئی۔۔ اور پتہ نہیں کیوں اسے دیکھنے کے بعد میں وہاں رک نہیں سکا۔میں اتنا خوش تھا کہ تمہیں بتا نہیں سکتا۔۔ میں یہ خوشی سب سے پہلے اپنے اللہ سے شئیر کرنا چاہتے تھا۔۔ جس نے میرے دل کے جذبات کو سمجھ کر اس سے ملوایا تھا۔۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس سے بات کر کے ہی کچھ معلوم ھونا تھا نہ یار۔۔
حسین کچھ سوچ کر چپ ہو گیا۔۔
وہ مناہل سے عشق کرنے لگا تھا اور اپنی زندگی میں اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔
حسین نے مناہل سے کلاس میں اس لیے بات چیت نہیں کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اس کے اور مناہل کے بارے میں غلط باتیں کریں۔۔ یہ ہی وجہ تھی جو وہ اس سے بات کیے بنا ہی آگیا تھا۔۔۔۔
آج جب مناہل یونیورسٹی آئی تو اس کی دوست نہیں آئی تھی۔۔وہ اپنی دوست کو مس کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں حسین کی کلاس کا وقت ہو گیا۔۔ سو وہ کلاس لینے۔۔
کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور کلاس میں آ گئی۔۔
حسین کلاس میں آیا اور لیکچر سٹارٹ کر دیا۔۔
حسین کے لیکچر میں ظہر کی نماز کا ٹائم آتا تھا۔۔ ابھی وہ لیکچر دے ہی رہا تھا کہ ازان کی آواز آنے لگی۔۔ حسین نے فوری طور پر کتاب بند کر دی اور ازان سننے لگا اور ازان کے کلمات کا جواب دینے لگا جب ازان ختم ھوئی تو وہ کلاس میں سب کو 10منٹ انتظار کا کہہ کر نماز پڑھنے کے لیے چلا گیا۔۔
پوری کلاس سر کی اس حرکت پر حیران ہو رہی تھی کہ آج سے پہلے اس طرح کسی سر نے نہیں کیا تھا۔۔۔۔
سر حسین نماز سے فارغ ہو کر واپسی کلاس میں آئے اور اپنا لیکچر دوبارہ شروع کر دیا۔۔
سر حسین کا لیکچر ختم ہوا تو سر جانے لگے۔۔ تب ہی کلاس میں سے ایک لڑکے نے سر سے سوال کیا کہ سر آپ نے ہمیں اتنا انتظار کیوں کروایا آپ نماز بعد میں بھی تو ادا کر سکتے تھے۔۔
سر حسین اس کی بات سن کر پہلے تو مسکرائے پھر بہت ہی نرمی سے بولے کہ نماز بعد میں نہیں پڑھی جا سکتی تھی۔۔ اس لئے میں نے آپ کو انتظار کروایا۔۔
کیونکہ نماز کا وقت مقرر ہے
۔ سو اس کو مقرر وقت پر ہی ادا کرنا ھوتا ھے۔۔
مناہل حسین کی باتیں بہت غور سے سن رہی تھی۔۔
حسین ابھی بھی بول رہا تھا۔۔
اور وہ دیکھ رہی تھی۔۔
اللہ تعالٰی نے اپنی عبادت کا وقت مقرر کیا ہے اور نماز تو ہر مسلمان پر فرض ہے۔۔ اللہ نے نماز کو کبھی ہمیں معاف نہیں کرنا۔۔ ہمارے لیے نمازوں کو مقرر پر ادا کرنا فرض کیا گیا ہے۔۔ اور میں اپنے فرض بخوبی انجام دیتا ہوں۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی حسین کلاس سے باہر نکل گیا۔۔
بہت سارے دن ایسے ہی گزر گئے حسین روز ہی نماز کے وقت پر کلاس سے باہر چلا جاتا تھا۔۔ اب تو بہت سے سٹوڈنٹ بھی اس کے ساتھ نماز کے لیے تیار ھو جاتے تھے۔۔۔
آج جب حسین کلاس سے باہر آیا تو اس نے سوچا کہ آج وہ ہر حال میں مناہل سے بات کر گا۔۔ اور پھر وہ اپنے گھر والوں کو بھیج گا۔۔ اور لائبریری کی طرف چل دیا۔۔
مناہل جب کلاس سے باہر آئی تو اسے یاد آیا کہ اس نے لائبریری سے ایک کتاب لی تھی آج وہ واپسی کرنی ہے۔۔
وہ زرناب کو بتا کر خود لائبریری کی طرف چلی گئی۔۔
اور اتفاق سے حسین پہلے سے ہی وہاں موجود تھا اور سوچ رہا تھا کہ کسی طرح وہ مناہل سے اپنے دل کی بات کرے۔۔ اور ساتھ میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالٰی کوئی راستہ بنا دے۔۔
پھر اللہ تعالٰی نے اس کی سن لی مناہل خود ہی وہاں آگئی۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ چکے تھے لائبریری میں۔۔
مناہل جب کتاب رکھ کر واپسی جانے لگی تب ہی حسین نے اس کو آواز دی۔۔
مناہل اس کو گھورتی ہوئی مڑی۔۔
جی؟؟؟؟
مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا
آپ بس پانچ منٹ آرام سے بیٹھ کر میری بات سن لیں۔۔
مناہل وہاں کرسی پر بیٹھ گئی۔۔
جی فرمائیے؟؟
میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ کو شریک حیات بنانا چاہتا ہوں اور اجازت چاہتا ہوں۔۔ کہ میں اپنے گھر والوں کو آپ کی طرف رشتہ کے لیے بھیج دوں۔۔۔
مناہل یہ سن کر پھٹ پڑی۔۔
مسٹر فضول آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں۔۔
آپ اور آپ کی فضول باتیں میرے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی سمجھے آپ شادی میں بھی آپ فضول میں لفٹ لینے کے چکروں میں تھے اور اب یہاں بھی
مناہل غصے سے بولتی ھوئی باہر نکل گئ حسین کو بہت دکھ ہوا۔۔ وہ مجھے اتنا غلط سمجھتی ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مناہل اس کے بارے میں یہ خیال رکھتی ہے۔
مناہل وہاں سے زرناب کے پاس آئی اور ساری بات اس کو بتا دی تھی۔
ویسے مناہل!!!
تم کچھ بھی کہو بندہ ہے بڑا زبردست اور بات کرنے کا سٹائل کتنا اچھا ہے اور سب سے بڑا کر وہ سنت و صلوٰۃ کا پابند ہے۔۔
سنو اگر وہ سنجیدہ ہے تو انکار نہیں کرنا۔
مناہل چڑ کر وہاں سے اٹھا کر گھر چلی گئی اب اس کا کلاس میں جانے کا بالکل بھی موڈ نہیں تھا۔۔
اس دن کے بعد سے حسین نے پھر کبھی کوشش نہیں کی مناہل سے بات کرنے کی۔
دو دن بعد حسین کا آخری دن تھا یونیورسٹی میں سر قاسم واپسی آ گیے تھے۔۔
سب سٹوڈنٹ کو حسین کے تمام لیکچر بہت پسند آئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ سر حسین ان کو امتحانات تک پڑھے۔۔
ایک سال بعد مناہل ہاوس جاب کر رہی تھی جب ولید اور اسماء حسین کا رشتہ لے کر آئے اور پھر حسین کے گھروالوں نے اسے باقاعدہ پرپوز کیا تو مناہل کی طرف سے انکار سے سب سناٹے میں آگئے۔
بھائی اور بھابھی سے لے کر والدین تک سب نے منایا سمجھا تھا لیکن اس کی بس ایک ہی نہ تھی۔
اس کا خیال تھا کہ وہ اتنا نان سیریس رہتا ہے کہ بڑے سے بڑے مسئلے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا وہ اس کے آئیڈیل کے خانے میں فٹ نہیں اترتا۔ اس لیے میں اس سے شادی نہیں کر سکتی
بابا!!!
اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں تمام عمر نہ خود خوش رہ سکوں اور نہ کسی اور کو خوش رکھ سکوں تو کر دیجئے اس فضول آدمی سے میری شادی۔
صرف ایک میں ہی نہ خوش ھوں گئی نہ آپ سب تو خوش ھو جائیں گے سر سے بوجھ اتر جائے گا اور پھر وہ رو دی
۔
ٹھیک ہے بیٹا۔
تم نہیں چاہتی تو ھم تمہیں مجبور نہیں کریں گے البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ حسین تمہارے لیے بہترین ساتھی ثابت ھوتا مگر اپنا دل خراب نہ کرو
تم جسے چاہتی ھو ویسے ہی ھو گا فرید صاحب اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر باہر نکل گئے۔۔
تو وہ اور شدت سے رونے لگی۔۔ سب نے اس کی رائے کو اہمیت دی۔۔ اس کی خوشی کو اہم جانا تھا تو اسے بہت خوش ہونا چاہئے تھا مگر کون سی خلش تھی اندر کہ آنکھوں میں چھبن ساون بن جاتی۔۔
پہلے اسے ٹینشن تھی کہ کہیں حسین کو اس پر مسلط نہ کر دیا جائے اب یہ بھی فکر ختم ہو گئی تھی تو عجیب خلش سی پریشان کر رہی ہے۔ وہ عجب دردِ میں خو کو محسوس کر رہی تھی
اور وہ جس نے اس کو بڑے ارمانوں سے چاہا تھا۔۔
وہ جو اس دیکھتے ہی دل ہار بیٹھا تھا۔۔ وہ جو زندگی کے کسی امتحان میں فیل نہیں ھوا تھا۔۔
اس ناکامی نے اسے ٹوڑ کر رکھ دیا تھا۔
اسے ٹکرائے جانے کی کوئی ٹھوس وجہ ھوتی تو شدید دل بے قرار کو قرار آ ہی جاتا مگر اس نے تو الزام ہی بے بنیاد لگایا تھا۔۔
تم کیا جانوں مناہل فرید۔۔
میں زندگی کو کیا سمجھتا ہوں۔۔ کسی طرح اس کو شوچتا ھوں
کسی طرح لیتا ہوں۔۔ زندگی کو ہنس کھیل کر زندگی کی تلخیاں کو کم کرنا میرا جرم ہے تو بہت بڑی سزا دی ہے تم نے بہت بڑی۔۔
وہ ہنسے ہنسنے والا مگر مضبوط نوجوان تھا۔۔ مناہل نے کچھ اس طرح کے انداز میں ٹکرایا تھا کہ وہ ڈھکے سا گیا۔۔ دانش نے کتنی ہی دیر اس کو سمجھایا تھا طرح طرح کی دلیلیں دی تھیں۔۔ پر ابھی زخم تازہ تھا اس کو قرار کہاں آنا تھا۔۔
یار وہ واقعی مجھ سے اتنی شدید نفرت کرتی ہے کیا میں واقع برا ھوں۔۔ اس کے ٹوٹے لہجے میں احساس کمتری کا درد تھا کم مائیگی کا احساس کرب بن کر اس کے چہرے پر آگیا تھا۔۔
یار!! ایسی کوئی بات نہیں ہے بس وہ تمہیں سمجھ نہیں پائی۔۔
میں پاگل ہو جاؤں گا۔۔ میں اس کھبی نہیں بھول پاؤں گا
وہ میری پہلی نظر کی محبت ہے۔
میں کیسے اسے بھول پاؤں گا۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...