اس دن اپنی درگت بنتے دیکھ کر ارسلان جوں غائب ہوا تھا اس کے بعد اس نے دوبارہ ان کے گھر کی طرف منہ نہیں کیا تھا اس کے بعد اس نے اک دو دفعہ ارادہ باندھا تھا مگر پھر چھوڑ دیا تھا یونی میں بھی ان دونوں کا آمنا سامنا کم ہی ہوتا تھا کیونکہ دونوں کے ڈیپارٹمنٹس علیحدہ علیحدہ تھے
مگر آج ارسلان نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ضرور نویرہ کو منا کے دم لے گا جو اس کی بےدھیانی میں کی گئی بات کو سر پہ ہی سوار کر کے بیٹھ گئی تھی وہ مانتا تھا کہ اس نے غلط بات کی تھی لیکن اس کی اٹینشن غلط نہیں تھی بس یہی بات اسے نویرہ کو سمجھانی تھی
نویرہ یونی آئی تو اسے ارسلان اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے کھڑا ملا تھا اسے وہاں کھڑا دیکھ کر نویرہ کو حیرت ہوئی تھی مگر پھر اسے نظرانداز کرتے اس نے اپنے قدم آگے بڑھائے تھے
“مجھے تم سے بات کرنی ہے پلیز اک دفعہ بیٹھ کے بات سن لو پلیز” ارسلان کی ملتجی آواز پہ اس کے قدم رکے تھے
“مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی تم نے جو کہنا تھا تم وہ کہہ چکے ہو” نویرہ نے بغیر مڑے جواب دیا تھا نویرہ کی ناراضگی تو ختم ہو چکی تھی لیکن وہ اسے اس بات کا اچھی طرح احساس کروانا چاہتی تھی کہ اس نے غلط بات کی تھی تا کہ آئندہ وہ کھبی غلطی سے بھی ایسا کچھ اپنے منہ سے نہ نکالے
“اتنی ظالم مت بنو یار اک دفعہ سن لو پلیز” ارسلان نے اک دفعہ پھر مِنت کی تو نویرہ گہری سانس بھرتے اس کی طرف مڑی تھی اور اثبات میں سر ہلاتے اپنی رضامندی دی تھی
ارسلان نے سکون بھرا سانس بھرا تھا کم از کم وہ بات سننے کے لیے تو راضی ہوئی تھی وہ اسے لیے کینٹین جانے کی بجائے گراؤنڈ کے ہی سنسان گوشے میں لے آیا تھا
“ایم سوری نویرہ میں اپنے کہے ہر لفظ پہ شرمندہ ہوں میری کوئی غلط اٹنینشن نہیں تھی بس وہ بائیک والی حرکت کا بدلہ لینا تھا تو میں سوچا تمہیں تھوڑا تنگ کر لوں لیکن ایسی کوئی بات کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ الفاظ بےدھیانی میں منہ سے نکل گئے تھے” اس کے سامنے فاصلے پہ بیٹھتے ارسلان نے شرمندگی سے سر جھکاتے اسے وضاحت دی تھی
“تم نے سوچا ہے اگر تمہارے الفاظ کوئی اور سن لیتا تو میری اور تمہاری پوزیشن کیا رہ جاتی ان کے سامنے تم تو لڑکے ہو تمہیں کوئی کچھ نہ کہتا مگر مجھ پہ کیچڑ اچھالا جاتا اور میری وجہ سے میرے ابا کا سر جھک جاتا” نویرہ کی بات پہ ارسلان نے تڑپ کے سر اٹھایا تھا
“ایم سوری یار پہلی اور آخری غلطی سمجھ کے معاف کر دو میری توبہ میرے پورے خاندان کی توبہ جو میں آئندہ ایسا کوئی لفظ بھی منہ سے نکالوں جس سے تم ہرٹ ہو” ارسلان نے کان پکڑتے مسکین سی شکل بنائی تو نویرہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی تھی
“ایسے ہی ہنستی رہا کرو پیاری لگتی ہو” ارسلان کی گھمبیر آواز میں کچھ الگ سے جذبات بھی پنہاں تھے جنہیں محسوس کرتے نویرہ کی ہتھیلیاں بھیگی تھیں
“میں چلتی ہوں میری کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے” اس کی بات کو نظرانداز کرتے نویرہ بیگ اٹھاتے کھڑی ہوئی تو ارسلان ہنس دیا تھا
“اچھا جاتے ہوئے یہ تو بتاتی جاؤ معاف کر دیا یا نہیں؟” اس سے پہلے کہ وہ قدم آگے بڑھاتی ارسلان نے پوچھا تھا
“کیا معاف کیا یاد کرو گے کسی سخی سے پالا پڑا ہے مگر آئندہ ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے” نویرہ نے شاہانہ انداز میں کہتے آخر میں انگلی اٹھا کے تنبیہہ کی تھی جس پہ ارسلان نے اک ہاتھ سینے پہ رکھتے ہلکا سا جھکتے اس کی بات پہ سر تسلیم خم کیا تھا
نویرہ نے اس کی حرکت پہ نفی میں سر ہلایا اور اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئی تھی اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ارسلان بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا تھا کئی دنوں سے اس کے دل پہ پڑا بوجھ آج ختم ہوا تھا اور وہ خود ہو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا
__________________________
مریم چچی کی آمد کا سن کے نیچے آئی تھی ان سے ملنے کے بعد وہ انہیں لیے اوپر ہی چلی گئی تھیں کیونکہ نگہت بیگم کو شدید بخار تھا اور وہ انہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھیں روحان کے آنے تک وہ سب اوپر ہی رہی تھیں
روحان کے آتے ہی مریم نیچے آ گئی تھی اس کے دیکھا دیکھی باقی سب بھی آ گئی تھیں اور تابش بس اپنے کپڑے سوکھنے تک وہاں رہا تھا پھر چلا گیا تھا اور شام میں انہیں رامش لے کر گیا تھا
روحان کے آنے کے بعد وہ اک دفعہ بھی اوپر نہیں گئی تھی روحان آتے ہی پہلے انہیں ہاسپٹل لے کر گیا تھا وہ آفس بھی نگہت بیگم کے مجبور کرنے پہ گیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں اس کی بہت امپورٹنٹ میٹنگ ہے اس کے آنے تک مریم انہیں ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتی رہی تھی تا کہ بخار کا زور ٹوٹ جائے
دوپہر اور رات کا کھانا اس نے روش اور منیہا کے ہاتھوں اوپر بھجوا دیا تھا سارے کاموں سے فارغ ہوتے اب مریم سوچ رہی تھی وہ اوپر جائے یا نہ جائے اسے بےچینی بھی تھی جو انہیں دیکھ کے ہی ختم ہونی تھی نگہت بیگم چند ہی دنوں میں ان سب بہنوں کو بہت عزیز ہو گئی تھیں
کافی دیر کی سوچ بچار کے بعد آخر اس نے اوپر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا آہستہ آہستہ زینے طے کرتی وہ اوپر آئی تھی اوپر والا پورشن خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا روحان کو سامنے نہ پا کر وہ شکر ادا کرتے تیزی سے نگہت بیگم کے کمرے کی طرف بڑھی تھی
“امی میڈیسن کھا کے سو گئی ہیں” اس نے ہینڈل پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ روحان کی آواز پہ اس کے ہاتھ تھمے تھے جو شاید قدموں کی چاپ سن کے ابھی اپنے کمرے سے برآمد ہوا تھا اس کی بات سن کے مریم نے واپس سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے تھے
“شکریہ” روحان کے شکریہ کہنے پہ وہ اپنی جگہ رکی تھی
“کس بات کا شکریہ؟” اس نے اپنا رخ پلٹے بغیر سوال کیا تھا
“میری غیر موجودگی میں امی کا خیال رکھنے کے لیے” روحان نے اس کی پشت کو مسکراتی نظروں سے دیکھتے کہا تھا
“اس میں شکریہ کہنے والی کونسی بات ہے وہ ہمیں بلکل اپنی اماں کی طرح عزیز ہیں اور ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے” اسے جواب دیتے اس نے دوبارہ اپنے قدم آگے بڑھائے تھے
“میں آپ کو کوئی آدم خور لگتا ہوں؟ یا میری شکل بہت ڈراؤنی ہے جو آپ مجھے دیکھتے بھاگنے کا کرتی ہیں” روحان نے متبسم لہجے میں پوچھا تھا مگر مریم بغیر جواب دیے تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی تھی
“چلیں بھئی روحان صاحب تشریف کا ٹوکرا اٹھا کے واپس اپنے روم میں چلیں آپ کو تو کھبی لفٹ ہی نہیں کروانی اس نے” روحان خود سے کہہ کے بالوں میں ہاتھ چلاتے مسکراتا ہوا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا
“چپکو” مریم سیڑھیوں کی آخر پہ کھڑی ہو کے اک نظر اوپر ڈالتے بڑبڑائی تھی اور پھر سر جھٹکتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی
وہ کمرے میں آئی تو خلافِ معمول سب سوئی ہوئی تھیں سوائے مائرہ کے جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی وہ اپنی سوچ میں اس قدر محو تھی کہ مریم کا آنا بھی محسوس نہ کر سکی تھی
“کیا بات ہے کیا سوچ رہی ہو؟” مریم نے اس کے بیڈ پہ بیٹھتے اس کے گھٹنے پہ ہاتھ رکھ کے اسے ہلکا سا جھنجھوڑ کے اپنی طرف متوجہ کیا تھا مائرہ نے چونک کے مریم کو دیکھا تھا
“ہاں میں کچھ سوچ رہی تھی” مائرہ نے سیدھا ہو کے بیٹھتے کہا تھا
“میں بھی وہ ہی پوچھ رہی ہوں کیا سوچ رہی ہو؟” مریم نے اسے گھوری سے نوازا تھا
“وہ مریم مجھے نا یونی میں اک لڑکے نے پرپوز کیا” مائرہ نے جھجھکتے ہوئے کہا تو مریم نے آنکھیں پھاڑ کے اسے دیکھا تھا
“ہوش میں ہو تم؟ جانتی ہو کیا کہہ رہی ہو؟” مریم کا لہجہ یکدم سخت ہوا تھا ان کی کسی بھی اوٹ پٹانگ بات پہ وہ ایسے ہی سخت ہو جایا کرتی تھی
“وہ ہوا کچھ یوں،،،،،”
____________________
#فلیش_بیک
صبح یونی میں مائرہ اپنے دھیان میں کلاس کی طرف بڑھ رہی تھی کہ کارویڈ میں اچانک کوئی اس کے سامنے آ کر رکا تھا اس نے ناگواری سے نظریں اٹھا کے سامنے دیکھا تو اسے تھوڑی حیرت ہوئی تھی وہ انہی کا بیج میٹ عادل آفندی تھا جو بس اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور اب اس کا یوں رستہ روکنا اسے حیرت میں مبتلا کر گیا تھا
“ایم سوری مس مائرہ اس طرح رستہ روکنے پہ شرمندہ ہوں لیکن مجھے آپ سے بات کرنی تھی” مائرہ کے کچھ بولنے سے پہلے وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولا تھا
“جی بولیں” وہ ہاتھ میں پکڑی فائل سینے سے لگاتے ہمہ تن گوش ہوئی تھی
“یہ بات اس طرح کہنی مناسب تو نہیں لیکن یہ بات کرنا ناگریز ہو چکا ہے” اس نے تمہید باندھی تھی مائرہ سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی
“مس مائرہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں مجھے آپ سے پہلی نظر میں پیار ہو گیا تھا لیکن آپ کی نیچر کو دیکھتے کھبی کہنے کا حوصلہ نہیں ہوا لیکن اب اک پیپر رہ گیا ہے اور وہ بھی کچھ دنوں تک ہو جائے گا اور امید ہے کلئیر بھی ہو جائے گا میں اپنے گھر والوں کو آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے آپ سے اک دفعہ بات کر کے ایڈریس لینا چاہتا تھا بس اسی لیے آپ سے یہ بات کر رہا ہوں اگر میرے پاس ایڈریس ہوتا تو میں ڈائریکٹ آپ کے گھر ہی آتا آپ کو اس طرح روکتا نہیں” اس نے نرمی سے اپنی بات اس تک پہنچائی تھی جو حیرت سے منہ اور آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہی تھی
“مس مائرہ” اسے چپ دیکھ کر عادل نے اس کے منہ کے سامنے چٹکی بجا کے اسے ہوش میں لانا چاہا تھا
“مسٹر آفندی ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں محبت کی پینگیں چڑھانے نہیں میں تو آپ کو بہت ڈیسینٹ سمجھا تھا اور آپ کیا نکلے اور دوسری بات مجھے کیا پتہ آپ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ اس طرح تو ستر لوگ محبت کا لولی پاپ لے کر کھڑے ہوں گے اب میں ان سب کو تو اپنا ایڈریس دینے سے رہی ناؤ ایکسکیوزمی پلیز” اس کے چٹکی بجانے پہ اس نے اپنی حیرت پہ قابو پایا تھا اور سرد آواز میں اپنی بات اس تک پہنچاتے بغیر اس کی کوئی اور بات سنے وہ اگے بڑھ گئی تھی پیچھے وہ بےبسی سے اس کی پشت کو دیکھتے وہی کھڑا رہ گیا تھا
مائرہ نے اپنی بات مکمل کرتے مریم کو دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر مائرہ نے اپنی نظریں واپس جھکا لی تھیں
“بہت اچھا کیا انکار کر کے ایسے لوگ بس بڑے بڑے دعوے ہی کرتے ہیں دو چار دن ٹائم پاس کرتے ہیں اور پھر تُو کون اور میں کون والا حساب ہوتا ہے اب اس پہ دو حرف بھیج کے چپ کر کے سو جاؤ” مریم مائرہ کی باتوں سے مطمئن ہوئی تھی اس لیے بیڈ سے اٹھتے اسے سونے کی تاکید کی تھی اور مائرہ بھی اچھے بچوں کی طرح سر ہلاتے لیٹ گئی تھی مریم نے اک محبت بھری نظر ان سب پہ ڈالی تھی اور مسکراتے ہوئے لائیٹ آف کرتے اپنی جگہ آ کے لیٹ گئی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...