مجھے آپ کے رویے سے کوٸی شکوہ نہیں۔ تب حالات ہی ایسے تھے۔۔۔۔ آپ نے جو بھی کیا یا مجھ سے کہا وہ آپ کا حق تھا۔۔ کیونکہ جس طرح میری اور دارین کی شادی ہوٸی تھی ، وہ برداشت کرنا کسی بھی ماں کے لیے مشکل ہوتا ہے اور ماں کا ایسے ری ایکٹ کرنا بنتا تھا۔۔“اس نے شاہانہ بیگم کے پاس بیٹھ کر ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر رسانیت سے کہا۔۔وہ خاموش ہو گٸی تھیں۔۔ان کو خاموش دیکھ کر اس نے پوچھا۔۔
” اک بات پوچھوں آپ سے۔۔۔؟“
”ہاں۔۔۔۔۔۔“
”آپ نے اتنی زندگی گزاری ہے پاپا کے ساتھ۔۔ کیا آپ کو ان سے محبت نہیں ہوٸی۔؟“ اس کے سوال پر وہ تلخی سے مسکراٸیں۔۔
”یہ محبت ہی ہے بیا جس نے آج تک مجھے ان کے ساتھ جوڑا ہوا ہے اور میں اس گھر میں موجود ہوں۔۔ورنہ یہ جاٸیداد سے عاق کر دینے والی دھمکی میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تھی، اگر میں چاہتی تو شادی کے بعد کسی بھی وقت حیدر سے طلاق لے سکتی تھی لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور نہ ہی میں کر سکتی تھی کیونکہ میں ان دونوں سے بہت پیار کرتی ہوں، لیکن پھر حالات نے ایسا روخ اختیار کیا اور ہم سمجھ ہی نہ پاۓ اور یہ کیا سے کیا ہو گیا۔۔۔یہ بھی سچ ہے کہ میں نے پہلے حیدر سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن پھر اپنے بابا کی ضد کے آگے ہار مان لی،میری شاہ صاحب سے نہیں بنتی تھی لیکن یہ سب تو شروع کی باتیں ہیں،بعد میں مجھے ان سے پیار ہو گیا تھا اور جب دارین پیدا ہونے والا تھا میں بہت خوش تھی،ان ہی دنوں رومانہ بھی میرے پاس آگٸی، حیدر اس بات سے خوش نہیں تھے۔اس کی وجہ ہماری لڑاٸیاں شروع ہو گٸیں اور ان میں اچانک ہی چڑچڑا پن آگیا۔۔ وہ بات بات پر غصہ کرنے لگ گٸے اور پھر کچھ دونوں بعد ہی انہوں نے دیر سے گھر آنا شروع کر دیا، پھر ساری ساری رات گھر سے باہر رہنے لگ گٸے۔ میں ان کی عادتوں سے تنگ آگٸی پھر مجھے رومانہ نے مشورہ دیا کہ میں بھی باہر نکلوں ، پارٹیز میں جاٶں ، انجواۓ کروں ، میں نے بھی اس کی بات مان کر باہر نکلنا شروع کر دیا اور پھر آہستہ آہستہ مجھے بھی گھر سے زیادہ باہر سکون ملنے لگا، پارٹیز اور فنکشنز میں جانا اچھا لگنے لگا اور جلد ہی میں بھی اس ماڈرن ورلڈ کا حصہ بن گٸی۔۔۔۔ جب دارین پیدا ہوا میں اس کو بھی بھول گٸی صرف و صرف ضد میں حیدر سے بدلہ لینے کے لیے میں نے اپنا گھر خراب کر لیا، نہ میں نے ان سے وجہ پوچھی ان کے چڑچڑے پن کی اور نہ ہی انہوں نے مجھے کچھ بتایا، جب وہ مجھے کچھ سمجھاتے یا روکتے تو میں الٹا ان سے لڑ پڑتی ، اس طرح لڑاٸیاں بڑھتی گٸیں اور ساتھ ہی ہمارے درمیان دوریاں بھی، اور دیکھو سب حالات تمہارے سامنے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکروں میں ہم لوگ رشتوں سے کتنے دور ہو گٸے ہیں ، اس سب میں قصور وار صرف رومانہ ہی نہیں ، میں بھی ہوں۔“انہوں نے روتے ہوۓ سب کچھ اس کے ساتھ شٸیر کر لیا۔جبکہ وہ چپ چاپ ان کی باتیں سن رہی تھی،وہ ان کو دلاسہ دینا چاہی تھی لیکن اس کے لب خاموش تھے اس وقت وہ اسے اک ایسی بےبس ماں نظر آ رہی تھیں۔۔۔۔ جو اپنے بچے سے دور ہونے کی وجہ سے دکھی تھی۔
”دارین نے آج تک مجھ سے میرا حال نہیں پوچھا ، ماں کہہ کر نہیں بلایا ، وہ بھی مجھ سے بہت ناراض ہے۔ نفرت کرتا ہے مجھ سے۔۔۔“ انہوں نے روتے ہوۓ شکوہ کیا ، اس وقت بیا کو ان پر بہت زیادہ پیار آ رہا تھا۔۔
”شاید انہیں بھی دکھ ہے۔۔ کیونکہ آپ نے انہیں کبھی کوٸی امپورٹنس نہیں دی،بس رمل کو ہی عزیز سمجھا، یہ بات ان میں احساس محرومی پیدا کر گٸی ، اور وہ اپنے ہی خول میں سمٹ گٸے ، ماں باپ کے ہوتے ہوۓ بھی یتیموں کی سی زندگی گزارنا کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا ماما۔۔“ اس نے آگٸے بڑھ کر ان کے آنسو صاف کر کے انہیں دلاسہ دیتے ہوۓ دارین کا دکھ بھی بتایا۔۔وہ اس کی بات سن کر شرمندگی سے سرجھکا گٸیں۔۔
”دارین جی کو رمل سے بہت چڑ تھی،کیونکہ آپ ان کو اگنور کر کے رمل سے پیار کرتی تھیں،اس لیے وہ آپ سے دور ہوۓ،وہ جتنے بھی ماڈرن سہی لیکن اندر سے اک روایتی مرد ہی ہیں، ان کی بھی اک عام انسان کی طرح چھوٹی چھوٹی خواہشات تھیں کہ ان کی ماں ان کا خیال رکھتی، ان سے پیار کرتی، دعاٸیں دے کر گھر سے رخصت کرتی اور پھر شام کو اس کے آنے کا انتظار کرتی ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،جب کسی انسان کے خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہو جاٸیں اور خواہشیں دم توڑ جاٸیں ، تو وہ اند سے خالی ہو جاتا ہے، پھر اس کے سامنے جو کچھ مرضی ہوتا رہے اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، وہ اپنے ہی خول میں بند ہوجاتا اور اندر ہی اندر کلستا رہتا ہے، لیکن کسی سے کچھ نہیں کہتا ، دارین جی کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے، اب آپ نے وہ خول توڑنا ہے اپنی انا ، ضد اور خوداری کو پس پشت ڈال کر، ویسے بھی اگر رشتوں کو بچانے کے لیے جھکنا بھی پڑے تو اس میں کیا شرم۔۔۔ کیونکہ کبھی کبھی جھک جانے میں ہی بہتری ہوتی ہے۔۔“ اس نے دھیرے دھیرے شاہانہ بیگم کی برین واشنگ کی جو کہ اس وقت کرنا بہت ضروری تھی ‘ اور وہ بھی اس کی باتیں سن کر خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں۔
”بہت بڑی غلطی ہوٸی ہے مجھ سے ، میں واقعی ہی ماں کہلانے کے لاٸق نہیں۔بہت بری ہوں میں۔“ وہ روتے ہوۓ خود کو کوس رہی تھیں۔۔
”اب بھی وقت ہے آپ کے پاس سدھار لیں اپنی غلطیاں اور سنبھال لیں رشتوں کو،ورنہ پھر یہ موقع ہاتھ نہیں آۓ گا آپ کے۔ اگر پاپا اور دارین کچھ نہیں کہہ رہے تو آپ آگے بڑھ کر سمیٹ لیں ان کو۔۔۔“ وہ اپنی بات کر کے ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگ گٸی ۔۔۔ جہاں دکھ ہی دکھ تھا۔
”ہممممممم سہی کہہ رہی ہو تم! بہت بہت شکریہ بیا ، ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔“ انہوں نے دھیرے سے کہا۔
”آپ ایسے نا کہیں ماما۔۔۔! میں بھی اس گھر کا حصہ ہوں، اور سب کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں“اس نے بھی دھیرے سے کہا اور وہاں سے اٹھ گٸی۔۔۔جب کہ شاہانہ بیگم ابھی بھی وہیں بیٹھیں پتا نہیں کیا کیا سوچے جار رہی تھیں۔۔۔۔۔!
….***….
رات کافی گزر چکی تھی۔۔۔۔!
لیکن وہ لان میں اکیلے بیٹھے نجانے کیا سوچ رہے تھے ، کل سے ان کی شاہانہ بیگم سے کوٸی بات نہیں ہوٸی تھی، نہ ہی انہوں نے کرنے کی کوشش کی تھی ، لیکن یہ بات وہ اچھے سے جانتے تھے کہ شاہانہ بہت اپ سٹ تھی،یہ جو کچھ بھی ہوا تھا،انہوں نے ایسا کبھی بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔وہ ان کے بارے میں سوچتے سوچتے بیتے ماہ و سال کی یادوں میں کھو گٸے تھے۔۔تب ہی شاہانہ بیگم بھی ان کو لان میں اکیلے بیٹھے دیکھ کر وہاں چلی آٸیں۔
”شاہ صاحب۔۔۔۔۔! کیا سوچ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔؟“ ان کو گہری سوچوں میں غرق دیکھ کر انہوں نے بات کا آغاز کیا۔
”ہوں۔۔۔۔! ہاں کچھ بھی تو نہیں۔۔۔بس تھک گیا ہوں“ وہ چونک کر ان کی طرف متوجہ ہوۓ، ماضی کی یادوں میں محو وہ اس قدر آگے بڑھ گٸے تھے کہ انہیں شاہانہ بیگم کے وہاں آنے کی خبر بھی نہ ہو سکی ، ماضی کا سفر کتنا تھکا دینے والا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔ اس کے آثار ان کے چہرے پر واضح نظر آ رہے تھے۔۔
”مجھے معاف کر دیں حیدر“ شاہانہ بیگم نے بغیر تمہید باندھے ان سے اپنے گذشتہ رویے کی مافی مانگی۔۔۔اور شرمندگی سے سر جھکا لیا۔۔
”کس بات کی معافی شاہانہ۔؟“ انہوں نے بھی تھکے تھکے لہجے میں پوچھا۔۔کیونکہ قصور وار تو وہ دونوں ہی تھے
”میری ہر اس بات کے لیے جس نے آپ کو تکلیف دی۔۔“ وہ شرمندگی سے بولیں ، لیکن سر ان کا اب بھی جھکا ہوا تھا۔۔ حیدر شاہ کچھ دیر تو ان کے شرم سے جھکے سر کی طرف دیکھتے رہے۔۔۔ پھر انہوں نے الٹا ان سے ہی سوال کیا۔
”کیا تم مجھے معاف کر دو گی۔۔۔؟“
”پہلے کا تو پتا نہیں شاید نہ کرتی معاف۔۔۔لیکن اب کر دوں گی۔“انہوں نے صاف گوٸی سے جواب دیا۔
یہ معافی تلافی جو ان کو بہت پہلے کر لینی چاہٸیے تھی، زندگی کے اتنے سال تباہ کرنے کے بعد کر رہے تھے، جس کے لیے شاہانہ بیگم نے ہی پہل کی تھی، وہ بھی اتنی بڑی ٹھوکر کھانے کے بعد۔۔
”سہی کہا۔۔! ہم نے اپنی زندگی کے اتنے سال بچوں کی طرح لڑتے جھگڑتے گزار دٸیے۔۔ لیکن پھر بھی شکر ہے زندگی کے اس موڑ پر ہمیں عقل تو آٸی۔۔۔۔“ بات کرتے ہوۓ ان کے لہجے میں نمی سی گھل گٸی تھی ، شاہانہ بیگم کی آنکھیں بھی نم ہوگٸیں۔انسان چاہے جتنا بھی مضبوط ہو ، کبھی نہ کبھی اپنوں کے سامنے ٹوٹ کر بکھر ضرور جاتا ہے۔۔
”جی ۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی میں نے کبھی آپ کو چھوڑنے کی بات نہیں کی، بےشک لڑتی ، جھگڑتی رہی۔۔ لیکن ہمیشہ آپ کے ساتھ ہی رہی۔جانتے ہیں کیوں۔۔۔؟“
انہوں نے خفیف سی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا۔۔ حیدر شاہ بھی دھیرے سے مسکرا دٸیے،کیونکہ وہ سہی تو کہہ رہی تھیں۔اور اسی بات پر انہیں حیرت
بھی ہوتی تھی۔
”جانتا ہوں یہ پیار ہی ہے۔۔۔۔! جس نے تمہیں مجھ سے دور نہیں ہونے دیا۔۔“
”مجھے تو پیار نے آپ سے دور نہیں ہونے دیا۔۔لیکن آپ کیوں نہیں ہوۓ مجھ سے دور۔۔ میری اتنی بدتمیزیوں، زبان درازیوں کے باوجود بھی آپ نے مجھے ابھی تک نہیں چھوڑا ۔۔۔! کیوں ابھی تک جڑے ہوۓ ہیں میرے ساتھ۔۔۔؟“ انہوں نے اپنے دل میں امڈتے سوال کو زبان دی اور ان کی طرف دیکھا جو ہلکی سے مسکان چہرے پر سجاۓ انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔۔
”مجھے اس محبت نے تم سے جوڑا ہوا ہے،جو پہلی نظر میں مجھ تم سے ہوٸی تھی۔اگر یہ نہ ہوتی تو میں کب کا تمہیں چھوڑ چکا ہوتا۔۔۔ کیونکہ جس طرح تم میرے ساتھ زبان درازی کرتی تھی،آۓ دن مجھ پر الزام لگاتی رہتی تھی،وہ سب برداشت کرنا کسی بھی مرد کے لیے آسان نہیں تھا ، لیکن پھر بھی میں نے کیا ہے وہ سب برداشت ، صرف محبت کی خاطر جو مجھے تم سے اور دارین سے ہے۔۔“بات کرتے ہوۓ ان لہجا نرم تھا، اور ایسا اتنے عرصے میں پہلی بار ہوا تھا۔۔
”پہلی نظر کا پیار؟لیکن آپ کے رویے سے تو کبھی ظاہر نہیں ہوا کہ آپ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں ، نہ ہی آپ نے کبھی اظہار کیا۔۔۔۔ مجھے آپ کی یہی بات زیادہ غصہ دلاتی تھی۔۔“ انہوں نے نم آلودہ لہجے میں شکوہ کیا،وہ ان کے اس شکوے پر خوشگوار حیرت میں گھِر گٸے،
”مطلب آپ کو انتظار رہتا تھا میرے اظہار کا۔۔؟“بیا جو دارین اور زین کو لے کر ان کی طرف آ رہی تھی۔ان کی باتیں سن کر تینوں کے قدم ٹھٹھک کر رک گٸے ، دارین نے ان دونوں کو واپس چلنے کا اشارہ کیا ، لیکن بیا نے اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیا کیونکہ پہلے ہی وہ مشکل سے اس کو روم سے لے کر آٸی تھی۔۔
”جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔“ انہوں نے دھیرے سے اعتراف کیا۔
”میں نے بہت بار کوشش تھی تمہیں بتانے کی،لیکن پھر میری انا اور تمہاری ضد آڑے آگٸی اور میں اظہار نہیں کر سکا۔،مجھے شروع سے ہی رومانہ اچھی نہیں لگتی تھی۔اور جب مجھے پتا لگا وہ مجھے لاٸک کرتی ہے تب تو مجھے اس سے زیادہ چڑ ہوگٸی۔ اسی وجہ سے میری کلاس میں بھی تم لوگوں سے نہیں بنتی تھی، اوپر سے تمہارا ہر بات میں اس کی ساٸیڈ لینا مجھے اور زیادہ غصہ دلاتا تھا، پھر جب ہماری شادی ہوٸی تو مجھے لگا کہ اب وہ ہمارے بیچ کبھی نہیں آۓ گی اور میں تمہیں سب کچھ اچھے سے سمجھا پاٶں گا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، تمہاری ضد تھی اسے پھر سے گھر واپس لانا اور تم ضد پوری کر کے اسے ساتھ لے بھی آٸی، تب مجھے تم پر بہت زیادہ غصہ آیا تھا اور میں نے تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دیا، لیکن یہ بھی میری ہی غلطی تھی میں نے خود ہی ان لوگوں کو موقع دے دیا اور انہوں نے اس بات کا خوب فاٸدہ اٹھایا۔۔۔جس کے نتاٸج آج ہمارے سامنے ہیں۔۔۔خود دیکھ لو آج ہم کس دوراہے پر کھڑے ہیں۔۔“ انہوں نے بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیاتھا ، وہ تینوں بھی دھیرے دھیرے چلتے ہوۓ ان کے پاس پہنچ گٸے،بیا کی آنکھیں نم تھیں، وہ تو بس خود کو ہی دکھی اور غمگین سمجھتی تھی لیکن یہاں تو ہر دوسرا بندہ ہی اپنے اندر غم چھپاے ہوۓ پھر رہا تھا۔۔
”پاپا سہی کہہ رہے ہیں۔۔! ہم لوگ بھی اس سب کے لیے قصوروار ہیں۔۔مجھے بھی رومانہ بیگم بلکل پسند نہیں تھیں،کیونکہ انہی کی وجہ سے میں ماما سے دور ہوگیا اور اپنا سارا بچپن ماں ، باپ کے ہوتے ہوۓ بھی یتیموں کی طرح گزار اور وہ دونوں میری ماما کے ساتھ عیش سے زندگی گزارتی رہیں۔۔۔۔“ دارین نے آگے بڑھ کر حیدر علی شاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دھیمے لہجے میں کہا وہ دونوں چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوۓ۔۔
”اگر آپ لوگ شروع میں ہی سارے مسلے سلجھانے کیکوشش کرتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا، کیونکہ رشتوں میں دوریاں بڑھ جاٸیں تو انہیں کم کیا جاتا ہے ، ایسے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوسروں کو اپنی زندگیاں برباد کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔۔جیسے آپ لوگوں نے کیا۔۔“ بیا نے ان کی سب باتیں سن کر رسانیت سے کہا۔۔اور شاہانہ بیگم کے پاس جا کر کھڑی ہوگٸی۔
”بھابھی غلطیاں ہمیشہ انسانوں سے ہی ہوتی ہیں اور انسان ہی اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اس کو سدھارتے ہیں، اور بہتر انسان وہی ہوتا ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے“ زین نے کہا اور مسکراتے ہوۓ آگٸے بڑھ آیا۔
”ہممممممم دیر اید درست اید۔۔۔۔! اب چھوڑو سب گلے شکوے۔۔ میرے خیال میں تو یہ جو کچھ بھی ہوا بہت اچھا ہوا ہے،کیونکہ اس سے ان کی اصلیت تو ہمارے سامنے آٸی ہی آٸی۔ساتھ میں ہماری آنکھیں بھی کھل گٸیں۔اور ہم سب کو بھی اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا۔۔“ حیدر صاحب نے کھڑے ہوتے ہوۓ مسکرا کر کہا ، زین نے آ گٸے بڑھ کر ان کو پیار سے گلے لگا لیا ، دارین بھی خاموشی سے ان کے ساتھ لگ گیا۔۔شاہانہ بیگم اور بیا روتی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔
” لیکن شاہ صاحب انہوں نے جو بھی کیا اس کا مجھے بہت زیادہ دکھ ہے۔میں نے ان دونوں کے لیے اپنا گھر تباہ کر لیا۔اپنے پیارے بیٹے اور شوہر تک کی فکر نہیں کی اور انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا۔۔بہت دکھ ہوتا ہے تب جب کسی بہت اپنے پر ہم نے اپنا دکھ ‘ سکھ ، مان، یقین اور پیار لوٹایا ہو اور بدلے میں ہمیں صرف و صرف دھوکا ہی ملا ہو۔۔۔۔۔“ وہ سب کچھ یاد کر کے اک بار پھر سے رونے لگ گٸی تھیں۔ ان کے دل پر بہت زیادہ بوجھ تھا۔جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔
”جی میں جانتی ہوں جب اپنوں سے دھوکا ملتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے ، لیکن پھر بھی ماما آپ خود کو الزام نہ دیں۔اور صبر کریں۔آپ نے تو ان کو عزت ، مان اور پیار دیا ہے ، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی اصلیت دکھا کر ثابت کر دیا کہ وہ اس پیار اور عزت کے لاٸق ہی نہیں تھیں۔لیکن یہ بھی شکر ہے کہ انہوں نے آپ کو کوٸی جانی نقصان نہیں پہنچایا۔۔“ بیا نے آگٸے بڑھ کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں حوصلہ دیتے ہوۓ رسانیت سے کہا اور اپنی نم آنکھوں کو صاف کر کے اشارے سے دارین کو اپنی طرف بلایا۔حیدر شاہ اور زین نے بھی دارین کو جانے کا اشارہ کیا،وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا ان کی طرف آگیا۔۔
”دارین میری جان، میرے بچے مجھے معاف کر دو، میں نے ماں ہو کر تمہارے ساتھ بہت غلط کیا،تم سے تمہاری خوشیاں چھین لیں ،پلیز مجھے معاف کر دو۔۔۔“ انہوں نے روتے ہوۓ کہا ، دارین نے آہستہ سے ان کے گرد اپنے بازو حماٸل کر دٸیے، بیا تھوڑا سا پیچھے ہٹ گٸی تھی۔
”جو کچھ ہونا تھا ہو گیا ماما ، اب آپ مجھ سے معافی نہ مانگیں پلیز۔۔۔۔۔“ اس نے گلوگیر لہجے میں کہا، انہوں نے دھواں دھار روتے ہوۓ اسے بھینچ کر گلے لگا لیا،اور جیسے چھوٹے بچے کو چومتے ہیں اس طرح اس کا منہ اور ماتھا چومنے لگیں۔۔۔اب انہوں نے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو کبھی کسی کی بری نظر نہیں لگنے دیں گی۔۔۔
”ماما یہ سچ ہے کہ میں آپ سے بہت ناراض تھا ، بہت شکوے شکایتیں بھی تھے مجھے آپ سے ، لیکن اب وہ سب ختم ہوگٸے ہیں، پلیز اب آپ مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں۔۔اور مجھے بھی معاف کر دیں۔میں نے بھی بہت برا رویہ رکھا آپ کے ساتھ “ اس نے ان کے آنسو صاف کر کے ماتھے پر بوسہ دے کر ملاٸمت سے کہا۔
آج اتنے عرصے بعد حیدر علی شاہ بھی بہت مطمٸین تھے۔کیونکہ ”شاہ ولا“ اب سہی معنوں میں اک گھر بن گیا تھا۔ اس کی خوشیاں اور بہاریں لوٹ آٸی تھیں۔
”زین۔۔۔! اِدھر آٶ تم بھی۔۔۔ “ انہوں نے اپنے آنسو صاف کر کے اس کو بھی اپنے پاس بلایا، وہ بھی مسکراتا ہوا ان کے پاس آگیا۔۔
”سوری ماما میری طرف سے بھی۔۔“ زین نے ان کے گلے لگ کر مسکراتے ہوۓ کہا ، ماحول خوشگوار ہوگیا تھا ، وہاں موجود لوگوں میں پھیلی دوریاں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھیں، سب مطمٸین لگ رہے تھے ،کیونکہ دکھ کے بادل چھٹ رہے تھے اور آنے والی صبح ان کے لیے خوشیوں کی نوید لے کر آنے والی تھی،۔۔ بیا کا دل تھوڑا اداس ہو گیا تھا۔ان چاروں کو آپس میں مصروف دیکھ کر وہ وہاں سے تھوڑا ساٸیڈ پر چلی گٸی، اس کو اپنے امی ، بابا بڑی شدت سے یاد آرہے تھے،دکھ سے اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا تو وہ وہاں سے چلتی ہوٸی سوٸمنگ پول پر بنی چھوٹی سی پل پر آ کر دوسری طرف منہ کر کے کھڑی ہو گٸی۔دارین نے اس کو وہاں سے کھسکتے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔اس لیے کچھ دیر بعد وہ بھی اس کے پیچھے آگیا۔
”کیا ہوا آپ یہاں کیوں آگٸی۔۔؟“
”وہ مم مجھے امی بابا کی بہت یاد آرہی تھی تو میں یہاں آگٸی۔۔“وہ آسمان کو تکتے ہوۓ افسردہ لہجے میں بولی۔۔وہ ابھی رو دینے کو تھی۔۔
”ہمممم میں سمجھ سکتا ہوں آپ کا دکھ ، کیونکہ میں نے بھی ماں باپ کے ہوتے ہوۓ یتیموں کی طرح اپنی آدھی زندگی بسر کی ہے۔“ وہ پل کی ساٸیڈ پر بنی گرِل پر دونوں ہاتھ ٹکا کر آسمان پر چمکتے تن تنہا چاند کو تکنے لگا،بیا اس کی بات سن کر دوسری طرف منہ پھیر کر رونے لگ گٸی۔۔
”روٸیں نہیں پلیز ۔۔۔“وہ جانتا تھا بیا دوسری طرف منہ کر کے رو رہی تھی،
”نن نہیں تو مم میں تو نہیں رو رہی۔۔۔۔“ اس نے ہاتھوں کی پشت سے جلدی جلدی آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا اور مسکراتے ہوۓ اس کی طرف مڑی۔۔۔۔
”اک بات کہوں آپ سے۔۔“اس نے بیا کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔۔
”جی ۔۔۔“ وہ اس کی طرف منہ کر کے نظریں جھکاۓ بولی۔۔
”ماضی میں جو کچھ بھی ہوا بھول جاٸیں اس کو۔اور معاف کر دیں اپنی مامی لوگوں کو، انہوں نے جو بھی کیا آپ کے ساتھ اس کا حساب اللہ ان سے لے گا،آپ کو اللہ نے ہر شر سے محفوظ رکھا ہے شکر کریں اس کا اور نٸے سرے سے اپنی آنے والی زندگی کی شروعات کریں، بس یہ یاد رکھیں کہ جو گزر گیا وہ ماضی تھا، اپنے آج پر دھیان دیں، جن لوگوں سے سارے رشتے ہی ختم کر دٸیے ہیں آپ نے تو ان کے بارے میں سوچ کر خود کو ہلکان کیوں کر رہی ہیں۔۔انہیں معاف کر کے سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں ، وہ بہت بڑا انصاف کرنے والا ہے۔“وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ رسانیت سے سمجھا رہا تھا۔جبکہ بیا خاموش سے کھڑی سب کچھ سن رہی تھی۔۔ان چار ماہ میں وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں بھولی تھی۔۔
”میں مانتا ہوں ان لوگوں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا۔ تمہارے کردار کو دغدار کرنے کی کوشش کی ، وہ سب بھولنا ناممکن ہے ، لیکن پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ آپ معاف کر دیں ان کو ، میں آپ کو ایسے پریشان اور دکھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔پلیز اک بار میری بات مان کر دیکھیں۔“ دارین جانتا تھا اس کے لیے ان کو معاف کرنا آسان نہیں ، لیکن پھر بھی وہ چاہتا تھا کہ بیا ان کو معاف کر دے،وہ ایسے کبھی نہ کہتا بیا کو اگر وہ خود ایسے حالات سے نہ گزرا ہوتا،اس نے بھی معاف کر دیا تھا شاہانہ بیگم کو ، اس کے لیے بھی اتنا آسان نہیں تھا وہ سب کرنا ، لیکن کبھی کبھی جھکنے میں ہی بہتری ہوتی ہے۔یہی بات وہ بیا کو سمجھا رہا تھا وہ جھکنے کا نہیں کہہ رہا تھا اسے ،بس معاف کرنے کا کہہ رہا تھا،
”سہی کہا آپ نے۔۔!وہ سب کچھ بھولنا میرے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن میں مطمٸین ہوں یہ سوچ کر کہ شاید ایسے ہونا میری قسمت لکھا تھا، اور اگر وہ سب نہ ہوتا تو میں آپ سے کبھی نہ مل پاتی اور نہ ہی مجھے آپ سے پیار ہوتا اور نہ میں یوں آپ کے سا ۔۔۔۔۔۔“ بات کرتے کرتے اچانک ہی اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کچھ بول گٸی تھی ‘ اس نے جلدی سے اپنے لب بھینچ لیے، دارین جو بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا وہ بھی اس کی پیار والی بات سن کر چونک گیا ، پھر آنکھوں میں چمک لیے شرارت سے گویا ہوا۔۔
”کیا ہوا مسسز آپ بولتے بولتے خاموش کیوں ہو گٸی۔؟اتنا اچھا تو بول رہی تھیں آپ۔۔“
”وہ کک کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ ہم اندر چلتے ہیں رات بہت زیادہ ہوگٸی ہے۔۔“وہ گھبراہٹ میں بولتی،تیزی سے اس کے پاس سے گزرنے لگی ، دارین نے اس کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا وہ اسکے سینے سے آ لگی ، دارین نے جلدی سے اس کے گرد بازو حماٸل کرکے اس کو اپنے اور قریب کر لیا،اور اس کے بھاگنے کے سارے راستے بند کر دٸیے۔۔
”یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔؟سب دیکھ رہے ہوں گے ۔۔“ وہ اس کی گرفت میں کسمساٸی۔
”وہ سب جا چکے ہیں اندر۔۔۔۔“
”محترمہ اپنے دل کی بات تو کہہ دی آپ نے ، اب میرے دل کی بھی سنتی جاٸیں۔۔“وہ شوخ لہجے میں دھیرے سے اس کے کان کے قریب بولا، جبکہ شرم سے لال ہوتی وہ اپنا سر جھک گٸی، وہ جانتی تھی دارین اب اس کو چھوڑنے والا نہیں تھا،
”پپ پتا ہے مجھے آپ کے دل کی بات“وہ اس کے ساتھ لگی دھیرے سے بولی۔
”کیا پتا ہے آپ کو۔؟“ اس نے گھمبیر لہجے میں پوچھا، وہ اس وقت بہت مدہوش سا لگ رہا تھا۔
”یہی کہ آپ نے میرے کہنے پر مجھ سے شادی کی ہے، آپ کو مجھ سے ذرا سا بھی پیار نہیں۔بس ہمدردی ہے مجھ سے۔“ اس کی بات سن کر دارین کا سارا نشہ اڑن چھو ہوگیا اور اسکی گرفت بھی بیا پر ڈھیلی پڑ گٸی، وہ حیرت سے گنگ ہی رہ گیا۔۔
”واٹ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔؟“
”جو سچ ہے وہی کہا۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوٸی۔۔۔ دارین کو اس کی بدگمانی پر حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہو رہا تھا۔۔
”مسسز دارین حیدر شاہ میں اتنا اچھا بھی نہیں ہوں کہ ہمدردی میں شادی کرلوں اور پھر اسے نبھاتا پھروں “ وہ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوۓ بولا۔۔
”تو پھر کیوں نبھا رہے ہیں آپ؟“ وہ بھی خاموش نہیں رہی تھی۔
”کیونکہ پیار کرتا ہوں میں آپ سے ، یہ سچ ہے کہ میں نے آپ کے کہنے پر آپ سے شادی کی تھی لیکن اس میں ہمدردی بلکل بھی نہیں تھی، مجھے آپ سے پیار ہو گیا تھا۔لیکن افسوس کہ آپ کو میرا پیار صرف ہمدردی لگ رہا ہے ۔۔۔“اس نے بیا کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کر کے تاسف سے کہا۔جبکہ وہ اس کے اظہار پر کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔۔
”اب ہنس کیوں رہی ہیں آپ۔۔۔؟“ اس نے گھورتے ہوۓ سوال کیا۔
”سس سوری دارین جی۔۔۔میں نے جان کے ہی ایسا کہا ۔ پلیز اب مجھ سے ناراض مت ہوں۔“ وہ نظریں جھکاۓ آہستہ سے بولی۔۔۔ وہ اس کو سر جھکاۓ دیکھ کر آگے بڑھا،بیا اس کے ارادے کر دوقدم پیچھے ہوگٸی۔
”اب یہ سب کیا ہے ۔۔؟“ اس نے بیا کی حرکت دیکھ کر بھنویں سکیڑ کر خفگی سے پوچھا۔۔
”کچھ بھی نہیں دارین جی ، بس یہ کہنا تھا کہ ہم روم میں نہیں۔باہر کھڑے ہیں۔سنبھالیں خود کو۔“وہ ہنستی ہوٸی، اسے پیچھے دھکیل کر اندر کی طرف بھاگی۔۔
”اوہ شٹ یار کتنا بےوقوف ہوں میں۔۔“ وہ زور سے سر پر ہاتھ مار کر بولا۔اندر کی طرف جاتی بیا اس کی بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور پھر منہ بنا کر اس کو چڑاتے ہوۓ بھاگ کر اندر چلی گٸی۔
”چھوڑوں گا نہیں آپ کو۔۔۔“ وہ بھی منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دینے والے انداز میں کہتا اس کے پیچھے ہی بھاگ گیا۔۔۔۔۔ ۔۔ جبکہ آسمان پر اپنی پوری آب وتاب سے چمکتا روشن چاند بھی ان کی کھلکھلاہیٹں دیکھ کر مسکراتے ہوۓ بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔۔۔۔۔۔!
ختم شدہ ۔۔۔۔!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...