اسلام علیکم ماموں آپ نے بلایا مجھے اس نے کمرے میں داخل ہوتے سلام کیا۔۔
وعلیکم اسلام بیٹا آو بیٹھو( ماموں نے بیٹھنے کا اشارہ جب کہ مامی نے تو سلام کا جواب دینا بھی ضروری سمجھا بس ناگواری سے حور کو دیکھے جا رہی تھی)
حور کو مامی کا یوں دیکھنا اچھا تو نہیں لگا لیکن وہ خاموش رہی ۔۔۔کیونکہ بقول اس کی ماں کہ اب ہم دونوں کی ان کی ذمہ داری ہیں وہ چاہے سفید کریں چاہے کالا ہمیں زبان نہیں چلانی آگے سے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ حور بیٹا ہمیں اچھا لگا آپ دونوں ماں بیٹی ہمارے گھر آ گئ۔۔۔
ماموں کے بولنے پر حور خیالات کی دنیا سے واپس آئ ۔۔۔
۔۔۔ جی ماموں ہمیں بھی اچھا لگا نہ چاہتے ہوئ بھی اسے یہ کہنا پڑا۔۔۔۔
“”حور بیٹا دیکھو اب تمہارے سر پہ تمہارے باپ کا سایہ نہیں رہا اب تم اور تمہاری ماں ہماری ذمہ داری ہو یہ فیصلہ ہم دونوں بھائیوں نہ مل کہ کیا ہے ۔۔ اب تم ہمیشہ یہی رہو گی تمہارے باپ نے مرنے سے پہلے ساری جائیداد سب کچھ تمہارے نام کر دیا تھا اس کے کاغذا میرے پاس موجود ہیں تمہاری ماں نے مجھے سنبھال کے رکھنے کے لیے دیے تھے تمہیں بتانا بھی ضروری تھا اب تم بچی نہیں رہی تمہاری مرضی ہے تو کاغذات تم رکھ سکتی ہو ہمیں کوئ اعتراض نہیں ہے۔۔۔ (جبکہ یہ سنتے ہی مامی کے چہرہ پرشان ہو گیا۔۔””
نہیں ماموں ابھی آپ اپنے پاس ہی رکھیں پیپرز ۔۔۔
“” چلو بیٹا جیسے تمہارے مرضی اب میں تمہیں بتا دوں کہ تمہیں کیوں بلایا تھا دیکھو اب جب تم نے اس گھر میں رہنا ہے تو پھر کچھ ذمہ داری بھی تو اٹھانی پڑے گی ابھی تمہاری ماں تو کام نہیں کر سکتی تو تم پھر ہمارے ساتھ کام وغیرہ میں مدد کروا دینا۔۔۔۔””
حور نے جیسے ہی کہا اسے پیپرز کی ضرورت نہیں مامی کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ نان سٹاپ شروع ہو گئ حور کی مامیاں چاہتی تھی کہ جائداد بھی انہیں مل جائے حور اور اس کی ماں ان کے احسانوں کے تلے ان کی نوکرانی بن کہ رہیں ۔۔
نہیں شہناز مامی میں نے آگے پڑھنا ہے بی ایس کرنا ہے پھر ایم ایس کرنا بابا کی وش تھی میں بہت سارا پڑھوں اور مجھے بہت سارا پڑھنا ہے میں آئ بھی اسی شرط پہ تھی یہاں کہ مجھے پڑھنے کی اجازت دی جائے گی ۔۔کیوں ماموں ایسا ہی ہے نہ۔۔۔
۔۔”جی جی بیٹا ایسا ہی ہے اشفاق صاحب اچانک باتوں کا رخ اپنی طرف ہوتا دیکھ کہ گھبرا گئے انہوں نے اپنی طرف سے بات کو ٹالا تھا لیکن وہ نہیں جانتے تھے وہ حور تھی جو ایک بار کہ دیتی کر کہ لیتی تھی ۔۔ اشفاق صاحب اپنی بیگم کے خیالات سے بھی اچھی طرح واقف تھے وہ عجیب کشمکش میں پڑ گئے ۔۔ آخر کچھ سوچ کہ انہوں نے حور کو آگے پڑھنے کی اجازت دے دی جس پہ شہناز بیگم کا منہ غصہ سے لال ہو گیا تھا لیکن ضبط کر گئ۔۔۔۔۔
۔۔”” شکریہ ماموں میں کل ہی جا کہ فارم لے آؤں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر اگلے دن صبح صبح ہی وہ بڑے ماموں کہ کمرے میں موجود تھی ۔۔۔
اپنی ماں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی اس نے پڑھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔
ماموں میں نے یونی کا پتا کر لیا ہے وہ بہت اچھی ہے آپ میرے ساتھ چل کہ فارم لے آئیں ۔۔۔
بیٹا میں تو بزی ہوں آپ کسی اور کو لے جاؤ ۔۔۔۔
۔۔ نہیں ماموں میں کس کے ساتھ جاؤں اور کوئ ہے بھی تو نہیں۔۔۔۔
اسلام علیکم ماما بابا تبھی ایک نفوس بنا کھٹکٹائے اندر داخل ہوا۔۔۔۔
سامنے ہی حور کھڑی تھی جسے دیکھتے ہی اسے کل والی بات یاد آ گئ کیسے حور نے زوار ملک ۔۔ زوار ملک کو اگنور کیا تھا ۔۔۔۔
آؤ میرا بیٹا میرا شیر اشفاق صاحب نے آگے بڑھ کہ بیٹے کو جھٹ سے گلے لگا لیا۔۔۔
۔۔”بابا میں بلکل ٹھیک آپ کیسے ہیں رات کافی لیٹ آئے آپ اور میں ٹھکان کی وجہ سے جلدی سو گیا تھا نہیں تو رات کو ہی مل لیتا۔۔۔۔
تمہاری ماں نے بھی کچھ نہیں بتایا مجھے۔۔
!””میں نے منع کیا تھا آپ کے چہرے کی یہ خوشی کیسے دیکھتا پھر۔۔””
ہاہا یہ تو ہے میرا شیر بیٹا۔۔۔۔
“”!آہاں بابا ہم انکو تو بھول ہی گئے زوار نے حور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو سوچ رہی تھی یہی کھڑی رہوں یا جاؤں۔۔۔۔!”
ہاں بیٹا یہ آپکی پھوپھو کی بیٹی ہیں حورین آپ کو بتایا تھا نہ ان کے والد کی وفات کے بعد یہ یہاں شفٹ ہو گئ۔۔(باپ کا ذکر سن کہ حور کی آنکھوں میں آنسو آنے لگ گئے کیسے کبھی اس کے باپ کو بھی زندہ لوگوں میں شمار میں کیا جاتا تھا)
اوہ سہی افسوس ہوا آپ کے والد کا سن کہ اللہ انہیں جنت میں جگہ دے (آمین)دونوں نے بیک وقت ہی بولا۔۔۔
زوار ملک جو پہلی ملاقات کی بےعزتی بھول کہ اتنے اخلاق سے پیش آ رہا تھا اس کے پیچھے کی وجہ اس کا شیطانی دماغ ہی صرف جانتا تھا ۔۔۔ زوار ملک کسی کو اپنی طرف غصے سے دیکھتا دیکھ لیتا تو اس کی شامت آ جاتی تو پھر حور نے تو مکمل طور پہ اسے اگنور کیا تھا۔۔۔
“””آا بابا اپ کہیں جا رہے تھے ۔۔”
ہاں بیٹا آفس جا رہا تھا،،
یہ بھی آپ کے ساتھ جا رہی ہیں اس نے حور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
۔”””نہیں یہ تو یونی چلنے کا۔کہ رہی تھی فارم لینے ہے اس نے آگے بی ایس میں ایڈمیشن لینا ہے ۔۔(اشفاق صاحب بنا پوچھے ہی سب بتائے جا رہے تھے)
اچھا تو بابا آپ برا نہ منائیں تو میں لے جاؤں ان محترمہ کو ساتھ میں وہیں جا رہا تھا۔۔۔۔
“”ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹا ۔۔۔””
لیکن ماموں۔۔
“””حور بچے زوار میرا بیٹا ہے بے فکر ہو کہ جاؤ ،،جاؤ شاباش اور نہ چاہتے ہوئے بھی حور کو اس کے ساتھ جانا پڑا””””
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ان دونوں کے جاتے ہی شہناز بیگم پھٹ پڑی اشفاق صاحب آپ کیا چاہ رہے ہیں پہلے آپ نے اس لڑکی کو پڑھنے کی اجازت دے دی اور اب زوار کےساتھ بیجھ دیا بھلا زوار اور اس کا جوڑ۔۔۔۔۔۔۔
شہناز بیگم آپ سمجھ نہیں رہی اگر اس کے ساتھ زور زبردستی کریں گیں تو یہ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ اپنے گھر شفٹ ہو جائے گی اور پھر بیٹھی رہنا منہ بنا کہ۔۔۔
جو میں کر رہا ہوں اسے سمجھو اور جو ہو رہا ہے ہونے دو آئ سمجھ ۔۔۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے اب آپ کو آفس کے لیے لیٹ نہیں ہو رہا ۔۔
ہاں بس نکل رہا ہوں ۔۔۔۔
اللہ حافظ۔زوار حور کو یونی ڈراپ کر کہ اپنے دوست کی طرف چلا گیا جب وہ آدھے گھنٹے بعد واپس آیا تو حور کو جہاں چھوڑا وہ وہیں کہ وہیں کھڑی تھی ۔۔۔
آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور تقریبا کان میں گھس کہ سرگوشی کی طرح پوچھا یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔۔
ہائے اللہ وہ ایک دم سے اچھل پڑی ۔۔۔۔
کیا ہو گیا لڑکی میں ہوں ۔۔۔۔
آپ آپ نے مجھے ڈرا ہی دیا کوئ بھلا اس طرح بھی کرتا ہے ۔۔۔۔۔
ہاہا اچھا سوری بتاؤ یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔
۔۔ وہ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا کہاں جاؤں کہاں نہ جاؤ فارم کہاں سے لوں ۔۔۔۔
اففف آو میرے ساتھ ۔۔۔۔
وہ اسے لیے ایک آفس کے سامنے آ رکا پھر فارم لے کہ خود ہی پر کرنے لگ پڑا ۔۔۔۔
ساتھ ساتھ ایڈریس ۔۔۔ شناختی کارڈ نمبر وغیرہ بھی ہوچھ رہا تھا۔۔۔
کس میں اپلائ کرنا ہے۔۔۔
انگش میں۔۔۔۔
ہاہا پڑھ لو گی۔۔۔
جی ہاں پڑھ لوں گی اسے لگا جیسے زوار اس پہ طنز کر رہا تھا۔۔۔۔
واپس آتے ہوئے ایک جگہ رک کہ زوار نے حور کو آئسکریم کی آفر کی لیکن اس نے صاف صاف انکار کر دیا وہ ویسے ہی کمفرٹیبل فیل نہیں کر رہی تھی آج سے پہلے کبھی بھی یوں کسی لڑکے کے ساتھ باہر نہیں گئ تھی ۔۔۔۔۔
اچھا چلو تمہاری مرضی نہیں کھانی تو نہ کھاؤ ۔۔۔
۔۔۔۔ اوپر سے بے شک زوار اچھا بن رہا تھا لیکن اندر اس کے کیسی کیسی شیطانی پلین چل رہے تھے وہ کوئ نہیں جانتا۔۔۔۔۔
۔۔۔””زوار ایسا ہی تھا ایک ہی بار میں وار نہیں کرتا تھا سوچ سمجھ کہ موقع دیکھ کہ وار کرتا تھا بلکہ یوں کہیں تو بہتر ہو گا وہ اپنے موڈ کے مطابق خود موقع بنا لیتا تھا۔۔۔
“” “”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
حورین کا ایڈمیشن ہو گیا تھا اور نیکسٹ ویک سے کلاسس شروع ہو رہی تھی اس نے ساری تیاری کر لی تھی اور بہت ایسائٹڈ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج ہفتہ تھا اور ہر ہفتہ کی رات حورین کی فیملی باہر گھومنے پھرنے جاتی تھی ۔۔۔
وہ گھر کہ چھوٹے سے بنے گاڑڈن میں بیٹھی یہ بابا کے ساتھ گزارے دن یاد کر رہی تھی۔۔۔
کاش بابا آپ مجھے یوں چھوڑ کہ نا جاتے تو ہمیشہ کی طرح آج پھر باہر جاتے خوب مزا کرتے۔۔ دو آنسو آنکھوں سے ٹوٹ کہ گرے تھے۔۔۔۔۔۔
ارے شمائل یہ حورین بیٹھی ہے نہ نیچے گاڑڈن میں زمل نے کھڑکھی سے جھانکتے ہوئے کہا ۔۔۔
۔۔۔ کہاں مجھے بھی دکھاؤ ۔۔شمائل بھی بیڈ سے اٹھ کہ کھڑکھی کہ پاس آ کھڑی ہوئ۔۔۔۔
۔۔ ہاں شمائل ہے تو وہی لیکن بڑی دکھی سی لگ رہی ہے چلو نہ اس سے بات چیت کرتے ہے زمل نے فٹ سے شمائل کا ہاتھ پکرتے ہوئے کاا۔۔۔۔
ارے نہیں بھول گئ کیا ماما اور چاچی نے کیا کہا۔تھا۔۔۔
۔۔ زمی چھوڑو نہ ان کو چلو ہم اس سے دوستی کرتے ہیں زوار بھائ اور حائم کو بھی کہتے ہیں۔۔۔
اچھا چلو۔شمائل نے ہار مانتے ہوئے کہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشفاق صاحب اور شہناز بیگم کے تین بچے تھے سب سے بڑی رومیسہ جس کی شادی ہوئ ہوئ تھی اس سے بڑا زوار اور پھر شمائل تھی ۔۔۔۔
رومیسہ کی شادی شہناز بیگم نے اپنے بھائ سے کی تھی وہ لاہور میں رہتی۔تھی سال بعد ہی ایک اد چکر لگا لیتی تھی ۔۔زوار پڑھائ مکمل کرنے۔کے بعد اپنے باپ کے ساتھ بزنس سنبھال رہا تھا جبکہ شمائل ابھی پڑھ رہی تھی۔۔۔
۔۔۔ فرح بیگم کے دو بچے تھے … زمل اور حائم ۔۔۔
حائم بڑا جبکہ زمل اور شمائل میں ساتت ماہ کا فرق تھا۔۔۔
کاشف صاحب شہناز بیگم کے شوہر کافی عرصہ پہلے ہی کار ایکسیڈینت میں وفات پا گئے تھے۔۔۔۔
………………………………….
شمائل اور زمل شوخ چنچل طبعیت کی مالک تھی ہر ایک سے جلدی فری ہو جانا ہر وقت شور مچا رکھنا جبکہ رومیسہ تھوڑی نرم مزاج اور خاموش طبیعت کی ہے….
حائم بلکل سب سے الگ مزاج کا لڑکا بہت ریزرو طبیعت کا مالک ہے ۔۔۔
جہاں یہ چاروں صاف اور نیک نیت کے مالک ہیں وہیں زوار بلکل سب سے منفرد ہے غصہ ۔۔ بدلہ۔۔ انا خوب کوٹ کوٹ کہ بھری ہے کچھ گھر کا پہلا بیٹا ہونے کی وجہ سے لاڈ پیار کا اثر کچھ ماں کی طبیعت کا اثر تو کچھ غلط کمپنی میں بیٹھنے کا اثر ہے
تھوڑی دیر بعد شمائل ۔ زمل اور زوار (جسے زبردستی کھینچ کے لایا گیا تھا) نیچے حور کے پاس موجود تھے۔۔
اسلام علیکم۔۔ ڈئیر کزن ۔۔ ہمیشہ کی طرح شمائل نے ہی پہل کی تھی۔۔۔
جبکہ حور حیران پرشان ان سب کو دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ ان سب سے بچپن میں ملی تھی اس کے بعد آج مل رہہ تھی۔۔۔
ارے ڈئیر کزن کیا ہو گیا اتنی حیران کیوں ہو رہی ہوں ہم تمہارے کنز ہیں کوئ جن بھوت نہیں جو کھا جائیں گیں۔۔۔۔
بھووو۔۔۔ زمل نے بھی ہاتھ کو الٹا سیدھا کر کہ ڈرانے کی کوشش اور آرام سے شمائل کے ساتھ والی کرسی بیٹھ گئ۔۔۔
۔۔”حائم جو سونے کے ارادے سے کھڑکھی کے پردے بند کرنے آیا تھا سب کو گارڈن میں بیٹھے معمول کی طرح شمائل کی چلتی زبان اور معمول سے ہٹ کہ زوار کا موجود ہونا حائم کو حیران کر گیا۔۔۔۔۔”
اس نے فٹ سے سونے کا ارادہ ترک کر کہ نیچے جانے کے لیے حلیہ تھیک کرنے لگا۔۔۔۔۔
زوار بھائ فون رکھیں اور بیٹھیں باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔
شمائل باتیں تو کریں گیں لیکن یہاں نہیں کہیں باہر چلتے ہیں کافی ٹائم سے نہیں گئے ۔۔۔۔
واہ واہ زوار بھائ یہ آپ ہی ہیں نہ مجھے یقین نہیں آ رہا شمائل نے ایکٹنگ کی انتہا کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
۔۔۔۔شمائل چھوڑو تم مجھے چٹکی کاٹو حائم بھائ آ رہے ہیں وہ بھی ہماری طرف ۔۔۔۔۔
بس کر دو تم دونوں ڈرامے باز خواتینوں ۔۔۔حائم نے آتے ہی کہا۔۔
۔۔۔۔ ہنہ خواتین ہو گی آپکی بہن شمائل نے کرسی پہ بیٹھتے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
حائم کے چہرے مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔
اچھا تو حائم بھائ آپ آ ہی گئے ہیں پتا نہیں کیسے آ گئے تو چلیں ہمارے ساتھ باہر زوار بھائ آ رہے ہیں۔۔۔
اچھا اچھا شیطان کی خالہ چل رہا ہوں اس نے زمل کا کان پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
زمل حورین چلو ہم تیار ہو کہ آتے ہین شمائل دونوں کا ہاتھ پکرتے چل دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب رات گئے تک واپس آئے تھے ۔۔۔
حور شمائل اور زمل کے ساتھ گھل مل گئ تھی حائم سے بس ایک دو دفعہ ہوئ جبکہ زوار کی نظریں اسے مسلسل اپنے اوپر محسوس ہوئ جس سے اسے بہت الجھن ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ وہ جب گھر واپس آئے انیسہ بیگم سو چکی تھی اس لیے وہ ماں کو ملی بغیر کمرے میں آ گئ اور سونے کے لیے لیٹ گئ ۔۔۔ آج کافی اچھا محسوس ہو رہا تھا اسے جیسے صدیوں بعد وہ یوں باہر نکلی ہو مسکرائ ہو۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور کی یونی بھی شروع ہو گئ تھی ۔۔۔۔
حائم۔۔ شمائل ۔۔زمل اور حور چاروں ہی ایک یونی میں پڑھتے تھے ۔۔۔ حائم کا لاسٹ سیمسٹر شروع ہوا تھا جبکہ شمائل اور زمل کا چوتھا سیمسٹر شروع ہوا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا یہاں تک کہ ان کے سیمسٹر کے ایگزیمز شروع ہو ئے تھے چاروں اپنے کمروں میں گھسے پڑھنے میں مصروف تھے ۔۔
زوار چھ مہینوں کے لیے کینیڈا چلا گیا تھا بزنس کی وجہ سے ۔۔۔
شکر آج لاسٹ ایگزیم بھی ختم ہو گیا اب دو مہینے آزادی ۔۔۔
گھر آتے ہی سب صوفے ہہ گرنے کے انداز سے بیٹھ گئے۔۔۔۔
حائم بھائ آپکی تو موجین لگ گئ اب پڑھائ ختم ۔۔۔
نہیں زمی میں ایم ۔ ایس کروں گا تب جا کہ اصل والی ڈگری کمپلیٹ ہو گی۔۔۔۔
اچھا زمل ابھی کے لیے چھوڑو پڑھائ کی باتیں ۔۔ حائم بھائ آپ ہمیں کہیں باہر لے چلیں گیں آج شام کو۔۔۔
ایک دفعہ تو سب کو جھٹکہ ہی لگ گیا کہ آج حور نے فرمائش کی ہے۔۔۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور کے جاؤں گا۔۔۔۔
شکریہ حائم بھائ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور لے چلوں گا وہ بہن لگتی ہے نہ جیسے کمرے میں آتے ہی شمائل پھٹ پڑی۔۔۔۔
شمائل کیا ہو گیا ہے حور نے فرسٹ ٹائم فرمائش کی اور کتنے پیار سے بھائ کہ کے بلایا تھا اس نے۔۔۔۔
مجھے تو کبھی نہیں لے گئے تھے حائم ایسے ہنہ۔۔۔
باہر سے گزرتے حائم نے شمائل کی بات سنی تو وہیں رک گیا۔۔۔۔
اچھاااا تو مین کہتی ہوں جا کہ بھائ کو آپکی بہن شمائل کو بھی لے جائیں باہر۔۔۔۔
توبہ توبہ استغفر لڑکی بہن کیوں بولا توبہ توبہ۔۔۔۔
شمائل کے اس طرح کہنے سے حائم کو بے پناہ ہنسی آئ لیکن اس نے کنٹرول کر لی۔۔۔حائم اچھے سے شمائل کی فیلنگز سمجھتا تھا اور کچھ حائم کی فیلنگز بھی سیم تھی ۔۔۔۔۔۔””
یار تم کیسی بہن ہو سمجھتی ہی نہیں ہو مجھے شمائل نے تقریبا رونے کے انداز سے کہا۔۔۔۔
میری جان میں سمجھتی ہوں لیکن تم بھی سمجھو ابھی تھوڑا وقت صبر کرو پھر بھائ سے بات بھی کر لیں گیں ۔۔۔۔۔
اچھا کرو گی نہ تم ۔۔
ہاں ضرور کروں گی۔۔۔چلو اب اٹھو چلو چینج کرو اور تھوڑی دیر ریسٹ کر لو پھر شام کو باہر بھی تو جانا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کتنا مزہ آیا نہ ۔۔۔
ہاں واقعی بہت مزہ آیا حور نے کہا۔۔۔۔
ہاں اور جو جھولے والا سین تھا افف شمائل بات کرنے کے ساتھ ساتھ رات بنائ ویڈیوز اور پکچرز زوار کو سینڈ کر رہی تھی۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی یہ ویڈیوز پکچرز کیوجہ سے حور کی۔زندگی میں پرشانیاں آنے والی تھی۔۔۔حائم نے ایم ایس میں ایڈمیشن لے کا تھا اس کا فرسٹ ائیر چل رہا تھا جبکہ ان تینوں نے نیکسٹ سیمسٹر کے ریزلٹ آ گئے تھے اور نیا سیمسٹر شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔
حور کا ٹھرڈ جبکہ ان دونوں کا ساتواں سمیسٹر شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوار نے جب سے ویڈیوز اور پکچرز دیکھی تھی اسے ایک آگ سی لگی ہوئ تھی اسے لگ رہا تھا حور دن بہ دن حائم کے قریب ہو رہی تھی جبکہ حور حائم۔کو بڑا بھائ سمجھتی تھی اور حائم بھی اسے بہنوں کیطرح ٹریٹ کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ زوار جلد سے جلد پاکستان آنا چاہ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی کہ حائم نے دروازہ بجا کہ اندر آنے کی اجازت مانگی۔۔۔۔
آ جائیں حائم بھائ۔۔۔۔۔
حور مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے بہت اہم حائم نے صوفہ پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔۔ حور بھی اسی صوفے پہ تھوڑا سا فاصلے پہ بیٹھ گئ۔۔۔۔
جی حائم بھائ کیا بات ہے ۔۔۔
حور تم شاید جانتی ہو مین شمائل کو ہسند کرتا ہوں ۔۔۔
جی بھای میں جانتی ہوں صرف آپ نہیں وہ بھی آپ کو پسند کرتی ہے کسی نے بھی لفظوں سے نہیں کہا لیکن میں آنکھیں سمجھ لیتی ہوں ۔۔ آخر میں ہنستے ہوئے بولا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حور تم جانتی ہو میں بہت ریزرو قسم کا بندہ ہوں تمہیں اندازہ ہو گا ہی میں ابھی تک فراموش کیا آیا اس بات کو لیکن اب شاید وقت آ گیا ہے لیکن تم جانتی ہو یہ کام مجھ سے نہیں ہو گا مجھے تمہاری مدد چاہیے۔۔۔
جی جی بھائ ضرور میں ہر دم حاضر ۔۔ میری پاس ایک پلین ہے۔۔ ایک دم سے حور کا دماغ چلنا شروع ہو گیا ۔۔ (جب سے شمائل اور زمل سے دوستی ہوئ تھی حور پہلے والی حور بنتی جا رہی تھی شرارتی شوخ چنچل والی)
آج رات سب بڑوں نے جانا ہے گاؤں میں کسی کی شادی ہے وہ سب کل شام واپس آئیں گیں تو ہم زمل سے کہ کے شمائل کو تین چار گھنٹوں کے لیے باہر لے جانے کا کہیں گیں اور پیچھے سے گاڑڈن کو خوبصورت سا سجا کے آپ اسے پرپوز کر دینا ۔۔ کیسا لگا میرا پلین ۔۔۔
بہت زبردست بہت ہی زبردست ۔۔
تو بس پھر جائیں کسی طرح زمل کو میرے کمرے میں بھیجیں کیونکہ مین جاؤں گی تو شمائل کو شک ہو جائے گا ۔۔۔۔
اوکے بوس مشن سٹارٹ۔۔۔
ہاہاہا اوکے۔۔۔
حائم مسکراتا ہوا حور کے کمرے سے نکلا۔۔۔۔
زوار ابھی ہی واپس آیا تھا اس کا ارادہ حور سے ملنے کا تھا لیکن جیسے ہی اس نے حائم کو حور جے کمرے سے نکلتے دیکھا وہ بھی ہنستے ہوئے اسے تو آگ ہی لگ گئ تھی۔۔۔۔۔۔
حور سے ملنا کا ارادہ ترک کر کہ وہ سیدھا کمرے میں بند ہو گیا سب بڑوں سے تو مل چکا تھا وہ۔۔۔
تمہیں تو ایسی مات دوں گا میں حور یاد کرو گی اس نے غصے سے کوٹ بیڈ پہ پھینکا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت مشکل سے زمل نے شمائل کو شاپنگ پہ چلنے کے لیے راضی کیا ۔۔۔۔۔
ان دونوں کے جاتے ہی حور اور حائم تیاریوں میں لگ گئے ۔۔۔
شکر حائم بھائ آپ ہیں مجھے لگا کہیں وہ دونوں نہ واپس آ گئ ہوں ۔۔ شمائل کا کوئ اعتبار نہیں وہ راستے ہی واپس نہ آ جائے۔۔۔
۔۔ ہاہا نہیں تم بے فکر رہو ابھی زمی سے بات ہوئے ہے وہ مال میں ہی اور کچھ دوستیں مل گئ ہیں انہیں وہاں سو آرام سے کام کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
چلو شکر ہے۔۔ حور نے کام میں مشغول کہا۔۔۔۔
۔۔۔حائم بھائ وہ ریڈ روز پکرائیے گا۔۔۔۔
زوار یہ سب کھڑکھی میں کھڑا دیکھ رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا یہ کس چیز کی تیاریاں ہو رہی ہیں دوسرا وہ حائم اور حور کو یوں ہنس ہنس کے کام کرتے نہیں دیکھ پا رہا تھا۔۔۔۔
“””ابھی جا کہ اس حور کی عقل ٹھکانے لگاتا ہوں ویسے تو بڑا شریف بنتی ہے””
لیکن نہیں میں کیوں جاؤں ایسے میں زوار ہوں ہمیشہ پلینگ کے ساتھ مات دیتا ہوں تم تھوڑا صبر کرو حور تم سے تو ابھی پہلی ملاقات کا بدلہ بھی لینا ہے پھر جو چیز زوار کی نظر میں آ جائے وہ زوار کی ہو کہ رہتی ہے۔۔۔ کہتے ہی اس نے کڑکھی بند کر دی اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنٹہ کی انٹھک محنت کے بعد گاڑڈن کا رنگ ہی بدل گیا۔۔۔۔
واؤ حور کتنا امیزنگ لگ رہا ہے سب ۔۔۔۔
جی بلکل آخر محنت کس کی ہے۔۔۔
لگتا شمائل زمل آ گئ ہیں گیٹ پہ ہارن سن کہ حور نے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے حائم بھائ بیسٹ آف لک۔۔۔
تم کہاں چلی ۔۔۔
ارے بھائ میں کباب میں ہڈی نہیں بننا چاہتی۔۔۔
۔۔۔۔ حور پچھے کے راستے سے شمائل اور زمل کے پاس آ کھڑی ہوئ جو کار سے سامان نکال رہی تھی۔۔۔۔
واہ بھئ بڑی شاپنگ کی ہے چلو زمل سامان روم میں لے چلتے ہیں۔۔۔۔
ارے۔میں بھی تو چل رہی ہوں۔۔۔
شمائل تمہیں گاڑڈن میں زوار بھائ نے بلایا ہے انہوں نے کہا تھا جیسے ہی آئے فورن میرے پاس بھیجنا۔۔۔۔
کیوں یار غصے میں لگ رہے تھے کیا بھائ۔۔
۔۔۔ہاں تھورے سے لگ تو رہے تھے۔۔۔حور نے جا بوجھ کے ڈرانے کی کوشش کی ۔۔۔۔
شمائل آیت کرسی پڑھ کہ آج تیری خیر نہیں وہ اپنے آپ سے باتیں کرتے گاڑڈن والی سائڈ پہ چل دی۔۔۔۔
۔۔۔۔شمائل کے جانے کے بعد دونوں زور سے ہنسی۔۔
بیچاری کو پتا ہی اسے کیا سرپرائز ملنا والا ہے۔۔۔۔
اچھا چلو اندر چلیں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار اتنا اندھیرا کیوں کیا ہوا ہے ۔۔۔
کوئ ہے بھائ کیا آپ یہاں موجود ہیں۔۔۔۔
بھائ کیا آپ یہاں ہیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔وہ جیسے ہی تھوڑا آگے بڑھتی ہے حائم فورن پیچھے سے آ کہ اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ لیتا یہ سب اتنا جلدی ہوتا ہے وہ دیکھ ہی نہیں کہ ہے کون ۔۔۔۔
۔۔کون ہے بھائ آپ ہیں کیا یہ پٹی کیوں باندھی ہے۔۔۔۔
بھائ کچھ تو بولیں۔۔ وہ سہی معنی میں ڈر گئ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
شششش بس دو منٹ اور۔۔۔۔
حائم یہ آپ ہیں حائم آپ ہی نہ بولیں۔۔۔
ششش کہا نہ بس دو منٹ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔””مطلوبہ جگہ پہ پہنچتے ہی حائم نے شمائل کی پٹی چند سیکنڈ تو وہ کچھ دیکھ ہی نہ پائ جب کچھ نظر آنے لگا تو فورن بولی۔۔۔
حائم آپ کہاں ہیں اتنا اندھیرا کیوں ہے آپ کوئی گیم کھیل رہے کیا۔۔۔۔
۔۔۔سے آ کہ اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ لیتا یہ سب اتنا جلدی ہوتا ہے وہ دیکھ ہی نہیں کہ ہے کون ۔۔۔۔
۔۔کون ہے بھائ آپ ہیں کیا یہ پٹی کیوں باندھی ہے۔۔۔۔
بھائ کچھ تو بولیں۔۔ وہ سہی معنی میں ڈر گئ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
شششش بس دو منٹ اور۔۔۔۔
حائم یہ آپ ہیں حائم آپ ہی نہ بولیں۔۔۔
ششش کہا نہ بس دو منٹ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔””مطلوبہ جگہ پہ پہنچتے ہی حائم نے شمائل کی پٹی چند سیکنڈ تو وہ کچھ دیکھ ہی نہ پائ جب کچھ نظر آنے لگا تو فورن بولی۔۔۔
حائم آپ کہاں ہیں اتنا اندھیرا کیوں ہے آپ کوئ گیم کھیل رہے کیا۔۔۔۔
۔۔۔یک دم لائٹس آن ہوتی ہیں اور ہر طرف روشنی پھیل جاتی ہے۔۔۔
ڈرختوں پہ رنگ برنگی لائٹنگ کی ہوئ ہوتی ہے۔۔۔
سامنے ایک ٹیبل جس کے گرد آمنے سامنے دو کرسی پڑی ہوتی ہے ٹیبل پہ ہارٹ شیپ کا کیک ہوتا سائڈ پہ ریڈ اینڈ وایٹ روز کو مکس کر۔کہ رکھا ہوتا ہے۔۔۔ پودوں کے گرد لگی گرل پہ بھی ریڈ ایند وائٹ روز خوبصورتی سے سجائے گئے ہوتے ہیں۔۔۔۔””””
شمائل انہیں پہن لو حائم کے ہاتھ میں دو گجرے ہوتے ہیں۔۔بلکہ میں ہی پہنا دیتا ہوں۔۔۔۔
شمائل حونق کھڑی سب دیکھ رہی ہوتی ہے جبکہ حائم اسے گجرے پہنا چکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔شمائل چلو ۔۔۔۔شمائل حائم اسے پکڑ کہ جھنجھوڑ ہی دیتا ہے۔۔۔۔۔
ہاں ہاں کیا ہوا۔۔۔
۔۔کیا مطلب کیا ہوا کب سے کہ رہا ہوں چلو ٹیبل کے پاس۔۔۔
۔۔۔”””ایک ایک منٹ حائم یہ سب آپ نے کیا ہے میرے لیے۔۔۔
ہاں میں نے اور حور نے مل کہ یعنی یہ آپ تینوں کا پلین تھا ۔۔۔۔
۔۔””ہاں جی””
اووو آاا وہ ایک دم چیخ ہی پڑی ۔۔۔۔
۔۔”لڑکی آہستہ تمہارا بھائ گھر ہی ہے ایسا نہ ہو کٹ لگ جائے۔۔۔””
او سوری لیکن میں بہت خوش ہوں مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں ۔۔۔۔
۔۔فلحال تم ٹیبل تک چلو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمل کچن میں کھانے کا کچھ بنا رہی تھی ساتھ ساتھ گنگنا رہی تھی۔۔۔
ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے تمہارے بنا۔۔۔
۔۔۔ گھر والے سب کہاں ہے۔۔۔۔
اچانک زوار کے آنے اور تھوڑے سخت میں پوچھنے سے زمل گھبرا گئ اور ہاتھ میں پکڑا چمچ نیچے گر گیا۔۔۔
۔۔۔ جھک کے چمچ ہوئے ۔۔۔وہ وہ سب گاؤں گاؤں ہیں۔۔اٹک اٹک کہ کہا۔۔۔۔
شمائل حائم وغیرہ۔۔۔
۔۔ وہ وہ شمائل دوست کے گھر حائم۔بھائ کا پتا نہیں۔۔۔۔
اچھا تو نیچے تیاریاں کیوں ہو رہی تھی۔۔۔
۔۔۔ پتا نہیں وہ وہ حائم بھائ کو ہی پتا ہے۔۔۔۔
۔۔اچھا اور حور کدھر ہے ۔۔۔
حور اپنے کمرے میں۔۔۔
۔۔اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔
زوار کے جاتے ہی زمل کے سکھ کا سانس لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افف شکر ہے زوار بھائ نے بھی ڈرا ہی دیا شکر کوئ الٹی سیدھی بات نہیں نکلی منہ سے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر اب شمائل اور حائم بھائ کی جلدی جلدی شادی ہو جائے گی کتنا مزہ آئے گا۔۔ وہ کپڑے پریس کرنے کے ساتھ ساتھ خود سے ہی باتوں میں لگی ہوئ تھی
۔۔۔۔مزہ تو میں کرواتا ہوں تمہیں ۔۔۔
اچانک زوار کمرے میں اور تقریبا چیخ کے بولا حور ایک دم سے سب ہونے کیوجہ س ڈر کے۔پلٹنے لگی اور اس کا ہاتھ استری کے ساتھ ٹچ ہو گیا۔۔
سسس آا ۔۔۔ ایک سسکی حور کے منہ سے نکلی…
زوار بھائ ۔۔ آاا۔۔۔۔پ ا۔۔ااا۔۔۔س طرر۔۔۔ررح میرے کم۔۔رررے میں کیو۔ں آئی۔۔۔ں ہیں۔۔۔۔
حور زوار کے تیور دیکھ اس قدر ڈر گئ تھی الفاظ خودبخود اٹک اٹک کے نکل رہے تھے……
چپ چپ کر ایک دم چپ آواز نہ نکلے تیری۔۔زوار نے دروازہ بند کرتے غصے سے کہا۔۔۔
۔۔زوار بھائ دروازہ کیوں بند کیا ہے کھولیں اسے وہ جیسے ہی دروازہ کی لپکی زوار نے اسی جگہ سے بازو پکڑ پکڑ کے دیوار کے ساتھ لگا دیا جو جلا تھا۔۔۔۔اور ایک ہاتھ حور کے منہ پہ رکھ دیا۔۔۔۔
درد کی شدت سے حور کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگ پڑے
….شش چپ چپ یہ آنسو نہیں ابھی تو بہت کچھ دیکھنا باقی ہے تب کے لیے آنسو بچا کہ رکھو۔۔۔۔
زوار نے منہ سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔۔۔
۔۔زوار بھائ آااپ ایسا کیوں بول رہے ہیں میں نے کیا کیا ہے۔۔۔
۔۔میں نے کیا کیا ہے بڑی معصوم بن رہی ہو ۔۔۔ ابھی تو پہلی ملاقات کا حساب لے رہا ہوں باقی چیزوں کا حساب بعد میں لوں گا ایک ایک کر کہ۔۔۔۔
زوار بھائ آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں۔۔۔۔
حور نے روتے ہوئے کیا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا زوار ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔۔
۔۔۔چپ خبر دار جو دوبارہ بھائ بولا تھا ۔۔زوار نے حور کے بازو کو زور سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔
آاا مجھے درد ہو رہا ہے چھوڑیں ۔۔۔۔
چھوڑ دوں گا چھوڑ دوں گا۔۔۔۔
۔۔ پہلی بات آج کے بعد میں تمہیں حائم کے آس پاس نہ دیکھوں دوسری بات جب ایک بار کوئ چیز زوار کی نظروں میں آ جائے وہ پھر زوار کی ہو کہ رہتی ہے چاہے اس کے لیے جان دینی پڑے یا جان لینی پڑے۔۔۔
آئ سمجھ فلحال کے لیے ان دو باتوں کو ہی یاد رکھو کافی ہے۔۔۔۔۔کہتے ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
زوار کے جاتے ہی حور نے دروازہ بند کیا اور پھوٹ پھوٹ کہ رو دی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...