بارش کی پہلی بوند زمین پہ پڑتے ہی جب گیلی مٹی کی خوشبو ہماری سانسوں میں سرایت کر جاتی ہے اور ذہن پر مختلف یادیں ایک دم سے ہلا بول دیتی ہے۔ تب ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوتیں یادوں کے درمیان، ذہن کے لیے یہ فیصلہ کرپانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سی یاد حاوی ہے۔اس شخص کے مسکراتے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی وہ بالکل اسی احساس سے دوچار ہوئی تھی۔مختلف یادیں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو رہی تھیں۔وہ شخص مسکراہٹ اچھال کر زینے اترتا اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا جبکہ وہ اپنی چھت پرساکت کھڑی رہ گئی۔وہ ہل نہ سکی۔ وہ اس وقت اپنی چھت پر موجود ہی نہیں تھی۔
وہ تو نو سال پیچھے اپنی جماعت میں بیٹھی تھی۔معلم تختہ سیاہ پر حساب کی مساوات حل کروا رہے تھے۔سبھی طلباء بوریت کا شکار ہورہے تھے۔ دفعتاً معلم کو ان کے فون نے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔کسی ایمرجنسی کے باعث انہیں کلاس کو چھوڑکر جانا پڑا تھا۔ اچانک سے ملی غیر متوقع نعمت پر سبھی طلبہ ہلا کرتے ہوئے اپنی اپنی نشستوں پر اچھلنے لگے۔تبھی دہم جماعت کا پارتھ سکسینا ان کی جماعت میں داخل ہوا تھا۔ وہ دراز قد ،دبلا پتلا تھا۔ سنہری رنگت کے چہرے پر سیاہ فریم والا چشمہ تھا۔ نفاست سے سیٹ کیے گھنے سنہرے بال اس کی پیشانی سے ہوتے ہوئے اس کے چشمہ پر آرہے تھے۔ وہ یقیناً خوبصورت تھا مگر جاذب نظر نہیں کیونکہ اس کی خوبصورت بادامی آنکھیں ہمیشہ سہمی ہوئی دکھائی دیتیں تاہم خوبصورت نقوش خوف و حراس کے تاثرات کے پیچھے چھپ جاتے ۔ اس کا عمومی تاثر ذہین و خوبصورت مگر احساس کمتری کے شکار لڑکے کا پڑتا۔
پارتھ سکسینا ہر سال ان کے اسکول میں ٹاپ کرتا تھا۔ کسی استاد کے ذمہ جماعت سونپ جانے کے بجائے معلم نے پارتھ کو انچارج بنا دیا تھا ۔ اساتذہ اکثر اوقات ضرورت پڑنے پر بڑی جماعت کے طلباء کو کچھ دیر کے لیے کسی جماعت کو سنبھالنے کی ذمّہ داری سونپ دیا کرتے تھے۔ ایک پوری جماعت کو سنبھالنا تو درکنار پارتھ سکسینا خود کو سنبھال پانے سے بھی قاصر تھا۔وہ اسکول کا واحد لڑکا تھا جو دوسرے طلباء کے مقابلے ذہین تو تھا مگر باعزت نہ تھا۔اس کے ذہین و فطین ہونے کے باوجود طلباء نہ اسے عزت دیتے تھے نہ ہی اہمیت ۔ہر دوسرے دن وہ ہم جماعت لڑکوں کے حتیٰ کہ اس سے کم عمر لڑکوں کے پرانکس کا شکار ہوتا رہتا تھا۔وہ فطرتاً کم گو ، ازحد حساس لڑکا تھا۔جس کسی کا جی چاہتا اسے باتھ روم میں لاک کر دیتا۔کوئی اس کا ٹفن اڑا لے جاتا تو کوئی نوٹس غائب کر دیتا۔ وہ خاموشی کے ساتھ آنکھوں میں آنسو لیے سب کچھ ہوتا دیکھتا رہتا۔ اساتذہ سے شکایت کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ اس کی اسی کم ہمتی اور بزدلی کا سبھی فائدہ اٹھاتے تھے۔
جونہی ساتویں جماعت کے طلباء کی نگاہیں چاک اٹھاتے پارتھ پر پڑیں، سبھی طلباء نے گویا طوفان بدتمیزی کا آغاز کردیا۔
ہو۔۔۔۔۔ہو کی آواز نکالتے لڑکوں نے خالی بوتلیں ، کتابیں ، قلم غرض جو چیز ہاتھ لگی اس کی سمت اچھالنا شروع کردی۔اپنی نشست پر خاموشی کے ساتھ بیٹھی حریم تاسف اور ترحم بھری نگاہوں سے اس لڑکے کی سمت دیکھتی رہی جو اپنے چہرے کو دونوں بازوؤں سے چھپائے خود کو اپنی طرف آتی چیزوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔آدھا گھنٹہ کلاس کوقابو کرنا تو درکنار وہ دس منٹ کے اندر ہی راہ فرار اختیار کر گیا۔
لنچ بریک کے دوران وہ حیدر کے ساتھ ایک تنہ ور درخت کے نیچے نصب بینچ پر بیٹھی سوچ میں گم تھی۔حیدر اور حریم ایک ہی جماعت میں زیرتعلیم تھے مگر ان کے ڈیویژن مختلف تھے۔
“بھائی کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہم کلاس ٹینتھ کے پارتھ کو اپنے گروپ میں شامل کرلیں۔سارا اسکول اس کا مذاق بناتا ہے۔ سارے لڑکے پھر چاہے وہ اس سے کم عمر ہی کیوں نہ ہو اس کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔اس کا کوئی دوست نہیں ہے ۔وہ ہمیشہ اکیلا رہتا ہے شاید اسی لیے سب اسے اور پریشان کرتے ہیں۔ پورے سکول میں ہمیں کوئی تنگ نہیں کرتا۔ ہمارے گروپ میں آجانے سے وہ محفوظ رہے گا۔پھر کوئی اسے تنگ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا ۔مجھے اس پر بہت ترس آتا ہے۔اس کے لیے بہت برا لگتا ہے۔ مجھے تو وہ اچھا لگتا ہے۔پتا نہیں کیوں سب اسے تنگ کرتے ہیں۔”
وہ دل گرفتہ لہجے میں بولی۔ ٹفن سے پراٹھے کا نوالہ منہ تک لے جاتے ہوئے حیدر کا ہاتھ رک گیا۔ اس نے ٹھٹھک کے حریم کے چہرے کو دیکھا وہ جیسے خلاؤں میں کھوئی ہوئی تھی۔اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔
” ٹھیک ہے ہم سوچیں گے اس بارے میں۔ بات کروں گا میں اس سے۔”
حیدر نے فورا بات بدل دی تھی۔ مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی تھی کیونکہ اس دن کے بعد پارتھ دوبارہ کبھی اسکول نہیں آیا تھا ۔کچھ طلباء کا کہنا تھا کہ اس کے والدین پردیس منتقل ہوگئے تھے۔
ایک کبوتر نے منڈیر پر بیٹھ کر اپنے پروں کو جھٹکا تھا وہ جسے خواب سے جاگی۔وہ چھت پر تنہا کھڑی تھی۔وہ جا چکا تھا۔
کو ن تھا وہ۔۔۔۔پارتھ۔۔۔پارتھ سکسینا۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔
وہ تحیر زدہ خود سے مخاطب تھی۔
*******
“حیدر اور شفق کا نکاح ہونا تھا۔سادہ سی تقریب تھی مگر حریم کی تیاریاں تو گویا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ہمسائے کی چند عورتیں اور چند قریبی رشتے داروں کی آمد سے آفندی حویلی میں شادی والے گھر کی چہل پہل دکھائی دیتی تھی۔
“کوئی دروازہ تو کھول دے۔ میرے خدا یہاں تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔”
ڈور بیل کی آواز پر وہ جھنجھلاتی ہوئی موتیوں سے مزین دوپٹے کو سر پر ٹکاتی دروازے کی سمت بڑھی۔
” ایچ اسکوائر گروپ کو پی ایچ اسکوائر بنانے کا آفر ابھی ویلیڈ ہے؟ کیا اب بھی اس ناچیز کو آپ کے گروپ میں شامل ہونے کا موقع دیاجائے گا۔”
پہلے اگر میں آپ دونوں کے گروپ کا حصہ بن جاتا تو ہمارے گروپ کا نام کسی کیمیکل فارمولے جیسا لگتا اچھا ہی ہوا میں تب حریم اور حیدر آفندی کے گروپ کا حصہ نہیں بن سکا لیکن اب اگر آپ دونوں مجھے اپنا جوڑی دار بنا لیں تو میں یقین کے ساتھ کہہ ساتھ ہوں گروپ کا نام کم ازکم مضحکہ خیز نہیں ہوگا۔
ہم۔۔م۔۔م۔۔۔۔۔ایچ کیوب کیسا رہےگا۔”
دروازہ وا ہوتے ہی چوکھٹ پر ایستادہ شخص نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“پہ ۔۔پہ۔۔۔پارتھ۔۔۔۔۔۔۔”وہ جیسے بےیقینی سے بولی۔
“پارتھ نہیں میڈم ، بندہ خدا کو حمزہ کہتے ہیں۔کہا تھا نا گروپ کا نام مضحکہ خیز نہیں لگےگا۔”
اس نے سر کو ذرا سا خم دے کر تعارف کروایا ۔ پیریٹ گرین رنگ کی کامدار گول دامن قمیض پر ہم رنگ چوری دار پاجامہ میں ملبوس سر پر ہلکا گلابی موتیوں سے مزین دوپٹہ اوڑھے کانوں میں چمکتے آویزے اور چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ لگائے وہ سیدھی اس کے دل میں اترتی جارہی تھی۔
“آپ حمزہ کیسے اور کل چھت پر ۔۔۔۔۔۔۔ ”
وہ جیسے الجھے ہوئے انداز میں بولی۔
دفعتاً حمزہ کے عقب سے خوش شکل خاتون جنہوں نے ریشمی چادر اوڑھ رکھی تھی اور ان کے ہمراہ بارعب ادھیڑ عمر شخص کا چہرہ نمودار ہوا۔
“بیٹی ہم تمہارے نئے پڑوسی ہیں۔ کیا اندر نہیں بلاؤ گی ہمیں ؟”جاذب نظر شخصیت کی حامل خاتون کے کہنے پر وہ بری طرح شرمندہ ہوتی ہوئی راستے سے ہٹ گئ۔
انھیں ہال میں بیٹھا کروہ اپنے کمرے میں چلی آئی دل تھا کہ عجیب سی یے پر دھڑک رہا تھا۔
پارتھ ۔۔۔۔۔ حمزہ ۔۔۔۔۔۔۔
۔ وہ یہاں کیا کررہا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے نئے ہمسائے؟۔۔۔۔۔۔۔
ان الجھی ہوئی سوچوں کے درمیان اسےخود پر ٹکی حمزہ کی نظر یاد آئی تھی۔و ہ بری طرح نروس ہو رہی تھی۔ صورت حال اس کی فہم و فراست سے باہر تھی۔
باہر حمزہ کا تعارف حیدر سے ہوتے ہی وہ
گویا اسی دن میں واپس لوٹ گیا جب وہ پارتھ سکسینا سے آخری بار ملا تھا۔ذہن کی پلیٹ پر فلم سی چلنے لگی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پارتھ کی جماعت کی طرف بڑھ رہا تھا۔اسکول کی چھٹی ہو چکی تھی۔ طلباء اپنے اپنے گھروں کی راہ پر چل پڑے تھے۔تبھی پارتھ اپنی جماعت سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیا۔
“سنو پارتھ ،مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔”
اس کا راستہ روکتے ہوئے حیدر گویا ہوا ۔ وہ قد میں پارتھ سے ایک یا دو انچ چھوٹا تھا۔وہ دونوں پلے گراؤنڈ میں چلے آئے۔
تنہائی پاتے ہی حیدر نے اس پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی ۔وہ قد میں پارتھ سے کم تھا۔ عمر میں بھی اس سے چھوٹا تھا مگر جسمانی لحاظ سے مضبوط تھا۔
“یہ کیا کر رہے ہو تم ؟ کیوں مار رہے ہو مجھے ؟ میری غلطی کیا ہے؟ “ز مین پر گرے خود کا بچاؤ کرتے ہوئے پارتھ روہانسے لہجے میں بولا ۔
“یہی غلطی ہے تمہاری کے تم بزدل ہو ، ڈرپوک ہو اور سب سے اہم تم کافر ہو۔جانتے ہوں آج میری بہن کہہ رہی تھی کہ وہ تمہیں ہمارے گروپ میں شامل کرنا چاہتی ہے اسے تم پر ترس آتا ہے۔تم اسے اچھے لگتے ہو۔مگر تم اس لائق ہی نہیں ہوں کہ حریم آفندی کے دوست بن سکو۔مانا کہ تمہارے ساتھ social anxiety
کا مسئلہ ہے تو کیا تم دوسروں کی مار کھاتے رہو گے؟ لڑکیوں سےsympathy (ہمدردی) وصولتے رہوگے؟
تم ڈرپوک ہو، ناکارہ ہو، کسی لائق نہیں ہو تم۔ تمہیں کیا لگتا ہے ہر سال بورڈ میں ٹاپ کر لینے سے تم عقل مند ثابت ہوتے ہو۔ قطعاً نہیں۔ وہ لڑکا جو پندرہ سال کا ہونے کے باوجود صحیح غلط میں فرق نہیں کر سکتا جو بیک وقت پندرہ بیس انسانوں جیسی شکل رکھنے والے مورتیوں کو خدا مانتا ہو، وہ عقل مند کیسے ہوسکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ تم اس دنیا کے سب سے احمق لڑکے ہو۔تمہارا سارا دماغ بس پڑھائی میں استعمال ہوتا ہے ذاتی زندگی میں تم بس ان مورتیوں کی پوجا کرنا، دوسروں کی مار کھانا اور روتے رہنا۔میں نہیں چاہتا کہ میری بہن کسی ایسے لڑکے سے دوستی رکھے جو بزدل ہے اور سب سے اہم کافر ہے۔خبردار جو آئندہ تم کلاس سیوینتھ کے آس پاس بھی نظر آئے ۔حریم سے دور رہنا۔ دوبارہ اپنی معصوم اور روتی شکل لے کر میری بہن کے سامنے مت آنا۔”
اسے زمین پر روتا چھوڑ کر حیدر تن فن کرتا پلے گراونڈ سے باہر نکل گیا۔
وہ چونک کر حال میں واپس آیا۔ حمزہ اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے اسے شادی کی پیشگی مبارکباد دے رہا تھا۔مبارک باد وصول کرتے ہوئے حیدر کھسیانی ہنسی ہنس دیا۔ آخری ملاقات میں پارتھ سکسینا کے ساتھ بدسلوکی پر، اتنے سالوں بعد حمزہ آفریدی سے معذرت طلب کرنا عجیب سا لگ رہا تھا۔
“تم پارتھ سے حمزہ کیسے بنے ؟ ہمارے پڑوس میں رہائش اختیار کرنے کا ارادہ اور آج اسطرح اچانک ہمارے گھر آنا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ماجرا کیا ہے؟”
وہ دونوں لان میں ٹہل رہے تھے جبکہ حمزہ کے والدین لاؤنج میں براجمان آفندی صاحب کو اپنی آمد کی وجہ سے آگاہ کر رہے تھے۔
حیدر کے الجھے ہوئے استفسار پروہ مسکرا دیا۔
” تمھارے ان سوالوں کے جواب دینے کے لیے مجھے میری گزشتہ زندگی پر روشنی ڈالنا ہوگی۔ اس روز پلے گراؤنڈ میں حیدر آفندی سے مار کھانے کے بعد، پارتھ کی زندگی کیسے گزری وہ حمزہ کیسے بن گیا اتار چڑھاؤ بھرے اس سفر سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی ۔”
حمزہ دھیمے سے مسکرایا۔
“ضرور ،مجھے خوشی ہوگی”۔
حیدر پرجوش ہوا۔
“میں شروع میں اتنا بزدل اور سوشل اینزائٹی کا شکار نہیں تھا جتنا میں حریم اور تم سے پہلی ملاقات کے وقت ہوا کرتا تھا۔ میں بچپن میں خاصا پراعتماد اور ہنس مکھ قسم کا بچہ ہوا کرتا تھا ۔ ان دنوں میری فیمیلی ممبئ میں مقیم تھی۔ہماری کوٹھی کے بغل میں ایک خوبصورت سا ولا واقع تھا۔جس کے گیٹ پر سنہرے حرفوں میں صدیقی ولا لکھا تھا۔ان کی فیمیلی بھی ہماری طرح چھوٹی سی تھی۔
صدیقی صاحب اور ان کی بیگم کا ایک ہی بیٹا تھا مستقیم ۔وہ میرا بہترین دوست تھا۔ہم دونوں ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔اسکول کے بعد بھی میں سارا دن صدیقی ولا میں پایا جاتا ۔ وہ لوگ علی الصبح اٹھ جایا کرتے فجر کی نماز کے بعد ان کے یہاں کوئی نہیں سوتا تھا۔سات بجے کے قریب فرحت آنٹی کبوتروں کو دانہ ڈالنے بالکنی میں آتی تھیں ۔ان کی کبوتروں کو بلانے کی آواز سنتے ہی میں بستر سے اٹھ بیٹھتا اور دوڑ کر اپنی بالکنی میں پہنچ جاتا، ہاتھ ہلاکر انھیں اپنی طرف متوجہ کرتا اور وہ نرم وشفیق مسکراہٹ میری طرف اچھال کر اندر چلی جاتیں۔منہ ہاتھ دھو کر میں بنا ناشتہ کیے ان کے گھر پہنچ جاتا میری ماں مجھے پکارتی رہ جاتی مگر میں ان کے گھر جاکر مستقیم کے ساتھ ناشتہ کرتا۔وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے۔ آنٹی مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ کھانا پروستیں۔محسن انکل ہم دونوں کے ساتھ برابر ہنسی مذاق کرتے رہتے اور آنٹی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ ہم لوگوں کی طرف دیکھتی رہتیں ۔ اسوقت میں نہیں جانتا تھا کہ بار بار ۔میں وہاں کیوں چلا آتا تھا۔
مستقیم محض چھ سال کا تھا مگر رمضان کے پورے تیس روزے رکھتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی اپنے ماں باپ سے چھپکر میں سارا دن بھوکا رہتا اور عین افطار کے وقت ان کے گھر پہنچ جاتا ۔ہمیشہ کی طرح وہ لوگ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور اپنے ساتھ بٹھا لیتے البتہ اپنے بھوکے رہنے کے متعلق میں انھیں نہیں بتاتا ورنہ آنٹی ناراض ہوجاتیں۔
ان دنوں دیوالی سے زیادہ مجھے عید کا انتظار رہتا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ میرے ماں باپ مجھ سے محبت نہیں کرتے تھے یا مجھ پر توجہ نہیں دیتے تھے۔میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔وہ مجھے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے لیکن میری خوشی صدیقی ولا میں ہوتی تھی۔ کچھ تھا جو مجھے صرف صدیقی ولا میں محسوس ہوتا تھا وہ کون سا جذبہ تھا وہ کون سا احساس تھا یہ سمجھ پانا ایک چھ سال کے بچہ کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔ مگر شعور کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہی یہ پہیلی سلجھ گئی۔مجھے سمجھ آگیا کہ وہ کون سی چیز تھی جو بار بار مجھے صدیقی ولا جانے پر مجبور کر دیتی تھی۔اس جذبہ اس احساس کا نام تھا سکون۔ میرے گھر میں سب کچھ تھا مگر وہ سکون نہ تھا جو صدیقی ولا کے ہر کونے میں بستا تھا۔
تب تک سب کچھ ٹھیک تھا میں مطمئن اور خوش تھا تبھی اچانک میرے والد نے بزنس میں ہونے والے گھاٹے کی وجہ سے دلی شفٹ ہونے کا فیصلہ لیا۔ میں شاک کی کیفیت میں سب کچھ ہوتا دیکھتا رہا۔ صدیقی ولا کے باسیوں نے نم آنکھوں سے مجھے الوداع کہا تھا اس وقت میں کچھ کہنے سننے کی حالت میں ہی نہیں تھا۔وہاں سے دلی آنے کے بعد میں کچھ روز تک بلکل ہی گم سم رہا۔میرے والدین کا خیال تھا کچھ عرصہ بعد میں نارمل ہوجاؤنگا۔میرا ایڈمیشن نئے اسکول میں کروا دیا گیا۔میں ذہین تھا ،پرکشش تھا لہذا بہت سارے لڑکوں نے میرے ساتھ دوستی کرنے کی کوشش کی۔
مجھے بھی لگا تھا کچھ دنوں میں مستقیم اور اس کی فیمیلی کو میں بھول جاؤں گا مگر یہ میری خام خیالی ثابت ہوئی ۔میرے پاس بہت سارےارجن،روہن، راہل، نکھیل تھے مگر مستقیم نہیں تھا ۔میں بہت سارے غیر شناسا چہروں میں وہ ایک شناسا چہرہ ڈھونڈتا رہتا۔بہت ساری آنٹیاں تھی جو مجھ سے محبت سے پیش آتی تھیں مگر میں ان چہروں میں فرحت آنٹی کی مسکراہٹ ڈھونڈتا رہتا۔وہی نرم و شفیق مسکراہٹ جو ہمہ وقت ان کے لبوں پر رقصاں رہتی ۔میرے والد کے دوستوں کی محبت میں محسن انکل کی شفقت کو ڈھونڈتا رہتا۔جذبات کی اس اٹھا پٹک میں کئی دن گزر گئے۔
نہ مجھے مستقیم ملا نہ فرحت آنٹی کی مسکراہٹ نہ محسن انکل کی شفقت۔ سکون تو میری زندگی سے بلکل ہی ختم ہو گیا جو مجھے محض صدیقی ولا میں میسر تھا۔رفتہ رفتہ میں نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔سال گزرتے گئے اور میں اپنے ہی خول میں بند ہوتا چلا گیا۔
میرے والدین نے بہت کوشش کی مجھے سمجھانے کی مگر میں ان کی بات کیا سمجھتا ساری خفگی ان ہی سے تو تھی۔ان ہی کی بدولت میں نے اپنا دوست کھویا تھا۔ اپنا سکون کھویا تھا اور پھر گویا اپنی شخصیت بھی کھودی تھی۔ہم عمر لڑکوں کے ساتھ مجھے گھلتا ملتا نہ دیکھ مام ڈیڈ کو میرے اسکول کے تبادلہ کی تدبیر سوجھی۔یوں سال پر سال گزرتے گئے ایک اسکول سے دوسرے اسکول میرے تبادلے ہوتے رہے مگر مجھ میں سدھار نہ آیا۔
لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ مجھ جیسے کم گو اور الگ تھلگ رہنے والے لڑکوں کو دوسرے عام لڑکے مغرور تصور کرتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ وہ مجھ سے نفرت بھی کرتے تھے ۔ یوں میری زندگی بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ۔دوسرے لڑکوں نے گویا میرے خلاف محاذ کھول لیا تھا۔میں تنہا ان ساروں سے مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اسطرح میں
Bullying
کا مین وکٹم بن گیا۔ میرے اعتماد کا گراف نیچے گرتا گیا اور میں مزید بزدل اور سوشلی آکورڈ شخصیت بن گیا۔ان دنوں مجھے خود سے ،اپنی زندگی سے اپنی شناخت سے تک نفرت تھی ۔
میں نہیں جانتا تھا میں چاہتا کیا ہوں؟ میں تقدیر سے شاکی کس بات پر ہوں؟محض میرے دوست کے چھوٹ جانے پر یا خود کے اس جیسا نہ ہونے پر ۔ میں بڑا ہوچکا تھا۔ مستقیم سے مل سکتا تھا مگر میں نے ایسا نہیں کیونکہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مجھے صدیقی ولا میں بھی سکون نصیب نہیں ہوگا، کیونکہ بے سکونی میرے اطراف میں نہیں خود میرے اندر تھی ۔اب میں چھ سال کا چھوٹا بچہ نہیں تھا جو دوسروں کے گھر میں سکون تلاش کرتا ۔مجھے اپنے وجود سے نفرت سی ہوتی جارہی تھی۔ جتنا میں باشعور ہوتا گیا ، مجھے اپنے آپ سے مزید نفرت ہوتی چلی گئی۔ میں پہلے سے زیادہ چڑچڑا رہنے لگا تھا۔ میری حالت کو دیکھتے ہوئے حسب معمول ایک دفعہ پھر میرا ٹرانسفر کروا دیا گیا۔
ریان انٹرنیشنل اسکول میں جہاں حیدر اور حریم آفندی زیر تعلیم تھے ۔اس دفعہ بھی بس میرا اسکول بدلا تھا۔ نہ میں بدلا تھا نہ ہی دوسرے اسٹوڈنٹس کا میرے ساتھ سلوک ۔ ہاں مگر میرا دل ضرور بدل گیا تھا۔بہت سالوں کے بعد مجھے کوئی اسکول پسند آیاتھا۔اس زمانے میں مجھے اسکول میں دو ہی شخصیات اچھی لگتی تھیں۔وہ تھے تم اور حریم آفندی۔ خوبصورت اور ذہین ٹوینس حریم اور حیدر آفندی کو کون نہیں جانتا تھا۔ہر طالب علم واقف تھا تم دونوں کی ایک دوسرے کے تیئں جذباتیت کے متعلق۔
پورے اسکول میں تم اس روز مشہور ہوگئے جب کسی لڑکے نے تمہاری بہن کی چوٹی مذاقاً کاٹ دی تھی اور جواب میں تم نے اس لڑکے کا سر پھوڑ دیا تھا۔اس واقعہ کے بعد پورے اسکول میں تمہاری دلیری کے چرچے ہونے لگے تھے۔ تم مجھے مستقیم کی یاد دلاتے تھے اور حریم مجھے کیوں اچھی لگتی تھی یہ میں نہیں جانتا تھا ۔یہ لڑکپن کی محبت بھی عجیب ہوتی ہے، ان کو بھی ہوجاتی ہے جنھیں خبر تک نہیں ہوتی محبت کس چڑیا کا نام ہے۔
میں تمھیں ایڈمائر کرتا تھا۔تمہاری ہمت ، تمہارا حوصلہ ، تمہارا اعتماد اور سب سے زیادہ تمہاری قسمت پر مجھے رشک ہوتا تھا ۔ تب میں نہیں جانتا تھا کہ میں تمہاری طرح کیوں بننا چاہتا تھا۔ بس میری خواہش تھی میں بھی حریم آفندی کے ساتھ بات کر سکوں ، اس کے ساتھ وقت گزار سکوں ، اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کر سکوں۔میں کیا مجھ سے کم عمر کے بھی تقریباً تمام لڑکوں کی خواہش ہوتی تھی کے شہابی رنگت ، خوبصورت کمر تک آتے کالے ریشمی بالوں کی مالک ذرا سا مغرور حریم آفندی سے بات کرنے کا موقع انھیں بھی نصیب ہو۔مگر یہ ناممکن تھا کیونکہ اول تو وہ لڑکوں سے مخاطب ہی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ دوم اس کی ہر بات اس کے بھائی پر شروع ہوکر بھائی پر ہی ختم ہوجایاکرتی تھی۔میرے لیے حریم آفندی آسمان پر چمکتے اس ستارے کی مانند تھی جسے دیکھا تو جاسکتاہے مگر اس تک رسائی ممکن نہ تھی۔
حریم کے لیے میں عام سا لڑکا تھا جسے شاید وہ جانتی تک نہ تھی لہٰذادور سے ہی اس ستارے کو دیکھ کر میں خوش ہوجایا کرتا تھا۔ اسی طرح دن گزرتے جارہے تھے کہ اچانک ایک عام سے دوپہر کو حریم آفندی کی ایک نظر نے پارتھ سکسینا کو خاص بنا گئی ۔چند لڑکے میرے اطراف گھیرا بنائے مجھ سے نوٹس چھیننے کی سعی کر رہے تھے تبھی کینٹین سے گزرتے ہوئے بس ایک نظر اس نے میری طرف ڈالی تھی۔ اس لمحے اس ایک نظر نے جیسے میرے سارے پرانے شکوے بھلادیے۔ہزاروں لڑکوں کے درمیان حریم آفندی کی نظر مجھ پر رکی تھی۔ اسوقت مجھے اپنا آپ بے حد خاص اور اہم محسوس ہوا تھا۔
اس دن کے بعد سے میں خواہ مخواہ تم دونوں کے آس پاس رہنے کے بہانے ڈھونڈنے لگا اور اس دوران جب کبھی اس کی نظر مجھ پر پڑ تی میرا دل ایک دم سے پرسکون ہو جاتا۔ میں اپنی خاموش محبت میں خوش تھا کہ اچانک وہ دن بھی آگیا جب اس کی جماعت میں اس کے عین سامنے مجھ پر آوازیں کسی جارہی تھی مجھ پر چیزیں پھینکی جا رہی تھی اور وہ ترس وہمدردی کا تاثر لیے مجھے دیکھ رہی تھی۔اس دن مجھے اس اذیت ناک حقیقت کا پتا چلا کہ حریم آفندی کی پارتھ سکسینا پر پڑنے والی نظر میں اپنائیت نہیں ہوتی تھی۔مجھ پر رکنے والی اس کی نگاہوں میں ترحم کا جذبہ ہلکورے لیتا تھا۔ تب مجھے لگا آسمان پھٹ جائے یا زمین مجھے نگل لے ۔بس میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں۔میں نے اس سے قبل خود کو اس قدر بے بس و مجبور کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔اس وقت مجھے اس قدر ذلت و شرمندگی محسوس ہورہی تھی جو پورے معاشرے کے سامنے کسی شخص کے منہ پر کالک ملنے پر اسے محسوس ہوتی ہے۔میں دکھتے دل کے ساتھ جماعت سے باہر نکل آیا۔ یوں محسوس ہورہا تھا میرا دل درد کے مارے پھٹ جائے گا۔جی میں آ رہا تھا اپنی اس بے مقصد اور بزدلانہ زندگی کا خاتمہ کر لوں مگر میرے اندر ایسا کرنے کے لیے بھی درکار ہمت نہیں تھی۔اسی شام تم مجھ سے ملے۔
یہ پہلی دفعہ تھا جب تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا ۔ ورنہ اس سے قبل تو تمہیں مجھ سے کوئی سروکار ہی نہیں رہا تھا۔ اس شام تمھارے چلے جانے کے بعد میں باآواز بلند رو رہا تھا اور میرے ہونٹ مسکرا رہے تھے۔مجھے اپنا آپ بیک وقت خوش قسمت ترین اور بدقسمت ترین محسوس ہو رہا تھا۔تمہارے اس بات نے کہ حریم مجھے پسند کرتی ہے۔ میرے دکھتے دل کے جیسے ہر زخم کو مندمل کر دیا تھا۔مجھے اپنا آپ ایک دم سے معتبر محسوس ہونے لگا تھا۔وہیں تمہارے دوسری بات نے میرے دکھتے دل کے زخموں کو مزید گہرا کردیا۔تم نے مجھے بزدل ، ڈرپوک اور سب سے اہم کافر کہا تھا۔بقول تمہارے میں دنیاکاسب سے احمق لڑکا تھا۔ کیونکہ مجھے خدا کی وحدانیت پر یقین نہیں تھا۔اور یہ کہ میں حریم کا دوست بننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
مجھے اس وقت بھی تم پر غصہ نہیں آیا تھا کیونکہ یہ سب کہتے ہوئے تمہارے لہجے میں حقارت نہیں تھی۔تمہارے چہرے پر نفرت کا تاثر نہیں تھا۔تمہارے انداز سے تاسف جھلک رہا تھا۔تمہیں افسوس تھا میرے بزدل ہونے پر۔ میرے کافر ہونے پر۔ تم چاہ کر بھی تمہاری عزیزترین بہن کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر جو رہ گئے تھے۔ اسوقت تمہاری اپنی بہن کے تئیں بے لوث محبت مجھ پر مزید واضح ہو گئی۔میرے دل میں تمھاری عزت اور بڑھ گئی۔ اس پل میرا من کیا ایک دم سے کوئی جادو کی چھڑی گھما کر میں خود کو بدل لوں۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا۔مگر جیسا تم نے کہا تھا میں اتنا احمق بھی نہیں تھا۔میرے والدین مذہبی نہیں تھے۔ میں نے کبھی انہیں پوجا پاٹ کرتے نہیں دیکھا تھا ۔
جب میں مستقیم کے والدین کو دن کے پانچ وقت باقاعدگی کے ساتھ نمازپڑھتے دیکھتا، اس وقت میں سوچتا تھا کہ یہ کیسا مذہب ہے میرا جو خدا کی عبادت کرنے کا حکم نہیں دیتا۔اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کو نہیں کہتا۔لہذا میں بھی اپنے بھگوان کی عبادت کرنے کا عہد کرتا لیکن پھر میں لاتعداد بھگوانوں کے خیال سے پریشان ہوجاتا ۔تب میں میرے والدین سے سوال کرتا کہ ان میں سے کون سا بھگوان زیادہ اہم ہے، کونسا زیادہ طاقتور ہے۔ان کے مبہم اور غیر واضح جواب میرے الجھن زدہ ذہن کو مزید منتشر کر دیتے۔ یوں ماہ وسال گزرتے گئے نہ مجھے اپنے سوالوں کے واضح جواب ملے نہ سکون۔ مگر اس شام پلے گراونڈ میں تمھارے الفاظ سنکر ایکدم سے مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اب تک میں تقدیر سے شاکی کس بات پر تھا۔میں مطمئن نہیں تھا۔
اپنے مذہب سے۔۔۔۔۔
اپنی شخصیت سے ،۔۔۔۔۔
اپنے شناخت سے۔۔۔۔۔
مجھے میرے مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔مگر مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ اپنے والدین کے عین مقابل کھڑا ہو کر یہ کہہ سکتا کہ مجھے خدا کی وحدانیت پر یقین ہے۔ اور اسلام وہ واحد مذہب ہے جو وحدانیت کی تعلیم دیتا ہے۔لہذا میں اسلام لانا چاہتا ہوں۔
بعض اوقات بڑے قدم اٹھانے کے لیے بڑی تبدیلیاں لانے کے لیے بڑی ٹھوکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ٹھوکر جو گرا کر آپکو آپکے پیروں پر کھڑا کر دیتی ہے۔اور اس روز تمہارے الفاظ میرے لیے وہی ٹھوکر ثابت ہوئے۔ا س شام پلے گراونڈ سے باہر نکلتے ہوئے میں نے مستحکم ارادہ کرلیا تھا کہ میں دوبارہ کبھی پارتھ سکسینا بن کر تمہارے اور تمہاری بہن کے سامنے نہیں آؤنگا۔میں بااعتماد ، بلند حوصلہ اور مسلم ایمان والا شخص بن کر تمہارے پاس آؤں گا تمہاری بہن کا ہاتھ مانگنے۔ اس کے بعد پارتھ سکسینا سے حمزہ آفریدی بننے کے میرے سفر کا آغاز ہوا۔سب سے پہلے میں مستقیم کے پاس ممبئی چلا گیا۔ مجھے صراط مستقیم پر لانے میں مستقیم نے میری بہت مدد کی ۔ میں ایک ماہ تک اسلام کی تعلیم لیتا رہا قرآن پڑھنا سیکھتا رہا۔میرے ایمان لے آنے کے بعد میرے ماں باپ کوراہ راست پر لانے کےلئے مجھے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی کیونکہ یوں بھی وہ دونوں کٹّر قسم کے ہندو نہیں تھے۔انہیں ہدایت کی بس ذرا سی روشنی کی ضرورت تھی۔ذرا سی تبلیغ کی ضرورت تھی۔اس کے بعد میری ضد پر میرے والدین سعودی منتقل ہوگئے۔ بعد کی تعلیم میں نےوہیں حاصل کی۔میں بہت سارے مسلمانوں کے درمیان گم ہوجانا چاہتا تھا۔ان مسلمانوں کے درمیان جنہیں پیدائشی مسلمان ہونے کا شرف حاصل تھا۔ مجھے انڈیا واپس آنے سے خوف آتا تھا۔جب کوئی پرانا واقف کار مجھے پارتھ سکسینا کے نام سے پکارتا پل بھر میں اپنے آپ کو میں سالوں پیچھے اپنی زخمی اور بےسکون روح میں قید محسوس کرتا ۔ میں نے تین بار حج ادا کیا ۔ان گنت بار عمرہ کیا ۔مگر پھر بھی مجھے لگتا تھا میں دوسرے مسلمانوں کا درجہ حاصل نہیں کرپاؤنگا۔کافر ماضی میرا تعاقب کرتا رہے گا۔خدا نے تو مجھے اسی لمحے اپنے مومن بندوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہوگا جب میں نے کلمہ پڑھا تھا۔ مگر زمین والے قبول نہیں کرتے۔وہ ماضی کو یاد رکھتے ہیں۔ ایک نومسلم ساری عمر نو مسلم بن کر رہ جاتا ہے۔ میرا خیال تھا میں کبھی حریم آفندی کے قابل نہیں بن پاؤنگا۔
میری امی حریم کے متعلق جانتی تھی۔ دو سال قبل میں نے سعودی کے مشہور تاجر کی بیٹی کے رشتے سے انکار کردیا تھا جس کے نتیجے مجھے اپنے والدین کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرنا پڑا تھا ۔بچپن کی وہ محبت جو میرے اندر سانس لیتی تھی۔ وہ حریم آفندی جو ہمہ وقت میرے ساتھ رہتی تھی ۔ میں بیتے سالوں میں پل کر جوان ہو گیا مگر میرے حافظے میں وہی بارہ سالہ حریم آفندی محفوظ تھی۔ موم کی گڑیا سی کومل حریم آفندی، جس کے عشق میں گرفتار تھا میں ۔اگر میری امی میرا حوصلہ نہ بڑھاتیں تو شاید میں کبھی حریم کا ہاتھ مانگنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔اس شہر میں آنے کے بعد آپ کے جاننے والوں کے ذریعہ ہمیں اس شرط کی خبر ہوئی کہ حریم آفندی سے شادی کے خواہش مند شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ آفندی حویلی کے نزدیک ہی واقع کسی حویلی یا ولا میں رہائش پذیر ہو کیونکہ حریم آفندی کا بھائی اس کی بہن کو دوسرے ملک، دوسرے شہر تو درکنا دوسرے محلے میں بھی رخصت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔میری قسمت اچھی تھی جو آپکی پڑوسی نوراں بیگم اپنے بیٹے کے ساتھ امریکہ منتقل ہوگئیں اور اپنے حویلی مجھے فروخت کر دی۔”
اپنی بات کی اختتام پر حمزہ نے ٹھنڈی سانس لی اور رخ موڑ کر حیدر کی سمت دیکھا ۔اس کے لفظوں کی سچائی،اس کے جذبوں کی صداقت اس کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی۔شدت جذب سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔بہت سارے زخم کھلے تھے۔ بہت ساری یادیں تازہ ہوئی تھیں۔
“یقین جانو آج اس وقت یہاں میرے سامنے کھڑے ہو کر تم نے یہ انکشافات کرکے احسان عظیم کیا ہے مجھ پر۔تم یقین نہیں کرو گے مگر خدا کی قسم یہ میں ہی جانتا ہوں اس روز تمہارے ساتھ بدسلوکی کرنے کے بعد جب مجھے پتہ چلا کہ تم پردیس چلے گئے تو میں کس احساس جرم کے بوجھ تلے دب گیا۔اور اسی بوجھ کے ساتھ میں اب تک کی زندگی گزارتا آیاہوں۔تم اندازہ نہیں کرسکتے میں اسوقت خود کو کس قدر ہلکا محسوس کر رہا ہوں۔ اس روز پلے گراونڈ میں میرے تاثرات سے میرے جذبات کا درست اندازہ لگایا تھا تم نے ۔یقینا میں تم سے خفا نہیں تھا ، نہ ہی تمہیں حقیر گردانتا تھا ، نہ ہی تمہاری بزدل ہونا میرے لیے اتنا بڑا مسئلہ تھا۔تمہارا کافر ہونا اصل مسئلہ تھا۔مجھے اندازہ تھا جوں جوں وقت گزرتا جائے گا تم اپنا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہو جاؤگے۔
social anxiety
کے بوجھ سے آزاد ہو جاؤ گے۔ اسمارٹ اور قابل مرد بن جاؤگے مگر تمھارا مسلمان بن جانا ناممکنات میں سے تھا۔حریم اس وقت بچی تھی۔ وہ تمہیں پسند کرتی تھی۔ اسے سنہری رنگت و دلفریب مسکراہٹ کا مالک معصوم نظر آنے والا پارتھ پسند آگیا تھا۔لہذا وہ تمہیں اپنا دوست بنانے کی خواہشمند تھی۔مگر میں ایسا ہونے نہیں دے سکتا تھا کیونکہ میں اسکا جڑواں بھائی حریم آفندی کو اس سے بہتر سمجھتا تھا۔میں تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا کہ جیسے ہی حریم لڑکپن کی حدود کو عبور کر جوانی کی حدود کو میں داخل ہوگی ۔تمہارے تئیں اس کی پسندیدگی کے جذبات مزید پختہ ہوتے جائیں گے۔اور میں نہیں چاہتا تھا کہ حریم کسی ایسے شخص کے ساتھ جذباتی وابستگی قائم کرے جو غیر مسلم ہو۔اچانک سے تمھارے چلے جانے کے بعد حریم نے دوبارہ کبھی تمہارا ذکر نہیں کیا مگر میں بخوبی واقف ہوں کے اس کے دل کے کسی گوشہ میں آج بھی پارتھ سکسینا براجمان ہو گا۔حریم آفندی ایک دفعہ کسی کو پسند کرلے ، ایک دفعہ اس کی آنکھوں میں کوئی بس جائے ،اس کے دل کو کوئی بھا جائے تو تاحیات وہ مقام کسی وہ اور کو نہیں دیتی۔
آج تمہیں اپنے عین مقابل حریم کا ہاتھ مانگتا دیکھکر مجھے خدا کی مصلحت سمجھ آرہی ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں بے شمار ہونہار اور خوش شکل لڑکوں میں سے ایک بھی مجھے حریم کےلیے کیوں نہیں بھاتا تھا۔کیوں کوئی میرے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔وہ لڑکے ہر لحاظ سے بہتر تھے۔ مگر خدا نے میری بہن کےلیے بہترین کا انتخاب کر رکھا تھا۔”
گرمجوشی کے ساتھ حمزہ سے بغلگیر ہوتے ہوئے حیدر پرمسرت لہجے میں گویا ہوا۔
“اس روز پلے گراونڈ میں تمہارے الفاظ سن کر میں متحیر تھا مجھ سے عمر میں کم ہونے کے باوجود تم اس طرح کی باتیں کیسے کر لیتے تھے۔تمہاری باتوں سے سمجھداری اور بردباری جھلکتی تھی۔ حریم کے معاملے میں اسقدر دوٗر اندیشی کا مظاہرہ کیسے کیا تم نے ؟”
حمزہ متاثر کن لہجے میں مستفسر تھا۔
“میری بہن کے مستقبل کے متعلق تو میں نے تب سے سوچنا شروع کر دیا تھا جب میں محض پانچ سال کا تھا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ جن بھائیوں کی چھوٹی بہنیں ہوتی ہیں میرا خیال ہے وہ اپنی عمر سے پہلے ہی سمجھدار ہو جاتے ہیں۔ چھوٹی عمر سے ہی بڑے بھائی بن کر اپنی بہن کے محافظ بن جاتے ہیں۔اور میں نے بھی یہی کیا۔میں محض آٹھ سال کا تھا جب میرے دوست حامد کی بڑی بہن کی شادی پر مجھے یہ خیال آیا کہ میری بہن بھی ایک لڑکی ہے۔ لہٰذا ایک دن مجھے بھی اسے رخصت کرنا ہوگا۔ یہی دنیا کا اصول ہے۔ اس وقت اس کی جدائی کے تصور سے ہی مجھے ہول اٹھنے لگے۔ دنیا کے اصولوں کو تو میں بدل نہیں سکتا تھا اسی لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی بہن کو خود سے ازحد نزدیک جہاں تک ممکن ہو اسی محلے کے کسی گھر میں رخصت کروں گا۔تاکہ جب جی چاہے میں اس سے مل سکوں۔اس سے ایک ملاقات کی خاطر کئی گھنٹوں پر مشتمل راستوں کو عبور کر کے دوسرے شہر یا ملک جانے تک کی صبر و برداشت مجھ میں نہیں تھی۔تب میں آٹھ برس کا تھا۔لہذا اسوقت مام ڈیڈ نےمیری شرط والی بات کو سیریس نہیں لیا۔انھیں لگا تھا کہ باشعور ہوتے ہی میں یہ بچکانہ شرط کو فراموش کر بیٹھونگا ۔مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔میری اس شرط میں ردوبدل کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔اسی چکر میں میں نے محلے کے تقریباً سارے لائق لڑکوں کو ٹھونک بجا کر دیکھ لیا۔مگر ان میں سے کوئی بھی میرے معیار پر پورا نہیں اترا۔دوسرے شہر سے تعلق رکھنے والے کچھ شرفاء جو ہر صورت حریم کو اپنے ساتھ رخصت کر کے لے جانے کے خواہاں تھے۔اس تگ و دو میں لگے تھے کہ کسی طرح اسی محلے میں ایک عدد مکان خریدنے میں کامیاب ہوجائیں , مگر انھیں ناکام و نامراد لوٹنا پڑا ۔تمہاری محبت میں صدق تھا.۔تمھاری لگن سچی تھی اسی لیے برسوں پرانے آبائی مکان کو بیگم نوراں نے تمہیں فروخت کردیا.”
وہ سر جھٹک کر مسکرایا تھا۔خیر اب جبکہ تم نے میری شرط پوری کردی ہے اور سب سے اہم تم میری بہن سے محبت کرتے ہو تو میری طرف سے یہ رشتہ پکا سمجھو۔یقین جانو اگر تم یہ کہتے کہ تم کل ہی ایمان لائے ہو تب بھی میں اپنی بہن کاہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دیتا ۔ میرے لئے یہ اہم ہیں کہ تم خدا پر ایمان لائے ،کتنے عرصے پہلے، یہ اہمیت نہیں رکھتا۔کیونکہ تم ایک سچے انسان اور سچے مسلمان ہو۔”
حمزہ کے شانوں پر دباؤ ڈالتے ہوئے حیدر صدق دل سے اعتراف کر رہا تھا۔
“اتنی جلدی پہلے حریم سے اسکی مرضی تو جان لو”۔
حمزہ حیدر کی جلد بازی پر گڑبڑا گیا۔
“حریم کیا چاہتی ہے یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا،لہذا اس سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور رہی بات میرے والدین کی رضامندی کی تو اتنا اچھا رشتہ وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے خاص طور پر تب جب میرا اوٹ تمہارے حق میں ہوگا۔خوش ہوجاؤ پیارے خوش قسمت ترین ہوتے ہیں وہ لوگ جنھیں برسوں کی جدائی کے بعد پہلی محبت نصیب ہوتی ہے۔جن کی تقدیر میں نارسائی کی بعد رسائی لکھی ہوتی ہے ۔”
حیدر کے جواب پر وہ بے ساختہ ہنس دیا۔
اس کا دل یک لخت ہربوجھ سے آزاد ہو گیا تھا۔ اسکی برسوں کی ریاضتیں رائیگاں نہیں گئی تھی ۔اس کی پہلی محبت انجام کو پہنچی تھی۔
*******
سہ پہر کے پرسکون ماحول میں خان شفق کو حیدر آفندی کی زوجیت میں دیا گیاتھا۔جبکہ حریم آفندی اور حمزہ آفریدی کی منگنی کی رسم ادا کی گئی تھی۔رات کے کھانے کے بعد سبھی مہمان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تھے۔
تاروں کا چمکتا گہنا ہو ،
پھولوں کی مہکتی وادی ہو
اس گھر میں خوشحالی آئے
جس گھر میں تمہاری شادی ہو
رب ہستا ہوا رکھے تم کو
تم تو ہنسنے کی عادی ہو
ہاتھوں میں گیٹار اٹھائے کسی ماہر نغمہ ساز کی مانند حیدر ساز بکھیرنے کے ساتھ ساتھ اپنی گائیکی کے جوہر دکھا رہا تھا۔
“بھائی بس بھی کریں، یہ کیا آپ میری شادی کی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں۔کونسا میری رخصتی ہو رہی ہے، ابھی تو صرف منگنی ہوئی ہے۔”
اسٹٹدی ٹیبل کی کرسی پر براجمان حریم زچ ہوئی تھی۔پچھلے آدھے گھنٹے سے حیدر اسے چھیڑے جا رہا تھا۔
“تیاری پکڑ لو حریم ، عین ممکن ہے کہ آج نہیں تو کل تمہاری ساس صاحبہ آفندی حویلی پر دھاوا بول دیں اور تمہیں رخصت کرکے لے جائیں۔جس طرح رشتہ پکا ہونے کی خبر سنتے ہی انہوں نے جھٹ پٹ اپنے پرس سے دو بیش قیمتی ہیرے کی انگوٹھیاں برآمد کی تھیں کچھ بعید نہیں کہ وہ اس الہ دین کے چراغ کو گھسینگی اور سرخ جوڑا حاضر ہو جائے گا ۔ تم حیران پریشان سب کچھ ہوتا دیکھتی رہ جاؤں گی۔تمہاری ساس صاحبہ سب کچھ بالا ہی بالا طے کرنے کی خاصی شوقین معلوم ہوتی ہیں۔”
گیٹار کو دیوار کے ساتھ لٹکاتے ہوئے حیدر نے گل افشانی کی ۔
۔
“ایسا تو نہ کہیں بھائی ،مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔چند ماہ کا وقت مانگا ہے مام نے تیاریوں کے لئے وعدہ خلافی تو نہیں کریں گی وہ ۔”
وہ روہانسی ہوگئی۔اس سے قبل کہ حیدر لب کشائی کرتا حریم نے موضوع بدل دیا۔
“بھائی آپ نے شفق کے لیے کوئی گفٹ خریدا ہے یا نہیں؟”وہ اپنے ازلی خود اعتمادی بحال کرتے ہوئی بولی۔
“گفٹ, وہ کس لیے؟”۔ وہ حیران ہوا۔
“شاباش ہے بھائی آپ پر ، کل آپکی واپسی ہے اور یہ ایمپاسبل ہے کہ آپ شفق سے جو کہ اب آپ کی منکوحہ ہے ملنے کے خواہاں نہیں ہونگے۔ظاہر ہے پہلی بار اپنی نئی نویلی بیوی سے خالی ہاتھ ملاقات تو نہیں کی جاسکتی ۔”وہ مدبرانہ انداز میں بولی۔
“یہ بات تم نے صد فی صد درست کہی کہ خان شفق نام کی پہیلی بوجھے بغیر میں پردیس چلا جاؤ، اتنا احمق نہیں ہوں میں ۔ اب تو میں اس کا شوہر ہوں۔پورا حق رکھتا ہوں ملاقات کا۔ ہاں مگر تحفہ والی بات کچھ ہضم نہیں ہوئی۔ ابھی بس نکاح ہوا ہے ہمارا ۔وہ رخصت ہو کر میرے گھر نہیں آئی جو میں اسے رونمائی کا تحفہ پیش کروں”۔ برجستہ جواب آیا۔
“بھائی پلیز ایسے مت کہیں۔ میں نے کہہ دیا نا آپ شفق کے لیے گفٹ خریدیں گے تو بس آپ کو یہی کرنا ہوگا۔اسی وقت جائیں اور اس کے لیے خوبصورت سا بیش قیمتی گفٹ خرید کر لائیں”۔وہ غصہ ہوئی۔
“ابھی؟ اس وقت ؟رات کے دس بج رہے ہیں حریم اور اس کے لئے میں کس طرح کا گفٹ خریدوں میں تو اس کی پسند ناپسند سے یکسر ناواقف ہوں۔”
وہ جزبز ہوا۔
“وہ میری دوست ہے۔ اور میں جانتی ہوں اسکی پسند میری پسند سے مختلف نہیں ہے۔آپ یوں کریں، کوئی ایسا گفٹ خریدیں جو مجھے پسند آجائے گا میری پسند کا تو پتہ ہے نا آپ کو۔اور بےفکر ہوجائیں وہ تحفہ شفق کو بھی یقیناً پسند آئیگا۔” وہ چہکی۔
“اوکے ٹھیک ہے ،پھر تم چلو میرے ساتھ”۔
وہ جانے کو مڑا۔
“نہیں نہیں قطعاً نہیں۔میں وہ گفٹ نہیں دیکھنا چاہتی جو میرے بھائی نے میری دوست کے لئے خریدہ ہے۔میں وہ تحفہ دیکھنے کی خواہشمند ہوں جو شفق کے شوہر نے اس کے لیے خریدا ہے۔لہٰذا میں آپ کے ساتھ نہیں چلوں گی۔آپ خود گفٹ پسند کریں اور شفق کی خدمت میں پیش کریں۔گفٹ کیسا ہے یہ میں شفق کےپاس جاکر دیکھ لونگی۔”
اس کی منطق پر سر دھنتا حیدر گاڑی کی چابی اٹھاکر باہر نکل گیا۔
******
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...