ایڈیٹنگ روم سے آگ کی لپٹیں دھائیں دھائیں کرتی ہوئی آسمان کو چومنے جا رہی تھی۔ چاروں طرف تماشا دیکھنے والوں کی بھیڑ جمع ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب لوگوں نے پانی وہاں تک پہنچانا کر دیا۔ جس کو جو برتن ملا، اُس کو لے کر وہ پانی پھینک کر آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگا۔ آگ پر قابو پانے کی جی جان سے ہم لوگ کوشش کر رہے تھے۔ جہاں سے آگ کا سب سے بڑا انبار آسمان کی طرف لپکتا اچھل رہا تھا، وہاں اُسے بجھانے کے لیے چھت پر چڑھنا ضروری تھا، لیکن آگ اتنی خوفناک پھیل چکی تھی کہ چھت پر چڑھنا ناممکن تھا۔ اسی ایڈیٹنگ روم میں آج تک کی سبھی فلموں کے نیگیٹوز رکھے تھے۔ اُسی نائٹریٹ فلم میں لگی آگ بھیانک روپ اختیار کرتی ہوئی پاس پڑوس کی ہر چیز کو بھسم کرتی جا رہی تھی۔ محنت سے تنکا تنکا جمع کر کے سجائی گئی مہاراشٹر فلم کمپنی کی کائنات ہم سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے جل کر راکھ ہوتی جا رہی تھی۔۔
تبھی کوئی چلّایا، ’’ارے اپنا کیمرا!‘‘ کمپنی میں حال ہی میں کام پر لگا پھنسالکر نامی ایک تگڑا آدمی پاگل کی طرح اُس ایڈیٹنگ روم کی طرف تیر کی طرح بھاگا۔ ایک کھڑکی کی طرف آگ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اُس نے زور کا دھکا مار کر وہ کھڑکی کھول لی اور کھڑکی میں سے نیچے جھک کر دیوار کے پاس ہی رکھا وہ کیمرا باہر نکال لیا۔ کیمرے کو ایک طرف آگ کی لپٹوں نے گھیرا تھا۔ پھنسالکر نے لپک کر اُس کیمرے کو پانی کے حوض میں پھینکا۔
بابوراؤ پینٹر بُت بنے ایک طرف کھڑے ہو کر وہ آتش زدگی دیکھ رہے تھے۔ آگ کی خبر سنتے ہی شاہو مہاراج بھی اپنے کھڑکھڑے میں سوار ہو کر گھوڑوں کو تیز دوڑاتے وہاں آ پہنچے۔ انھوں نے بابوراؤ پینٹر کو پاس بُلا کر حوصلہ بڑھایا اور دلی خواہش ظاہر کی کہ کولھاپور کی شان یہ مہاراشٹر فلم کمپنی اِس سے آگے بھی پورے جوش اور اُمنگ سے چلانی چاہیئے۔
ایڈٹنگ روم میں رکھی’’سیر نگری اور سرُریکھاہرن ‘‘کے نیگٹوز جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ جب بابوراؤ پینٹر مشہور تلک جی کو ’سیہ رنگری‘ فلم اور اپنا کیمرا دکھانے کے لیے گئے تھے، تب انھوں نے تلک جی پر ایک ڈاکیومینڑی بنائی تھی۔ مراٹھی اسٹیج کے بہترین اداکار گنپت راؤ جوشی کے ناقابلِ فراموش کرداروں کو بھی ایک ڈاکیو منیٹری میں فلمایا تھا۔ یہ دونوں بد قسمت ڈاکیومینٹریاں آگ کی بھینٹ ہو گئیں۔ کچھ دن پہلے مشہور تلک اور گنپت راؤ جوشی دونوں کا انتقال ہو چکا تھا، لہٰذا ویسی ڈاکیومینٹری دوبارہ بنانا اب نا ممکن تھا۔ اور وہ ہمارا دیسی کیمرا، اُسے حوض سے نکالا۔ اُس کا لکڑی کا دگلہ پورا جل چکا تھا!
اُس آتش زدگی کے بعد بابوراؤ پینٹر اُس کیمرے کے ڈھانچے کو لے کر بابا گزبر کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ انھوں نے جلا ہوا لکڑی کا ڈھانچہ نکال پھینکا اور اندر لوہے اور پیتل کے جو مشینی حصے اور پُرزے تھے اُن کا اِس خیال سے کہ اُن میں سے کس کس کو پھر سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے، باریکی سے تجربہ و معائنہ کرنے لگے۔ کیمرے کے ولایت سے منگوائے گئے لینز کسی کام کے نہیں رہے تھے۔ لوہے کے کچھ مشینی پُرزے آگ میں پگھل کر ٹیڑھے میڑھے ہو گئے تھے۔ بابوراؤ پینٹر ایک ایک پُرزہ نکالتے، اُسے الٹ پلٹ کر دیکھتے اور دیکھ پرکھ کرنے کے بعد ایک طرف رکھ دیتے تھے۔ وہ منظر تو اتنا درد ناک اور دل خراش تھا کہ جیسے کسی بدنصیب بوڑھے کا جوان بیٹا اچانک مر گیا ہے اور مرگھٹ پر جا کر اُس کے پھول چُننے کا کام اُسی پر آ پڑا ہے! کیمرے کا ایک ایک پُرزہ اُس کی راکھ سے الگ کرتے ہوئے بابوراؤ پینٹر کو دیکھ کر میری آنکھیں بار بار بھر آتی تھیں۔ لیکن بابوراؤ کسی فلسفی کی طرح وہ کام کیے جا رہے تھے۔
اِسی بھاری ماحول میں کچھ دن گزرگئے۔ دکھ کا گھنا کالا سایہ کمپنی پر چھایا تھا۔ اچانک ایک دن خبر ملی کہ کمپنی میں ایک نیا ساجھے دار شامل ہو رہا ہے۔ کولھاپور کے شری منت سردار نیِسریکر نے کمپنی کو اِس مصیبت سے ابھارنے کے لیے ضروری پونجی لگانا قبول کیا تھا۔ سُن کر جان میں جان آ گئی۔ آئندہ فلم کی کہانی پہلے سے ہی طے تھی۔ ‘سنگھ گڈھ’ فلم کی کہانی کی ریہرسل زور شور سے شروع ہوئی۔ اِس وقت ماحول میں جوش اور امنگ کی توقع، لگن زیادہ تھی۔ سب کے سامنے ایک ہی آدرش تھا کہ اِس نئی فلم کو پورا کر کے مضبوط بنیاد پر مہاراشتڑ فلم کمپنی کا ازسرنو قیام کرنا ہے۔
تب تک ہندوستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں سنیما دیکھنے کا انتظام ہونے لگا تھا۔ ایک مکمل نئے تجربے میں پونجی لگانے میں جو تھوڑی سی جھجک ہوا کرتی ہے وہ بھی اب سرمایہ داری میں کم ہو چلی تھی۔ اُس کی جگہ اِس احساس نے لے لی تھی کہ پونجی لگانا ایک نیا کاروبار ہو گیا ہے۔ سردار نیسریکر نے بھی اِس خیال سے مہاراشٹر فلم کمپنی کو روپیہ دیا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں امریکہ کی ’بیل اینڈ ہوویل‘ کمپنی کا ایک بالکل جدید کیمرا مہاراشٹر فلم کمپنی میں آ پہنچا۔ بمبئی سے آیا یہ نیا کیمرا ایک دم ہلکا تھا اور کہیں پر بھی آسانی سے لے جایا جا سکتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ ہینڈل گھماتے وقت وہ قطعی نہیں ہلتا تھا۔ آج کے کیمرے کی طرح اِس میں بھی چار لینز لگے ہوتے تھے۔ اِس انتظام کی وجہ سے پاس پاس یا دوری کے منظروں کو فلماتے وقت کیمرے کو ہلانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اُسے ایک ہی جگہ پر رکھتے ہوئے اِن لینزوں کی وجہ سے پاس کے یا دور کے منظروں کو فلمانا ممکن ہو گیا تھا۔ طرح طرح کے ٹرِک سین بھی ہم اِس کیمرے کے ذریعے لے سکتے تھے۔ اِس نئے کیمرے کی وجہ سے ’’سنگھ گڈھ‘‘ کی شوٹنگ تیزی سے ہونے لگی۔ کولھاپور ریاست شِواجی مہاراج کی اولاد کی راج گدی تھی، لہٰذا شِواجی مہاراج اور ریاستی خودمختاری کے لیے عقیدت اور احترام کا جذبہ ہم لوگوں میں بچپن سے پیدا ہوا تھا، جیسے وہ ہمارے خون میں ہی گُھلا تھا۔
لہٰذا ہم میں سے ہر کوئی اُسی جوش، امنگ اور ہیجان سے اپنے اپنے کردار کی اداکاری کی مشق کر رہا تھا۔ بابوراؤ پینٹر کی داڑھی مونچھ پہلے سے ہی تھی۔ لہٰذا وہ ’شِواجی‘ بن گئے۔ بالا صاحب یادَو تاناجی، جُھنجار راؤ پَوار کونڈانا قلعے کا قلعےدار، اُدیبھانو اور اکیس برس کا نوجوان ان میں شِیلا ماما، یعنی اسّی سال کے بوڑھے کا کردار کر رہے تھے۔
اسٹوڈیو پر ہمیشہ کی طرح سفید کپڑے کا خول چڑھایا گیا۔ ’سرُریکھا ہرن‘ کی نمائش کے وقت بابوراؤ پینٹر جب بمبئی گئے تھے تو لوٹتے وقت کسی پُرانے جہاز کی پلیاں خرید لائے تھے۔ اِس بار لکڑی کی اُن پولیوں کے اوپر سے سفید کپڑا کھینچ کر تانا گیا تھا، اِس لیے منظروں کی اونچائی پہلے سے کہیں زیادہ رکھنا ممکن ہو سکا تھا۔
اسٹوڈیو کے اندر کی شوٹنگ ختم ہونے کے بعد باہر شوٹنگ کے مخصوص منظروں کو براہِ راست پونا کے پاس سنگھ گڈھ پر جا کر فلمانے کے بجائے کولھاپور سے باہر اٹھارہ کلومیٹر کی دوری پر واقع پنہالہ قلعے پر شوٹ کرنا شروع کیا گیا۔ جب مجھے شیلا ماما کا کردار نہیں کرنا ہوتا، تب میں کبھی ماولے سپاہی کا، کبھی مسلمان سپاہی کا میک اپ کر، شوٹنگ میں شامل ہو جاتا تھا۔ اِس کے ساتھ ہی بھیڑ کے سین میں سب لوگوں کو اُن کی الگ الگ ہلچل (ایکشن) سمجھانے اور اُن پر کنٹرول رکھنے کا کام بھی میں اپنی طرف سے کرنے لگا تھا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ باہر شوٹنگ کے وقت دور کھڑے سپاہیوں تک کسی کی آواز پہنچتی ہی نہیں تھی، تب میں پیدل یا گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے پر جاتا اور بابوراؤ پینٹر کا حکم سب کو پہنچا دیتا تھا۔ بابوراؤ پینٹر کا رُک رُک کر اور ہلکی آواز میں بولنا سب کی سمجھ میں نہیں آتا تھا اور سب کو سنائی بھی نہیں دیتا تھا۔ ایسے وقت میں اُنہی کے جملے اُس بھیڑ کو زور سے چِلّا کر دوبارہ سُناتا تھا۔ مختصراً کہا جائے تو میں بابوراؤ پینٹر کا بھونپو بن گیا تھا۔
کئی بار میں بھیڑ کے سین میں اپنے تخیل کے مطابق کچھ نئے ڈھنگ کی ہل چل کرنے کے لیے لوگوں سے کہتا تھا۔ اُن میں سے کچھ حصے بابوراؤ پینٹر کو قطعی پسند نہیں آتے تھے۔ وہ غصے میں آ کر مجھے کہتے، ’’تم انھیں کچھ بھی کہتے ہو۔ ‘‘ لیکن اُن کا غصہ مول لے کر بھی میں بھیڑ کے لوگوں اور کم اہم کرداروں کو بیچ بیچ میں اداکاری کے بارے میں رائے دینے کی ڈھٹائی کرتا۔ اِس سے منظروں کی ہل چل اور ضروری مقدار سنیما میں کس طرح حاصل کی جاتی ہے، اِس کا کچھ گیان مجھے ملتا گیا۔
لڑائی کے منظر کے فلمانے کے وقت کبھی ہم لوگ واقعی زخمی ہو جاتے تھے۔ لیکن مسرت اور امنگ کا سماں ایسا ہوتا کہ ہم لوگ اپنے زخموں پر اسپرٹ لگا کر پھر اگلے سین کے فلمانے کے لیے ڈٹ جاتے تھے۔
‘سنگھ گڈھ ‘کی آخری لڑائی کے سین کی شوٹنگ تو رات میں کی جانے والی تھی۔ منظرتھا:تاناجی اور شیلاماما گوہ (سوسمار) کی مدد سے ماولوں کے ساتھ ساحل کنارے پر چڑھ جاتے ہیں اور قلعے کا خاص دروازہ کھول کر مراٹھوں کی فوج کو قلعے کے اندر لے جاتے ہیں۔ رات کے گہرے اندھیرے میں لڑائی کا کہرام مچ جاتا ہے۔ مشعلوں کی روشنی میں اِن منظروں کی شوٹنگ ممکن نہ تھی۔ اِس پر بابوراؤ پینٹر نے ایک حل کھوج نکالا۔ دیوالی پر انار اور بڑی پھلجڑیاں لگائی جاتی تھیں۔ اُن کی روشنی بہت تیز ہوتی تھی، لہٰذا ہم لوگ ضرورت کے مطابق کبھی ایک ہی سیدھی لمبی قطار میں یا کبھی رنگولی نما ڈیزائنوں میں اِس کی بارود رکھتے اور مشعل سے انھیں سلگا کر اُس آتش بازی کی روشنی میں اِس لڑائی کے سینوں کی شوٹنگ کرتے تھے۔ انار چندرجیوتیوں کا دھواں یوں تو ہوا کے ساتھ بہہ جاتا، جو کچھ شوٹنگ میں پینٹ ہو جاتا وہ مشعل کے دھویں سا لگ کر ناظرین کو اصل معلوم ہوتا۔ ہمارے ملک میں سین کا فلمانا بجلی کے بنا اِس طریقے سے پہلی بار کیا گیا۔ آرگن دیپ کے سامنے پرنٹ اُتارنے کا کام داملے جی نے شروع کیا۔ اِس بار بھی میں فلم کے رول ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامنے کے کام پر حاضر تھا۔ ایک بار داملے کہیں باہر چلے گئے تھے۔ کچھ منظروں (سیکوینسز) کے نیگیٹوز بابوراؤ پینٹر جلدی چاہتے تھے۔ میں نے پرنٹنگ کی مشین پر فلم چڑھائی۔ سامنے آرگنی دیپ لایا اور بڑی ہمت بٹور کر ہینڈل گھما کر پرنٹ اُتارے، اُن پر کیمیائی عمل کیا اور پرنٹ کو باریکی سے پرکھا۔ پرنٹنگ مشین کا ہینڈل گھمانے کا کوئی براہ راست تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے میرے ہاتھوں کی رفتار ایک سی نہیں رہی تھی، لہٰذا پرنٹ ایک بھی ایک سا نہیں آ پایا تھا۔
کام سیکھنے کی دھن میں میں نے کمپنی کو نقصان پہنچایا تھا، اِس کا مجھے بہت دُکھ ہوا۔ میں نے فوراً بابوراؤ پینٹر کے پاس جا کر انھیں سارا قصہ بتا دیا اور اپنی غلطی قبول کی۔ بابوراؤ پینٹر’’سنگھ گڈھ‘‘ کی ایڈیٹنگ کرنے لگے۔ اب تھوڑا سا تجربہ اور ایڈیٹنگ کا علم میرے پاس تھا، لہٰذا کافی منظروں کی ایڈیٹنگ میں آزاد روپ سے کر لی۔ میرے جوڑے گئے سین کے پرنٹس بھی بابوراؤ پینٹر نے دیکھ لیے اور اُن میں کوئی سُدھار نہیں کیا۔ اِس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اُن منظروں کی ایڈیٹنگ میں نے صحیح کی ہے۔ ’سنگھ گڈھ‘ تیار ہو گئی۔
بابوراؤ پینٹر ’’سنگھ گڈھ‘‘ کی کاپی لے کر نمائش کے لیے بمبئی جانے کو تیارہوئے۔ جاتے جاتے وہ اسٹوڈیو کے پاس رُک گئے۔ انھوں نے داملے سے کہا، ’’سنو بھئی! بارش کے دن آ گئے ہیں۔ اسٹوڈیو کی اِن سبھی پرانے کھمبوں پر تارکول پوتنا ہو گا، تاکہ وہ سڑیں یا گلیں نہیں۔‘‘
بابوراؤ پینٹر نے جب یہ بات کہی، تب ہم سب لوگ وہیں حاضر تھے۔ کمپنی کے نوکر گھونڈو، آنند ڈومباری، یَادَو وغیرہ سب کو چھوڑ کر داملے جی نے مجھے آواز دی اور کہا، ’’شانتارام، یہ تارکول پوتنے کا کام کل سے تم ہی شروع کر دو۔‘‘
میں نے کہا، ’’کیا میں شروع کروں؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ‘‘
داملے نے اِس کام کے لیے مجھے ہی کیوں چُنا، پتا نہیں۔ کچھ وقت پہلے داملے کو کوئی بیماری ہو گئی تھی۔ کافی دن بستر پر ہی پڑے تھے۔ اُس وقت میں نے اُن کی سیوا، تیمارداری کی تھی۔ پھر بھی اُن کے آج کے حکم سے ظاہر تھا کہ ابھی اُن کا دل میرے لیے صاف نہیں ہوا ہے۔ اصل میں ہر کام کو چُستی اور مستعدی سے کر ڈالتا تھا۔ پتا نہیں اسی وجہ سے داملے کی آنکھوں کا میں کانٹا بن گیا تھا یا وہ میرا امتحان لینا چاہتے تھے۔ انھوں نے تارکول پوتنے کا کام میرے ذمے کیا، لیکن اِسی وجہ سے میں نے بھی بغیر کوئی شکوہ کیے اُس کام کو قبول کر لیا۔
دوسرے ہی دن سے میں نے مزدور جیسی آدھی چڈی پہن کر اُس کام کو شروع کر دیا۔ دو سیڑھیوں کو باندھ کر لگ بھگ چھبیس ستائیس فٹ لمبی سیڑھی تیار کر لی۔ اُس پر چڑھ کر سٹوڈیو کی پچیس فٹ کی اونچائی پر تکون میں لگے کھمبوں پر تارکول پوتنا شروع کیا۔ ایک چھوٹے ٹین کے کنستر میں تارکول بھر کر میں اوپر چڑھا کرتا اور ایک بوری کے کپڑے کا پوچا بنا کر اپنے ہاتھ سے ہی گرم گرم تارکول میں ڈبوتا۔ گرم چولھے کو پوتنے کے لیے جس طرح لیپنا ہوتا تھا، اُسی طرح رگڑ رگڑ کر اُن فلیٹوں پر تارکول پوت لیپ دیتا۔ نتیجتاً میرے دونوں ہاتھوں میں کافی جلن ہوتی۔ ٹین میں تارکول ختم ہونے پر خود پھر سیڑھی سے نیچے اُتر آتا اور ٹین بھر کر پھر چڑھ کر پُتائی میں لگ جاتا۔ یہ جھنجھٹ کا کام کہیں اپنے گلے نہ پڑے، اِس ڈر سے کوئی اُدھر آتا بھی نہیں تھا۔ اوپر سے بیساکھی کی دھوپ اور نیچے سے تارکول سے نکلنے والی گرمی، ایسی حالت میں بھی داملے جی کے کہنے کے مطابق میں نے وہ سارا کام بارش شروع ہونے سے پہلے پورا کر دیا۔
اِس شدید جسمانی محنت کی وجہ سے مجھے بہت بھوک لگنے لگی تھی۔ کھاتے وقت باجرے کی چار چار، پانچ پانچ روٹیاں اور شروع اور آخر میں خشکہ (بھات) مَیں دبا کر کھا جاتا تھا۔ تُلسا بائی کی پٹری میں کھانے والے ہم چار پانچ ہی لوگ تھے۔ اُن میں بابا گزبر اور اُن کے دو بیٹے شنکر اور بال بھی ہوتے۔ بڑا لڑکا شنکر اپنے باپ سے بہت ڈرتا تھا اور ہم سب لوگوں کا کھانا ہو جانے کے بعد وہ اکیلا ہی کھانا کھانے بیٹھتا تھا۔ تُلسابائی اُسے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھلاتی تھیں۔ بچایا ہوا سارا کھانا وہ اپنے یار کے لیے لے جاتی تھی۔ خاص کر جب تیج تہوار ہوتا یا اتوار کی چھٹی آتی، تب تُلسا بائی کھانا ضرور کچھ زیادہ ہی بچا کر لے جاتی تھی۔
ایک دن شنکر نے میرے پاس اس کی شکایت کی۔ مجھے بڑا غصہ آیا۔ گنیش چتُرتھی کا تہوار تھا۔ اُس دن میں ذرا طیش میں ہی تھا۔ شنکر کو میں نے ہمارے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھا لیا اور وہ بھی بالکل میری بغل میں۔ سب نے کھانا جھک کر کھا لیا اور ویسا اشارہ مجھے کر دیا۔ تُلسا بائی اب بھی چولھے کے پاس بیٹھی گنیش کے پرساد کے لیے’’مُودک‘‘ بنا رہی تھیں۔ میں نے اکڑ کے ساتھ تُلسا بائی سے کہا، ’’تُلسا بائی، مجھے مودک اور کھیر اور دینا بھلا۔‘‘ وہ بھنبھائی اور چار پانچ مودک اور کھیر میری تھالی میں رکھ کر پھر چولھے کے پاس جا جمی۔ میں نے منٹوں میں وہ مودک اور کھیر صاف کر کے پھر سے کہا، ’’اور دینا۔‘‘ تُلسا بائی کا وہی جھلّانا، میرا پھر صفاچٹ، یہی سلسلہ جاری رہا۔ تُلسا بائی پکاتی گئی، میں صاف کرتا گیا۔ میں اٹھائیس مودک کھا چکا تھا۔ سارے لوگ یہ معاملہ دیکھ کر مزے لے رہے تھے اور اپنی تھالی پر بُت بنے بیٹھے تھے۔ آخر کھیر، مودک پکانے والی تُلسابائی کی برداشت کی قوت ختم ہو گئی۔ کھیر کا خالی پتیلا اور مودکوں کا تھال میرے سامنے غصے میں دَن سے پٹک کر تُلسابائی نے پھن پھن کرتے ہوئے کہا، ’’اب اِن برتنوں کو بھی چاٹ جاؤ، اور جان چھڑاؤ!‘‘ اُس کے غصے پر مجھے ہنسی آ گئی۔
گنیش وِسرجن ہو گیا۔ وجے دشٹمی آ گئی۔ دسہرے کے دن پورن پولی بنی تھی۔ تُلسا بائی کے ساتھ میری سرد جنگ جاری تھی۔ اُس دن پورن پولیوں کی میں نے وہی گت بنائی جو گنیش چوتھ پر مودکوں کی بنائی تھی۔ تُلسابائی روٹیاں بیلتی گئی اور میں کھاتا چلا گیا۔ ایک بھی روٹی میں نے اسے بچانے نہیں دی۔ کچھ دنوں بعد ہار کر تُلسابائی ہمارا کام چھوڑ کر چلی گئی۔ اُس کے بعد تو ہم سب کو کسی ڈھابے میں جا کر کھانا کھانا پڑا۔
’’سنگھ گڈھ‘‘ فلم بمبئی کے ناولٹی سنیما میں لگی تھی۔ وہ بھارت کی پہلی تاریخی خاموش فلم تھی۔ اُس فلم نے مہاراشٹر فلم کمپنی کو بیکراں شہرت اور پیسہ دیا۔
اِدھر کمپنی میں لگ بھگ سناٹا تھا۔ بابوراؤ پینٹر کام کے لیے جب بمبئی جاتے، عام طور پر کمپنی میں لوگوں کا آناجانا بہت ہی کم ہو جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی تو تھیٹر کی عمارت میں اکیلا میں ہی ہوا کرتا تھا۔ لوگوں میں افواہیں پھیلی تھیں کہ شِواجی تھیٹر میں بھوت پھرا کرتے ہیں۔ بابوراؤ پینٹر کی ایک کُتیا تھی، ’’پیگی‘‘۔ وہ کئی بار اوپری منزل پر جا کر بھونکا کرتی تھی۔ سبھی کا کہنا تھا کہ پیگی بھوت کو دیکھ کر بھونکتی ہے۔ میں ایسی باتوں پر ذرا بھی یقین نہیں کرتا تھا، اس لیے میں دیر سویر، رات برات شِواجی تھیٹر میں گھومتا پھرتا تھا اور تھیٹر میں عام آدمیوں کے لیے چبوترے جیسی جو جگہ بنی تھی، اُس پر آرام کے ساتھ سو جاتا تھا۔
ایک بار رات میں بستر پھیلا کر کچھ پڑھنے بیٹھا تھا کہ میری نظر پائینتی کی طرف کنڈلی جما کر بیٹھے ناگ پر پڑی۔ مجھے دیکھتے ہی اُس ناگ نے پھن تان دیا۔ لمحہ بھر کے لیے میں من ہی من میں بہت ڈر گیا۔ لیکن میں نے کوئی چیخ پکار نہیں مچائی، نہ ہی کوئی شور کیا۔ اُس ناگ کو مارنے کے لیے بھی میں نے کچھ نہیں کیا۔ پتا نہیں اُس ناگ کی سمجھ میں یہ بات آئی تھی یا نہیں، لیکن کچھ لمحوں بعد وہ وہاں سے رپٹیلی چال سے کہیں اور چلا گیا۔ اُس کے بعد میں بھی اُسی جگہ پر نڈھال ہو کر سو گیا۔
بابوراؤ پینٹر بمبئی سے واپس آ گئے تھے۔ ’سنگھ گڈھ‘ کی کامیابی پر خوش ہو کر انھوں نے ہم سب کی تنخواہ بڑھا دی۔ میری تنخواہ نو سے بڑھا کر پندرہ روپے کر دی گئی۔ تنخواہ بڑھے دو ایک ماہ ہی بیتے تھے کہ ایک دن باپو کا ہُبلی سے خط ملا۔ انھوں نے کولھاپور میں سب کے رہنے کے لیے کرائے کا مکان ڈھونڈنے کے لیے کہا تھا۔ شاید سب لوگ ہُبلی میں رہ کر اوب گئے ہوں گئے۔ انھوں نے وہاں کا اپنا ہوٹل بیچ دیا اور کولھاپور واپس آ گئے۔ دادا نہیں آیا۔ اُسے بمبئی میں کسی موٹر کمپنی میں نوکری مل گئی تھی۔ کچھ دنوں بعد ہم سب لوگ اُس کی شادی میں بمبئی گئے تھے۔
اب ہماری کمپنی میں آئندہ فلم کے پلاٹ، کہانی پر پھر سے وچار شروع ہو گیا۔ ’سرُ ریکھا ہرن‘ تو آ گ میں خاک ہو چکی تھی۔ اُسے سب شہروں میں دکھائے جانے سے پہلے ہی وہ حادثہ ہو گیا تھا، لہٰذا اُسی پلاٹ پر ایک نئی خاموش فلم بنانا طے ہوا۔ لیکن اُس کا عنوان بدل کر ’’مایا بازار‘‘ کر دیا گیا۔ پلاٹ، منظر، کرداروں کا فیصلہ اور سین کی تعلیم وغیرہ سب کچھ پہلے ہی ہو چکا تھا، لہٰذا برسات ختم ہونے کے فوراً بعد “مایا بازار” تیزی سے شروع کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری بھی ہو گئی۔ اُس فلم کی ایڈئٹنگ کی ذمہ داری مجھ ہی کو سونپی گئی تھی۔
۱۹۲۳ء میں مہاراشٹر فلم کمپنی نے ’سنگھ گڈھ‘ اور مایا بازار‘ دو تین کامیاب فلموں کا نرمان کیا۔ اب مہاراشٹر فلم کمپنی کی شہرت کافی ہو گئی تھی۔ اپنی فلمی فن کی تکمیل سے وقت نکال کر روزکا لیکھا جوکھا (حساب کتاب)پورا کرنا بابا گذ بر کے لیے دوبھر ہوتا جا رہا تھا۔ اتنا سارا حساب کتاب ہر روز وہ لکھ نہیں پا رہے تھے۔ ایک بار باپو ہماری کمپنی میں بابوراؤ پینٹر سے یوں ہی ملنے آئے۔ اُس وقت بابوراؤ پینٹر نے باپو سے پوچھا کہ کیا وہ کمپنی میں حساب کتاب لکھنے کے کام پر آنا پسند کریں گے؟ پینٹر جی نے ہو سکتا ہے کہ باپو کے دکانداری کے تجربے کو دھیان میں رکھ کر ہی یہ تجویز کیا تھا۔ آزاد (خودمختار) کاروبار میں ضروری دوڑ دھوپ اور کولھاپور میں پُرانی پہچان کی وجہ سے پھر سے ممکنہ ادھاری کا خیال کر کے باپو نے پینٹر جی کی بات مان لی۔ مہاراشٹر فلم کمپنی میں اکاؤنٹنٹ کے ناتے باپو کو ہر مہینے پچیس روپے تنخواہ دینا طے ہوا۔ میری محنتی فطرت اور کسی بھی کام کو مستعدی کے ساتھ پورا کرنے کی میری قدرت دیکھ کر بابوراؤ پینٹر نے میری تنخواہ پھر بڑھا دی۔ مجھے ہر ماہ پچاس روپے ملنے لگے۔ بیچ میں ہوئی بھاری اُتھل پتھل کے بعد جیون اب کچھ پر سکون ہو رہا تھا۔
کولھاپور واپس آنے کے بعد ہی ماں باپو کے دماغ میں میرے بیاہ کا خیال آنے لگا تھا، لیکن ناکافی تنخواہ کا بہانہ بنا کر میں بات کو کسی طرح ٹالتا ہی آ رہا تھا۔ باپو پھر سے لگ بھگ ہر شام دیول کلب جانے لگے تھے۔ وہاں گووِندراؤ ٹینبے کے شاگردِ خاص شری گوونڈو پنت والاولکر سے اُن کی پہچان ہوئی۔ گونڈوپنت بھی بہت ہی بڑھیا ہارمونیم بجانے کے ماہر تھے۔ ریاست میں وہ سنگیت کار کی نوکری کرتے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں گونڈوپنت نے باپو کو بتایا کہ اُن کی ایک سالی شادی کے قابل ہو گئی ہے۔ باپو گونڈوپنت کے ساتھ پھلٹن جا کر لڑکی کو دیکھ آئے۔ انھیں لڑکی پسند آ گئی۔ لڑکی کے ماتا پتا کا اُس کے بچپن میں ہی انتقال ہو چکا تھا۔ اُس کا صرف ایک چھوٹا بھائی تھا۔ باپو نے درخواست کی کہ میں خود پھلٹن جا کر لڑکی دیکھ آؤں۔ اب مجھے ہر ماہ پچاس روپے ملنے لگے تھے، لہٰذا ناکافی تنخواہ کا بہانہ اب چلنے والا نہیں تھا۔ ماں بھی اب لگاتار جب دیکھو تب، میری شادی کی رَٹ لگائے جا رہی تھی۔
ایک دن ماں نے کہا، ’’شانتارام، تم کہتے ہو، تمھیں شادی نہیں کرنی۔ آخر کیوں؟ میں جانوں تو؟ اور کتنے دن میں اکیلے ہی پورے کنبے کے لیے کھپتی رہوں؟ اُدھر کاشی ناتھ نے بمبئی میں شادی کر لی ہے۔ اُس کی بہو بمبئی میں رہے گی۔ اُس کا میرے لیے کیا استعمال ہے؟‘‘
اِس سے پہلے کہ ماں اور بھی کچھ کہتی، میں وہاں سے چلا آیا۔ ابھی شادی نہیں کرنے کا میرا ارادہ ڈانوں ڈول ہونے لگا۔ میرے جیون کی سبھی چابیاں بابوراؤ پینڈھارکر کے ہاتھوں میں ہونے کا احساس باپو کو بھی ہو گیا تھا۔ انھوں نے بابوراؤ کو یہ سوچ بتائی۔ شادی کے لیے مجھے راضی کرنے کی کوشش بابوراؤ نے بھی شروع کر دی۔ بابوراؤ نے کہا، ’’لڑکی کو دیکھنے کے لیے تم پھلٹن نہیں جانا چاہتے تو نہ سہی۔ لڑکی کو ہی یہاں بلوا لیتے ہیں، کیوں؟‘‘
میں نے تڑاک سے جواب دیا، ’’واہ۔ واہ، کیا کہتے ہیں! آپ لڑکی کو یہاں بلوالیں گے، اوپر سے اُسے پسند ناپسند بتائیں گے! کسی کی بیٹی بازاروں میں خریدی جا سکنے والی چیز تھوڑی ہی ہوتی ہے!‘‘ بابوراؤ منھ پھاڑے میری طرف دیکھتے ہی رہ گئے۔
ہم دونوں دلہن کے امتحان کے لیے پھلٹن پہنچے۔ کھانے پر بیٹھے تھے، تب ایک چھوٹے ناٹے قد کی گیہوں رنگت لڑکی ہمیں کھانا دے کر چلی گئی۔ کھانے کے بعد میں اور بابوراؤ اوپر کے کمرے میں گئے۔ اکیلے میں بابوراؤ نے پوچھا، ‘‘تو کیا لڑکی پسند ہے تمھیں؟‘‘
’’اِن باتوں میں میری سمجھ آخر ہے ہی کیا!‘‘
’’بھئی بات سنو۔ لڑکی مجھے اچھی لگی۔ ہاں، اب ایک بات ضرور ہے کہ وہ کچھ خاص پڑھی لکھی نہیں ہے، لیکن اِس سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟ہم لوگ اُسے پڑھائیں گے۔‘‘
’’جی۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘
’’اس طرح ہچکچا کیوں رہے ہو؟ تم اُسے ٹھیک سے دیکھنا چاہتے ہو کیا؟‘‘
اس سے پہلے کہ میں ہاں یا نا کہوں، انھوں نے نیچے آواز دے کر لڑکی کو پھر اوپر بُلا لیا۔ کچھ دیر بعد وہ بارہ برس کی لڑکی نئی ساڑھی کو سنھبالتی سنوارتی ہمارے کمرے میں آ گئی اور ایک کونے میں کچھ سمٹ کر کھڑی ہو گئی۔ میں اُس کے ساتھ کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہا۔ میرے خیالات کا چکر تیزی سے گھومنے لگا۔ لڑکی پسند یا ناپسند؟ کسی لڑکی کو ایک بار ہی نہیں، دو دو بار خود بلوا کر دیکھ لینے کے بعد ناپسند کریں، تو بےچاری کے من کو کتنا دکھ ہو گا؟ اچھا، اس میں پسند کرنے لائق کچھ بھی بات تو نہیں ہے۔ پھر کسی لڑکی کو اِس طرح دیکھنے کے بعد اُسے ناقبول کرنے کا کسی آدمی کو آخر حق ہی کیا ہے؟
میں نے بابوراؤ سے کہہ دیا کہ لڑکی مجھے پسند ہے۔ اور لڑکیوں کو دیکھنے جانے کے بجائے میں نے پہلی بار دیکھی لڑکی کے ساتھ ہی بیاہ کر لیا، اس کا آج بھی مجھے بےحد اخلاقی اطمینان ہے۔ ماں باپو کو شادی کے لیے زیادہ خرچ میں نہ ڈالنے کا فیصلہ میں نے کر لیا۔ انھوں نے اِس طرح بہت سال پہلے زیارت گاہ (تیڑکیشتر) نرسَوبا کی باڑی جا کر اپنا بیاہ کر لیا تھا، اُسی طرح میرا بیاہ بھی اُسی زیارت گاہ میں ایک دم سادگی کے ساتھ سمپن ہو گیا۔ بارہ برس کی کماری امبو موگل کھوڑ، سہاگن ویمل شانتارام ونکُودرے عُرف سو۔ وِمل۔ وی۔ شانتا رام بن گئی۔
بیاہ ہوتے ہی میرے چلن (روش) میں کوئی بھاری تبدیلی آئی تھی، ویسی بات بالکل نہیں تھی۔ میں کھانے کے لیے بیٹھا تو وہ مجھے کھانا دے کر پاس ہی کھڑی ہو جاتی۔ اور کیا چاہیے، نہیں چاہیے پوچھتی رہتی اور کہنے مطابق کھانا دیتی جاتی۔ اُس زمانے میں ہمارے یہاں کی عورتیں شوہر کی جوٹھی تھالی میں ہی کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہٰذا کھانے میں جو چیز اچھی بنی ہوتی، یا مٹھائی ہوتی، تو میں جان بوجھ کر زیادہ لے لیتا اور پھر رواج کے مطابق اُس کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ بس یہی تھا ہمارا رومانس! ہماری شادی کے تین چار ماہ بعد ویمل کا گوہنا ہوا۔ پھر سبھی مذہبی رسمیں اور تقریبیں ہوئیں۔ کسی کو بتاؤں تو جھوٹ لگے گا، لیکن میں مرد اور عورت کے معاملے میں سیدھا سادا جاہل تھا۔ واقعی مجھے کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ کمپنی میں کام کرنے والے اپنے ایک دوست سے پوچھ کر ہی ساری معلومات حاصل کر لی تھیں۔ سہاگ رات آ گئی۔ ویمل پانی کا گلاس لوٹا لیے کمرے میں آئی۔ وہ کچھ تذبذب میں تھی، کچھ بولائی تھی۔ اُس کی عمر کا خیال کر میں نے سوچا کہ سہاگ رات کے ملن وقت میں کیا یہ میرا ساتھ دے پائے گی؟ کیا یہ ضروری ہے کہ سہاگ رات میں ہی وہ ملن ملاپ ہو؟ لیکن فوراًیہ بھی خیال آیا کہ آج رات اگر میں اِسے سیج سکھی کے روپ میں قبول نہیں کرتا ہوں، تو شاید جیون بھر اُسے اِس بات کا دُکھ ستاتا رہے گا۔ تو ایسا کرنا کہاں تک مناسب ہو گا؟ آخر میں نے یہ بات اُسی کی مرضی پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور کہا، ’’دیکھو، تم میرے پاس آنا چاہتی ہو تو بتی بجھا دینا، ورنہ اُسے ویسے ہی رہنے دینا، سمجھیں؟‘‘
وہ شرمائی، بہت ہی مدُھر شرمائی۔ میں بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد کمرے میں اندھیرا ہو گیا۔ کب اور کیا ہو گیا، میری سمجھ میں نہیں آیا۔ لمحہ بھر سوچنے لگا، کیا یہی وہ بات ہے جسے عورت کا سُکھ کہتے ہیں؟ تھوڑی دیر بعد ہی میں گہری نیند سو گیا۔ وہ بھی میرے پاس ہی پُرسکون نیند میں غرق ہو گئی۔
پو پھٹی۔ نیند کچھ کُھلی۔ آدھ کھلی آنکھوں سے میں نے سیج پر پاس میں دیکھا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ ماں کے پاس وہ گھر کے کام کاج میں لگ گئی تھی۔ میں بھی سویرے کے معمولات کو نمٹا کرکمپنی میں اپنے کام پر چلا گیا۔ میری شادی کے کچھ ہی دن پہلے کولھاپور میں ہمارے گھر کے سامنے لکشمی پرساد تھیٹر میں’’سٹار‘‘ نامی سنیما چالو ہو گیا۔ اِس کے مالک تھے بیل گاؤں کے ایک امیر مہاشے کرشن راؤ ہری ہر۔ مجھے انھوں نے پوچھا کہ کیا میں اُن کے سنیما کا منیجر بن سکوں گا؟ میں نے انھیں سمجھایا کہ مہاراشٹر فلم کمپنی میں کام کرنے کا کوئی طے شدہ وقت نہیں ہوتا۔ وقت بے وقت، جب بھی ضرورت پڑے، کام پر جانا پڑتا ہے۔ اِس کے باوجود اُن کی درخواست رہی کہ سٹار سنیما کا منیجر میں ہی بنوں۔ سنیما تھیٹر کے انتظام کا تجربہ پانے کی خواہش سے میں نے وہ ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ انھوں نے ہر مہینے مجھے پندرہ روپے دینا قبول کیا۔
سٹار سنیما کا منیجر اور مہاراشٹر فلم کمپنی کا ملازم۔ یہ میرے ایک دم مختلف روپ تھے۔ دن بھر میں کمپنی میں سب کے ساتھ بہت ہی ہلِ مل کر پیش آتا۔ اِس لیے میرے تعارف کا فائدہ اٹھا کر کمپنی کے لوگ شام کو بِنا معاوضہ سنیما دیکھنے کے لیے آ جاتے تھے۔ لیکن سنیما گھاٹے میں چل رہا تھا، اس لیے میں اُن کو پیسے دے کر ٹکٹ خریدے بغیر اندر نہیں جانے دیتا تھا۔ بالا صاحب یَادَو اِس پر مجھے ضرور کہا کرتے تھے، ’’۔۔۔ کی ماں کو، یہاں کمپنی میں تو تم ہمارے ساتھ اتنی دوستی جتاتے ہو، اور وہاں سنیما کے وقت تو ایسے پیش آتے ہو جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں؟‘‘ شری ہری ہر سے میں نے صرف پہلے ماہ ہی پندرہ روپے تنخواہ لی۔ بعد میں میں بغیر تنخواہ ہی منیجری کرتا تھا۔ انھیں کتنا گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے، خود دیکھ رہا تھا، لہٰذا اُن سے تنخواہ کبھی مانگی ہی نہیں۔ سنیما تھیٹر چلانے کا تجربہ مجھے ضرور مل گیا۔
سن ۱۹۲۴ء میں بابوراؤ پینٹر نے ’’کلیان کا خزانہ‘‘ نامی فلم بنانا طے کی۔ کلیان کے صوبےدار کی بہو کا کام کرنے کے لیے بابوراؤ پینٹر بمبئی سے سلطانہ نامی لڑکی ڈھونڈ لائے تھے۔ یہ سلطانہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ فلم میں اُس کا کام ہوتا تو اُسے سنھبالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ وہ ناک میں دم کر دیتی تھی۔ کولھاپور جیسے رنگیلے نگر میں ایسا ناز نخرے والا روپ شاید ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔ لہٰذا کولھاپور کے سردار، جاگیردار لوگ بھی اُسے صرف دیکھنے کے لیے ترستے تھے۔ اِس سلطانہ کے ساتھ آئی اُس کی ماں، لیکن وہ مہا اُستاد تھیں۔ سلطانہ کے کردار کی شوٹنگ ختم ہوتے ہی دونوں ماں بیٹی فوراً بمبئی لوٹ گئیں۔
اِس فلم میں میرا کوئی خاص کردار نہیں تھا، اِس لیے بابوراؤ پینٹر کی ڈائریکشن کے فن کی کافی خوبیوں کو باریکی سے دیکھنے کا موقع مجھے مل گیا۔ یہ میرے لیے عظیم موقع تھا۔ کسی اداکار یا اداکارہ سے جب وہ اپنی خواہش کے مطابق اداکاری نہ کرا پاتے تو وہ انھیں ایسے بامقصد ڈھنگ سے کھڑا کرتے کہ اُن کی اداکاری کا اثر دیکھنے والوں پر برابر پڑتا۔ بابوراؤ پینٹر خود بہترین معیار کے پینٹر تھے، لہٰذا وہ منظر اتنے پُرکشش ڈھنگ سےتخلیق کرنے کا فن اچھی طرح آگاہ تھے۔ اُن کی منظری تخلیق اتنی پُر کشش ہوتی تھی کہ تصویر ایک دم زندہ ہو اُٹھتی، براہ راست روپ سے حرکت کرتی نظر آتی۔ کسی سین میں جب کوئی واقعہ پینٹ کرنا ہو تو اُس کے سامنے کیا کیا ہونا چاہیے۔ پیچھے کی طرف کون کون سی باتیں ہونی چاہییں، اس کی مکمل تصویر پہلے اُن کے ذہن پر اُبھر آتی تھی۔ نتیجتاً شوٹنگ کے وقت کسی نے کوئی سجھاؤ دے دیا تو کہانی (پلاٹ) کے ماحول میں اُس کا کتنا اثر رہے گا، اس کا تخیل وہ آسانی سے کر پاتے تھے۔ انہی سب باتوں کی وجہ سے پردے پر دکھائی دینے والے کرداروں کی ہلچل کم سے کم، لیکن ازحد پُراثر ہوتی تھی۔ صرف ماحول کی مدد سے کسی سین کو زندہ کرنے میں تو بابوراؤ پینٹر اتنے ماہر تھی کہ سین کو سمجھانے کے لیے ٹائٹلز کی ضرورت بھی کبھی نہیں پڑتی تھی۔
بابو راؤ پینٹر
بابوراؤ پینٹر کے مددگار کے روپ میں دن رات کام کرنے کی وجہ سے اِن سب باتوں کو میں بہت ہی نزدیک سے دیکھ پایا، اسے میں اپنی خوش قسمتی مانتا ہوں۔ کسی سین کی شوٹنگ اِسی طرح کیوں کی اُور اُس کے پیچھے اُن کا تخیل یا سوچ کیا تھی، انھوں نے کبھی مجھے سمجھا کر نہیں بتایا۔ نہ ہی کبھی پاس بیٹھا کر سکھایا کہ فلمی فن کی تکنیک کیا ہوتی ہے۔ یہ تو اُن کا طریقہ ہی نہیں تھا۔ میں تو اپنی سمجھ اور صلاحیت کے مطابق یہ باتیں سیکھتا گیا۔ میں اس بات کا ٹھیک ٹھیک مجموعی جائزہ لیتا اور معائنہ کرتا کہ فلاں بات کیوں اور کیسے کر رہے ہیں، اور پھر من ہی من میں اُس کے بارے میں ایک خاکہ کھینچتا۔ فلم پوری ہو جانے کے بعد اُس کے ہر سین کا اثر دیکھ کر میرے خیالات، میرے تخیلات زیادہ صاف اور واضح ہوتے گئے۔ ہر روز میرا رجحان ڈائریکشن کی طرف بڑھتا گیا، جو فلمی تخلیق کا سب سے اہم انگ تھا۔
اُس کے بعد بنی فلم تھی’’مہارانی پِدمنی‘‘۔ اس میں پدمِنی کے شوہر کا کردار میں نے کیا تھا۔ یہ فلم اچھی چلی۔ اُسی سال (یعنی۱۹۲۴ء میں) مہاراشٹر فلم کمپنی کی آخری فلم تھی’’شری کرشن اوتار‘‘۔ پُران سے متعلق ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اس کے پلاٹ کا سارا تصور سماجی نظریے سے پیش کیا تھا۔ معجزاتی یا ٹرِک سین کو انھوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔
’’شری کرشن اوتار‘‘ کی نمائش کے وقت بابوراؤ پینٹر مجھے اپنے ساتھ بمبئی لے گئے تھے۔ اُن کے ساتھ بمبئی جانے کو مل رہا ہے، فقط اِس تصور سے میں پھولا نہیں سما رہا تھا۔ مہاراشٹر فلم کمپنی میں وہ آتش زدگی ہوئی تھی، تب شاہو مہاراج نے بابوراؤ پینٹر سے تاکید سے کہا تھا کہ جب بھی کسی کام کے لیے بمبئی جاؤ تو کھیت واڑی میں واقع ہمارے ’’پنہالا لاج‘‘ میں ہی رہنا۔
ہم پنہالا لاج آئے۔ وہاں کے نوکر بابوراؤ پینٹر کے کپڑے ٹھیک سے دھوتے نہیں تھے۔ انھیں مَٹ میلی دھوتی پہنے دیکھنا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا، لہٰذا میں خود اُن کے کپڑے ہر روز صاف دھو کر انھیں پہننے کے لیے دیا کرتا تھا۔
فلم کی نمائش کے پہلے دن میں میجسٹک سنیما گیا تھا۔ وہاں کے باغ میں میں بیٹھا تھا۔ لگتا تھا کہ ہماری اُس فلم کی علامات کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ تبھی اُس زمانے کے انتہائی مشہور بمبئی کے فلم فوٹوگرافر وی بی جوشی وہاں آئے۔ وہ ہماری فلم دیکھ کر ہی آ رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کھِلّی اڑانے لگے اور بابوراؤ پینٹر پر طنز کستے ہوئے بولے، ’’کیوں؟ کیا حال ہے آپ کے دڑھیل کا؟‘‘
مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے انھیں وہ جھاڑ پلائی کہ یاد کرتے ہوں گے۔ کہا، ’’کسے دڑھیل کہہ رہے ہیں آپ؟ اُن کے قدموں کی دُھول کے بھی برابر آپ نہیں۔۔۔ ‘‘ اور بھی بہت کچھ ڈانٹ۔۔۔ جانے کیا کیا کہہ گیا اور میں وہاں سے چل دیا۔ جیون بھر پھر میں نے اُس شخص سے بات تک نہیں کی۔
سن ۱۹۲۵ء میں ہماری کمپنی نے تین فلمیں بنائیں، دو تاریخی تھیں۔ ’’رانا ہمیر‘‘ راجپوتوں کی پُرفخر تاریخ کی کہانی تھی۔ اُس میں بالا صاحب یَادَو رانا ہمیر بنے تھے اور میں اُن کا ایک دوست۔ دوسری فلم تھی ’’شہالا شہہ‘‘ شِواجی نے بیجاپور ریاست میں دھوم مچا رکھی تھی۔ بیجاپور کے سلطان عادل شاہ نے شِواجی کے باپ شہاجی کو گرفتار کر لیا تھا۔ شِواجی کو ایک دھمکی بھرا خط بھی لکھا تھا۔ لیکن شِواجی پر کوئی اثر نہ ہوتا دیکھ کر اُس نے طے کیا کہ شہاجی کو دیوار میں زندہ ہی چُن دیا جائے۔ ایسے وقت شِواجی بڑی چالاکی سے ترکیب لڑا کر شہاجی کو رہا کروا لاتا ہے۔ یہ تھی اُس فلم کی کہانی۔ اس جوش دلانے والی تاریخی فلم کا لوگوں نے ا چھی طرح استقبال کیا۔
اِس فلم میں میں نے عادل شاہ کا کام کیا۔ اُس کے لیے مجھے سر کے سارے بال اُتروا کر سر پورا منڈوانا پڑا تھا۔ میرے گھنگھریالے بالوں کی وجہ سے کمپنی میں کئی لوگ مجھے گھنگھریالے بالوں والا (Curly Headed Boy) کہا کرتے تھے۔ ہر روز سویرے ہی نائی آتا اور ایک دم اُسترے سے میرے سر کو اتنا گھونٹ کر چکنا بنا دیتا جیسے میری ٹال نکل آئی ہو۔ چوٹی تک وہ اڑا دیتا تھا۔ شوٹنگ ختم ہونے تک جاری اِس حجامت اور اُس کی وجہ سے سر میں بڑھتی جا رہی پریشانی کی وجہ سے میں بالکل روہانسا ہو گیا تھا۔ آخر شوٹنگ ختم ہو گئی۔
فلم کی ایڈیٹنگ ہوتے ہوئے ڈیڑھ ایک ماہ بیت گیا۔ میرے گھنگھریالے بال پھر واپس آ گئے تھے۔ بابوراؤ پینٹر’ کاٹ شاہ’کی کاپی لے کر بمبئی گئے اور کچھ دن بعد فلم کی نمائش کیے بغیر ہی واپس لوٹ آئے۔ آتے ہی انھوں نے مجھے کہا:
’’پھر سے کچھ سین لے کر اِس میں ڈالنے ہوں گے!‘‘
’’کون سے؟‘‘
’’عادل شاہ کے محل کے۔‘‘
’’جی!‘‘
پھر کیا تھا! نائی کو بُلایا گیا۔ قربانی کے بکرے کی طرح مجھے اُس کے سامنے بٹھا کر سر کی وہی چِھلائی گُھٹائی ہو گئی۔
اب تو میں شوٹنگ کے ہر کام میں بابوراؤ پینٹر کی مدد کرنے لگا تھا اور وہ بھی ایک دم منظم ڈھنگ سے۔ کرداروں کا میک اپ، بھیس صحیح ہے یا نہیں، پہلے کے مطابق اُن کی سرگرمیوں میں برابر تسلسل آ پا رہا ہے یا نہیں، اُسے دیکھنے جیسے کام بھی میں بہت باریکی کے ساتھ کرنے لگا تھا۔ ایڈیٹنگ تو میں اکیلا ہی آزاد روپ سے کبھی کا کرنے لگا تھا ہی، اب صاحب ماما کی غیرحاضری میں کئی بار کیمرا چلا کر کچھ سین کی شوٹنگ بھی میں کرنے لگا تھا۔ کیمیائی عمل کے کام کا تو مجھے اب کافی تجربہ مل چکا تھا۔
’’کاٹ شاہ‘‘ کا سارا کام ختم ہوتے ہوتے پھر بارش کا موسم آ گیا تھا۔ شوٹنگ بند ہو گئی۔ باہر کے ملکوں میں بجلی کی مدد سے شوٹنگ ہونے لگی ہے، ایسی خبریں ہمیں کولھاپور میں ملنے لگی تھیں۔ کولھاپور میں بجلی پہنچی نہیں تھی۔ صرف سبزی منڈی میں پِسائی کی ایک چکی تھی جس کے آئل انجن کی مدد سے منڈی کی کچھ دُکانوں میں بجلی کے دیے لگوائے گئے تھے۔ بابوراؤ پینٹر نے اُس آئل انجن کو، اُس کے ڈائنامو اور سڑک پر لگے بجلی کے کھمبوں کے ساتھ، خرید لیا۔ اس انجن اور ڈائنامو خود کھمبوں وغیرہ سامان کو میں کمپنی میں لے جانے کے انتظام میں ہم سب لوگ جٹ گئے۔ اپنے پائجاموں کو گھٹنوں سے بھی اوپر تک موڑ کر، بارش کی وجہ سے کیچڑ سے راستہ نکالتے نکالتے بجلی کے اُن کھمبوں کو ہم لوگ ڈھو ڈھو کر اسٹوڈیو میں پہنچانے میں لگے تھے۔ داملے، فتے لال، مَیں، یَادَو وغیرہ، ہم سب لوگ کچھ دن تو اِسی کام میں لگے رہے۔ تب ہم لوگوں کو کمپنی کی طرف سے ناشتہ پانی کے لیے چار چار پیسے دیئے جاتے تھے۔ اُن پیسوں سے ہم لوگ اُن دنوں کے کافی مشہور مہانندا ہوٹل میں چٹ پٹی مِسل (موٹھ اور لوبیا کا چھولوں کی طرح پکا کر بنایا گیا سالن) اور پاؤ روٹی (ڈبل روٹی) کھاتے اور بعد میں ہی کام شروع کرتے تھے۔
۱۹۲۵ء میں بنی تیسری فلم تھی، ’’ساوکاری پاش‘‘ (ساہوکار کا پھندا)۔ بابوراؤ پینٹر کی ڈائریکٹ کی گئی سبھی فلموں کی یہ فلم سرتاج تھی۔ آج اچھی فلم کے لیے جتنے بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، وہ سب اس فلم پر اُن دنوں بھی لاگو ہو سکتے تھے، اِتنا اُس کا درجہ بہترین تھا۔ اِس فلم کو متوازی، تجرباتی، لکیر سے ہٹ کر بنی، جو بھی کہو، اُس کے لیے وہ ایک دم اہل تھی۔ پھر بابوراؤ پینٹر نے اُسے ۱۹۲۵ء میں بنایا تھا! بھارت کی وہ پہلی حقیقت پسندانہ سماجی فلم ہے۔ اُس کا سکرپٹ مراٹھی کے مشہور ناول نگار ہری نارائن آپٹے سے بابوراؤ پینٹر نے لکھوالیا تھا۔ کہانی انتہائی دل کو چھو لینے والی ہے۔
فلم شروع ہوتی ہے۔ ہیرو ایک مل میں روئی کی بڑی بڑی گانٹھیں اٹھاتا دکھائی دیتا ہے۔ تبھی اُسے زندگی کے گزرے واقعات یاد آنے لگتے ہیں۔ ہیرو کے بوڑھے ماں باپ نے اُس کی شادی کرنے کے لیے اپنا کھیت گروی رکھ کر گاؤں کے ساہوکار سے قرضہ لیا تھا۔ وہ ساہوکار بہت نیچ اور مہاکنجوس تھا۔ ہولی، پھاگن اور دیوالی کارتک ایسی گنتی کر[ سال کے چودہ مہینے گنوانے والوں میں تھا وہ! ساہوکار اُس بوڑھے کسان کی ساری زمین جائیداد، گھربار، سود اور اصل مال ہڑپ کر جاتا ہے اور وہ سارا خاندان در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔
فلم کا اختتام تو بہت ہی دل کو چھو لینے والا ہو گیا تھا۔ آخری سین میں وہی ساہوکار اپنی پیڑھی پر بیٹھا ہے اور ایک کسان اُسی ساہو کار سے قرض لینے آتا ہے۔ ساہوکار پہلے کسان کی طرح اُس نئے کسان کا ہاتھ پکڑ کر اُس کا انگوٹھا قرض نامے پر لگواتا ہے۔ اِس طرح پھر وہی بدخصلت بےلگام چلتے ہی رہنے والا ہے، یہ بات مختصر، پُراثر ڈھنگ سے اُس میں دکھائی گئی ہے۔ فلم کو مقبول بنانے کے لیے بابوراؤ پینٹر نے کہانی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ اِس فلم میں بابوراؤ پینٹر میں جو ڈائریکٹر تھا، ایک دم ایک ماہر فنکار کے روپ میں اُبھر آیا تھا۔ ید دیپ تھیٹر کی ٹکٹ کی کھڑکی پر وہ فلم بُری طرح ناکام ہوئی۔اُس کا مان، دل کو چھونے والی کہانی کا انتخاب، پلاٹ کو شروع سے آخر تک بڑھاتے وقت تجربہ ہونے والی سنجیدگی اور تجرباتی ڈائریکشن وغیرہ باتوں کی وجہ سے وہ فلم تاریخ میں بہت ہی قابلِ فخر مانی جاتی ہے اور آج بھی اُس کا ذکر احترام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
بمبئی میں اُن دنوں ’’سوشل رفارمر‘‘ نامی ایک معزز ہفت روزہ میگزین نکلا کرتا تھا۔ وہ میگزین سماجی کاموں کے لیے وقف تھا۔ نٹ راجن اُس کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے اپنے ایڈیٹوریل میں ’’ساوکاری پاش‘‘ کی بہت تعریف کی تھی۔ سماج میں جاری لاعلمی کو مٹانے میں مددگار ہونے والی ایسی فلموں کا بننا بہت بڑی تعداد میں کرنے کی ضرورت پر بھی انھوں نے زور دیا۔ “ساوکاری پاش‘‘ فلم کے لکھے گئے اس کھیل نے میرے خیالات کو نئی سمت فراہم کی۔ فلم کے ذریعے کا استعمال صرف پیسے اور لوگوں کی تفریح کے لیے نہ کر کے سماج کے متنوع مسائل اور سوالات کو پُراثر انداز سے حاضر کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے، کیا جا سکتا ہے، اِس بات کو میں نے پہلی بار شدت سے محسوس کیا۔ یہ بات میرے دل ودماغ میں راسخ ہو گئی، جم گئی۔
’’ساوکاری پاش‘‘ کا ہیرو میں ہی تھا۔ اُس کردار کی وجہ سے میں ایک ایسے جانے مانے ادیب کے نزدیک آ گیا جن کے سماجی سوالوں کے لیے بیداری سماج کو اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی۔ اُن کا نام تھا شری نارائن ہری آپٹے۔ انھوں نے ’’ساوکاری پاش‘‘ کی فلمی کہانی اور بیچ بیچ میں دیے جانے والے ٹائٹلز کے لیے دل کو چھو لینے والے مکالمے لکھے تھے۔ انہی دنوں میں نے پھر ایک بار نارائن ہری آپٹے اور ناتھ مادھو کی کتابیں پڑھ لیں۔ سماج کے سامنے منھ کھولے مسائل کو لے کر اُن کے حل کا راستہ دکھانے والا ادب لکھنے کی نارائن ہری آپٹے کا سٹائل اور مہارت مجھ پر چھا گئی۔ اُن کا ایک ناول تھا ’’ناپٹناری گوشٹی‘‘ (نہ جاننے والی بات)۔ اس ناول نے تو مجھے پاگل سا بنا دیا تھا۔ اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کا بدلہ لینےوالی ایک باغی عورت کی وہ کہانی تھی۔ اس ناول کے بعد میں نے آپٹے جی کا سارا ادب پڑھ ڈالا۔ اُن کے ایک مضامین کی کتاب تھی، ’’سکھاچا مول منتر‘‘(سُکھ کا اصول)۔ اُس کے پڑھنے کے بعد زندگی کی طرف دیکھنے کا میرا نقطۂ نظر زیادہ سنجیدہ ہو گیا۔ نتیجتاً میں علمِ نفسیات اور علمِ فلسفہ کی کافی کتابیں عقیدت مندی سے پڑھ گیا۔ ہائی سکول میں تھا تب وشنو شاستری چِپلونکر کے مضامین میں نے پڑھے تو تھے، لیکن اُن کا مطلب اُس وقت کچھ ٹھیک سمجھ نہیں پایا تھا۔ میں نے انھیں نئے سرے سے پھر پڑھا۔ اُسی وقت ایک ماہنامہ میگزین کی اشاعت شروع ہو گئی تھی: ’’کِرلوسکر خبر‘‘۔ نارائن ہری آپٹے اِس ماہنامہ میگزین کے معاون مدیر تھے۔ اُس کے صفحے صفحے پر قوم کی رہنمائی کرنے والے پرانے اور نئے خوش گفتہ یا منطقی مضامین چھپا کرتے تھے۔ میں انھیں بار بار پڑھتا، یاد کر لیتا اور اُن پر غور و فکر کرتے ہوئے انھیں جذب کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
’’ساوکاری پاش‘‘ کی فلم کہانی سے آپٹے جی کو جب بھی فرصت ملتی، میں اُن کے ادب پر بحث کرنے کے لیے اُن کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ ایسی بحث سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ ایک بار میں نے اُن سے کہا، ’’آپ کے ناول ’تاپٹناری گوشٹی‘ میں بیان کی گئی ہیروئین اتنے انقلابی وچار کی ہے کہ مجھے نہیں لگتا ہمارے بھارت میں ایسی کوئی عورت حقیقت میں ہو گی بھی۔ میرا تو خیال ہے کہ یہ ہیروئین آپ کے تخیل کی اُڑان سے پیدا ہوئی ہے اور اِسی لیے وہ حقیقی نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ میرے اس الزام یا الزام تراشی کی تردید کرتے ہوئے انھوں نے سکون سے کہا، ’’مہاراشٹر کے سانگی نامی گاؤں میں بیاہی کی سچی کہانی ہے، حقیقی کہانی ہے۔ تخیل سے لکھی گئی کہانیوں کا سچ کبھی کبھی زیادہ غیرمتوقع اور دھچکہ دینے والا ہوتا ہے!‘‘ اُن کے اِس بیان کے بعد اپنی چاروں طرف ہونے والے واقعات کی طرف دیکھنے کا میرا نقطۂ نظر بدل گیا۔ ہر مسئلے پر متنوع زاویوں سے سوچنے کی صلاحیت مجھ میں پیدا ہونے لگی۔
’’ساوکاری پاش‘‘ اقتصادی ناکامی کا شکار ہو گئی تھی۔ فلم کمپنی ایک کے بعد ایک، ایک سے زیادہ کامیاب فلموں کے قیام کی وہ سے کمپنی کی حالت کچھ اچھی ہو گئی تھی۔ بابوراؤ پینٹر کچھ راحت کی سانس لینے لگے تھے۔ انھوں نے بڑے شوق سے ایک پُرانی فورڈ موٹر گاڑی خرید لی۔ اُن دنوں راجا مہاراجاؤں اور کچھ گنے چُنے سرداروں کے پاس ہی کاریں ہوا کرتی تھیں، لہٰذا قدرتی روپ سے ہم لوگوں کو بھی بابوراؤ پینٹر کی کار پر ناز تھا، رشک تھا۔ لیکن ایک موٹی اور پریکٹیکل بات بابوراؤ پینٹر کے دھیان میں نہیں آئی کہ آخر کوئی اپنی پُرانی گاڑی تبھی بیچتا ہے جب وہ ٹھیک سے نہیں چلتی۔ ویسے بابوراؤ پینٹر کی عقل مشینی معاملوں میں بھی بڑی تیز تھی! انھوں نے ضد کی کہ اس گاڑی کو وہ خود ریپیئر کریں گے۔ وہ اور دادا مستری لیتھ پر اُس گاڑی کے بگڑے پُرزوں کو ٹھیک کرنے لگے۔ ہم سبھی چیلے بھی اِس کام میں اُن کی مدد کرنے لگے۔ گاڑی کا سارا پُرانا اور اکھڑا اکھڑا رنگ کھرچ کھرچ کر صاف کیا گیا اور اُسے نیا رنگ دینے کا کام شروع ہو گیا۔ فلم بنانے کا اہم کام ثانوی ہو گیا۔ کوئی خیرخواہ صلاح دیتا بھی کہ کار ریپیئر کرنے والے کسی مستری کو مزدوری وغیرہ کا پیسہ دے کر گاڑی چالو کرنے کے لیے سونپ دی جائے اور آئندہ فلم بنانی شروع کی جائے، پر بابوراؤ پینٹر مانتے ہی نہیں تھے۔
آخر وہ فورڈ کار چالو ہو گئی! ہم سب لوگ بڑی شان کے ساتھ اُس میں بیٹھ کر سیر کرنے کے لیے بازار سے ہو کر نکلے۔ وہ زمانہ تھا کہ ہم لوگوں کے لیے تانگہ کرنا مشکل ہوتا تھا، پھر آج تو موٹر کار میں سیر کرنے کو مل رہی تھی۔ لگا کہ ایک بڑی تقریب آ پہنچی ہے۔ بابوراؤ پینٹر خود کار چلا رہے تھے۔ ہم سب کو بڑا مزہ آ رہا تھا۔ گاڑی مہادوار روڈ پر آ گئی کہ اچانک ایک زور کے دھماکے کی سی آواز گاڑی میں سے آئی اور گھڑاک گھڑاک جھٹکے دیتے ہوئے وہ بھرے بازار میں بند ہو گئی! ساری شان مٹی ہو گئی! بھرے بازار میں داملے، میں، صاحب، دادا مستری وغیرہ سب لوگ گاڑی کو دھکا دینے لگے۔ ابھی کچھ لمحے پہلے ہماری طرف رشک سے دیکھ رہے لوگ اب ہماری کِھلّی اڑانے لگے، تمسخر بھری ہنسی ہنسنے لگے۔ گاڑی میں بابوراؤ پینٹر اکیلے اسٹیئرنگ ہاتھ میں تھامے بیٹھے تھے۔ ہم سب لوگوں نے اِدھر اُدھر دیکھے بنا گردن جُھکا کر گاڑی کو دھکیلتے دھکیلتے جیسے تیسے واپس کمپنی میں پہنچایا! سبھی لوگ پسینے پسینے ہو گئے تھے۔
پھر گاڑی کی ریپیئرنگ، پھر سیر کے لیے نکلنا، لیکن اب شہر میں نہیں، باہر رنکالا تالاب کے کنارے کنارے۔۔۔ پھر بیچ میں ہی کہیں اُس کا بند پڑ جانا، اور پھر اُسے دھکا مارتے مارتے واپس لانا، یہ سلسلہ اب بار بار ہونے لگا۔ کبھی کبھی تو ہمیں شبہ ہونے لگا کہ کہیں بابوراؤ پینٹر جی ہم لوگوں کو اِس لیے تو گاڑی میں بیٹھا کر نہیں لے جاتے کہ وہ کہیں بند پڑ گئی تو دھکا مارنے کے لیے ہم کام آ سکیں! فلموں سے ہونے والی آمدنی کم ہونے لگی۔ ہم لوگوں کی تنخواہ رُکنے لگی۔ مہاراشٹر فلم کمپنی میں عدم اطمینان کا ماحول پھیلنے لگا۔ داملے، فتے لال تو کھلم کھلا بابوراؤ پینٹر کے خلاف بولنے لگے۔ جو بھی ہو، بابوراؤ پینٹر کی شان کے خلاف اِس طرح کی بُری باتیں مجھے قطعی برداشت نہیں تھیں۔ انھیں سنتے رہنے کے بجائے میں وہاں سے کہیں اور جا کر بیٹھتا تھا۔ اِس پر لوگوں نے (قادر رام داس کا) سمرٹھ رام داس کا شاگرد کلیان سوامی، بابوراؤ پینٹر کا چمچہ، وغیرہ خصوصیات لگا کر میرا مذاق کرنا شروع کر دیا تھا۔
۱۹۲۶ء شروع ہو گیا تھا۔ پھر ایک بار مالی استحکام کی ہمیں ازحد ضرورت تھی۔ لہٰذا نئے تجربے کے جھنجھٹ میں نہ پڑتے ہوئے بابوراؤ پینٹر نے دو پُران سے متعلق فلمیں بنائیں۔ ’’بھکَت پرہلاد‘‘ اور ’’گنج گوری‘‘۔ ’’بھکت پرہلاد‘‘ میں میں نے کئی معمولی کردار ادا کیے اور ’’گنج گوری‘‘ میں ارجُن کا۔ انہی دنوں کیشوراؤ دھائبر کا میرے لیے اُنس بڑھتا گیا۔ پہلے دو تین سال سے کمپنی میں اُن کا آنا جانا کافی باقاعدہ ہو گیا تھا۔ فلم ڈائریکشن، ایڈیٹنگ، کیمیکل اور خصوصاً فوٹوگرافی کے کاموں میں میں اُن کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی اور وہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے دیکھے جا رہے تھے۔ ویسے تو وہ کمپنی کی ایک ساجھے دار تانی بائی کاگلکر کے بہنوئی لگتے تھے، پھر بھی انھیں اِس بات کا گھمنڈ نہیں تھا۔ میرے سامنے وہ کم گو اور کسی کے لینے دینے میں نہ پڑنے والے شخص تھے۔
ہندوستان میں اب کئی فلم کمپنیاں ہو گئی تھیں۔ قدرتی روپ سے فلم پروڈکشن میں اب دوڑ شروع ہو گئی تھی۔ عام طور پر ہر فلم کمپنی سال میں پانچ چھ فلمیں ریلیز کر لیتی تھی۔ اِس کے مقابلے میں ہماری کمپنی کی فلم بنانے کی رفتار کافی دھیمی تھی۔ سن ۱۹۲۷ء میں بابوراؤ پینٹر نے صرف ایک ہی فلم پوری کی: ’’مُرلی والا‘‘۔ اِس میں میں نے رادھا کے غیرمطمئن شوہر انیے کا کردار کیا تھا۔
ایک دن شام کو سردار شری نسیریکر کمپنی میں آئے۔ وہ بابوراؤ پینٹر کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ ہمیشہ کی طرح میں کسی کام میں لگا ہوا تھا۔ تبھی کوئی مجھے پکارتے پکارتے وہاں آ پہنچا اور کہنے لگا، ’’تمھیں سیٹھ کے کمرے میں بُلایا ہے۔ سردار صاحب آئے ہوئے ہیں۔‘‘ یوں تو ہم میں سے کوئی بھی نیسریکر جی سے رابطے میں ہی نہیں آتا تھا، اِسی لیے اُس بُلاوے پر کچھ حیرت ہوئی۔ جو کام ہاتھ میں تھا اُسے ویسے ہی چھوڑ کر میں بابوراؤ پینٹر کے کمرے میں جا پہنچا۔ وہاں پینٹر جی اور نیسریکر جی، صرف دو ہی شخص تھے۔ مجھے آیا دیکھتے ہی نیسریکر جی نے کہا:
’’کیوں شانتارام، آپ اور کیشوراؤ مل کر ایک فلم کی ڈائریکشن کرنے کو تیار ہو؟‘‘
نیسریکر جی کی بات کچھ ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آئی۔ میں نے انھیں غور سے دیکھا۔ وہ مذاق تو نہیں کر رہے تھے؟ الٹا ان کا چہرہ کافی سنجیدہ تھا۔ میں نے پھر بابوراؤ پینٹر کو دیکھا۔ وہ اپنی داڑھی کو سہلاتے ہوئے کہیں کسی خلا میں دیکھ رہے تھے۔ تبھی پھر نیسریکر جی کی بات سنائی دی، ’’اتنے سال سے آپ بابوراؤ پینٹر کی رہنمائی میں کام سیکھ رہے ہیں، اور پھر بھی ڈائریکشن کی ذمہ داری اُٹھانے سے ڈرتے ہیں؟‘‘
اُن کے اِس سوال سے مجھے بجلی کا جھٹکا سا لگا۔ زندگی کی پہلی چنوتی (چیلنج)میرے سامنے تھا۔