(Last Updated On: )
۱۹۲۷ء ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ برطانوی ہندوستان ایک نئی کروٹ لے رہا تھا۔ نئی اسمبلیوں کا افتتاح ہوا۔ منتخب ارکان میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ اسمبلی سے باہر سیاسی جماعتوں کے اہم مذاکرات ہوئے۔ حکومتِ برطانیہ نے نئے دستور کے لیے تجاویز مرتب کرنے کے لیے رائل کمیشن مقرر کیا۔ اب صاف دکھائی دے رہا تھا کہ برطانوی ہندوستان کی ریاستیں اور صوبے ہمیشہ غلام نہ رہیں گے۔ آزادی ایک دم نہ ملی تو بتدریج مل جائے گی۔
علامہ اقبال نے اپنی چوتھی شعری تصنیف زبورِ عجم جون ۱۹۲۷ء میں شائع کی۔ ۲۶ جون کو روزنامہ انقلاب میں علامہ کے منشی جناب شیخ طاہر الدین کی طرف سے مندرجہ ذیل اشتہار چھپا:
زبورِ عجم
ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال صاحب بیرسٹر ایٹ لا کی تازہ تصنیف چھپ کر تیار ہو گئی ہے۔
لکھائی چھپائی دیدہ زیب ہے۔ کاغذ بھی اعلیٰ درجے کا ہے۔ مجلد کتاب ایک روپیہ زائد خرچ کرنے پر مل سکتی ہے۔ جلد نہایت خوبصورت اور پائیدار ہے۔ جلد پر ڈاکٹر صاحب اور کتاب کا نام سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔ قیمت کتاب، تین روپیہ، علاوہ محصول ڈاک۔ قیمت کتاب مجلد چار روپیہ، علاوہ محصول ڈاک۔
المشتہر۔ شیخ طاہر الدین۔ بازار انارکلی۔ لاہور
کتاب تین برس میں تیار ہوئی تھی۔ اس سے پہلے اسرار و رموز (۲۲-۱۹۱۵) اور پیامِ مشرق (۱۹۲۳) فارسی میں بانگِ درا (۱۹۲۴) اُردو میں پیش کی جا چکی تھیں۔ چوتھی تصنیف کے لیے ایک دفعہ پھر فارسی کی طرف توجہ دی گئی تھی۔ بظاہر اِس کی وجہ کتاب کا موضوع تھا۔
یہ ایک غلام قوم کو آزادی کے طور طریقے سکھانے کی کتاب تھی۔ عنوان ہی میں یہ اشارہ موجود تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام تھے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علہیم السلام کی قیادت میں آزادی نصیب ہوئی۔ پھر بھی غلامی کے اثرات فوراً ہی ختم نہ ہوئے۔ کئی دہائیوں کے بعد ہی ایک آزاد قوم کی طرح سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔ اِس نئی سوچ کا سب سے بڑا نمایندہ وہ نوجوان تھا جسے خدا نے پیغمبر بنا کر ایک نئی کتاب عطا فرمائی، یعنی حضرت داؤد علیہ السلام۔ اُن پر نازل ہونے والی کتاب کا نام زبور تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال نے جب ۱۹۲۴ء کے موسمِ گرما میں اپنی چوتھی تصنیف پر کام شروع کیا تو پہلے اس کا عنوان زبورِ جدید رکھا۔ انگریزی میں اسے Songs of Modern David بتایا۔ بہت جلد یہ عنوان زبورِ عجم ہو گیا یعنی وہ کتاب جو نئے زمانے میں مشرق سے غلامی کے اثرات ختم کر سکتی ہے۔
اُس وقت مشرقی اقوام، بالخصوص مسلمانوں کی حالت اگلے وقتوں کے بنی اسرائیل کے ساتھ ایک مماثلت رکھتی تھی۔ بارہ برس پہلے علامہ اقبال نے اپنی بیاض میں ایک نظم لکھی تھی۔ بعد میں ’مذہب‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں شامل ہو کر یہ چھوٹی سی نظم بہت مشہور ہوئی۔ اس کا ایک شعر جسے شائع نہیں کروایا گیا، یوں تھا:
کانپتا ہوں پڑھ کے میں افسانہ اسرائیل کا
ڈر ہے غفلت سے نہ ہو تیرا مقدّر بھی وہی
اپنی آیندہ تصنیف جاویدنامہ (۱۹۳۲) میں وہ فرعون اور برطانوی سپہ سالار لارڈ کچنر کی روحوں کو زہرہ سیارے پر یکجا کرنے والے تھے۔ لہٰذا فرعون کی غلامی اور یورپی استعمار کے درمیان مماثلت بھی اُن کے پیشِ نظر تھی۔ اکبرؔ الٰہ آبادی، جنہیں اقبال مرشد کی حیثیت دیتے تھے، یہاں تک کہہ گئے تھے:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
گویا فرعون نے بنی اسرائیل میں جو غلامانہ ذہنیت پیدا کی، ویسی ہی موجودہ دَور میں یورپی استعمار کی وجہ سے مشرقی اقوام میں پیدا ہو رہی تھی۔ صرف طریقے مختلف تھے۔ (یہ نکتہ علامہ اقبال کی نثری تحریروں اور لیکچروں میں بھی موجود ہے۔ خاص طور پر ’ملتِ بیضا پر عمرانی نظر‘ ملاحظہ کیجیے۔ یہ ایک لیکچر کا ترجمہ ہے جو علامہ نے ۱۹۱۱ء میں علیگڑھ میں انگریزی زبان میں دیا تھا)۔
اس لحاظ سے زبورِ عجم وہ نسخہ تھا جسے حکیم الامت نے اپنی قوم کو غلامانہ ذہنیت سے نجات دلانے کے لیے تیار کیا۔ اس کا خلاصہ علامہ اقبال نے ایک دوست کے نام خط میں یوں بیان کیا:
اِس کے چار حصّے ہیں۔ پہلے حصّے میں انسان کا راز و نیاز خدا کے ساتھ۔ دوسرے حصّے میں آدم کے خیالات آدم کے متعلق۔ طرز دونوں کی غزلیات کے موافق یعنی الگ الگ غزل نما ٹکڑے ہیں۔ تیسرے حصّے میں مثنوی گلشنِ راز (محمود شبستری) کے سوالوں کے جواب ہیں۔ اس کا نام میں نے گلشنِ راز جدید تجویز کیا ہے۔ چوتھے حصّے میں ایک مثنوی ہے جس کا نام میں نے بندگی نامہ تجویز کیا ہے۔ مثنوی کا مضمون یہ ہے کہ غلامی کا اثر فنونِ لطیفہ مثلاً موسیقی و مصوّری پر کیا ہوتا ہے۔
اگر ہم ذرا تفصیل سے جائزہ لیں تو کتاب کے چار حصوں کا تعارف یوں پیش کیا جا سکتا ہے:
۱ خد اسے خطاب پر مبنی غزل نما نظمیں۔ دُعا وغیرہ کو چھوڑ کر تعداد ۵۶ ہے۔ ان پر خاص اہتمام کے ساتھ نمبر ڈالے گئے ہیں۔ چنانچہ یہ نظمیں ایک کہانی کے انداز میں جُڑی ہوئی ہیں۔ عموماً ایک نظم میں جو سوال اُٹھائے گئے ہیں، اگلی نظم میں اُن کے جوابات کی طرف اشارہ ہے۔ یوں ایک ذہنی سفر ہے۔ نمبروار نظموں کی صورت میں طے ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قاری محسوس کرنے لگتا ہے جیسے یہ اُس کے اپنی کیفیات کی روئیداد ہے۔ اگر کوئی اِس طرح تسلسل کے ساتھ یہ پورا حصہ پڑھے تو ضرور آخری نظم اُسے چونکنے پر مجبور کر دے گی۔
۲ انسان سے خطاب پر مبنی غزل نما نظمیں۔ ابتدائیے وغیرہ کو چھوڑ کر تعداد ۷۵ ہے۔ یہ بھی نمبروار ہیں۔ انہیں ترتیب سے پڑھنے پر یوں لگتا ہے جیسے عالمِ فطرت بلکہ پوری کائنات محسوس کرنے اور سوچنے والا وجود بن گئی ہے۔ ہم اسے بتدریج دریافت کرتے جا رہے ہیں۔ نئے نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ آخر میں ایک ایسا انجام سامنے آتا ہے جو بہت عجیب و غریب اور غیرمتوقع ہے۔
۳ گلشنِ راز جدید، جس میں ۹ سوالات اور اُن کے جواب ہیں۔ گویا علامہ اقبال نے اپنے فکری نظام کا خلاصہ عام فہم اور سادہ انداز میں پیش کر دیا ہے۔ سوالات نئے نہیں ہیں۔ صدیوں پہلے تبریز کے صوفی عالم حضرت محمود شبستری نے بھی ان کے جواب دیے تھے۔ اُن کی کتاب گلشنِ راز صدیوں تک مسلم دنیا میں روحانی فکر کی درسی کتاب کے طور پر رائج رہی۔ زبورِ عجم کا یہ حصہ اُسی کتاب کی تجدید کے طور پر لکھا گیا ہے۔ اِس حصے کے اختتام پر علامہ اقبال خاص طور پر کہتے ہیں کہ جنہوں نے اِس نئی کتاب سے فائدہ نہ اُٹھایااُن کی خودی کبھی زندہ نہ ہو سکے گی۔
۴ غلامی نامہ (فارسی میں ’بندگی نامہ‘)، جس میں غلامانہ ذہنیت سے پیدا ہونے والی مصوری، موسیقی اور مذہبی رویوں کی آسانی سے پہچانی جانے والی نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہم خبردار ہو جائیں۔ اِس کے ساتھ ہی آزاد لوگوں کے فنِ تعمیر کی پہچان کروائی گئی ہے۔ یہاں علامہ اقبال خاص طور پر تاکید کرتے ہیں کہ ہم اپنے دورِ عروج کے بادشاہوں کی بنائی ہوئی عمارتوں سے اثر قبول کریں۔ وہ قطب الدین ایبک اور شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی عمارتوں کا حوالہ دینے کے بعد تاج محل کی تعریف بڑی تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔
اِس تعارف سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زبورِ عجم کے اصل مخاطب وہ نوجوان تھے جنہیں آزادی کے بعد سرگرمِ عمل ہونا تھا۔ جو سیاسی غلامی سے نکلنے کے بعد صرف ظاہری آزادی پر قناعت نہ کرنا چاہتے ہوں۔ اپنی قوم کو طاقت، شوکت اور عظمت دے کر دُنیا کی تمام اقوام میں ممتاز مقام دلوانے کا عزم رکھتے ہوں۔ اس راہ میں حائل پہاڑ جیسی مشکلات کو یوں ختم کرنے پر تیار ہوں جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن جالوت کو خالی ہاتھوں شکست دے دی تھی۔ ایسے قارئین کے لیے یہ کتاب ایک رہنما کا کام دے سکتی ہے۔
علامہ اقبال کی فارسی تصانیف میں سے یہی ہے جسے اُردو ترجمے کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ وہ اپنی زندگی ہی میں کر چکے تھے۔ بدقسمتی سے یہ کام اُس وقت نہ ہو سکا۔ مدتوں بعد کچھ تراجم سامنے ضرور آئے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِس غرض سے نہیں کیے گئے ہیں کہ انہیں فارسی متن سے علیحدہ بھی ایک کتاب کی طرح روانی سے پڑھا جا سکے۔ زیرِ نظر ترجمے میں اِس بات کی خاص کوشش کی گئی ہے کہ عبارت آج کل کے عام قارئین کے لیے بھی آسان ہو تاکہ وہ مقصد پورا ہو سکے جس کے لیے یہ کتاب لکھی گئی تھی:
اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبورِ عجم
فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں
خرم علی شفیق
مزملہ شفیق